Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 102

سورة بنی اسراءیل

قَالَ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَاۤ اَنۡزَلَ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ بَصَآئِرَ ۚ وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّکَ یٰفِرۡعَوۡنُ مَثۡبُوۡرًا ﴿۱۰۲﴾

[Moses] said, "You have already known that none has sent down these [signs] except the Lord of the heavens and the earth as evidence, and indeed I think, O Pharaoh, that you are destroyed."

موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان و زمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے دکھانے ، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں ، اے فرعون! میں تو سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً برباد اور ہلاک کیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـوُلاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ بَصَأيِرَ ... He said: "Verily, you know that these signs have been sent down by none but the Lord of the heavens and the earth. meaning, as proof and evidence of the truth of what I have brought to you. ... وَإِنِّي لاَإَظُنُّكَ يَا فِرْعَونُ مَثْبُورًا And I think you are indeed, O Fir`awn, doomed to destruction! i.e., bound to be destroyed. This was the view of Mujahid and Qatadah. Ibn Abbas said: "It means cursed." Ibn Abbas and Ad-Dahhak said: مَثْبُورًا (doomed to destruction), means defeated. As Mujahid said, "doomed" includes all of these meanings. The Destruction of Fir`awn and His People Allah tells: فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الاَرْضِ ... So he resolved to turn them out of the land. means, he wanted to expel them and drive them out. ... فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢١] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے دھڑلے سے جواب دیا۔ بات یوں نہیں جو تم مجھے کہہ رہے ہو بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں جو اتنے واضح معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لارہے۔ تمہارے جادوگر تو حقیقت کو سمجھ کر ایمان لاچکے ہیں پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جادو کی شعبدہ بازیوں سے نہ کسی ملک میں کبھی قحط پڑا ہے، نہ پڑ سکتا ہے، پوری قوم پر طرح طرح کے عذاب لانا جادوگروں کی بساط سے باہر ہے۔ ایسے کام صرف وہ ہستی کرسکتی ہے جو قادر مطلق اور مختار کل ہو اور اگر تم یہ سب کچھ دیکھ کر اس ہستی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں اپنے انجام کی فکر کرنا چاہیئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔ : یعنی مجھ پر تو کسی نے جادو نہیں کیا، مگر تو جو ان معجزات کو دیکھ لینے اور ان کے اللہ کی طرف سے ہونے کے یقین کے باوجود اپنی ضد پر قائم ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں۔ ” ثُبُوْرٌ“ کا معنی ہلاکت ہے۔ دیکھیے فرقان (١٤) اس مفہوم کی آیت سورة نمل کی آیت (١٣) ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا ١٠٢؁ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے ثبر الثُّبُور : الهلاک والفساد، المُثَابِر علی الإتيان، أي : المواظب، من قولهم : ثَابَرْتُ. قال تعالی: دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان/ 13- 14] ، وقوله تعالی: وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء/ 102] ، قال ابن عباس رضي اللہ عنه : يعني ناقص العقل «1» . ونقصان العقل أعظم هلك . وثبیر جبل بمكة . ( ث ب ر ) البوثر ( مصدر ن ) کے معنی ہلاک ہونے یا ( زخم کے ) خراب ہونے کے ہیں اور المنابر کسی کام کو مسلسل کرنے والا ) سے ( اسم فاعل کا صیغہ ) ہے ۔ جس کے معنی کسی کام کو مسلسل کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ : ۔ دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان/ 13- 14] تو وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء/ 102] اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ میں ابن عباس نے مثبورا کے معنی ناقص العقل کئے ہیں کیونکہ نقصان عقل سب سے بڑی ہلاکت ہے ۔ ثبیر ۔ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اے فرعون تو اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ موسیٰ پر یہ عجائبات خاص رب العالمین نے نازل کیے ہیں جو کہ میری نبوت کی دلیل اور اس کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔ اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ کفر کی حالت میں تو برے طریقہ سے تباہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا) ایک تو حضرت موسیٰ کا مزاج جلالی تھا دوسرے آپ بچپن سے اس فرعون کے ساتھ پلے بڑھے تھے ‘ اس طرح اس کی حیثیت آپ کے چھوٹے بھائی کی سی تھی۔ چناچہ آپ نے بڑے با رعب انداز میں بلا جھجک جواب دیا کہ تمہیں تو مجھ پر جادو کے اثر کا گمان ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ تو رب کائنات کی بصیرت افروز واضح نشانیوں کو جھٹلا کر اپنی ہلاکت اور بربادی کو یقینی بنا چکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

116. That is, I am not a bewitched man but you are indeed a doomed person. As you have been persistent in your disbelief even after seeing such obvious divine signs, you are surety doomed to destruction. 117. This part of the story of Pharaoh has been related here because it applied exactly to the mushriks of Makkah who were doing their best to uproot the Prophet (peace be upon him) and the believers from the land of Arabia. This story, so to say, tells them: Pharaoh resolved to uproot Moses (peace be upon him) and the Israelites but was himself completely annihilated along with his followers. But Moses (peace be upon him) and his followers settled down in the land. Likewise, if you persist on the same way, you will surely meet with the same end.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :115 یہ بات حضرت موسی علیہ السلام نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پر قحط آجانا ، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا ، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا ، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو ، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے ۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی ، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل ہو جاتی تھی ، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول رب السموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :116 یعنی میں تو سحرزدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے ۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آگئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٢۔ ١٠٤:۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں یہ ذکر فرمایا تھا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں دے کر فرعون کے پاس رسول بنا کر بھیجا تھا، فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو جادوگر تصور کیا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون کیا تو نہیں جانتا کہ یہ نشانیاں اس نے اتاری ہیں جو آسمان اور زمین سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے اور یہ نشانیاں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہوں اور ان نشانیوں سے اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت کا پورا پورا پتہ چلتا ہے تو جو اس کا انکار کرتا ہے اور اسے نہیں مانتا مجھے جادوگر خیال کرتا ہے ان باتوں سے ضرور ہلاک ہوجائے گا۔ فرعون نے اس بات کو سن کر یہ ارادہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو جلا وطن کر کے ملک مصر سے کہیں دور نکال دیوے مگر اللہ عالم الغیب ہے اس نے فرعون کو مع اس کے لشکر کے قلزم میں غرق کرکے ہلاک کردیا پھر یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ حکم دے دیا کہ فرعون تمہیں ملک مصر سے نکالنا چاہتا تھا تو اب تو وہ ہلاک ہوگیا تم اس کی جگہ سلطنت کرو اور مشرق سے مغرب تک جہاں چاہو بسر کرو کوئی تمہارا روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے ہاں جس وقت قرب قیامت ہوگا اور وعدہ کا دن آجائے گا اس وقت تمہیں اور تمہارے دشمنوں سب کو جزا اور سزا کے لیے دوبارہ زندہ کیا جاکر ایک جگہ اکٹھا کیا جائے گا۔ یہ قصہ بیان فرما کر آیت میں اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی بشارت دی ہے کہ جس طرح فرعون چاہتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال دے مگر اس کا کچھ بس نہ چلا خدا کے سامنے مجبور ہوگیا اور اس کے ہلاک ہونے کے بعد بنی اسرائیل اس کے ملک اور مال پر قابض ہوگئے اصحاب کا قبضہ ہوگا اور یہ مکہ کے مشرک لوگ مغلوب ہوجائیں گے فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہوجانے کا قصہ قرن یوسف (علیہ السلام) کی مصر کی سکونت کے سبب سے بنی اسرائیل ملک شام سے مصر میں آئے اور یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد بنی اسرائیل مصر میں ذلیل حالت سے رہتے تھے اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ مصر سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے جا کر ان کے قدیمی وطن ملک شام میں انہیں آباد کر دو اسی واسطے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے کہتے تھے کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کر دے اگرچہ فرعون بنی اسرائیل کو مصر سے نکال دینا چاہتا تھا لیکن ضد کے مارے جب فرعون نے بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کردینے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ ایک رات بنی اسرائیل کو ساتھ لیکر مصر سے چلے جائیں موسیٰ (علیہ السلام) تو بنی اسرائیل کو لیکر اس راستے سے دریا پار ہوگئے مگر فوعون نے جب اس راستے سے دریا پار ہونے کا قصد کیا تو وہ اپنے لیے شکر کے ساتھ ڈوب کر ہلاک ہوگیا اس قصہ کو مختصر طور پر فاغرقناہ ومن معہ جمیعا کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ کعبہ کے گرد جو بت رکھے تھے فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے مار مار کر زمین پر گرا دیا ١ ؎۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے قصہ میں اللہ تعالیٰ نے جو بشارت اپنے رسول کو دی تھی اس کا ظہور ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق مشرکین مکہ کو ایسا مغلوب کردیا کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو ذلت سے نہ بچاسکے۔ ١ ؎ تفسیر الدر المنشور ص ٢٠٥ ج ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:102) ھؤلائ۔ یہ نو آیات بینات۔ یا ان میں سے بعض کی طرف اشارہ ہے۔ بصائر۔ بصیرۃ کی جمع۔ کھلی دلیلیں۔ واضح نصیحتیں ۔ بصیرت افروز نشانیاں۔ یہ ھؤلاء سے حال ہے۔ مثبورا۔ اسم مفعول واحد مذکر ثبورمصدر۔ ملعون۔ خیر سے روکا گیا۔ ہلاک شدہ۔ الثبور (باب نصر) کے معنی ہلاک ہونے یا زخم کے خراب ہونے کے ہیں۔ وانی لاظنک یفرعون مثبورا اے فرعون میں تجھے ہلاکت زدہ سمجھتا ہوں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے۔ دعوا ھنالک ثبورا۔ لا تدعوا الیوم ثبورا واحدا وادعوا ثبورا کثیرا۔ (52:13:14) وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو۔ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 کو لوگ انہیں دیکھ کر اپنے رب کی قدرت اور وحدانیت کے قائل ہوجائیں۔ (وحیدی)12 یعنی مجھ پر تو کسی نے جادو نہیں کیا مگر تو جو ان معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود اپنی اڑ پر قائم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کا الزام سننے کے بعد نہایت حوصلہ اور سمجھ داری کے ساتھ فرمایا۔ اے فرعون ! تو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو معجزے میں تیرے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ میرے اور کسی انسان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ تو اس رب کی طرف سے ہیں جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو۔ یہ راستہ تیری اور تیری قوم کی تباہی کا راستہ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے معجزات پیش کرتے ہوئے ” بَصَاءِرُ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا واحد بَصِیْرَۃٌہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ آنکھوں کی بینائی کو بصارت اور دل و دماغ کے ساتھ کسی بات کو جاننے کو بصیرت کہا جاتا ہے۔ بصیرت میں وہ قوت ہے۔ جس سے انسان اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ بصیرت پر جب اقتدار، مال واسباب اور دنیا کے کسی مفاد کا پردہ پڑجائے تو کھلی آنکھوں اور اپنے کانوں سے سننے کے باوجود آدمی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ نشانیوں کو یکے بعد دیگرے دیکھنے اور جاننے کے باوجود انکار کردیا تھا۔ بالآخر اپنی قوم کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کوشش تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو مصر سے باہر نکال پھینکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ڈبکیاں دے دے کر مارا اور فرعون کی لاش کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھیوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو مصر سے نکال دیا جائے، یہی کوشش اہل مکہ کی تھی کہ اس نبی اور اس کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن ناکام ہوئے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن اپنے عزائم میں نامراد ہوئے۔ (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَإِنَّ کَثِیْرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ اٰیَاتِنَا لَغَافِلُوْنَ )[ یونس : ٩٢] ” آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لیے عبرت بنے۔ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بیخبر ہیں۔ “ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن بھی ہلاک ہوئے : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ بَدْرٍ مَنْ یَنْظُرُ مَا فَعَلَ أَبُو جَہْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّی بَرَدَ ، فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ فَقَالَ أَنْتَ أَبَا جَہْلٍ قَالَ وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلَہُ قَوْمُہُ أَوْ قَالَ قَتَلْتُمُوہُ )[ رواہ البخاری : باب قتل ابی جہل ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے موقع پر فرمایا ابو جہل کی کون خبرلائے گا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ؟ عبدا للہ بن مسعود (رض) تو انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے بیٹوں نے اسے قتل کردیا ہے۔ انہوں نے اس کی داڑھی سے پکڑ کر پوچھا تو ابوجہل ہے۔ اس نے جواب دیا تم نے بڑے آدمی کو قتل کیا ہے یا کہا تم نے اسے قتل کیا ہے جو قوم کا سردار ہے ؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے۔ ٢۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کے قدم اکھاڑنے چاہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی : ١۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٢۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٣۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور دوسروں کو ہم نے غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦۔ ٦٧) ٤۔ ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٥۔ ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (البقرۃ : ٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال لقد ……(٧١ : ٢٠١) ” انہوں نے کہا ، تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں زمین اور آسمانوں کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں ، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون تو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے “۔ تو ہلاک ہونے والا اور تہس نہس ہونے والا ہے۔ کیونکہ تو آیات اہلیہ کی تکذیب کر رہا ہے۔ تو جانتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور ان خارق عادت معجزات کا صدور و ظہور نہیں کرسکتا۔ یہ نہایت ہی واضح اور بصیرت افروز نشانیاں ہیں۔ گویا یہ نشانیاں خود انکھیں ہیں جن کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب یہ سرکش آدمی اپنی مادی قوت کا سارا لیتا ہے۔ اور یہ عزم کرتا ہے کہ وہ موسیٰ کو زمین سے نکال کر ان کی قوم کو تباہ برباد کردے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

88:۔ فرعون کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ جادو نہیں بلکہ یہ معجزات ہیں جو آسمان و زمین کے مالک نے اپنی قدرت وو وحدانیت اور میری صداقت پر بطور دلائل ظاہر فرمائے ہیں۔ اے فرعون ! سن لے مجھے یقین ہے کہ تو تباہ و برباد ہوگا اس لیے کہ تو نے معجزوں کو جادو کہا اللہ کی توحید کا انکار کیا اور میری تکذیب کی۔ ” فاراد ان یستفزھم الخ “ اس کے بعد فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکالنے کی ٹھان لی تو ہم نے اس کو مع لاؤ لشکر غرق کردیا اور بنی اسرائیل سے کہا تم ملک شام میں رہو اور میری ہدایات پر عمل کرو۔ قیامت کو میں تم سب کو حساب کیلئے اکٹھا کروں گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو قسم کھا کر جواب دیا اے فرعون بلاشبہ تو خوب جانتا ہے کہ ان معجزات اور نشانات جو بطور بصیرت افروز دلائل کے ہیں صرف آسمان اور زمین کے مالک اور پروردگار ہی نے نازل فرمایا ہے اور اے فرعون میں تیرے متعلق خیال کرتا ہوں کہ تو ہلاک و برباد ہوا چاہتا ہے، یعنی بلاشبہ تجھ کو یقین ہے اور تو دل میں قائل ہے کہ یہ نشانات اور عجائبات جو ہدایت اور روشنی حاصل کرنے کے لئے کافی ذریعہ ہیں۔ بجز آسمان و زمین کے مالک اور پروردگار کے کسی اور کی جانب سے نازل شدہ نہیں ہیں مگر تو اپنی ہٹ دھرمی اور سخن پروری کے باعث اقرار نہیں کرتا اور چونکہ ایسے ہٹ دھرم جو حق کو حق سمجھتے ہوئے قبول نہ کریں زیادہ دن سرسبز نہیں رہتے اس لئے میرا گمان ہے کہ تیری ہلاکت اور تیری شامت تیرے سر پر منڈلا رہی ہے۔