116. That is, I am not a bewitched man but you are indeed a doomed person. As you have been persistent in your disbelief even after seeing such obvious divine signs, you are surety doomed to destruction.
117. This part of the story of Pharaoh has been related here because it applied exactly to the mushriks of Makkah who were doing their best to uproot the Prophet (peace be upon him) and the believers from the land of Arabia. This story, so to say, tells them: Pharaoh resolved to uproot Moses (peace be upon him) and the Israelites but was himself completely annihilated along with his followers. But Moses (peace be upon him) and his followers settled down in the land. Likewise, if you persist on the same way, you will surely meet with the same end.
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :115
یہ بات حضرت موسی علیہ السلام نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پر قحط آجانا ، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا ، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا ، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو ، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے ۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی ، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل ہو جاتی تھی ، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول رب السموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے ۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :116
یعنی میں تو سحرزدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے ۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آگئی ہے ۔