Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 103

سورة بنی اسراءیل

فَاَرَادَ اَنۡ یَّسۡتَفِزَّہُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ فَاَغۡرَقۡنٰہُ وَ مَنۡ مَّعَہٗ جَمِیۡعًا ﴿۱۰۳﴾ۙ

So he intended to drive them from the land, but We drowned him and those with him all together.

آخر فرعون نے پختہ ارادہ کر لیا کہ انہیں زمین سے ہی اکھیڑ دے تو ہم نے خود اسے اور اس کے تمام ساتھیوں کو غرق کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَايِيلَ اسْكُنُواْ الاَرْضَ ... But We drowned him and all who were with him. And We said to the Children of Israel after him: "Dwell in the land..." This is good news for Muhammad, a foretelling of the conquest of Makkah, even though this Surah was revealed in Makkah before the Hijrah. Similarly, the people of Makkah wanted to expel the Prophet from the city, as Allah says in two Ayat: وَإِن كَادُواْ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الاٌّرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا And verily, they were about to frighten you so much as to drive you out from the land... (17:76-77) Hence Allah caused His Messenger to inherit Makkah, so he entered it by force, according to the better-known of the two opinions, and he defeated its people then out of kindness and generosity, he let them go, just as Allah caused the Children of Israel, who had been oppressed, to inherit the land, east and west, and to inherit the land of Fir`awn's people, with its farmland, crops and treasures. As Allah said, كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَـهَا بَنِى إِسْرَءِيلَ thus We caused the Children of Israel to inherit them. (26:59)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٢] فرعون کی بنی اسرائیل کے استیصال کی کوشش اور تعاقب میں غرقابی :۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر صرف اس جرم کی پاداش میں کہ وہ سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے لگے تھے، طرح طرح کی سختیاں شروع کردی تھیں نیز اس سزا کو نئے سرے سے نافذ کردیا جو پہلے اس کے باپ نے نافذ کی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ باپ فرعون رعمیس کا اس سزا سے یہ مقصد تھا کہ موسیٰ اگر پیدا ہوں تو اسی وقت انھیں ختم کردیا جائے تاکہ اس کی حکومت پر آنچ نہ آنے پائے اور بیٹے فرعون منفتاح نے یہ سزا اس لیے جاری کی کہ بنی اسرائیل کی اس طرح نسل کشی کرکے اس ملک سے ان کا خاتمہ ہی کردیا جائے اور ان کی عورتوں کو اپنی لونڈیاں بنا لیا جائے۔ مگر ہم نے فرعون اور فرعونیوں کے لیے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ بنی اسرائیل کا تعاقب کریں۔ اور ان کا یہی تعاقب دراصل ان کی موت کا بلاوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اور حیرت انگیز طریقے سے ان سب کو دریا میں غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو ان سے نجات دی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۔۔ : ” الْاَرْضِ “ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی زمین مصر۔ یعنی فرعون کا ارادہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو بےدریغ قتل کرکے اتنا خوف زدہ کردے کہ وہ ایک ایک کرکے ملک سے نکل جائیں۔ وہ انھیں اطمینان سے اکھٹے ہجرت کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا، مگر اس کے منصوبے دھرے رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے سارے بنی اسرائیل کو اکٹھے خیریت سے نکال لیا اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ ان کے غرق ہونے کا واقعہ سورة یونس (٨٨ تا ٩٢) میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، اس آیت میں فتح مکہ کی طرف بھی اشارہ ہے، اگرچہ سورت مکی ہے۔ یہاں فرعون کا ارادہ ہے : (فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) اور وہاں مکہ والوں کا : (وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا ) [ بني إسرائیل : ٧٦ ] ” اور بیشک وہ قریب تھے کہ تجھے ضرور ہی اس سرزمین سے پھسلا دیں، تاکہ تجھے اس سے نکال دیں۔ “ فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا اور بنی اسرائیل وارث بنے، ادھر مشرکین مکہ مغلوب ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وارث بنے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ جَمِيْعًا ١٠٣؀ۙ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ فز قال تعالی: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء/ 64] ، أي : أزعج، وقال تعالی: فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء/ 103] ، أي : يزعجهم، وفَزَّنِي فلان، أي : أزعجني، والْفَزُّ : ولد البقرة، وسمّي بذلک لما تصوّر فيه من الخفّة، كما يسمّى عجلا لما تصوّر فيه من العجلة . ( ف ز ز ) الا ستفزاز ہلکا سمجھنا گھبرادینا اور جگہ سے ہٹا دینا قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء/ 64] اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ ۔ فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء/ 103] تو اس نے چاہا کہ انہیں گڑ بڑ اکر سر امین ( مصر میں سے نکال دے ۔ اور فزنی فلان کے معنی ہیں اس نے مجھے پریشان کر کے میری جگہ سے ہٹا دیا اور گائے کے بچہ کو فز کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خفت یعنی سکی پائی جاتی ہے جس طرح کہ اس میں عجلت جلدی بازی کا تصور کر کے اسے عجل کہا جاتا ہے ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣) یہ دیکھ کر فرعون نے چاہا کہ سرزمین اردن یا فلسطین سے بنی اسرائیل کے قدم اکھاڑ دے نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اس سے پہلے ہی اس کو اور اس کے ساتھیوں کو دریا میں غرق کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) فرعون باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنی اسرائیل کی نسل کشی کررہا تھا۔ وہ ان کے لڑکوں کو قتل کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ اور کسی بھی قوم کے مکمل استیصال کا اس سے زیادہ مؤثر طریقہ بھلا اور کیا ہوسکتا ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:103) یستفزہم۔ مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل ان۔ استفزاز (استفعال) مصدر کہ ان کے قدم اکھاڑدے۔ ہم ضمیر بنی اسرائیل کی طرف راجع ہے استفزاز کسی کو ہلکا اور حقیر سمجھنا۔ ڈرانا۔ کسی کو اس کی جگہ سے اکھاڑ دینا۔ گھر سے باہر نکال دینا۔ یہاں مؤخر الذکر معنی مراد ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو آیت نمبر 76 مذکورہ بالا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ان کی غرقابی کا واقعہ سورة یونس میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ (سورۃ : رکوع 9)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی ان کو شہر بدر کردے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاراد ان یستفزھم من الارض (٧١ : ٣٠١) ” آخر کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے “۔ تمام ڈکٹیٹر اور سرکش لوگ کلمہ حق کے بارے میں یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ ان کے پاس کلمہ حق کا یہی جواب ہوتا ہے۔ اس مقام پر آکر ایسے سرکشوں پر اللہ کا کلمہ اور اللہ کی سنت کا اطلاق برحق ہوجاتا ہے اور پھر اللہ کی اٹل سنت کے مطابق ، ظالموں کو ہلاک کردیا جاتا ہے اور زمین کے اندر جو کمزور اہل ایمان اور صبر کرنے والے طبقات ہوتے ہیں ، ان کو زمین کو وارث بنا دیا جاتا ہے۔ فاغرقنہ………(٤٠١) (٧١ : ٣٠١۔ ٤٠١) ” مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کردیا اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو ، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پورا ہوگا ، تو ہم تو سب کو ایک ساتھ لاحاضر کریں گے “۔ یہ تھا انجام آیات الٰہی کے جھٹلانے کا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کے اقتدار کا وارث ان لوگوں کو بنایا ، جو زمین میں پسے ہوئے تھے۔ اور اب ان کو کہا گیا کہ تمہارے مستقبل کا دار و مدار تمہارے اعمال و افعال پر ہوگا۔ اس سورت کے آغاز میں بتا دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا تھا ؟ یہاں صرف یہ کہا جاتا ہے کہ تم اور تمہارے دشمن اب قیامت کے سپرد ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو تم سب کو لپیٹ کر اللہ لے آئے گا۔ یہ تھی مثال اس پیغمبر کی جو نو خوارق عادت معجزات لے کر آئے اور ان کا استقبال جھٹلانے والوں نے اس طرح کیا۔ اور اللہ کی اٹل سنت نے پھر اپنا کام یوں کیا۔ رہا یہ قرآن تو یہ تو ایک ابدی سچائی لے کر آیا ہے۔ اور اسے تھوڑا تھوڑا کرکے وقفے وقفے کے بعد نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کو پڑھ کر مہلت بعد مہلت کے ساتھ سنائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 ۔ پھر فرعون نے ارادہ کیا کہ سر زمین مصر سے بنی اسرائیل کو اکھیڑ دے اور ان کو گھبرا دے یعنی قتل کر دے یا نکال دے اس پر ہم نے فرعون کو اور اس کے ساتھیوں کو سب غرق کردیا اور سمندر میں ڈبو دیا یعنی فرعون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب بن نہ آیا تو اس نے یہ تدبیر سوچی کہ بنی اسرائیل کو ختم کیا جائے تاکہ یہ فرعون غیر ملکیوں کا قصہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو یہ تدبیر سوچ کر مسلمانوں پر از سر نو زیادتی شروع کردی۔