Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 107

سورة بنی اسراءیل

قُلۡ اٰمِنُوۡا بِہٖۤ اَوۡ لَا تُؤۡمِنُوۡا ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِہٖۤ اِذَا یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ یَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ سُجَّدًا ﴿۱۰۷﴾ۙ

Say, "Believe in it or do not believe. Indeed, those who were given knowledge before it - when it is recited to them, they fall upon their faces in prostration,

کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those Who were given Knowledge before truly admit the Qur'an Allah says to His Prophet Muhammad: قُلْ ... Say, O Muhammad to these disbelievers concerning what you have brought to them of this Glorious Qur'an: ... امِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُوْمِنُواْ ... "Believe in it (the Qur'an) or do not believe (in it). meaning, it is all the same whether you believe in it or not, for it is true in and of itself. It was revealed by Allah, Who mentioned it previously in the Books that He revealed to other Messengers. Hence He says: ... إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ ... Verily, those who were given knowledge before it, meaning righteous people among the People of the Book, who adhered to their Books and appreciated them without distorting them. ... إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ ... when it is recited to them, means, when this Qur'an is recited to them, ... يَخِرُّونَ لِلَذْقَانِ سُجَّدًا fall down on their chins (faces) in humble prostration. means, to Allah, in gratitude for the blessing He has bestowed on them by considering them fit to live until they met this Messenger to whom this Book was revealed. Hence:

سماعت قرآن عظیم کے بعد فرمان ہے کہ تمہارے ایمان پر صداقت قرآن موقوف نہیں تم مانو یا نہ مانو قرآن فی نفسہ کلام اللہ اور بیشک بر حق ہے ۔ اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آ رہا ہے ۔ جو اہل کتاب ، صالح اور عامل کتاب اللہ ہیں ، جنہوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی بےچین ہو کر شکریہ کا سجدہ کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہماری موجودگی میں اس رسول کو بھیجا اور اس کلام کو نازل فرمایا ۔ اپنے رب کی قدرت کاملہ پر اس کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں ۔ جانتے تھے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، غلظ نہیں ہوتا ۔ آج وہ وعدہ پورا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے وعدے کی سچائی کا اقرار کرتے ہیں ۔ خشوع و خضوع ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ روتے گڑ گڑاتے اللہ کے سامنے اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں ایمان و تصدیق اور کلام الہٰی اور رسول اللہ کی وجہ سے وہ ایمان و اسلام میں ، ہدایت و تقویٰ میں ، ڈر اور خوف میں اور بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ عطف صفت کا صفت پر ہے سجدے کا سجدے پر نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انھیں آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] منصف مزاج اہل کتاب کا قرآن اور نبی کی تصدیق کرنا :۔ اے قریش مکہ ! تم قرآن کو منزل من اللہ تسلیم کرو یا نہ کرو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سابقہ امتوں میں سے بھی جو لوگ اہل علم اور منصف مزاج ہیں وہ قرآن کے انداز بیان سے ہی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ واقعی کلام الٰہی ہے کیونکہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے طرز بیان سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ لہذا اس کی آیات سنتے ہیں تو ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہوجاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کے متعلق تورات و انجیل میں بشارتیں مذکور ہیں اور یہ نبی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اب پورا ہو کے رہا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا : یعنی تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس کی عظمت نہ بڑھتی ہے اور نہ گھٹتی ہے۔ یہ تہدید و انکار کے طور پر ان لوگوں سے خطاب ہے جو قرآن کے واضح دلائل کی موجودگی میں معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ : یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، تم سے اچھے اور نیک اہل علم جو پچھلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور وحی و نبوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، جیسے ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی اور نجاشی، وہ آپ کو رسول مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہے جس کی بشارت تورات و انجیل میں دی گئی ہے۔ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ ۔۔ : ” أَذْقَانٌ“ ” ذَقَنٌ“ کی جمع ہے، ٹھوڑیاں۔ ” اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا “ اصل میں ” إِنَّہُ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا “ تھا، یعنی حنفاء اور اہل کتاب علماء کے سامنے جب قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں کہ اس اللہ کا احسان ہے کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پا لیا اور قرآن پر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں کہ ہمارا رب وعدہ خلافی اور ہر عیب سے پاک ہے، یقیناً ہمارے رب کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے، اس لیے اس نے اپنے وعدے کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرما دیا۔ 3 امام شافعی (رض) نے اس آیت سے استدلال کیا کہ ” سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا “ کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا مستحب ہے۔ (اکلیل) يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ۔۔ : قرآن کریم میں مذکور نصیحت سن کر شدت تاثر سے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور قرآن سننا ان کے خشوع اور عجز و انکسار میں اور اضافہ کردیتا ہے، ایسے اہل کتاب کی یہ کیفیت قرآن میں کئی جگہ بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے مائدہ (٨٣، ٨٤) اور قصص ( ٥٢ تا ٥٤) ۔ ٹھوڑیوں کے بل گرنے کے تکرار سے مقصود دو مختلف حالتوں کو ظاہر کرنا ہے، یعنی سجدہ ریز ہو کر اللہ کی تسبیح کرنا اور سجدے میں گر کر رونا۔ یا یہ سجدے کے تکرار کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ بار بار سجدہ کرتے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” نماز میں سجدہ دو بار ہوتا ہے، اس واسطے دو بار فرمایا کہ پہلی بار قرآن کی اعجازی تاثیر کے نتیجے میں اور دوسری بار خشوع و خضوع کے لیے۔ “ (موضح) واضح رہے کہ احادیث میں اللہ کے ذکر کے وقت (جس میں قرآن بھی شامل ہے) رونے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ چناچہ حدیث میں عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش بختوں میں ایک وہ بندہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ) [ مسلم : ١٠٣١۔ بخاری، الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ : ٦٤٧٩ ]” جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ١٠٧؀ۙ تلو ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ، أراد به هاهنا الاتباع علی سبیل الاقتداء والمرتبة،. والتلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا خر فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ/ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ. وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] ( خ ر ر ) خر ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔ ذقن قوله تعالی: وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء/ 109] ، الواحد : ذَقَنٌ ، وقد ذَقَنْتُهُ : ضربت ذقنه، وناقة ذَقُونٌ: تستعین بذقنها في سيرها، ودلو ذَقُونٌ: ضخمة مائلة تشبيها بذلک . ذ ق ن ) ذقن ۔ ( تھوڑی ) اس کی جمع اذقان ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء/ 109] اور ٹھوڑیوں کے بل گرنے پڑتے ہیں ( اور ) روتے جاتے ہیں ۔ ذقنتہ ۔ میں نے اس کی ٹھوڑی پر مارا ۔ ناقۃ ذقون وہ اونٹنی جو ٹھوڑی کے سہارے پر چلتی ہو ۔ پھر تشبیہ کے طور بڑے ڈول کو جو ایک جانب سے مائل ہوا سے دلو ذقوق کہ دیتے ہیں سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

چہرے کے بل سجدہ کرنا قول باری ہے (ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلیٰ علیھم یخرون للاذقان سجداً جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ چہروں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ ” چہروں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “ معمر نے کہا حسن کا قول ہے ۔ جبڑے کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “ ابن سیرین سے ناک کے بل سجدے کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب میں درج بالا آیت تلاوت کردی۔ سجدہ سات اعضاء پر کرنا چاہیے، نماز میں بالوں کو اکٹھا کیا جائے نہ کپڑوں کو طائوس نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (امرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم ولا اکف شعراً ولا ثوباً مجھے سات ہڈیوں کے بل سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے نیز یہ کہ میں نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑے کو) طائوس نے مزید کہا کہ آپ نے پیشانی اور ناک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دونوں ایک ہڈی ہیں۔ عامر بن سعد نے حضرت عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے ساتھ اعضاء بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں اس کا چہرہ ، اس کے دونوں کف دست ، اس کے دونوں گھٹنے اور اس کے دونوں قدم، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنی پیشانی اور ناک اچھی طرح زمین پر جما دو ۔ “ سجدہ میں ناک زمین پر لگنی چاہیے حضرت وائل بن حجر نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :” میں نے دیکھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب سجدہ کیا تو اپنی پیشانی اور اپنی ناک زمین پر رکھ دی۔ “ ابو سلمہ بن عبدالرحمٓن نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناک اور ناک کے بانسے پر سجدے کے نشان کے طور پر مٹی لگی ہوئی دیکھی تھی۔ اس رات بارش ہوئی تھی۔ عاصم احوال نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو سجدے میں دیکھ کر فرمایا : اس وقت تک نماز قبول نہیں ہوگی جب تک زمین پر ناک اس طرح نہ لگے جس طرح پیشانی لگتی ہے۔ یہ تمام روایات اس پر دال ہیں کہ سجدہ کی جگہ پیشانی اور ناک دونوں ہیں۔ عبدالعزیز بن عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے کہا : میں نے وہب بن کیسان سے پوچھا۔” ابونعیم، کیا بات ہے کہ آپ سجدہ کرتے وقت پیشانی اور ناک کو پوری طرح زمین پر نہیں جماتے ہیں ؟ انہوں نے جواب میں کہا۔” اس لئے کہ میں نے حضرت جابر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیشانی کے بل سر کے بالوں کے منتہی کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ نے سجدہ کرتے وقت اپنی ناک زمین پر نہیں رکھی تھی۔ آپ سے جب اسکی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا : میری ناک میرے چہرے کا عمدہ اور خالص حصہ ہے اور میں اس حصے کو بدنما کرنا پسند نہیں کرتا۔ “ قاسم اور سالم سے مروی ہے کہ یہ دونوں اپنی پیشانیوں پر سجدہ کرتے تھے اور ان کی ناک زمین پر نہیں لگتی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جہاں تک حضرت جابر کی روایت کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی عذر کی بنا پر سر کے بالوں کے منتہی کے بل سجدہ کیا ہو اور اس عذر کی وجہ سے ناک کے بل سجدہ کرنا مشکل ہوگیا ہو جن حضرات نے وجوہ یعنی چہروں کی تاویل جبڑے سے کی ہے ان کی یہ تاویل اس پر دلالت کرتی ہے کہ پیشانی کی بجائے صرف ناک کے بل سجدے پر اکتفا کرنا جائز ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں کے بل سجدہ کیا جائے۔ اس جواز کی وجہ یہ ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ تاویل کرنے والے حضرات نے ذقن یعنی ٹھوڑی کے بل سجدہ کرنا مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ کسی بھی اہل علم کا یہ قول نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس سے ناک مراد ہے اس لئے کہ یہ ٹھوڑی کے قریب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی نے پیشانی کی بجائے صرف ناک کے بل سجدہ کرلیا تو اس کا سجدہ ہوجائے گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ سجدہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر اس نے ناک کی بجائے صرف پیشانی کے بل سجدہ کرلیا تو سب کے نزدیک اس کا سجدہ ہوجائے گا۔ العطاف بن خالد نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” جب تمہاری ناک زمین سے لگ جائیتو گویا تم نے سجدہ کرلیا۔ “ سفیان نے حنظلہ سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ پیشانی اور ناک ان سات اعضاء میں سے ہیں جن کے بل نماز میں سجدہ ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک عضو ہیں۔ ابراہیم بن میسرہ نے طائوس سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ناک پیشانی کا حصہ ہے۔ نیز کہا کہ پیشانی کا بہترین حصہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٧۔ ١٠٨۔ ١٠٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمادیجیے کہ تم اس قرآن کریم پر خواہ ایمان لاؤ یا نہ ایمان لاؤ یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہے مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ چناچہ جن حضرات کو قرآن کے نزول سے قبل رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کا بذریعہ توریت علم دیا گیا تھا یہ قرآن کریم جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اولاد اور شریک سے پاک ہے اور ہمارے پروردگار نے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہوگا اور ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرتے ہیں وہ سجدے میں روتے ہوئے گرتے ہیں اور اس قرآن کریم کا سننا ان کا خشوع اور تواضع اور بڑھا دیتا ہے یہ آیت کریمہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا) اس آیت میں یہود کے بعض علماء کی طرف اشارہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

120. This refers to those people of the Book who were well versed in the Scriptures and could judge them from their themes and wording.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :120 یعنی وہ اہل کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے انداز کلام کو پہچانتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٧۔ ١٠٨:۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ تم ان کافروں سے جو تم سے طرح طرح کی فرمائش اور معجزے مانگتے ہیں کہہ دو کہ تم قرآن شریف پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ پہلی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے اس لیے اس کو وہ لوگ مانتے ہیں جو توریت وانجیل سے واقف ہیں جیسے ورقہ بن نوفل اور عبداللہ بن سلام وغیرہ لوگ اللہ کے رسول صلعم کو سچا جانتے ہیں اور جب ان لوگوں کے روبرو قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں پاک پروردگار ہمارا بیشک اس کا وعدہ سچا ہے وہ سجدہ میں روتے ہیں اور عاجزی ان کی زیادہ ہوتی ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتا ہے کہ اگر یہ مشرکین مکہ قرآن کو سنتے ہیں تو روتے ہیں اور عاجزی کرتے ہیں۔ یہ بھی اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے روؤے گا حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ اس کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لیے سایہ میں جگہ دیوے گا ١ ؎۔ صحیح سند سے ترمذی نسائی مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جو اللہ کے ڈر سے رویا ‘ وہ دوزخ میں نہ جائے گا ٢ ؎۔ یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں پھر کر نہ جائے۔ معتبر سند سے ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ دو آنکھوں کو دوزخ کی آگ نہ چھو وے گی ایک وہ آنکھ جو خدا کے خوف سے آنسو بھر لائے دوسری وہ جس نے خدا کے راستے میں تمام رات پہرہ دیا ٣ ؎۔ سورة المائدہ میں تورات کے حصے اسثناء کے باب ٣٣ اور انجیل یوحنا کے باب ١٤ کے حوالے سے نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے اور نبی ہونے کی ان بشارتوں کا ذکر گزر چکا ہے جو توریت انجیل میں ہیں ان آیتوں میں ان ہی اہل کتاب کا ذکر ہے جو ان بشارتوں کے پورے پابند تھے اور قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے اپنی کتابوں میں نبی آخر الزمان کا اور قرآن کا حال پڑھ کر ان کا دل نرم ہوتا اور ان کو رونا آتا تھا مثلا جیسے نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے رونے کا ذکر سورة المائدہ میں گزرا یا مثلا جیسے ورقہ بن نوفل جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ شخص بت پرستی چھوڑ کر نصرانی ہوگیا تھا جب ابتدا وحی کے زمانہ میں حضرت خدیجہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات اس شخص سے کرائی تو اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حال سنتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور وحی کو مان لیا اور متواتر قرآن کے نازل ہونے اور قریش کی مخالفت اور ہجرت کا زمانہ آنے تک اپنی زندگی کی تمنا کی لیکن اس قصے کے تھوڑے دنوں بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا ٤ ؎ یا وہ جنہوں نے اپنی کتابوں میں تو قرآن کا حال پڑھا تھا مگر پھر قرآن کے نازل ہونے کا پورا زمانہ بھی پایا مثلا جیسے عبداللہ بن سلام کہ انہوں نے قرآن کو خود بھی کلام الٰہی جان کر اسلام قبول کیا اور اپنے قبیلہ کے یہود بنی قینقاع کو بھی قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے اقرار کی نصیحت کی۔ چناچہ صحیح بخاری ٥ ؎ کی انس بن مالک (رض) کی روایت میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ ایسے لوگوں کو دو شریعتوں پر عمل کرنے کے سبب سے قیامت کے دن دوہرا اجر ملے گا چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ٦ ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے آیا ہے ان کان وعد ربنا لمفعولا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اہل کتاب میں سے جن نیک لوگوں نے قرآن کے نازل ہونے کا زمانہ پایا وہ یہ کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ قرآن کی شان میں جو باتیں منہ سے نکالتے ہیں اللہ اور اس کا کلام ان سے دور ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن اس وعدہ کے موافق نازل فرمایا جس وعدہ کا ذکر توریت وانجیل میں ہے۔ پہلا سجدہ اس وعدہ کے پورا ہونے کے شکریہ کا ہے اور دوسرا سجدہ جنت اور دوزخ کے حال کی آیتیں سن کر جنت کی امید پر اور دوزخ کے خوف سے ہے اسی واسطے دوسرے سجدے میں عاجزی زیادہ اور دوزخ کے خوف سے رونا بھی ہے وہ لوگ اس طرح غش آنے والے شخص کی طرح یہ قرآن شریف میں تلاوت کا چوتھا سجدہ ہے اور اس سجدہ کی بابت سلف میں کچھ اس طرح کا اختلاف نہیں ہے جس طرح کا اختلاف سورة الحج کے دو سجدوں میں آئے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اللہ یارحمن کہہ کر دعا مانگا کرتے تھے یہ سن کر مشرکین مکہ کہنے لگے کہ ہم کو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے اللہ کی عبادت کرنے اور اسی سے دعا مانگنے کو کہتے ہیں اور خود دو معبودوں کا نام لے کر دعا مانگتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٧ ؎، اور فرمایا کہ شریعت الٰہی میں اللہ تعالیٰ کے جو نام آچکے ہیں دعا کے وقت لیے جاسکتے ہیں ہاں ان مشرکوں نے لفظ اللہ سے لات اور لفظ منات سے منات تراش کر بتوں کے نام جو رکھیں ہیں جن بتوں کو یہ اللہ کا شریک جانتے ہیں اس سے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان مشرکوں کو منع کرتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے ایک کم سو نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرلیگا وہ جنت میں جائے گا ٨ ؎۔ یہ وہی مشہور نام ہیں جو اکثر لوگوں کو یاد ہیں اللہ کے ناموں کی زیادہ تفسیر سورة الاعراف میں گزر چکی ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٩٥٩ ج ٢ باب البکاء من خشیۃ اللہ۔ ٢ ؎۔ ٣ ؎ جامع ترمذی ص ٥٥ ج ٢ باب ماجاء فی فضل البکاء من خشیۃ اللہ۔ ٤ ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ٥ ؎ دیکھئے ص ٥٦١ ج ١ باب بعد باب کیف اخی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بین اصحابہ۔ ٦ ؎ صحیح مسلم ص ٨٦ ج ١ باب وجوب الایمان برسالہ نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ۔ ٧ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٦٨ ج ٣۔ ٨ ؎ مشکوٰۃ ص ١٩٩ کتاب اسماء اللہ تعالیٰ ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:107) یخرون۔ مضارع جمع مذکر غائب خرور مصدر۔ وہ گرپڑتے ہیں۔ للاذقان۔ جمع اذقان۔ ذقن واحد۔ ٹھوڑیاں۔ للاذقان ٹھوڑیوں کے بل۔ سجدا۔ یخرون سے حال ہے۔ سجدہ کرتے ہوئے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی متہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس کی عظمت نہ بڑھتی ہے اور نہ حشی ہے یہ تہدید و انکار کے طور پر ان لوگوں سے خطاب ہے جو قرآن کے بنیات و دلائل کی موجودگی میں معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ (کبیر)7 یعنی وہ اہلم علم جو پچھلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے وقف ہیں اور وحی و نبوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں جس ورقہ بن نوفل عمر و بن نفیل اور عبداللہ بن سلام (وغریہ کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی منصف علماء اہل کتاب۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے اور اس کے احکام، حقائق اور اس کے بیان کردہ واقعات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر منکر اسے کتاب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو انھیں چھوڑدیں جہاں تک حقیقی اہل علم کا تعلق ہے وہ تو ہر وقت اس کے سامنے سر تسلیم خم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو قرآن مجید عطا فرماکر یہ بات واضح کردی کہ آپ کا کام لوگوں تک حق پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ جو حق مان جائیں انہیں خوشخبری پہنچائیں اور جو انکار کریں انہیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ اسی کے پیش نظر ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں میں کھلے الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ لوگو ! تمہارے پاس حق پہنچ چکا ہے جس کے حق ہونے میں کسی طرح بھی کوئی شبہ نہیں۔ لہٰذا اب تمہاری مرضی ہے کہ اس پر ایمان لاؤ یا اس کا انکار کرو۔ لیکن جن لوگوں کو قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا ہے۔ وہ تورات، انجیل اور زبور کے حوالے سے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آخری نبی مبعوث ہوگا اس پر قرآن مجید نازل کیا جائے گا۔ جس کے وجود اور نزول میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں ہوگی اہل کتاب میں سے اور جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ پیشانی کے بل سجدے میں گر کر اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ یقیناً ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوچکا اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر کر اپنے رب کے حضور زاروقطار روتے ہیں۔ ان کی حق گوئی اور عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے خشوع و خضوع اور ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ ان آیات میں اہل علم کی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ قرآن مجید کو حق اور سچ مانتے ہوئے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول برحق مانتے ہیں اور انھیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بےانتہا اجر وثواب دے گا اور ظالموں کو پوری پوری سزا دے گا۔ اسی بنا پر مومن شکروعاجزی کے جذبات میں اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں یہ حقیقی علم کا تقاضا ہے اور یہی ایک عالم کی شان ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا علم اور فکر وعمل نصیب فرمائے۔ (آمین) سجدہ تلاوت کی دعا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کر کان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید من جانب اللہ ہے کسی کے ایمان لانے اور نہ لانے سے اس کی سچائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٢۔ حقیقی علم رکھنے والوں کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا ہے۔ تو وہ سجدے میں گرپڑتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید کی تلاوت علم والوں کے خشوع و خضوع میں اضافہ کرتی ہے۔ ٤۔ اللہ کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا وعدہ برحق ہے : ١۔ اللہ کا وعدہ یقیناً پورا ہو کررہے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٨) ٢۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (المومن : ٧٧) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے کس کی بات سچی ہوسکتی ہے ؟ (النساء : ١٢٢) ٤۔ آگاہ رہو اللہ کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر علم نہیں رکھتے۔ (یونس : ٥٥) ٥۔ شیطان قیامت کے دن کہے گا اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا۔ (ابراہیم : ٢٢) ٦۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ نہایت ہی پر تاثیر منظر ہے۔ ان لوگوں کا منظر جنہیں اس سے قبل علم دیا گیا تھا۔ وہ قرآن سنت ہیں۔ ان پر خوف کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ یخرون للاذقان (٧١ : ٧٠١) ” اور وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں “ ۔ یہ سجدہ نہایت ہی بےساختہ ہوتا ہے۔ وہ سجدے میں نہیں گرتے بلکہ ان کی ٹھوڑیاں سجدہ کرتی ہیں۔ پھر ان کے احساسات کے اندر جو چیز ان کو چھبتی ہے وہ اس کا اظہار کرت ہیں۔ وہ اللہ کی عظمت اور اللہ کے وعدوں کے سچا ہونے کے احساس کا اظہار کرتے ہیں۔ سبحن ……(٧١ : ٨٠١) ” پاک ہے ہمارا رب اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا “۔ وہ اس قدر متاثر ہوتے ہیں۔ کہ ان کے تاثرات کو الفاط میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے دل جوش میں آتے ہیں اور ان کے تاثرات آنسوئوں کی شکل میں باہر آجاتے ہیں۔ ویخرون للاذقان یبکون (٨١ : ٩٠١) ” اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْ لَاتُؤْمِنُوْا) (الآیۃ) اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ مخاطبین سے فرما دیجیے کہ تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، ایمان کا فائدہ تمہیں پہنچے گا اور انکار کا نقصان بھی تمہیں پہنچے گا اور تمہارے ایمان نہ لانے سے میرا کوئی ضرر نہیں، اور یہ بھی سمجھ لو کہ قرآن کا بقاء اور اس کا دنیا جہان میں آگے بڑھنا اور پھیلنا کوئی تم پر موقوف نہیں، جن لوگوں کو نزول قرآن سے پہلے علم دے دیا گیا تھا انہوں نے اسلام قبول کرلیا جب قرآن مجید ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرسکتا اس نے جو وعدہ فرمایا ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ یہ لوگ جو ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرتے ہیں روتے ہوئے گرتے ہیں اور قرآن کا سننا ان کے خشوع کو اور زیادہ کردیتا ہے، صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ (اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ) سے مومنین اہل کتاب مراد ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے دین حق کی تلاش میں تھے اور آپ کی بعثت کے منتظر تھے جب آپ کی بعثت کا علم ہوگیا تو آپ پر ایمان لے آئے اور قرآن کو سنا اور پڑھا اس قرآن کو سنتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گرپڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان سے اور قرآن سے نوازا ہے وہ روتے ہوئے سجدہ کرتے ہیں اور یہ قرآن ان کے اندر اور زیادہ خشوع بڑھنے کا سبب بن جاتا ہے، بطور مثال علامہ بغوی نے زید بن عمرو بن نفیل اور سلمان فارسی اور حضرت ابوذر (رض) کا نام لکھا ہے اور علامہ قرطبی نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوگئے، احقر کے نزدیک اس سے نجاشی اور اس کے حاضرین بھی مراد ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں (وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ ) فرمایا ہے، لفظ اذقان ذقن کی جمع ہے جس کا ترجمہ ٹھوڑی لیا گیا ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے چہرے مراد ہیں سجدہ صحیح طریقے پر کیا جائے تو ٹھوڑی زمین سے لگنے کے قریب ہوجاتی ہے اس لیے ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرنے سے تعبیر فرمایا۔ علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو صفت علم سے متصف ہو اسے اس مرتبے تک پہنچنا چاہیے کہ قرآن کریم سننے کے وقت اس کے دل میں خشوع ہو اور متواضع ہو کر بیٹھے اور عاجزانہ ہیئت اختیار کرے، مسند دارمی میں ابو محمد تیمی کا قول نقل کیا ہے کہ جسے علم دیا گیا لیکن اس علم نے اسے رلایا نہیں تو وہ اس لائق ہے کہ اسے علم نہ دیا جاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے علماء کی یہ صفت بیان فرمائی کہ چہروں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گرپڑتے ہیں اس کے بعد انہوں نے آیت بالا تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ آیت بالا سے معلوم ہوا کہ اللہ کے خوف سے اگر نماز میں روئے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ سنن ابو داؤد ص ١٣٠ ج ١ میں ہے کہ مطرف بن عبد اللہ نے اپنے والد عبد اللہ بن شیخ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے سینہ مبارک سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے چکی چلنے کی آواز ہوتی ہے، یہ حدیث سنن نسائی میں بھی ہے اس میں یوں ہے کہ آپ کے اندر سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے ہانڈی پکنے کی آواز ہوتی ہے۔ (ص ١٧٩ ج ١) اللہ کے خوف سے رونا اہل ایمان کی خاص صفات میں سے ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی بھی مومن بندہ کی آنکھوں سے آنسو نکل جائیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہوں اور یہ آنسوؤں کا نکلنا اللہ کے خوف سے ہو پھر یہ آنسو اس کے چہرہ پر گرجائیں تو اللہ اس کو آگ پر حرام فرما دے گا۔ (رواہ ابن ماجہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دو آنکھیں ایسی ہیں کہ ان کو آگ نہیں چھوئے گی ایک تو وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روئی اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ کی راہ میں نگرانی کی یعنی جہاد کے موقع پر رات کو جاگتا رہا کہ کوئی دشمن تو نہیں آ رہا ہے (رواہ الترمذی) حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نجات کس چیز میں ہے آپ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو (بری باتوں سے) روکے رکھ اور اپنے گھر میں اپنی جگہ بنائے رکھ (یعنی گھر ہی میں رہ بلا ضرورت باہر نہ نکل) اور اپنے گناہوں پر رویا کر۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٣ از احمد و ترمذی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:۔ آپ مشرکین سے کہہ دیں قرآن سراپا حق اور اللہ کی سچی کتاب ہے جو تمام احکام شریعت کو دلائل سے واضح اور ثابت کر رہی ہے۔ حق واضح ہوچکا ہے اور مسئلہ توحید مدلل ہوچکا ہے اب تم مانو یا نہ مانو تمہاری مرضی۔ مومنین اہل کتاب تو اس قرآن اور اس کے تمام مضامین پر ایمان لاچکے ہیں۔ 92:۔ یہ توحید پر تیسری نقلی دلیل ہے۔ از علماء اہل کتاب۔ ” الذین اوتوا العلم “ سے یہود و نصاری کے وہ علماء مراد ہیں جو اسلام قبول کرچکے تھے وھ مومنوا اھل الکتاب (قرطبی ج 10 ص 340) یعنی انکا حال تو یہ ہے کہ جب وہ قرآن کی آیتیں سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ خدایا تو نے جو تورات و انجیل میں آخری رسول مبعوث کرنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوچکا یعنی ما وعد اللہ تعالیٰ فی الکتب المنزلۃ و بشر بہ من بعثۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و انزل القران علیہ کان منجزا (مظھری ج 5 ص 500) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

107 اس عنایت و مہربانی کا تقاضا تو یہ تھا کہ منکر اس پر ایمان لاتے لیکن یہ مخالفت کرتے ہیں تو ان سے فرما دیجیے کہ تم اس قرآن پر ایمان لائو یا نہ لائو جن لوگوں کو قرآن کریم سے پہلے کتب آسمانی کا اور دین کا علم دیا گیا تھا ا ن کی یہ حالت ہے کہ یہ قرآن کریم جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں۔