Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 110

سورة بنی اسراءیل

قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۱۰﴾

Say, "Call upon Allah or call upon the Most Merciful. Whichever [name] you call - to Him belong the best names." And do not recite [too] loudly in your prayer or [too] quietly but seek between that an [intermediate] way.

کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کر لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

To Allah belong the Most Beautiful Names Allah says: قُلِ ... Say, O Muhammad, to these idolators who deny that Allah possesses the attribute of mercy and refuse to call Him Ar-Rahman, ... ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الاَسْمَاء الْحُسْنَى ... "Invoke Allah or invoke Ar-Rahman (the Most Gracious), by whatever name you invoke Him (it is the same), for to Him belong the Best Names. meaning, there is no difference between calling on Him as Allah or calling on Him as Ar-Rahman, because He has the Most Beautiful Names, as He says: هُوَ اللَّهُ الَّذِى لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَـدَةِ هُوَ الرَّحْمَـنُ الرَّحِيمُ He is Allah, beside Whom none has the right to be worshipped but He the All-Knower of the unseen and the seen. He is the Most Gracious, the Most Merciful. (59:22) Until His saying; لَهُ الاٌّسْمَأءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ To Him belong the Best Names. All that is in the heavens and the earth glorify Him. (59:24) Makhul reported that; one of the idolators heard the Prophet saying when he was prostrating: "O Most Gracious, O Most Merciful." The idolator said, he claims to pray to One, but he is praying to two! Then Allah revealed this Ayah. This was also narrated from Ibn Abbas, and by Ibn Jarir. The Command to recite neither loudly nor softly Allah says: ... وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلَتِكَ ... And offer your Salah neither aloud, Imam Ahmad reported that Ibn Abbas said: "This Ayah was revealed when the Messenger of Allah was preaching underground in Makkah." ... وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا ... And offer your Salah neither aloud nor in a low voice, Ibn Abbas said: "When he prayed with his Companions, he would recite Qur'an loudly, and when the idolators heard that, they insulted the Qur'an, and the One Who had revealed it and the one who had brought it. So Allah said to His Prophet: وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلَتِكَ (And offer your Salah (prayer) neither aloud), means, do not recite it aloud, lest the idolators hear you and insult the Qur'an, وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا (nor in a low voice), means, nor recite it so quietly that your companions cannot hear the Qur'an and learn it from you. ... وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلً but follow a way between." This was also reported in the Two Sahihs. Ad-Dahhak also narrated something similar from Ibn Abbas, and added: "When he migrated to Al-Madinah, this no longer applied, and he recited as he wished." Muhammad bin Ishaq said that Ibn Abbas said, "When the Messenger of Allah recited Qur'an quietly while he was praying, the (idolators) would disperse and refuse to listen to him; if one of them wanted to hear some of what he was reciting in his prayer, he would try to listen without anyone seeing him, because he was afraid of them. If he realized that anybody knew he was listening, he would go away lest they harm him, so he would stop listening. If the Prophet lowered his voice, those who wanted to listen to his recitation could not hear anything, so Allah revealed, وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلَتِكَ (And offer your Salah neither aloud) meaning, do not recite aloud, lest those who want to listen disperse for fear of attracting unwelcome attention, وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا (nor in a low voice), but do not make your voice so soft that the one who is trying to listen without being seen cannot hear anything at all. Perhaps he will pay attention to some of what he hears and benefit from it. وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلً (but follow a way between)." This was the view of Ikrimah, Al-Hasan Al-Basri and Qatadah that; this Ayah was revealed concerning recitation in prayer. It was narrated from Ibn Mas`ud: "Do not make it so soft that no one can hear it except yourself." Declaration of Tawhid Allah says:

رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں ۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو ۔ سورہ حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں ۔ ایک مشرک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو ۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو ، اللہ کو ، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو ۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں ۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے ۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا ۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کرلیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا ۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ با آواز بلند قرأت پڑھا کر تے تھے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت ابو عیاض ، حضرت مکحول ، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے ۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری ۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو ۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو ۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقع سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون فرمایا ہے ۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں ۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کا شریک نہیں ، وہ واحد ہے ، صمد ہے ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کی جنس کا کوئی اور ، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے ۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے ۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے ۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا ۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے ۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے ۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے ۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی واللہ اعلم ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھی وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیئجے ۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا تھاچند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے ۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ' رحمٰن ' یا ' رحیم ' نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) 110۔ 2 اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ مکہ میں رسول اللہ چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ بھی نہ سن سکیں، خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی کا گزر حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا، میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا، اپنی آواز قدرے بلند کرو اور حضرت عمر سے کہا، اپنی آواز کچھ پست رکھو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] رحمان اللہ کا ذاتی نام ہے قریش کی رحمن سے چڑ & اللہ کے دوسرے صفاتی نام :۔ اللہ کے بعد رحمان بھی اللہ تعالیٰ کا دوسرے نمبر پر ذاتی نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مخلوق کا جس طرح اللہ نام یا اس کی صفت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح رحمان بھی کسی مخلوق کا نام یا صفت نہیں ہوتی لیکن اللہ کا یہ نام عرب میں رائج نہ تھا اور اس نام سے انھیں چڑ بھی تھی اور وہ اللہ پر اس نام کا اطلاق کرنے سے بدکتے تھے اور جب آپ کی زبان سے یہ نام سنتے تو کہتے کہ ہمیں تو اللہ کا شریک بنانے سے منع کرتے ہو۔ جبکہ تم نے خود بھی اللہ کے ساتھ رحمان کو بھی الٰہ بنا رکھا ہے۔ ان کے اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دوالٰہ نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔ تم جونسا چاہو پکار سکتے ہو .۔ بلکہ اللہ کے تو اور بھی بہت سے اچھے صفاتی نام ہیں۔ تم ان سے اللہ کو پکار سکتے ہو اور صحیح احادیث کی رو سے یہ نام ننانوے ہیں۔ اور جو ننانوے نام حدیث میں مذکور ہیں۔ استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ (نیز دیکھئے سورة رعد آیت نمبر ٣٠ کا حاشیہ) [١٢٩] قرآن کی تلاوت آہستہ جہری آواز سے :۔ اس جملہ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں && یہ آیت اس وقت اتری جب آپ مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے جب آپ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن پڑھتے۔ جب مشرک قرآن سنتے تو قرآن، صاحب قرآن اور قرآن لانے والے (جبرئیل) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھئے کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھئے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کیجئے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اور سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے باب میں اتری۔ (حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۔۔ : کفار مکہ ” رحمان “ نام سے نفرت کرتے تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس نام سے ان کی نفرت کا تذکرہ کئی آیات میں کیا ہے، چناچہ فرمایا : (وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ ۚ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا ) [ الفرقان : ٦٠ ] ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں اور رحمٰن کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات بدکنے میں انھیں اور بڑھا دیتی ہے۔ “ ان کی اس نفرت کا ذکر سورة انبیاء (٣٦) میں بھی ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جانے لگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاتب سے فرمایا : ” لکھو ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “ تو (کفار کے نمائندے) سہیل بن عمرو نے کہا : ” رحمان ! اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا رحمٰن کیا ہے ؟ بلکہ لکھو ” بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ “ جیسا کہ (پہلے) لکھا کرتے تھے۔ “ [ بخاری، الشروط، باب الشروط فی الجہاد۔۔ : ٢٧٣١، ٢٧٣٢ ] اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اللہ کو پکارو یا رحمٰن کو، اللہ تعالیٰ کو اس کے جس نام سے بھی پکارا جائے وہ سب ہی بہترین ہیں، جب سب ہی بہترین ہیں تو یہ دونوں کیوں بہترین نہ ہوں گے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٨٠) کی تفسیر۔ ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ ۔۔ :” صَلَاۃٌ“ سے مراد نماز میں قرآن مجید کی قراءت ہے، چناچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں چھپے ہوئے تھے۔ آپ جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو قرآن پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے، جب مشرکین اسے سنتے تو قرآن کو اور اس کے اتارنے والے کو گالی دیتے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا : ( وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ ) أَيْ بِقِرَاءَ تِکَ فَیَسْمَعَ الْمُشْرِکُوْنَ فَیَسُبُّوا الْقُرْآنَ (وَلَا تُخَافِتْ بِهَا ) عَنْ أَصْحَابِکَ فَلَا تُسْمِعُھُمْ (وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ) [ بخاري، التفسیر، سورة بني إسرائیل باب : ( ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بھا ) : ٤٧٢٢ ] ” وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ “ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی قراءت کے ساتھ آواز بلند نہ کرو کہ مشرکین اسے سنیں گے تو اسے گالی دیں گے اور نہ اسے اپنے اصحاب سے چھپا کر پڑھو، کیونکہ آپ اسے ان کو سنا نہیں سکیں گے اور اس کے درمیان کا کوئی راستہ تلاش کرو۔ “ ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت دعا کے متعلق نازل ہوئی۔ [ بخاري، التفسیر، سورة بني إسرائیل باب : ( ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بھا ) : ٤٧٢٣ ] ابوداؤد میں صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیام اللیل میں ابوبکر (رض) کو پست آواز اور عمر (رض) کو بلند آواز سے قراءت کرتے ہوئے سنا تو ابوبکر (رض) کو کچھ بلند اور عمر (رض) کو کچھ آہستہ پڑھنے کے لیے فرمایا۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل : ١٣٢٩ ] آیت کے الفاظ قراءت اور دعا دونوں معنوں کی گنجائش رکھتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary These are the last verses of Surah Bani Isra&il (Al-&Isra& ). The Surah began with a declaration of the purity and oneness of Allah Ta’ ala, and this is how it is being concluded. The revelation of these verses was based on some events. The first one came to pass on a certain day when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، during his supplication, said &Ya Allah& and &Ya Rahman.& The Mushriks thought that he was calling two Gods. They said, &he forbids us to call anyone else other than the One while he himself calls two deities.& The answer to this comment was given in the first part of the verse by saying that the most exalted Allah does not have a mere two names. He has many more names and all of them are the best of names. Call Him by any of these and it means the One and Only Al¬lah. So, it was made clear that their apprehensions on that count were wrong. As for the second incident, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would recite the Qur&an loudly during Salah, the Mushriks made fun of him and passed audacious remarks berating the Qur’ an, archangel Jibra&il, even Allah Ta` ala. In response to that, the last part of this very verse was re¬vealed where he has been advised to take to a middle course between the loud and the low, as the average voice took care of the functional neces¬sity. And as for the opportunity the Mushriks had to cause pain to them over the loud pitch of the voice, they would be relieved of that too. The third problem was that the Jews and Christians proposed chil¬dren for Allah Ta` ala and the pagan Arabs said that idols were partners of Allah. The Sabians and the Magians used to hold that not being partic¬ularly close to Allah amounted to a personal loss of worth and honor. In answer to these three religious groups, the last verse was revealed where their three notions have been refuted. It will be noted that, in this world, the one from whom strength and support is received is sometimes younger than one, like children, and sometimes an equal, like a partner, and sometimes older than one, like a supporter and helper. Here, in this verse, Allah Ta’ ala has refuted all three in the same order. Ruling The etiquette of recitation in Salah as given in verse no is that it should not be in a voice raised very high, nor should it be in a voice so lowered that those standing behind in the congregation cannot hear it. This injunction, as obvious, is particular with prayers wherein the recita¬tion is voiced. As for the prayers of Zuhr and ` Asr, the recitation therein is totally unvoiced as proved from uninterrupted Sunnah. In prayers with voiced recitation, included there are the Fard of Maghrib, ` Isha& and Fajr, as well as the prayer of Tahajjud - as in a Hadith which says: Once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) passed by Sayyidna Abu Bakr and Sayyidna ` Umar (رض) at the time of Tahajjud. Sayyidna Abu Bakr was reciting in a lowered voice while Sayyidna ` Umar was reciting in a loud voice. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidna Abu Bakr (رض) ، &why would you recite in such a lowered voice?& Sayyidna Abu Bakr said, &the One I wanted to talk to in secret, Him I have made to hear, because Allah Ta` ala hears every voice, even the lowest of the low.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &recite somewhat loudly.& Then he said to Sayyidna ` Umar (رض) ، &why do you recite in such a loud voice?& Sayyidna ` Umar (رح) said, &I recite loudly to wake up the drowsy, and shaitan.& He ordered him too, &you should recite in a voice somewhat lowered.& (Tirmidhi as quoted Mazhari) Problems and their solutions relating to the loud or lowered render¬ing of the recitation of the Qur&an in Salah, or on occasions other than it, have been already explained in Surah al-A` raf (see commentary under Verse 55, Volume III). About the last verse beginning with: قُلِ الحَمدُ للہِ (say, &alham¬dulillah: praise belongs to Allah& ), the Hadith says that this is the &ayah& (verse) of &izzah& (power and glory). [ The reference is to the efficacy of the verse in seeking the help of Allah to overcome weaknesses and difficul¬ties ]. (Reported by Abmad and at-Tabarani on the authority of Sayyidna Mu۔ adh al-Juhaniyy as in Mazhari) This verse also provides an essential guidance. The drive of the meaning is that it does not matter how much one devotes to the worship of Allah, one is still obligated to take his or her deed to be deficient as compared with His due right and confess to the likely shortfall in performing it. (Mazhari)

خلاصہ تفسیر : آپ فرما دیجئے کہ خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو گے (تو بہتر ہے کیونکہ) اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں (اور اس کا شرک سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ ایک ہی ذات کے کئی نام ہونے سے اس کی توحید میں کوئی فرق نہیں آتا) اور اپنی جہری نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیے (کہ مشرکین سنیں اور خرافات بکیں اور نماز میں قلب مشوش ہو) اور نہ بالکل ہی آہستہ پڑھئیے (کہ مقتدی نمازیوں کو بھی سنائی نہ دے کیونکہ اس سے ان کی تعلیم و تربیت میں کمی آتی ہے) اور دونوں کے درمیان ایک (متوسط) طریقہ اختیار کرلیجئے (تاکہ مصلحت فوت نہ ہو اور مضرت پیش نہ آئے) اور (کفار پر رد کرنے کے لئے علی الا علان) کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اسی اللہ کے لئے (خاص) ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اس کا کوئی شریک سلطنت ہے اور نہ کمزوری کی وجہ سے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کی خوب بڑائی بیان کیا کیجئے۔ معارف و مسائل : یہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیات ہیں اس سورت کے شروع میں بھی حق تعالیٰ کی تنزیہیہ اور توحید کا بیان تھا ان آخری آیات میں بھی اسی پر ختم کیا جا رہا ہے ان آیتوں کا نزول چند واقعات کی بناء پر ہوا اول یہ کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز دعا میں یا اللہ اور یارحمن کہہ کر پکارا تو مشرکین نے سمجھا کہ یہ دو خداؤں کو پکارتے ہیں اور کہنے لگے کہ ہمیں تو ایک کے سوا کسی اور کو پکارنے سے منع کرتے ہیں اور خود دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس کا جواب آیت کے پہلے حصہ میں دیا گیا ہے کہ اللہ جل شانہ کے دو ہی نہیں اور بھی بہت سے اچھے اچھے نام ہیں کسی نام سے بھی پکاریں مراد ایک ہی ذات ہے تمہارا وہم غلط ہے۔ دوسرا قصہ یہ ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں بلند آواز سے تلاوت قرآن فرماتے تو مشرکین تمسخر و استہزاء کرتے اور قرآن اور جبرائیل امین اور خود حق تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ باتیں کہتے تھے اس کے جواب میں اسی آیت کا آخری حصہ نازل ہوا جس میں آپ کو جہر و اخفاء میں میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی کہ ضرورت تو اس درمیانہ آواز سے پوری ہوجاتی ہے اور زیادہ بلند آواز سے جو مشرکین کو موقع ایذاء رسانی کا ملتا تھا اس سے نجات ہو۔ تیسرا قصہ یہ ہے کہ یہود و نصاری اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد قرار دیتے تھے اور عرب بتوں کو اللہ کا شریک کہتے تھے اور صابی اور مجوسی کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے مخصوص مقرب نہ ہوں تو اس کی قدر و عزت میں کمی آ جاوے ان تینوں فرقوں کے جواب میں آخری آیت نازل ہوئی جس میں تینوں چیزوں کی نفی ذکر کی گئی ہے۔ دنیا میں جس سے مخلوق کو کسی قدر قوت پہنچا کرتی ہے وہ کبھی تو اپنے سے چھوٹا ہوتا ہے جیسے اولاد اور کبھی اپنے برابر ہوتا ہے جیسے شریک اور کبھی اپنے سے بڑا ہوتا ہے جیسے حامی و مددگار حق تعالیٰ نے اس آیت میں بہ ترتیب تینوں کی نفی فرما دی۔ مسئلہ : آیت مذکورہ میں نماز کے اندر تلاوت کرنے کا یہ ادب بتلایا گیا ہے کہ بہت بلند آواز سے ہو نہ بہت آہستہ جس کو مقتدی نہ سن سکیں یہ حکم ظاہر ہے کہ جہری نمازوں کے ساتھ مخصوص ہے ظاہر اور عصر کی نمازوں میں تو بالکل اخفاء ہونا سنت متواترہ سے ثابت ہے۔ جہری نماز میں مغرب عشاء اور فجر کے فرض بھی داخل ہیں اور نماز تہجد بھی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز تہجد کے وقت سیدنا صدیق اکبر (رض) اور حضرت فاروق اعظم (رض) کے پاس سے گذرے تو صدیق اکبر تلاوت آہستہ کر رہے تھے اور فاروق اعظم خوب بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق سے فرمایا کہ آپ ایسا آہستہ کیوں پڑھتے ہیں صدیق اکبر (رض) نے عرض کیا کہ مجھے جس کو سنانا تھا اس کو سنا دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر خفی سے خفی آواز کو بھی سنتے ہیں آپ نے فرمایا کہ کسی قدر جہر سے پڑھا کرو پھر عمر بن خطاب (رض) سے فرمایا کہ آپ اتنی بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ میں نیند اور شیطان کو دفع کرنے لئے بلند آواز سے پڑھتا ہوں آپ نے ان کو بھی یہ حکم دیا کہ کچھ پست آواز سے پڑھا کرو (ترمذی از مظہری) نماز اور غیر نماز میں تلاوت قرآن کو جہر سے اور اخفاء سے ادا کرنے کے متعلقہ مسائل سورة اعراف میں بیان ہوچکے ہیں آخری آیت قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ کے متعلق حدیث میں ہے کہ آیت عزت یہ آیت ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ الخ (رواہ احمد و الطبرانی عن معاذ الجہنی کذا فی المظہری) اس آیت میں یہ ہدایت بھی ہے کہ کوئی انسان کتنی ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح و تمحید کرے اپنے عمل کو اس کے حق کے مقابلہ میں کم سمجھنا اور قصور کا اعتراف کرنا اس کے لئے لازم ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠؁ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ جهر جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع . أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( ج ھ ر ) الجھر ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نماز میں اونچی آواز سے قرأت کرنا اور دعا مانگا قول باری ہے (ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذلک سجیلاً اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو) حضرت ابن عباس سے ایک روایت کے مطابق، نیز حضرت عائشہ مجاہد اور عطار سے مروی ہے کہ بہت زیادہ بلند آواز سے دعائیں نہ مانگو اور نہ ہی بہت آواز سے۔ “ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اونچی آواز سے قرأت کرتے تو مشرکین آپ کو تنگ کرتے لیکن جب پست آواز سے قرأت کرتے تو مقتدیوں کو آواز سنائی نہ دیتی۔ یہ صورت حال مکہ میں تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی اور اس سے نماز کے اند رقرأت مراد لی حسن بصری نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :” اتنی بلند آواز سے نماز نہ پڑھیں کہ یہ آواز ان لوگوں کے کانوں میں پہنچ جائے جو آپ کو ستانے پر تلے ہوئے ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ دھیمی آواز سے نہ پڑھیں۔ “ گویا حسن بصری کے نزدیک ایک حالت میں ترک جہر مراد ہے اور دوسری حالت میں آواز پست نہ رکھنا مراد ہے۔ ایک تفسیر کے مطابق ” تمام نمازوں میں نہ آواز بلند رکھیں اور نہ پست بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کریں وہ اس طرح کہ رات کی نماز بلند آواز سے پڑھیں اور دن کی نماز پشت آواز سے جیسا کہ ہم نے تمہیں حکم دیا ہے۔ “ عبادہ بن تسی سے مروی ہے، انہیں عفیف بن الحارث نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند آواز سے قرآن کی قرأت کرتے تھے یا پست آواز سے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ بعض دفعہ آپ بلند آواز سے قرأت کرتے اور بعض دفعہ پست آواز سے۔ ابو خالد الوالبی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب وہ رتا کو اٹھ کر نماز پڑھتے تو کبھی بلند آوا ز سے قرأت کرتے اور کبھی پست آواز سے اور فرماتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت بھی اسی طرح ہوتی تھی۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو آخر رمضان میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس موقعہ پر آپ نے فرمایا :” نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے مناجات یعنی سرگوشی کرتا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب سے کیا سرگوشی کر رہا ہے۔ اس لئے تم ایک دوسرے سے قرأت کی آواز کو بلند نہ کرو۔ “ ابو اسحاق نے حارث سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت علی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرما دیا تھا کہ کوئی شخص عشاء کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کر کے اپنے ساتھیوں کی نماز کو غلط کرنے کا سبب بن جائے۔ رتا کے وقت ادا کی جانے والی نماز میں بلند آواز سے قرأت کے سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔ کریب نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے کے اندر قرأت کرتے اور آپ کی آواز حجرے سے باہر تک سنائی دیتی تھی۔ ابراہیم نخعی نے علقمہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے ایک رتا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے بلند آواز سے قرات کی جس کی آواز پورے گھر والوں کو پہنچ رہی تھی۔ ایک روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) جب نماز پڑھتے تو اپنی آواز پست رکھتے اور حضرت عمر (رض) جب نماز پڑھتے تو آواز بلند رکھتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے پوچھا کہ تم اپنی آواز پست کیوں رکھتے ہو تو انہوں نے عرض کیا :” میں اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہوں حالانکہ اسے میری حاجت کا علم ہے۔ “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” مبہت خوب “ پھر آپ نے یہی سوال حضرت عمر (رض) سے کہا کہ تم اونچی آواز سے کیوں پڑھتے ہو ؟ انہوں نے جواب میں عرض کیا : میں اس کے ذریعے اونگھنے والے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا :” بہت خوب “ لیکن جب آیت زیربحث نازل ہوئی تو آپ نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا :” اپنی آواز ذرا اونچی کرلو “ اور حضرت عمر (رض) سے فرمایا : اپنی آواز ذرا پست کرو۔ “ زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو موسیٰ کی آواز سنی تو فرمایا :” ابو موسیٰ کو آل دائود (علیہ السلام) کا ترنم عطا ہوا ہے۔ “ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز بلند کرنے کو ناپسند نہیں فرمایا۔ عبدالرحمٰن بن عوسجہ نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (زینوا القرآن باصواتکم اپنی آوازوں سے قرآن کو مزین کرو) حماد نے ابراہیم سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ فرماتے تھے۔ ” تم اپنی آوازوں سے قرآن کو حسین بنادو ۔ “ ابن جریج نے طائوس سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کس شخص کے اندر سب سے زیادہ حسن قرأت پائی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا (الذی اذا سمعت قوأتہ رأیت انہ یخشی اللہ۔ اس شخص کے اندر جس کی قرأت اگر تم سنو تو اس کے سوزسے تمہیں یوں محسوس ہو گویا اس پر خشیت الٰہی طاری ہے)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٠) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے اچھے اچھے نام اور بہت ہی بلند صفات ہیں، خواہ اللہ، اللہ پکارو یا رحمن جس نام اور جس صفت کے ساتھ اس کا پکارو، سو بہتر ہے اور آپ اپنی نمازوں میں نہ تو بہت پکار کر قرآن کریم پڑھیے کہ مشرکین اس کو سن کر اول فول بکیں اور وہ حسد کریں اور نہ قرآن کریم کو اتنا آہستہ پڑھیے کہ آپ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں اور دونوں کے درمیان ایک متوسط طریقہ اختیار کرلیجیے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ قل ادعواللہ او ادعوالرحمن “۔ (الخ) ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں کھڑے ہو کر دعا کی اور اپنی دعا میں فرمایا، یا اللہ، یارحمن، یہ سن کر مشرکین بولے کہ اس بےدین کو دیکھو ہمیں تو دو خداؤں کے پکارنے سے روکتا ہے اور خود دو خداؤں کو پکار رہا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی آپ فرما دیجیے، خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو گے اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولا تجہر بصلاتک “۔ (الخ) امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے فرمان خداوندی۔ ( آیت) ” ولا تجھر بصلاتک “۔ (الخ) کی تفسیر میں رورایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی ہے جب کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں کفار کے ڈر سے چھپے رہتے، آپ جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن کریم نازل کیا ہے اور جو قرآن کریم لے کر آیا ہے سب کو برا کہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ نیز امام بخاری (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ابن جریر (رح) نے بھی حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر پھر پہلی روایت کو ترجیح دی ہے کیوں کہ وہ سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے اور اسی طرح امام نووی نے بھی پہلی روایت ہی کو ترجیح دی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں ان دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے کہ یہ آیت کریمہ اس دعا کے بارے میں بھی نازل ہوئی جو نماز کے اندر ہوتی ہے اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت بیت اللہ کے قریب نماز پڑھتے تو بلند آواز سے دعا فرماتے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور ابن جریر (رح) اور امام حاکم (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ روایت حضرت عائشہ (رض) کی سابقہ روایت کی تشریح کررہی ہے، نیز ابن منیعہ نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباس (رض) سے کہ صحابہ کرام (رض) یہ دعا زور سے مانگا کرتے تھے۔ ” الھم ارحمنی “۔ (الخ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اس بات کا حکم دیا گیا کہ نہ بہت زور سے دعا مانگیں اور نہ بہت آہستہ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى) ہرخیر ہر خوبی ہر بھلائی ہر حسن ہر کمال ہر جمال جس کا تم تصور کرسکتے ہو وہ بہ تمام و کمال اللہ تعالیٰ کی ذات میں موجود ہے۔ (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا) تمہاری نمازیں اور دعائیں نہ تو بہت زیادہ جہری ہوں نہ بالکل ہی سری بلکہ ان کے بین بین کی راہ اختیار کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

123. This is the answer to another objection of the disbelievers. They said: We have heard the name Allah for the Creator but where from have you brought the name Rahman? This was because the name "Rahman” was not used for Allah and they did not like it. 124. This instruction was given at Makkah. Ibn Abbas relates that when the Prophet (peace be upon him) or his companions offered their prayers, they recited the Quran in a loud voice. At this the disbelievers would raise a hue and cry and often called them names. Therefore, they were enjoined that they should neither say their prayers in such a loud voice as might incite the disbelievers nor should they say it in such a low voice that their own companions might not hear it. This instruction was discontinued under the changed conditions at Al-Madinah. However, if the Muslims have to face the same conditions, at any place or at any time, they should observe the same instruction.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :123 یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے اللہ کا نام تو ہم نے سنا تھا ، مگر یہ رحمان کا نام تم نے کہاں سے نکالا ؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالی کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :124 ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے تھے ۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں ، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں ۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا ۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا ۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے سے حالات سے دو چار ہونا پڑے ، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

56:: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عرب کے مشرکین اللہ تعالیٰ کے نام رحمن کو نہیں مانتے تھے چنانچہ جب مسلمان یا اللہ یا رحمن کہہ کر دعا کرتے تو وہ مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ اللہ ایک ہے، اور دوسری طرف دو خداؤں کو پکاررہے ہو، ایک اللہ کو اور ایک رحمن کو، اس آیت میں ان کے لغو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دونوں اللہ ہی کے نام ہیں بلکہ اسکے اور بھی اچھے اچھے نام ہیں جنہیں اسمائے حسنی کہا جاتا ہے ان میں سے کسی بھی نام سے اس کو پکاراجاسکتا ہے اس سے عقیدہ ٔ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔ 57: وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا : نماز میں جب بلند آواز سے تلاوت کی جاتی تو مشرکین شور مچا کر مذاق اڑاتے اور اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے فرمایا گیا ہے کہ بہت اونچی آواز سے تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یوں بھی معتدل آواز زیادہ پسندیدہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٠۔ ١١١:۔ صحیحین میں اس آیت کی شان نزول کے باب میں دو قول ہیں ایک قول امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ غلبہ اسلام سے پہلے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں بلند آواز سے نماز میں قرآن شیریف پڑھا کرتے تھے تو مشرکین قرآن کو برا بھلا کہا کرتے تھے یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ بات نازل فرمائی ١ ؎ اور فرما دیا کہ اوسط درجے کی آواز سے قرآن مجید پڑھا کرو نہ ایسی بلند آواز سے ہو کہ مشرکین سن کر برا بھلا کہیں نہ ایسا ہو کہ قرآن کے سننے کے مشتاق صحابہ بھی قرآن کے سننے سے محروم رہ جائیں دوسرا قول حضرت عائشہ (رض) کا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دعا اوسط درجہ کی آواز سے مانگنے کے حکم میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ٢ ؎۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان دونوں قولوں کا اختلاف یوں رفع کردیا ہے کہ دعا سے مراد عبادت ہے جو قرأت قرآن کو بھی شامل ہے اور دعا کو بھی شامل ہے ٣ ؎۔ بعضے مفسروں نے آیت ادعوا ربکم سے اس آیت ولا تجھر بصلاتک کو منسوخ جو ٹھہرایا ہے وہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت چیخ کر دعا مانگنے سے منع فرمایا ہے ٤ ؎۔ اس صورت میں آیت ولا تجھر قرائۃ اور دعا دونوں کے حکم کو شامل ہوگئی تو اس صحیح حدیث کے موافق بہت چیخ کر دعا مانگنے کی ممانعت آیت سے نکلے گی یہی مطلب ادعوا ربکم کا ہے پھر جب دونوں آیتوں میں مخالفت ہی نہیں تو ایک آیت سے دوسری آیت کیونکر منسوخ ہوسکتی ہے اسی واسطے سب مفسرین نے بالاتفاق جو پانچ آیتیں منسوخ ٹھہرائی ہیں ان میں یہ آیت نہیں ہے ان پانچ آیتوں کا ذکر تفصیل سے ایک جگہ اس تفسیر میں کردیا گیا ہے یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے اور مشرکین مکہ اپنے بتوں کی ہر وقت بڑائی کرتے رہتے تھے اسی واسطے آگے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جس اللہ نے عزیر عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ان مشرکوں کے بتوں کو سب کو پیدا کیا ہے بڑائی اسی ذات کو سزاوار ہے کہ جس کے نہ کوئی اولاد ہے نہ اس کی بادشاہت میں کوئی اس کا شریک ہے اور وہ ایسا زبردست ہے کہ وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں صحیح مسلم میں سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الحمد للہ اور اللہ اکبر یہ کلمے اللہ کو بہت پیارے ہیں کیونکہ الحمد للہ کا لفظ تو خود آیت میں موجود ہے اور اللہ اکبر کے کہنے سے کبرہ تکبیرا کی تعمیل بھی ہوجاتی ہے اور صحیح حدیث کے موافق وہ کلمہ بھی آدمی کے منہ سے نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا ہے۔ سورة بنی اسرائیل ختم ہوئی۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٦ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٧ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ فتح الباری ص ٢٣٩ ج ٤ کتاب التفسیر۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٣٤٦ ج ٢ باب استحباب خفص الصوت بالذ کرالخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:110) ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی۔ ایاما۔ ایا۔ جونسا۔ کونسا۔ کس کس۔ جس کیا کیا۔ یہ استفہامیہ بھی ہوتا ہے اور شرطیہ بھی۔ اور صفت بھی واقع ہوتا ہے لیکن یہاں شرطیہ استعمال ہوا ہے۔ ما زائدہ تاکید کے لئے ہے ایا کی تنوین مضاف الیہ کے عوض ہے ای بای اسم تدعوا۔ تدعوا۔ تم بلائو۔ تم پکارو۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر دعوۃ مصدر۔ لیکن آیہ ہذا میں الدعاء بمعنی التسمیۃ استعمال ہوا ہے النداء کے معنی میں نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس ذات (حق تعالیٰ ) کو اللہ کا نام دو یا الرحمنکا۔ فلہ۔ میں ضمیر واحد مذکر غائب ان دو اسموں (اللہ۔ الرحمن) کی طرف راجع نہیں بلکہ ان دونوں اسموں کے مسمیٰ کی طرف راجع ہے۔ الفاء جواب شرط کے لئے ہے یعنی ایاما تدعوا (تم جو نام بھی اس کو دو ) شرط۔ اور فلہ الاسماء الحسنی۔ جواب شرط۔ یعنی ایاما تدعوا فھو حسن (جو نام بھی اس کو وہی زیبا ہے) فھو حسن کی جگہ فلہ الاسماء الحسنی آیا ہے یعنی جس نام سے بھی اس کو پکارو اس کے اچھے ہی اچھے نام ہیں۔ لا تجھر۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تو آواز بلند نہ کر۔ الجھر (باب فتح) کے اصل معنی کسی چیز کا حاسۂ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح نمایاں اور ظاہر ہونے کے ہیں۔ حاسۂ سمع کے ظاہر ہونے کے متعلق ارشاد ہے سواء منکم من اسر القول ومن جھر بہ (13:10) تم میں سے کوئی چپکے سے بات کہے یا بآواز بلند پکار کر (اس کے نزدیک) دونوں برابر ہیں۔ آیۃ ہذا میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ولا تجھر۔ تو آواز بلند نہ کر۔ تو بلند آواز سے نہ پڑھ ای ولا تجھر بقراء ۃ صلاتک۔ حاسۂ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق مستعمل ہے مثلاً لن نؤمن لک حتی نزی اللہ جھرۃ۔ (2:55) جب تک ہم خدا کو سامنے نمایا طور پر نہ دیکھ لیں ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔ لا تخافت فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ مخافتۃ مصدر باب مفاعلہ۔ بمعنی آہستہ گفتگو کرنا ولا تخافت بقراء ۃ صلاتک اور نہ نماز میں قرات کو بالکل چپکے چپکے ادا کر۔ ابتغ۔ امر واحد مذکر حاضر۔ ابتغاء مصدر تو تلاش کر۔ تو اختیار کر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 مشرکین عرب کے ہاں خدا کے لئے اللہ کا نام تواریخ تھا مگر وہ اس کے نام رحمن سے مانوس نہ تھے بلکہ وہ اس نام سے سخت وحشتک ھاتے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت نے دعا میں فرمایا :” یا اللہ یا رحمٰن “ تو مشرکین کہنے لگے کہ اس بےدین کی طرف دیکھو ہمیں رئومیودوں کے پکارنے سے منع کرتا ہے اور خود وہ معبودوں کو پکارتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازمل فرمائی۔ ابن جریر اللہ تعالیٰ کے اسماء کے حسنیٰ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان میں حمد وثناء اور تسبیح و تقدیس کے معانی مفہوم ہوتے ہیں۔ کذافی لکبیر (مزید دیکھیے سورة اعراف 18)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 110 تا 111 ادعوا پکارو، بلاؤ۔ ایام دن۔ لاتجھر نہ بلند کر۔ لاتخافت نہ پست کر۔ ابتغ تلاش کر۔ ولی مددگار۔ الذل عاجزی، کمزوری۔ کبرہ تکبیراً اس کی عظمت خوب بیان کرو۔ تشریح : آیت نمبر 110 تا 111 اللہ تعالیٰ نے سورة الاسراء کے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر دونوں اللہ ہی کے نام ہیں اور اللہ کے جتنے بھی نام ہیں وہ سب کے سب بہترین نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام تو صرف اللہ ہے باقی اس کے صفاتی نام ہیں، رحمٰن، رحیم، قادر، خالق، رازق وغیرہ یہ اللہ کے بہترین صفاتی نام ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ ۔ (روایت حضرت ابوہریرہ) کفار مکہ اللہ کے نام سے واقف تھے لیکن جب ” رحمٰن “ کا صفاتی نام بتایا گیا تو انہوں نے سوال کیا کہ یہ رحمٰن کون ہے کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال ہی کے جواب میں فرمایا کہ اللہ اور رحمٰن دونوں اللہ کے نام ہیں۔ یہود و نصاریٰ بھی اللہ کے لفظ سے واقف تھے اور اسی کو خالق سمجھتے تھے مگر یہودی حضرت عذیر کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ کو (نعوذ باللہ) اللہ کا بیٹا کہتے تھے جس کی قرآن کریم نے تردید کر کے بتایا ہے کہ یہ دونوں اللہ کے بندے اور رسول تھے یہ اللہ کے بیٹے نہ تھے کیونکہ اللہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے اس کو اپنی سلطنت چلانے کے لئے بیٹا، بیٹی اور بیوی کی ضرورت نہیں ہے نہ وہ کسی سہارے کا محتاج ہے وہ کائنات کی تمام عظمتوں کا مستحق ہے۔ دوسری بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائی جا رہی ہے کہ اے نبی ! آپ نہ تو اتنے آہستہ اللہ کا نام لیجیے کہ کسی کو سنائی ہی نہ دے اور نہ اتنی زور سے پکار یئے جو کہ دوسروں کے کان اس کو محض ایک شور سمجھیں بلکہ راہ اعتدال سب سے اچھی بات ہے۔ سورۃ الاسراء کی اس آخری آیت سے متعلق علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کی عظمت کو بیان فرماتے تھے اور گھر کے تمام چھوٹے بڑوں کو سکھاتے تھے آپ نے اس آیت کا نام ” آیت العزت “ یعنی عزت و عظمت والی آیت رکھا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس گھر میں یہ آیت پڑھی جائے گی اس گھر میں کبھی کوئی آفت یا چوری نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الحمد اللہ آج سورة الاسراء کا ترجمہ و تفسیر مکمل ہوا ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ان میں شرک سی کوئی علاقہ نہیں کیونکہ مسمی تو ایک ہی ہے، اسماء متعدد ہیں، شرک جب لازم آتا ہے جب مسمی دوسرا ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے لیے تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن مجید نازل کیا تاکہ اس پر ایمان لانے والوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ لیکن منکرین قرآن نے اس سہولت کو عیب بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اس کے ساتھ انھوں نے ” الرحمن “ کے نام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس کا جواب دیا گیا ہے۔ مکہ کے لوگ اپنی دعاؤں میں ” اللہ “ کا نام استعمال کرتے تھے۔ مدینہ کے یہودی ” اللہ “ کی بجائے ” الرحمن “ کے نام سے رب تعالیٰ کا ذکر کرتے اور اپنی دعاؤں میں الرحمن کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ رسول کریم نے اسمِ ” اللہ “ کے ساتھ جب ” الرحمن “ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا تو مکہ کے مشرکوں کو آپ کے خلاف پروپیگنڈا کا بہانہ ہاتھ آیا۔ انہوں نے یہ الزام لگایا کہ ہمارے ساتھ ایک الٰہ پر صبح وشام تکرار کرتا ہے۔ اس کا اپنا یہ حال ہے کہ ” اللہ “ کے ساتھ ” الرحمن “ کو شریک بنا تا ہے۔ اس پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ لوگو ! اپنے رب کو ” اللہ “ کے نام سے پکارو یا اس کو ” الرحمن “ کے نام سے یاد کرو۔ اللہ کے جس نام سے پکارو اس کے تمام نام ہی بہترین ہیں۔ کیونکہ سورة الاعراف آیت ١٨٠ میں یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ کے سب نام بہترین ہیں لہٰذا جس نام کے ساتھ چاہو اسے پکارو۔ لیکن اس کے اسماء میں کسی قسم کا الحادنہ کرو۔ جو لوگ ایساکریں گے انہیں اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جہاں تک اللہ کے اسمائے گرامی کا تعلق ہے۔ اس میں اسم جنس ” اللہ “ ہے۔ باقی اسمائے گرامی اللہ تعالیٰ کے وصفی یعنی تعریفی نام ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ننانوے نام ہیں جبکہ دوسری روایات کو جمع کیا جائے تو ایک سو سے زیادہ بنتے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کا عام اصول : (عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ لَیْلَۃً فَإِذَا ہُوَ بِأَبِی بَکْرٍ (رض) یُصَلِّی یَخْفِضُ مِنْ صَوْتِہِ قَالَ وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَہُوَ یُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَہُ قَالَ فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَبَا بَکْرٍ مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّی تَخْفِضُ صَوْتَکَ قَالَ قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَیْتُ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ وَقَالَ لِعُمَرَ مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَکَ قَالَ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّیْطَانَ زَادَ الْحَسَنُ فِی حَدِیثِہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَبَا بَکْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْءًا وَقَالَ لِعُمَرَ اخْفِضْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْءًا )[ رواہ البخاری : باب فی الرفع الصوت بالقراء ۃ ] ” حضرت ابو قتادۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے۔ ابوبکر (رض) کو دھیمی آواز میں نماز پڑھتے ہوئے پایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر عمر بن خطاب (رض) کے پاس سے ہوا وہ بلند آواز میں قرأت کر رہے تھے، جب دونوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ابوبکر ! میں رات کو آپ کے پاس سے گزرا تھا آپ بالکل ہلکی آواز میں قرأت کر رہے تھے ابوبکر نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس لیے آہستہ آواز میں قرأت کر رہا تھا تاکہ جس سے میں سرگوشی کر رہا ہوں اسے سنا سکوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا میں آپ کے پاس سے گزرا آپ اونچی آواز میں قرأت کر رہے تھے انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس لیے بلند آواز سے قرأت کررہا تھا تاکہ میں سونے والوں کو جگا سکوں اور شیطان کو بھگا سکوں۔ حسن کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا سا بلند کرو اور عمر (رض) سے کہا اپنی آواز کو تھوڑا سا دھیما رکھو۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں میں سے جس نام کے ساتھ چاہوپکارو۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے اچھے اور بہترین نام ہیں۔ ٣۔ عبادت میں میانہ روی ہونی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن میانہ روی اختیار کرنی چاہیے : ١۔ نماز بلند آواز سے نہ پڑھو نہ آہستہ بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرو۔ (بنی اسرائیل : ١١٠) ٢۔ رحمٰن کے بندے جب خرچ کرتے ہیں۔ نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی۔ بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٧) ٣۔ چال میں اعتدال اور آواز کو پست رکھو۔ (لقمان : ١٩) ٤۔ کچھ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں۔ (فاطر : ٣٢) ٥۔ لوگوں میں سے کچھ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں۔ (المائدۃ : ٦٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تو اوہام جاہلیت ہیں اور بت پرستی کی واہی باتیں ہیں کہ اللہ کے لئے رحمن کا لفظ استعمال نہ کرو ، ایسی باتوں کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جاتا ہے کہ نماز میں ، صبر اور خفا میں میانہ روی اختیار کریں ، کیونکہ وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے دیکھ کر مذاق اور ٹھٹھے کرتے تھے۔ اور اس طرح کر نا اللہ کے حضور حاضر ہوتے وقت زیادہ مناسب بھی ہے۔ ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذلک سبیلا۔ (٠١١) ۔ جس طرح سورت کے مضامین کا آغاز یوں ہوا تھا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کا کوئی شریک اور بیٹا نہیں ہے۔ اور اس کو دلی اور مدد گار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ علی و کبیر ہے ، تو اسی مضمون پر اس سورت کا خاتمہ بھی ہو رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے مضامین کا محور یہی ہے۔ انہی مضامین سے اس کا آغاز ہوا اور انہی پر اس کا اختتام ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جس نام سے بھی پکارو اس کے اچھے اچھے نام ہیں، آپ نماز میں قرأت کرتے وقت درمیانی آواز سے پڑھیے در منثور ص ٦٠٦ ج ٤ میں حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعا میں یا اللہ اور یا رحمن کہا تو مشرکین مکہ نے کہا کہ اس نئے دین والے کو دیکھو ہمیں دو معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ) نازل فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رحمن کہہ کر پکارنا دو معبودوں کا پکارنا نہیں ہے معبود تو ایک ہے جو وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ ہے یہ دونوں اس کے نام ہیں اس کے جس نام سے بھی پکار لیا تو کوئی شرک لازم نہیں آیا اور تم تو کئی معبودوں کو مانتے ہو تمہارے معبود ایسے نہیں ہیں کہ ذات ایک ہو اور نام کئی ہوں تمہارے عقیدہ میں معبودوں کی ذاتیں متعدد ہیں اور میرا جو معبود ہے ایک ہی ہے وہ معبود حقیقی ہے جس کا نام اللہ بھی ہے رحمن بھی ہے ان دونوں ناموں کے علاوہ اور بھی اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں ان ناموں میں سے جو نام لے کر بھی اسے پکارا جائے گا صحیح ہوگا شرک نہ ہوگا کیونکہ یہ سب ایک ذات پاک کے نام ہیں۔ سنن ترمذی میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام مروی ہیں جو مشکوٰۃ المصابیح میں ص ١١٩ پر منقول ہیں۔ (وَ لَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ ) (الآیۃ) صحیح بخاری ص ٦٨٦ ج ٢ میں ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں (ابتدائے اسلام میں) چھپ کر اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تھے جس میں قرآن زور سے پڑھتے تھے۔ جب مشرکین قرآن سنتے تھے تو قرآن کو اور قرآن کے نازل کرنے والے کو اور قرآن کے لانے والے کو برے الفاظ میں یاد کرتے تھے اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ نماز میں زور سے قرأت نہ پڑھیں جسے سن کر مشرکین برے الفاظ میں ذکر کرنے کا موقع پالیں اور آپ نماز میں قرأت کو آہستہ بھی نہ پڑھیں جس کی وجہ سے آپ کے صحابہ نہ سن سکیں آپ دونوں کے درمیان راستہ اختیار کرلیں، اس سے معلوم ہوا کہ جن نمازوں میں قرأت جہر سے پڑھی جاتی ہے ان میں اتنا جہر کافی ہے کہ اپنے مقتدی سن سکیں اتنے زور سے جہر نہ کیا جائے کہ کافروں تک بھی آواز پہنچے اور وہ متاثر ہونے کے بجائے قرآن مجید کو اور اس کے اتارنے والے اور لانے والے کو برے لفظوں میں یاد کریں، اور یوں بھی جہر مفرط کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چڑھ رہے تھے اس وقت ایک شخص نے بلند آواز سے لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ دیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ بہرے کو اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو پھر آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے فرمایا لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ جنت کے خزنوں میں سے ہے۔ (صحیح بخاری ص ٩٤٩) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن رات کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) پر گزرے پھر صبح کو فرمایا کہ ابوبکر میں تمہارے قریب سے گزرا تو معلوم ہوا کہ تم پست آواز میں قرآن شریف پڑھ رہے ہو انہوں نے عرض کیا کہ جس ذات پاک سے مناجات کر رہا تھا اس کو میں نے سنا دیا آپ نے فرمایا کہ تھوڑی سی آواز اونچی کرکے پڑھا کرو، پھر حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ میں تمہارے قریب سے گزرا تم اونچی آواز سے قرأت پڑھ رہے تھے انہوں نے عرض کیا کہ میں اپنی بلند آواز سے اونگھنے والے کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں آپ نے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو تھوڑا سا پست کرو۔ (رواہ الترمذی باب ما جاء فی القراۃ باللیل) اس کو فرمایا (وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا) (اور آپ اس کے درمیان راستہ اختیار کیجیے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

94:۔ آخر میں پوری سورت کا خلاصہ اور لب لباب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو جس نام سے چاہو پکارو مگر جب بھی پکارو اسی کو پکارو کیونکہ تمام صفات کارسازی اور اچھے نام صرف اسی کیساتھ مختص ہیں ” فلہ الاسماء الخ “ تعلیلیہ ہے اور یہ ماقبل کی علت ہے جیسا کہ سورة اعراف رکوع 22 میں فرمایا ” فللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا “ یہاں فاء فصیحہ ہے یعنی چونکہ تمام اسماء حسنی اور صفات کارسازی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں اس لیے اس کے ناموں کے ساتھ صرف اسی کو پکارو۔ 95:۔ یہ ” قل ادعوا اللہ “ سے متعلق ہے اور اس میں پکارنے کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ اے رسول ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو اللہ کو بلند آواز سے پکارو تاکہ مشرکین استہزاء کریں اور نہ بالکل آہستہ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرو تاکہ صحابہ کو تعلیم ہوجائے۔ حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے کہ یہ آیت دعاء کے بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ رواہ مسلم ایضا عن عائشۃ فی قولہ عز وجل (ولا تجھر بصلاتک و لا تخافت بھا) قالت انزل ھذا فی الدعاء (قرطبی ج 10 ص 344) کذا فی المظہری والمعالم وغیرہما) ۔ یہ حضرت ابن عباس اور مجاہد سے بھی منقول ہے واخرج نحوہ ابن ابی شیبۃ عن مجاھد و روی ذلک عن ابن عباس ایضا ابن جریر الخ (روح ج 15 ص 179) ۔ علاوہ ازیں آیت کا سیاق وسباق بھی قرینہ ہے کہ صلوۃ سے دعا مراد ہے پہلے ” قل ادعوا اللہ “ میں خالصۃً اللہ کو پکانے کا حکم دیا گیا اور آخر میں ” و قل الحمد للہ “ سے خالصۃ اللہ کو پکارنے کی دلیل اور علت بیان کی گئی اس لیے قرین قیاس اور موافق سیاق وسباق یہی ہے کہ درمیان والے حصے کو بھی دعاء ہی سے متعلق کیا جائے۔ ” ایا “ حرف شرط اور فھو حسن اس کی جزا محذوف ہے اور ” فلہ الاسماء الحسنی “ جزاء کے قائم مقام ہے جو حقیقت میں شرط کی علت بیان کر رہی ہے۔ وجملۃ فلہ الاسماء الحسنی واقعۃ موقع جواب الشرط وھی فی الحقیقۃ تعلیل لہ وکان اصل الکلام ایا ما تدعوہ بہ فھو حسن لان لہ سبحانہ الاسماء الحسنی اللاتی منھا ھذان (روح ج 5 ص 177) ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ صلوۃ سے نماز میں قراءت قرآن مراد ہے جب آپ مکہ میں دار ارقم میں چھپ کر صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے فرماتے۔ مشرکین سن کر بد زبانی کرنے لگتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نہ تو اس قدر بلند آواز سے تلاوت فرمائیں کہ مشرکین سن کر گالیاں دینے لگیں اور نہ اس قدر آہستہ پڑھیں کہ صحابہ کرام سن کر اخذ نہ کرسکیں بلکہ دونوں کے مابین متوسط روش اختیار کریں۔ سورة بنی اسرائیل میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات (1) ۔ ” سبحن الذی اسری “ تا ” انہ ھو السمیع البصیر “۔ نفی شرک فی التصرف پر دلیل وحی۔ (2) ۔ ” و اتینا موسیٰ الکتب “ تا ” الا تتخذو من دونی وکیلا “ نفی شرک فی التصرف پر دلیل نقلی موسیٰ (علیہ السلام) سے۔ (3) ۔ ” و جعلنا الیل والنھار “ تا ” فصلنہ تفصیلا “ (رکوع 2) نفی شرک اعتقادی۔ (4) ۔ ” و لا تجعل مع اللہ الھا اخر الخ “ نفی شرک فی التصرف۔ (5) ۔ ” و قضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ رفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا بیان۔ (6) ۔ ” ان ربک یبسط الرزق “ تا ” خبیرا بصیرا “ (رکوع 2) نفی شرک فی التصرف و شرک فی العلم۔ (7) ۔ ” قل لو کان معہ الھۃ “ تا ” انہ کان حلیما غفورا “ (رکوع 5) ۔ نفی شرک فی التصرف (8) ۔ ” و ربک اعلم بمن فی السموات والارض “ تا ان عذاب ربک کان محذورا۔ (رکوع 6) نفی شرک فی العلم و شرک فی التصرف (9) ۔ ” وشارکھم فی الاموال و الاولاد و عدھم “ (رکوع 7) ۔ نفی شرک فعلی۔ (10) ۔ ” ربکم الذی یزجی “ تا ” و کان الانسان کفورا “۔ نفی شرک فی التصرف۔ (11) ۔ وان کا دو لیفتنونک عب الذی اوحینا الیک۔ تا۔ ” ثم لا تجد لک علینا نصیرا “۔ نفی تصرف و اختیار از آنحضرت (علیہ السلام) (12) ۔ ” ولئن شئنا لنذھبن بالذی “ تا ” علینا وکیلا۔ “ نفی تصرف و اختیار از آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (13) ۔ ” قل ادعو اللہ و ادعوا الرحمن “ تا ” و کبرہ تکبیرا “۔ نفی شرک فی التصرف۔ سورة بنی اسرائیل ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 10 اے پیغمبر ! آپ فرما دیجیے کہ تم اللہ کہہ کر پکارو یا اس کو رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے چاہے پکارو اچھے اچھے سب نام اسی کے لئے خاص ہیں اور اپنی نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھا کیجیے اور نہ اس نماز میں بالکل چپکے چپکے پڑھا کیجیے بلکہ دونوں کے مابین ایک متوسط طریقہ اختیار کر لیجیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یا اللہ یا رحمٰن سن کر کافر کہتے کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کے ایک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دو نام پکارا کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی دو معبودوں کا قائل ہے۔ اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ اس کو کسی نام سے پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں اور جب مسمی ایک ہے تو نام خواہ کتنے ہی ہوں شرک تو جب ہوتا جب مسمی بھی دو یا دو سے زائد ہوتے۔ دوسری بات نماز میں قرأت کا معاملہ تھا نماز میں جب آپ قرأت پڑھتے تو کافر قرآن کریم کی توہین کا ارتکاب کرتے اور بکواس بکتے اور اگر بالکل اخفاء کرتے تو مقتدیوں کے پلے کچھ نہ پڑتا یہ شاید جہری نماز میں ہوتا ہوگا اس لئے درمیانی طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ دعا کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عاشہ کا یہی خیال تھا قبیلہ تمیم کا ایک بدو حضور کے سلام پھیرتے ہی پکار کر کہتا یا اللہ مجھے اونٹ دے مجھے اولاد دے اس پر حکم ہوا کہ دعا میں نہ تو بہت جہر کرو نہ بالکل اخفاء بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں رحمٰن نام اللہ کا عرب کے لوگ نہ جانتے تھے اس پر یہ فرمایا کہ نام بہترے ہیں اللہ وہی ایک ہے اور نماز میں بہت چلانا بھی نہیں اور بہت دبی آواز بھی نہیں بیچ کی چال پسند ہے۔ 21