Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 12

سورة بنی اسراءیل

وَ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ اٰیَتَیۡنِ فَمَحَوۡنَاۤ اٰیَۃَ الَّیۡلِ وَ جَعَلۡنَاۤ اٰیَۃَ النَّہَارِ مُبۡصِرَۃً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا ﴿۱۲﴾

And We have made the night and day two signs, and We erased the sign of the night and made the sign of the day visible that you may seek bounty from your Lord and may know the number of years and the account [of time]. And everything We have set out in detail.

ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں ، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کر دیا ہےاور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہرچیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Night and Day are Signs of the Great Power of Allah Allah says: وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ايَتَيْنِ فَمَحَوْنَا ايَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا ايَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ... And We have appointed the night and the day as two Ayat (signs). Then, We have obliterated the sign of the night (with darkness) while We have made the sign of the day illuminating, Allah reminds us of the great signs that He created, including the alternation of the night and day, so that people may rest at night, and go out and earn a living, do their work, and travel during the day, and so that they may know the number of days, weeks, months and years, so they will know the appointed times for paying debts, doing acts of worship, dealing with transactions, paying rents and so on. Allah says: ... لِتَبْتَغُواْ فَضْلً مِّن رَّبِّكُمْ ... that you may seek bounty from your Lord, meaning, in your living and travels etc. ... وَلِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ... and that you may know the number of the years and to count. If time stood still and never changed, we would not know any of these things, as Allah says: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ مَنْ إِلَـهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَأءٍ أَفَلَ تَسْمَعُونَ قُلْ أَرَءَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ مَنْ إِلَـهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ أَفلَ تُبْصِرُونَ وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُواْ فِيهِ وَلِتَبتَغُواْ مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ Say: "Tell me! If Allah made the night continuous for you till the Day of Resurrection, which god besides Allah could bring you light! Will you not then hear!" Say: "Tell me! If Allah made the day continuous for you till the Day of Resurrection, which god besides Allah could bring you night wherein you rest! Will you not then see!" It is out of His mercy that He has made for you the night and the day that you may rest therein and that you may seek of His bounty - and in order that you may be grateful. (28:71-73) تَبَارَكَ الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَأءِ بُرُوجاً وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجاً وَقَمَراً مُّنِيراً وَهُوَ الَّذِى جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُوراً Blessed be He Who has placed the big stars in the heaven, and has placed therein a great lamp (sun), and a moon giving light. And He it is Who has put the night and the day in succession, for such who desires to remember or desires to show his gratitude. (25:61-62) وَلَهُ اخْتِلَـفُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ and His is the alternation of night and day. (23:80) يُكَوِّرُ الَّيْـلَ عَلَى النَّهَـارِ وَيُكَوِّرُ النَّـهَارَ عَلَى الَّيْلِ وَسَخَّـرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُـلٌّ يَجْرِى لاًّجَـلٍ مُّسَـمًّى أَلا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ He makes the night to go in the day and makes the day to go in the night. And He has subjected the sun and the moon. Each running (on a fixed course) for an appointed term. Verily, He is the All-Mighty, the Oft-Forgiving. (39:5) فَالِقُ الاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (He is the) Cleaver of the daybreak. He has appointed the night for resting, and the sun and the moon for reckoning. Such is the measuring of the All-Mighty, the All-Knowing. (6:96) وَءَايَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَـا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ And a sign for them is the night. We withdraw therefrom the day, and behold, they are in darkness. And the sun runs on its fixed course for a term (appointed). That is the decree of the All-Mighty, the All-Knowing. (36:37-38) Allah has made the night a sign having distinguishing features by which it is known. These features include the darkness and the appearance of the moon. The day also has distinguishing features by which it is known; the light and the appearance of the shining sun. He made a distinction between the light of the moon and the light of the sun, so that they may be distinguished from one another, as Allah says: هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَأءً وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ It is He Who made the sun a shining thing and the moon a light and measured out for it stages that you might know the number of years and to count (periods of time). Allah did not create this but in truth. (10:5) until, لاايَـتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَ (Ayat for those people who keep their duty to Allah, and fear Him much). (10:6) يَسْـَلُونَكَ عَنِ الاَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ They ask you about the crescent moons. Say: "These are signs to mark fixed periods of time for mankind and for the pilgrimage." (2:189) ... فَمَحَوْنَا ايَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا ايَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ... Then, We have obliterated the sign of the night (with darkness) while We have made the sign of the day illuminating, Ibn Jurayj reported that Abdullah bin Kathir commented on this Ayah: "(It means) the darkness of the night and the twilight of the day." Ibn Jurayj reported that Mujahid said: "The sun is the sign of the day and the moon is the sign of the night. فَمَحَوْنَا ايَةَ اللَّيْل (We have obliterated the sign of the night), this refers to the moon's blackness, which is how Allah has created it." وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ايَتَيْنِ ... And We have appointed the night and the day as two Ayat. Ibn Abi Najih reported that Ibn Abbas said: "By night and day, this is how Allah created them, may He be glorified." ... وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلً And We have explained everything (in detail) with full explanation.

دن اور رات کے فوائد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے ۔ رات آرام کے لئے دن تلاش معاش کیلئے ۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر و سفر کرو ۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی ، جمعوں کی ، مہینوں کی ، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں ، معاملات میں ، قرض میں ، مدت میں ، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے ۔ اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لا دے ؟ یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں ۔ یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لئے بنائی اور دن تلاش معاش کے لئے ۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا تار آنے والے بنایا تاکہ شکر و نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں ۔ اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے ۔ سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے ۔ صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا انداہ ہے ۔ رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سورج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے ۔ سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جا سکے ۔ سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں اللہ کی یہ پیدائش حق ہے ۔ الخ قرآن میں ہے لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دے کہ وہ لوگوں کے لئے اوقات ہیں اور حج کے لئے بھی الخ رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے ۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بہ نسبت سورج کے اندر کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دہبہ رکھ دیا ہے ۔ این الکواء نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ چاند یہ جھائیں کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند میں سیاہ دھندلکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کر دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی رات کو بےنور یعنی تاریک کردیا تاکہ تم آرام کرسکو اور تمہاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجائے اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعے سے تم رب کا فضل تلاش کرو۔ علاوہ ازیں رات اور دن کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہفتوں، مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کرسکو، اس حساب کے بھی بیشمار فوائد ہیں۔ اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام اور سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اسی طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ رہتا۔ 12۔ 2 یعنی انسان کے لئے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کردی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اٹھائیں، اپنی دنیا سنواریں اور آخرت کی بھی فکر اور اس کے لئے تیاری کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١ ١] ہر رات کا ذکر سے پہلے۔ دن کا شمار شام سے اگلی شام تک تدریج وامھال کا قانون فطری ہے۔ دن اور رات کے فائدے :۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ہی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری تقویم یہی ہے کہ دن (٢٤ گھنٹے) کا شمار ایک شام یا غروب آفتاب سے لے کر دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ہو۔ دن خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، راتیں لمبی ہو رہی ہوں یا چھوٹی یہ مدت ہمیشہ اور ہر موسم میں برابر ٢٤ گھنٹے) ہی رہے گی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دن، رات کے آنے جانے میں نہ رات کی تاریکی یکدم آتی ہے اور نہ ہی دن اپنی پوری روشنی اور پوری تمازت کے ساتھ یکدم نمودار ہوتا ہے بلکہ اللہ کے ہر کام میں امہال اور تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ رات کی تاریکی آتی ہے تو بتدریج چاند کی روشنی آتی اور بڑھتی ہے تو بتدریج اسی طرح سورج کی روشنی اور تمازت بھی بتدریج بڑھتی ہے۔ پھر موسموں میں جو تبدیلی آتی ہے وہ بھی بتدریج آتی ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو وہاں بھی یہی تدریج اور امہال کا قانون کارفرما ہوتا ہے۔ انسان کے جلدی مچانے سے کچھ نہیں بنتا۔ پھر اس طرح رات اور دن کی آمدورفت میں انسانوں کے لیے کئی فائدے بھی ہیں۔ دن کو وہ کسب معاش کرسکتے ہیں اور رات کو آرام۔ علاوہ ازیں وہ اسی نظام لیل و نہار سے مدت کی تعیین اور اس کا شمار بھی کرسکتے ہیں۔ [٢ ١] اضداد کے وجود سے دنیا کی رنگینی قائم ہے اور یہی اللہ کی حکمت ہے :۔ یہاں ہر چیز سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو ان کی ضد سے پہچانا جاتا ہے۔ یعنی رات کے مقابلہ میں دن، تاریکی کے مقابلہ میں روشنی، حرارت کے مقابلہ میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ۔ اس اختلاف سے ہی یہ کارخانہ عالم قائم ہے یعنی اگر ہمیشہ دن ہی رہتا یا ہمیشہ رات ہی رہتی تو اس زمین پر نہ انسان کا وجود قائم رہتا اور نہ ہی کسی دوسرے جانور کا۔ نہ ہی کوئی نباتات اگ سکتی۔ اسی طرح اگر یہاں سارے انسان نیک ہی ہوتے یا بدکاریوں کو کلیتاً تباہ کردیا جاتا تو بھی انسان کی پیدائش کا کچھ مقصد باقی نہ رہتا لہذا روحانی طور پر اس دنیا کی آبادی میں یہ حکمت مضمر ہے کہ یہاں حق بھی موجود رہے اور باطل بھی اور ان میں معرکہ آرائی ہوتی رہے۔ ان کی آمدورفت ہوتی رہے اور انسان کی آزمائش کا سلسلہ جاری رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ : ان دونوں کو نشانیاں اس لیے قرار دیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا، اس کی کمال کاریگری اور قدرت کا اور اس اکیلے کے عبادت کا حق دار ہونے کا پتا چلتا ہے۔ رات اور دن کو بطور دلیل اور نعمت کے قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (٣٧) ، یٰسٓ (٣٧) ، یونس (٦) ، آل عمران (١٩٠) ، بقرہ ( ١٦٤) ، فرقان ( ٦٢) ، سورة زمر (٥) اور دیگر آیات۔ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ ۔۔ : ” مَحَا یَمْحُوْ مَحْوًا “ (ن) کسی چیز کا نشان ختم کردینا، مٹا دینا، یعنی رات اور دن جس طرح نشانیاں ہیں اسی طرح ان کا وجود اور ان کا کم یا زیادہ ہوتے ہوئے مسلسل روزانہ ایک دوسرے کے پیچھے آنا بھی نعمت ہیں، کیونکہ رات کی تاریکی اور خاموشی انسان کے سکون، راحت اور نیند کے لیے ضروری ہے اور دن کی روشنی ہر کام کے لیے اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ اللہ کا انعام ہے کہ آرام کے لیے رات بنادی، پھر اسے مٹا کر کام کے لیے دن بنادیا، اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ رات یا ہمیشہ دن بنا دیتا تو زندگی کا سلسلہ کس طرح قائم رہ سکتا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١ تا ٧٣) ، سورة نبا (٩ تا ١١) اور سورة روم (٢٣) ۔ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ : یعنی اگر نہ دن رات ہوتے اور نہ رات اور دن کے بتدریج روزانہ چھوٹے یا بڑے ہونے کا سلسلہ ہوتا، نہ چاند کے ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال بننے کی منزلیں ہوتیں تو ہمیشہ ایک جیسا موسم رہتا اور سال اور مہینوں کا کچھ پتا نہ چلتا، نہ وقت کا وجود ہوتا جس پر کئی دینی معاملات، مثلاً نماز، روزے، زکوٰۃ، حج، عید، عدت وغیرہ کا اور تمام دنیوی معاملات کا انحصار ہے۔ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا : یعنی ہر وہ چیز جس میں تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اسے ہم نے خوب کھول کر بیان کردیا ہے۔ ” تَفْصِيْلًا “ مصدر تاکید کے لیے ہے، اس لیے معنی کیا ہے خوب کھول کر بیان کرنا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٣٨) اور سورة نحل (٨٩) ۔ ان آیات (١٠ تا ١٣) کی باہمی مناسبت ابن عاشور اور شاہ عبد القادر ; کے کلام کو ملا کر یہ ہے کہ آیت (١٠) میں جب کفار کے لیے عذاب الیم تیار کرنے کا ذکر فرمایا تو آیت (١١) میں کفار کے اس عناد پر مبنی مطالبے کی وجہ بتائی جو وہ مسلمانوں سے کرتے تھے کہ وہ عذاب الیم ابھی لاؤ، چلو ہم پر آسمان گرا دو ، اللہ تعالیٰ ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے۔ فرمایا انسان جلد بازی سے بغیر سوچے سمجھے اپنے نقصان کی دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور خود انسان کی مصلحت کا تقاضا اس کی بددعا کو قبول نہ کرنا ہے۔ (ابن عاشور) آیت (١٣) میں بتایا کہ کفار کے جلد عذاب کے مطالبے سے یا مسلمانوں کے کفار کو فوراً برباد کرنے کی بددعا سے کچھ حاصل نہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” گھبرانے سے فائدہ نہیں، ہر چیز کا وقت اور اندازہ مقرر ہے، جیسے رات اور دن، کسی کے گھبرانے سے رات کم نہیں ہوجاتی، اپنے وقت پر آپ صبح ہوجاتی ہے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the verses cited above, first it was declared that the alternation of night and day was a sign of the most perfect power of Allah Ta` ala. Then it was said that there was great wisdom in the making of the night dark and the day, bright. As for the wise consideration behind the making of the night dark, it was not mentioned at this place. It has, however, been mentioned in other verses that the darkness of the night is appropriate and conducive to sleep and rest. The divine arrangement is such that hu¬mans and animals go to sleep in the darkness of that very night. In fact, the whole world sleeps simultaneously in harmony with its night. Had different people been scheduled to sleep at different timings, the noises made by those awake and those working at jobs would have turned the sleep of the sleeping into a nightmare. As for the day being bright, it has two elements of wisdom. Firstly, one can earn his living in the light of the day and natural light is needed for jobs, businesses and industries. Secondly, the alternation of night and day helps one know the number of years, for instance, the comple¬tion of three hundred and sixty days tells us that a full year has gone by. Similarly, other calculations are also related to the alternation of night and day. If this variation of night and day were not there, it would have been difficult to fix the wages of the wage earner, the employment of the employee and the time duration of transactions.

خلاصہ تفسیر : ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا سو رات کی نشانی (یعنی خود رات) کو ہم نے دھندلا بنادیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا (کہ اس میں سب چیزیں بےتکلف دکھائی دیں) تاکہ (دن میں) اپنے رب کی روزی تلاش کرو اور (رات اور دن کی آمدو رفت اور دونوں کے رنگ میں امتیاز کہ ایک روشن دوسرا اندھیرا ہے اور دونوں کی مقداروں میں اختلاف سے) برسوں کا شمار اور (دوسرے چھوٹے چھوٹے) حساب معلوم کرلو (جیسا کہ سورة یونس کے پہلے رکوع میں بیان ہوا ہے) اور ہم نے ہر چیز کو خوب تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے (لوح محفوظ میں تو تمام کائنات کی مکمل تفصیل بغیر کسی استثناء کے ہے اور قرآن کریم میں تفصیل بقدر ضرورت ہے اس لئے یہ بیان دونوں کی طرف منسوب ہوسکتا ہے) اور ہم نے ہر (عمل کرنے والے) انسان کا عمل (نیک ہو یا بد) اس کے گلے کا ہار بنا رکھا ہے (یعنی ہر شخص کا عمل اس کے ساتھ لازم و ملازم ہے) اور (پھر) قیامت کے دن اس کا اعمال نامہ اس کے (دیکھنے کے) واسطے نکال کر سامنے کردیں گے جس کو وہ کھلا ہوا دیکھ لے گا (اور اس سے کہا جاوے گا کہ لے) اپنا اعمال نامہ (خود) پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب جانچنے کے لئے کافی ہے (یعنی اس کی ضرورت نہیں کہ تیرے اعمال کو کوئی دوسرا آدمی گناوے بلکہ تو خود ہی اپنا نامہ اعمال پڑھتا جا اور حساب لگاتا جا کہ تجھے کتنی سزا اور کتنی جزاء ملنی چاہئے مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ابھی عذاب سامنے نہیں آیا مگر وہ ٹلنے والا نہیں ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ انسان اپنے سب اعمال کو کھلی آنکھوں دیکھ لے گا اور عذاب کی حجت اس پر قائم ہوجائے گیا اور) جو شخص (دنیا میں سیدھی) راہ پر چلتا ہے وہ اپنے ہی نفع کے لئے چلتا ہے اور جو شخص بےراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنے ہی نقصان کے لئے بےراہ ہوتا ہے (وہ اس وقت اس کا خمیازہ بھگتنے کا کسی دوسرے کا کچھ نقصان نہیں کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہ اٹھاوے گا (اور جس کسی کو کوئی سزا دیجاتی ہے وہ اس پر حجت تمام کرنے کے بعد دی جاتی ہے کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ) ہم (کبھی) سزا نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو (اس کی ہدایت کے لئے) نہیں بھیج لیتے۔ معارف و مسائل : آیات مذکورہ میں اول رات اور دن کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیا اور پھر بتلایا کہ رات کو تاریک اور دن کو روشن کرنے میں بڑی حکمتیں ہیں رات کے تاریک کرنے کی حکمت تو اس جگہ بیان نہیں فرمائی دوسری آیات میں مذکور ہے کہ رات کی تاریکی نیند اور آرام کے لئے مناسب ہے اور قدرت نے ایسا نظام بنادیا ہے کہ ہر انسان اور جانور کو اسی رات کی تاریکی میں نیند آتی ہے پورا عالم بیک وقت محو خواب ہوتا ہے اگر مختلف لوگوں کی نیند کے مختلف اوقات ہوتے تو جاگنے والوں کے شور وشغب اور کام کاج کی وجہ سے سونے والوں کی نیند بھی حرام ہوجاتی۔ اور دن کو روشن کرنے کی اس جگہ دو حکمتیں بیان فرمائی ہیں اول یہ کہ دن کی روشنی میں آدمی اپنی روزی تلاش کرسکتا ہے محنت مزدوری صنعت وحرفت سے متعلق ہیں اگر رات دن کا یہ اختلاف نہ ہو تو مزدور کی مزدوری ملازم کی ملازمت معاملات کی میعادیں متعین کرنا سب مشکل ہوجائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا 12؀ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ محو المَحْو : إزالة الأثر، ومنه قيل للشّمال : مَحْوَةٌ ، لأنها تَمْحُو السّحاب والأثر . قال تعالی: يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] . ( م ح و ) المحو ( ن ) کے معنی کسی چیز کے اثر اور نشان کو زائل کرنا اور مٹا دینا کے ہیں ۔ اسی سے بادشاہ کو محوۃ کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بادل کے آثار اور نشانات کے مٹادیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] خدا جس کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے ۔ اور ( جس کو چاہتا ہے ) قائم رکھتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ابتغاء البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فمحونا ایۃ اللیل رات کی نشانی کو ہم نے نور بنادیا) یعنی ہم نے اسے اس طرح کردیا کہ وہ بےنور ہوگئی جس طرح کتاب کے لئے ہوئے الفاظ بےنور ہوتے ہیں، فقرے میں بلاغت اپنے انتہا کر پہنچی ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ” ہم نے رات کی نشانی یعنی اس تاریکی کو مٹا دینا جو چاند کے اندر ہے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور ہم نے چاند اور سورج کو اپنی قدرت کی دو نشانیاں بنائیں سو ہم نے رات کی نشانی یعنی چاند کی روشنی کو دھندلابنایا اور سورج کو خوب روشن بنایا تاکہ تم دن میں دنیا وآخرت کماؤ اور تاکہ چاند کی کمی اور زیادتی سے برسوں، مہینوں اور دنوں کا حساب معلوم کرلو اور ہم نے حلال و حرام اور اوامرو نواہی میں سے ہر ایک چیز کو قرآن کریم میں خوب تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ) دن کو روشن بنایا تاکہ اس کی روشنی میں تم لوگ آسانی سے کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرسکو۔ (وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا ) یہ دن اور رات کا الٹ پھیر ہی ہے جو نظام الاوقات کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور دنوں سے ہفتے مہینے اور پھر سال بنتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. Allah invites man to study the wisdom that underlies variety in the world and not get confused and long for monotonous uniformity. In fact, the whole system is based on variety, distinctiveness and diversity in things. For the sake of illustration let us take the case of the signs of day and night: You see these opposite things daily in your life. If you just consider the underlying wisdom, you will find that without this variety there would have been hardly any activity in the world. Likewise great wisdom lies in the creation of the people with different temperaments, thoughts and inclinations. If Allah had made all men righteous by birth or annihilated disbelievers and wicked people and left only believers and submissive people in the world, the purpose of men’s creation could not leave been realized. Therefore, it is wrong to desire that there should only be day and no night. The righteous thing is that these people, who have the light of guidance, should exert their utmost to remove the darkness of deviation. It is their duty that if they find darkness like that of night, they should pursue it like the sun so that the light of guidance should reappear.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :13 مطلب یہ ہے کہ اختلافات سے گھبرا کر یکسانی ویک رنگی کے لیے بے چین نہ ہو ۔ اس دنیا کا تو سارا کارخانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے ۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں ۔ دیکھوں کہ ان کے اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں ۔ اگر تم پر دائما ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا ؟ پس جس طرح تم دیکھ رہے ہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں ، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رحجانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے ۔ خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالی اپنی فوق الفطری مداخلت سے اس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبرا نیک اور مومن بنا دے ، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایمان و طاعت ہی کو باقی رکھا کرے ۔ اس کی خواہش کرنا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن میں رہا کرے ، رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو ۔ البتہ خیر جس چیز میں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں ، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اس کا پیچھا کریں ، یہاں تک کہ روز روشن نمودار ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی دن اور رات کا ایک دوسرے کے بعد تسلسل کے ساتھ آنا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت وحکمت کی نشانی ہے، رات کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے، تاکہ لوگ اس میں آرام کرسکیں اور دن کے وقت روشنی ہوتی ہے تاکہ لوگ اپنا روز گار تلاش کرسکیں، جس کو قرآن کریم‘‘ اللہ کا فضل ’’ سے تعبیر کرتا ہے اور رات اور دن کے بدلنے ہی سے تاریخوں کا تعین ہوتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢:۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اپنی دونوں نشانیوں رات و دن کا ذکر کیا کہ یہ دونوں دو نشانیاں جدا جدا ہیں ایک ان میں سے تاریک ہے دوسری روشن ہے اور ہر ایک دوسری کے پیچھے اس طرح لگاتار آتی جاتی رہتی ہے کہ کبھی کسی کا دورہ ختم نہیں ہوتا ان میں وہ عجائبات قدرت رکھے ہیں جن کے جاننے اور سمجھنے کی قدرت انسان کو نہیں ہے اور بےشبہ دونوں اللہ کی ہستی کی دلیلیں ہیں پھر یہ ذکر فرمایا کہ ہم نے رات کی نشانی کو اندھیرا کردیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا پھر اس کے بعد اللہ پاک نے اپنے بندوں پر اس بات کا احسان جتلایا کہ یہ دن و رات اور چاند وسورج کا پیدا کرنا تمہارے نفع کے واسطے ہے اور رات نہ ہوتی تو تم آرام کب کرتے دن کے تھکے ماندے گھروں میں آکر ٹانگیں پھیلا کر کس طرح سوتے اور پھر اگر ہمیشہ رات ہی رہتی تو تم اپنی قوت لایموت کس وقت حاصل کرتے چلتے پھرتے کب دوست احباب سے ملاقات کب ہوتی غرض کہ ان فوائد اور نفع کے لیے دن اور رات کو خداوند جل شانہ ‘ نے پیدا کیا جس کی تفصیل انسان کی قدرت سے باہر ہے سینکڑوں فائدے اس رات کی تاریکی میں اللہ جل شانہ ‘ نے مخفی رکھے ہیں رات کی اوس درختوں پر پڑ کر اس کی نشوو نما میں ایک عجیب اثر پیدا کردیتی ہے بہت سے درخت ایسے ہیں جن میں دن کی دھوپ نہایت ہی مفید ہے دن اگر نہ ہوتا تو انسان رات کے اندھیرے میں رہتے رہتے گھبرا جاتا اسی طرح چاند کو بھی دنیا کی مخلوق میں ایک بڑا دخل ہے اور سورج بھی انسانی فائدہ کا ایک بہت بڑا مرکز قرار دیا جاتا ہے انہیں دونوں کے دورے سے رات ودن کا ظہور ہوتا ہے اور پھر ایام کے حساب کرنے سے ہفتہ اور ہفتوں سے مہینے اور مہینوں سے سال کا حساب انسان لگاتا رہتا ہے اگر تاریخ ‘ روز اور مہینوں کی گنتی حساب میں کچھ فرق پڑجائے تو تمہارے بہت سے کام ابتر ہوجاویں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ساری باتیں تفصیل کر کے بیان کردی ہیں سورة توبہ میں گزر چکا ہے کہ دنوں مہینوں اور برسوں کا حساب لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق ہے۔ مشرکین مکہ نے اس حساب میں فرق جو ڈال رکھا تھا اس کو سورة توبہ میں اللہ تعالیٰ نے کفر کی رسم فرمایا ہے فتح مکہ کے بعد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کفر کی رسم کی جو اصلاح کی ہے صحیح بخاری ومسلم کی ابی بکرہ (رض) کی حدیث کے حوالہ سے اس کا ذکر بھی سورة توبہ میں گزر چکا ہے ١ ؎۔ حاصل یہ ہے کہ سورة توبہ کی آیتیں اور ابی بکرہ (رض) کی حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ مہینوں اور برسوں کا جو حساب اللہ تعالیٰ نے ٹھہرا دیا ہے اس میں فرق ڈالنا کفر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٤٣٦

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:12) محونا ماضی جمع متکلم۔ محر مصدر۔ باب نصر۔ ہم نے مٹا دی۔ ہم مٹا دیتے ہیں۔ ناقص واوی ہے لیکن ناقص یائی بھی آیا ہے۔ ابواب ضرب وسمع سے اور اس کا معنی بھی یہی ہے مٹانا۔ اثر زائل کرنا۔ محو کا اگرچہ اصل معنی مٹا دینا اور اثر زائل کرنے کے ہیں۔ لیکن یہاں اس سے مراد مدہم کردینا۔ یا دھندلا دینا ہے۔ فمحونا ایۃ الیل۔ ہم نے مدہم کردیا رات کی نشانی کو۔ یا دھند لابنا دیا رات والی نشانی کو۔ یعنی رات کو دن کے مقابلہ میں تاریک رکھا۔ اگر رات جزوی طور پر یا کلی طور پر چاندنی ہو تو بھی دن کے مقابلہ میں تاریک ہے اور یہ تاریکی عدم مشغولیت کے لئے ہے تا کہ رات کے وقت انسان آرام کرے جیسا کہ اور جگہ فرمایا ھو الذی جعل لکم الیل لتسکنوا فیہ والنھار مبصرا (10:67) وہ وہی اللہ تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ تم اس میں چین پائو اور دن کو (بنایا) دکھلانے والا۔ یا اور جگہ فرمایا۔ وجعلنا الیل لباسا والنھار معاشا۔ (78:10 ۔ 11) اور ہم نے رات کو پردہ کی چیز بنادیا اور ہم نے دن کو معاش (روزی کمانے) کا وقت بنادیا۔ مبصرۃ۔ خود روشن اور دوسری چیزوں کو روشن کرنے والی ۔ اسم فاعل واحد مؤنث منصوب ۔ لتبتغوا۔ میں لام تعلیل کی ہے تبتغوا مضارع جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے۔ ابتغاء (افتعال) سے اصل میں تبتغون تھا۔ نون اعرابی لام تعلیل کے عمل سے حذف ہوگیا۔ کہ تم تلاش کرو۔ تم ڈھونڈو تم چاہو۔ فضلا من ربکم۔ فضلا۔ روزی۔ رزق۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (62:10) پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین پر چلو پھرو۔ اور اللہ کا رزق تلاش کرو۔ الفضل۔ کے معنی کسی چیز کے اقتصاد (متوسط درجہ) سے زیادہ ہونے کے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں (1) محمود۔ جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی (2) مذموم۔ جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا۔ لیکن عام طور پر الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں پر۔ جب فضل کے معنی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) برتری بلحاظ جنس کے ہو۔ جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے برتر ہونا۔ (2) یہ برتری بلحاظ نوع کے ہو جیسے نوع انسان کا نوع حیوان سے برتر ہونا۔ جیسے فرمایا ولقد کرمنا بنی ادم ۔۔ وفضلناہم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا (17:70) اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔۔ اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی۔ (3) افضلیت بلحاظ ذات۔ مثلاً ایک شخص کا دوسرے شخص سے برتر ہونا۔ اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جوہر ہوتی ہے جن میں ادنی ترقی کر کے اپنے سے اعلیٰ درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا۔ مثلاً گھوڑا اور گدھا کہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات ہے اور چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے اور یہی تیسری قسم کی فضیلت ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے : ہر وہ عطیہ جو دینے والے پر لازم نہیں آتا وہ فضل کہلاتا ہے : ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء (5:54) یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرے ۔ لتبتغوا فضلا من ربکم تاکہ تم اپنے پروردگار کا رزق تلاش کرو۔ والحساب۔ اور (دوسرے سارے) حساب۔ دنیا اور دین کے سارے کاروبار جو وقت اور زمانے سے متعلق ہیں۔ وکل شیء فصلنہ تفصیلا۔ اور ہم نے ہر (ضروری) شے کو خوب تفصیل سے بیان کردیا ہے مصدر کو آخر میں تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 نمونے اس لحاظ سے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود اور کاریگری کا پتا چلتا ہے رات دن کو بطور دلیل اور نعمت کے قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔6 یعنی اگر رات دن نہ ہوتے تو ہمیشہ ایک جیسا موسم رہتا اور سال اور مہینوں کا کچھ پتا نہ چلتا اور نہ حساب رکھا جاسکتا۔ پس اس میں دینی اور دنیوی دونوں قسم کے فوائد مضمر ہیں۔ (راز) شاہ صاحب لکھتے ہیں : گھبرانے سے فائد انہیں ہر چیز کا وقت اور انداز ہ مقرر ہے جیسے رات اور دن کسی کے گھبرانے اور دعا سے رات کم نہیں ہوجاتی، اپنے وقت پر آپ صبح ہوجاتی ہے۔ (موضح)7 یعنی ہر وہ چیز جس پر تمہاری دنیا و آخرت میں فلاح کا انحصار ہے اسے ہم نے کھول کر بیان کردیا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : مافرظنا فی الکتاب من شی انعام 38 تبنانالکل شفعہ (النحل 89 (کذا فی المازی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ خواہ لوح محفوظ میں، پس کل شیء عام ہے، اور یا قرآن میں، پس کل سی سے مراد ضروری ہے، اول صورت میں مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ میں ہر شے کا جدا جدا وقت معین لکھا ہے اور دوسری صورت میں یہ کہ دیکھو قرآن میں کیسے مفید مضامین ہدایت آگئیں شبہات میں موجب تسکین مذکور ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وہ قوانین قدرت جو رات و دن کو کنٹرول کرتے ہیں ، انہی کے ساتھ انسان کے کسب اور جدوجہد کا تعلق بھی ہے۔ رات اور دن کی بنیاد پر سالوں کا حساب ہوتا ہے ، انہی کے ساتھ انسانی کسب و عمل بھی منسلک ہے۔ وہ اچھائی کرے یا برائی کرے اس پر جزاء و سزا مرتب ہوگی۔ اسی کے ساتھ ہدایت و ضلالت بھی مربوط ہے۔ اور تمام امور میں انفرادی ذمہ داری کا اصول کارفرما ہے ، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ اسی پر یہ اصول بھی طے ہوا ہے کہ اللہ کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک رسول نہ بھیج دے۔ اور اسی سے یہ اصول بھی مربوط ہے کہ جب اللہ کسی بستی کو ہلاک کرتا ہے تو تب کرتا ہے کہ اس کے مترفین اس نسبتی میں فسق و فجور اور دنگا فساد برپا کردیتے ہیں۔ اسی پر یہ اصول بھی مبنی ہے کہ بعض لوگ صرف دنیا کو طلب کرتے ہیں اور بعض آخرت کے طلبگار ہوتے ہیں ، تو اہل دنیا کو اللہ دنیا دیتا ہے اور اہل آخرت کو اللہ آخرت دیتا ہے۔ یہ تمام امور خواہ دینی اور عمرانی ہوں یا تکوینی دونوں ایک ہی ناموس الٰہی کے مطابق چلتے ہیں جو اللہ نے اس کائنات میں جاری کر رکھا ہے۔ اور یہ ناموس الٰہی اور یہ سنت المیہ اٹل ہے۔ اس کے اصولوں کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی چیز بھی محض اتفاقی نہیں ہے۔ وجعلنا الیل والنھار ایتین فمحونا ایۃ الیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ لتبتغوا فضلنا من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب وکل شئی فصلنہ تفصیلا (٧١ : ٢١) ” دیکھو ، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنایا اور دن کی نشانی کو روشن کردیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کرسکو۔ اسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیز کرکے رکھا۔ رات اور دن اس کائنات کی نہایت ہی بڑی نشانیاں ہیں اور رات اور دن کے نظام کا اصول نہایت ہی دقیق اور باریک اصول پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کبھی کوئی خلل واقع نہیں ہوا ، اس میں کبھی بھی تعطیل واقع نہیں ہوئی ، یہ رات اور ون وائما چل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ (فمحونا) سے مراد کیا ہے۔ تو (فسحونا) کا مفہوم یہی معلوم ہوتا ہے کہ رات کو روشنی نہیں ہوتی۔ اس میں اس کائنات کی حرکات اور نظارے اچھی طرح نظر نہیں آتے۔ ظاہر ہے کہ دن کی سرگرمیوں اور رنگا رنگیوں کے مقابلے میں رات کو محو اور بےنور کہہ سکتے ہیں۔ دن کھلا ہے جس میں سب کچھ نظر آتا ہے اور رات ذرا محو ہے کہ اس مین دن کی طرح سب کچھ نظر نہیں آتا۔ رات کو محو ، اس لئے رکھا گیا اور دن کو کھلا اس لئے رکھا گیا ہے کہ لتبتغوا فضلا من ربکم ولتعلموا عدد السنین والھساب (٧١ : ٢١) ” تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کرسکو “۔ رات آرام ، سکون اور ملاپ کا وقت ہوتا ہے اور دن جدوجہد ، کسب و کمائی اور قیام و سفر کے لئے ہوتا ہے اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے کی وجہ سے ماہ و سال کا حساب مکمل ہوتا ہے۔ وعدے کے وقت کا حساب ، موسم اور فصل کا حساب غرض تمام معاملات کا حساب رات اور ان کے نظام سے قائم ہے۔ وکل شئی فصلنہ تفصیلا (٧١ : ٢١) ” اور ہم نے ہر چیز کو الگ ممیز کرکے رکھ دیا ہے “۔ یعنی اس کائنات میں کوئی چیز ’ کوئی اہم اور غیر اہم بات ہم نے محض بخت و اتفاق کے حوالے نہیں کی بلکہ وہ ہمارے ناموس قدرت کے مطابق ہے۔ یا قانون قدرت پوری طرح مفصل اور جامع اور دقیق ہے مثلاً رات اور دن کی گردش ہی کو دیکھئے۔ اس سے اس کائنات کے مدبر کی گہری تدبیر کا ثبوت ملتا ہے۔ جس طرح کائنات میں ایک مکمل ضابطہ کارفرما ہے۔ اسی طرح جزاء و عمل اور قانون و مکافات عمل بھی ایک نہایت ہی گہرا اور اٹل ضابطہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس آیت کریمہ میں رات اور دن کو دو نشانیاں بتایا ہے رات بھی اللہ کی قدرت کی نشانی ہے اور دن بھی ان دونوں کا آگے پیچھے آنا کم اور زیادہ ہونا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے جاننے کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ انسان عقل سے کام لے غور و فکر کرے تو ان دونوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتا ہے سورة فرقان میں ارشاد ہے (وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا) (اور وہ وہی ہے جس نے بنا دیا رات و دن کو آگے پیچھے آنے والا اس شخص کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ کرے یا شکر گزار ہونے کا ارادہ کرے۔ ) رات اور دن کا وجود میں آنا کم و بیش ہونا کسی علاقہ میں کسی زمانہ میں رات کا زیادہ ہونا اور کسی علاقہ میں کسی زمانہ میں دن کا زیادہ ہونا سب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے تحت ہے کسی کو اس میں ذرا بھی دخل نہیں ہے سب اہل عقل اس کو جانتے اور مانتے ہیں رات کی نشانی کے بارے میں فرمایا (فَمَحَوْنَآ اٰیَۃَ الَّیْلِ ) (ہم نے رات کی نشانی کو محو کردیا) یعنی اس کو روشنی والی چیز نہیں بنایا بلکہ تاریک رکھا تاکہ دنیا والے اس میں آرام کریں اسے سورة قصص میں (لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ ) فرما کر بیان فرمایا اور دن کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اس کی نشانی کو روشن بنا دیا، لوگ اس میں چلتے پھرتے ہیں روزی کماتے ہیں صنعت و حرفت کرتے ہیں، اور تجارت کے مشاغل میں لگتے ہیں اس کو (لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ ) فرما کر بیان فرما دیا، رات کی تاریکی اور دن کی روشنی دونوں میں حکمت ہے۔ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے کا ایک اور فائدہ بھی بیان فرمایا اور وہ یہ کہ ان کے ذریعہ تم برسوں کی گنتی اور شمار سمجھ لو گے ان دونوں کے گزرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنے ہفتے گزرے اور کتنے مہینے ختم ہوئے اور کتنے سال گزر چکے ہیں ان کے گزرنے سے اپنی یا اپنے بچوں کی عمریں بھی معلوم ہوتی ہیں اور جو آپس میں معاہدے ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی معلوم ہوتا رہتا ہے کہ اتنی مدت گزر گئی اور اتنی مدت باقی رہ گئی، جب مدت معینہ ختم ہوجاتی ہے تو معاہدے بھی ختم ہوجاتے ہیں اور قرضوں کی ادائیگی کے اوقات بھی معلوم ہوجاتے ہیں، دینی امور جو اوقات سے متعلق ہیں مثلاً صبح شام اور رمضان ان کا علم بھی مہینوں کے گزرنے سے ہوجاتا ہے جو رات دن کے گزرنے آتے جاتے ہیں۔ تین سو پچپن دن گزرنے پر قمری سال پورا ہوجاتا ہے اور تین سو پینسٹھ دن گزرنے پر شمسی سال پورا ہوجاتا ہے، اگر رات ہی رات ہوتی یا دن ہی دن ہوتا تو مہینوں کا اور برسوں کا حساب نہ لگا پاتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے۔ ہم نے رات اور دن کو اپنی وحدانیت اور کمال قدرت کے لیے دلیل بنایا۔ رات دن کو ایک دوسرے سے اس طرح ممتاز کیا کہ رات میں سورج نہیں ہوتا اور دن کو سورج چمکتا ہے تاکہ تم دن کے اجالے میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکو اور رات دن کی آمد و رفت سے سالوں کی گنتی اور اپنے معاملات کا حساب کتاب کھ سکو۔ یہ رات دن کا نظام ہمارے اپنے قبضہ و تصرف میں ہے جو ہماری قدرت کاملہ اور وحدانیت کی واضح دلیل ہے۔ ای علامتین علی وحدانیتنا ووجودنا و کمال علمنا وقدرتنا (قرطبی ج 10 ص 237) یہ تمام چیزیں ہم ہی نے تمہارے نفع کے لیے پیدا کی ہیں ہمارے سوا کوئی اور خالق نہیں۔ ” ھل من خالق غیر اللہ “ تو پھر اوروں کو کیوں کارساز سمجھتے اور حاجات میں پکارتے ہو۔ ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 اور ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی دو نشانیاں بنایا اور مقرر کیا ہے پھر ہم نے رات کی نشانی کو رات ہی ہے مٹا دیا اور ماند کردیا اور تاریک کردیا اور دن کی نشانی کو جو دن ہی ہے روشن بنایا دیکھنے کو تاکہ اپنے رب کی روزی کو تلاش کرو اور نیز اس لئے کو تم برسوں کی گنتی اور مختلف قسم کے حساب معلوم کرسکو اور ہم نے ہر چیز کو مفصل اور خوب تفصیل کے ساتھ بیان کردیا۔ یعنی رات دن میں فرق رکھا رات کو تاریک اور دن کو روشن بنایا اور ان سے جو فوائد مرتب ہوتے ہیں رات دن کا باری باری آنا۔ چھوٹا بڑا ہونا۔ غرض ہر کام کی مصلحت نمایاں ہے دن میں عام طور سے ہر شخص روزی کماتا ہے اور رات کو آرام یا خفیہ امور انجام دیئے جاتے ہیں اور تمام حسابات خواہ وہ قمری ہوں یا شمسی، اسی گردش لیل و نہار سے انجام پاتے ہیں اور یہ جو فرمایا ہے ہر شئے کو مفصل کیا ہے یا لوح محفوظ ہیں یا قرآن کریم میں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ گھبرانے سے فائدہ نہیں ہر چیز کا وقت و اندازہ مقرر ہے جیسے رات اور دن کسی کے گھبرانے سے اور دعا سے رات کم نہیں ہوجاتی اپنے وقت پر آپ صبح ہوتی ہے اور دونوں نمونے اس کی قدرت کے ہیں۔