Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 13

سورة بنی اسراءیل

وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا ﴿۱۳﴾

And [for] every person We have imposed his fate upon his neck, and We will produce for him on the Day of Resurrection a record which he will encounter spread open.

ہم ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پا لے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every Person will have the Book of his Deeds with Him After mentioning time, and the deeds of the son of Adam that take place therein, Allah says: وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَأيِرَهُ فِي عُنُقِهِ ... And We have fastened every man's Ta'irah (deeds) to his neck, The word Ta'irah (lit. something that flies) refers to man's deeds which fly from him, as Ibn Abba... s, Mujahid and others said. It includes both good deeds and bad deeds, he will be forced to acknowledge them and will be rewarded or punished accordingly. فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَن يَعْـمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ So whosoever does good equal to the weight of a speck of dust shall see it. And whosoever does evil equal to the weight of a speck of dust shall see it. (99:7-8) Allah says: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (Remember) that the two receivers (recording angels) receive (each human being), one sitting on the right and one on the left (to note his or her actions). Not a word does he (or she) utter but there is a watcher by him ready (to record it). (50:17-18) وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَـفِظِينَ كِرَاماً كَـتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ But verily, over you (are appointed angels in charge of mankind) to watch you, Kiraman (Honorable) Katibin - writing down (your deeds), they know all that you do. (82:10-12) إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ You are only being requited for what you used to do. (52:16) مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ whosoever works evil, will have the recompense thereof. (4:123) The meaning is that the deeds of the sons of Adam are preserved, whether they are great or small, and they are recorded night and day, morning and evening. ... وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا and on the Day of Resurrection, We shall bring out for him a Book which he will find wide open. meaning, `We will collect all of his deeds for him in a Book which will be given to him on the Day of Resurrection, either in his right hand, if he is one of the blessed, or in his left hand if he is one of the wretched.' مَنشُورًا (wide open) means, it will be open for him and others to read all of his deeds, from the beginning of his life until the end. يُنَبَّأُ الاِنسَـنُ يَوْمَيِذِ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الاِنسَـنُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ On that Day man will be informed of what (deeds) he sent forward, and what (deeds) he left behind. Nay! Man will be a witness against himself, though he may put forth his excuses. (75:13-15) Allah says: اقْرَأْ كَتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا   Show more

انسان کے اعمال اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا ۔ نیکی کا نیک ۔ بدی کا بد ۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو ؟ جیسے فرمان ہے ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شر ... ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا ۔ اور جیسے فرمان ہے دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں ۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں ۔ اور آیت میں ہے تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ اور جگہ ہے ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی ۔ مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن نیک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں البتہ ہر انسان کی شامت عمل اس کی گردن میں ہے ۔ ابن لہیعہ فرماتے ہیں یہاں تک کہ شگون لینا بھی ، لیکن اس حدیث کی یہ تفسیر غریب ہے واللہ اعلم ، اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں ۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پرھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اس دن انسان اپنے تمام اگلے پچھلے اعمال سے خبردار کر دیا جائے گا انسان تو اپنے معاملے میں خود ہی حجت ہے گو اپنی بےگناہی کے کتنے ہی بہانے پیش کر دے ۔ اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی ۔ اس لئے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا ۔ گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لئے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہم اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعرونں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں ، فال کوئی چیز نہیں ، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے اور روایت میں ہے کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے ۔ آپ کا فرمان ہے کہ ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مومن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دو قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں طائر سے مراد عمل ہیں ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے ۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 طَائِر کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُق کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے عمل کے لئے ہیں۔ فِیْ عُنُقِہِ کا مطلب ہے، اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ر... یکارڈ محفوظ ہوگا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بدبختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہوگی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣ ١] انسان کا اعمال نامہ اس کے وجود کے اندر ہے :۔ طائر کا لغوی معنی پرندہ ہے اور دوسرا معنی شومئی قسمت ہے۔ مگر اس سے مراد انسان کا اعمال نامہ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی بدبختی یا نیک بختی کا ریکارڈ باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ وہ خود انسان کے اندر موجود ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک د... وسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ 14؀ۙ ) 75 ۔ القیامة :14) بلکہ انسان اپنے آپ پر خود ہی دلیل ہے۔ اگرچہ (اپنی بےقصوری کے لیے بہانے پیش کرے) اور اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دائیں اور بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو اس کا ایک ایک چھوٹا بڑا عمل ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہیں اور اس کا یہ اعمال نامہ تیار ہوتا رہتا ہے اور یہی توجیہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اور موجودہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے یا زبان سے الفاظ نکالتا ہے تو اس کے اثرات اس کے بدن پر مترتب ہوتے ہیں اور فضا میں بھی محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ اور مدت مدید تک قائم رہتے ہیں۔ پھر جب قیامت کی صبح نمودار ہوگی تو انسان کی نگاہ اس قدر تیز ہوجائے گی کہ انسان یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ سکے گا۔ یہ خارجی شہادات اس کے اعمال نامہ کے علاوہ ہوں گی جس کا ذکر کتاب و سنت میں جابجا موجود ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ ۔۔ : ” طَاءِرٌ“ کا لفظی معنی اڑنے والا ہے۔ مراد کسی بھی چیز کا وہ جز ہے جو انسان کے حصے میں آئے، گویا وہ اڑ کر اس کے پاس آتا ہے۔ شگون لینے یا قرعہ ڈالنے کی صورت میں اس کے حق میں نکلنے والا نتیجہ خواہ اچھا ہو یا برا۔ انسان کے حصے میں آنے والی چیز یا اس کا عمل جو اس نے ک... رنا ہے اور اس کا رزق جو اسے ملنا ہے، سب پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وتمیز دے کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر چلے یا غلط راستے پر، نیک عمل کرے یا بد، پھر بھی اس نے جو کچھ کرنا ہے، خواہ اس کے اختیار میں ہے، جیسے نیکی یا بدی اور خواہ اس کے اختیار میں نہیں ہے، جیسے اس کی عمر، اسے پیش آنے والے اچھے یا برے حوادث، سب اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہے اور وہ ہر انسان نے کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اندازہ (تقدیر) غلط نہیں ہوسکتے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہر انسان کے نصیب اور حصے میں جو کچھ آنے والا ہے وہ ہم نے اس کی گردن کے ساتھ لازم کردیا ہے، جیسے گردن میں پڑا ہوا طوق یا ہار۔ جو چیز کسی کو لازم کردی جائے اور وہ اس سے جدا نہ ہو سکے اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ” أَلْزَمْتُہُ فِيْ عُنُقِہِ “ کہ میں نے اسے اس کی گردن میں چپکا دیا ہے۔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : آیت کا پہلا حصہ تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ حصہ انسان کے ان اعمال سے متعلق ہے جو اس نے دنیا میں کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تحریر کرنے کے لیے فرشتے مقرر فرما رکھے ہیں۔ دیکھیے سورة قٓ (١٦ تا ١٨) اور انفطار (١٠ تا ١٢) ان کی تیار کردہ کتاب اعمال قیامت کے دن ہر انسان کے سامنے آجائے گی، ایسی صورت میں کہ خودبخود کھلی ہوگی، آدمی خواہ پڑھا ہوا ہے یا ان پڑھ، ہر ایک کو حکم ہوگا کہ اپنے اعمال کی کتاب پڑھ لے اور ہر شخص اسے پڑھ لے گا، گویا اس کی زندگی کی مکمل تصویر اس کے سامنے آجائے گی، جسے وہ پہلے بھی بہانہ سازیوں کے باوجود خوب جانتا ہوگا۔ (دیکھیے قیامہ : ١٣ تا ١٥) اس کتاب اعمال میں اس کا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل درج ہونے سے رہ نہیں جائے گا۔ دیکھیے سورة کہف (٤٩) ۔ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا : اس کی ترکیب یہ کی جاتی ہے ” كَفٰى“ فعل، باء زائدہ، ” نَفْسِکَ “ فاعل، ” حَسِيْبًا “ تمیز اور ” عَلَيْكَ “ اس کے متعلق ہے۔ یہ ترکیب درست ہے، مگر اس میں کمی صرف یہ ہے کہ باء کو محض زائدہ کہہ دیا گیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں ایک حرف بھی بےمقصد و زائد نہیں، چناچہ شنقیطی، طنطاوی اور کئی مفسرین نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ ” کَفیٰ “ کی تاکید کے لیے ہے، یعنی آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ یہی بات ” وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا “ (بنی اسرائیل : ٦٥) میں بھی ملحوظ رکھیں۔ نفس کے بطور محاسب کافی ہونے میں وہ صورت بھی شامل ہے کہ جب انسان اس کتاب اعمال کو جھٹلا دے گا، پھر اللہ کے حکم سے زبان پر مہر لگ جائے گی اور خود انسان کے جسم کا ہر حصہ اپنے اعمال کی شہادت دے گا۔ اب خود اپنے جسم سے زیادہ کافی محاسب کون ہوسکتا ہے۔ دیکھیے سورة یس (٦٥) ، حم السجدہ (١٩ تا ٢٣) اور سورة مجادلہ (١٨) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sense of the book of deeds tied to the neck It means that one&s book of deed stays with the doer no matter where or in whatever condition one is. What he or she does continues to get recorded there. When death comes, the &book& is closed and set aside safely. After that, when comes the Last Day, the Day of Judgment, this book of deeds will be placed in everyone&s hand in order ... that he would himself read it and also decide himself whether he is deserving of reward or deserving of punishment. It has been reported from Qatadah (رح) that it will be a day when even an illiterate person will be able to read his book of deeds. On this occasion, al-lsbahani has reported on the au¬thority of Sayyidna Abu Umamah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: On the day of Qiyamah, when the book of deeds belonging to people will be given in their hand, someone will notice that some of his good deeds were not recorded there. He will tell his Lord about the particular deeds missing from there. His Lord will tell him that He had erased those deeds for he used to speak ill of people on their backs. (Mazhari)   Show more

نامہ اعمال گلے کا ہار ہونے کا مطلب : یہ ہے کہ انسان کسی جگہ کسی حال میں رہے اس کا صحیفہ عمل اس کے ساتھ رہتا ہے اس کا عمل لکھا جاتا رہتا ہے جب وہ مرتا ہے تو بند کر کے رکھدیا جاتا ہے پھر قیامت کے روز یہ صحیفہ عمل ہر ایک کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا کہ خود پڑھ کر خود ہی اپنے دل میں فیصلہ کرلے کہ وہ مستح... ق ثواب ہے یا مستحق عذاب حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ اس روز بےپڑھا آدمی بھی نامہ اعمال پڑھ لے گا اس موقع پر اصبہانی نے بروایت حضرت ابوامامہ (رض) یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض لوگوں کا نامہ اعمال جب ان کے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ دیکھے گا کہ اس کے بعض اعمال صالحہ اس میں لکھے ہوئے نہیں ہیں تو عرض کرے گا کہ ہم نے ان اعمال کو اس لئے مٹا دیا کہ تم لوگوں کی غبیت کیا کرتے تھے (مظہری )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13؀ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُ... لْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ لزم لُزُومُ الشیء : طول مكثه، ومنه يقال : لَزِمَهُيَلْزَمُهُ لُزُوماً ، والْإِلْزَامُ ضربان : إلزام بالتّسخیر من اللہ تعالی، أو من الإنسان، وإلزام بالحکم والأمر . نحو قوله : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود/ 28] ( ل ز م ) لزمہ یلزمہ لزوما کے معنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک ایک جگہ پر ٹھہرے رہنا کے ہیں ۔ اور الزام ( افعال ) دوقسم پر ہے ایک تو الزام بالتسخیر ہے اسکی نسبت اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور دوسرے الزام بالحکم والامر یعنی کسی چیز کو حکما واجب کردینا جیسے فرمایا : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود/ 28] تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ۔ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہورہے ہو ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وکل انسان الزمناہ طائرۃ فی عنقہ ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے) ایک قول کے مطابق طائر سے مراد ایک انسان کے اپنے عمال خیر و شر میں جس طرح عربوں کا دستور تھا کہ اگر پرندہ دائیں جانب سے آ جاتا تو اسے بربرکت سمجھتے اور نیک شگون قرار دیتے جبکہ بائیں جانب سے آنے والے پ... رندے کو نحوست قرار دیتے اور اس سے بدشگونی لیتے۔ اس بناء پر طائر کو خیر و شر کے لئے اسم قرار دیا گیا اور ان دونوں کے ذکر کی بجائے صرف پرندے کے ذکر پر اکتفا کیا گیا اس لئے کہ یہ لفظ دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں اس طرح آویزاں ہے جس طرح طوق اس کے گلے میں آویزاں ہا ہے اور کبھی اس سے الگ نہیں ہوتا دراصل یہ طرز بیان کسی کو نصیحت کرنے خدا کے عذاب سے ڈرانے صلاح کی دعوت دینے اور گناہ روکنے کے لئے انتہائی بلیغ ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣۔ ١٤) اور ہم نے ہر ایک انسان کا عمل یعنی قبر میں منکر ونکیر کو سوال و جواب کا دفتر اس کی گردن کا ہار کر رکھا ہے یا یہ کہ اس کی نیکی وبدی اس کا نفع ونقصان اور شقاوت وسعادت اس کے ساتھ لازم ہے اور پھر قیامت کے دن ہم اس کا نامہ اعمال اس کے دیکھنے کے لیے سامنے کردیں گے جس میں نیکیاں اور برائیاں سب واض... ح ہوں گی اور وہ ان کو دیکھ لے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے، آج تو خود اپنے اعمال کا آپ ہی محاسب کافی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ) ” طاءِر “ کا لفظ عربی میں عام طور پر شگون نحوست اور بد قسمتی کے لیے بولا جاتا ہے لیکن یہاں پر خوش بختی اور بد بختی دونوں ہی مراد ہیں۔ یعنی کسی انسان کا جو بھی مقسوم و مقدور ہے زندگی میں اچھا برا جو کچھ بھی اسے ملنا ہے جیسے بھی اچھے ب... رے حالات اسے پیش آنے ہیں اس سب کچھ کے بارے میں اس کا جو کھاتہ ” اُمّ الکتاب “ میں موجود ہے اس کا حاصل اس کی گردن میں چپکا دیا گیا ہے۔ گردن میں چپکانے کے الفاظ کا استعمال محاورۃً بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کچھ مادی حقیقت بھی ہو۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی گردن میں کسی gland کی صورت میں واقعی کوئی مائیکرو کمپیوٹر نصب کر رکھا ہو۔ واللہ اعلم ! (وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا) ان الفاظ سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اندر ہی کوئی ایسا سسٹم لگا دیا گیا ہے جس میں اس کے تمام اعمال و افعال ریکارڈ ہو رہے ہیں اور قیامت کے دن ایک chip کی شکل میں اسے اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس chip کے اندر اس کی زندگی کی ساری فلم موجود ہوگی ایک ایک حرکت جو اس نے کی ہوگی ایک ایک لفظ جو اس نے منہ سے نکالا ہوگا ایک ایک خیال جو اس کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا ایک ایک نیت جو اس کے دل میں پروان چڑھی ہوگی سب ڈیٹا پوری تفصیل کے ساتھ اس میں محفوظ ہوگا۔ روز قیامت اس chip کو کھول کر کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور کہا جائے گا :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. “We have fastened his fate to his neck”: therefore one does not need to take omens from a bird. This is to remove the superstition of the disbelievers who used to take omens from birds etc. as if to say: The causes and consequences of good fortune or bad fate exist in man’s own person. He merits good fortune because of his own good conduct and good judgment, and likewise, suffers the consequen... ces of evil fate by the lack of these. This was necessitated because foolish people always try to attribute their misfortunes to external causes, when in fact our fate depends on our own deeds, good or bad. If they probe into the causes, they will find that their fate was decided by their own good or bad qualities and judgments.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :14 یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بدبختی ، اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب و وجوہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں ۔ اپنے اوصاف ، اپنی سیرت و کردار ، اور اپنی قوت تمیز اور قوت فیصلہ و انتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق ب... ھی بناتا ہے اور شفاف کا مستحق بھی ۔ نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانہ خیر و شر ان کے اپنے گلے کا ہار ہے ۔ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخرکار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے ، نہ یہ کہ باہر سے آکر کوئی چیز زبردستی ان پر مسلط ہوگئی تھی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: انجام کو گلے سے چمٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تمام اعمال ہر لمحے لکھے جارہے ہیں جو اسکے اچھے یا برے انجام کی نشان دہی کرتے ہیں، اور جب قیامت آئے گی تو یہ سارا اعمال نامہ اسکے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا جسے وہ خود پڑھ سکے گا، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں ان پڑھ تھا قیامت کے دن ا... سے بھی اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی صلاحیت دے دی جائے گی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ١٤:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نامہ اعمال کو اڑنے والے جانوروں سے مشابہت دے کر طائر اس لیے فرمایا کہ قیامت کے دن کئی پیشیاں بندوں کی اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوں گی پہلی دو پیشیوں میں اللہ تعالیٰ ان کو ان کے گناہ یاد دلاتا رہے گا اور لوگ طرح طرح کے عذر کرتے رہیں گے تیسری دفعہ نامہ اعمال کے کاغذوں کو...  پر دار جانوروں کی طرح اڑا دینے کا حکم ہوجائے گا وہ نامہ اعمال اڑکر دائیں اور بائیں ہاتھوں میں جیسے جس کے عمل ہونگے آجاویں گے ترمذی اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ نامہ اعمال کے اڑا دیئے جانے کا ذکر صراحت سے آیا ہے ١ ؎۔ اور ماں کے پیٹ میں جب آدمی کا پتلا بنتا ہے روح کے پھونکے جانے سے پہلے ان عملوں کو جو پیدا ہونے کے بعد ہر شخص کرتا ہے فرشتے لکھ لیتے ہیں اور آدمی جب تک جیتا رہتا ہے اسی تقدیر کے لکھے کے موافق عمل کرتا رہتا ہے اور آدمی کے مرجانے کے بعد نیک عمل نیک صورت بن کر اور بدعمل بد صورت بن کر قبر میں اس کے ساتھ رہتے ہیں اور قیامت میں ان ہی عملوں کے موافق جزاو سزا اس کو بھگتنی پڑے گی۔ غرض کوئی وقت ایسا نہیں کہ یہ عمل انسان سے جدا ہوں اس لیے یہ فرمایا کہ اعمال نامہ انسان کی گردن میں لگا ہوا ہے یہ عرب کا ایک محاورہ ہے جو چیز کسی کے سر پڑجاوے اس کو گردن میں لگی ہوئی چیز کہتے ہیں یہ ایسا ہی محاورہ ہے جس طرح اردو میں کسی شخص کو کہتے ہیں کہ یہ چیز تو اس کے گلے پڑگئی۔ نامہ اعمال کے اڑائے جانے کے باب میں اوپر ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو گزری ہے یہ حدیث حسن بصری کی روایت سے ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کی روایت کے بعد لکھا ہے کہ حسن (رح) بصری کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے کسی حدیث کے سننے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے یہ حدیث مرسل ہے ٢ ؎۔ لیکن ابوداؤد اور مستدرک حاکم میں یہ حدیث حسن بصری (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے بھی روایت کی ہے ٣ ؎۔ اور صاحب جامع الاصول نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ حسن بصری (رح) اور حضرت عائشہ (رض) کی ملاقات ہوئی ہے اس لیے امام مسلم کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے اور ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت ہوجاتی ہے۔ یہ بات ایک جگہ بیان کردی گئی ہے کہ جہاں تابعی کسی حدیث کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرے تو اس کو مرسل کہتے ہیں۔ اب آگے فرمایا قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے عمر بھر کے عملوں کی کتاب پڑھنے کو دی جائے گی اور کہا جائے گا کہ دوسرے کسی گواہ کی ضرورت نہیں اعمال نامہ کو دیکھ کر خود تو ہی اپنے عمر بھر کے عملوں کو جاننے کے لیے کافی ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ نامہ اعمال کو پڑھ کر اپنے گناہوں کا انکار کریں گے ان کے ہاتھ پیروں سے گواہی دلوائی جائے گی ٤ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے کو جو لوگ نامہ اعمال کو پڑھ کر اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے سچ سے خوش ہو کر ان کے گناہوں کو معاف کر دیوے گا ٥ ؎۔ قیامت کے دن ان اعمال ناموں کے پڑھنے کے بعد جو کچھ نتیجہ ہوگا اس کا حال ان حدیثوں سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ٦٥ ج ٦ باب ماجاء فی العرض۔ ٢ ؎ ایضا۔ ٣ ؎ ابوداؤد ص ٦٥٤ ج ٢ باب فی ذکر المیزان۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٤٠٩ ج ٢ فی بیان ان الاعضاء منطقتہ الخ ١٢۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٥ باب الحساب الخ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:13) وکل انسان الزمنہ۔ ہم نے ہر انسان کے لئے لازم کردیا ہے ۔ ہم نے اس کے لئے لگا دیا ہے۔ الزمنا۔ ماضی جمع متکلم۔ الزام سے ہُ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع کل انسان ہے۔ طئرہ۔ ہر وہ پروں والا جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے اسے طائر کہتے ہیں۔ طار یطیر طیر وطیران وطیرورۃ پرندہ کا اڑنا۔ طائر کی جمع ط... یر ہے۔ جیسے راکب کی جمع رکب ہے۔ پرندے کے اڑنے کے معنی میں طار یطیر کا اکثر استعمال ہوا ہے مثلاً ولا طائر یطیر بجناحیہ (6:38) اور نہیں ہے کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہے (مگر یہ کہ وہ سب تمہاری ہی طرح کے گروہ ہیں) الطیر وتطیرفلان۔ اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے لئے استعمال ہونے لگا جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے انا تطیرنا بکم (36:18) ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اور ان تصبہم سیئۃ یطیروا (7:131) اگر ان کو سختی پہنچتی ہے تو بدشگونی لیتے ہیں یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں۔ اور قالوا طائرکم معکم (36:19) انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ یہاں طائر سے مراد انسان کے نیک وبداعمال ہیں جو اپنے انجام میں بطور جزو لا ینفک اس کے ساتھ لازم کر دئیے گئے ہیں۔ طئرہ اس کے اعمال کی شامت اس کی بری قسمت الزمنہ فی عنقہ محاورہ عرب میں شدت لزوم اور کمال ربط کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔ انسانی اعمال کو طائر اس لئے کہا گیا ہے کہ عمل کے سرزد ہونے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے سکے۔ گویا وہ اس کے ہاتھوں سے اڑ جاتا ہے۔ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ اور ہم نے ہر انسان کی بری قسمت کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ یلقہ۔ مضارع واحد مذکر غائب ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع کتبا ہے لقی مصدر باب سمع وہ اس کو پائے گا۔ منشورا۔ اسم مفعول واحد مذکر منصوب۔ نشر سے۔ کھلا ہوا۔ المفردات میں ہے۔ النشر۔ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں۔ یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردینے پر بولا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ آیا ہے واذا الصحف نشرت (81:10) اور جب عملوں کے دفتر کھولے جائیں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہاں ” عنق “ کا لفظ لزوم سے کنایہ ہے مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے عمل اچھے ہوں یا برے کم ہوں یا زیادہ ہم نے محفوظ کردیئے ہیں جو کبھی ضائع نہیں ہوسکتے (رازی)9 مراد ہے انسان کا اپنا اعمالنامہ

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ہر شخص کا عمل اس کے ساتھ لازم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : زندگی میں انسان جو کچھ کرتا اور کماتا ہے۔ وہمٹ نہیں جاتا بلکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اس میں چھوٹے سے چھوٹا کیا ہوا عمل اس کے نامہ اعمال میں درج ہو رہا ہوتا ہے۔ انسان کو برائی اور شر کے بارے میں جلد بازی سے روکنے کے لیے یہ بتلایا جا رہا ہے کہ اے انسان جو کچھ تو رات کی...  تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں کرتا ہے۔ وہ رائیگاں نہیں جاتا بلکہ ہم اس کو ہر انسان کے گلے میں لٹکائے دیتے ہیں۔ قیامت کے دن اسے ہم ایک کتاب یعنی اعمال نامہ کی شکل میں تیرے سامنے لا کر تجھے اسے پڑھنے کا حکم دیں گے۔ جسے تو اپنے سامنے بالکل عیاں پائے گا۔ تجھے حکم ہوگا اس اعمال نامے کو پڑھ لے جو تجھے اپنا حساب جاننے کے لیے کافی ہے۔ اس کتاب اور اعمال نامے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو ہر انسان کے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔ کسی چیز کو گلے میں لٹکانا ایک محاورہ بھی ہے۔ جس کا معنی ہے کہ ایسی چیز جس سے انسان کسی صورت میں بھی چھٹکارا نہ پا سکے۔ ممکن ہے کہ عملاً اور حقیقتاً بھی ایسا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کراماً کاتبین کی دستاویزات کے ساتھ اس بات کا بھی التزام رکھا ہو کہ انسان کی گردن کے پاس جسم کا ایسا حصہ ہو جہاں انسان کے اچھے برے اعمال خود بخود مرتب ہوئے جا رہے ہوں۔ ممکن ہے وہ دل ہو جس کے بارے میں حدیث شریف میں موجود ہے کہ انسان کے گناہوں کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم) جہاں تک اعمال نامہ کا تعلق ہے۔ سورة الکہف آیت ٤٩ میں ارشاد ہوا کہ جب اعمال نامہ انسان کے سامنے رکھا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اس کے مندرجات سے ڈرتے ہوئے کہیں گے کہ ہائے بد بختی کہ اس کتاب نے کوئی چھوٹی بڑی بات نہیں چھوڑی۔ اس میں میری ہر بات لکھی ہوئی ہے۔ مجرم جو کام کرتے رہے وہ سب کے سب سامنے پائیں گے۔ آپ کا رب ذرہ برابر کسی پر زیادتی نہیں کرے گا۔ اعمال ناموں کے ساتھ خارجی شہادتیں بھی پیش کی جائیں گی۔ تاہم یہ اعمال نامہ اس قدر واضح اور حقیقت پر مبنی ہوگا کہ بالآخر مجرم اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ ہر مجرم کو اس کے اعمال نامہ کے مطابق ہی سزادی جائے گی۔ جس میں کسی درجے کا ظلم نہیں پایا جائے گا۔ کرامًا کاتبین کا ہرو قت ساتھ رہنا : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ...إنَّ اللّٰہَ یَنْہَاکُمْ عَنِ التَّعَرّٰی فَاسْتَحْیُوْا مِنْ مَآاءِکَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ لاَ یُفَارِقُوْنَکُمْ إلَّا عِنْدَ ثَلَاثٍ حَالَاتٍ اَلْغَاءِطِ وَ الْجَنِابَۃِ وَ الْغُسْلِ فَإذَا اغْتَسَلَ أحَدُکُمْ بالْعُرَاءِ فَلْیَسْتَتِرْ بِثَوْبِہِ أوْ بِجَذْمَۃِ حَاءِطٍ أوْ بِبَعِیْرِہِ )[ رواہ البزار ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں بیشک اللہ نے تمہیں ننگا ہونے سے منع کیا ہے۔ پس تم اللہ کے فرشتوں سے حیاکر و۔ فرشتے صرف تم سے تین حالتوں میں ہی جدا ہوتے ہیں۔ قضائے حاجت کے وقت، جنابت اور غسل کے وقت، جب تم میں سے کوئی چٹیل میدان میں غسل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ خود کو کسی کپڑے سے یا کٹے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے ڈھانپے یا پھر اپنے اونٹ کے ساتھ پردہ کرلے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ٢۔ انسان کا نامہ اعمال اس کے حساب و کتاب کے لیے کافی ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ہر انسان کو نامہ اعمال کا ملنا : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کا نامہ اعمال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٢۔ جب اعمال نامہ رکھا جائے گا، تو مجرم لوگ اس میں سب کچھ لکھا ہوا دیکھیں گے۔ (الکہف : ٤٩) ٣۔ جس کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، وہ اس کو پڑھے گا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) ٤۔ جس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا، وہ کہے گا آؤ میرا نامہ اعمال پڑھو۔ (الحاقہ : ١٩) ٥۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش کہ مجھے یہ نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ (الحاقہ : ٢٠) ٦۔ جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا۔ (الانشقاق : ٨۔ ٧) ٧۔ جس کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا وہ موت کو پکارے گا اور دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ (الانشقاق : ١٠ تا ١٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکل انسان الزمنہ ئرہ فی عنقہ انخرج لہ یوم القیمۃ کتبا یلقہ منشور (٣١) اقراء اکتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا (٤١) (٧١ : ٣١۔ ٤١) ” ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے ، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لئے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا ح... ساب لگانے کے لئے تو خود ہی کافی ہے “۔ انسان کا شگون اس کا عمل ہے ، جو اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ اس سے مراد خود انسان کا کسب وعمل ہے اور اس کے گلے میں لٹکانے سے مراد یہ ہے کہ انسان سے اس کا شگون یعنی اعمال کبھی جدا نہیں ہوتے۔ یہ قرآن کریم کا انداز ہے کہ قرآن کریم معافی و مفاہیم کو بھی ایک مجسم شکل میں پیش کرتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کے ثمرہ کا ذمہ وار ہے اور وہ ان اعمال کے اثرات سے بھاگ نہیں سکتا۔ اسی طرح قیامت کے دن کتاب منشور سے بھی مراد اس کے اعمال کا ظہور ہے۔ یعنی اعمال کھلے ہوں گے۔ کوئی چھپا نہ سکے گا۔ یا کوئی عمل حساب سے رہ نہ جائے گا۔ لیکن قرآن اسے کھلی کتاب کی مجسم شکل میں پیش کرتا ہے جس سے مخاطب پر زیادہ اثر ہوتا ہے اور بات انسانی احساس کا حصہ بن جاتی ہے۔ چناچہ انسانی خیال یکدم پرندے اور کتاب کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اور وہ اس سخت دن کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جس کے تمام راز کھل جائیں گے۔ ایک کھلی کتاب ہوگی اور اس دن کسی محاسب کی ضرورت نہ ہوگی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں بتایا ہے کہ انسان کا عمل ہی اسے نفع نقصان دے گا جیسے عمل کرے گا قیامت کے دن سامنے آجائیں گے فرشتے جو دنیا میں انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں انسان ان اعمال کو کتابی صورت میں دیکھ لے گا۔ اچھے عمل والوں کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور برے اعمال والوں کا اعمال نامہ پشت کے پیچھے ... سے اور بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، چونکہ ہر ایک کے اعمال کا بدلہ ملے گا اور انکار بھی کوئی فائدہ نہ دے گا اور ہر ایک کے اعمال کا نتیجہ لازمی طور پر سامنے آہی جائے گا اس لیے اسے (اَلْزَمْنٰہُ طٰٓءِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ) سے تعبیر فرمایا۔ جس کا ترجمہ بعض اکابر نے یوں کیا ہے کہ ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار بنا دیا ہے عمل کو طائر یعنی پرندہ سے کیوں تعبیر فرمایا ؟ اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اہل عرب جب کسی کام کے لیے جانا چاہتے تھے تو درخت کی ٹہنی ہلا دیتے تھے۔ داہنی طرف کو پرندہ اڑ جاتا تھا تو سمجھتے تھے کہ کام ہوجائے گا اسے فال نیک کہتے تھے اگر پرندہ بائیں طرف کو اڑ جاتا تو کہتے تھے کہ کام نہیں ہوگا اس کو بدفالی کہتے تھے اور اس کی وجہ سے سفر میں جانے سے رک جاتے تھے۔ اپنے کام کے لیے جانے نہ جانے کا مدار انہوں نے پرندہ کے اڑنے کو بنا رکھا تھا اور گویا پرندہ اڑنا ہی باعث عمل تھا اس لیے انسان کے اعمال کو آیت بالا میں طائر سے تعبیر فرمایا۔ پھر فرمایا (وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا) (اور اس کے لیے ہم کتاب نکال دیں گے وہ اس کتاب کو کھلی ہوئی دیکھ لے گا۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” طائرہ “ اعمالنامہ قیامت کے دن ہر شخص خود ہی اپنا اعمالنامہ پڑھے گا اور خود ہی اپنی نیکیوں اور برائیوں کا حساب کرلے گا۔ ” من اھتدی الخ “ جو شخص دنیا میں راہ ہدایت اختیار کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جس نے گمراہی اختیار کی اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا اور کوئی شخص کس... ی دوسرے کے جرم میں نہیں پکڑا جائے گا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 اور ہم نے ہر انسان کی برائی اور بھلائی کو اس کی گردن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے خواہ یہ برے بھلے اعمال ہوں یا شقاوت وسعادت ہو اور ہم قیامت کے دن انسان کا نامہ اعمال اس کے لئے نکال کر رکھ دیں گے جس کو وہ کھلا ہوا پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے۔” عملہ وما قدر علیہ “ ‘ مطلب یہ ہے کہ ... اس کے اعمال جو وہ اپنے اختیار سے کرنے والا ہے اور اس کا مقدر اور اس کی قسمت گلے میں لٹکی ہوئی ہے۔ بعض حضرات نے فقط قسمت اور بعض نے فقط اعمال لئے، مفسرین کے چند اقوال میں سے ہم نے بعض قول کو اختیار کرلیا ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ انسان جو آئندہ عمل کرنے والا ہے اور جو باتیں اس کو پیش آنے والی ہیں سب اس کی گردن میں لٹکی ہوئی ہیں جو اس سے جدا ہونے والی نہیں اور وہ ہو کر رہیں گی اور قیامت کے دن ہر شخص کے روبرو اس کا نامہ اعمال پیش ہوگا جو لپٹا ہوا نہیں بلکہ کھلا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی بری قسمت کے ساتھ برے عمل ہیں کہ چھوٹ نہیں سکتے وہی نظر آئیں گے قیامت میں۔  Show more