Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 14

سورة بنی اسراءیل

اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾

[It will be said], "Read your record. Sufficient is yourself against you this Day as accountant."

لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے ۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(It will be said to him): "Read your Book. You yourself are sufficient as a reckoner against you this Day." meaning, you have not been treated unjustly and nothing has been recorded against you except what you have done, because you remember everything that you have done, and no one will forget anything that he did. Everyone will be able to read his Book, whether he is literate or illiterate. ... أَلْزَمْنَاهُ طَأيِرَهُ فِي عُنُقِهِ ... And We have fastened every man's Ta'irah (deeds) to his neck, The neck is mentioned because it is a part of the body that has no counterpart, and when one is restrained by it, he has no escape. Ma`mar narrated from Qatadah, "His deeds, وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (and on the Day of Resurrection, We shall bring out for him), We shall bring forth those deeds." كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا (a Book which he will find wide open). Ma`mar said: Al-Hasan recited, عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ one sitting on the right and one on the left. (50:17) And he said; "O son of Adam, your Book has been opened for you, and two noble angels have been entrusted to accompany you, one on your right and one on your left. The one who is on your right records your good deeds, and the one who is on your left records your bad deeds. `So do whatever you want, a lot or a little, until you die, then I will fold up your Book and tie it to your neck with you in your grave. Then when you come out on the Day of Resurrection, you will find the Book wide open, so read your Book.' By Allah, the One Who makes you accountable for your own deeds is being perfectly just." These are some of the best words Al-Hasan ever spoke, may Allah have mercy on him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا 14۝ۭ قرأ والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا) تمہاری زندگی کی کتاب کا ایک ایک ورق اس قدر تفصیل سے تمہارے سامنے موجود ہے کہ تم خود ہی اپنا حساب کرسکتے ہو۔ تمہارا سارا debit/credit تمہارے سامنے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:14) اقرأ۔ تو پڑھ۔ امر ۔ واحد مذکر حاضر۔ قراء ۃ مصدر۔ باب فتح ونصر سے مستعمل ہے ! اس سے قبل یقال لہ مقدر ہے۔ ای یقال لہ اقرأ۔ اس سے کہا جائے گا پڑھ۔ کتابک۔ ای کتاب اعمالک۔ اپنا نامۂ اعمال۔ کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا۔ بنفسک میں باء زائدہ ہے۔ نفسک مضاف مضاف الیہ مل کر کفی کا فاعل ہے۔ یعنی حساب لگانے میں آج تو خود ہی کافی ہے۔ تیری اپنی ذات ہی کافی ہے (یعنی تیرا نامہ ٔ اعمال بذاب کود تجھ پر تیرے دنیاوی اعمال کی حقیقت واضح کر دے گا) کفی۔ ماضی واحد مذکر غائب ماضی بمراد استمرار ہے یعنی اس طرح کفایت کرنے والا۔ ضرورت پوری کرنے والا کہ اس کے بعد کسی کی حاجت نہ رہے۔ کفایۃ مصدر۔ اسم مصدر بھی ہے۔ وہ چیز جو ضرورت کو پوری کر دے اور اس کے بعد کسی کی حاجت نہ رہے۔ اسی سے الکافی۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے کہ وہ ذات پاک ضرورت کو پوری کرنے والی ہے اور اس کے بعد کسی کی حاجت نہیں۔ حسیبا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ حساب لینے والا۔ حساب کرنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 کسی اور محاسب کی ضرورت نہیں اس کتاب میں ہر چیز درج ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اقراء کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا (٧١ : ٤١) ” پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لئے تو خود ہی کافی ہے “۔ اسی اٹل قانون قدرت کے ساتھ عمل اور مکافات عمل کا قانون وابستہ ہے۔ من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فائما یضل علیھا والا تزر وازرۃ وزر اخری (٧١ : ٥١) ” جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے ، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہے “۔ چناچہ عمل کی ذمہ داری انفرادی ہے اور اس کی وجہ سے ہر انسان اپنے نفس کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ہدایت اختیار کرتا ہے تو بھی اپنے لیے کرتا ہے ، اگر گمراہ ہوتا ہے تو وہ خود ہی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی دوسرے کے کیے کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ اور کوئی بھی کسی کے بوجھ میں کمی نہ کرسکے گا۔ ہر انسان سے خود اس کے اعمال کی باز پرس ہوگی اور صرف اس کے اعمال حسنہ کی جزا دی جائے گی اور کوئی دوست بھی کسی دوست کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے نہایت مہربانی کرتے ہوئے انسان کو صرف اس اصول پر مسئول اور ذمہ دار نہیں بنایا جو اس کائنات فطرت میں موجود ہے اور نہ اس کو صرف عہد الست کی بنا پر مسئول بنایا جو اللہ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب وہ آدم کی پشت میں تھے بلکہ اللہ نے نہایت مہربانی کرتے ہوئے سلسلہ رسل جاری فرمایا ، جو لوگوں کو ناموس شریعت کی یاد دہانی کراتے رہے ، انجام بد سے لوگوں کو ڈراتے رہے۔ اور یہ اصول مقرر فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان سے کہا جائے گا (اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ) (تو اپنی کتاب پڑھ لے) (کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا) (آج تو ہی اپنا حساب جانچنے کے لیے کافی ہے) انسان کی ہوشمندی یہی ہے کہ اپنی جان کے لیے فکر مند ہو اور اپنا حساب کرتا رہے یوم آخرت میں حساب کرنے کے بعد اپنے حق میں نتیجہ اچھا نہ نکلا تو اس وقت حساب کرنے سے فائدہ نہ ہوگا اسی دنیا میں حساب کرتے رہیں تو نفس کو برائیوں سے بچا کرلے جانا آسان ہوگا نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور اسے تنبیہ کرتے رہیں کہ دیکھ گناہ کرے گا تو عذاب بھگتے گا اسی کو فرمایا حاسبوا قبل ان تحاسبوا کہ حساب کیے جانے سے پہلے اپنا حساب کرلو، جو شخص یہاں اپنا حساب کرتا رہا اس کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا وہ وہاں کامیاب ہوگا اور خوشی کے ساتھ یوں کہے گا (ھآاؤُمُ اقْرَءُ وْاکِتَابِیَہْ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اِنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہٗ ) (آجاؤ میری کتاب پڑھ لو بلاشبہ مجھے یقین تھا کہ میرا حساب سامنے آنے والا ہے) اور جس کے بائیں ہاتھ میں کتاب دی گئی وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ اس کا اعمال نامہ دیا ہی نہ جاتا۔ (یَالَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَہٗ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہٗ ) (ہائے کاش مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 ارشاد ہوگا تو خود اپنا نامہ اعمال پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے یعنی نامہ اعمال میں ہر عمل لکھا ہوا موجود ہے کسی کو یاد دلانے کی رضورت نہیں۔ گنتا جا اور خود ہی قائل ہونا جا۔