Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 18

سورة بنی اسراءیل

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۱۸﴾

Whoever should desire the immediate - We hasten for him from it what We will to whom We intend. Then We have made for him Hell, which he will [enter to] burn, censured and banished.

جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا ( فوری فائدہ ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کر دیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں میں دھتکارا ہوا داخل ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of Those who desire this World and Those who desire the Hereafter Allah says: مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ ... Whoever desires the quick-passing (transitory enjoyment of this world), Allah tells us that not everyone who desires this world and its luxuries gets what he wants. That is attained by those whom Allah wants to have it, and they get what He wills that they should get. This Ayah narrows down the general statements made in other Ayat. Allah says: ... عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ ... We readily grant him what We will for whom We like. Then, afterwards, We have appointed for him Hell; meaning, in the Hereafter, ... يَصْلهَا ... he will burn therein, means, he will enter it until it covers him on all sides, ... مَذْمُومًا ... disgraced, means, blamed for his bad behavior and evil deeds, because he chose the transient over the eternal, ... مَّدْحُورًا rejected, means, far away (from Allah's mercy), humiliated and put to shame.

طالب دنیا کی چاہت کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الہٰی سے دور ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی دنیا کے ہر طالب کو دنیا نہیں ملتی، صرف اسی کو ملتی ہے جس کو ہم چاہیں، پھر اس کو بھی اتنی دنیا نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہم اس کے لئے فیصلہ کریں۔ لیکن اس دنیا طلبی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨ ١] یعنی جو شخص دنیا ہی کا ہو رہے اور جو کام کرے صرف دنیا کا مال و دولت کمانے یا دوسرے مفادات کے لیے کرے تو ایسے شخص کو بھی دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ کو منظور ہو۔ اس سے بڑھ کر نہیں۔ اور چونکہ ایسا شخص آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا لہذا وہ یقیناً دنیا کمانے میں جائز اور ناجائز طریقوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھے گا لہذا آخرت میں اسے دوزخ کی سزا بھگتنا ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ ۔۔ : صاحب کشاف نے فرمایا، وہ شخص جس کا مقصود جلدی حاصل ہونے والی (یعنی دنیا) ہو اور اس کے سوا اس کا کچھ مقصد نہ ہو، جیسا کہ کفار اور اکثر فاسقوں کا حال ہے تو ہم دنیا کے فوائد میں سے جس قدر چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں دو قیدیں لگا دیں، ایک یہ کہ ہم دنیا کی وہ چیز اتنی دیتے ہیں جتنی ہم چاہتے ہیں، دوسری قید یہ کہ صرف اسے دیتے ہیں جس کا ہم ارادہ کرتے ہیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے، آپ ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ جتنی بھی تمنا رکھیں انھیں اس کا کچھ حصہ ہی ملتا ہے اور بعض اوقات کچھ بھی نہیں ملتا، سو ان کے لیے دنیا کا فقر اور آخرت کا فقر دونوں جمع ہوگئے۔ رہا متقی مومن تو اس کا مقصود صرف آخرت ہوتا ہے، چناچہ آخرت میں اس کا غنی ہونا یقینی ہے، اسے پروا نہیں ہوتی کہ دنیا کی آسائش اسے ملتی ہے یا نہیں، اگر اسے دنیا میں بھی مل جائے تو وہ شکر کرتا ہے، اگر نہ ملے تو صبر کرتا ہے، پھر کئی دفعہ فقر اس کے لیے بہتر اور اس کی مراد کے حصول میں زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة ہود (١٥، ١٦) اور سورة شوریٰ (٢٠) ۔ ” مَذْمُوْمًا “ ” ذَمَّ “ سے اسم مفعول ہے جو مدح کی ضد ہے۔ ” مَّدْحُوْرًا “ ” دُحُوْرٌ“ سے ہے، جس کا معنی دور کرنا، دفع کرنا ہے، یعنی آخرت میں اس کے عمل کسی طرح بھی قبول نہیں کیے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Two behavior models of human beings appear in the cited verses side by side. As for those who elect to go for the readily available benefits out of their life in this world, and the punishment that comes in its wake, the words used were: مَّن كَانَ يُرِ‌يدُ الْعَاجِلَةَ (Whoever opts for the immediate life herein - 18). These words signify continuity and permanence meaning that this punishment of Hell will materialize only when one&s actions are all the time motivated by material interests only, having practically no concern for the Hereafter. And as for &those who desire to have the Here-after and its rewards,& the words used were: أَرَ‌ادَ الْآخِرَ‌ةَ ۔ The sense is that as soon as a true believer were to form an intention to have the reward of the Hereafter in whatever he proposes to do, that deed of his shall stand accepted - irrespective of any corruptive element having entered into so¬mething else he was intending to do. The first condition can only be that of a denier of the Hereafter, therefore, none of his deeds is acceptable. Then, the second condition is that of a true believer. A particular deed by him that issues forth with sincerity of intention, and is for the Hereafter - along with the presence of other conditions - shall be acceptable. And a deed even from the same person, a deed that has no sincerity, or where other conditions are missing, will not be acceptable.

خلاصہ تفسیر : جو شخص (اپنے نیک اعمال سے صرف) دنیا (کے نفع) کی نیت رکھے گا (خواہ اس لئے کہ وہ آخرت کا منکر ہے یا اس لئے کہ آخرت سے غافل ہے) ہم ایسے شخص کو دنیا ہی میں جتنا چاہیں گے (پھر یہ بھی سب کے لیے نہیں) بلکہ جس کے واسطے چاہیں گے فی الحال ہی دیدیں گے (یعنی دنیا ہی میں کچھ جزاء مل جاوے گی) پھر ( آخرت میں خاک نہ ملے گا بلکہ وہاں) ہم اس کے لئے جہنم تجویز کردیں گے وہ اس میں بدحال راندہ (درگاہ) ہو کر داخل ہوگا اور جو شخص (اپنے اعمال میں) آخرت (کے ثواب) کی نیت رکھے گا اور اس کے لئے جیسی کوشش کرنی چاہئے ویسی ہی کوشش بھی کرے گا (مطلب یہ ہے کہ ہر کوشش بھی مفید نہیں بلکہ کوشش صرف وہی مفید ہے جو شریعت اور سنت کے موافق ہو کیونکہ حکم ایسی ہی کوشش کا دیا گیا ہے جو عمل اور سعی شریعت و سنت کے خلاف ہو وہ مقبول نہیں) بشرطیکہ وہ شخص مومن بھی ہو سو ایسے لوگوں کی یہ سعی مقبول ہوگی (غرض اللہ کے یہاں کامیابی کی شرطیں چار ہوئیں اول تصحیح نیت یعنی خالص ثواب آخرت کی نیت ہونا جس میں اغراض نفسانی شامل نہ ہوں دوسرے اس نیت کے لئے عمل اور کوشش کرنا صرف نیت و ارادہ سے کوئی کام نہیں ہوتا جب تک اس کے لئے عمل نہ کرے تیسرے تصحیح عمل یعنی سعی وعمل کا شریعت اور سنت کے مطابق ہونا کیونکہ مقصد کے خلاف سمت میں دوڑنا اور کوشش کرنا بجائے مفید ہونے کے مقصد سے اور دور کردیتا ہے چوتھی شرط جو سب سے اہم اور سب کا مدار ہے وہ تصحیح عقیدہ یعنی ایمان ہے ان شرائط کے بغیر کوئی عمل اللہ کے نزدیک مقبول نہیں اور کفار کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہونا ان کے اعمال کی مقبولیت کی علامت نہیں کیونکہ دنیا کی نعمتیں بارگارہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ) آپ کے رب کی عطاء (دنیوی) میں سے تو ہم ان (مقبولین) کی بھی امداد کرتے ہیں اور ان (غیرمقبولین) کی بھی (امداد کرتے ہیں) اور آپ کے رب کی عطاء (دنیوی کسی پر) بند نہیں آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نے (اس دنیوی عطاء میں بلا شرط ایمان و کفر کے) ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دی ہے (یہاں تک کہ اکثر کفار اکثر مومنین سے زیادہ نعمت و دولت رکھتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں قابل وقعت نہیں) اور البتہ آخرت (جو مقبولین بارگاہ کے ساتھ خاص ہے وہ) درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی (اس لئے اہتمام اسی کا کرنا چاہئے) معارف و مسائل : آیات مذکورہ میں اپنے عمل سے صرف دنیا کا ارادہ کرنے والوں کا اور ان کی سزاء کا جو بیان فرمایا ہے اس کے لئے تو الفاظ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ استعمال فرمائے جو استمرار و دوام پر دلالت کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سزاء جہنم صرف اس صورت میں ہے کہ اس کے ہر عمل میں ہر وقت صرف دنیا ہی کی غرض چھائی ہوئی ہو آخرت کی طرف کوئی دھیان ہی نہ ہو اور ارادہ آخرت کرنے اور اس کی جزاء کے بیان میں لفظ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ کا استعمال فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن جس وقت بھی جس عمل میں آخرت کا ارادہ اور نیت کرے گا اس کا وہ عمل مقبول ہوجائے گا خواہ کسی دوسرے عمل کی نیت میں کوئی فساد بھی شامل ہوگیا ہو۔ پہلا حال صرف کافر منکر آخرت کا ہوسکتا ہے اس لئے اس کا کوئی بھی عمل مقبول نہیں اور دوسرا حال مومن کا ہے اس کا وہ عمل جو اخلاص نیت کے ساتھ آخرت کے لئے ہو اور باقی شرائط بھی موجود ہوں وہ مقبول ہوجائے گا اور اس کے بھی جس عمل میں اخلاص نہ ہو یا دوسری شرطیں مفقود ہوں وہ مقبول نہیں ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ذم يقال : ذَمَمْتُهُ أَذُمُّهُ ذَمّاً ، فهو مَذْمُومٌ وذَمِيمٌ ، قال تعالی: مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 18] ، وقیل : ذَمَّتُّهُ أَذُمُّهُ علی قلب إحدی المیمین تاء . والذِّمَام : ما يذّمّ الرّجل علی إضاعته من عهد، وکذلک المَذَمَّةُ والمَذِمَّة . وقیل : لي مَذَمَّة فلا تهتكها، وأذهب مَذَمَّتَهُمْ بشیء، أي : أعطهم شيئا لما لهم من الذّمام . وأَذَمَّ بکذا : أضاع ذمامه، ورجل مُذِمٌّ: لا حراک «2» به، وبئر ذَمَّةٌ: قلیلة الماء، قال الشاعر : 170- وتری الذّميم علی مراسنهم ... يوم الهياج کمازن الجثل «3» الذَّمِيم : شبه بثور صغار . يقال : أصله الذنة والذنین . ( ذ م م ) ذمتہ ( ن) ذما کے معنی مذمت کرنے کے ہیں ۔ اس سے صیغہ صفت مفعول مذموم وذمیم آتا ، قرآن میں ہے : مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 18] نفرین سنکر اور ( درگاہ خدا سے ) راندہ ہوکر ۔ اور بعض ذممتہ صیغہ واحد متکلم میں دوسری میم کا ناد ست بدل کر ذمتہ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ الذمام ۔ وہ عہد وغیرہ جس کا ضائع کرنا باعث مذمت ہو یہی معنی ذمتہ ومذمتہ کے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ میرے عہد یا حرمت کا پاس کیجئے توڑیئے نہیں یعنی ان کے حق احترام کا بدلہ اتاریئے ۔ اذم بکذا ۔ اس کی حرمت کو ضائع کردیا ۔ تہاون سے کام لیا ۔ رجل مذم بےحس و حرکت بئر ذمتہ کم پانی والا کنواں چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفید سا مادہ جو ناک پر ظاہر ہوجاتا ہے اسے الذمیم کہا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ دحر الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] . ( د ح ر ) الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینگے جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

خد ا اپنی مرضی سے جتنا چاہے طالبان دنیا کو نوازتا ہے قول باری ہے (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید جو عاجلہ کا خواہشمند ہو اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں) عاجلہ سے مراد دنیا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (کلا بل تحبون العاجلۃ وتذرون الاخرۃ) ہرگز ایسا نہیں، اصل یہ ہے کہ تم دنیا سے تو محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو) اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ جس شخص کی ساری تگ و دو دنیا کی طلب تک محدود ہو اور اس کے دل میں آخرت کی نہ کوئی فکر ہو اور نہ چاہت اسے یہیں جتنا وہ چاہے مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سے دینے کو دو باتوں کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ ایک پر یہ قول دلالت کرتا ہے (عجلنا لہ فیھا ھا نشآء) اسی بنا پر دی جانے والی چیز میں (ما نساء) کے ذریعے استثناء کردیا جو اس چیز کی مقدار، اس کی جنس اور اس کے دوام یا انقطاع کو متضمن ہے پھر اس پر ایک اور استثنا داخل کرتی ہوئے فرمایا (لمن نرید) یعنی حصول دنیا کی کوششیں کرنے والے تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا نہیں دیتا بلکہ ان میں سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے، اسی لئے درج بالا قول کے ذریعے دنیا پانے والوں کے اندر بھی استثناء کردیا ۔ اس طرح طالبان دنیا کو دنیا دینے کے سلسلے میں دو استثنائوں کا ذکر فرمایا تاکہ دنیا کے طلبگار اس بھروسے پر نہ بیٹھے رہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں ضرور بالضرور دنیا مل کر ہی رہے گی۔ پھر فرمایا (ومن ادادا الآخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مرمن فاولئک کان سعیھم مشکوراً اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کوئی استثناء نہیں کیا۔ درست طریقے سے سعی کرنے کے بعد طالبان آخرت کی جزاء کے لئے کسی اسثناء نہیں کیا۔ درست طریقے سے سعی کرنے کے بعد طالبان آخرت کی جزاء کے لئے کسی استثناء کی ضرورت نہیں رہی تاہم آخرت کی سعی کے لئے یہ شرط ضرور لگا دی گئی کہ سعی کرنے والا مومن ہو اور اس کے پیش نظر آخرت کا ثواب ہو۔ جنت میں داخلہ تین باتوں سے مشروط ہے محمد بن عجلان کا قول ہے کہ جس شخص کے اندر تین باتیں نہیں ہوں گی وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا اول درست نیت، دوم سچا ایمان اور سوم صحیح عمل۔ “ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں کہاں سے اخذ کی ہیں۔ انہوں نے جواب میں فرمایا، اللہ کی کتاب سے، ارشاد ربانی ہے (ومن ارادا الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن) اللہ تعالیٰ نے ثواب کے استحقاق کے سلسلے میں آخرت کے لئے سعی کو چند اوصاف کے ساتھ معلق کردیا اور مقصود کے اندر کسی چیز کا استثناء نہیں کیا دوسری طرف طلب دنیا کو کسی وصف کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اسے مطلق رہنے دیا لیکن دنیا میں سے حاصل ہونے والی چیز اور دنیا حاصل کرنے والوں کے سلسلے میں دو استثنائوں کا ذکر فرمایا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) جو شخص اپنے ان نیک اعمال سے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض کیے ہیں، دنیا کی نیت رکھے گا اور آخرت کا منکر ہوگا تو ہم ایسے شخص کو دنیا میں جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے فی الحال دے دیں گے پھر اس کو آخرت میں بالکل بھی نہ دیں گے بلکہ جہنم اس کے لیے واجب کریں گے جو بدحال اور ہر ایک نیک کام کے ثواب سے محروم ہو کر داخل ہوگا یہ آیت مرثد بن ثمامہ کے بارے نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ) یہاں پر ” دنیا “ کی بجائے ” عاجلہ “ کا لفظ آیا ہے۔ یہ دونوں الفاظ مؤنث ہیں۔ ” ادنیٰ “ قریب کی چیز کو کہا جاتا ہے اس کی مونث ” دنیا “ ہے جبکہ ” عاجل “ کے معنی جلدی والی چیز کے ہیں اور اس کی مؤنث ” عاجلہ “ ہے۔ یہ دنیا نقد کا سودا ہے یہاں پر راحت بھی فوراً آسودگی دیتی ہے اور اس کی تکلیف بھی فوری طور پر خود کو محسوس کراتی ہے۔ اسی لیے اسے ” عاجلہ “ کہا گیا ہے۔ عاجلہ کے مقابلے میں آیت زیر نظر میں ” آخرت “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ قرآن حکیم میں اکثر ” دنیا “ کے مقابلے میں بھی آتا ہے۔ دنیا یا عاجلہ کے مقابلے میں آخرت کو آخرت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثواب و عذاب بعد میں آنے والی چیز ہے۔ آیت زیر نظر میں جو اصول بیان ہوا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص دنیا کی عیش اور دنیا کی دولت و شہرت حاصل کرنے کا خواہش مند ہو اور صرف اسی کے لیے منصوبہ بندی محنت اور دوڑ دھوپ کرے اس کی محنت اور دوڑ دھوپ کو اللہ کسی نہ کسی درجہ میں کامیاب کردیتا ہے ‘ مگر ضروری نہیں کہ جس قدر کوئی دنیا سمیٹنا چاہے اسی قدر اسے مل بھی جائے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کوئی بھی اس “ عاجلہ “ کو پانے کی دوڑ میں شامل ہو کامیاب ٹھہرے بلکہ ہر کسی کو وہی کچھ ملے گا جو اللہ چاہے گا اور صرف اسی کو ملے گا جس کے لیے وہ چاہے گا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو حصول دنیا کے لیے ساری عمر اپنے آپ کو ہلکان کردیتے ہیں مگر دنیا پھر بھی ہاتھ نہیں آتی۔ چناچہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ جس کو وہ چاہتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے دنیا میں اس کی محنت کا صلہ دے دیتا ہے۔ (ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا) اس شخص کی خواہش اور محنت سب دنیا کے لیے کی تھی چناچہ دنیا کسی نہ کسی قدر اسے دے دی گئی۔ آخرت کے لیے اس نے خواہش کی تھی اور نہ محنت لہٰذا آخرت میں سوائے جہنم کے اس کے لیے اور کچھ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. The Arabic word ajilah literally means something which can be had immediately, but the Quran employs it as a term for “this world” which yields its advantages and results in this worldly life. Its antonym is Akhirat (Hereafter) which will yield its advantages and results after death in the life of the next world. 20. The person who does not believe in the life of the Hereafter deserves Hell, because he strives only for the successes and good things of this world and his endeavors are confined to material objects. Consequently, such a person becomes a mere worshiper of this world and adopts wrong conduct, for he has no sense of personal responsibility and accountability to God and ultimately deserves the torment of Hell.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :19 عاجلہ کےلغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز ۔ اور اصطلاحا قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح ” آخرت “ ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک مؤخر کر دیا گیا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :20 مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا ، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے ، اسے جو کچھ بھی ملے گا بس دنیا میں مل جائے گا ۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا ۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہوگی ، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی ، اور آخرت کی جوابدہی و ذمہ داری سے بے پرواہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ الٹا جہنم کا مستحق ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یہ اس شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دنیا کی بہتری کو بنارکھا ہے اور آخرت پر یا تو ایمان نہیں، یا اس کی کوئی فکر نہیں، نیز اس قسم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو کوئی نیکی کا کام دنیا کی دولت یا شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا کے یہ فوائد ملنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، نہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ جتنے فائدے وہ چاہ رہے ہیں وہ سب مل جائیں، البتہ ان میں سے جن کو ہم مناسب سمجھتے ہیں دنیا میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨:۔ حاصل اس آیت اور اس کے آگے کی آیت کا یہی ہے کہ جو شخص فقط دنیا میں پھنس کر دین سے بالکل غافل ہوجاتا ہے اس کو دنیا کچھ زیادہ نہیں ملتی بلکہ اسی قدر ملتی ہے جو اس کے نصیب میں خدا نے لکھی ہے اور جو لوگ دین کے خواہشمند ہیں ان کے اعمال کے قبول ہونے کے لیے آیت میں تین شرطیں ہیں ایک تو آدمی پورا ایماندار ہو کا جس مطلب یہ ہے کہ جو باتیں شریعت میں ایمان لانے کی ہیں ان میں بدعقیدہ نہ ہو دوسرے اس کا عمل آخرت کے ثواب کی غرض سے ہو اس عمل میں دنیا کا دکھاوا اور ریاکاری نہ ہو تیسرے دل کی کوشش سے وہ عمل کیا جاوے اوپرے دل سے رسم کے طور پر نہ کیا جاؤ کے یہ منافقوں کے عمل کی نشانی ہے معتبر سند سے ترمذی میں انس (رض) سے اور ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل ‘ دارمی میں ناقابل اعتراض سند سے زید بن (رض) ثابت سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دین سے غافل اور دنیا کا خواہش مند ہے وہ ہمیشہ پریشان حال رہتا ہے اور دنیا مقدر سے بڑھ کر اس کو نہیں ملتی اور جو شخص دین کا طلب گار رہتا ہے اس کا دل ہمیشہ غنی رہتا ہے اور بقدر ضرورت دنیا بھی بلا طلب اس کو ملا کرتی ہے ١ ؎۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے ٢ ؎۔ معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل (رح) میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا ٹھکانا دنیا ہے اور دنیا کے لیے جو لوگ روپیہ جمع کرتے ہیں وہ بالکل بےعقل ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ دنیا کی خوشحالی کے نشہ میں عقبیٰ کے منکر ہیں۔ قیامت کے دن جب ایسے لوگوں کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا تو اللہ کے فرشتے ایسے لوگوں کو قتل اور ذلیل کرنے کے لیے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس خوشحالی کے نشہ میں تم لوگ اس دن کے منکر تھے۔ اس عذاب کے آگے ہمیں دنیا کہ خوشحالی بالکل کچھ یاد نہیں ٣ ؎۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ عقبے کے منکر یا عقبے سے غافل لوگوں کو دنیا کی خوشحالی تو اسی قدر ملے گی جو ان کے نصیب میں ہے پھر اس خوشحالی کے نشہ میں جو لوگ عقبیٰ کے منکر ہیں یا عقبیٰ کے اجر کا جن کو پورا یقین نہیں اس لیے وہ جو نیک کام کرتے ہیں وہ خالص دل سے نہیں کرتے ایسے لوگ دنیا میں جو چھوڑ جاویں گے وہ تو رائیگاں ہے اور خوشحالی سے جو کچھ کھاویں پیویں گے عقبے کے عذاب کے آگے وہ حالت ان کو بالکل یاد بھی نہ رہے گی۔ انس بن مالک (رض) کی حدیث میں ایسے لوگوں کے دوزخ میں دھکیل دیئے جانے کا اور دنیا کی چند روزہ خوشحالی کو یاد دلا کر ان کے ذلیل کیے جانے کا جو ذکر ہے اس سے مذموما مدحورا کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ ١ ؎ ابن ماجہ ص ١٢ باب الہم بالدنیا ٢ ؎ مشکوٰۃ باب الریاء والسمعہ ص ٤٥٤ ٣ ؎ تفسیر ہذا جلد سوم ص ٣٢٠

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:18 ) العاجلۃ۔ جلد ملنے والی۔ دنیا اور دنیا کی آسودگی مراد ہے عجل۔ عجلۃ سے اسم فاعل واحد مؤنث ہے۔ العاجلۃ صفت ہے اس کا موصوف الدار محذوف ہے العاجلۃ سے مراد دار دنیا ہے۔ عجلناہم نے جلدی کی۔ تعجیل (تعفعیل) مصدر سے۔ ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ عجلنا لہ۔ ہم اس کو جلدی دیدیتے ہیں فیھا۔ ای فی تلک الدار العاجلۃ۔ ای فی الدنیا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الدار العاجلۃ۔ یعنی دار دنیا ہے۔ یصلھا۔ مضارع واحد مذکر غائب وہ داخل ہوگا۔ صلی یصلی (باب فتح) باب سمعمصدر صلی ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جہنم کی طرف راجع ہے۔ یصلھا وہ اس (جہنم) میں داخل ہوگا۔ مذموما۔ اسم مفعول ۔ مذمت کیا ہوا۔ ذم یذم (نصر) ذم ومذمۃ سے برائی کرنا۔ عیب جوئی کرنا۔ مذمت کرنا۔ اذمۃ۔ کسی کو پناہ دے کر اپنی حفاظت میں لینا۔ الذمامۃ۔ کفالت۔ ذمہ داری۔ انت فی ذمۃ اللہ۔ تو اللہ کی پناہ میں ہے۔ مدحورا۔ اسم مفعول۔ ٹھکرایا ہوا۔ راندہ ہوا۔ الدحر والدحور (باب نصر) کے معنی دھتکار دینے اور دور کردینے کے ہیں۔ آیت ہذا میں لمن نرید بدل البعض ہے اور اس کا مبدل منہ لہ جس کا مرجع من ہے جو ابتداء آیت میں ہے ۔ من اور لہ اگرچہ لفظاً واحد ہیں لیکن معنی ً جمع ہیں۔ لہٰذا آیت کا ترجمہ ہوگا جو لوگ طلبگار ہیں دار دنیا کے ہم ان میں سے جس کو چاہیں جلدی ہی اس دنیا میں جتنا چاہیں دے دیتے ہیں۔ ثم جعلنا لہ میں ہُ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من نرید ہے۔ اور یصلھا میں ضمیر فاعل بھی من نرید کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی وہ نیک اعمال محض اس لئے کرتا ہو کہ اسے دنیا کا فائدہ اور اسی کی خوشحالی حاصل ہو جیسے منافق یا ریا کار9 یعنی اس کا مقصد پورا کردیتے ہیں مگر اتنا نہیں جتنا وہ خود چاہتا ہے بلکہ جتنا ہم چاہتے ہیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ سورة ہود کی آیت نوف الیھم اعمالھم اس آیت کے ساتھ مقید ہے۔ (ہود :15)10 آخرت میں ان کے عمل کسی طرح بھی قبول نہیں کئے جائیں گے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 18 تا 22 العاجلۃ جلد ملنے والی، (دنیا کا عیش و آرام) ۔ یصلی وہ ڈالے گا، داخل کریگا۔ مذموم ملامت زدہ، بےحال۔ مدحور رحمت سے دور ، دھوکا دیا گیا ہے۔ مشکور مقبول ، کامیابی ۔ نمد ہم دیتے ہیں۔ محظور روکی گئی۔ انظر دیکھو۔ فضلنا ہم نے بڑائی دی۔ تفضیل بڑائی ، فضیلت ، تقعد تو بیٹھے گا۔ مخذول بےکس، ذلیل ۔ تشریح آیت نمبر 18 تا 22 اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے بنائی ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس نے سورج کی چمک چاند کی ٹھنڈک ہوائیں، فضائیں، شجر و حجر ہر چیز کو انسانی ضرورت کے لئے بنایا ہے اور ہر انسان اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے خواہ وہ اللہ کا فرماں بردار وہ یا نافرمان۔ ان شخص جتنی محنت کرتا ہے اسی قدر بہتر نتائج حاصل کرتا چلا جاتا ہے لیکن کامیاب کون ہے اور ناکام کون ہے ؟ انسان اس کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو وقتی فائدوں اور عیش و آرام کی طلب میں ساری زندگی محنت کرتے ہیں اور ہر چیز کے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاخیر کو پسند نہیں کرتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ حاصل کرنا ہے و جلد از جلد مل جائے ایسے لوگ پرہیز گاری، نیکی اور آخرت کی بھی پروا نہیں کرتے ان کے پیش نظر بس دولت مند بننے کا خواب ہوتا ہے جسے وہ زندگی بھر پورا کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ہم بہت کچھ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں لیکن وہ آخرت کی ابدی راحتوں سے محروم رہیں گے اور دنیا میں سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود وہ آخرت میں خالی ہاتھ ہوں گے۔ دنیا کی محبت میں ڈوب جانے والوں کو مرنے کے بعد آخرت کے دھکوں، ذلتوں اور بد حالیوں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا استعمال کے لئے ہے محبت اور دل لگانے کے لئے نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہمیں آخرت ملے یا نہ ملے جو کچھ حاصل کرنا ہے وہ جلد از جلد اسی دنیا میں مل جائے تو ایسے لوگوں کی آخرت کی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا اور ان کو آخرت میں جہنم کا ایندھن بننا پڑے گا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ آخرت کی زندگی اور بہتر انجام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ اسی جدوجہد اور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہماری آخرت درست ہوجائے خواہ دنیا میں کسی طرح کی تنگی اور پریشانی برداشت کرنا پڑے تو فرمایا کہ اللہ نے ان سے جو بھی وعدے کئے ہیں وہ ان کو پورا کر کے رہے گا۔ ایسے لوگوں کی ہر کوشش کو قبول کیا جائے گا اور آخرت میں راحت و آرام، سکون ، سکون و اطمینان سے بھرپور زندگی عطا کی جائے گی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ جب کسی کو کچھ دینا چاہتا ہے تو پھر ایسا کوئی نہیں ہے جو اس کی عطا و بخشش کو روک سکے۔ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اس دنیا میں بعض لوگ خوب جدوجہد کرتے ہیں۔ حالات بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں اور وہ ڈھیروں دولت کما کر خوش حال بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنی محنت میں تو کمی نہیں کرتے لیکن ساری زندگی بڑے نپے تلے انداز سے زندگی گذارتے ہیں اور انہیں خوش حالی نصیب نہیں ہوتی۔ ایک خوش حال اور دوسرا بدحال کہلاتا ہے۔ حالانکہ محنت دونوں کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کی راہوں میں محنت دونوں کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ جتنا ایک شخص کو ملا ہے اتنا ہی دوسرے کو مل جائے۔ فرمایا کہ آخرت کا معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ اگر کوئی آخرت کے لئے تھوڑی سی محنت بھی کرے گا تو اس کو آخرت میں بہترین بدلہ اور حسن انجام ضرور ملے گا اور اس عطا و بخشش کو اس سے روکنے والا کوئی نہ ہوگا ۔ وہ اللہ اس کو جتنا دینا چاہے دے گا اور اس کو سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال فرما دے گا لیکن دنیا اور اس کی دولت کمانے والوں کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان کو اطمینان و سکون نصیب ہوجائے اور اگر وہ ناکام ہوگئے تو آخرت کی ناکامی تو ان کے ہر سکون کو چھین لے گی اور ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بننا پڑے گا۔ فرمایا کہ اہل جنت کے مختلف درجات ہوں گے لیکن ایک چیز سب کو نصیب ہوگی اور وہ ہے دل کا سکون اور اطمینان کی دولت۔ فرمایا کہ اے لوگو ! تم اپنے وقتی فائدوں کے لئے اپنی آخرت کی ابدی زندگی کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ وہ اللہ ایک ہے اس کی وحدانیت کا اقرار اور عمل صالح انسان کو ابدی راحتوں سے ہمکنار کرنے والا ہے ۔ یہ دنیا کی دولت اور عیش و آرام محض ایک وقتی دھوکہ ثابت ہوں گے۔ اللہ کو ایک مان کر اسی کی عبادت و بندگی کرنے والے آخرت کا عیش و آرام ضرور حاصل کرلیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اقوام کی تباہی میں بنیادی عنصر ان کی جلد بازی ہوا کرتا ہے۔ جس کی بناء پر وہ اصول کے مقابلے میں وقتی مفاد، صالح کردار کے مقابلہ میں دنیا کی لذّات، سہولیات اور آخرت کے بدلے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس بناء پر دنیا میں ذلت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ یہاں دنیا دار کو جلد باز قرار دینے کے بعد اس کا انجام ذکر کیا جا رہا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے جلد بازی کرتا ہے۔ ہم جس قدر چاہتے ہیں اسے دنیا دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہم نے جہنم تیار کی ہے۔ جس میں اسے ذلّت و پھٹکار کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں جس شخص نے آخرت کو پسند کیا اور اس کے لیے کوشش کی اس حال میں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھنے والاہو۔ ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ دونوں قسم کے لوگوں کو مہلت دیتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ وہ ہر کسی کو مہلت دیے ہوئے ہے۔ اس مہلت سے جو لوگ صحیح فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی کرم نوازی سے مزید عنایت فرمائیں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! غور فرمائیں کہ ہم کس طرح لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے ہیں۔ جو لوگ دنیا کے حصول کے ساتھ آخرت کے لیے محنت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ترقی عنایت فرمانے کے ساتھ آخرت میں برتری اور بڑی فضیلت سے سرفراز فرمائے گا۔ یہاں دنیا کی جستجو کرنے والے کے لیے ” عجلت “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ دنیا دار آخرت کے اجر پر صبر کرنے کی بجائے دنیا کے مفاد کو مقدم سمجھتا ہے۔ جس وجہ سے وہ حق اور سچ پر قائم رہنے کی بجائے دنیا کے فائدے کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے لیے جلدی کرتا ہے۔ حالانکہ انسان حق کو ترجیح دے تو دنیا کے فائدے کے ساتھ آخرت میں اجر کا بھی حق دار بن جائے لیکن دنیا پرست جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کے لیے عاجلہ کا لفظ استعمال کیا۔ سورة القیامۃ آیت ٢٠ تا ٢١ میں فرمایا ہے کہ بیشک کوئی شخص دنیا کے لیے کتنی جلدی کرلے۔ دنیا میں اسے وہی کچھ حاصل ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ آخرت کے لیے ” سعی “ کا لفظ استعمال فرمایا جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ مومن کو دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینی اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ آخرت کا صلہ کوشش کے بغیر نہیں ملے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَےِّبٍ وَّلَا ےَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّےِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ ےَتَقَبَّلُھَا بِےَمِےْنِہٖ ثُمَّ ےُرَبِّےْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا ےُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ )[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسا کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ جو دنیا کی چاہت رکھتا ہے اسے اس قدر دنیا ملتی ہے جتنی اللہ چاہتا ہے۔ ٢۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینے والے کو عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ ٣۔ آخرت کے لیے کوشش کرنے والے کی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عطا ختم ہونے والی نہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

من کان یرید لعاجلۃ عجلنا لہ فیھا ما نشاء لمن نریدثم جعلنا لہ جھنم یصلھا مذموما مدحورا (٧١ : ٨١) ” جو کوئی (اس دنیا میں) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہش مند ہو ، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں ، پھر اس کے مقسو میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ، ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر “۔ مذموم اور ملامت زدہ اس لئے کہ اس نے یہی کمائی کی اور رحمت سے محروم یوں کہ وہ عذاب میں مبتلا ہوگیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

طالب دنیا کو تھوڑی سی دنیا دے دی جاتی ہے اور آخرت میں اس کے لیے جہنم ہے اہل ایمان کے اعمال کی قدردانی ہوگی ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی دادو دہش اور عطاء و نوازش کا تذکرہ فرمایا ہے جو دنیا اور آخرت میں بندوں پر ہوتی ہے اور اس بارے میں جو تکوینی قانون ہے اس کا تذکرہ فرمایا ہے، اول دنیا کے طلب گاروں کا تذکرہ فرمایا کہ جو شخص اپنے اعمال کے ذریعے دنیا ہی کو چاہتا ہے اس کو دنیا کا کچھ حصہ دے دیا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر طالب دنیا کو اس کی مراد مل جائے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو چاہے وہ سب مل جائے اسی کو فرمایا ہے (عَجَّلْنَالَہٗ فِیْھَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ) کہ ہم ایسے شخص کے لیے اسی دنیا میں جس کے لیے چاہیں گے جتنا چاہیں گے دیدیں گے۔ اور چونکہ یہ شخص محض طالب دنیا تھا آخرت کا طالب نہ تھا اس لیے ایمان سے بھی غافل رہا۔ لہٰذا آخرت میں اسے کوئی نعمت نہ ملے گی وہاں دوزخ میں داخل ہوگا۔ اسی کو فرمایا (ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَھَنَّمَ ) (پھر ہم اس کے لیے جہنم کو مقرر کردیں گے) (یَصْلٰھَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا) (وہ اس میں اس حال میں داخل ہوگا کہ بدحال ہوگا اور اللہ کی رحمت سے ہٹایا ہوا ہوگا) مذموم کا اصل معنی ہے مذمت کیا ہوا اور مدحور کا معنی ہے دور کیا ہوا مطلب یہ ہے کہ ذلیل بھی ہوگا، اللہ کی رحمت سے دور بھی ہوگا دوزخ میں داخل ہوگا، سورة شوریٰ میں فرمایا (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ ) (جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کو اس کی کھیتی پر ترقی دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ یہ مشرکین کے ایک شبہہ کا جواب ہے۔ شبہ یہ تھا کہ اگر یہ مسئلہ توحید حق ہوتا تو دنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں مال و دولت اور یہ انواع و اقسام رزق کیوں دیتا حالانکہ ہم اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ جواب فرمایا کہ دنیا میں ہم عطاء اور داد و دہش کا دروازہ کسی پر بند نہیں کرتے۔ دنیا میں روزی سب کو دیتے ہیں خواہ فرمانبردار ہوں خواہ نافرمان۔ ہاں جو شخص آخرت پر دنیا کو ترجیح دے اور دنیا کا طالب اور خواہشمند ہو تو ہم اس کو دنیا میں دولت دیدیتے ہیں لیکن آخرت میں ذلت، رحمت خدا سے محرومی اور عذاب جہنم کے سوا اس کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ ” ومن اراد الاخرۃ “ بشارت اخروی۔ لیکن جو لوگ آخرت کے متلاشی ہیں اور تلاش آخرت کے جذبہ صادقہ کے تحت وہ نیک اور بھلے کام کر کے آخرت کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں اور ساتھ اللہ کی توحید اور دیگر ضروریات دین پر ان کا ایمان بھی ہے تو ان کی کوشش کامیاب اور بار آور ہوگی۔ ” و سعی لھا سعیھا “ اس کے لیے کماحقہ کوشش کی یعنی اللہ کے اوامر کو بجالایا اور منہیات سے باز رہا اور دین میں اختراع اور واحداث سے اجتناب کیا۔ ای السعی اللائق بھا وھو الاتیان بما امر والان تھا عما نہی لا التقرب بما یخترعون بارائھم (ابو السعود ج 70 ص 565) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18 جو شخص عاجلہ یعنی دنیا ہی چاہتا ہے اور دار دنیا ہی کا طلب گار ہے تم ہم اس کو دنیا میں جتنا چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں جلد اور فی الحال دے دیتے ہیں پھر ہم اس کے لئے جہنم مقرر کردیتے ہیں اس جہنم میں وہ برا سن کر اور بدحال دراندئہ درگاہ ہو کر داخل ہوگا۔ عاجلہ فرمایا دنیا کو چونکہ انسان پہلے دنیا ہی میں آتا ہے لہٰذا جو شخص دنیا ہی کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ بھی ہر شخص کو نہیں ملتی بلکہ جس کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کو دے دیتا ہے اور یہ بھی نہیں کہ جتنی وہ چاہے اتنی ہی دے دے بلکہ جس قدر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اتنی دیتا ہے لیکن آخرت سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہاں جہنم میں ملوم و مدحور بنا کر داخل ہوتا ہے اور اس کو جہنم میں دھکیل دیا جاتا ہے دنیا بھی پوری نہ ملی اور آخرت بھی ہاتھ سے گئی۔