Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 19

سورة بنی اسراءیل

وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۱۹﴾

But whoever desires the Hereafter and exerts the effort due to it while he is a believer - it is those whose effort is ever appreciated [by Allah ].

اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے ، وہ کرتا بھی ہو اور وہ با ایمان بھی ہو ، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَنْ أَرَادَ الاخِرَةَ ... And whoever desires the Hereafter, wanting the Hereafter and its blessings and delights, ... وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا ... and strives for it, with the necessary effort due for it, seeking it in the right way, which is following the Messenger. ... وَهُوَ مُوْمِنٌ ... while he is a believer, means, his heart has faith, i.e., he believes in the reward and punishment, ... فَأُولَيِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا then such are the ones whose striving shall be appreciated, (rewarded by Allah).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر دانی کے لئے تین چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں، 1۔ ارادہ آخرت، یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی 2۔ ایسی کوشش جو اس کے لائق ہو، یعنی سنت کے مطابق، 3۔ ایمان کیونکہ اس کے بغیر تو کوئی عمل بھی قابل توجہ نہیں۔ یعنی قبولیت عمل کے لئے ایمان کے ساتھ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩ ١] اس کے مقابلہ میں جو شخص اخروی اجر اور نجات کو ملحوظ رکھ کر اپنی زندگی بسر کرے اور اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہو۔ اسے یقیناً آخرت میں اس کے نیک اعمال کا اجر ملے گا، دوزخ کے عذاب سے بچ جائے گا اور دنیا بھی اتنی ضرور مل جائے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ ۔۔ : اس آیت میں عمل کی قبولیت کی تین شرطیں بیان ہوئی ہیں، جن میں بنیادی شرط ” وَهُوَ مُؤْمِنٌ“ یعنی ایمان ہے، یہ بات بہت سی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٢٤) ، نحل (٩٧) اور مومن (٤٠) وغیرہ۔ کافر کے نیک اعمال قیامت کے دن بےکار ہوں گے۔ دیکھیے سورة ابراہیم (١٨) ، فرقان (٢٣) اور نور (٣٩) وغیرہ۔ کیونکہ کافر کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں اسے دے دیا جاتا ہے۔ دیکھیے ہود (١٥، ١٦) ، شوریٰ (٢٠) احقاف (٢٠) وغیرہ۔ کافر کی نیکیوں کی مثال صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور مظلوموں کی مدد وغیرہ ہے۔ دوسری شرط اخلاص ہے، جو ” اَرَادَ الْاٰخِرَةَ “ سے ظاہر ہے اور تیسری شرط آخرت کے لائق عمل صالح ہے، جو ” وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا “ سے ظاہر ہو رہی ہے اور یہ وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، ایسے عمل کا بدلہ ضرور ملے گا اور کئی گنا یا بےحساب ملے گا، جیسا کہ کئی آیات میں مذکور ہے : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف کامل صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “ تو جس سعی کو اللہ تعالیٰ مشکور قرار دے وہ ایسی ہی ہوتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A self-opinionated deed and an act of religious innovation, no matter how appealing, is not acceptable In this verse (19), by adding the word: سَعْيَهَا (as due), it has been made explicit that every deed and every effort is not necessarily beneficial or acceptable with Allah. Instead, the only deed or effort credible is that which is appropriate to the essential objective (of the Hereafter). And whether or not it is appropriate can only be found out from the state¬ment of Allah Ta’ ala and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Therefore, even well mean¬ing efforts made by insisting on bland personal opinion and self-invented ways - which includes common customs of Bid&ah (innovations in estab¬lished religion) - no matter how good and beneficial they may appear at their face, but are not appropriate to the effort made for the Hereafter. Consequently, they are neither acceptable with Allah nor are they of any use in the Hereafter. Explaining the word: سَعْيَهَا (as due), Tafsir Ruh al-Ma’ ani says that the &effort& should be in accordance with &sunnah.& Along with it, it adds that this effort or deed should also have uprightness and firmness. In other words, this deed should be beneficial in accordance with the Sun¬nah as well as it should be upright and constant. Doing it haphazardly or doing it in a cycle of doing and not doing is not good. It never yields the maximum benefit.

بدعت اور خود رائی کا عمل کتنا ہی اچھا نظر آئے مقبول نہیں : اس آیت میں سعی وعمل کے ساتھ لفظ سَعْيَهَا بڑھا کر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ہر عمل اور ہر کوشش نہ مفید ہوتی ہے نہ عند اللہ مقبول بلکہ عمل وسعی وہی معتبر ہے جو مقصد (آخرت) کے مناسب ہو اور مناسب ہونا یا نہ ہونا یہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان سے ہی معلوم ہوسکتا ہے اس لئے جو نیک اعمال خود رائی اور من گھڑت طریقوں سے کئے جاتے ہیں جنمیں بدعات کی عام رسوم شامل ہیں وہ دیکھنے میں کتنے ہی بھلے اور مفید نظر آئیں مگر آخرت کے لئے سعی مناسب نہیں اس لئے نہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں اور نہ آخرت میں کار آمد۔ اور تفسیر روح المعانی نے سَعْيَهَا کی تشریح میں سعی کے مطابق سنت ہونے کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اس عمل میں استقامت بھی ہو یعنی عمل مفید مطابق سنت بھی ہو اور اس پر استقامت اور مداومت بھی ہو بد نظمی کے ساتھ کبھی کرلیا کبھی نہ کیا اس سے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا 19؀ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اور جو شخص اپنے ان مفروضہ اعمال صالحہ میں جنت کی نیت رکھے گا اور جنت کے لیے جیسے اعمال کرنے چاہیں ویسے ہی عمل کرے گا بشرطیکہ وہ مومن مخلص بھی ہو تو اس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک مقبول ہوگا یہ آیت حضرت بلال (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ) یعنی اس کی یہ طلب صرف زبانی دعویٰ تک محدود نہ ہو بلکہ حصول آخرت کے لیے وہ ٹھوس اور حقیقی کوشش بھی کرے جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔ اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اہل ایمان میں سے ہو کیونکہ ایمان کے بغیر اللہ کے ہاں بڑی سے بڑی نیکی بھی قابل قبول نہیں ہے۔ (فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا) اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! یہ آیت ہم میں سے ہر ایک کے لیے لٹمس ٹیسٹ ہے۔ اس ٹیسٹ کی مدد سے ہر شخص ٹھیک سے معلوم کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کس موڑ پر کس حیثیت سے کھڑ ا ہے ؟ چناچہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی منصوبہ بندیوں اور شبانہ روز بھاگ دوڑ کی ترجیحات کا تجزیہ کر کے اپنا احتساب کرے کہ وہ کس قدر دنیا کا طالب ہے اور کس حد تک فلاح آخرت کو پانے کا خواہش مند ؟ بہر حال دنیا پر آخرت کو ترجیح دینا اور پھر اپنے قول و فعل سے اپنی ترجیحات کو ثابت کرنا ایک کٹھن اور دشوار کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21. Whose effort shall be appreciated, he will be rewarded for the efforts he had made for success in the Hereafter.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :21 یعنی اس کے کام کی قدر کی جائے گی اور جتنی اور جیسی کوشش بھی اس نے آخرت کی کامیابی کے لیے کی ہوگی اس کا پھل وہ ضرور پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ اوپر کی آیت میں یہ مذکور تھا کہ دنیا میں یہ کفار جو نیکیاں کرتے ہیں اور اس سے طلب خیر کا ارادہ کرتے ہیں ہم اپنی مرضی کے موافق جتنا چاہتے ہیں دنیا میں اس کا بدلہ ان کو دیتے ہیں اور اس آیت میں فرمایا جو شخص اپنے نیک عمل بخیال آخرت کے کرتا ہے اس کے لیے کامل کوشش جی توڑ کر کرتا ہے اور پھر وہ شخص بذات خود خدا اور رسول پر ایمان بھی رکھتا ہے تو اس کی سعی عند اللہ مشکور ہوگی یہ تو اوپر بیان کردیا گیا ہے کہ سعی کے مشکور ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں ایک تو ارادہ دار آخرت کے ثواب کا ‘ دوسری کوشش کامل ‘ تیسری خود اس شخص کا مومن ہونا کیونکہ عمل صالح اس شخص کا مقبول ہوتا ہے جو صاحب ایمان اور متقی ہو حضرت عائشہ (رض) کی حدیث اوپر گز چکی ہے کہ دنیا اس کا گھر ہے جس کا اور کہیں ٹھکانا نہیں اور دنیا میں مال وہی شخص جمع کرتا ہے جو بےعقل ہے ١ ؎۔ وہی حدیث اس آیت کی بھی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے اور اس آیت میں جن لوگوں کا حال ہے اس اوپر کی آیت کے لوگوں کے وہ حال کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ یہ لوگ ان تینوں شرطوں کی پابندی سے نیک عمل کرتے ہیں۔ جن شرطوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیک لوگوں کے لیے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی گئی ہیں وہ کسی نے جنت میں جانے سے پہلے نہ آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی دل میں اس کا خیال گزر سکتا ہے۔ یہ حدیث کان سعیھم مشکورا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جن نیک لوگوں کا ذکر آیت میں ہے قیامت کے دن ان کی کوشش اور دوڑ دھوپ کا جو بدلہ ان کو دیا جائے گا اس کی خوبی نہ کسی نے ابھی آنکھوں سے دیکھی نہ کانوں سے سنی نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزر سکتا ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٣ ج ٣ ٢ ؎ تفسیر مذاص ١٢ ج ٣

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:19) مشکورا۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ مقبول۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی وہ اس کا پھل ضرور پائے گا اور ان کے اعمال کا کئی گنا بدر دیا جائے گا حدیث میں ہے : الحسنہ بعشر امثالھا الی سبع مائۃ ضعف کہ نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملے گا۔ “ ہوسکتا ہے کہ ” مشکوراً “ سے اسی طرف اشارہ ہو

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ وہ عمل قواعد شرعیہ کے موافق کیا، کیونکہ آخرت کے لئے وہی سعی کرنا چاہئے جس کا امر ہوا ہو، بخلاف ان اعمال کے جو ہوائے انسانی کے موافق ہوں کہ وہ مقبول نہیں غرض شرع کے موافق عمل کیا۔ 4۔ غرض قبول سعی یعنی عمل کی تین شرطیں ہوئیں۔ 1 تصحیح نیت جس پر اراد الاخرة دال ہے۔ 2، تصحیح عمل حسب شرع جس پر سعیھا جس پر دال ہے۔ 3، تصحیح عقیدہ جس پر مومن دال ہے۔ پس شرائط قبول کے یہ ہیں اور بدون اس کے غیر مقبول۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا (٧١ : ٩١) ” اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہیے اور وہ وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی “۔ پس جو لوگ آخرت چاہتے ہیں ضروری ہے کہ اس کے لئے سعی بھی کریں۔ اس کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اور اسکے تقاضے پورے کریں اور یہ تمام جدوجہد ایمان کے بعد ہو ، ظاہر ہے کہ ایمان محض خواہش اور تمنا کا نام نہیں ہے ، بلکہ ایمان یہ ہے کہ وہ دل میں بیٹھ جائے اور عمل صالح اس کی تصدیق کرے۔ یہاں یہ بات درست ہے کہ آخرت کے لئے سعی کرنے کے نتیجے میں انسان دنیا کے مفاد اور سہولتوں اور لذتوں سے یکدم محروم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ آخرت کو مدنظر رکھتا ہے ، یہ نہیں ہوتا کہ دنیا ہی اس کا منتہائے مقصود ہو ، آخرت بھی پیش نظر ہوتی ہے اور جب آخرت انسان کے پیش نظر ہو تو پھر دنیا کا رہن سہن انسان کے لئے مضر نہیں ہوتا۔ اور جو شخص صرف دنیا چاہتا ہے وہ جہنم میں ملامت زدہ اور رحمت سے محروم پھینک دیا جائے گا اور جو شخص آخرت کے لئے ساعی ہے تو اس کا استقبال ملا اعلیٰ میں نہایت ہی عزت اور تکریم سے ہوگا ، کیونکہ اس نے دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے لئے کام کیا اور قریب کو چھوڑ کر اس نے بعید اور بلند آفاق کی طرف نظریں اٹھائیں۔ دنیا کی زندگی کی حقیقت کیا یہ ؟ وہ لوگ اس کی حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں جو کیڑوں مکوڑوں ، حشرات الارض ، حیوانات اور و حوش کی زندگی کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی انسانی زندگی اور دنیا میں مذکورہ بالا حشرات الارض کی زندگی میں کوئی بنیادی امتیاز نہیں ہے۔ انسان کی انسانیت کے ساتھ لائق زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ، یہ اللہ کے جوار میں دائمی زندگی ہے۔ کیونکہ انسان کو اللہ نے ایک خاص انداز سے پیدا کیا اور اس کو برابر کیا۔ اس کے اندر اپنی خاص روح پھونکی اور اسے زمین کے اوپر آباد کیا اور یہاں اسے مستحکم کرکے علم سے نوازا اور فرشتوں پر برتری عطا کی۔ جو شخص دنیا کے لئے جدوجہد کرے اس کے سامنے بھی میدان کھلا ہے اور جو آخرت کے لئے جدوجہد کرے اس کے لئے بھی میدان کھلا ہے۔ دونوں کو اللہ ان کے مطلوبہ مقاصد اور مطالب اور اہداف تک پہنچاتا ہے۔ کوئی دنیا چاہیے یا آخرت۔ اللہ کسی کی راہ نہیں روکتا جہاں کوئی چاہے اللہ کی مشیت اسے لے جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد آخرت کے طلبگاروں کا تذکرہ فرمایا (وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓءِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا) (اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لیے کوشش کرے جیسے کوشش کرنی چاہیے، اور وہ مومن ہو سو یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدردانی ہوگی۔ ) اس آیت کریمہ میں یہ بتایا کہ جو شخص آخرت کا طالب ہو اور اس کے لیے کوشش کرے تو اس کی یہ سعی مقبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی محنت اور کوشش کی قدر کی جائے گی یعنی اس کی محنت اور سعی کا ثواب دیا جائے گا اس میں تین شرطیں بیان فرمائیں اول یہ کہ آخرت کا طلبگار ہو یعنی نیت صحیح ہو خالص آخرت کے ثواب کا ارادہ ہو اور دوسری شرط یہ بتائی کہ آخرت کے لیے کوشش کرے اور یہ ایسی کوشش ہو جسے آخرت کی کوشش کہا جاسکے۔ یعنی اس کے اعمال اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کے موافق ہوں (اگر طالب آخرت ہو لیکن اعمال غیر شرعی ہوں جیسا اہل بدعت کے اعمال ہیں تو ایسے اعمال مقبول نہیں) اور تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مومن بھی ہو اگر مومن نہ ہوگا تو آخرت میں کوئی عمل فائدہ مند نہ ہوگا خواہ کیسا ہی طلب آخرت کا مدعی ہو اور اپنے خیال میں آخرت کے لیے محنت اور ریاضت کرتا ہو جیسا کہ سادھو اور راہب محنتیں کرتے ہیں۔ (فَاُولٰٓءِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا) (اہل ایمان کی سعی کی قدردانی کی جائے گی) یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور انہیں جنت عطا فرمائے گا اور جتنا جتنا عمل کیا اس سے بہت زیادہ بڑھا کر عمل کو کئی گنا کرکے اجر عطا فرمائے گا۔ کما قال تعالیٰ (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ و قَال تعالیٰ مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا) دنیا میں جو کافروں، فاجروں کو نعمتیں دی جاتی ہیں اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ لوگ مقبولان بارگاہ ہیں کیونکہ دنیا کی نعمتیں اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ جسے نعمت و دولت مل گئی اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے، یہ نعمتیں مومن اور کافر صالح اور طالح سب کو مل جاتی ہیں دنیا کی نعمتیں اہل ایمان کے لیے مخصوص نہیں،

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 اور جو شخص آخرت اور دار آخرت چاہتا ہے اور آخرت کے لئے جیسی سعی اور کوشش کرنی چاہئے وہ کوشش بھی کرتا ہے درآنحالیکہ وہ مومن بھی ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی سعی اور کوشش مقبول و مشکور ہوگی۔ یعنی عمل میں نیت ٹھیک ہو اور عمل بھی شریعت کے موافق ہو اور اعتقاد بھی درست اور صحیح ہو تو سمجھ لو کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی اور اس کی کوشش نیگ لگ گئی دو خیال کے لوگوں کا بیان فرمایا ایک وہ جن کے ہر عمل میں دنیا مطلوب ہو اور ریا کاری اور شہرت اور دنیوی نفع مقصود ہو۔ دوسر سے وہ لوگ جن کا ہر عمل مخلصانہ ہو صحیح ہو اور مقصد عمل سے آخرت ہو اور اعتقاد صحیح ہو اور تمام دوڑ دھوپ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے ہو تو ایسوں کی دوڑ دھوپ نیگ لگتی ہے۔