Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 21

سورة بنی اسراءیل

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ وَ لَلۡاٰخِرَۃُ اَکۡبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَکۡبَرُ تَفۡضِیۡلًا ﴿۲۱﴾

Look how We have favored [in provision] some of them over others. But the Hereafter is greater in degrees [of difference] and greater in distinction.

دیکھ لے کہ ان میں ایک کو ایک پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت تو درجوں میں اور بھی بڑھ کر ہے اور فضیلت کے اعتبار سے سے بھی بہت بڑی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ... See how We prefer one above another, meaning in this world, so that some are rich and some are poor, and others are in between; some are beautiful, some are ugly and others are in between; some die young while others live to a great age, and some die in between. ... وَلَلخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلً a... nd verily, the Hereafter will be greater in degrees and greater in preferment. means, the differences between them in the Hereafter will be greater than the differences between them in this world. Some of them will be in varying levels of Hell, in chains and fetters, while others will be in the lofty degrees of Paradise, with its blessings and delights. The people of Hell will vary in their positions and levels, just as the people of Paradise will. In Paradise there are one hundred levels, and the distance between one level and another is like the distance between heaven and earth. It is recorded in the Two Sahihs that the Prophet said: إِنَّ أَهْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى لَيَرَوْنَ أَهْلَ عِلِّيِّينَ كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الْغَابِرَ فِي أُفُقِ السَّمَاء The people of the highest levels (of Paradise) will see the people of `Illiyin as if they are looking at distant stars on the horizon.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 تاہم دنیا کی چیزیں کسی کو کم، کسی کو زیادہ ملتی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق یہ روزی تقسیم فرماتا ہے۔ تاہم آخرت میں درجات کا یہ تفاضل زیادہ واضح اور نمایاں ہوگا اور وہ اس طرح کہ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر جہنم میں جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] سیرت و کردار کی فضیلت ہی اصل فضیلت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی :۔ یہ فضیلت مال و دولت کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے اور سیرت و کردار کے لحاظ سے بھی مال و دولت کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے اس کی قدر و قیمت اگر کچھ ہوسکتی ہے تو دنیا کے طلب گاروں کی نظروں میں ہی ہوسکتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات ان کی نظر... وں میں بھی نہیں ہوتی۔ لیکن سیرت و کردار کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے وہی سچی اور لازوال فضیلت اور عزت ہوتی ہے اور یہ فضیلت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو آخرت کے طلبگار ہوں، اللہ سے ڈرنے والے ہوں اس کے فرمانبردار ہوں۔ کسی کو دھوکا فریب نہ دیتے ہوں، ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کی فضیلت کی قدر و قیمت آخرت کے طلب گاروں میں ہی نہیں دنیا کے طلب گاروں کی نگاہوں میں بھی ہوتی ہے۔ پھر آخرت میں جو ان آخرت کے طلب گاروں کو فضیلت اور درجات عطا ہوں گے وہ دنیا کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ اور بہتر ہوں گے اور صحیحین میں ہے کہ جنت کے ہر درجہ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان میں، نچلے درجہ والے اوپر کے درجہ والوں کو یوں دیکھیں گے جیسے تم رات کو آسمان کے تاروں کو دیکھتے ہو۔ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب صفۃ الجنۃ والنار)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۔۔ : یعنی دنیا میں سب لوگ رزق، حسن، ذہانت، قوت، اقتدار، غرض کسی چیز میں ایک جیسے نہیں، خواہ مومن ہوں یا کافر، یہ چیزیں مومن کے پاس بھی ہوسکتی ہیں اور کافر کے پاس بھی۔ مگر یہ دنیائے فانی ساری کی ساری بھی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں رکھتی۔ سہل بن سعد (... رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْھَا شَرْبَۃَ مَاءٍ ) [ ترمذی، الزھد، باب ما جاء في ھوان الدنیا علی اللّٰہ عزوجل : ٢٣٢٠، صححہ الألباني ] ” اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ دیتا۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (١٦٥) اور سورة زخرف (٣٢) ۔ آخرت میں جہنم کے درکات اور جنت کے درجات کا فرق اس سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَھْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاءَ وْنَ أَھْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِھِمْ ، کَمَا تَتَرَاءَ وْنَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَھُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! تِلْکَ مَنازِلُ الْأَنْبِیَاءِ لاَ یَبْلُغُھَا غَیْرُھُمْ ؟ قَالَ بَلٰی، وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ رِجَالٌ آمَنُوْا باللّٰہِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِیْنَ ) [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنہا مخلوقۃ : ٣٢٥٦۔ مسلم : ٢٨٣١ ] ” اہل جنت اپنے اوپر بالا خانوں والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح مشرق و مغرب میں دور کسی چمک دار ستارے کو دیکھتے ہیں، باہمی درجات کی کمی بیشی کی وجہ سے۔ “ لوگوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ! یہ تو انبیاء کی منازل ہوں گی، جہاں کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا ؟ “ فرمایا : ” کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ وہ مرد ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا 21؀ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظ... َرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھ لیجے کہ مال و دولت خرم وحشم میں ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دی ہے اور آخرت میں مومنین کے لیے بہت انعامات ہیں اور آخرت درجات اور فضائل کے اعتبار سے بہت بلند ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بعض لوگوں کو مال و اسباب ذہنی و جسمانی صلاحیتوں شکل و صورت اور مقام و مرتبے میں بعض دوسروں پر فضیلت دے رکھی ہے۔ یہ اس کی مرضی اور مشیت کا معاملہ ہے۔ (وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا) دنی... ا میں تو درجات و فضائل جیسے بھی ہوں جتنے بھی ہوں محدود ہی ہوں گے مگر آخرت کی نعمتیں اور نوازشیں ایسی لامحدود اور لامتناہی ہوں گی کہ ان کا موازنہ و مقابلہ دنیا کی کسی چیز سے ممکن ہی نہیں ہوگا۔ یہاں ایک شخص بیس پچیس سال کٹیا میں رہ لے گا اور ایک دوسرا شخص اتنا ہی عرصہ محل میں رہ لے گا تو کیا فرق واقع ہوجائے گا ؟ آخرکار تو دونوں کو یہاں سے جانا ہے۔ لیکن آخرت کے آرام و آسائش ابدی ہوں گے۔ وہاں کے نعمتوں کے باغات کی اپنی ہی شان ہوگی : (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌلا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) (الواقعۃ) ” تو (اس کے لیے) آرام اور خوشبودار پھول اور نعمت کے باغ ہیں۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23. This is to show that the seekers of the Hereafter have been exalted over the worshipers of the world even in this worldly life. However, this exaltation is not in regards to the good things of this world, rich food and dresses, palatial dwellings, luxurious means of travelling and other grand things. They enjoy that true honor, love and goodwill which is denied to the tyrants and the rich peop... le in spite of the fact that they may be indigent. This is because whatever the seekers of the Hereafter get in this world, it is earned in righteous and honest ways, while the worshipers of the world amass wealth by employing dishonest and cruel ways. Then the former spend what they get with prudence and righteousness. They fulfill the obligations they owe to others. They spend their money in the way of Allah and to please Allah on the needy and the indigent. In contrast to them, the worshipers of this world spend their money in the enjoyment of luxuries, wicked works, corruption and spreading other evil things. This makes the former models of God worship and purity in every respect and distinguishes them so clearly from the worshipers of the world that they shine in exaltation over the latter. These things clearly indicate that in the next world the rewards of the seekers of the Hereafter will be far greater and their superiority far higher than those of the worshipers of the world.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :23 یعنی دنیا ہی میں یہ فرق نمایاں ہو جاتا ہے کہ آخرت کے طلبگار دنیا پرست لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں ۔ یہ فضیلت اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ان کے کھانے اور لباس اور مکان اور سواریاں اور تمدن و تہذیب کے ٹھاٹھ ان سے کچھ بڑھ کر ہیں ۔ بلکہ اس اعتبار سے ہے کہ یہ جو کچھ...  بھی پاتے ہیں صداقت ، دیانت اور امانت کے ساتھ پاتے ہیں ، اور وہ جو کچھ پا رہے ہیں ظلم سے ، بے ایمانیوں سے ، اور طرح طرح کی حرام خوریوں سے پا رہے ہیں ۔ پھر ان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اعتدال کے ساتھ خرچ ہوتا ہے ، اس میں سے حق داروں کے حقوق ادا ہوتے ہیں ، اس میں سائل اور محروم کا حصہ بھی نکلتا ہے ، اور اس میں سے خدا کی خوشنودی کے لیے دوسرے نیک کاموں پر بھی مال صرف کیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس دنیا پرستوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ بیش تر عیاشیوں اور حرام کاریوں اور طرح طرح کے فساد انگیز اور فتنہ خیز کاموں میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ۔ اسی طرح تمام حیثیتوں سے آخرت کے طلبگار کی زندگی خدا ترسی اور پاکیزگی اخلاق کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو پیوند لگے ہوئے کپڑوں اور خس کی جھونپڑیوں میں بھی اس قدر درخشاں نظر آتا ہے کہ دنیا پرست کی زندگی اس کے مقابلے میں ہر چشم بینا کو تاریک نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جبار بادشاہوں اور دولت مند امیروں کے لیے بھی ان کے ہم جنس انسانوں کے دلوں میں کوئی سچی عزت اور محبت اور عقیدت کبھی پیدا نہ ہوئی اور اس کے بر عکس فاقہ کش اور بوریا نشین اتقیاء کی فضیلت کو خود دنیا پرست لوگ بھی ماننے پر مجبور ہو گئے ۔ یہ کھلی کھلی علامتیں اس حقیقت کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہیں کہ آخرت کی پائدار مستقل کامیابیاں ان دونوں گروہوں میں سے کس کے حصے میں آنے والی ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: یعنی دنیا میں کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت زیادہ رزق عطا فرمایا ہے، اور کسی کو کم، البتہ جس چیز کے لئے انسان کو پوری کوشش کرنی چاہئے وہ آخرت کے فوائد ہیں کیونکہ وہ دنیا کے فوائد کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:21) فضلنا۔ ماضی، جمع متکلم۔ ہم نے فضیلت دی ۔ (دنیاوی سازوسامان) کے عطا کرنے میں) ۔ وللاخرۃ اکبر درجت واکبر تفضیلا۔ لیکن باعتبار درجات وباعتبار فضل و کرم کے آخرت سب سے بڑھ کر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی کوئی مالدار ہے اور کوئی نادار اور اس میں کافر و مومن کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ (نیز دیکھیے سورة انعام :165 زخروف 32) یہ خطاب آنحضرت سے یا ہر اس شخص سے ہے جو عقل سمجھ اور غور نہ فکر کی صلاحیت رکھتا ہے۔14 یعنی یہاں دنیا میں فضیلت کو آخروی تفاضیل سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے فرمایا : اصحاب الجنۃ یومئ... ذ خیر مستقرار بلند مراتب والے بھی اہل علیین کو اتنا نچا دیکھیں گے جیسے تم افق میں غروب ہونے والے تارے کو دیکھتے ہو (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے ہاں سب سے زیادہ مرتبے والے انبیاء ہیں اور وہی اللہ تعالیٰ کی عطاؤں کے سب سے بڑھ کر حق دار ہیں۔ جنہیں دنیا میں بھی عظمت و فضیلت سے نوازا گیا۔ یہی اصول درجہ بدرجہ عام لوگوں میں کارفرما ہے۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) خاندان نبوت کے افراد اور گلدستۂ رسالت کے پھول ہیں۔ انبی... اء (علیہ السلام) کے درمیان مراتب کا تفاوت سمجھنے کے لیے طلبہ کی ایک کلاس کو سامنے رکھیں۔ استاد کی نظر میں تمام طلبہ عزیز ہوتے ہیں اور ہونے چاہییں۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر طالب علم ایک دوسرے پر سبقت لے جائے۔ اس کے باوجود پوری کلاس میں مجموعی طور پر ایک ہی طالب علم قابلیت اور لیاقت کے اعتبار سے سب سے آگے ہوتا ہے۔ جب کہ جزوی لیاقت اور صلاحیت کے لحاظ سے کئی طلبہ کو ایک دوسرے پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے مجموعی طور پر سرفہرست آنے والے طالب علم سے دوسرا طالب علم سائنس کے مضمون میں اس سے زیادہ نمبر حاصل کرتا ہو۔ اور یہی کیفیت دوسرے طالب علم کی کسی دوسرے مضمون میں ہوسکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تو ایک فسٹ پوزیشن حاصل کرے گا۔ انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت و عظمت دینے کا یہی مفہوم ہوسکتا ہے کہ حالات اوراقوام کے مزاج کے پیش نظر ایک نبی کو ایسے معجزات دیے گئے جو اس کے بعد آنے والے نبی کے دور اور مزاج کے لیے ضروری نہیں تھے۔ مثال کے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں جادو کا علم اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ دنیا کے قابل ترین جادوگر شکست ماننے پر مجبور ہوئے۔ ان کے بعد ہر دور کے مطابق انبیاء معجزات کے ساتھ مبعوث کیے گئے یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ ان کے سامنے ارسطو اور افلاطون کی میڈیکل سائنس ماند پڑگئی۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَاءِ کَمَثَلِ قَصْرٍ اُحْسِنَ بُنْیَانُہٗ تُرِکَ مِنْہُ مَوْضِعُ لَبِنَۃٍ فَطَافَ بِہِ النُّظَارُیَتَعَجَّبُوْنَ مِنْ حُسْنِ بُنْیَانِہٖ اِلَّا مَوْضِعَ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ فَکُنْتُ اَنَا سَدَدْتُّ مَوْضِعَ اللَّبِنَۃِ خُتِمَ بِیَ الْبُنْیَانُ وَخُتِمَ بِیَ الرُّسُلُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَنَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ ) [ رواہ البخاری : باب خاتم النبین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ میری مثال اور دوسرے نبیوں کی مثال نہایت ہی اعلیٰ تعمیر شدہ محل کی سی ہے ‘ جس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔ دیکھنے والے اس کے اردگرد گھومتے اور اس کے حسن کو دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ البتہ اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ چناچہ میں نے اس اینٹ کے خلا کو پر کردیا۔ مجھ پر اس عمارت کی تکمیل ہوئی۔ رسولوں کا سلسلہ مجھ ہی پر ختم ہوا۔ دوسری روایت میں ہے ‘ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیّن ہوں۔ “ (عَنْ ابِیْ ھُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَناَ اَوْلَی النَّاس بعیْسٰی ابْنِِِ مَرْیَمَ فِیْ الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ الْاَنْبِیَاءُ اِخْوَۃٌ مِّنْ عَلَّاتٍ وَّاُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ وَّلَیْسَ بَیْنَنَانَبِیٌّ) [ رواہ البخاری : باب (وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ بن مریم کے زیادہ قریب ہوں۔ سب انبیاء سوتیلے بھائی ہیں البتہ ان کی مائیں مختلف ہیں ان کا دین ایک ہے نیز ہم دونوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں۔ “ عام انسانوں میں مراتب کا فرق : یہی اصول باقی انسانوں میں جاری ہے ایک باپ کی اولاد میں ظاہری اور جوہری لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک بادشاہ ہے اور دوسرا گداگر، ایک نہایت خوبصورت ہے اور دوسرا مناسب صورت، ایک صاحب کردار ہے اور دوسرا بدکردار۔ علیٰ ھذا القیاس۔ (اَ لْرِ جَالُ قَوَّا مُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ )[ النساء : ٣٤]” مرد عورتوں پر حاکم ہیں “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرماتا ہے۔ ٢۔ آخرت نعمتوں اور فضیلت کے اعتبار سے بہت اعلیٰ ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) کے مراتب : ١۔ حضرت آدم کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ : ٣٠) ٢۔ حضرت ادریس کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم : ٥٧) ٣۔ حضرت ابراہیم کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٤۔ حضرت یعقوب کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرمایا۔ (یوسف : ٨٣) ٥۔ حضرت یوسف کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف) ٦۔ حضرت داؤد کو اللہ نے قوت فیصلہ عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٧۔ حضرت سلیمان کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٨۔ حضرت موسیٰ کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ : ١٢۔ ١٣۔ ١٤) ٩۔ حضرت عیسیٰ کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (النساء : ١٧١) ١٠۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین وخاتم النبیّین بنایا۔ (الاحزاب : ١٠٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” مگر دیکھ لو ، دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے۔ اور آخرت میں اس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے ، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی “۔ اس لئے اگر کوئی حقیقی طور پر بلند مرتبہ چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس عظیم اور سچی تفاوت و امتیاز کے لئے جدوجہد کرے جو آخرت میں ... ہوگی ، جس کا میدان وسیع اور جہاں کسی جگہ کوئی تنگی اور کمی نہیں ہے۔ اور وہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کی حدود سے صرف اللہ ہی خبردار ہے اور جو لوگ مقام امتیاز میں باہم مقابلہ کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ مقام آخرت کے لئے مقابلہ کریں۔ دنیائے دنی کے حقیر اور قلیل ساز و سامان کے لئے کیا بھاگنا !  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) (آپ دیکھ لیجیے ہم نے بعض کو بعض پر کیسی فضیلت دی) یہ دنیاوی فضیلت ہے اس میں مومن اور کافر کی کوئی قید نہیں ہے، بہت سے کافروں کے پاس مال زیادہ ہے اور بہت سے مومنین کے پاس کم ہے۔ (وَ لَلْاٰخِرَۃُاَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَکْبَرُ تَفْضِیْلًا... ) (اور بلاشبہ آخرت درجات کے اعتبار سے بڑی چیز ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی) اس میں یہ بتایا ہے کہ آخرت کے لیے فکر مند ہونا چاہیے اور وہاں کے درجات حاصل ہونے کے لیے ایمان سے اور اعمال صالحہ سے متصف ہوں اہل دنیا کی دنیا پر نظر نہ کریں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ یہ آخرت کی ترغیب ہے۔ جواب شبہ کے بعد آخرت کے لیے کوشش کرنے کی ترغیب فرمائی۔ دنیا میں مومن و کافر کے درمیان مال و دولت کے اعتبار سے بہت تفاوت تفاضل ہے مگر یہ کچھ معتبر نہیں اصل فضیلت کا مدار تو درجات آخرت پر ہے اور درجات آخرت اعمال صالحہ سے متعلق ہیں اس لیے اعمال صالحہ کے ذریعہ درجات آخرت حاصل ک... رنے کی کوشش کرو۔ دنیا میں کافر اگرچہ اکثر اوقات مومن سے کثرت دولت میں بازی لے جاتا ہے لیکن درجات آخرت مومن کے ساتھ مختص ہیں اور کافر ان سے محروم ہوگا۔ المراد ان الاخرۃ اعظم واشف من الدنیا والمعنی ان المومنین یدخلون الجنۃ والکافرین یدخلون النار فیظہر فضل امومنین علی الکافرین (کبیر ج 5 ص 567) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 اے پیغمبر آپ دیکھ لیجیے ہم نے اس عطا دنیوی میں کس طرح بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت اور برتری دے رکھی ہے اور یقینا آخرت درجوں کے اعتبار سے بھی بہت بلند ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی بڑی ہے۔ یعنی یہاں کا ایک دوسرے پر تفوق اور یہاں کی ایک دوسرے پر برتری ناقابل توجہ اور ناقابل استدلال ہے۔