Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 24

سورة بنی اسراءیل

وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾

And lower to them the wing of humility out of mercy and say, "My Lord, have mercy upon them as they brought me up [when I was] small."

اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ... And lower unto them the wing of submission and humility through mercy, means, be humble towards them in your actions. ... وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا and say: "My Lord! Bestow on them Your Mercy as they did bring me up when I was young." means, say this when they grow old and when they die. Ibn Abbas said: "But then Allah revealed: مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ It is not (proper) for the Prophet and those who believe to ask Allah's forgiveness for the idolators. .." (9:13) There are many Hadiths which speak about honoring one's parents, such as the Hadith narrated through a number of chains of narration from Anas and others, which states that the Prophet climbed up on the Minbar, and then said, Amin, Amin, Amin. It was said, "O Messenger of Allah, why did you say Amin." He said: أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْمُيصَلِّ عَلَيْكَ قُلْ امِينَ فَقُلْتُ امِينَ ثُمَّ قَالَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ شَهْرُ رَمَضَانَ ثُمَّ خَرَجَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ قُلْ امِينَ فَقُلْتُ امِينَ ثُمَّ قَالَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ قُلْ امِينَ فَقُلْتُ امِين Jibril came to me and said, "O Muhammad, he is doomed who hears you mentioned and does not say Salla upon you." He said, "Say Amin," so I said Amin. Then he said, "He is doomed who sees the month of Ramadan come and go, and he has not been forgiven." He said, "Say Amin," so I said Amin. Then he said, "He is doomed who grows up and both his parents or one of them are still alive, and they do not cause him to enter Paradise." He said, "Say Amin," so I said Amin. Another Hadith Imam Ahmad reported from Abu Hurayrah that the Prophet said: رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ أَحَدَ أَبَوَيْهِ أَوْ كِلَيْهِمَا عِنْدَ الْكِبَرِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّة He is doomed, he is doomed, he is doomed, the man whose parents, one or both of them, reach old age while he is alive and he does not enter Paradise. This version is Sahih although no one recorded it other than Muslim. Another Hadith Imam Ahmad recorded Mu`awiyah bin Jahimah As-Salami saying that Jahimah came to the Prophet and said: "O Messenger of Allah, I want to go out to fight and I have come to seek your advice." He said, فَهَلْ لَكَ مِنْ أُم Do you have a mother? He said, "Yes." The Prophet said, فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ عِنْدَ رِجْلَيْهَا Then stay with her, for Paradise is at her feet. Similar incidents were also recorded by others. This was recorded by An-Nasa'i and Ibn Majah. Another Hadith Imam Ahmad recorded that Al-Miqdam bin Ma`dikarib said that the Prophet said: إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأبَايِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِالاَْقْرَبِ فَالاَْقْرَب Allah enjoins you concerning your fathers, Allah enjoins you concerning your mothers, Allah enjoins you concerning your mothers, Allah enjoins you concerning your mothers, Allah enjoins you concerning your close relatives then the next in closeness. This was recorded by Ibn Majah from the Hadith of Abdullah bin Ayyash. Another Hadith Ahmad recorded that a man from Banu Yarbu said: "I came to the Prophet while he was talking to the people, and I heard him saying, يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاك The hand of the one who gives is superior. (Give to) your mother and your father, your sister and your brother, then the closest and next closest."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہء شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لئے اپنے بازو پست کردیتا ہے، یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور پر شفقت معاملہ کرنا اور ان کی اسی طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کی۔ یا یہ معنی ہیں کہ جب پرندہ اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازؤں کو پست کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی، والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] والدین سے بہتر سلوک کیسا ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ متصل والدین کا کیوں ذکر فرمایا ؟:۔ یعنی والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتا ہے۔ ان سے ادب و انکساری سے پیش آؤ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ کیونکہ وہی تمہاری پرورش و تربیت کا سبب بنے تھے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے۔ جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند وغیرہ پیدا کئے۔ پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کردیں۔ اس طرح انسان، تمام جانداروں اور باقی سب چیزوں کا پالنے والا اور پرورش و تربیت کرنے والا حقیقتاً اللہ رب العالمین ہی ہوا۔ پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا۔ دوسرے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ پھر ان پر گرمی یا سردی یا بارش کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انسان کے بچے پر ہوتا ہے دوسرے جانوروں کے بچے اتنے بیمار بھی نہیں ہوتے جتنا انسان کا بچہ فوراً بیمار ہوجاتا ہے۔ پھر ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے۔ باپ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون بھی کرتا ہے۔ تب جاکر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے اتنی بےپناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہوسکتی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بےیارو و مددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بےانصافی اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے ؟ معاشرتی زندگی کا یہ وہ نہایت اہم باب ہے جس کی طرف سے دنیادار انسان ہمیشہ غافل ہی رہے ہیں مگر اسلام نے اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے اور دعا سے مقصود یہ ہے کہ یا اللہ ! میں تو ان کا حق الخدمت پوری طرح بجا لانے سے قاصر ہوں لہذا تو ہی ان پر بڑھاپے میں اور مرنے کے بعد نظر رحمت فرما۔ اب ہم اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں : والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا && یارسول اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے ؟ && فرمایا : && نماز کی بروقت ادائیگی && میں نے پوچھا && پھر کون سا ؟ && فرمایا : && ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا && میں نے پوچھا && پھر کون سا && فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا && (بخاری۔ کتاب الادب) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا && میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ && فرمایا : && تیری ماں && اس نے کہا && پھر کون ؟ && فرمایا : && تیری ماں && اس نے پوچھا && پھر کون ؟ && فرمایا : && تیری ماں && اس نے چوتھی بار پوچھا && پھر کون ؟ && آپ نے فرمایا : && تیرا باپ && (بخاری۔ کتاب الادب من احق الناس بحسن الصحبۃ) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ && سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے && لوگوں نے کہا۔ && یارسول اللہ ! بھلا کون ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ && فرمایا، && ماں باپ کو گالی دینا یوں ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے && (بخاری۔ کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ) ٤۔ ایک دفعہ آپ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا && کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں سے خبردار نہ کروں ؟ && ہم نے کہا، && ضرور بتائیے یارسول اللہ آپ نے فرمایا : && اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، عقوق والدین & جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ برابر آپ یہی فرماتے رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا، && میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں && آپ نے اس سے پوچھا && تمہارے والدین زندہ ہیں && کہنے لگا && جی ہاں && آپ نے فرمایا : && انہی کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے) (بخاری، کتاب الادب، باب لایجاہد الاباذن الابوین) ٦۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس مدینہ آئی اور وہ کافرہ تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا && یارسول اللہ ! کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں ؟ && آپ نے فرمایا && ضرور && (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ : ” جَنَاحَ “ پرندے کے پر کو کہتے ہیں اور بازو کو بھی۔ مطلب یہ کہ جس طرح پرندہ اپنے بچوں کے اوپر اپنے پر جھکا کر انھیں اپنی آغوش میں لے کر ہر سرد و گرم سے محفوظ کرلیتا ہے اس طرح تو بھی رحم کی بنا پر تواضع کے بازو ان پر جھکا دے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق کی والدین کے حقوق کی طرح تاکید نہیں فرمائی، کیونکہ اولاد کے لیے ماں باپ کے دل میں قدرتی طور پر شفقت و محبت موجود ہوتی ہے۔ ہاں جو ظلم وہ اولاد پر کرتے تھے اس سے منع فرمایا۔ اس کا ذکر آگے اسی سورت کی آیت (٣١) میں آ رہا ہے۔ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا : معلوم ہوا کہ والدین کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرنا فرض ہے، کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، اس لیے روزانہ ان کی زندگی میں اور فوت ہونے کے بعد اپنی دعا کے ساتھ ان الفاظ میں یا دوسرے الفاظ میں ان کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے : (رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ ) [ إبراہیم : ٤١ ] ” اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا۔ “ الا یہ کہ ان میں سے کسی کی وفات کفر پر ہو تو مرنے کے بعد ان کے لیے استغفار جائز نہیں۔ ” رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا “ دعا میں یہ خوبی ہے کہ اس کے ساتھ دعا کرتے ہوئے والدین کے بچپن میں پرورش کا احساس ان کے لیے زیادہ اخلاص اور کوشش کے ساتھ دعا کا تقاضا کرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

4. Submit yourself before them in humility out of compassion - (وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّ‌حْمَةِ ). This is the fourth instruction. The word: جناح (janah) in the text literally means &wings& or &sides of arms& lending the sense that one should stand in a stance of submission and humility as a mark of respect for parents. The addition of the expression: مِنَ الرَّ‌حْمَةِ (out of com-passion) at the end of the sentence is there to warn that this stance of grace should not be a mere show-off, instead, it should be adopted on the strong foundation of genuine, heartfelt respect and compassion for them. Perhaps, this may also be suggestive of something else as well - that showing humility before parents is practically no disgrace. In fact, it is a prelude to real honour for it is based on concern, compassion and kind¬ness. 5. And say, |"My Lord, be merciful to them|" - (وَقُل رَّ‌بِّ ارْ‌حَمْهُمَا). It means, as for the effort to provide maximum comfort for parents, it is humanly not possible. One should do whatever it is possible for him to do in order that they remain comfortable and, then, along with it, he should also keep praying before Allah Ta` ala that He, in His infinite mercy, removes all their difficulties and makes things easy on them. This last instruc¬tion is really so extensive and universal that it still continues to be valid and beneficial even after the death of parents. Through this, one can al-ways keep serving parents. Ruling If parents are Muslims, making a prayer for mercy in their favor is obvious. But, if they are not Muslims, making this prayer within their lifetime will be permissible with the intention that they be delivered from worldly distress and that they be blessed with the taufiq of &Iman. After their death, making a prayer of mercy for them is not permissible. (Abridged from al-Qurtubi) A remarkable event Al-Qurtubi has reported from Sayyidna Jabir ibn ` Abdullah (رض) that a man came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and complained that his father was taking away what belonged to him. He said, |"Go and ask your father to come here.|" Right then, came Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) and told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، |"When his father comes, ask him about the words he has composed in his heart and which his own ears have not heard yet.|" When this man returned with his father, he said to the father, |"Why is it that your son complains against you? Do you wish to take away what belongs to him?|" The father said, |"You better ask him on whom do I spend other than his paternal or maternal aunts or myself?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِیہ (an expression which denoted that he had understood the reality and there was no need to say anything else). After that, he asked the father of the man, |"What are those words that have not yet been heard by your own ears?|" The father said, |"Ya Rasulallah, Allah Ta` ala increases our faith in you through everything.|" Thereby he meant that he got to know what was not heard by anyone, which was a miracle indeed. Then, he submitted, |"It is true that I had composed some lines of poetry within my heart, something not heard even by my own ears.|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Let us hear them.|" Then he recited the following lines of poetry he had composed: غَذَوتُکَ مَولوداً وَ مُنتُکَ یافعا تُعَلُّ بِمَا اَجنِی عَلَیکَ وَ تُنھَل I fed you in childhood and took care of you when young. You lived on my earnings alone. اِذَا لیلۃ ضافتک بالسقم لم ابت لسقمک الا ساھرا اتململ When on some night, you became sick, I spent the whole night remaining awake and restless because of your sickness کَأنّی انا المطروق دونک بالذی طُرِقتَ بہ دونی فعینی تھمل As if your sickness was my own and not yours and because of which my eyes kept shedding tears throughout the night تخَاف الردٰی نفسی علیک وانھا لَتَعَلَم ان الموتَ وَقتُ مؤجَّل My heart kept trembling lest something happens to you, though I knew that the time of death is fixed, being neither early nor late فَلَمَّا بَلَغتَ السِنَّ والغایۃ الَّتِی الیھا مدی ما کنت فیک اُؤمّل So, when you reached the age and maturity that I had always been looking forward to you جعلت جزأی غلظۃً وفظاظۃ کَانک اٌنت المنعم المتفضِّل Then you made hard-heartedness and harshness my return as if you were the one doing me favours and giving me rewards فلیتکَ اذ لم ترع حقَّ اُبوّتی فعلتَ کما الجارُ المصاقب یفعل Alas, if it was not possible for you to fulfill my right as a father, you could have at the least done what a good neighbor would have done فَاَولَیتنِی حَقَّ الجِوارِ ولم تکن علیَّ بمال دون مالک تَبخَل So, you could have given me the least right of a neighbor and abstained from becoming miserly in my case in my own property. After having heard these verses of poetry, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) held the son by his shirt and said, |" اَنت و مَالک لابیک |" meaning that: Go. You and your property, everything belongs to your father. (Tafsir al-Qurtubi, p. 246, v. 10) These verses have also been reported in Hamasah, the famous book of Arabic literature as attributed to the poet, Umaiyyah ibn Abi as-Sult. Others say that Abd al-A’ la wrote them. Still others attribute them to Abu al-Abbas al-A&ma. (Al-Qurtubi, marginal notes)

چوتھا حکم (آیت) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے آپ کو عاجز و ذلیل آدمی کی صورت میں پیش کرے جیسے غلام آقا کے سامنے جناح کے معنی بازو کے ہیں لفظی معنی یہ ہیں کہ والدین کے لئے اپنے بازو عاجزی اور ذلت کے ساتھ جھکائے آخر میں من الرحمۃ کے لفظ سے ایک تو اس پر متنبہ کیا کہ والدین کے ساتھ یہ معاملہ محض دکھاوے کا نہ ہو بلکہ قلبی رحمت وعزت کی بنیاد پر ہو دوسرے شاید اشارہ اس طرف بھی ہے کہ والدین کے سامنے ذلت کے ساتھ پیش آنا حقیقی عزت کا مقدمہ ہے کیونکہ یہ واقعی ذلت نہیں بلکہ اس کا سبب شفقت و رحمت ہے۔ پانچواں حکم وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ والدین کی پوری راحت رسانی تو انسان کے بس کی بات نہیں اپنی مقدور بھر راحت رسانی کی فکر کے ساتھ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی سب مشکلات کو آسان اور تکلیفوں کو دور فرمائے یہ آخری حکم ایسا وسیع اور عام ہے کہ والدین کی وفات کے بعد بھی جاری ہے جس کے ذریعہ وہ ہمیشہ والدین کی خدمت کرسکتا ہے۔ مسئلہ : والدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے لئے رحمت کی دعاء ظاہر ہے لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو ان کی زندگی میں یہ دعا اس نیت سے جائز ہوگی کہ ان کو دنیوی تکلیف سے نجات ہو اور ایمان کی توفیق ہو مرنے کے بعد ان کے لئے دعاء رحمت جائز نہیں (قرطبی ملخصا) ایک واقعہ عجیبہ : قرطبی نے اپنی اسناد متصل کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ اسی وقت جبرائیل امین تشریف لائے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ جب اس کا باپ آجائے تو آپ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں خود اس کے کانوں نے بھی اس کو نہیں سنا جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپ نے والد سے کہا کہ کیا بات ہے ؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں والد نے عرض کیا کہ آپ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایہ (جس کا مطلب یہ تھا کہ جب حقیقت معلوم ہوگئی اب اور کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد اس کے والد سے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں (جو بات کسی نے نہیں سنی اس کی آپ کو اطلاع ہوگئی جو ایک معجزہ ہے) پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں سناؤ اس وقت اس نے یہ اشعار ذیل سنائے۔ غذوتک مولودا ومنتک یافعا، تعل بما اجنی علیک وتنھل۔ میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔ اذا لیلۃ ضافتک بالسقم لم ابت، لسقک الا ساھرا اتململ۔ جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بیقراری میں گذاری۔ کأنی انا المطروق دونک بالذی، طرقت بہ دونی فعینی تھمل۔ گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگی ہے تمہیں نہیں جس کی وجہ سے میں تمام شب روتا رہا۔ تخاف الردی نفسی علیک وانھا، لتعلم ان الموت وقت مؤ جل۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے پہلے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ فلما بلغت السن والغایۃ التی، الیہا مدی ماکنت فیک اؤ مل۔ پھر جب تم اس عمر اور اس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا۔ جعلت جزائی غلظۃ و فظاظۃ، کانک انت المنعم المتفضل۔ تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنادیا گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ فلیتک اذلم ترع حق ابوتی، فعلت کما الجار المصاقب یفعل۔ کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا ہی کرلیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ فاولیتنی حق الجرار ولم تکن، علی بمال دون مالک تبخل۔ تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا انت ومالک لابیک یعنی جا تو بھی اور تیرا مال بھی سب باپ کا ہے (تفسیر قرطبی ص ٢٤٦ ج ١) یہ اشعار عربی ادب کی مشہور کتاب حماسہ میں بھی نقل کئے گئے مگر ان کو امیہ بن ابی الصلت شاعر کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے کہا کہ یہ عبدالاعلی کے اشعار ہیں بعض نے ان کی نسبت ابوالعباس اعمی کی طرف کی ہے (حاشیہ قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا 24؀ۭ خفض الخَفْض : ضدّ الرّفع، والخَفْض الدّعة والسّير اللّيّن وقوله عزّ وجلّ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] ، فهو حثّ علی تليين الجانب والانقیاد، كأنّه ضدّ قوله : أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل/ 31] ، وفي صفة القیامة : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] ، أي : تضع قوما وترفع آخرین، فخافضة إشارة إلى قوله : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] . ( خ ف ض ) الخفض ۔ یہ رفع کی ضد ہے اور خفض کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت بھی آتے ہیں اور آیت کریمہ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ میں ماں باپ کے ساتھ نرم بر تاؤ اور ان کا مطیع اور فرمانبردار ہوکر رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ گویا یہ ( کہ مجھ سے سر کشی نہ کرنا ) کی ضد ہے اور قیامت کے متعلق فرمایا : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] کسی کو پست کر ہی اور کسی کو بلند ۔ کیونکہ وہ بعض کو پست اور بعض کو بلند کردے گی پس خافضتہ میں آیت کریمہ : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ جنح الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه/ 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین : ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، ( ج ن ح ) الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔ ذُّلُّ ( محمود) متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة/ 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران/ 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل/ 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان/ 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها «1» ، أي : مسالکها وطرقها . پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة/ 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران/ 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] یعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، صغر الصِّغَرُ والکبر من الأسماء المتضادّة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صَغِيراً في جنب الشیء، وكبيرا في جنب آخر . وقد تقال تارة باعتبار الزّمان، فيقال : فلان صَغِيرٌ ، وفلان کبير : إذا کان ما له من السّنين أقلّ ممّا للآخر، وتارة تقال باعتبار الجثّة، وتارة باعتبار القدر والمنزلة، وقوله : وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ [ القمر/ 53] ، ( ص غ ر ) الصغریہ الکبر کی ضد ہے جو کہ ایک دوسرے کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں ایک ہی چیز دوسری چیز کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے اور وہی کبھی اور چیز کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے پھر صغیر وکبیر کا اطلاق کبھی تو باعتبار زمانہ کے ہوتا ہے ۔ یعنی ایک شخص دوسرے سے عمر میں چھوٹا ہوتا ہے اور دوسرا بڑا اور کبھی باعتبار جسامت کے اور کبھی بلحاظ قدر ومنزلت کے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ [ القمر/ 53] یعنی ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (واخضض لھما جناح الذل من الرحمۃ اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے بھک کر رہو) اس کی تفسیر میں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ جس چیز کے وہ خواہشمند ہوں ان سے وہ چیز نہ روکو۔ “ ہشام نے حسن بصری سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ والدین کے ساتھ نیکی کا کیا مفہوم ہے۔ حسن نے جواب میں فرمایا۔” جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ان کے لئے خرچ کر ڈالو اور ان کے حکموں کی فرمانبرداری کرو بشرطیکہ کوئی حکم خدا کی نافرمانی کو مستلزم نہ ہو۔ “ عمرو بن عثما ن نے واصل بن سانب سے آیت زیر بحث کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ” اپنا ہاتھ بھی ان کے سامنے نہ جھاڑو۔ “ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ جس شخص نے تیز نظروں سے اپنے والدین کو دیکھا اس نے ان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی۔ “ ابوالہیاج سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سعید بن المسیب سے (قولاً کریماً ) کا مفہوم دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا :” ایک عاجز غلام کا طرز تکلم جو وہ اپنے درشت خو اور سخت مزاج آقا کے سامنے اختیار کرے۔ “ عبداللہ ! الرصافی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے عطاء نے آیت زیر بحث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا۔” اپنے ماں باپ پر کبھی ہاتھ نہ اٹھائو اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے کبھی تیز نظروں سے ان کی طرف نہ گھورو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ) مجاز پر مبنی ہے اس لئے کہ ذلت یعنی نرمی کے پر نہیں ہوتے اور نہ ہی اسے اس وصف سے متصف کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تذلل یعنی عاجزی اور تواضع میں مبالغہ مراد ہے جسے ایک بیٹے کو والدین کے لئے اختیار کرنا چاہیے ۔ رات کی کیفیت بیان کرتے ہوئے امرئو القیس نے کہا ہے : فقلت لہ لما تمطی بصلبہ واردف اعجازاً وناء بکلکل جب رات نے اپنی پشت بچھا دی، اپنی سرینیں پھیلا دیں اور اپنا سینہ دراز کردیا تو میں نے اس سے کہا۔ حالانکہ رات کی نہ پشت ہوتی ہے نہ سرینیں اور نہ ہی سینہ اس لئے یہ انداز بیان مجاز پر مبنی ہے دراصل شاعر یہاں رات کی یکسانیت اور اس کی طوالت بیان کرنا چاہتا ہے۔ والدین کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرنی چاہیے قول باری ہے (وقل رب ارحمھما کما ریبا صغیراً اور دعا کیا کرو کہ ” پروردگار ! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے شفقت و رحمت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا “ ) آی ت میں والدین کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا مانگنے کا حکم ہے بشرطیکہ دونوں مسلمان ہوں اس لئے کہ ایک مقام پر قول باری ہے۔ (ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی نبی اور اہل ایمان کے لئے یہ زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں) اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ والدین کے لئے دعا کا حکم مومن والدین کے ساتھ مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم کو توحید کے حکم ساتھ مقرون کر کے گویا والدین کے حقوق کو اور مئوکد بنادیا ہے چناچہ ارشاد ہے (وقضی ربک الاتعبدوالا ایاہ و بالوالدین احساناً ) پھر ان کے ساتھ حسن سلوک کی کیفیت بیان فرمائی کہ قول و فعل کے ذریعہ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جائے اور عاجزی اور تواضع کے ساتھ ان سے گفتگو کی جائے اور ان سے بیزاری اور اکتاہٹ کے اظہار سے منع کیا گیا چناچہ ارشاد ہوا (ولا تقل لھما اف) نیز ان پر سختی کرنے اور انہیں جھڑکنے سے بھی روکا گیا ۔ فرمایا (ولا تنھرھما) بیٹے کو ان کے ساتھ نرم گفتگو کرنے اور ان کے حکموں کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا بشرطیکہ ان کا کوئی حکم خدا کی نافرمانی کو مستلزم نہ ہوتا ہو۔ اس کے بعد پھر یہ حکم دیا گیا کہ ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد ان کے لئے دعا مانگی جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ کے حق پر ماں کے حق کو فائق قرار دیا ہے۔ ابوزرعہ بن عمرو بن جویر نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آ کر عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر کون مستحق ہے۔ “ آپ نے فرمایا تمہاری ماں۔ “ اس نے عرض کیا۔” پھر کون “ آپ نے جواب دیا ” تمہاری ماں “ اس نے پھر عرض کیا پھر کون ؟ “ آپ ؐ نے جواب دیا ” تمہاری ماں “ جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ” تمہارا باپ۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اور اللہ کے سامنے اور نرمی سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کے لیے دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ) جب بھی اپنے والدین کے سامنے آؤ تو تمہاری چال ڈھال اور گفتگو کے انداز سے عاجزی و انکساری اور ادب و احترام کا اظہار ہونا چاہیے۔ (وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا) اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت ان کے لیے دعا گو رہنا چاہیے کہ اے اللہ جب میں ضعیف کمزور اور محتاج تھا تو انہوں نے میری غذا میرے آرام اور میری دوسری ضروریات کا انتظام کیا۔ میری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا اور میرے لیے اپنے آرام و آرائش کو قربان کیا۔ اب میں تو ان کے ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اس لیے میں تجھی سے درخواست کرتا ہوں کہ تو ان پر رحم فرما اور اپنی خصوصی شفقت اور مہربانی سے ان کی خطاؤں کو معاف فرما دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:24) اخفض۔ خفض مصدر سے۔ باب ضرب۔ تو جھکا دے۔ تو نرمی اختیار کر۔ جناح الذل۔ مضاف مضاف الیہ۔ تواضع اور انکسار کے پر ۔ جناح بازو۔ اجنحۃ جمع۔ پرندہ کا پر۔ کسی شے کی جانب اور پہلو۔ بازو اور ہاتھ کے معنی میں بھی آتا ہے مثلاً ولا طائر یطیر بجناحیہ (6:38) اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو پروں سے، اور واضمم یدک الی جناحک (20:22) اور ملالے اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے اور واضمم الیک جناحک من الرھب (28:32) اور خوف (دفع کرنے) کے واسطے اپنا بازو پھر اپنے سے ملا لینا۔ واخفض لہما جناح الذل من الرحمۃ۔ اور ان دونوں کے لئے ذلت کا بازو مہربانی سے بچھا دے۔ ذلت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک ذلت انسان کو گراتی ہے۔ دوسری سے مرتبہ بجائے گھٹنے کے بڑھتا ہے۔ جابر کے سامنے جھک جانا اول الذکر میں شامل ہے۔ لیکن کمزور کے سامنے نرمی اختیار کرنا مؤخرالذکر میں شامل ہے۔ یہاں یہ دوسری قسم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں رحمت بمعنی شفقت ہے۔ ذل۔ ذل یذل (ضرب) کا مصدر ہے۔ توا ضع، عاجزی۔ رب۔ اصل میں ربی تھا اس سے قبل یا حرف ندا۔ مقدر ہے تخفیف کے لئے یا ساقط ہوگیا ہے۔ کما ربینی۔ جیسا کہ (پیارو محبت سے) ان دونوں نے مجھے پالا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی نہایت عاجزی اور تواضح سے ان کی خدمت بجالاتا رہ۔5 اور پال پوس کر اتنا بڑا کیا، ماں باپ کی خدمت اور ان سے نیک سلوک کرنے کی تاکید میں بہت سی احادیث بھی ثابت ہیں۔ مثلاً حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے عرض کیا، میری خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ فرمایا : ” تیری ماں، تیری ماں، تیری ماں، پھر فرمایا : تیرا باپ اور پھر تیرا رشتہ دار جو تجھ سے زیادہ قریب ہے۔ (بخاری مسلم) نیز ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے تین مرتبہ فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو (یعنی وہ ذلیل ہو کر رہے) صحابہ نے پوچھا کس کی ؟ اے اللہ کے رسول ؟ فرمایا ” جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ ان کی خدمت کرے کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ارحمھما میں جو دعا کے لئے فرمایا ہے، ظاہر امر ندب و استحباب کے لئے ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ وجوب کے لئے، لیکن عمر بھر میں ایک بار دعا کرنے سے بھی واجب ادا ہوجائے گا۔ اور بدلائل شرعیہ یہ دعا کرنا متقید ہے ایمان ابوین کے ساتھ۔ البتہ اگر حالت کفر میں زندہ ہوں اور دعائے رحمت بمعنی دعائے ہدایت کی جاوے تو جائز ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ (٧١ : ٤٢) ” اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو “۔ یہاں نہایت ہی نرم اور شفاف انداز بیان اختیار کیا گیا ہے انداز بیان کے اندر اطاعت اور بندگی اور وفا شعاری کو مجسم کردیا گیا ہے یعنی اس طرح بچھ جائو اور اس قدر برخوداری اختیار کرو کہ گویا ” جھکنا “ ایک مجسم پرندے کی شکل میں کھڑا ہے اور اس کے پر ہیں اور اس نے اپنے پر بھی بچھا رکھے ہیں۔ وقل رب ارحمھما کما زبینی صغیرنا (٧١ : ٤٢) ” اور دعا کیا کرو ، پروردگار ، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا “۔ خوشگوار یادیں ہیں۔ محبت کی یادیں بچپن کی یادیں اور ماں اور باپ کی محبت کی یادیں۔ لیکن اس یاد سے انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ اب یہ مشفق والدین اسی طرح تمہاری شفقت کے محتاج و ۔۔۔ ہیں۔ جس طرح تم تھے اور دعا اس لئے کی گئی کہ انسانی شفقت و رحمت کے مقابلے میں اللہ کی رحمت و شفقت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اللہ کی رحمت و شفقت کا دائرہ نہایت ہی وسیع ہے اور انہوں نے اپنی اولاد کے ساتھ جو محنت و مشقت کی ہے اس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ اولاد کے لئے یہ ممکن ہے کہ والدین کو وہ رحم اور شفقت دے سکیں جس کے وہ حق دار ہیں۔ حافظ ابوبکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ انہوں نے حضرت برید سے انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک شخص طواف میں تھا اور وہ اپنی والدہ کو اٹھا کر طواف کرا رہا تھا۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا میں نے اسی طرح اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ” نہیں “۔ بلکہ ایک سانس کے برابر بھی نہیں۔ انسان کے تمام تاثرات اور حرکات چونکہ انسانی نظریہ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور نظریہ کی اساس پر وجود میں آتے ہیں اس لئے ان تمام احکام کے آخر میں تمام امور کو اللہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے ، جو نیتوں کو جانتا ہے اور احوال اور افعال کے پیچھے جو نیت ہے ، اس سے بھی واقف ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ششم : ارشاد فرمایا (وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ) (یعنی ماں باپ کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا) اس کی تفسیر میں حضرت عروہ نے فرمایا کہ تو ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ ان کی جو دلی رغبت ہو اس کو پورا ہونے میں تیری وجہ سے فرق نہ آئے، اور حضرت عطاء بن ابی رباح نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ماں باپ سے بات کرتے وقت نیچے اوپر ہاتھ مت اٹھانا (جیسے برابر والوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اٹھاتے ہیں) اور حضرت زہیر بن محمد نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ماں باپ اگر تجھے گالیاں دیں اور برا بھلا کہیں تو تو جواب میں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت فرمائے۔ (درمنثور) ہفتم : یہ نصیحت فرمائی کہ ماں باپ کے لیے یہ دعا کرتے رہا کرو (رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا) (کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹے سے کو پالا اور پرورش کیا) بات یہ ہے کہ کبھی اولاد حاجت مند تھی جو بالکل ناسمجھ اور ناتواں تھی، اس وقت ماں باپ نے ہر طرح کی تکلیف سہی اور دکھ سکھ میں خدمت کرکے اولاد کی پرورش کی، اب پچاس ساٹھ سال کے بعد صورت حال الٹ گئی کہ ماں باپ خرچ اور خدمت کے محتاج ہیں اور اولاد کمانے والی ہے، روپیہ پیسہ، اور گھر بار اور کاروبار والی ہے، اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت سے نہ گھبرائے اور ان پر خرچ کرنے سے تنگ دل نہ ہو، دل کھول کر جان و مال سے ان کی خدمت کرے اور اپنے چھوٹے پن کا وقت یاد کرے اس وقت انہوں نے جو تکلیفیں اٹھائیں، ان کو سامنے رکھے، اور بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کرے کہ ” اے میرے رب ان پر رحم فرما “ جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹے پن میں پالا اور پرورش کی۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے ہوئے طواف کرا رہا تھا اس نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کیا میں نے اس طرح خدمت کرکے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟ آپ نے فرمایا ایک سانس کا حق بھی ادا نہیں ہوا (تفسیر ابن کثیر ص ٣٥ ج ٣) عن مسند البزار بسند فیہ ضعف، واخرجہ البخاری فی الادب المفرد موقوفا علی ابن عمر

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 اور ان کے سامنے تواضح اور عاجزی اور انکساری کے باز و شفقت اور نیاز مندی سے جھکائے رکھیو اور ان کے حق میں یوں دعا کیا کر کہ اے میرے پروردگار تو ان دونوں پر رحمت فرما جیسا انہوں نے مجھ کو بچپنے میں پالا اور پرورش کیا ہے۔ یعنی ان کی خدمت میں لگا رہ اور ان کے ساتھ پوری انکساری اور شفقت و مہربانی کا سلوک کر اور ان کے لئے دعا بھی کیا کر دعا میں بچپنے کی بات یاد دلائی تاکہ ماں باپ کے اس سلوک کا خیال آجائے جو وہ پرورش کی غرض سے چھوٹی اولاد کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا انداز تعلیم ہے۔