Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 28

سورة بنی اسراءیل

وَ اِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡہُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ تَرۡجُوۡہَا فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا ﴿۲۸﴾

And if you [must] turn away from the needy awaiting mercy from your Lord which you expect, then speak to them a gentle word.

اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں ، جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ ... And if you turn away from them and you are awaiting a mercy from your Lord, `If your relatives and those to whom We have commanded you to give, ask you for something, and you do not have anything, and you turn away from them because you have nothing to give, ... تَرْجُوهَا ... for which you hope, i.e. a mercy from your Lord, ... فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُورًا then, speak unto them a soft, kind word. meaning, with a promise. This was the opinion of Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Al-Hasan, Qatadah and others.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے، جس کے دور ہونے کی اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے۔ اگر تجھے غریب رشتے داروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں سے اعراض کرنا یعنی اظہار معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی جواب بھی دیا جائے تو نرمی اور پیار و محبت کے لہجے میں نہ کہ ترشی اور بد اخلاقی کے ساتھ، جیسا کہ عام طور پر لوگ ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] یعنی اگر تمہارا کوئی رشتہ دار اور کوئی غریب و مسکین تمہارے پاس قرض حسنہ یا امداد کے لیے آتا ہے اور تمہارے پاس دینے کو کچھ بھی موجود نہ ہو۔ البتہ یہ توقع ہو کہ اتنے دنوں تک فلاں رقم ملنے والی ہے اور اس وقت میں اسے قرض دینے یا مدد کرنے کے قابل ہوسکوں گا تو اسے نرم زبان سے بات سمجھا دو ۔ سختی اور بد اخلاقی سے جواب دینے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم سے یہ نعمت کہیں چھن ہی نہ جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ۔۔ :” اِمَّا “ ” إِنْ “ اور ” مَا “ سے مرکب ہے، جس میں ” مَا “ ”إِنْ “ کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” اگر کبھی “ کیا گیا ہے، یعنی ذی القربیٰ ، مسکین اور ابن السبیل سے اعراض (بےرخی) بخل کرتے ہوئے ہرگز جائز نہیں، صرف ایک صورت میں جائز ہے کہ تمہارے پاس دینے کے لیے اس وقت کچھ نہ ہو، ہاں تمہیں اللہ کی رحمت (حلال اور وافر رزق) کے حصول کی امید ہو (جس سے ناامید ہونا کبھی جائز نہیں) تو ان سے ایسے الفاظ میں معذرت کرلو جن میں نرمی اور آسانی ہو۔ ” مَیْسُوْراً “ لفظ عموماً مجہول ہی آتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ” یُسِرَ فُلاَنٌ فَھُوَ مَیْسُوْرٌ، عُسِرَ فُلَانٌ فَھُوَ مَعْسُوْرٌ، نُحِسَ فُلَانٌ فَھُوَ مَنْحُوْسٌ، سُعِدَ فُلاَنٌ فَھُوَ مَسْعُوْدٌ“ اس آیت کی مزید وضاحت سورة بقرہ (٢٦١) میں دیکھیں اور ایسے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرماتے تھے، اس کے لیے دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٩٢) ۔ مہائمی (رض) نے اس کا ایک اور مفہوم بیان کیا ہے کہ اگر تم مذکورہ لوگوں سے اعراض اس وجہ سے کرو کہ ان سے اعراض کرنے میں تمہیں رب تعالیٰ کی رحمت کے حصول کی امید ہو، مثلاً تمہیں معلوم ہو کہ اگر اسے مال دیا تو یہ اسے نشے پر، زنا پر یا کسی گناہ پر صرف کرے گا تو تب بھی نرمی اور خوش اسلوبی سے اس سے معذرت کرو۔ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کی بھی گنجائش ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary What an unusual moral training is being given here in this verse through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to the entire Muslim community! It is being said to them: If people needing help come to you and you have nothing to give to them, and for that reason you are compelled to turn away from them, even then, this act of turning away or excusing yourself should not be with an air of indifference, or with an attitude that could be insulting for the addressee. In fact, this turning away or seeking of excuse should be coupled with an expression of your inability or constraint. Regarding the background of the revelation of this verse, a report from Sayyidna Ibn Zaid (رض) says that some people used to ask for finan¬cial help from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and he knew what would be given to them would be spent in the spreading of disorder. Therefore, he refused to give it to them, for this refusal was a device to stop them from indulg¬ing in disorder. Thereupon, this verse was revealed. (Qurtubi) In the Musnad of Said ibn Mansur, it has been mentioned on the au¬thority of Sayyidna Saba& ibn Hakam (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had received some supply of cloth. He distributed it over those deserving. After that came some others when the supply was finished and he had nothing to give. It was about the later that this verse was revealed.

خلاصہ تفسیر : اس آیت میں حقوق العباد سے متعلق پانچواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی وقت حاجت مندوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دینے کا انتظام نہ ہو سکے تو اس وقت بھی ان کو روکھا جواب نہ دیا جائے بلکہ ہمدردی کے ساتھ آئندہ سہولت کی امید دلائی جائے آیت کی تفسیر یہ ہے۔ اور اگر (کسی وقت تمہارے پاس ان لوگوں کو دینے کے لئے مال نہ ہو اور اس لئے) تم کو اس رزق کے انتظار میں جس کی اپنے پروردگار سے توقع ہو (اس کے نہ آنے تک) ان سے پہلوتہی کرنا پڑے تو (اتنا خیال رکھنا ان سے نرمی کی بات کہہ دینا (یعنی دل جوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دیں گے دل آزار جواب مت دینا) معارف و مسائل : اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے واسطے سے پوری امت کی عجیب اخلاقی تربیت ہے کہ اگر کسی وقت ضرورت مند لوگ سوال کریں اور آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو اس لئے ان لوگوں سے اعراض کرنے پر مجبور ہو تو بھی آپ کا یہ اعراض مستغنیانہ یا مخاطب کے لئے توہین آمیز نہ ہونا چاہئے بلکہ یہ پہلوتہی کرنا اپنے عجز و مجبوری کے اظہار کے ساتھ ہونا چاہئے اس آیت کے شان نزول میں ابن زید کی روایت یہ ہے کہ کچھ لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کا سوال کیا کرتے تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ ان کو دیا جائے گا تو یہ فساد میں خرچ کریں گے اس لئے آپ ان کو دینے سے انکار کردیتے تھے کہ یہ انکار ان کو فساد سے روکنے کا ذریعہ ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) مسند سعید بن منصور میں بروایت سباء بن حکم مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ کپڑا آیا تھا آپ نے اس کو مستحقین میں تقسیم فرما دیا اس کے بعد کچھ اور لوگ آئے جبکہ آپ فارغ ہوچکے تھے اور کپڑا ختم ہوچکا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا 28؀ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ ابتغاء البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سائل کو نرمی سے جواب دیا جائے قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغآء رحمۃ من ربک ترجوھا فقل لھوق لا میسوراً اور اگر ان سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو ) اس آیت کی تفسیر میں بھی دو قول ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو اور ہم خالی ہاتھ ہوں تو ایسی حالت میں ہمیں ایک مسلمان سائل یا رشتہ دار یا مسافر کو جواب دینے کا کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ تمہارے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو اور تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے رزق کے منتظر ہو اور اس کی رحمت کے امیدوار ہو کہ اگر وہ مل جائے تو تم انہیں ضرور کچھ دو ، ایسی صورت میں تم انہیں بڑی نرمی سے جواب دے دو اور یہ کہو کہ ” اللہ رزق دے گا “ یہ تفسیر حسن بصری، مجاہد اور ابراہیم نخعی وغیرہم سے منقول ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) اور اپنے رب کی طرح طرف سے جس رزق کے آنے کی تجھے امید ہو اور اس پوشیدہ مال کے انتظار میں تجھے ان قرابت داروں اور محتاجوں سے بطور شفقت اور حیا کے پہلو تہی کرنا پڑے تو پھر ایسی صورت میں دلجوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دے دیا جائے گا۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ واما تعرضن عنہم “۔ (الخ) سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطا خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ مزنیہ کے کچھ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سواری حاصل کرنے کے لیے آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر میں تمہیں سوار کر دوں تو وہ روتے ہوئے غم و افسوس کے ساتھ واپس ہوئے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انکار سے یہ سمجھے کہ آپ ان سے ناراض ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور اگر اپنے رب کی طرف جس رزق کے آنے کی امید ہے آپ کو اس کے انتظار میں ان سے پہلو تہی کرنا پڑے تو ان سے نرمی کی بات کہہ دینا، اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ان مساکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مانگا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا) کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی محتاج اپنی کسی حاجت برآری کے لیے ایسے موقع پر آپ کے پاس آتا ہے جب آپ کے پاس بھی اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے اچھے دنوں اور فراخ دستی کی امید تو ہے مگر وقتی طور پر آپ سائل کی حاجت سے اعراض کرنے پر مجبور ہیں اور چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ اگر تمہیں کسی وقت ایسی صورت حال کا سامان ہو : (فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا) ایسے موقع پر سائل کو جھڑکو نہیں بلکہ متانت اور شرافت سے مناسب الفاظ میں اس سے معذرت کرلو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. These three articles are meant to impress that a man should not reserve his earnings and his wealth exclusively for his own person. He should do his utmost to fulfill his own necessities of life in a moderate way and render the rights of his relatives, neighbors and other needy persons as well. This attitude will help create the spirit of cooperation, sympathy and justice in the collective Islamic life. Thus every relative will cooperate with the other and every rich person will help the needy in his neighborhood and a wayfarer would find himself an honorable guest among generous hosts. The conception of rights should be so extensive that every person should consider that all other human beings have rights on his person and his property so that he should serve them with the idea that he is rendering their rights and is not doing any favor to them. In that case one would beg pardon of the other if he was unable to serve him and would pray to God to send his blessings upon him to enable him to serve His servants. These articles of the Islamic manifesto were not merely confined to moral teachings but these formed the basis of the commandments of Zakat and voluntary charity. The laws of inheritance and of making will and endowments were based on these articles. The rights of the orphans were determined by these and it was made obligatory on every habitation to entertain a wayfarer gratis for at least three days. Subsequently the whole moral system was formed so as to create the feelings of generosity, sympathy and cooperation. So much so that the people began to realize the importance of and observe voluntarily the moral rights which could neither be demanded legally nor enforced by law.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :28 ان تین دفعات کا منشاء یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے ، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں ، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے ۔ اجتماعی زندگی میں تعاون ، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو ۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون ، اور ہر مستطیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو ۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے ، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے ۔ معاشرہ میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو ۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کر رہا ہے ، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے ۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگان خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو ۔ منشور اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں ، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے ، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے ، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے ، اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملا ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی ، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہوگئی ، حتی کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا ان اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یعنی کسی ضرورت مند کو کچھ دینے سے اس لے انکار کرنے کی نوبت آجائے کہ اس وقت تمہارے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو، لیکن تمہیں یہ توقع ہو کہ آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وسعت عطا فرما دیں گے تو ایسے میں اس ضرورت مند سے نرم الفاظ میں معذرت کرسکتے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٨۔ ٣٠:۔ اوپر جن لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا ذکر تھا اسی کو پورا کرنے کے لیے فرمایا کہ کسی موقع پر تنگدستی کے سبب سے اگر ان لوگوں کو دینے کے قابل کچھ نہ ہو تو اللہ کے فضل کی توقع پر ان سے آئندہ سلوک کرنے کا وعدہ نرم لفظوں میں کیا جائے اب آگے بخیلی اور فراخ دستی کی ایک مثال بیان فرمائی کہ اس حسن سلوک میں نہ انسان بخیل بن جائے جیسے کسی نے اس کا ہاتھ گردن میں رسی سے اس طرح باندھ دیا ہے کہ وہ دینے کے نام سے ہاتھ نہیں بڑھا سکتا نہ ایسا سخی بن جائے کہ دینے کے بعد پچھتانا پڑے۔ معتبر سند سے طبرانی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا جو شخص اپنے غریب رشتہ داروں کو چھوڑ کر غیروں کو صدقہ خیرات دیوے گا تو ایسے شخص کا دینا بارگاہ الٰہی میں اجر کے قابل نہ ٹھہرے گا ١ ؎۔ آیتوں میں بےجا بخیلی اور بےجا سخاوت کا مثال کے طور پر جو ذکر ہے اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ باوجود قدرت کے قریب کے رشتہ داروں کو کچھ نہ دینا بےجا بخیلی میں داخل ہے اور غریب رشتہ داروں کو چھوڑ کر غیروں کو کچھ دینا بیجا سخاوت میں داخل ہے کیونکہ اس حدیث کے موافق قیامت کے دن جب اس سخاوت کا اجر زائل ہوجائے گا تو ایسی بیجا سخاوت پر ضرور انسان کو پچھتانا پڑے گا۔ اوپر ذکر تھا کہ تنگدستی کے وقت غریب رشتہ داروں سے آئندہ سلوک کرنے کا وعدہ کیا جائے اب آگے تنگ دست لوگوں کی تسلی کے لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی کو خوشحال اور کسی کو تنگدست جو بنایا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کے خزانے میں کچھ کمی ہے بلکہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو وہی خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے۔ اس واسطے اس نے ہر ایک کو مصلحت کی موافق خوشحال اور تنگدست بنایا ہے سورة زخرف میں آوے گا کہ بعضوں کو خوشحال اور بعضوں کو تنگدست بنانے میں اتنی بڑی مصلحت ہے جس پر دنیا کا انتظام چل رہا ہے حاصل یہ ہے کہ سورة زخرف کی جس آیت میں دنیا کے اس انتظام کا ذکر صحیح حدیثوں میں آیا ہے مثلا صحیح سند سے ترمذی صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں کعب (رض) بن عیاض سے روایت ہے اس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے مال ومتاع کو امت محمدیہ کے حق میں بڑی فتنہ و فساد کی چیز فرمایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بعضے نیک لوگوں کو فتنہ و فساد سے بچانے کی مصلحت کے لیے تنگدست رکھا گیا ہے ٢ ؎۔ صحیح سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی راحت اور خوشحالی کی قدر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو دنیا میں نافرمان لوگوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ ملتا ٣ ؎۔ اس حدیث کو آخر آیت کے ساتھ ملانے سے آخری آیت کا مطلب اچھی سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں کے خوشحال لوگ غریب مسلمانوں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ جس پر اللہ کی مہربانی ہوتی ہے دنیا میں وہی شخص خوش حالی سے رہتا ہے ان لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا کی خوشحالی اور تنگ دستی تو اور مصلحتوں کے سبب ہے جن مصلحتوں کا سمجھنا ان لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ ١ ؎ الترغیب الترہیب ص ١٦٤ ج ا الترہیب من ان یسئال الانسان الخ۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٣٣ ج ٢ باب الترغیب فی الزہدفی الد نیا الخ بروایت کعب بن عیاض ١٢ منہ۔ ٣ ؎ تفسیر ہذاص ٢٥٠ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:28) تعرضن۔ مضارع بانون ثقیلہ۔ واحد مذکر حاضر۔ اعراض (افعال) مصدر تو منہ پھیر لے۔ تو تغافل کرے (یعنی عدم استطاعت کی وجہ سے اعراض پر مجبور ہوجائے۔ ابتغائ۔ بروزن (افتعال) بمعنی چاہنا۔ تلاش کرنا (سخت کو شی کے لئے مخصوص ہے) یہ منصوب بوجہ مفعول لہٗ ہونے کے ہے۔ ابتغاء رحمۃ۔ رحمت کی تلاش۔ اللہ کی طرف سے رحمت کی امید۔ ترجوھا۔ جس کی تو توقع اور امید رکھتا ہے رجاء سے (نصر) ھاضمیر واحد مؤنث غائب جو رحمۃ کی طرف راجع ہے۔ میسورا۔ اسم مفعول واحد مذکر یسر سے۔ آسان ۔ نرم۔ عسر کی ضد۔ آیت کا ترجمہ ہوا۔ اگر اپنے رب کی طرف سے متوقع خوشحالی کی تلاش وجدوجہد کے دوران میں وقتی طور پر تنگدستی کی وجہ سے تجھے ان سے تغافل برتنا پڑے تو ان کے ساتھ نرم گفتاری کا سلوک کر۔ (ان سے مراد وہ حقدار ہیں جن کا ذکر ابھی اوپر گذرا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی دلجوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ تعالیٰ کہیں سے آوے گا تو دیں گے اور دل آزار جواب مت دینا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فضول خرچی سے روکنے کے ساتھ بخیلی اور کنجوسی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ دین اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ دین عبادات اور معاملات دونوں میں اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ فضول خرچی سے بچنے کے ساتھ بخیلی سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اپنا ہاتھ نہ گردن کے ساتھ لٹکائیں اور نہ اسے کلی طور پر کھول دیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پورے کا پورا کھول دیں گے تو ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی کی گئی کہ اگر آپ کے پاس کسی کو دینے کے لیے کوئی چیز نہ ہو۔ لیکن آپ کو اپنے رب کی طرف سے کوئی چیز ملنے کی توقع ہو تو سائل کو خالی ہاتھ واپس لٹاتے ہوئے نرمی کے ساتھ جواب دیں۔ اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ جس نے اخراجات میں میانہ روی اختیار کی وہ کبھی کنگال نہیں ہوگا۔ کچھ نہ ہونے کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم یہ ہے کہ سائل کو ڈانٹنے کی بجائے اسے نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ قرآن مجید نے عباد الرحمن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی یہ خوبی بیان کی ہے۔ ” کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اس میں اسراف اور بخل نہیں پایا جاتا۔ اللہ کے بندے خرچ کرتے ہوئے اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ “ (الفرقان : ٦٧) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کنگال نہیں ہوگا “ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ کَانَ اِذَا أَتَاہ السَّاءِلُ أَوْصَاحِبُ الْحَاجَۃِ قَالَ اشْفَعُوْا فَلْتُوْجَرُوْا وَیَقْضِیْ اللَّہُ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا شَاءَ ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیضِ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَالشَّفَاعَۃِ فیہَا ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) ہی نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس سائل یا ضرورت مند آتا تو آپ فرماتے ‘ اس کی سفارش کرو تمہیں ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر جو چاہتا ہے کہلواتا ہے۔ “ مسائل ١۔ سائل کے ساتھ نرمی سیبات کرنی چاہیے۔ ٢۔ فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ بخل نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن دین اسلام کسی معاملہ میں غلو اور افراط وتفریط پسند نہیں کرتا : ١۔ نہ تو اپنے ہاتھ گردن ہی سے باندھ لے اور نہ اسے بالکل کھول دے۔ (بنی اسرائیل : ٢٨) ٢۔ وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٧) ٣۔ اپنی چال میں اعتدال اور اپنی آواز کو پست رکھیں۔ (لقمان : ١٩) ٤۔ کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں۔ (فاطر : ٣٢) ٥۔ ان میں سے درمیانی امت ہے اور زیادہ ان میں سے برے اعمال کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ : ٦٦) ٦۔ نماز نہ بلند آواز سے پڑھو نہ آہستہ بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرو۔ (بنی اسرائیل : ١١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ذوی القربی اور مساکین اور مسافرین کو دینے کے لیے اپنے پاس مال نہیں ہوتا یا تھوڑا بہت ہوتا ہے ایسے موقع پر جو لوگ امیدوار ہوتے ہیں لیکن ان کی مالی خدمت کرنے سے معذوری اور مجبوری ہوتی ہے مگر ساتھ ہی خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ سے یہ امید بھی بندھی ہوئی ہوتی ہے کہ انشاء اللہ مال آجائے گا ایسے موقع پر ان لوگوں سے اچھے الفاظ میں اور نرم لہجے میں معذرت کرلی جائے ان کی سرزنش نہ کرے اور ایسے الفاظ نہ کہے جن سے انہیں دکھ پہنچے، مفسر ابن کثیر (فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای عدھم وعدا بسھولۃ ولین۔ لکھتے ہیں کہ حضرت بلال اور خباب (فقرائے صحابہ) کبھی کبھی اپنی ضرورت کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرلیا کرتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ کے پاس ان کے دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا آپ ان کی طرف سے شرم کے مارے اعراض فرما لیتے تھے زبانی طور پر کوئی جواب نہیں دیتے تھے اس پر آیت (وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ ) (الآیۃ) نازل ہوئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ اگر آدمی کی مالی حالت کمزور ہو اور وہ رشتہ داروں، غریبوں اور دیگر مستحقین کی مالی امداد کرنے سے قاصر ہو اور وہ رحمت خداوندی کا امیدوار اور فراخی رزق کا منتظر ہو (یہ بات تقریبا ہر شخص میں پائی جاتی ہے) تو اسے چاہئے کہ وہ مستحقین کو درشتی اور کج خلقی سے جواب نہ دے بلکہ نرمی سے بات کرے اور اچھے طریقہ سے اپنا عذر پیش کرے۔ القول المیسور ھو الرد بالطریق الاحسن (کبیر ج 5 ص 577) قولا میسوار سھلا لینا و عدھم وعدا جمیلا من یسر الامر (ابو السعود ج 5 ص 576) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28 اور اگر کسی وقت مذکورہ اہل حاجت کے دینے کے لئیت یرے پاس کچھ نہ ہو اور تو اپنے رب کی اس روزی کی اور مال کی تلاش میں ہو جس کی توقع اور امید ہے اور اس مفلسی کی وجہ سے تجھ کو ان اہل حاجت سے پہلو بچانا اور اعراض کرنا پڑے تو ان سے نرم بات کہہ دیا کرو اور ان کی دل جوئی کا خیال رکھ۔ یعنی اگر کوئی ایسا موقعہ ہو کہ تمہارے پاس کچھ دینے کو نہ ہو اور تم خود اپنے رب کے اس مال کی یا روزی کی تلاش میں ہو جس کی تم کو اپنے پروردگار سے مل جانے کی امید ہو اور اس منتظرہ رزق یا مال کے آنے تک تو ان اہل حاجت سے پہلو بچانا چاہے تو اتنا ضرور کیا کر کہ اہل حاجت سے نرم بات کہہ دیا کر کہ اس وقت کچھ نہیں ایک جگہ سے آنے والا ہے اور مجھ کو امید ہے لہٰذا جب آجائے تو تیری خدمت کر دوں گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جو کوئی سخاوت کرتا ہے اور ایک وقت اس کے پاس نہیں تو اللہ کے ہاں امید والے کا محروم جانا خوش نہیں آتا اس محتاج کی قسمت سے اللہ سخیوں کو بھیج دیتا ہے۔ اس واسطے اگر ایک وقت تو نہ دے سکے تو میٹھا جواب کہہ کر اگلی جزائیں برباد نہ ہوں۔ 12 چونکہ اللہ تعالیٰ نے امید والے کا محروم جانا پسند نہیں کرتے اور وہ خود بھی امید والے کو خالی نہیں لوٹاتے۔ اسی لئے فرمایا ہے۔ “ ” ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھا۔ “