Commentary What an unusual moral training is being given here in this verse through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to the entire Muslim community! It is being said to them: If people needing help come to you and you have nothing to give to them, and for that reason you are compelled to turn away from them, even then, this act of turning away or excusing yourself should not be with an air of indifference, or with an attitude that could be insulting for the addressee. In fact, this turning away or seeking of excuse should be coupled with an expression of your inability or constraint. Regarding the background of the revelation of this verse, a report from Sayyidna Ibn Zaid (رض) says that some people used to ask for finan¬cial help from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and he knew what would be given to them would be spent in the spreading of disorder. Therefore, he refused to give it to them, for this refusal was a device to stop them from indulg¬ing in disorder. Thereupon, this verse was revealed. (Qurtubi) In the Musnad of Said ibn Mansur, it has been mentioned on the au¬thority of Sayyidna Saba& ibn Hakam (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had received some supply of cloth. He distributed it over those deserving. After that came some others when the supply was finished and he had nothing to give. It was about the later that this verse was revealed.
خلاصہ تفسیر : اس آیت میں حقوق العباد سے متعلق پانچواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی وقت حاجت مندوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دینے کا انتظام نہ ہو سکے تو اس وقت بھی ان کو روکھا جواب نہ دیا جائے بلکہ ہمدردی کے ساتھ آئندہ سہولت کی امید دلائی جائے آیت کی تفسیر یہ ہے۔ اور اگر (کسی وقت تمہارے پاس ان لوگوں کو دینے کے لئے مال نہ ہو اور اس لئے) تم کو اس رزق کے انتظار میں جس کی اپنے پروردگار سے توقع ہو (اس کے نہ آنے تک) ان سے پہلوتہی کرنا پڑے تو (اتنا خیال رکھنا ان سے نرمی کی بات کہہ دینا (یعنی دل جوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دیں گے دل آزار جواب مت دینا) معارف و مسائل : اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے واسطے سے پوری امت کی عجیب اخلاقی تربیت ہے کہ اگر کسی وقت ضرورت مند لوگ سوال کریں اور آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو اس لئے ان لوگوں سے اعراض کرنے پر مجبور ہو تو بھی آپ کا یہ اعراض مستغنیانہ یا مخاطب کے لئے توہین آمیز نہ ہونا چاہئے بلکہ یہ پہلوتہی کرنا اپنے عجز و مجبوری کے اظہار کے ساتھ ہونا چاہئے اس آیت کے شان نزول میں ابن زید کی روایت یہ ہے کہ کچھ لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کا سوال کیا کرتے تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ ان کو دیا جائے گا تو یہ فساد میں خرچ کریں گے اس لئے آپ ان کو دینے سے انکار کردیتے تھے کہ یہ انکار ان کو فساد سے روکنے کا ذریعہ ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) مسند سعید بن منصور میں بروایت سباء بن حکم مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ کپڑا آیا تھا آپ نے اس کو مستحقین میں تقسیم فرما دیا اس کے بعد کچھ اور لوگ آئے جبکہ آپ فارغ ہوچکے تھے اور کپڑا ختم ہوچکا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔