Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 30

سورة بنی اسراءیل

اِنَّ رَبَّکَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا ﴿٪۳۰﴾  3

Indeed, your Lord extends provision for whom He wills and restricts [it]. Indeed He is ever, concerning His servants, Acquainted and Seeing.

یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ ... Truly, your Lord expands the provision for whom He wills and straitens (for whom He wills). This Ayah is telling us that Allah is the One Who provides or withholds, the Bestower Who is running the affairs of His creation as He wills. He makes rich whomever He wills, and He makes poor whomever He wills, by the wisdom that ... is His. He said: ... إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا Verily, He is Ever All-Knower, All-Seer of His servants. meaning, He knows and sees who deserves to be rich and who deserves to be poor. In some cases, richness may be decreed so that a person gets carried away, leading to his own doom. In other cases, poverty may be a punishment. We seek refuge with Allah from both.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 اس میں اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ ان کے پاس وسائل رزق کی فروانی نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کے ہاں ان کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ رزق کی وسعت یا کمی، اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مصلحت سے ہے جسے صرف وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو قارون بنا دے اور اپنوں کو اتنا ہی دے کہ جس سے یہ مشکل وہ ا... پنا گذارہ کرسکیں۔ یہ اس کی مشیت ہے۔ جس کو وہ زیادہ دے، وہ اس کا محبوب نہیں، اور وہ قوت لا یموت کا مالک اس کا مبغوض نہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] دولتمندوں کے مال میں دوسروں کا حصہ :۔ تمہارے ہاتھ روکنے سے نہ تو تم غنی رہ سکتے ہو اور نہ ہی دینے سے فقیر ہوجاؤ گے اسی طرح جس سائل کو تم نے جواب دیا ہے اللہ اس کی ضرورت کسی اور جگہ سے پوری کرسکتا ہے اور اسے غنی بھی بنا سکتا ہے۔ رزق کی کمی بیشی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے خرچ کرنے میں تنگدل ن... ہ ہونا چاہیے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رزق کس محتاج کی دعاؤں سے تمہیں مل رہا ہے یا کس کس کا رزق تمہاری طرف منتقل ہو رہا ہے۔ لہذا تمہیں چاہیے کہ اپنے مال و دولت میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کرتے اور ان کا حصہ انھیں ادا کرتے رہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ : یعنی اگر حد سے زیادہ خرچ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی کا فقر دور کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے اختیار میں نہیں، آپ جتنا بھی دے لیں اگر رب تعالیٰ اس کے رزق کا دروازہ کشادہ نہ کرے تو کوئی اسے نہیں کھول سکتا، آپ اللہ کے حکم کے مطابق اعتدال سے...  خرچ کریں، اس کے فقر و غنا کی فکر آپ کا کام نہیں اور نہ یہ آپ کے بس کی بات ہے۔ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا : یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کسے کتنا رزق دینا ہے۔ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم رزق دینا اس کی حکمت ہے۔ (دیکھیے شوریٰ : ٢٧) اگر سب لوگ برابر ہوتے تو دنیا کے کام چل ہی نہ سکتے۔ (دیکھیے زخرف : ٢٢) دولت مند ہونا یا فقیر ہونا نیکی یا بدی پر منحصر نہیں، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔ (دیکھیے زخرف : ٣٣ تا ٣٥) زبردستی اس فرق کو مٹایا نہیں جاسکتا، جیسا کہ کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کی خواہش اور کوشش تھی، جس کے لیے انھوں نے لاکھوں لوگ تہ تیغ کیے مگر منہ کی کھائی۔ کیونکہ یہ فطرت سے جنگ ہے جو کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ رہی سرمایہ داری کہ سود اور دوسرے ناجائز طریقوں سے تمام اموال کے مالک صرف چند لوگ بن بیٹھیں اور باقی سب ان کے محتاج ہوں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اور جہاں یہ نظام ہوگا وہ معاشرہ بھی لامحدود ظلم و ستم اور حرص و ہوس کا شکار ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر و فقیر کے اس فرق کو ختم کرنا نہیں بلکہ اعتدال پر رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے کو حرام قرار دیا، چوری ڈاکے، غصب، دھوکے اور سود کی تمام صورتیں حرام قرار دیں، تو دوسری طرف جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو زکوٰۃ، صدقات، میراث اور دوسرے احکام کے ذریعے سے معاشرے میں پھیلا دینے کا حکم دیا۔ ان احکام پر عمل کرنے کی صورت میں معاشرے میں امیری و غریبی میں اعتدال قائم رہے گا، پھر نہ سرمایہ دارانہ طریقے کی وجہ سے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح دولت چند آدمیوں کی مٹھی میں جمع ہونے سے پیدا ہونے والے مظالم ہوں گے اور نہ اس فطری فرق کو زبردستی اور مصنوعی طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش سے وہ خرابیاں پیدا ہوں گی جو روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں پیدا ہوئیں کہ انسان انسانیت کے مرتبے سے گر کر محض ایک حیوان بن گیا، لوگوں کو ان کی فطری آزادی سے محروم کردیا گیا، حتیٰ کہ اس نظام پر مبنی تمام ممالک آخر کار ناکام ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور وہاں کے رہنے والے مظلوم مسلم اور غیر مسلم سب لوگوں کو مسلمانوں کے جہاد کی برکت سے اس نظام سے نجات اور آزادی کی زندگی نصیب ہوئی۔ (فالحمد للہ) اب بھی اگرچہ وہاں اس کی باقیات موجود ہیں، جن کی وجہ سے ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ تمام دنیا کو سرمایہ داری، کمیونزم اور دوسرے تمام ظالمانہ نظاموں سے نجات دلا کر اسلام کا نظام عدل نافذ کریں۔ یہ کام اللہ کے فضل سے شروع ہوچکا ہے اور جہاد اسلامی کی برکت سے تمام دنیا پر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ (ان شاء اللہ) جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ) [ التوبۃ : ٣٣ ] ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، خواہ مشرک لوگ برا جانیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Spending in the way of Allah so liberally as would throw one in trouble: The pros and cons of it The verse, given the outer view, seems to prohibit the kind of spend¬ing following which the spender himself ends up becoming poor and needy, a prey of all sorts of hardships and anxieties. Tafsir authority, al-Qurtubi has said that this injunction covers the general condition of Muslims who would, aft... er such spending, find the resulting hardships distressing and the whole thing would make them contrite over past give-outs and grieve about it. The word: مَّحْسُورً‌ا (mahsura: empty-handed - 29) of the Holy Qur&an provides a hint in this direction. (As in Tafsir Mazhari) As for the people of high determination, who would not be emo¬tionally disturbed by hardships that may come later and would still go on fulfilling rights of those who hold such rights, this restriction does not apply to them. This is the reason that it was the customary practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he would not store anything for tomorrow. What came today was spent out today. And there were occasions when he would remain hungry reaching the outer limits of having to tie a piece of rock against his stomach (to simulate the weight of food). Then there were many among the noble Sahabah who had spent their entire wealth and property in the way of Allah during the blessed period of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who did not categorically prohibit it nor did he blame them for it. This tells us that the prohibition contained in this verse is for those who cannot brave the hardships of poverty and hunger and they would start to rue after spending that they would have been better off if they had not spent in the way of Allah. If so, this attitude would nullify the good they had done in the past. Hence, the prohibition. Poorly managed spending is prohibited And the main thing in the verse is that it prohibits spending hapha¬zardly in the sense that one would ignore what may happen in the near future and spend on the spot. The result is that comes tomorrow, other needy people show up or one is required to take care of a major religious exigency and he would, then, be in no position to help out. (Qurtubi) Or, he may be rendered equally incapable of fulfilling the rights of his fami¬ly, something he is duty-bound to fulfill. (Mazhari) Explaining the words: مَلُومًا مَّحْسُورً‌ا (reproached, empty-handed - 29), Tafsir Mazhari says that the first word: مَلُوم (malum) relates to the first condition, that is, miserliness - meaning if he were to hold back on giving out of miserliness, people would reproach him.& And the word: مَّحْسُورً‌ا (mahsura) relates to some con¬dition other than this - meaning that one should not exaggerate in spending to the extent that he himself becomes a pauper. If so, he will turn empty-handed, defeated and rueful.  Show more

اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرنا کہ خود پریشانی میں پڑجائے اس کا درجہ : اس آیت سے بظاہر اس طرح خرچ کرنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے جس کے بعد خود فقیر و محتاج ہوجائے اور پریشانی میں پڑجائے امام تفسیر قرطبی نے فرمایا کہ یہ حکم مسلمانوں کے عام حالات کے لئے ہے جو خرچ کرنے کے بعد تکلیفوں سے پریشان ہو کر پچھلے...  خرچ کئے ہوئے پر پچھتائیں اور افسوس کریں قرآن کریم کے لفظ مَّحْسُوْرًا میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے (کما قال المظہری) اور جو لوگ اتنے بلند حوصلہ ہوں کہ بعد کی پریشانی سے نہ گھبرائیں اور اہل حقوق کے حقوق بھی ادا کرسکیں ان کے لئے یہ پابندی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت یہ تھی کہ کل کے لئے کچھ ذخیرہ نہ کرتے تھے جو کچھ آیا آج ہی خرچ فرما دیتے تھے اور بسا اوقات بھوک اور فاقہ کی تکلیف بھی پیش آتی پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت بھی آجاتی تھی اور صحابہ کرام (رض) اجمعین میں بھی بہت سے ایسے حضرات ہیں جنہوں نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ اس کو منع فرمایا نہ ان کو ملامت کی اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کی ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے جو فقر و فاقہ کی تکلیف برداشت نہ کرسکیں اور خرچ کرنے بعد ان کو حسرت ہو کہ کاش ہم خرچ نہ کرتے یہ صورت ان کے پچھلے عمل کو فاسد کر دے گی اس لئے اس سے منع فرمایا گیا۔ خرچ میں بدنظمی ممنوع ہے : اور اصل بات یہ ہے کہ اس آیت نے بدنظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا ہے کہ آگے آنے والے حالات سے قطع نظر کر کے جو کچھ پاس ہے اسے اسی وقت خرچ کر ڈالے کل کو دوسرے صاحب حاجت لوگ آئیں اور کوئی دینی ضرورت اہم پیش آجائے تو اب اس کے لئے قدرت نہ رہے (قرطبی) یا اہل و عیال جن کے حقوق اس کے ذمہ واجب ہیں ان کے حق ادا کرنے سے عاجز ہوجائے (مظہری) مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا کے الفاظ کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے کہ مَلُوْم کا تعلق پہلی حالت یعنی بخل سے ہے کہ اگر ہاتھ کو بخل سے بالکل روک لے گا تو لوگ ملامت کریں گے اور محسورا کا تعلق کسی دوسری حالت سے ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی کرے کہ خود فقیر ہوجائے تو یہ محسورا یعنی تھکا ماندہ عاجز یا حسرت زدہ ہوجائے گا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا 30؀ۧ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْ... فِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) بیشک آپ کا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے مال کی فراخی عطا فرماتا اور اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے اور اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے مال کی فراخی عطا فرماتا ہے اور اس میں بھی اس کی مصلحت ہوتی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اور تنگی اور فراخی کو خوب د... یکھتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ) بعض اوقات اللہ کا کوئی بندہ چاہتا ہے کہ میں کوشش کر کے اپنے فلاں نادار رشتہ دار کے حالات بہتر کردوں مگر اس کی پوری کوشش کے باوجود اس کے حالات نہیں سدھرتے۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ کسی کے رزق کی تنگی اور فراخی کا فی... صلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس میں تم لوگوں کو کچھ اختیار نہیں۔ لہٰذا تم لوگ اپنی سی کوشش کرتے رہو اور نتائج اللہ پر چھوڑ دو ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30. That is, man cannot realize the wisdom of the disparity of wealth among the people. Therefore, man should not try to interfere by artificial means with the natural distribution of wealth. It is wrong to level down natural inequality or to aggravate it by artificial means so as to make it unjust. Both the extremes are wrong. The best economic system is that which is established on the divine Wa... y of the division of wealth. As a result of the realization of the wisdom of economic disparity, no such problems arose which might have made that disparity an evil in itself so as to demand the creation of a classless society. On the contrary, in the righteous society established at Al-Madinah on these divine principles which are akin to human nature, the economic differences were not artificially disturbed. But by means of moral and legal reforms these became the means of many moral, spiritual and cultural blessings and benefits instead of becoming the means of injustice. Thus, the wisdom of the disparity created by the Creator of the Universe was practically demonstrated at Al-Madinah.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :30 یعنی اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا ، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے ۔ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدی... ل کرنا ، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا ، دونوں ہی یکساں غلط ہیں ۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق تقسیم رزق سے قریب تر ہو ۔ اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پا سکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو ۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر برقرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی ، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

17:30) یبسط۔ کھول دیتا ہے۔ مضارع واحد مذکر غائب کشادہ کردیتا ہے۔ یقدر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ قدر مصدر (باب ضرب) وہ تنگ کرتا ہے۔ قد رعلی عیالہ اس نے اپنے اہل و عیال پر تنگی کی و قدرت علیہ الشیٔ۔ میں نے اس پر تنگی کردی گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی۔ (بغیر حساب وبے اندازہ نہیں دی گئی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ہر ایک کی مصلحت خوب سمجھتا ہے کہ کسے دیا جائے اور کسے نہ دیا جائے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میرے بعض بندے ایسے ہیں جن کو اگر فقیر کر دوں تو ان کا دین بگڑ جائے اور بعض فقیری میں اچھے رہتے ہیں اگر میں انہیں مالدار کر دوں تو ان کا دین بگڑ جائے۔ (ابن کثیر) اس آیت سے معلوم ہوا کہ ال... لہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی تقسیم میں جو فرق رکھا ہے وہ ایک فطری چیز ہے جس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالیٰ کے علم میں ملے اس نے مصنوعی طریقوں سے زبردستی ختم کرنا فطرت سے جنگ کرنا ہے جو کبھی پائیدار اور فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ البتہ اس فرق کا اعتدال پر رہنا ضروری ہے۔ اس بنا پر اسلام نے ایک طرف تو ناجائز طریقوں سے استحاصل کو حرام قرار دیا ہے اور دوسری طرف جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو زکوۃ صدقات میراث اور دوسرے احکام کے ذریعے معاشرے میں پھیلا دنیے کا حکم دیا ہے۔ ان احکام پر عمل کرنے کی صورت میں معاشرے میں امیری غریبی میں اعتدال قائم رہے گا، نہ تو سرمایہ داری کے مظالم پیدا ہو سکیں گے اور نہ ہی اس فطری فرق کو زبردستی اور مصنوعی طریقوں سے ختم کرنے سے وہ خرابیاں پیدا ہونگی جو روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں پیدا ہوچکی ہیں اور جن کے بعد انسان انسانیت کے مرتبہ سے گر کر حیوانت سے بھی نیچے پہنچ گیا ہے اور عوام کو ان کی فطری آزادی سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اخراجات میں اعتدال اختیار کرنے کے ساتھ غربت کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بخل کا بنیادی سبب مال کم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی اندیشہ کی وجہ سے لوگ اپنی اولاد کو قتل کرتے آرہے ہیں۔ بخل اور اولاد کا قتل اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ناصرف سنگین جرم ہیں۔ بلکہ ... ان کے پیچھے آدمی کے عقیدہ کی کمزوری کا بڑا عمل دخل ہوا کرتا ہے۔ ایسے سنگین جرائم سے روکنے اور عقیدہ توحید کے ضعف سے بچانے کے لیے یہ بات سمجھائی ہے کہ رزق کی کمی وبیشی انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کا رزق چاہے کشادہ فرمائے اور جس کا چاہے تنگ کر دے۔ وہ اپنے بندوں کی ضروریات اور فطرت کو اچھی طرح جانتا اور دیکھتا ہے۔ رزق کی تنگی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے والے کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جس رب نے میری پرورش کی ہے۔ وہی میری اولاد کو بھی روزی مہیا کرنے والا ہے۔ اولاد کو معیشت کی تنگی کی وجہ سے قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ قتل اولاد کے پیچھے ہمیشہ سے یہ فکر رہی ہے کہ اگر اولاد زیادہ ہوگی تو اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی کے پیش نظر پہلے لوگ اپنی اولاد کو قتل کیا کرتے تھے۔ اور آج ترقی یافتہ دور میں پڑھے لکھے لوگ انفرادی طور پر نہیں بلکہ بڑی بڑی حکومتوں نے بچے قتل کرنے کے لیے مستقل وزارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ جو صبح شام میڈیا کے ذریعے کروڑوں روپے خرچ کرکے لوگوں کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ ” بچے دو ہی اچھے “ ، ” چھوٹا خاندان زندگی آسان “ ، ” چھوٹا خاندان خوشحالی کی ضمانت ہے “ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی خطیر سرمایہ میڈیسن پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہر سال نسل انسانی میں اضافہ کی رپورٹس شائع ہوتی ہیں۔ حالانکہ اگر یہی سرمایہ زراعت اور آمدنی کے حصول کے دیگر ذرائع پر خرچ کیا جائے تو اناج کی قلت سے بچا جاسکتا ہے۔ اولاد کو قتل کرنا صرف اخلاقی جرم نہیں بلکہ اس کے پیچھے شرک جیسا ناقابل معافی گناہ بھی پایا جاتا ہے۔ جس سے اللہ کے رزاق ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارے خالق کا اعلان ہے کہ زمین میں چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ وہ کھانے والے کی مستقل اور عارضی قیام گاہ کو پوری طرح جانتا ہے۔ اس نے سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ ( ہود : ٦) یہی وجہ ہے کہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کے اناج میں بھی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ ١٩٦٥ ء تک پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ، سولہ من سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن آج فی ایکڑ پیداوار دگنی سے بڑھ چکی ہے۔ یہی رفتارچاول اور دیگر اجناس کی ریکارڈ کی گئی ہے۔ قتل اولاد کا دوسرا سبب ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ لوگ بیٹیوں کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ان کو قتل کرتے ہیں۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ (وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیْمٌ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءٍ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ )[ النحل : ٥٨، ٥٩] ” حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے۔ تو اس کا منہ غم کے سبب کے کالا پڑجاتا ہے اور وہ اندوھناک ہوجاتا ہے اور اس بری خبر سے وہ چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے۔ “ (وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ للرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیْمٌ )[ الزخرف : ١٧] ” جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے جو وہ رحمن کے لیے منسوب کرتے ہیں تو اس کا منہ غم کے سبب کالا پڑجاتا ہے۔ (رحمٰن کے لیے بیان کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ ) قیامت کے دن بیٹی باپ سے سوال کرے گی : ( وَإِذَا الْمَوْءُ ودَۃُ سُءِلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ )[ التکویر : ٨۔ ٩] ” جب زندہ درگور کی گئی بچی سے سوال کیا جائے گا۔ تجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ؟ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ “ (یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَاءَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَا یُشْرِکْنَ باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِیْنَہُ بَیْنَ أَیْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ )[ الممتحنۃ : ١٢] ” اے نبی ! جب مومن عورتیں آپ کی بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کریں گی، چوری اور بدکاری نہیں کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں سے کوئی بہتان باندھ کر نہیں لائیں گی اور نیکی کے کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیں یقیناً اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس کا چاہتا ہے رزق بڑھا دیتا ہے۔ ٢۔ رزق تنگ کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ ٤۔ اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کو روزی دینے والا ہے۔ ٦۔ قتل اولاد بہت بڑا جرم ہے۔ تفسیر بالقرآن قتل اولاد کا جرم : ١۔ نہ اسراف کرو، نہ زنا کرو اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو۔ (الممتحنۃ : ١٢) ٢۔ اولاد کو قتل کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣١) ٣۔ اپنی اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١) ٤۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا نقصان پائیں گے۔ (الانعام : ١٤٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وہ اچھی طرح دیکھ کر کسی کو رزق میں راوانی دیتا ہے ، اور اچھی طرح دیکھ کر اور جان کر کسی کو رزق میں تنگ کرتا ہے ۔ وہ میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور بخل و اسراف کی ممانعت کرتا ہے اس لئے کہ وہ تمام حالات میں لوگوں کے بارے خبیر وبصیر ہے اور سب کچھ جانتا ہے اس لئے وہ اپنے علم کے مطابق حکم دیتا ... ہے۔ اور اس نے یہ قرآن نازل ہی اس لئے کیا ہے کہ تمام حالات میں یہ اچھی او سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اہل جاہلیت اپنی لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے ، اس ڈر سے کہ وہ ان پر بوجھ بن کر ان کو معاشی لحاظ سے کمزور کردیں گی اور ان کے لئے ان کا سنبھالنا مشکل ہوگا۔ سابقہ آیت میں چونکہ یہ حقیقت بتا دی گئی تھی کہ رزق کی فراوانی اور تنگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے یہاں صاف صاف کہہ دیا کہ اب تم لوگ اولاد کو معاشی زاویہ سے نہ دیکھو۔ کثرت اولاد یا لڑکیوں کی وجہ سے کوئی غریب نہیں ہوگا۔ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اکثرت نسل یا کثرت اقسام نسل کے نتیجے میں معاشی تنگی نہیں ہوگی اور نہ افراد خانہ کم ہونے کی وجہ سے کوئی معاشی لحاظ سے خوشحال ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًام بَصِیْرًا) (بلاشبہ تیرا رب جس کے لیے چاہے رزق میں فراخی دیتا ہے، اور وہ رزق میں تنگی فرما دیتا ہے بلاشبہ وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے دیکھنے والا ہے۔ ) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ... تکوینی نظام بتایا ہے سب اس کے بندے ہیں وہ اپنی حکمت کے مطابق کسی کا رزق زیادہ فرماتا ہے اور کسی کے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے وہ خبیر بھی ہے اور بصیر بھی ہے سب کا حال اسے معلوم ہے اس کے ذمہ کسی کا کچھ واجب نہیں ہے جس کو چاہے جتنا دے اور جس کو چاہے بالکل ہی نہ دے اسے پورا پورا اختیار ہے۔ بندے اپنا کام کریں میانہ روی کے ساتھ اپنی جان پر اپنے اہل و عیال پر اوراقرباء پر اور فقراء و مساکین پر خرچ کریں تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی رہیں اور کچھ لوگوں کی حاجتیں رکی رہیں اور بندے احکام شرعیہ کے پابند ہیں ان کو حکم ہے کہ سارا مال خرچ کرکے اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں صاحب روح المعانی نے ص ٦٦ ج ١٥ میں آیت بالا کی ایک تفسیر بتاتے ہوئے لکھا ہے۔ علی معنی ان البسط والقبض امران مختصان باللّٰہ تعالیٰ واما انت فاقتصد واترک ما ھو مختص بہ جل وعلا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30: یہ توحید کی تیسری عقلی دلیل ہے۔ رزق کی تنگی اور فراخی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کوئی شخص اپنی عقل و دانش اور محنت و کاوش کے بل پر دولتمند نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں سے پورا پورا باخبر اور ان کے تمام اعمال و افعال کو دیکھ رہا ہے وہ اپنی حکمت بالغہ کے مطابق اپنے بندوں میں رزق تقسیم...  فرماتا ہے اللہ تعالیٰ جو سب کا رازق ومالک ہے اور پھر سب کچھ جاننے اور دیکھنے والا بھی ہے و ہی سب کا کارساز ہے لہذا اسی عبادت کرو، اسی کی نذریں منتیں دو اور حاجات میں صرف اسی کو پکارو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

30 بلاشبہ تیرا پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے اس کا رزق فراخ اور اس کی روزی کشادہ کردیتا ہے اور وہی رزق کو تنگ اور روزی کو کس دیتا ہے بلاشبہ وہ اپنے بندوں کے حال سے پوری طرح واقف ہے اور ان کی حالت کو دیکھنے الا ہے۔ یعنی جس کی روزی کو چاہتے ہیں وسیع کردیتے ہیں اور جس کو چاہیں اس کی روزی تنگ اور نپی تلی ... کردیتے ہیں۔ حدیث قدسی میں ہے کہ میں اپنے کسی بندے کے رزق میں زیادتی کرتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ اگر اس کی روزی میں کمی کروں گا تو وہ کفر کا ارتکاب کر بیٹھے گا اور اگر کسی کی روزی میں کمی کرتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ اگر اس کی روزی فراخ کی جائے تو یہ کفر اور نافرمانی کرے گا۔ اسی لئے فرمایا۔ انہ کان بعبادہ خبیر ا بصیراً حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ محتاج کو دیکھ کر بےتاب نہ ہوجا اس کی حاجت تیرے ذمہ پر نہیں اللہ کے ذمہ پر ہے لیکن یہ باتیں پیغمبر کو فرمائیں جو بےحد سخی تھے جس کے جی سے مال نہ نکل سکے اس کو تقید ہے دینے کا حکیم بھی گرمی والے کے سر د دوا دیتا ہے اور سردی والے کو گرم 2 ؎  Show more