Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 36

سورة بنی اسراءیل

وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡئُوۡلًا ﴿۳۶﴾

And do not pursue that of which you have no knowledge. Indeed, the hearing, the sight and the heart - about all those [one] will be questioned.

جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do not speak without Knowledge Allah says; وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوَادَ ... And follow not that of which you have no knowledge. Verily, the hearing, and the sight, and the heart of, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said: "(This means) do not say (anything of which you have no knowledge)." Al-Awfi said: "Do not accuse anyone of that of which you have no knowledge." Muhammad bin Al-Hanafiyyah said: "It means bearing false witness." Qatadah said: "Do not say, `I have seen', when you did not see anything, or `I have heard', when you did not hear anything, or `I know', when you do not know, for Allah will ask you about all of that." In conclusion, what they said means that Allah forbids speaking without knowledge and only on the basis of suspicion, which is mere imagination and illusions. As Allah says: اجْتَنِبُواْ كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ Avoid much suspicion; indeed some suspicions are sins. (49:12) According to a Hadith: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّنَفَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيث Beware of suspicion, for suspicion is the falsest of speech. The following Hadith is found in Sunan Abu Dawud: بِيْسَ مَطِيَّةُ الرَّجُلِ زَعَمُوا What an evil habit it is for a man to say, `They claimed...' According to another Hadith: إِنَّ أَفْرَى الْفِرَى أَنْ يُرِيَ الرَّجُلُ عَيْنَيْهِ مَا لَمْ تَرَيَا The worst of lies is for a man to claim to have seen something that he has not seen. In the Sahih it says: مَنْ تَحَلَّمَ حُلْمًا كُلِّفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ وَلَيْسَ بِفَاعِل Whoever claims to have seen a dream (when he has not seen) will be told on the Day of Resurrection to make a knot between two barley grains, and he will not be able to do it. ... كُلُّ أُولـيِكَ ... each of those ones, means these faculties, hearing, sight and the heart, ... كَانَ عَنْهُ مَسْوُولاً will be questioned. means, the person will be asked about them on the Day of Resurrection, and they will be asked about him and what he did with them.

بلا تحقیق فیصلہ نہ کرو یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو ۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو ۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا ، نہ بےسنے سننا بیان کرو ، نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو ۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ 12؀ ) 49- الحجرات:12 ) ، کہ زیادہ گمان سے بچو ، بعض گمان گناہ ہیں ۔ حدیث میں ہے گمان سے بچو ، گمان بدترین جھوٹی بات ہے ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑ لے اور صحیح حدیث میں ہے جو شخص ایسا خواب از خود گھڑ لے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا ۔ قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے باز پرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی ۔ یہاں تلک کی جگہ اولئک کا استعمال ہے ، عرب میں استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 فَفَا یَقْفُوْ کے معنی ہیں پیچھے لگنا، یعنی جس چیز کا علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو، اسی طرح جس چیز کا علم نہیں، اس پر عمل مت کرو۔ 36۔ 2 یعنی جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا کہ کیا اس نے سنا تھا، آنکھ سے سوال ہوگا کیا اس نے دیکھا تھا اور دل سے سوال ہوگا کیا اس نے جانا تھا ؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں۔ یعنی ان اعضا کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦ ٤] ہر قول اور فعل کی تحقیق ضروری ہے بدظنی سے پرہیز :۔ شریعت کی ایک بہت بڑی اصل یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظن رکھنا چاہیے تاآنکہ اس کی کوئی بددیانتی یا غلط حرکت کھل کر سامنے نہ آجائے۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ 12؀) 49 ۔ الحجرات :12) (یعنی بسا اوقات محض گمان سے بات کہہ دینا گناہ ہوتا ہے) اور صحیح حدیث میں ہے کہ && کفی بالمرء کذبا ان یحدث بماسمع && (یعنی کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے تحقیق کیے بغیر آگے بیان کردے) (مسلم) لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ بلاتحقیق کوئی بات نہ کرے۔ نہ ہی بلاوجہ کسی سے بدظنی رکھے جب تک پوری تحقیق نہ کرلے۔ بلاسوچے سمجھے کسی پر نہ الزام لگائے اور نہ تہمت تراشی کرے۔ نہ کوئی افواہ پھیلائے نہ کسی سے بغض و عداوت رکھے۔ اسی طرح عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک مجرم کا جرم ثابت نہ ہو اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہ دی جائے۔ پھر یہ تحقیق کا سلسلہ انھیں باتوں میں منحصر نہیں بلکہ وہ رسم و رواج بھی اسی ذیل میں آتی ہیں جو آباء واجداد سے چلی آرہی ہیں ان کے متعلق یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کی اصل شریعت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ آنکھ اور کان کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ ہمیں بیشتر معلومات انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں اور دل کا کام ان میں غور و فکر کرکے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا ہے۔ گویا ایسے بدظنی رکھنے والوں، بےبنیاد افواہیں پھیلانے والوں اور تحقیق کیے بغیر ہی کسی بات کو قبول کرلینے والوں کے اعضاء سے بھی باز پرس ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ :” وَلَا تَــقْفُ “ ” قَفَا یَقْفُوْ “ (ن) سے نہی کا صیغہ ہے، جس کا معنی پیچھے چلنا ہے۔ ” قَفَوْتُ أَثَرَ فُلاَنٍ “ ” میں فلاں کے نقش قدم پر چلا۔ “ ” قَفَا “ گردن کے پچھلے حصے (گدی) کو کہتے ہیں، قافیہ ہر شعر کے آخر میں آنے والا لفظ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مبارک نام ” اَلْمُقَفِّيْ “ بھی ہے، یعنی سب سے پیچھے آنے والا۔ ( مستدرک حاکم : ٤١٨٥) یعنی جس قول یا فعل کے درست ہونے کا علم یعنی یقین نہ ہو اس کا پیچھا مت کرو، مطلب یہ کہ نہ خود اس پر عمل کرو نہ آگے کسی کو بتاؤ۔ علم وہ ہے جس کا یقین ہو، صرف گمان کے پیچھے چلنا منع ہے، کیونکہ گمان علم نہیں ہوتا، فرمایا : (وَمَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ) [ النجم : ٢٨ ] ” حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ “ ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ) [ بخاری، الأدب، باب : ( یأیھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن۔۔ ) : ٦٠٦٦ ] ” گمان سے بچو، یقیناً گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔ “ اسی طرح سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرنا بھی منع ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَفَی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات آگے بیان کر دے جو اس نے سنی ہو۔ “ علاوہ ازیں جھوٹی گواہی، کوئی بھی تہمت، جھوٹا خواب بیان کرنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اس کے صحیح ہونے کا علم ہونے کے بغیر بیان کرنا، قرآن و حدیث کی موجودگی میں کسی کی شخصی رائے یا قیاس پر عمل کرنا (تقلید کرنا) یہ سب چیزیں اس میں شامل ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب سے منع فرمایا ہے۔ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ ۔۔ : یہاں ” كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا “ سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس کے کان، آنکھیں اور دل ہیں، یعنی آدمی سے ان تینوں چیزوں میں سے ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے کہ تونے ان اعضا کو کہاں استعمال کیا ہے ؟ جس چیز کا علم نہیں تھا اس کا پیچھا کرنے میں اللہ کے عطا کردہ اعضا کیوں استعمال کیے ؟ (دیکھیے حجر : ٩٢، ٩٣) اور ” كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا “ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کان، آنکھیں اور دل میں سے ہر ایک سے خود اس کے متعلق سوال ہونے والا ہے کہ بتاؤ تمہیں اس شخص نے کہاں اور کیسے استعمال کیا۔ دیکھیے سورة یس (٦٥) اور حم السجدہ (١٩ تا ٢٣) بہرحال قرآن کی آیات میں یہ دونوں مفہوم موجود ہیں، دونوں صورتوں میں قیامت کے دن کی اس ہولناک پیشی سے ڈرایا گیا ہے۔ اس آیت کی ہم معنی یہ آیات بھی ملاحظہ فرمائیں سورة اعراف (٣٣) اور سورة بقرہ (١٦٨، ١٦٩) ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چند الفاظ اسلام کے مکمل منہج کی ترجمانی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ اس بات کی اپنی حد تک پوری تحقیق کرلے کہ میری زبان جو بات کہہ رہی ہے، یا واقعہ بیان کر رہی ہے، یا روایت نقل کر رہی ہے، یا میری عقل جو فیصلہ کر رہی ہے، یا جو کچھ میں نے قطعی طے کیا، یا جو کام میں کرنے جا رہا ہوں اس کا مجھے پورا علم ہے اور میں اس کے نتائج کو پوری طرح جانتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی قرآن نے بات کا رخ تکبر سے ممانعت کی طرف موڑ دیا، کیونکہ یہ انسان کے اپنی حقیقت سے حد سے زیادہ لا علم ہونے کی دلیل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Two injunctions in these verses, the twelfth and the thirteenth, relate to mores of common social living. The twelfth injunction forbids doing something without having become certain about it. At this stage, we should not lose sight of the fact that certainty has different degrees. There is a degree of certainty that reaches the level of perfect certitude, a state that leaves no room of even the slightest doubt contrary to it. Then, it could descend to the degree of strong likelihood - even though, there does exist the probability of a contrary aspect. Simi-larly, divine injunctions are also of two kinds: (1) Absolutes and Certain-ties, such as, Articles and Principles of Religion. These require certainty of the first degree. Acting without it is not permissible. (2) Strong Likeli¬hood or Overwhelming Probability, the example of which are injunctions relating to subsidiary deeds. After having given these details, we can state the objective of the cited verse by saying that the element of cer¬tainty in injunctions that are Certain and Absolute should also be of the first degree. In other words, it should have attained the degree of perfect certitude and absolute category. And until this happens, this pseudo cer¬tainty is not trustworthy in the matter of the basic Articles and Princi¬ples of Islam. Acting on its dictates is not permissible. As for the subsidiary injunctions, a certainty of the second degree, that is, of Overwhelming Probability is sufficient. (Bayan al-Qur&an) Questions will be asked on the day of Qiyamah about the ear, the eye and the heart This is what we have been told in verse 36: إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ‌ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا It means that the ear will be asked as to what did it keep hearing throughout its life. The eye will be asked as to what did it keep seeing throughout its life. The heart will be asked as to what did it keep cooking in its chambers and what was it that it believed in throughout its life. If things were heard through the ears, the hearing of which was not permissible in Shari` ah, such as hearing ill of someone behind his back (ghibah) or hearing unlawful vocal and instrumental music etc., then, punishment will follow the question. If things were seen through the eyes, the seeing of which was not permissible, such as casting an evil eye on a non-Mahram woman or a beardless, handsome youth etc. then, punishment will follow the question. Or, planted a belief in the heart contrary to the Qur&an, and Sunnah, or nursed a baseless blame in the heart regarding someone, then, punishment will follow the question. The fact is that, on that fateful day of Qiyamah, questions will be asked about virtually all blessings given by Allah Ta’ ala. It was said in Surah at-Takathur: لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ : |"And you shall certainly be asked on that day [ of Qiyamah ] about all blessings [ of Allah Ta’ ala ] - 102:8.|" Since, the ear, the eye and the heart are more important and significant out of these blessings, these were mentioned here particularly. Tafsir al-Qurtubi and Mazhari give yet another sense of the verse in terms of the close proximity of the statement in the first sentence and the next. In the first sentence, it was said: وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (And do not pursue that which you have no knowledge of - 36). Adjacent to it follows the statement that the ear, the eye and the heart - each one of them shall be interrogated about. The sense that emerges from this proximity is that a person who blamed someone without first ascertaining and bec¬oming certain about it, or did something impulsively without doing that first, then, should this thing be related to what is heard through ears, the ears shall be questioned. And if this is &seen&, the eyes shall be ques¬tioned. And if comprehended through the heart, the heart shall be ques¬tioned to determine whether this person is true or false in his blame or in the belief he has allowed to become rooted in his heart. Thereupon, these very body parts shall speak up as witnesses on the day of Resurrec¬tion. It will be a cause of disgrace for those who accuse others without being certain and those who do things the truth of which has not been as¬certained first. This is as it appears in Surah Sin: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْ‌جُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٦٥﴾:|"Today [ on the day of Qiyamah ] We shall set a seal on their mouths and their hands shall speak and their feet shall bear witness as to what they have been earning [ by making these limbs of their body do whatever of good or bad they chose ] - 36:65|". Perhaps, the ears, the eyes and the heart have been particularized here on the basis that Allah Ta’ ala has blessed man with sense and con¬sciousness through them. The purpose is to let him first ascertain, exam¬ine, and test a thought or belief that crosses his heart. If he finds it true, and sound, let him, then, put it in practice. And should it turn out to be false, let him, then, stay away from it. Anyone who does not use these fa¬culties and goes about following things he has no knowledge of, things the truth of which he has not ascertained first, then, this person is guilty of being ungrateful to these blessings of Allah Ta` ala. Now, the senses through which man becomes aware of different things are five: the ears, the eyes, the nose, the faculty of speech and the sensation in the whole body that tells one about something being hot or cold. But, habitually man finds out more through the ears and eyes. Awareness about things acquired through the senses of smell, taste and touch is fairly lower in frequency as compared to things heard or seen. That it has been considered sufficient to mention only two of the five senses at this place may, perhaps, be because of this very reason. Then, even from among these two, it is the ear that has been made to precede the eye - and on other occasions of the Holy Qur&an as well, wherever these two has been mentioned, it is the ear that has been mentioned first. In all likelihood, the reason for it is that the major part of man&s in-formation is comprised of things heard through the ears. Things seen through the eyes happen to be comparatively much less.

خلاصہ تفسیر : اور جس بات کی تجھ کو تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کیا کرو (کیونکہ) کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے ان سب کی (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی (کہ آنکھ اور کان کا استعمال کس کس کام میں کیا وہ کام اچھے تھے یا برے اور بےدلیل بات کا خیال دل میں کیوں جمایا) اور زمین پر اتراتا ہوا مت چل (کیونکہ) تو (اس زمین پر زور سے پاؤں رکھ کر) نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (اپنے بدن کو تان کر) پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے (پھر اترانا عبث) یہ سارے (مذکورہ) برے کام تیرے رب کے نزدیک (بالکل) ناپسند ہیں۔ معارف و مسائل : ان آیات میں دو حکم بارھواں اور تیرھواں عام معاشرت سے متعلق ہیں بارھویں حکم میں بغیر تحقیق کے کسی بات پر عمل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ یہاں یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تحقیق کے درجات مختلف ہوتے ہیں ایک ایسی تحقیق کہ یقین کامل کے درجہ کو پہنچ جائے مخالف جانب کا کوئی شبہ بھی نہ رہے دوسرے یہ کہ گمان غالب کے درجہ میں آجائے اگر جانب مخالف کا احتمال بھی موجود ہو اس طرح احکام میں بھی دو قسم ہیں ایک قطعیات اور یقینیات ہیں جیسے عقائد اور اصول دین ان میں پہلے درجہ کی تحقیق مطلوب ہے اس کے بغیر عمل کرنا جائز نہیں دوسرے ظنیات جیسے فروعی اعمال سے متعلق احکام اس تفیصل کے بعد مقتضیٰ آیت مذکورہ کا یہ ہے کہ یقینی اور قطعی احکام میں تحقیق بھی درجہ اول کی ہو یعنی قطعیت اور یقیین کامل کے درجہ کو پہنچ جائے اور جب تک ایسا نہ ہو عقائد اور اصول اسلام میں اس تحقیق کا اعتبار نہیں اس کے مقتضی پر عمل جائز نہیں اور ظنی فروعی امور میں دوسرے درجہ یعنی ظن غالب کے درجہ کی تحقیق کافی ہے (بیان القرآن ) کان آنکھ اور دل کے متعلق قیامت کے روز سوال : (آیت) اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤ َادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا اس آیت میں بتلایا ہے کہ قیامت کے روز کان آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا مطلب یہ ہے کہ کان سے سوال ہوگا کہ تو نے عمر میں کیا کیا سنا آنکھ سے سوال ہوگا کہ تمام عمر میں کیا کیا دیکھا دل سے سوال ہوگا کہ تمام عمر دل میں کیسے کیسے خیالات پکائے اور کن کن چیزوں پر یقین کیا اگر کان سے ایسی باتیں سنیں جن کا سننا شرعا جائز نہیں تھا جیسے کسی کی غیبت یا حرام گانا بجانا وغیرہ یا آنکھ سے ایسی چیزیں دیکھیں جن کا دیکھنا شرعا حلال نہ تھا جیسے غیر محرم عورت یا امرد لڑکے پر نظر بد کرنا وغیرہ یا دل میں کوئی ایسا عقیدہ جمایا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو یا کسی کے متعلق اپنے دل میں بلا دلیل کوئی الزام قائم کرلیا تو اس سوال کے نتیجہ میں گرفتار عذاب ہوگا قیامت کے روز اللہ کی دی ہوئی ساری ہی نعمتوں کا سوال ہوگا (آیت) ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (یعنی تم سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں کا سوال ہوگا) کان آنکھ دل ان نعمتوں میں سب سے زیادہ اہم ہیں اس لئے یہاں ان کا خصوصیت سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ تفسیر قرطبی اور مظہری میں اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے جملہ میں جو یہ ارشاد آیا ہے کہ (آیت) لَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ یعنی جس چیز کا تمہیں علم اور تحقیق نہیں اس پر عمل نہ کرو اس کے متصل کان آنکھ اور دل سے سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے بےتحقیق مثلا کسی شخص پر کوئی الزام لگایا اور بلاتحقیق کسی بات پر عمل کیا اگر وہ ایسی چیز سے متعلق ہے جو کان سے سنی جاتی ہے تو کان سے سوال ہوگا اور آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہے تو آنکھ اور دل سے سمجھنے کی چیز ہے دل سے سوال ہوگا کہ یہ شخص اپنے الزام اور اپنے دل میں جمائے ہوئے خیال میں سچا ہے یا جھوٹا اس پر انسان کے یہ اعضاء خود شہادت دیں گے جو حشر کے میدان میں بےتحقیق الزام لگانیوانے اور بےتحقیق باتوں پر عمل کرنے والے کے لئے بڑی رسوائی کا سبب بنے گا جیسا کہ سورة یسین میں ہے (آیت) اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ یعنی آج قیامت کے دن ہم مجرموں کے مونہوں پر مہر لگا کر بند کردیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور پاؤں گواہی دیں گے کہ اس نے ان اعضاء سے کیا کیا کام اچھے یا برے لئے ہیں) یہاں کان آنکھ اور دل کی تخصیص شاید اس بناء پر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ جو اس اور دل کا شعور و ادراک اسی لئے بخشا ہے کہ جو خیال یا عقیدہ دل میں آئے ان حواس اور ادراک کے ذریعہ اس کو جانچ سکے کہ یہ صحیح ہے تو اس پر عمل کرے اور غلط ہے تو باز رہے جو شخص ان سے کام لئے بغیر بےتحقیق باتوں کی پیروی میں لگ گیا اس نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی۔ پھر وہ حواس جن کے ذریعہ انسان مختلف چیزوں کو معلوم کرتا ہے پانچ ہیں کان آنکھ ناک زبان کی قوتیں اور پورے بدن میں وہ احساس جس سے کسی چیز کا سرد و گرم وغیرہ ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عادۃ زیادہ معلومات انسان کو کان یا آنکھ سے ہوتی ہیں ناک سے سونگھنے اور زبان سے چکھنے ہاتھ وغیرہ سے چھونے کے ذریعہ جن چیزوں کا علم ہوتا ہے وہ سننے دیکھنے والی چیزوں کی نسبت سے بہت کم ہے اس جگہ حواس خمسہ میں سے صرف دو کے ذکر پر اکتفاء کرنا شاید اسی کی وجہ سے ہو پھر ان میں بھی کان کو آنکھ پر مقدم کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے دوسرے مواقع میں بھی جہاں کہیں ان دونوں چیزوں کا ذکر آیا ہے ان میں کان ہی کو مقدم رکھا گیا ہے اس کا سبب بھی غالبا یہی ہے کہ انسان کی معلومات میں سب سے بڑا حصہ کان سے سنی ہوئی چیزوں کا ہوتا ہے آنکھ سے دیکھی ہوئی چیزیں ان کی نسبت سے بہت کم ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا 36؀ وقف يقال : وَقَفْتُ القومَ أَقِفُهُمْ وَقْفاً ، ووَاقَفُوهُمْ وُقُوفاً. قال تعالی: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] ومنه استعیر : وَقَفْتُ الدّارَ : إذا سبّلتها، والوَقْفُ : سوارٌ من عاج، وحمارٌ مُوَقَّفٌ بأرساغه مثلُ الوَقْفِ من البیاض، کقولهم : فرس مُحجَّل : إذا کان به مثلُ الحَجَل، ومَوْقِفُ الإنسانِ حيث يَقِفُ ، والمُوَاقَفَةُ : أن يَقِفَ كلُّ واحد أمره علی ما يَقِفُهُ عليه صاحبه، والوَقِيفَةُ : الوحشيّة التي يلجئها الصائد إلى أن تَقِفَ حتی تصاد . ( و ق ف ) وقعت القوم ( ض) وقفا ر ( متعدی ) لوگوں کو ٹھہر انا اور دقفو ا وقو قا لازم ٹھہر نا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] اور ان کو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے اور سی سے بطور استعارہ وقفت الدار آتا ہے جس کے معنی مکان کو وقف کردینے ہیں ۔ نیز الوقف کے معنی ہاتھی دانت کا کنگن بھی آتے ہیں اور حمار موقف اس گدھے کو کہتے ہیں جس کی کلائوں پر کنگن جیسے سفید نشان ہوں جیسا کہ فرس محجل اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جس کے پاؤں میں حجل کی طرح سفیدی ہو ۔ مرقف الانسان انسان کے ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور الموافقتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے معاملہ کو اسی چیز پر روک دے جس پر کہ دوسرے نے روکا ہے ۔ ( ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا ہونا ) الوقیفتہ بھگا یا ہوا شکار جو شکاری کے تعاقب سے عاجز ہوکر ٹھہر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے شکار کرلے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

لاتقف کی تشریح قول باری ہے (لا تقف مالیس لک بہ علم۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو) کسی نشان کا پیچھا کرنا ” القفوا “ کہلاتا ہے۔ جبکہ اس کا کوئی علم نہ ہو اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بصیرت کہ یہ نشان کہاں جا کر اختتام پذیر ہوگا۔ اسی سے قافۃ کا لفظ بنا ہے جس کے معنی قیاذ شناس کے ہیں۔ یہ قائف کی جمع ہے۔ عرب کے اندر ایسے لوگ بھی تھے جو قدموں کے نشانات کا کھوج لگاتے تھے۔ (ہمارے ہاں عرف عام میں انہیں کھوجی کہا جاتا ہے) اور ایسے بھی تھے جو نسب کے سلسلہ میں قیاذ شناسی کا کام کرت ی تھے یعنی ایک شخص کے جسمانی اعضاء دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ اس کا تعلق فلاں نسب سے ہے۔ تاہم عربوں کے نزدیک یہ اسم اس خبر کے لئے وضع کیا گیا تھا جو کوئی شخص یونہی آ کر سنا دے اور اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ جب کوئی شخص باطل یعنی غلط بات کہتا تو اس موقعہ پر یہ فقرہ استعمال ہوتا۔ ” تقوف الرجل “ جریر کا شعر ہے۔ وطال حذاری خیفۃ البین والنوی واحد وثۃ من کاشح متقوف علیحدگی اور جدائی نیز ایک کینہ ور دروغ گو دشمن کی افواہوں سے ڈرتے ہوئے میں نے طویل عرصے تک محتاط رویہ اختیار کئے رکھا۔ اہل لغت کا کہنا ہے کہ جریر نے متقوف سے غلط باتیں کہنے والا مراد لیا ہے۔ ایک اور شاعر کا قول ہے : ومثل الدمی شم العرانین ساکن بھن الحیاء لایشعن التقافیا وہ ستواں ناک والی پتلیوں کی طرح خاموش ہیں۔ ان کے اندر حیا داری موجود ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالتی ہیں۔ یہاں تفافی تفاذف یعنی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے معنوں میں ہے۔ اس اسم کو تقاذف کے معنوں میں اس لئے استعمال کیا گیا کہ اس میں اکثر باتیں بےحقیقت اور غلط ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قاذف یعنی زنا کی تہمت لگانے والے کو گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں کاذب قرار دیا ہے چناچہ ارشاد ہے (لوہ اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیراً و قالوا ھذا افک مبین۔ جب تم لوگوں نے یہ افواہیں سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹ ہے۔ قتادہ نے قول باری صولا تقف مالیس لک بہ علم) کی تفسیر کرتے ہوئے کہا۔” جو بات تم نے نہ سنی ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنی ہے۔ جو چیز تم نے نہ دیکھی ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھی ہے اور جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ مجھے علم ہے۔ “ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ کے احکام کے متعلق اپنے گمان اور خیال سے علم کے بغیر کوئی بات کہنے کی ممانعت ہے نیز یہ کہ لوگوں کے متعلق کسی ایسی سنی سنائی بات کو زبان پر لانا ممنوع ہے جس کی صحت کا علم نہ ہو۔ نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی شخص علم کے بغیر کسی بات کی خبر دے گا وہ گنہگار قرار پائے گا۔ خواہ اس کی سنائی ہوئی بات سچی ہو یا جھوٹی اس لئے کہ اس نے علم کے بغیر یہ بات کہی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا ہے۔ قول باری ہے (ان السمع والبصر والفوادکل اولئک کان عنہ مسئولاً یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری آنکھ، کان اور دل پر اللہ کا حق ہے اور انسان کو اپنے ان تمام اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی جو اس نے ان اعضاء کے ذریعے سر انجام دیئے ہوں گے۔ اسے یہ حساب دینا ہوگا کہ اس نے کون کون سی غلط باتیں سنی تھیں، کہاں کہاں غلط نظر ڈالی تھی اور کیسی کیسی غلط اور قبیح باتیں سوچی تھیں۔ بعض لوگ قول باری (ولا تقف مالیس لک بہ علم) سے شریعت کی فروعی مسائل میں قیاس کی نفی پر استدلال کرتے ہیں نیز خبرواحد کا ابطال کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ قیاس اور خبر واحد دونوں ہمیں کسی مسئلے کے متعلق علم کی منزل تک پہنچاتے ہیں اس لئے جو شخص ان دونوں باتوں کی بنیاد پر کوئی مسئلہ بیان کرے گا وہ علم کے بغیر بات کرنے والا گردانا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا ہے اس نے غلط کہا ہے۔ اس لئے جس مسئلے کے بیان کے لئے شرعی دلالت قائم ہوجائے اس کے قائل کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے علم کے بغیر بات کی ہے۔ قیاس اور خیر واحد کے سلسلے میں ایسے دلائل قائم ہوچکے ہیں جو ان کی صحت کے موجب ہیں۔ اگرچہ ہمیں دی گئی خبر کی سچائی کا علم نہیں ہوتا لیکن خبر کی سچائی کا علم نہ ہونا اس خبر کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا جس طرح اگر دو گواہوں کی ظاہری حالت ان کی عدالت یعنی سچائی، نیک روی وغیرہ پر والی ہو تو ان کی گواہی قبول کرلینا واجب ہوتا ہے اگرچہ ہمیں ان کی دی ہوئی گواہی کی سچائی کے بارے میں یقینی علم نہیں ہوتا۔ اسی طرح تمام اہل علم کے نزدیک معاملات سے متعلق دی گئی خبریں قابل قبول ہوتی ہیں اگرچہ ان خبروں کی صحت کا ہمیں یقینی علم نہیں ہوتا۔ قول باری (ولا تقف مالیس لک بہ علم) اخبار آحاد کو رد کرنے کا موجب نہیں ہے جس طرح یہ گواہیوں کو رد کردینا واجب نہیں کتا۔ جہاں تک قیاس شرعی کا تعلق ہے تو جو قیاس اجتہاد کے دائرے کے اندر کیا جاتا ہے اور جس قول میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے اس قیاس کے نتیجے میں ایسے قول کے قائل کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا ک ہ اس نے علم کے بغیر یہ بات کہی ہے بلکہ اس کا یہ قول علم پر بمین ہوتا ہے اس لئے کہ جس بات پر وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں پہنچا ہے وہی اس کے لئے اللہ کا حکم قرار پاتا ہے۔ علم حقیقی اور علم ظاہری میں فرق ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالیے، علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم حقیقی اور علم ظاہر۔ ہم جس علم کے مکلف ہیں وہ علم ظاہر ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ارشاد باری ہے ۔ (فان علمتموھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار۔ اگر تمہیں ان عورتوں کے مومن ہونے کا علم ہوجائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو) اس علم سے علم ظاہر مراد ہے اس لئے کہ ان کے دلوں میں پوشیدہ باتوں کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جو کہا تھا قرآن میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ (وما شھد نا الا بما علمنا وما کنا للغیب حافظین ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے) یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ بتایا کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ علم ظاہر کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) اور جب تک کسی بات کی تحقیق نہ ہو اور اس کو صحیح طور پر دیکھی اور سنی نہ ہو تو مت بیان کرو، کیوں کہ کانوں سے جن باتوں کو سنا ہے اور آنکھوں سے جن کو دیکھا ہے اور دل میں جن باتوں کی تمنا کی ہے قیامت کے دن ہر ایک شخص سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ) بحیثیت اشرف المخلوقات انسان کا طرز عمل خالص علم پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کسی عمل یا نظریے کی بنیاد توہمات پر رکھے یا ایسی معلومات کو لائق اعتناء سمجھے جن کی کوئی علمی سند نہ ہو۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود انسانی علم کی بنیاد اور اس کا منبع کیا ہے ؟ اس سلسلے میں ہم جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر انسانی علم کی دو اقسام ہیں۔ ایک اکتسابی علم (acquired knowledge) اور دوسرا الہامی علم (revealed knowledge) ۔ اکتسابی علم کی بنیاد وہی علم الاسماء ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سکھایا تھا اور جس کا ذکر ہم سورة البقرۃ کے چوتھے رکوع میں پڑھ آئے ہیں۔ اس علم کا تعلق انسانی حواس اور ذہن سے ہے۔ انسان اپنے حواس کی مدد سے یہ علم حاصل کر کے اپنے ذہن میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ جوں جوں انسان کے تجربے اور مشاہدے کا دائرہ پھیلتا ہے اس علم میں بھی توسیع ہوتی جاتی ہے اور یوں یہ علم کرۂ ارض پر انسانی زندگی کے روز اوّل سے لے کر آج تک مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ دوسری طرف الہامی علم ہے جس کا انسان کے حواس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اس علم کے تمام ذرائع مثلاً وحی (جلی یا خفی) الہام کشف اور رؤیائے صادقہ (سچے خواب) کا تعلق انسان کے حیوانی وجود کے بجائے اس کے روحانی وجود سے ہے۔ انسانی روح اس علم کو براہ راست موصول کرتی ہے اور اس کا مسکن و مرکز انسانی قلب ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی۔ چاہے جلی ہو یا خفی نبوت کا حصہ ہے اور علمی لحاظ سے ایک قطعی دلیل یا برہان قاطع ہے۔ لیکن کسی عام شخص کو وحی خفی الہام یا کشف کے ذریعے ملنے والا علم دوسروں کے لیے کوئی علمی دلیل فراہم نہیں کرتا۔ ایسا علم صرف متعلقہ شخص کے لیے دلیل ہوسکتا ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب وہ خلاف شریعت نہ ہو۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آیت زیر نظر میں انسان کا اکتسابی علم زیر بحث ہے۔ (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا) اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے اکتساب و استعمال کے لیے حواس خمسہ (جن میں سے دو اہم ترین حواس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے) اور عقل سے نوازا ہے اور اس لحاظ سے اس کی ان صلاحیتوں کا احتساب بھی ہوگا۔ یہاں پر لفظ فؤاد بہت اہم ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ” دل “ کیا گیا ہے ‘ مگر اس ترجمے کے لیے کوئی لغوی بنیاد موجود نہیں۔ اس لفظ کا مادہ وہی ہے جس سے لفظ ” فائدہ “ مشتق ہے اور لفظ ” فائدہ “ کے معنی کسی چیز کے اس جوہر یا لب لباب کے ہیں جو اس چیز میں سے اصل مقصود ہوتا ہے۔ پرانے دور کی کتب میں یہ انداز عام ملتا ہے کہ کوئی حکایت یا روایت بیان کرنے کے بعد اس کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے لفظ ” فائدہ “ یا صرف ” ف “ لکھ دیا جاتا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تفصیل کے خلاصہ یا کسی کام کے نتیجہ کو فائدہ کہا جاتا ہے۔ لفظ ” فئید “ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ عربی میں ” فئید “ کسی سبزی یا گوشت وغیرہ کی بھجیا کو کہا جاتا ہے اور اس لفظ (فئید) میں بھی نتیجہ یا خلاصہ وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی گوشت وغیرہ کو ابالنے یا بھوننے سے جب اس کا فالتو پانی خشک ہوجاتا ہے تب اس میں سے بہت تھوڑی مقدار میں وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس پر لفظ فئید کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لغوی وضاحت کے بعد لفظ ” فؤاد “ کے مفہوم اور انسانی حواس کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ حواس انسانی اپنے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کر کے دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ دماغ کا کمپیوٹر ان معلومات کو process کرتا ہے پہلے سے موجود اپنے ذخیرۂ معلومات کے ساتھ ان کا تطابق (tally) یا تقابل (compare) کرکے اس سارے عمل سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اور پھر اس نتیجہ کو اپنے ذخیرۂ معلومات (memory) میں محفوظ (store) کرلیتا ہے۔ اسی ذخیرۂ معلومات کا نام علم ہے اور انسان کی وہ قوت یا صلاحیت جو اس سارے عمل کو ممکن بناتی ہے ” فواد “ کہلانے کی مستحق ہے۔ عرف عام میں اس قوت یا صلاحیت کو عقل یا شعور کہا جاتا ہے۔ چناچہ میرے نزدیک ” فواد “ کا درست ترجمہ عقل یا شعور ہی ہے۔ اس پورے تناظر میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفید حواس (sense organs) عطا کیے ہیں اور ان حواس سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے اسے نوازا ہے۔ اب اگر انسان اپنے ان حواس سے استفادہ نہ کرے عقل و شعور کی صلاحیت سے کوئی کام نہ لے اور اپنے نظریات کی بنیاد توہمات پر رکھ لے تو وہ بہت بڑے ظلم کا مرتکب ہوگا۔ مثلاً زلزلے کے بارے میں کبھی لوگوں میں یہ نظریہ مشہور تھا کہ ہماری یہ زمین ایک بیل نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھی ہے۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو اسے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے جس سے زلزلہ آجاتا ہے۔ اس مضحکہ خیز نظریے کے لیے نہ تو قرآن و حدیث میں کوئی دلیل موجود ہے اور نہ ہی انسان کے اکتسابی اور تجرباتی علوم اس کے لیے کوئی دلیل فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی ان صلاحیتوں کے حوالے سے اس ہستی کے سامنے جوابدہ رکھا گیا ہے جس نے اسے یہ سب کچھ عطا کیا ہے۔ چناچہ انسان کو چاہیے کہ جس چیز یا خبر کی بنیاد میں الہامی یا اکتسابی و تجرباتی علم کی کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو اسے قابل اعتناء نہ سمجھے اور اپنے فکار و نظریات کی بنیاد ایسے ٹھوس علمی حقائق پر رکھے جن کی وہ سائنٹیفک انداز میں توثیق و تصدیق بھی کرسکتا ہو۔ یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس نے علمی میدان میں نوع انسانی کی راہنمائی اس راستے کی طرف کی ہے جو انسان کے شایان شان ہے۔ یہاں پر ارسطو کے استخراجی فلسفے کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ایک مدت تک پوری دنیا میں اس فلسفے کا ڈنکا بجتا رہا۔ عالم اسلام میں بھی یہ فلسفہ بہت مقبول رہا اور کئی صدیوں کے بعد اب جا کر کہیں اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی ہے۔ استخراجی منطق (deductive knowledge) کے مطابق صرف دستیاب معلومات سے ہی نتائج اخد کیے جاتے تھے۔ چناچہ کسی موضوع پر جو تھوڑی بہت معلومات دستیاب ہوتی تھیں وقت کے فلسفی اور حکیم انہی میں سے بال کی کھال اتار اتار کر نتائج اخذ کرتے رہتے تھے۔ اس کے مقابلے میں قرآن نے استقرائی منطق (inductive knowledge) کا فلسفہ متعارف کرایا اور انسان کو مشاہدے اور تجربے کی مدد سے مسلسل علم حاصل کرنے کی راہ دکھائی : (اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ) (الغاشیۃ) ” کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹ کی طرف کہ کیسے پیدا کیا گیا ہے۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے نصب کیے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کیسے ہموار کی گئی ہے ! “ علامہ اقبال نے اس فکر قرآنی کی ترجمانی یوں کی ہے : کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ ! فطرت اور مظاہر فطرت کے بارے میں ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے قوانین بہت مضبوط اور مستحکم ہونے کے باوجود اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ اللہ جب چاہے فطرت کے ان قوانین کو معطل کرسکتا ہے یا بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کائنات کا عمومی نظام بہت مضبوط محکم اور اٹل طبعی اصول و قوانین پر چل رہا ہے اور ان قوانین کو معطل کرنے کے معجزات روز روز رونما نہیں ہوتے۔ سمندر حضرت موسیٰ کے لیے نوع انسانی کی تاریخ میں ایک ہی دفعہ پھٹا تھا اور آگ نے ایک ہی دفعہ حضرت ابراہیم کو جلانے سے انکار کیا تھا۔ بہر حال دنیا میں طبعی سائنس (Physical Science) کی مختلف ٹیکنالوجیز کا وجود فطرت کے اٹل قوانین کا ہی مرہون منت ہے اور اسی وجہ سے آج طرح طرح کی سائنسی ترقی ممکن ہوئی ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن ان مظاہر فطرت کو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دیتا ہے اور انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اللہ کی ان نشانیوں کو غور سے دیکھے ان کے اندر کارفرما قوانین کا تجزیاتی مطالعہ کرکے نتائج اخذ کرے اور پھر ان نتائج کو کام میں لاکر اپنی زندگی میں ترقی کی نئی منازل تلاش کرے۔ علامہ اقبال نے اسی حوالے سے اپنے خطبات میں فرمایا ہے :|" The inner core of the western civilization is Quranic.|" کہ موجودہ مغربی تہذیب کا اندرونی محور خالص قرآنی ہے ‘ کیونکہ اس کی بنیاد سائنس پر ہے اور سائنسی علوم کی طرف انسان کی توجہ قرآن نے مبذول کروائی ہے۔ بہرحال قرآن انسان کو ہر قسم کے توہمات رمل نجوم پامسڑی وغیرہ سے بیزار کر کے اپنے معاملات اور نظریات کی بنیاد ٹھوس علمی حقائق پر رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے سفر میں توازن رکھنے کے لیے مذکورہ دونوں قسم کے علوم (اکتسابی اور الہامی ) اپنے اپنے دائرۂ عمل میں نہایت اہم ہیں۔ دونوں کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش کے فوراً بعد آپ کو علم الاسماء (یہ وہی علم ہے جس کا تعلق انسانی حواس سے ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے) سے بھی نواز دیا گیا تھا اور آپ کو زمین پر بھیجتے وقت الہامی علم کی اتباع کی ہدایت بھی کردی گئی تھی : (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (البقرۃ) ” پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی تو ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ “ یورپی معاشرہ اس سلسلے میں بہت بڑی کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے کہ اس معاشرے میں ساری توجہ اکتسابی علم پر مرکوز کر کے الہامی علم سے بالکل ہی صرف نظر کرلیا گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دی تھیں ‘ ان میں ایک اکتسابی علم کی آنکھ تھی اور دوسری الہامی علم کی۔ یورپ میں ایک آنکھ کو مکمل طور پر بند کر کے ہرچیز کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے دوسری اکیلی آنکھ پر ہی انحصار کرلیا گیا۔ نتیجتاً نہ تو انسان کی سوچ میں اعتدال رہا نہ عمل میں توازن اور یوں اس پورے معاشرے نے یک چشمی دجالیت کی شکل اختیار کرلی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. The meanings of “Do not follow that of which you have no knowledge” are very comprehensive. It demands that both in individual and collective life, one should not follow mere guess work and presumption instead of knowledge. This instruction covers all aspects of Islamic life, moral, legal, political, administrative and applies to science, arts and education. It has thus saved the society from numerous evils which are produced in human life by following guesswork instead of knowledge. The Islamic moral code demands: Guard against suspicion and do not accuse any individual or group without proper investigation. In law, it has been made a permanent principle that no action should be taken against anyone without proper investigation. It has been made unlawful to arrest, beat or imprison anyone on mere suspicion during investigation. In regards to foreign relations, the definite policy has been laid down that no action should be taken without investigation, nor should rumors be set afloat. Likewise in education the so called sciences based on mere guess work, presumptions and irrational theories have been disapproved. Above all, it cuts at the very root of superstitions, for this instruction teaches the believers to accept only that which is based on the knowledge imparted by Allah and His Messenger.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :42 اس دفعہ کا منشاء یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ”علم“ کی پیروی کریں ۔ اسلامی معاشرے میں اس منشاء کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں ، قانون میں ، سیاست اور انتظام ملکی میں ، علوم و فنون اور نظام تعلیم میں ، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور ان بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں ۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے ۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں ۔ نظام تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: مثلاً جب تک کسی شخص کے بارے میں شرعی دلیل سے کوئی جرم یا گناہ ثابت نہ ہوجائے، اس وقت تک صرف شبہ کی بنیاد پر نہ اس کے خلاف سزا کی کارروائی جائز ہے، اور نہ دل میں یہ یقین کرلینا جائز ہے کہ واقعی اس نے جرم یا گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جن باتوں کا نہ یقینی علم حاصل ہے اور نہ ایسے علم پر دنیا اور آخرت کا کوئی کا موقوف ہے بلا وجہ ایسی چیزوں کی تحقیق اور جستجو میں پڑنا بھی جائز نہیں ہے۔ 21: اگر شرعی دلیل کے بغیر کوئی شخص دوسرے کے بارے میں یقین کر کے بیٹھ جائے کہ اس نے فلاں گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس سے آخرت میں باز پرس ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:36) لا تقف۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ جس شے کا تجھے علم نہیں تو اس کے پیچھے نہ پڑ۔ تو اس کے درپے مت ہو۔ قفو (باب نصر) سے۔ جس کے معنی اصل میں تو کسی کے پیچھے چلنے اور درپے ہونے کے ہیں۔ اور اسی لئے اتباع اور پیروی کرنے کے معنی میں آتا ہے (یعنی اپنے کان ۔ آنکھ اور دل کا مکمل اور صحیح استعمال کرنے کے بعد فیصلہ کر) ۔ القفا کے معنی گدی کے ہیں اور قفوتہ کے معنی کسی کی گردن پر مارنا اور کسی کے پیچھے چلنا کے ہیں۔ کل اولئک۔ یہ سب کے سب۔ اولئک کا اشارہ مجموعاً السمع والبصر والفؤاد کی طرف ہے۔ اور عنہ کا اشارہ فرداً فرداً ان کی طرف ہے ای کل واحد منھا کان مسئولا عنہ۔ ان میں سے ہر ایک کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی بےتحقیق کسی بات کی اندھا دھند پیروی نہ کر اس میں جھوٹی گواہی غلط تہمت سنی سنائی باتوں پر کسی کی برائی کرنا سب شامل ہیں۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی دلیل کے ہوتے ہوئے کسی کی شخص رائے اور قیاس پر عمل کرنا ممنوع ہوگا۔ (ت ن)12 اللہ تعالیٰ انہیں گویائی دے گا اور وہ آدمی کے خلاف گواہی دیں گے۔ (فعلت :232)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 36 تا 39 لاتقف پیچھے نہ پڑو۔ لیس نہیں ہے۔ الفواد دل۔ لاتمش نہ چل۔ مرح اکڑنا، اترانا۔ لن تخرق تو ہرگز نہ پھاڑ دے گا۔ لن تبلغ تو ہرگز نہ پہنچے گا۔ الجبال پہاڑ، (پہاڑوں) ۔ طول بلندی، لمبائی۔ مکروہ ناپسندیدہ۔ تلقی ڈالا جائے گا۔ مدحور ہر رحمت سے محروم کیا ہوا۔ تشریح : آیت نمبر 36 تا 39 سورۃ الاسراء کے تیسرے اور چوتھے رکوع کی پندرہ آیات میں بہت سے نیک کام کرنے اور بہت سی برائیوں سے بچنے کے احکامات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں چند اور بنیادی خرابیوں کی طرف متوجہ فرمایا جا رہا ہے کہ ہر مومن کی بدگمانی بدظنی، غرور وتکبر اور بےجا ضد سے بچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ذمہ دار مخلوق بنایا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ اور جملے کو بہت ذمہ دارانہ ہونا چاہئے محض سنی سنائی باتوں پر ایک تصور گھڑل ینا اور اسی کو حقیقت سمجھ کر اس پر عمل کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہر بات جو وہ کان سے سنتا، آنکھوں سے دیکھتا اور دل سے سوچتا ہے اس کی ہر بنیاد پر غور کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ جس بات کو سوچ رہا ہے وہ سرے سے لغط اور بےبنیاد ہو اور وہ بدظنی کر کے کسی بڑے گناہ میں مبتلا ہوجائے کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ہر شخص کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ کل قیامت کے دن اس کے کانوں سے سنے گئے آنکھوں سے دیکھے گئے اور دلوں سے سوچے گئے ہر خیال کا اللہ کا جواب دینا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے مومنو ! تمہیں جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو کیونکہ آنکھ، کال اور دل ہر ایک سے سوال کیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ کو عاجزی اور انکساری بہت پسند ہے جب کہ تکبر اور غرور کو وہ سخت ناپسند فرماتا ہے۔ زمین پر اکڑ کر چلنا کس طرح منساب نہیں ہے۔ اللہ کے بندے تو جب زمین پر چلتے ہیں اس میں ایک وقار، سنجیدگی اور متانت ہوتی ہے وہ اس طرح نہیں چلتے کہ جیسے وہ زمین کو پھاڑ ڈالیں گے اور گردنیں اکڑا کر پہاڑوں سے اونچے ہوجائیں گے بلکہ عاجزی، انکساری اور تواضح ان کا مزاج ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توریت کی ساری اخلاقی تعلیمات کو سورة الاسراء کی پندرہ آیات میں ارشاد فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مومن پر لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل برائیوں سے بچتے ہوئے نیکیوں اور بھلائیک و قائم کرے کیونکہ یہ تمام برائیاں جن کو بیان کیا گیا ہے تمہارے رب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہیں۔ بیان کئے گئے تمام اخلاقی اصولوں کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ (2) ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری کرو۔ (3) رشتہ داروں مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرو۔ (4) اگر کسی ضرورت مند کو فی الحال دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو اس سے ترشیا ور سختی کے بجائے نرمی سے کہہ دو ۔ (5) مال کے خرچ کرنے میں نہ تو کنجوسی کرو اور نہ اس قدر فراخ دل بن جاؤ کہ خود ہی دوسروں کیم حتاج بن کر رہ جاؤ، اعتدال کا راستہ سب سے اچھا راستہ ہے۔ (6) اپنی اولاد کو غربت و افلاس اور ناداری کے خوف سے قتل نہ کرو۔ (7) زنا اور بد کاری کے ہر راستہ سے بچو کیونکہ یہ بدترین راستوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (8) بےحیائی کے کاموں سے دور رہو۔ (9) ناحق دوسروں کا خون نہ بہاؤ۔ (10) یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کرو اور اس میں بےجا تصرف نہ کرو۔ (11) عہد و پیمان کو پورا کرو۔ (12) ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (13) سنی سنائی بےتحقیق باتوں کے پیچھے نہ لگو۔ (14) زمین پر اکڑ کر نہ چلو کیونکہ نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو یعنی عاجزی و انکساری اختیار کرو۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ جتنی باتیں ہم نے وحی کی ہیں ان کی بنیاد حکمت و دانئای ہے تاکہ ان پر عمل کیا جائے اور زندگی کا صحیح راستہ تلاش کر کے اس پر چلا جائے۔ انسان کی سب سے بڑی عقل مندی اور سمجھ داری یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کو ماننے والا، شرک سے دور اور اسی کی عبادت و بندگی کرنے والا ہو جس نے اس کو پیدا کیا ہے کیونکہ اگر کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا جائے گا تو وہ بدعملی اس کو جہنم کے اس گڑھے میں لے جا کر پھینک دے گی جہاں اللہ اور اس کے فرشتوں کی صرف لعنت ہوگی اور وہ آخرت میں سوائے ذلت و رسوائی کے دھکوں کے اوپر کچھ بھی حاصل نہ کرسکے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس لئے بےتحقیق بات پر وثوق کر کے اس پر عملدر آمد مت کر۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معاملات میں درستگی کا حکم دینے کے بعد بات چیت، اخلاق اور خیالات میں پاکیزگی کا حکم دیا ہے۔ دانش مندی اور حقیقی دینداری کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان باتوں اور کاموں کے پیچھے نہ پڑے۔ جس سے آدمی کے اخلاق اور دین میں نقص واقع ہو۔ اس نقصان سے مسلمان کو بچانے کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کان، آنکھیں اور دل مسؤل ٹھہرائے گئے ہیں۔ اس لیے مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دانستہ طور پر اپنے کانوں سے وہ بات سننے کی کوشش نہ کرے جس بات میں شریعت کی خلاف ورزی پائی جا رہی ہو۔ اپنی آنکھوں کو ان چیزوں سے پھیرلے جن کو دیکھنے سے روکا گیا ہے۔ ہر شخص کو یہ حقیقت دل میں بٹھا لینی چاہیے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انسان کے اعضاء اور اس کا پورا جسم اس کے خلاف گواہی دے گا۔ (حَتّٰی إِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَأَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوْا أَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِی أَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ خَلَقَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ )[ حٰمٰ السجدۃ : ٢٠۔ ٢١] ” یہاں تک کہ جب سب اللہ کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور جسم ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے جسم سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنا سکھایا ہے اس نے ہم کو بھی گویائی دی اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ “ جہاں تک دل کا معاملہ ہے اس میں پیدا ہونے والے برے خیالات کو رب کریم نے معاف کردیا ہے۔ البتہ شرکیہ اعتقاد، حسد، بغض اور کفریہ خیالات دل میں جمائے رکھے تو ان کے بارے میں شدید پکڑ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ أُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہِ صُدُورُہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَکَلَّمْ )[ رواہ البخاری : کتاب العتق، باب الْخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ فِی الْعَتَاقَۃِ وَالطَّلاَقِِ ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے در گزر فرما دیا ہے۔ جب تک ان خیالات پر عمل نہ کریں یا ان کے مطابق کلام نہ کرلیں۔ “ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ (رض) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ ) [ رواہ مالک وأحمد ] ” علی بن حسین (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی بھی شخص کا بےمقصد باتوں کو چھوڑ دینا اس کے اچھے اسلام کی دلیل ہے۔ “ (عَنْ أُمِ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاِقِ وَعمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃَ فَإِنَّکَ تَعْلَمْ خَاءِنَۃَ الْأَعَیْنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر ] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا کرتے ہوئے سنا آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاء کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً آپ خیانت کرنے والی آنکھ اور دل کے خیالات سے واقف ہیں۔ “ مسائل ١۔ ایسی بات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے جو انسان کے احاطہ علم میں آنے والی نہ ہو۔ ٢۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اعضاء سے سوال اور ان کا جواب : ١۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٦) ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف ان کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ : ٢٠) ٣۔ مجرموں کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥) ٤۔ قیامت کے دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان چند الفاظ میں انسانی دل و دماغ کے لئے ایک بہترین منہاج عمل اور طریق کار وضع کردیا گیا ہے اور یہ ایک سائنسی انداز جسے دوسرے لوگوں نے حال ہی میں معلوم کیا ہے۔ اسلام نے اس میں قلب کی درستی ، خدا ترسی اور سائنس میں حکمت خداوندی پر غور کا جوڑ لگا کر ایک خشک علم کے مقابلے میں اسے مزید مقدس اور بامعنی بنا دیا ہے۔ یہ اسلام اور قرآن کی خصوصیات ہے۔ قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے کہ ہر معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پوری تحقیق کرو ، معاملے کو پایہ ثبوت تک پہنچائو ، یہ اسلام کا نہایت ہی باریک طریق کار ہے۔ جب دل و دماغ اس منہاج پر گامزن ہوجائیں۔ تو پھرو ہم و گمان کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی اور معاملات ، فیصلوں کا مدار تحقیق اور ثبوت پر ہوتا ہے ، مفروضوں پر نہیں۔ انسانیت کو یہ علمی اور سائنسی انداز سب سے پہلے قرآن نے دیا ہے۔ وہ علمی امانت جس کے ساتھ دور جدید کے لوگ مسلح ہیں ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس علی امانت کا ایک حصہ ہے۔ جس کی تلقین قرآن کرتا ہے یعنی قلب و نظر کی وہ امانت جسے عقل کہتے ہیں اور جس کے استعمال اور کام میں لانے کی قرآن کریم بار بار تلقین کرتا ہے اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان سمع اور بصر اور قلب و نظر کی قوتوں کو کام میں لانے کا ذمہ دار ہے اور یہ ذمہ داری اس ذات کے سامنے ہے جس نے یہ قوتیں انسان کو عطا کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام اعضاء اور جوارح ، اس کے حواس اور اس کی عقل یہ سب اللہ کی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کا مالک اللہ ہے ، وہ انسان سے پوچھے گا کہ اس نے یہ قوتیں کام میں لائی تھیں یا نہیں۔ جب انسان ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے مفہوم پر غور کرتے ہوئے انسان معلوم کرلیتا ہے کہ عقل اور فکر و نظر اور سمع و احساس کسی قدر عظیم قوتیں ہیں۔ خصوصاً جب ایک انسان کوئی کہانی یا روایت بیان کرتا ہے ، یا کوئی فیصلہ کرتا ہے ، کسی کے خلاف ، کسی حادثے کے بارے میں ، یا کسی اور معاملے میں۔ ولا تقف مالیس لک بہ علم (٧١ : ٦٣) ” کسی ایسے چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو ‘۔ یعنی اس بات میں نہ پڑو ، جس کا تمہیں یقینی علم نہ ہو ، جب تک اس کی صحت کے بارے میں تمہیں وثوق حاصل نہ ہو ، خواہ بات ہو یا کوئی روایت ہو ، کسی منظر کی تشریح ہو یا کسی واقعہ کے اسباب پر بحث ہو ، کوئی شرعی اور قانونی مسئلہ ہو یا کوئی اعتقادی اور نظریاتی مسئلہ ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث “ بدگمانی سے دور رہو ، کیونکہ محض ظن وتخمین کی بات جھوٹی بات ہوتی ہے “۔ سنن ابو دائود میں ہے۔ بسئی معلیہ الرجل زعموا “ کسی شخص کی یہ بہت بری سواری ہے کہ وہ کہے ” لوگ یہ سمجھت ہیں “۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے۔ ان افری الفریی ان یری الرجل عینہ مالم تریا ” سب سے بڑی افتراء یہ ہے کہ ایک شخص اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انہوں نے نہیں دیکھی “۔ یوں آیات و احادیث و رویات کا ایک بڑا ذخیرہ اس بات کی توثیق و تائید کرتا ہے کہ اسلام میں عقل و خرد اور ثبوت احکام کے لئے نہایت ہی مستحکم اور معقول طریق کار اپنایا گیا ہے۔ تمام اسلامی احکام کے ثبوت ، میں پوری طرح چھان بین کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ چناچہ ایک مسلمان اپنی سوچ ، اپنے تصور ، اپنے شعور ، اپنے فیصلوں میں پختہ ثبوت اور یقین کا قائل ہوتا ہے ، وہ کوئی بات ، کوئی روایت ، کوئی حکم ، اور کوئی فیصلہ بغیر شہادت اور ثبوت کے نہیں مانتا۔ جب تک اس کے تمام اجزاء پایہ ثبوت و یقین تک پہنچ نہ جائیں۔ اور یہ ثبوت معقول حالت کے اندر نہ ہو ، اور جس میں کوئی شک و شبہ نہ رہا ہو۔ بیشک قرآن نے بہت ہی صحیح کہا ہے۔ ان ھذا القرآن یھدی للتی ھیی اقوم (٧١ : ٩) ” بیشک یہ قرآن ایک صحیح راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے “۔ صدق اللہ العظیم۔ یہ احکام ، اوا مرو نواہی جو عقیدہ توحید پر مبنی ہیں ، یہاں ان کا خاتمہ ایک نہایت ہی اہم اخلاقی تعلیم پر کیا جاتا ہے ، وہ یہ کہ انسان اپنی بےبضاعتی کو بھی پیش نظر رکھے اور اپنے آپ کو بڑی چیز نہ سمجھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جس بات کا پتہ نہیں اس کے پیچھے پڑنے اور زمین پر اتراتے ہوئے چلنے سے ممانعت یہ تین آیات ہیں پہلی آیت میں اس بات پر تنبیہ فرمائی کہ جس بات کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، اس کی جامعیت بہت سے اعمال کو شامل ہے اس نصیحت پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے جو اعمال صادر ہوتے ہیں معاشرہ میں جو بدمزگی پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی ہوجاتی ہے مختصر الفاظ میں ان سب کی ممانعت آگئی، غلط حدیثیں بیان کرنا خود حدیثیں وضع کرنا جھوٹے راویوں سے حدیثیں لینا اور انہیں آگے بڑھانا کسی بھی شخص کے بارے میں محض اٹکل سے یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کچھ کہہ دینا تہمت رکھ دینا یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو دینی اعتبار سے گمراہی کا ذریعہ بنتی ہیں اور دنیاوی اعتبار سے آپس میں بغض اور دشمنی پھیلاتی ہیں صرف گمان سے اٹکل پچو کوئی بات ثابت نہیں ہوتی سورة الحجرات میں فرمایا (اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ) (بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) اور غیبت کرنا تو اس بات کا یقین ہوتے ہوئے بھی حلال نہیں ہے کہ فلاں شخص نے فلاں گناہ کیا ہے یا فلاں شخص میں فلاں عیب ہے پھر بھلا محض اٹکل سے یا خود سے بنا کر کسی کے بارے میں یوں کہہ دینا کہ اس نے یوں کیا ہے یا کہا ہے کیسے حلال ہوسکتا ہے ؟ صاحب معالم التنزیل تحریر فرماتے ہیں۔ قال قتادہ لا تقل رایت ولم ترسمعت ولم تسمعہ وعلمت ولم تعلمہ، وقال مجاھد لا ترم احدا بما لیس لک بہ علم، قال القتیبی، لا تتبعہ بالحدس والظن وھو فی اللغۃ اتباع الاثر یقال، قفوت فلانا اقفوہ وقفیتہ واقفیتہ اذا اتبعت اثر۔ پھر ارشاد فرمایا (اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا) کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں باز پرس ہوگی، اللہ تعالیٰ شانہ نے جو یہ اعضا دئیے ہیں یوں ہی نہیں دئیے کہ ان کو جیسے چاہیں اور جہاں چاہیں استعمال کریں جس ذات پاک نے عطا فرمائے ہیں اس نے ان سب کے استعمال کرنے کے مواقع بھی بتائے ہیں اور وہ اعمال بھی بتائے ہیں جن سے ان کو محفوظ رکھنا لازم ہے کہاں دیکھے اور کیا بات سنے اور اپنی قوت فکریہ کو کہاں خرچ کرے، ان سب کی تفصیلات احادیث شریفہ میں موجود ہیں، کسی نے چوری کرلی، کسی کو ظلماً مارا، حساب غلط لکھ کر یا جھوٹا بل بنا کر خیانت کردی یا کسی ایسے مرد یا کسی عورت سے مصافحہ کرلیا جس سے مصافحہ کرنا جائز نہیں تو اس نے اپنے ہاتھ پاؤں کو غیر شرعی امور میں استعمال کیا، بائیں ہاتھ سے کھایا اور داہنے ہاتھ سے استنجا کیا یہ بھی ہاتھ کا غلط استعمال ہے۔ زبان سے کوئی بیجا بات کی کفر کا کلمہ کہا کسی کی غیبت کی کسی پر تہمت دھری گالی دی جھوٹ بولا یہ سب زبان کا غلط استعمال ہوا، کسی شخص نے گانا سنا، باجوں کی آواز کی طرف کان لگانا غیبتیں سنتا رہا یہ کان کا غلط استعمال ہوا، کسی شخص نے ایسی جگہ نظر ڈالی جہاں دیکھنا یا نظر ڈالنا ممنوع تھا، بد نظری سے کسی کو دیکھ لیا کسی کے ستر پر نظر ڈالی آنکھوں کو کسی بھی طرح گناہوں میں استعمال کیا تو یہ سب آنکھوں کا غیر جگہ استعمال ہوگا جہاں استعمال کرنا ممنوع تھا، کوئی شخص گناہ کے لیے کہیں چل کر گیا تو اس نے اپنے پاؤں کا غلط استعمال کیا، حدیث شریف میں ہے کہ آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا دیکھنا زنا کرنا ہے اور کان بھی زنا کرتے ہیں ان کا زنا سننا ہے اور زبان بھی زنا کرتی ہے اس کا زنا بات کرنا ہے اور ہاتھ بھی زنا کرتا ہے اس کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں بھی زنا کرتا ہے اس کا زنا چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور گناہوں کی آرزو کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے یعنی موقعہ لگ جاتا ہے تو شرم گاہ گناہوں میں استعمال ہوجاتی ہے ورنہ شرم گاہ کا زنا ہو نہیں پاتا لیکن اس سے پہلے دوسرے اعضاء زنا کرچکے ہوتے ہیں اور ان کا گناہ صاحب اعضاء کے ذمہ پڑجاتا ہے کیونکہ انہیں اسی نے استعمال کیا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٢) حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن بن جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن بن جاتا ہوں : (١) جب بات کرو تو سچ بولو (٢) وعدہ کرو تو پورا کرو (٣) جب تمہارے پاس امانت رکھ دی جائے تو اسے ادا کرو (٤) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (٥) اپنی آنکھوں کو نیچی رکھو (٦) اپنے ہاتھوں کو (بےجا استعمال سے) روکے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٥) فُؤَاد : دل کو کہتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور بہت بڑا عطیہ ہے جو زندگی کا ذریعہ ہے سورة ملک میں فرمایا (وَھُوَ الَّذِیْ اَنْشَاَ کُمْ وَ جَعَل لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا فرمایا اور تمہارے لیے کان آنکھیں بنائیں اور دل عطا فرمائے تم کم شکر ادا کرتے ہو) یہ دل ہی تو ہے جس کے ذریعے جسم میں خون رواں اور دواں ہے اور قوت فکریہ سوچ سمجھ ہوش گوش کا آلہ ہے، دل کی جو نعمت عظیمہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے اس کو بےجا استعمال کرنا غیر شرعی امور میں اس کی قوتوں کو صرف کرنا گناہوں کے لیے تدبیریں کرنا یہ سب دل و دماغ کا غلط استعمال ہے اپنی زندگی میں انسان آزاد نہیں ان سب اعضاء کے بارے میں قیامت کے دن باز پرس ہوگی کہ ان کو کہاں لگایا اور کن کاموں میں استعمال کیا یہ اعضاء یہاں دنیا میں تو فرمانبردار ہیں لیکن قیامت کے دن مخالفانہ گواہی دیں گے۔ سورة نور میں فرمایا (یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس عمل کی گواہی دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی کو حفاظت اعضاء (از معاصی) کے لیے یہ دعا بتائی۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَشَرِّ بَصَرِیْ وَشَرِّلِسَانِیْ وَشَرِّ قَلْبِیْ وَشَرِّمَنِّیِیْ (اے اللہ میں آپ سے اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں اور اپنی زبان اور اپنے دل اور اپنی منی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں) کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ یہ میرے اعضاء ہیں جیسے چاہوں استعمال کروں۔ تو خود اپنا نہیں ہے تو اور تیرے اعضاء سب اللہ جل شانہ کی مخلوق اور مملوک ہیں، میدان آخرت میں کٹ حجتی کام نہ دے گی، اعمال نامہ لکھا ہوا سامنے ہوگا لہٰذا اپنے نفس کو اپنے قلب کو اپنے اعضاء کو پاک اور صاف لے جاؤ یہ سب اعضاء اللہ تعالیٰ شانہ کا عطیہ ہیں ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ یہ چھٹا ظلم ہے جس چیز کے بارے میں پورا علم نہ ہو اس میں محض ظن وتخمین پر عمل نہ کرو اور بلا تحقیق کسی مسلمان کو تکلیف نہ دو اور محض سنی سنائی باتوں پر اعتماد کر کے کسی کو نشانہ ظلم نہ بناؤ۔ وقال القتبی لا تتبع الحدس والظنون (قرطبی ج 10 ص 357) جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ” اجتنبوا کثیر امن الظن ان بعض الظن اثم “ (حجرات رکوع 2) ۔ آدمی کو چاہئے کہ بلا تحقیق کوئی بات نہ کرے اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ، آنکھیں اور کان دئیے ہیں ان سے کام لینا چاہئے۔ سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔ ان سنی یا ان دیکھی باتوں کو سنی یا دیکھی بنانا یا جس کا علم نہ ہو اس کو جاننے کا دعوی کرنا یہ سب اس آیت کے تحت ممنوع ہیں۔ ” ان السمع والبصر الخ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور دیکھنے سننے کے لیے حواس عطا فرمائے ہیں ان کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا کہ ان سے ہم نے کیا کام لیا اور ان کو بےموقع تو استعمال نہیں کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 اور اے مخاطب جس بات کی تجھ کو صحیح تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے خواہ قولاً خواہ فعلاً نہ ہو لیا کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں ہر ایک شخص سے باز پرس ہوگی۔ یعنی جب تک کسی چیز کی تحقیق نہ کرلو اس پر عمل نہ کرو اور اس کو زبان سے نہ کالو اس نہی میں تمام امور داخل ہوگئے۔ جھوٹی تہمت جھوٹی شہادت محض سنی سنائی باتوں پر کسی سے بغض و عداوت یا محض باپ دادا کی رسوم کفر یہ اور شرکیہ اختیار کرلینا۔ کیونکہ کان سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے ان سے کیا کیا سنا اور آنکھوں سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے ان سے کیا کیا دیکھا اور دل سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے اس میں کس کی محبت اور کس کی عبادت رکھی۔ غرض انسان کے تمام ہی قوائے جسمانی کے متعلق سوال کیا جائے گا اس لئے ہر فعل اور ہر عمل میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے اور ان چیزوں کو ان ہی باتوں میں استعمال کرنا چاہئے جو جائز ہوں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جو بات تحقیق معلوم نہ ہو اس کو دعویٰ کر کر نہ کہے کہ یوں ہی ہے اور ایسی ہی گواہی دیں۔ 12