Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 40

سورة بنی اسراءیل

اَفَاَصۡفٰىکُمۡ رَبُّکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنَاثًا ؕ اِنَّکُمۡ لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۴۰﴾٪  4

Then, has your Lord chosen you for [having] sons and taken from among the angels daughters? Indeed, you say a grave saying.

کیا بیٹوں کے لئے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیں؟ بیشک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refutation of Those Who claim that the Angels are Daughters of Allah Allah refutes the lying idolators who claim, may the curse of Allah be upon them, that the angels are the daughters of Allah. They made the angels, who are the servants of Ar-Rahman (the Most Beneficent), females, and called them daughters of Allah, then they worshipped them. They were gravely wrong on all three counts. Allah says, denouncing them: أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ ... Has then your Lord preferred for you sons, meaning, has He given only you sons! ... وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَليِكَةِ إِنَاثًا ... and taken for Himself from among the angels daughters. meaning, has He chosen for Himself, as you claim, daughters. Then Allah denounces them even more severely, and says: ... إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِيمًا Verily, you indeed utter an awful saying. meaning, in your claim that Allah has children, then you say that His children are female, which you do not like for yourselves and may even kill them by burying them alive. That is indeed a division most unfair! Allah says: وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً لَقَدْ جِيْتُمْ شَيْياً إِدّاً تَكَادُ السَّمَـوَتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الاٌّرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدّاً أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـنِ وَلَداً وَمَا يَنبَغِى لِلرَّحْمَـنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً إِن كُلُّ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ إِلاَّ اتِى الرَّحْمَـنِ عَبْداً لَّقَدْ أَحْصَـهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدّاً وَكُلُّهُمْ ءَاتِيهِ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَرْداً And they say: "The Most Beneficent (Allah) has begotten a child." Indeed you have brought forth (said) a terrible evil thing. Whereby the heavens are almost torn, and the earth split asunder, and the mountains fall in ruins. That they ascribe a son child to the Most Beneficent. But it is not suitable for (the majesty of) the Most Beneficent that he should beget a child. There is none in the heavens and the earth but comes unto the Most Beneficent as a servant. Verily, He knows each one of them, and has counted them a full counting. And every one of them will come to Him alone on the Day of Resurrection. (19:88-95)

مجرمانہ سوچ پر تبصرہ ملعون مشرکوں کی تردید ہو رہی ہے کہ یہ تم نے خوب تقسیم کی ہے کہ بیٹے تمہارے اور بیٹیاں اللہ کی ۔ جو تمہیں ناپسند جن سے تم جلو کڑھو ۔ بلکہ زندہ درگور کر دو انہیں اللہ کے لئے ثابت کرو ۔ اور آیتوں میں بھی ان کا یہ کمینہ پن بیان ہوا ہے کہ یہ کہتے ہیں رب رحمان کی اولاد ہے حقیقتا انکا یہ قول نہایت ہی برا ہے بہت ممکن ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائے ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ چورا چورا ہو جائیں کہ یہ اللہ رحمان کی اولاد ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ اللہ کو یہ کسی طرح لائق ہی نہیں ۔ زمین و آسمان کی کل مخلوق اس کی غلام ہے ۔ سب اس کے شمار میں ہیں اور گنتی میں اور ایک ایک اس کے سامنے قیامت کے دن تنہا پیش ہونے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] توحید کے بیان کے ساتھ ہی مشرکین مکہ کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ کے شریک بھی بناتے تھے تو اناث کو۔ جنہیں اپنے لیے قطعاً ناگوار سمجھتے تھے اور اسی طرح دوہرے جرم کے مرتکب ہوتے تھے۔ (تفصیل کے لیے سورة نحل آیت نمبر ٥٧ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بالْبَنِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں مشرکین عرب کی جہالت پر طنز ہے، جو یہ کہہ کر فرشتوں کی عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ دیکھیے سورة نجم (٢١، ٢٢، ٢٧، ٢٨) ، زخرف (١٩) اور نحل (٥٧، ٥٨) فرمایا کتنی بڑی بات کہہ رہے ہو کہ وہ جو ہر شے کا خالق ومالک ہے، اس نے تمہیں اولاد میں سے بیٹوں کے لیے خاص کرلیا جو افضل ہیں اور اپنے لیے بیٹیاں بنالیں جنھیں تم نہایت ردی اور باعث عار سمجھتے ہو اور بعض اوقات زندہ دفن کرنے سے بھی باز نہیں آتے، یقیناً یہ بہت بڑی گستاخی کی بات ہے۔ اگر اس نے اولاد بنانی ہی تھی تو وہ جس طرح کی چاہتا بنا لیتا، پھر وہ محض بیٹیاں ہی کیوں رکھتا ؟ (دیکھیے زمر : ٤) وہ تو بیٹے بیٹیوں سے ہے ہی پاک، کیونکہ یہ محتاجی کی دلیل ہے۔ دیکھیے سورة اخلاص کی تفسیر، سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت اور مریم کی آیات (٨٨ تا ٩٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِيْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنَاثًا ۭاِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِيْمًا 40؀ۧ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مونا ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) تو کیا پھر بھی اس بات کے قائل ہو کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور خود فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے خلاف بہت سخت بات کہتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہو،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بالْبَنِيْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنَاثًا) یہ اہل عرب کے اس عقیدے کا جواب ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یہ لوگ بیٹوں پر فخر کرتے تھے اور بیٹیوں کو اپنے لیے باعث عار سمجھتے تھے۔ ان کی اسی سوچ کی بنیاد پر ان سے سوال کیا گیا ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے عار سمجھتے ہو اسے آخر کس منطق کے مطابق اللہ سے منسوب کرتے ہو ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46. Please refer to( Ayats 57-59 and their E.Ns).

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :46 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نحل آیات ۵۷ تا ۵۹ مع حواشی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: پیچھے کئی مرتبہ گزرا ہے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، حالانکہ خود اپنے لئے بیٹیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے تھے، اور اپنے لئے ہمیشہ بیٹوں کی تمنا کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ تمہارے خیال کے مطابق تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے بیٹے دینے کے لئے چن لیا ہے اور خود بیٹیاں رکھی ہیں جو تمہارے خیال کے مطابق باپ کے لئے باعث عار ہوا کرتی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:40) افاصفکم۔ ا۔ برائے استفہام انکاری ہے ف عطف کا ہے جس کا عطف کلام مقدر افضلکم علی جنابہ پر ہے۔ اصفکم۔ اصفی یصفی اصفاء (افعال) سے ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اس نے چن لیا اس نے منتخب کرلیا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر ہے جس کا مرجع وہ لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ افاصفکم کیا (اے مشرکو جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہو اللہ نے تم کو اپنی ذات پر فضیلت دیتے ہوئے) تم کو (بیٹوں کے لئے) انتخاب کرلیا (اور اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا) ۔ یعنی ایک تو اللہ تعالیٰ کا صاحب اولاد ہونا ہی کیا کم افتراء ہے کہ مزید برآں اس کی اولاد بھی بیٹیاں قرار دیتے ہو جن کا انتساب خود اپنی جانب باعث ننگ و تحقیر سمجھتے ہو۔ اناثا۔ انثی کی جمع ہے مادہ مؤنث عورتیں۔ بیٹیاں۔ اصل میں انثی اور ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے مجازًا یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً ومن یعمل من الصلحت من ذکر او انثی (4:124) مرد یا عورت میں سے جو بھی نیک کام کرے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 جیسے فرمایا : وجعلو الملائکۃ الذین ھم عبادالرحمٰن انا شاء (زخروف 19) کہ فرشتوں کو جو اللہ کے قرب بندے ہیں مونث قرار دیتے ہیں۔2 یعنی سخت گستاخی کی بات ہے جو منہ سے نکال رہے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 40 تا 44 اصفی اس نے چن لیا، منتخب کرلیا۔ بنین بیٹے۔ اناث بیٹیاں۔ فرفنا ہم نے طرح طرح سے بیان کیا۔ نفور نفرت۔ علو بلند تر۔ لاتفقھون تم نہیں سمجھتے۔ تسبیح پاکیزگی، تسبیح۔ حلیم برداشت کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 40 تا 44 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس حقیقت کو بار بار دھرایا ہے کہ اس کائنات کا خلاق ومالک صرف ایک اللہ ہے۔ اگر زمین و آسمان میں ایک اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو نظام کائنات تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا۔ وہ اللہ اس نظام کائنات کو چلانے میں نہ کسی کا محتاج ہے اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ جس طرح دنیا کے بادشاہ اور حکمران اپنی مملکت، حکمرانی اور وراثت کے لئے اپنی اولاد، بیوی اور مددگاروں کے محتاج ہوتے ہیں وہ اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ کفار و مشرکین کو جس بات نے گمراہی میں پھنسا دیا تھا وہ ان کی یہی سوچ تھی کہ وہ اللہ کو بھی اپنے جیسا سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اللہ کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کر رکھی تھیں چناچہ جس طرح وہ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا بنا کر پیش کرتے تھے ان کی گستاخی کی حد یہ تھی کہ انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گستاخانہ انداز کا مذاق اڑاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے لئے تو بیٹے تجویز کر لئے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے لیا۔ حالانکہ اللہ بیٹے اور بیٹیوں سے بےنیاز ہے ۔ فرمایا جا رہا ہے کتنی عجیب بات ہے کہ جب ان کفار کے گھر میں کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو ان کے چہرے سیاہ پڑجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گھر میں ایک لڑکی نہیں بلکہ مصیبت آگئی ہے۔ لڑکیوں کو نہایت برا سمجھتے ہیں اور جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے تو وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا فرمایا کہ اپنے لئے تو انہوں نے بیٹے بنا رکھے ہیں اور اللہ کے لئے انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا کر پیش کیا ہے۔ فرمایا کہ انہوں نے اللہ کی شان میں بڑی گستاخانہ بات کی ہے لیکن یہ ان کی سمجھ کا ایک پھیر ہے جس کو وہ خود بھی نہیں سمجھتے۔ اگر ان کو سمجھایا جائے تو ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے وہ اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ وہ اللہ ایک ہے اگر ایک معبود کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو یہ لوگ تو وہاں بھی اپنی خواہشوں کی کمند پھینکنے سے باز نہ آتے۔ اس کے بعد اللہ نے ایک اصولی بات ارشاد فرمائی ہے کہ ساری دنیا کے انسان مل کر بھی اگر اس کی حمد وثناء نہ کریں تو وہ اس میں بھی بےنیاز ہے کیونکہ اس پوری کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی حمد و ثنا کر رہا ہے۔ عام لوگ ان کی حمد وثناء کو سمجھ نہیں سکتے لیکن زمین و آسمان، پہاڑ، دریا، سمندر، چرند، پرند، درند اور شجر و حجر ہر وقت اس کی حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز ادراک و شعور رکھتی ہے اور ہر چیز اس کی تعریف میں لگی ہوئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی جن، انسان ، درخت ، پتھر اور مٹی کا ڈھیلا ایسا نہیں ہے جو موذن کی آواز سنتا ہو اور قیامت کے دن اس کے ایمان اور نیک ہونے کی شہادت و گواہی نہ دے گا۔ (مسند امام احمد، موطا امام مالک) احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں چند کنکریاں تھیں جو اللہ کی تسبیح کر رہی تھیں اور صحابہ کرام نے بھی ان کی تسبیح کو سنا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی ہم نے (داؤد کے لئے) پہاڑوں کو تابع کردیا تھا اور وہ پہاڑ صبح و شام اس اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ یعنی یہ لوگ اللہ کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں (اور ان کے کلمہ کفر سے) پہاڑوں پر بھی خوف طاری ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تکوینی طور پر ہر چیز اللہ کی حمد و ثنا کر رہی ہے۔ لہٰذا جس طرح وہ بیوی ، بچوں کا محتاج نہیں ہے اسی طرح وہ کسی کی حمد و ثنا اور عبادت کا بھی محتاج نہیں ہے۔ وہ اللہ حی وقیوم ہے یعنی زندہ ہے اور پوری کائنات کو خود ہی سنبھال کر چلا رہا ہے اس میں وہ کسی کا محتاج نہیں اور نہ وہ اس کی حفاظت سے تھکتا ہے ۔ اسی حقیقت کو ان آیات میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے۔ کیا اللہ نے تمہیں تو بیٹوں کیلئے چن لیا ہے اور اپنے لئے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے۔ یہ ایک نہایت بدترین بات ہے۔ حالانکہ ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر وہ لوگ نصیحت حاصل کرنے کے بجائے نفرتوں کو اور بڑھا رہے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان نادانوں سے کہہ دیجیے کہ اگر ایک اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے (جیسا وہ کہتے ہیں) تو وہ عرش کے مالک کی طرف ضرور کوئی راستہ ڈھونڈ نکال لیتے۔ فرمایا کہ اس کی ذات پاک بےعیب ہے اور اس سے اللہ بہت بلندو برتر ہے جو وہ اللہ کے لئے کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ساتوں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اس کی پاکیزگی اور حمد و ثنا کر رہی ہے یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہ سمجھ سکو لیکن ہر چیز اس کی ثنا خواں ہے۔ فرمایا کہ یہ تو اللہ کا حلم و برداشت اور مغفرت و معافی کا غلبہ ہے ورنہ ان گستاخانہ باتوں پر کڑی سے کڑی سزا بھی دی جاسکتی تھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ بڑی سخت بات اس لئے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد قرار دینا، پھر اولاد بھی وہ جو اپنے لئے ناکارہ سمجھی جاوے جس سے دو نقص کا نسبت کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف لازم آیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے بلکہ اس کی ذات میں بھی دوسروں کو شریک سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے ” وحدہ لا شریک “ ہے۔ سورة اخلاص میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کو کھول کر بتلادیں کہ وہ اللہ ایک ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ اسے کسی نے جنم دیا ہے اور اس کی کوئی بھی کسی اعتبار سے برابری کرنے والا نہیں۔ سورة المائدۃ آیت ٧٥ میں فطری اور عقلی دلیل کے ساتھ عیسائیوں کو سمجھایا ہے کہ مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) ایک رسول ہی تھے۔ جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں۔ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ ہم مشرکوں کے لیے کس طرح حقیقت کھول کر بیان کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیں پھر بھی بہکے جاتے ہیں۔ سورة النحل آیت ٥٧ تا ٥٩ میں ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں کو سمجھایا کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہونے کے ساتھ غم سے بھر جاتا ہے اور وہ لوگوں میں اس بری خبر کی وجہ سے عار محسوس کرتا ہے اور یہ سوچتا ہے آیا اسے زندہ رہنے دے یا زمین میں دھنسا دے ؟ یہاں سوالیہ انداز میں فرمایا ہے کہ کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے بیٹے منتخب کیے ہیں اور اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں منتخب کیا ہے ؟ درحقیقت یہ بہت ہی گناہ کی بات ہے جو تم کہتے ہو۔ سورة مریم آیت ٨٨ تا ٩٢ میں اس جرم کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وہ کہتے ہیں : ” الرحمن “ کی اولاد ہے یہ اتنی بری بات کہہ رہے ہیں قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ سرکے بل نیچے گرپڑیں۔ ربِّ رحمٰن کو کسی طرح لائق نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے۔ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس حد تک گناہ قرار دیا ہے کہ جو شخص یا فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ : ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں۔ نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی میری برابری کرنے والا نہیں ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں میری نہ بیوی ہے نہ اولاد۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے۔ ٢۔ کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا بدترین گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد سے مبرا اور پاک ہے : ١۔ کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹے دئیے ہیں اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے ؟ یہ بڑی نامعقول بات ہے۔ (بنی اسرائیل : ٤٠) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے وہ اس سے پاک ہے۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ انہوں نے کہا ” الرحمن “ کی اولاد ہے وہ اس سے پاک ہے۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی اولاد نہیں ہے نہ اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ (الجن : ٣) ٦۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور بےنیاز ہے۔ (یونس : ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٧٢١ ایک نظر میں۔ دوسرے سبق کا آغاز و انجام عقیدہ توحید کے بیان اور رد شرک کے مضمون کے ساتھ ہوا ، اور اس آغاز و انجام کے درمیان بیشمار احکام امرو ونہی اور بیشمار آداب و اخلاق بیان ہوئے جو سب کے سب عقیدہ توحید کے ساتھ مربوط تھے اور اسلامی نظریہ حیات کے تقاضے تھے۔ اس سبق کا آغاز و انجام بھی شرک کی ایک مخصوص قسم کے رد کے ساتھ ہوتا ہے ، یعنی یہ کہ اللہ کا کوئی بیٹا اور شریک نہیں ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ اللہ کے لیے بیٹا ہونا ایک ایسا نظریہ ہے جس کی کمزوری اور لچرپن بالکل واضح ہے۔ کیونکہ یہ پوری کائنات اللہ وحدہ کی مخلوق ہے اور سب چیزیں اس ثنا خواں اور تسبیح گویا ہیں۔ وان من شئی الا یسبح بحمدہ (٧١ : ٤٤) ” جو چیز بھی ہے وہ اس کی تعریف کے ساتھ اس کی ثنا خواں ہے “۔ اور تمام اشیاء کا انجام ایک ہے اور سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور جو چیزیں بھی زمین و آسمان میں ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ اور اللہ وحدہ اپنی مخلوقات کے اندر جو تصرفات بھی کرتا ہے ، کوئی اس کے معامالت میں اس سے باز پرس نہیں کرسکتا۔ ان یشاء یرحمکم او ان یشاء یعذبکم (٧١ : ٤٥) ” اگر چاہے تو تم پر رحم کردے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے “۔ اس سبق کے درمیان بتایا جاتا ہے کہ شرکیہ عقائد کمزور اور غیر معقول ہیں اور ذات باری تعالیٰ وحدہ ، حاکم ، مطاع ، ضاحب قدرت ، متصرف اور تمام معاملات کائنات میں خود مختار ہے۔ اور اسے کوئی بھی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ دنیاوی امور میں اس کے ہاتھ میں ہیں ، اخروی بھی اس کے ہاتھ میں ہیں ، ظاہری بھی اور خفیہ بھی۔ اور یہ پوری کائنات اللہ کی مطیع فرمان ہے ، اس کی طرف متوجہ ہے اور اس کی تعریف اور تسبیح کرتی ہے۔ اور اس کام میں انسان ، حیوان ، چرند ، پرند اور تمام اشیاء شامل ہیں۔ یہ استفہام انکاری ہے ، اور یہ انداز اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب مخاطب کو یہ بتانا مقصو ہو کہ تمہاری یہ حرکت بہت ہی بری ہے۔ تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ حالانکہ اللہ بیوی ، اولاد ، مثلا اور مثال سے پاک ہے۔ اور اس کا کوئی شبیہ او کوئی شریک نہیں ہے۔ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے لئے تو لڑکیوں کو معیوب سمجھتے ہیں اور اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور خود رزق کے خوف ور عار لاحق ہونے کی وہج سے بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں اور اس کے باوجود فرشتوں کو لڑکیاں قرار دیتے ہیں اور انہیں اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ تو اگر لڑکے اور لڑکیاں دینے والا اللہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں کو لڑکے دے اور اپنے لئے لڑکیاں رکھے جو درجے میں لڑکوں سے کم ہیں۔ یہ ستدلال محض اس کے رواج کے مطابق کیا گیا ، کیونکہ ان کے ہاں لڑکوں کو برا سمجھا جاتا تھا اور لڑکوں کو اچھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ کود ان کے تصورات کے مطابق بھی۔ ان کا قول کمزور ہے۔ ورنہ بات درحقیقت اپنی اصل ہی سے غلط تھی۔ انکم لتقولون قولا عظیما (٧١ : ٠٤) ” بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبان سے نکالتے ہو “۔ یہ برائی کے اعتبار سے بہت ہی بڑی بات ہے اور یہ اللہ کی شان میں بری جسارت ہے اور نہایت ہی گندی بات ہے اور یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور اسلامی عقائد ، قرآنی آیات اور حقائق کے ساتھ متصادم ہے اور ناقابل یقین و تصدیق ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین عرب جو طرح طرح کے شرک میں مبتلا تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے اور اولاد بھی کیا تجویز کی ؟ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا دیا ! یہ سب کچھ انہوں نے شیطان کے سمجھانے سے عقیدہ بنایا جس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔ اول تو یہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنا ہی ظلم ہے وہ اولاد سے پاک ہے اولاد اس کی شایان شان نہیں، پھر اولاد بھی تجویز کی تو بیٹیاں تجویز کیں اپنے لیے انہیں لڑکیاں گوارا نہ تھیں بیٹی پیدا ہوجاتی تو اسے زندہ دفن کردیتے تھے اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرنا جو خود انہیں بھی ناپسند ہیں انتہائی بےعقلی کی بات ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں ان کی حماقت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا اللہ نے تمہارے لیے بیٹوں کو مخصوص کردیا اور فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنالیا ؟ (اِنَّکُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا) (بلاشبہ تم بڑی بات کہتے ہو) یعنی گناہ کے اعتبار سے یہ بہت بڑی بات ہے اور بہت ہی زیادہ بری ہے، اس کی شناعت اور قباحت بیان کرتے ہوئے سورة مریم میں فرمایا (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار کرلی ہے تم نے یہ ایسی سخت حرکت کی ہے کہ اس کے سبب کچھ بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جائیں اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں اور اس بات سے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ یہاں سے لے کر ” فلا یستطیعون سبیلا “ (رکوع 5) تک زجریں ہیں ان مشرکین پر جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو خدا کے یہاں شفیع غالب سمجھتے تھے۔ مشرکین خود تو بیٹیوں سے نفرت کرتے تھے مگر فرط تعنت وعناد کی وجہ سے اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے تھے وہ فرشتوں کو خدا کے یہاں شفیع غالب سمجھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح بیٹیاں باپ کو بہت محبوب ہوتی ہیں اسی طرح فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اور وہ ان کی سفارش رد نہیں فرماتا۔ فرمایا اے مشرکین تم یہ بہت ہی بری بات کہتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

40 اے منکرو کیا تمہارے پروردگار نے تم کو بیٹوں کے لئے خاص کرلیا ہے اور بیٹوں کے لئے چن لیا ہے اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا ہے بلاشبہ تم بہت بھاری اور بڑی سخت بات کہتے ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے لئے اول تو اولاد اور پھر اولاد بھی بیٹیاں جن کو خود اپنے لئے بھی پسند نہ کرو اس سے زیادہ اور بری بات کیا ہوسکتی ہوے۔ عرب کے بعض قبائل یہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں جن کو اس نے پردہ میں رکھ چھوڑا ہے۔ ” معاذ اللہ “