Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 49

سورة بنی اسراءیل

وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا ﴿۴۹﴾

And they say, "When we are bones and crumbled particles, will we [truly] be resurrected as a new creation?"

انہوں نے کہا کہ کیاجب ہم ہڈیاں اور ( مٹی ہو کر ) ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refutation of Those Who do not believe in Life after Death Allah tells us about the disbelievers who think it very unlikely that the Resurrection will happen; وَقَالُواْ أَيِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا ... And they say: When we are bones and fragments. meaning earth. This was the view of Mujahid. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas: it means dust. ... أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا should we really be resurrected (to be) a new creation! meaning, on the Day of Resurrection after we have disintegrated and become nothing, and have been forgotten. Allah tells us about them elsewhere: يَقُولُونَ أَءِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِى الْحَـفِرَةِ أَءِذَا كُنَّا عِظَـماً نَّخِرَةً قَالُواْ تِلْكَ إِذاً كَرَّةٌ خَـسِرَةٌ They say: "Shall we indeed be returned to (our) former state of life even after we are crumbled bones!" They say: "It would in that case, be a return with loss!" (79:10-12) And, وَضَرَبَ لَنَا مَثَلً وَنَسِىَ خَلْقَهُ And he puts forth for Us a parable, and forgets his own creation. until the end of two Ayat. (36:78-79) Allah commands His Messenger to respond to them, so He says: قُل كُونُواْ حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا

سب دوبارہ پیدا ہوں گے کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے ، غبار بن جائیں گے ، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے ۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے ؟ سورہ نازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے کہ کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے ؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے ۔ سورہ یاسین میں ہے کہ یہ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے بیٹھ گیا اور اپنی پیدائش کو فراموش کر گیا ۔ الخ پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہا بن جاؤ ۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلا پہاڑ یا زمین یا آیمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں جو چاہو ہو جاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور ۔ حدیث میں ہے کہ بھیڑ یے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے ہاں پھر اسے وہیں ذبح کر دیا جائے گا اور منادی ہو جائے گی کہ اے جنتیو اب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیو اب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں یا پتھر اور لوہا ہو جائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہو جائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے ؟ ان کے اس سوال اور بےجا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے ؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ ۔ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے ، ، بد عقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ اچھایہ ہوگا کب ؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کر دو ۔ بے ایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں ۔ ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی ، تم اس کے لئے انتظار کر لو ، غلفت نہ برتو ۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو ۔ اللہ کی ایک آواز کے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہوؤ گے ایک آنکھ جھپکانے کی جیر بھی تو نہ لگے گی ۔ اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہو جائے گا ۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہو جاؤ گے ۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو ۔ حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر ان کی والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہو گی ۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے لا الہ الا للہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ سورہ فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاء اللہ ۔ اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام کوئی کہے گا دس دن کوئی کہے گا ایک دن کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی ۔ سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی ۔ اور اس پر قسمیں کھائیں گے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یعنی آپ کے مسحور ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہو کہ && جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے، ہماری ہڈیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ تب بھی ہمیں زندہ کرکے از سر نو اٹھایا جائے گا && بھلا اس کے سحر زدہ ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔ ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ۔۔ : ” وَّرُفَاتًا “ ” رَفَتَ یَرْفُتُ “ (ن، ض) سے ” فُتَاتًا “ کی طرح ہے، وہ چیز جو ریزہ ریزہ کرکے مٹی کی طرح کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بعد قیامت پر کفار کے اعتراض کا ذکر کرکے اس کا جواب دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور (ہڈیوں کا بھی) چورا (یعنی ریزہ ریزہ) ہوجاویں گے تو کیا (اس کے بعد قیامت میں) ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جاویں گے (یعنی اول تو مر کر زندہ ہونا ہی مشکل ہے کہ جسم میں زندگی کی صلاحیت نہیں رہی پھر جبکہ وہ جسم بھی ریزہ ریزہ ہو کر اس کے اجزاء منتشر ہوجاویں تو اس کے زندہ ہونے کو کون مان سکتا ہے) آپ (ان کے جواب میں) فرما دیجئے کہ (تم تو ہڈیوں ہی کی حیات کو بعید سمجھتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ) تم پتھر یا لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں (زندگی کی صلاحیت سے) بہت ہی بعید ہو (پھر دیکھو کہ زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں اور پتھر اور لوہے کو بعید از حیات قرار دینا اس لئے ظاہر ہے کہ ان میں کسی وقت بھی حیات حیوانی نہیں آتی بخلاف ہڈیوں کے کہ ان میں پہلے اس وقت تک حیات رہ چکی ہے تو جب پتھر لوہے کا زندہ کرنا اللہ کے لئے مشکل نہیں تو اعضائے انسانی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا مشکل ہوگا اور آیت میں لفظ کونوا جو صیغہ امر ہے اس سے مراد یہاں امر نہیں بلکہ ایک تعلیق اور شرط ہے کہ اگر تم بالفرض پتھر اور لوہا بھی ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہیں دوبارہ زندہ کردینے پر قادر ہے) اس پر وہ پوچھیں گے کہ وہ کون ہے جو دوبارہ ہم کو زندہ کرے گا آپ فرما دیجئے کہ وہ وہ ہے جس نے تم کو اول بار میں پیدا کیا تھا (اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے دو چیزیں درکار ہیں ایک مادہ اور محل میں وجود کی قابلیت دوسرے اس کو وجود میں لانے کے لئے قوت فاعلہ پہلا سوال محل کی قابلیت کے متعلق تھا کہ وہ مرنے کے بعد زندگی کے قابل نہیں رہا اس کا جواب دے کر محل کی قابلیت ثابت کردی گئی تو یہ دوسرا سوال فاعلیت کے متعلق کیا گیا کہ ایسا کون سا قوت وقدرت والا ہے جو اپنی قوت فاعلیت سے یہ عجیب کام کرسکے اس کے جواب میں فرما دیا گیا کہ جس نے پہلے تمہیں ایسے مادے سے پیدا کیا تھا جس میں قابلیت حیات کا کسی کو گمان بھی نہ تھا تو اس کو دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے اور جب قابل و فاعل دونوں کا سوال حل ہوگیا تو اب یہ لوگ زمانہ وقوع کی تحقیق کے لئے) آپ کے آگے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ (اچھا یہ بتلائیے کہ) یہ (زندہ ہونا) کب ہوگا آپ فرما دیجئے کہ عجب نہیں کہ یہ قریب ہی آ پہونچا ہو (آگے ان حالات کا بیان ہے جو اس نئی زندگی کے وقت پیش آویں گے) یہ اس روز ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم کو (زندہ کرنے اور میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے فرشتہ کے ذریعہ) پکارے گا اور تم (باضطرار) اس کی حمد کرتے ہوئے حکم کی تعمیل کرو گے (یعنی زندہ بھی ہوجاؤ گے اور میدان حشر میں جمع بھی ہوجاؤ گے) اور (اس روز کی ہول اور ہیبت دیکھ کر تمہارا یہ حال ہوجاوے گا کہ دنیا کی ساری عمر اور قبر میں رہنے کی ساری مدت کی نسبت) تم یہ خیال کرو گے کہ تم بہت ہی کم (مدت دنیا میں) رہے تھے (کیونکہ دنیا میں اور قبر میں آج کی ہولناکی کے مقابلہ میں پھر کچھ نہ کچھ راحت تھی اور راحت کا زمانہ انسان کو مصیبت پڑنے کے وقت بہت مختصر معلوم ہوا کرتا ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا 49؀ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رفت رَفَتُّ الشیء أَرْفُتُهُ رَفْتاً : فَتَّتُّهُ ، والرُّفَاتُ والْفُتَاتُ : ما تكسّر وتفرّق من التّبن ونحوه، قال تعالی: وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء/ 49] ، واستعیر الرُّفَاتُ للحبل المنقطع قطعة قطعة . ( ر ف ت ) الرفت یہ بات نصر کا مصدر ہے اور رفت الشئی کے معنی کسی چیز کو چورا چورا کردینے کے ہیں اور جو بھوسہ وغیرہ ریزہ ریزہ ہو کر بھکرجائے اسے رفات کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء/ 49] اور کہا کرتے کہ جب ہم گل سٹر کر ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اور استعارہ کے طور پر ( رفات اس رسی کو بھی کہتے ہیں ۔ جو پوسیدہ ہوکر ٹکڑے ہوگئ ہو ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے جد الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم : أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان «1» ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث . ( ج د د ) الجد ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) اور نضر اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر پرانی ہڈیاں اور ان کا بھی چورا ہوجائیں گے تو ہم پھر زندہ ہوں گے اور مرنے کے بعد پھر از ہمارے اندر روح پھونکی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا) یہ لوگ آپ سے بڑی حیرت سے سوال کرتے ہیں کہ آپ جو انسانوں کی دوبارہ زندگی کی بات کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے ؟ جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی اور گوشت گل سڑ جائے گا تو اس کے بعد ہمیں پھر سے نئی زندگی کیسے مل سکتی ہے ؟ گویا ان کی سوچ کے مطابق ایسا ہونا بالکل محال اور ناممکن ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:49) رفاتا۔ بوسیدہ، گلا ہوا۔ چورا چورا ۔ جو چیز ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے اسے رفات کہا جاتا ہے۔ رفت مصدر (باب نصر) ۔ مبعوثون۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ بعث مصدر (باب فتح) جی اٹھنا۔ زندہ کرنا۔ اٹھ کھڑا ہونا۔ مردوں کے لئے اس کا استعمال بمعنی جی اٹھنا۔ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کرنا اور حشر ہونا ہے۔ مثلاً والموتی یبعثہم اللہ (6:36) اور مردوں کو اللہ ( حشر کے دن قبروں سے زندہ کر کے) اٹھا کھڑا کرے گا۔ اور جب اس استعمال رسولوں کے لئے ہوگا تو اس کے معنی بھیجنے کے ہوں گے جیسے ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا (16:36) اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا۔ مبعوثون دوبارہ زندہ کئے جانے والے۔ قبروں سے اٹھائے جانے والے۔ اٹھا کر کھڑا کئے جانے والے۔ مما یکبر فی صدورکم (یا تم بن جائو یا ہوجائو ایسی خلقت میں سے ) جو تمہارے خیال میں بہت بڑی ہے یعنی جس میں پتھر اور لوہے سے بھی حیات قبول کرنے کی صلاحیت کم ہو۔ یا وہ جسم وحجم میں تمہارے خیال میں اس قدر بڑی ہو کہ تمہارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لئے اس کو دوبارہ زندہ کرنا محال ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 49 تا 52 عظام ہڈیاں۔ رفات ریزہ ریزہ ہوجانا۔ کونوا ہوجاؤ۔ حجارۃ پتھر۔ حدید لوہا۔ یکبر بڑا ہو۔ یعید لوٹائے گا۔ فطر کم جس نے تمہیں پیدا کیا۔ اول مرۃ پہلی مرتبہ۔ اول مرۃ پہلی مرتبہ۔ سینغضون ہلائیں گے۔ روس (راس) سر۔ متی ھو وہ کب ہوگا۔ ؟ ۔ تستجیبون تم جواب دو گے۔ تظنون تم گمان کرو گے۔ ان لبثتم تم نہیں ٹھہرے۔ قلیل تھوڑا۔ تشریح : آیت نمبر 49 تا 52 کفار مکہ اور مشرکین اللہ کے سچے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی نگاہوں میں کم حیثیت ظاہر کرنے کے لئے طرح طرح کے سوالات اور آپ کی ذات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ کبھی کہتے کہ آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسی جادو کے زیر اثر کر رہے ہیں۔ کبھی آپ کو جادوگر، شاعر، کاہن اور مجنوں تک کہہ دیتے تھے۔ کبھی کہتے کہ بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ جب انسان مرنے کے بعد چورا چورا ہوجائے گا، اس کا وجود تک مٹ جائے گا وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہوگا۔ ۔ متعدد مقامات پر کفار کے اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نقل کر کے ایک ہی جواب دیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے صاف الفاظ میں کہہ دیجیے کہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جب انسان ذروں کی شکل میں بکھر جائے گا تو ان ذروں کو جمع کر کے پھر سے انسان کو اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ فرمایا کہ یہ تو انسانی وجود کے ذروں کے بکھرنے کی بات ہے اگر انسانی ذرے لوھا اور پتھر بھی بن جائیں گے تو اللہ ان ہی چیزوں کے ذرات سے انسان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا کیونکہ یہ بات اس اللہ کے لئے ناممکن کیسے ہو سکتی ہے جس نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور مٹی کے ذرات کو جمع کر کے اس کو جیتا جاگتا انسان بنا دیا تھا۔ کسی چیز کو پہلی مرتبہ پیدا کرنا اور بنانا مشکل ہوتا ہے اسی کو دوبارہ بنانا مشکل اور ناممکن نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ اے نبی ! یہ لوگ اس حقیقت کو اچھی طرح جان لینے کے باوجود مذاق اڑانے کیلئے سر کو ہلا ہلا کر کہیں گے کہ اچھا ایسا کب ممکن ہے ؟ اچھا تو اگر یہ ممکن ہے تو پھر یہ واقعہ کب ہوگا۔ ؟ فرمایا کہ ان سے کہہ دیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ اس حقیقت پر سے پردہ اٹھائیں گے وہ وقت دور نہیں ہے جب سارے انسان اللہ کے کمالات اور شان و عظمت کے گن گاتے ہوئے اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے اور ان کی زبانوں پر یہ جملہ ہوگا۔ کہ واقعی دنیا میں جو مہلت اور وقت دیا گیا تھا وہ بہت ہی کم تھا کاش ہم اس وقت کا فائدہ اٹھا سکتے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ کفار و مشرکین اسی طرح مذاق اڑاتے رہیں گے مگر آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ یہ حقیقت اور سچائی بہت جلد ظاہر ہو جائی گی اور ان میں سے ہر شخص اللہ کی حمد و ثنا خوبیاں اور کمالات بیان کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید سے دوری اور عقیدہ توحید سے انحراف کا منطقی نتیجہ آخرت کا انکار ہوتا ہے۔ جس بناء پر مکہ کے کفار مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے تھے۔ آخرت کے منکرین کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ جب ہم مر کر بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے۔ تو پھر ہمیں کون از سر نو پیدا کرے گا ؟ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر آخرت کے منکرین کا عقیدہ یوں بیان کیا گیا ہے۔ کیا انسان غور نہیں کرتا ؟ کہ ہم نے اس کو ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ بڑی بےباکی کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے مختلف قسم کی باتیں اور مثالیں بیان کرتا ہے۔ وہ اپنی پیدائش کو بھول کر کہتا ہے کہ جب ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو کون انہیں زندہ کرے گا ؟ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انھیں فرمائیں کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہی سب کو جاننے والا، پیدا کرنے والا ہے۔ (یٰس : ٧٧ تا ٧٩) سورۃ القیامۃ کی آیت ٣٤ تا ٤٠ میں انسان کی اس سوچ اور رویہ پر یوں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ” اے انسان ! افسوس ہے تجھ پر افسوس، پھر تجھ پر افسوس کیا جاتا ہے۔ اے انسان ! کیا تو سمجھتا ہے ؟ کہ تجھے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا تو رحم میں داخل ہونے والا منی کا ایک قطرہ نہ تھا ؟ پھر اللہ نے تجھے لوتھڑا بنایا۔ پھر اعضاء درست کیے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی قسمیں بنائیں۔ کیا اس خالق کو یہ قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے۔ “ ان دلائل کی بنیاد پر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی اور چیز۔ جس کا خیال تمہارے دلوں میں آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھلا ہمیں کون اٹھائے گا ؟ انہیں فرما دیں۔ وہی تمہیں اٹھائے گا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ یہ نخوت وتکبر کی وجہ سے سر ہلا کر پوچھتے ہیں کہ کب ایسا ہوگا ؟ انہیں فرما دیں کہ عنقریب یہ ہو کر رہے گا۔ جس دن تمہیں اللہ تعالیٰ آواز دے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے حاضر ہو گے اور اس وقت تم خیال کرو گے کہ دنیا میں بہت ہی تھوڑ اعرصہ رہے تھے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اور دبدبہ دیکھ کر آخرت کے منکروں کو نہ صرف اپنی لایعنی باتیں اور جھوٹے دلائل بھول جائیں گے۔ بلکہ انہیں یہ بھی یاد نہ ہوگا کہ وہ کتنی مدت تک دنیا میں ٹھہرے رہے تھے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد زندہ ہونے کے دلائل : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ : ٥٥) ٣۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٤۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر وہ اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ٥۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٦۔ کیا اللہ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بعثت بعد الموت کا مسئلہ رسول اللہ اور مشرکین مکہ کے درمیان بار بار زیر بحث آتا تھا۔ قرآن کریم نے بکثرت ان مباحث کو نقل کیا ہے ، حالانکہ اس کائنات اور موت وحیات کی حقیقت پر غوروفکر کرنے والا ہر آدمی بڑی آسانی کے ساتھ اسے سمجھ سکتا ہے۔ حشر ونشر کی نوعیت کو بسہولت سمجھتا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے اس پر بار بار روشنی ڈالی ہے ، لیکن جس سادگی اور سلامت اور جس وضاحت کے ساتھ قرآن نے اس مسئلہ کو سمجھایا ، یہ لوگ اسے نہ سمجھ سکے۔ لہٰذا وہ یہی کہتے رہے کہ مرمٹنے کے بعد وہ کیسے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ وقالوء اذا کنا عظاما ورفاتاء انا لمبعوثون خلقا جدیدا (٧١ : ٩٤) ” وہ کہتے ہیں کہ جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے ؟ “ وہ یہ باتیں اس لئے کرتے تھ کہ وہ حیات کی اصل حقیقت کے بارے میں سوچتے ہی نہ تھے کہ وہ ایک وقت بالکل نہ تھے اور اللہ انہیں وجود میں لایا۔ اور یہ کہ ابتدائی تخلیق مشکل ہوتی ہے جبکہ دوربارہ تخلیق کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی وہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی قدرت لامحدود ہے ، اس کے سامنے مشکل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ کی تخلیق کا آلہ اور سبب فقط کن فیکون ہے۔ لہٰذا کوئی چیز سہل یا دشوار انسانوں کے نقطہ نظر سے تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے نقطہ نظر سے نہیں۔ وہاں تو صرف ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے اس تعجب کو یوں رد کردیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین بعث کا تعجب کہ ریزہ ریزہ ہو کر کیسے زندہ ہوں گے، ان کے تعجب کا جواب کہ جس نے پہلی بار پیدا کیا وہی دوبارہ زندہ فرمائے گا گزشتہ آیات میں مشرکین کے انکار وحی کا تذکرہ تھا اور ان آیات میں ان کے انکار بعث کا تذکرہ ہے۔ جب کفار کے سامنے قیامت قائم ہونے اور دوبارہ زندہ ہونے اور قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونے اور پیشی اور حساب قائم ہونے کی بات سامنے آئی تو اس کی تکذیب کرنے لگے اور طرح طرح سے حجتیں نکالنے لگے انہوں نے کٹ حجتی کرتے ہوئے یوں بھی کہا کہ جب قبروں میں صرف ہڈیاں ہی رہ جائیں گے اور چورا چورا ہوچکی ہونگی تو کیا ہم دوبارہ نئے سرے سے زندہ ہونگے اور قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، ان کی یہ بات اوپر (وَ قَالُوْٓا ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا) میں ذکر فرمائی اور اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا بن جاؤ یا کوئی بھی ایسی چیز بن جاؤ جس میں تمہارے نزدیک زندگی آجانا بہت ہی بعید ہو کچھ بھی بن جاؤ موت کے بعد ضرور اٹھائے جاؤ گے ہڈیاں تو پھر بھی پہلے باحیات تھیں جسے تسلیم کرتے ہو پتھر اور لوہے میں تو تمہارے نزدیک حیات بالکل ہی نہیں اور نہ انہیں قابل حیات سمجھتے ہیں تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان سب چیزوں میں زندگی آسکتی ہے۔ (فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا) مذکورہ چیزوں کے زندہ ہونے کی قابلیت کی بات سن کر وہ کہیں گے کہ ہمیں دوبارہ کون زندہ کرے گا اس کے جواب میں فرما دیا۔ (قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) (آپ فرما دیجیے کہ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا فرمایا تھا ہی دوبارہ زندہ فرما دے گا) اس نے تمہیں منی کے نطفہ سے پیدا فرمایا تھا جسے تم مانتے ہو تو اب اس کی قدرت کا کیوں انکار کرتے ہو جس نے پہلی دفعہ پیدا فرمایا وہ دوبارہ پیدا فرمانے پر بھی قادر ہے بلکہ انسانوں کی سمجھ کے اعتبار سے سوچا جائے تو دوبارہ پیدا فرمانا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے آسان ہونا چاہیے یہ کیسی بھونڈی سمجھ کی بات کرتے ہو کہ جس نے پہلے پیدا فرمایا اور وہ دوبارہ پیدا نہ کرسکے۔ قال تعالیٰ (وَھُوَ الَّذِیْ یَبْدَءُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْہِ ) (سورۃ الروم) سورة یٰسٓ شریف میں فرمایا (وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ) (اور انسان نے ہماری شان میں مثال بیان کردی اور اپنی شان مخلوقیت کو بھول گیا وہ کہنے لگا کہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جب کہ وہ بوسیدہ ہوچکی ہونگی) اس کے جواب میں فرمایا (قُلْ یُحْیْیْہَا الَّذِیْ اَنْشَاَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ) (آپ فرما دیجیے کہ انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار زندہ فرمایا تھا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ابتداً پیدا کرنے پر بھی ہے اور دوبارہ پیدا کرنے پر بھی ہے جب یہ بات سامنے آئی تو امکان وقوع کے انکار کی کوئی وجہ نہ رہی تو اب دوسری طرح انکار کرنے لگے اس کو فرمایا (فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُوْسَھُمْ ) عنقریب وہ انکار کرتے ہوئے اپنے سروں کو ہلائیں گے اور تکذیب اور استہزاء کے طور پر کہیں گے کہ اس کا وقوع کب ہوگا یعنی قیامت کب آئے گی ؟ مطلب یہ ہے کہ ہماری سمجھ میں تو یہ بات آتی نہیں کہ دوبارہ زندہ ہونگے اور حشر نشر ہوگا اگر ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا، یہ بھی انسان کی جاہلانہ باتوں میں سے ہے کہ اگر سچی خبر کے وقوع میں دیر لگ جائے تو اس دیر لگنے کو امتناع پر محمول کرلیتا ہے اور یوں سمجھتا ہے کہ اب تک اس کا وقوع نہیں ہوا تو آئندہ کبھی بھی نہیں ہوگا، قرآن مجید میں کئی جگہ منکرین کا انکار نقل کیا ہے اور فرمایا ہے (وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) (اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو) سورة سبا میں ان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا (قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ تمہارے لیے خاص دن کا وعدہ ہے کہ اس سے نہ ایک ساعت پیچھے ہٹ سکتے ہو نہ آگے بڑھ سکتے ہو) یعنی قیامت اپنے وقت پر آجائے گی۔ دیر لگنا دلیل اس بات کی نہیں کہ آنی ہی نہیں۔ یہاں سورة اسراء میں فرمایا (قُلْ عَسآی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا) (آپ فرما دیجیے کہ وہ عنقریب ہوجانے ہی والا ہے) یعنی وقوع قیامت میں گو بظاہر دیر لگ رہی ہے لیکن چونکہ اس کو آنا ہے اس کا آنا یقینی ہے اس لیے وہ قریب ہی ہے جو گزر گیا وہ دور ہوگیا اور جو آنے والا ہے وہ قریب ہے، سورة انعام میں فرمایا (اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) (بلاشبہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ ) آخر میں فرمایا (یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ ) یعنی قیامت کا وقوع اس دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ تمہیں بلائے الحمد للہ کہتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل کرو گے (یعنی زندہ بھی ہوگے اور میدان حشر میں بھی حاضر ہوگے اور حاضر ہونا ہی پڑے گا اور اللہ تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی تعریف بھی بیان کرو گے) صاحب روح المعانی نے عبد بن حمید سے نقل کیا ہے کہ جب قبروں سے نکلیں گے تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ پڑھتے ہوئے نکلیں گے اور کافروں کے منہ سے بھی یہی کلمات نکلیں گے اس وقت ان کے پڑھنے سے ان کو کوئی نفع نہ ہوگا۔ (وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا) (اور یوں خیال کرو گے کہ تم بہت ہی کم ٹھہرے ہو) یعنی تم خیال کرو گے کہ قبر میں اور دنیا میں زیادہ دن نہیں رہے قیامت کا دن ہولناک ہوگا اور سابق زندگی کو بھلا دے گا اور یوں سمجھیں گے کہ بس اس سے پہلے تھوڑی سی زندگی گزاری ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ یہ شکوی ہے۔ آپ کو ساحر و شاعر اور جنون و مسحور کہنا اور آپ کے لائے ہوئے پیغام توحید کا انکار کرنا اور شرک کرنا تو قابل تعجب تھا ہی یہ لوگ تو حشر و نشر کا بھی انکار کرتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے تو کیا پھر ہمیں دوبارہ پیدا کرلیا جائیگا۔ یہ تو بالکل ہی ناممکن بات ہے۔ ” قل کونوا حجارۃ الخ “ جواب شکوی ہے یعنی مرنے کے بعد اگر تم پتھر یا لوہا بن جاؤ یا ان سے بھی کوئی سخت چیز بن جاؤ جس میں جان ڈالنا تمہیں بہت ہی مشکل نظر آتا ہے تو بھی اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ کرلے گا اس کے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کرلیا اس کے لیے دوبارہ پیدا کرنا کونسا دشوار ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 اور یہ دین حق کے منکر کہتے ہیں کہ ہم جب مرنے کے بعد ہڈیاں اور ہڈیوں کا بھی چورا اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم از سر نو زندہ کر کے اٹھائیں جائیں گے۔ یعنی دوسری بار قیامت میں زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں۔