Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 51

سورة بنی اسراءیل

اَوۡ خَلۡقًا مِّمَّا یَکۡبُرُ فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا ؕ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۚ فَسَیُنۡغِضُوۡنَ اِلَیۡکَ رُءُوۡسَہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہُوَ ؕ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَرِیۡبًا ﴿۵۱﴾

Or [any] creation of that which is great within your breasts." And they will say, "Who will restore us?" Say, "He who brought you forth the first time." Then they will nod their heads toward you and say, "When is that?" Say, "Perhaps it will be soon -

یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو ، پھر وہ یہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے؟ جواب دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا ، اس پر وہ اپنے سر ہلا ہلا کر آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وہ ( ساعت ) قریب ہی آن لگی ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ... Or some created thing that is yet greater (or harder) in your breasts. Ibn Ishaq narrated from Ibn Abi Najih from Mujahid: "I asked Ibn Abbas about that, and he said: `This is death."' Atiyah reported that Ibn Umar explained of this Ayah: "If you were dead I would still resurrect you." This was also the view of Sa`id bin Jubayr, Abu Salih, Al-Hasan, Qatadah, Ad-Dahhak and others. This means that if you were to assume that you would become dead, which is the opposite of living, Allah will resurrect you when He wills, for nothing can stop Him when He wills a thing. Mujahid said: "This means the heavens, earth and mountains." According to another report, "Whatever you want to be, go ahead, Allah will still resurrect you after you die." ... فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ... Then, they will say: "Who shall bring us back (to life)!" meaning, who will resurrect us if we are stones or iron or some other strong created thing! ... قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ... Say: "He Who created you first!" meaning, He Who created you when you were nothing, then you became human beings, walking about. He is able to create you anew, no matter what you have become. وَهُوَ الَّذِى يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ And He it is Who originates the creation, then He will repeat it; and this is easier for Him. (30:27) ... فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُوُوسَهُمْ ... Then, they will shake their heads at you, Ibn Abbas and Qatadah said, "They will move their heads in a gesture of mockery." This view expressed by Ibn Abbas and Qatadah is; what the Arabs understand from the language, because the word used Fasayunghidun indicates an up-and-down movement Nughad. A word derived from the same root, Naghd, is used to refer to the young of the ostrich, because when it walks, it walks quickly and moves its head. The same word is used to describe a tooth when it becomes loose and is detached from its place. ... وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ ... and say: "When will that be!" This shows that they thought it very unlikely that it would happen, as Allah says: وَيَقُولُونَ مَتَى هَـذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ And they say: "When will this promise (i.e. Resurrection) be fulfilled, if you are truthful!" (36:48) يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِهَا Those who believe not therein seek to hasten it (the Hour). (42:18) ... قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيبًا Say: "Perhaps it is near!" meaning, beware of it, for it is at hand and will no doubt come to you, and what will be will be.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یعنی اس سے بھی زیادہ سخت چیز، جو تمہارے علم میں ہو، وہ بن جاؤ اور پھر پوچھو کہ کون زندہ کرے گا ؟ 51۔ 2 انغض۔ ینغض کے معنی ہیں سر ہلانا۔ یعنی استہزاء کے طور پر سر ہلا کر وہ کہیں گے کہ یہ دوبارہ زندگی کب ہوگی ؟ 51۔ 3 قریب کا مطلب ہے، ہونے والی چیز کُلُّ مَا ھُوَ آتٍ فَھُّوَ قَرِیْب ہر وقوع پذیر ہونے والی چیز قریب ہے ' یعنی قیامت کا وقوع یقینی اور ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] یعنی تمہیں یہ خیال ہے کہ ہماری ہڈیاں گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائیں گی تو پھر کیسے پیدا ہوں گے مگر مٹی تو پھر بھی ایک ایسی چیز ہے جو مسام دار ہے اور پانی اور ہوا اس کے اندر داخل ہوسکتے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری عناصر ہیں اس سے ہر قسم کی نباتات بھی اگتی ہے لیکن اگر تم کوئی سخت چیز بن جاؤ جیسے پتھر کہ جس کے اندر پانی یا ہوا داخل نہیں ہوسکتے اور اس کے اجزاء اور ذرات مٹی کی نسبت آپس میں بہت زیادہ جڑے ہوئے اور پیوست ہوتے ہیں یا پتھر سے بھی سخت چیز مثلاً لوہا بن جاؤ یا اس سے بھی کوئی سخت چیز جو تمہارے دل میں آسکتی ہو، وہ بن جاؤ تب بھی اللہ تمہیں اس سخت چیز سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ [٦٢] بعث بعد الموت پر کفار کے اعتراضات :۔ پھر ان مشرکوں کا دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ کون سی ہستی ہے جو ہمیں دوبارہ پیدا کرے گی ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اور کئی دوسرے مقامات پر بھی یہ دیا ہے کہ جس ہستی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتی ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ از راہ مذاق سر ہلاتے اور کہتے ہیں کہ اچھا یہ بات تو سمجھ آگئی مگر بتاؤ یہ ایسا واقعہ ہوگا کب ؟ یہ ان کا تیسرا سوال ہوتا ہے۔ اس سوال کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے جیسا کہ کسی کو اس کی موت کا معین وقت بتانا یا کسی نافرمان قوم کو اس پر عذاب نازل ہونے کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیت کے خلاف ہے کہ اس سے انسان کی پیدائش اور ابتلاء کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے لہذا اس سوال کا جواب یہ دیا کہ جس چیز کا واقع ہونا ایک یقینی امر ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے جیسے ہر انسان کی موت یقینی ہے مگر اس کا وقت معین نہیں اور کسی بھی وقت یا ابھی بھی آسکتی ہے لہذا اسے قریب ہی سمجھنا چاہیئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا ۭ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ ۭ قُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا 51؀ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا نغض الإِنْغَاضُ : تَحْرِيكُ الرَّأْسِ نَحْوَ الغَيْر کالمتعجِّب منه . قال تعالی: فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُؤُسَهُمْ [ الإسراء/ 51] يقال : نَغَضَ نَغَضاناً :إذا حَرَّكَ رأسَه، ونَغَضَ أسنانَهُ في ارْتِجَافٍ ، والنَّغْضُ : الظَّلِيمُ الّذي يَنْغِضُ رأسَه كثيراً ، والنَّغْضُ : غُضْرُوفُ الكَتِفِ. ( ن غ ض ) الا نغاض کے معنی دوسرے کے سامنے تعجب سے سر بلابے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُؤُسَهُمْ [ الإسراء/ 51] تو تعجب سے تمہارے آگے سر بلائیں گے ۔ نغض نضضانا کپکی کے ساتھ سر اور دانت ہلانا ( النضض ۔ بہت سر ہلانے والا نر شتر مرغ النغض کندھے کے کنارے کی پتلی ہڈی ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اب اس تحقیق کے بعد آپ سے پوچھیں گے کہ کون ہمیں زندہ کرے گا تو آپ ان کے جواب میں فرما دیجیے کہ وہ، وہ ہے کہ جس نے پہلی بار تمہیں تمہاری ماؤں کے رحموں سے پیدا کیا ہے۔ آپ کی اس بات پر سر ہلا ہلا کر اظہار تعجب کے طور پر کہیں گے، سو اس بات کا جو آپ ہم سے وعدہ کررہے ہیں یہ کب ہوگا آپ فرما دیجیے عجب نہیں کہ یہ قریب ہی آپہنچا ہو یعنی اللہ تعالیٰ پر اس وعدہ کا پورا فرمانا ضروری ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ ) اے نبی ! ان سے کہیے کہ آپ تو ہڈیوں کی بات کرتے ہو اور اپنے جسموں کے ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہوجانے کا تصور لیے بیٹھے ہو۔ تم اگر پتھر اور لوہا بھی بن جاؤ یا اپنی سوچ کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر کسی عجیب مخلوق کا روپ دھار لو تب بھی تمہیں ازسرنو اٹھا لیا جائے گا۔ (فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ ) لا جواب ہو کر اپنے سروں کو مٹکاتے ہوئے بولیں گے کہ چلو مان لیا کہ یہ سب کچھ ممکن ہے مگر یہ تو بتائیے کہ ایسا ہوگا کب ؟ (قُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا) عجب نہیں کہ تمہاری شامت کی وہ گھڑی آیا ہی چاہتی ہو زیادہ دور نہ ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55. “They will shake their heads at you” in astonishment or to express doubt or disapproval or to scoff at you.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :55 انغاض کے معنی ہیں سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف بلانا ، جس طرح اظہار تعجب کے لیے ، یا مذاق اڑانے کے لیے آدمی کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز کو پہلی بار عدم سے وجود میں لانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اس کے بر خلاف ایک مرتبہ پیدا کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ جس خدا نے پہلی بار پیدا کرنے کا زیادہ مشکل کام اپنی قدرت سے انجام دیا ہے، اس کے بارے میں یہ ماننے میں کیا دشواری ہے کہ وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:51) ینغضون۔ مضارع جمع مذکر غائب باب افعال نغض ونغوض مصدر ثلاثی مجرد سے۔ اس کے معنی اوپر نیچے یا نیچے اوپر حرکت دینے کے ہیں۔ فسینغضون الیک رؤسہم۔ وہ آپ کے سامنے سر ہلائیں گے (تعجب یا استہزاء کے طور پر) ۔ متی ھو۔ میں ھو ضمیر واحد مذکر غائب البعث والقیامۃ کی طرف راجع ہے یعنی یہ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے اٹھنا اور حشر کب ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا لے گا۔ (قرطبی)2 یعنی جب اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کردیا حالن کہ کسی چیز کا پہلی بار پیدا کرنا مشکل اور دوبارہ بنانا آسان ہوتا ہے۔ تو اس کے لئے پھر کیا مشکل ہے کہ تمہیں دوبارہ زندگی دے جبکہ اس کے لئے پہلی اور دوسری مرتبہ پیدا کرنا دونوں آسان ہیں۔3 یعنی قیامت جب آنے والی ہے تو وہ چاہے کتنی دور ہو اس یقریب ہی سمجھو اور اپنی نجات کی فکر کرو

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جب ابعد کا احیاء ممکن ہے تو اقرب کا احیاء تو بدرجہ اولی ممکن ہے تولوا سے مقصود امر نہیں۔ بلکہ تعلیق ہے کہ اگر حدیدہ و حجارہ بھی ہوجاو تب بھی محل قدرت رہو گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فسیقولون من یعیدنا (٧١ : ١٥) ” وہ ضرور پوچھیں گے کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا لائے گا ؟ “ یعنی جب ہم مٹی ہوگئے ، بوسیدہ ہدیاں ہوگئیں ، تو کون ہے وہ جو ہمیں دوبارہ حیات دے گا۔ یا جب ہم پتھر اور لوہا بن گئے تو پھر کون حیات دے گا ؟ قل الذین فطرکم اول مرۃ (٨١ : ١٥) ” کہہ دو ، وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “۔ ان کے سوال کا یہ نہایت ہی سادی اور صاف اور دل لگتا جواب ہے۔ کیونکہ جس ذات سے پہلی مرتبہ ان کو زندگی دی وہ دوبارہ بھی دے سکتا ہے لیکن وہ اس سادہ جواب سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور نہ اطمینان ان کو ہوتا ہے۔ فسیتغضون الیک رء وسھم (٧١ : ١٥) ” وہ سر ہلا کر پوچھیں گے “۔ یعنی سر کو اوپر نیچے کر کے سوالیہ انداز اختیار کریں گے ، یہ حرکت وہ اس لئے کریں گے کہ وہ اس بات کو بعید از امکان سمجھتے ہیں یا غرور کے طور پر سر ہلائیں گے۔ و یقولون متی ھو (٧١ : ١٥) ” اچھا تو یہ ہوگا کب ؟ “ یہ بھی وہ نہایت ہی لاپرواہی سے وقوع قیامت کو بعید از امکان سمجھتے ہوئے کہیں گے۔ قل عسی ان یکون قریبا (٧١ : ١٥) ” آپ جواب دیں ، کیا عجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو “۔ وقوع قیامت کے وقت کا علم تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی نہیں دیا گیا لیکن شاید یہ وقت ان لوگوں کے گمان اور ظن وتخمین سے قریب تر ہو۔ مناسب تو یہی ہے کہ وہ اس کے وقع سے ڈریں کیونکہ یہ اس حال میں واقع ہوگا کہ لوگ غفلت میں ہوں گے۔ تکذیب کر رہے ہوں گے ، مذاق کر رہے ہوں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ اور قرآن اپنے مخصوص انداز کے مطابق اچانک قیامت کے مناظر کا بیان شروع کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ تعجب سے سوال کریں گے کہ ایک بات نیست و نابود ہوجانے کے بعد ہمیں دوبارہ کون زندہ کریگا آپ فرما دیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا فرمایا جب تم کچھ بھی نہیں تھے۔ اس لیے جو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ فمن قدر علی الانشاء قدر علی الاعادۃ (خازن و معالم ج 4 ص 163) ” فسینغضون الیک رء وسھم الخ “ اس پر وہ استہزاء و تمسخر سے کہیں گے ارے بھائی وہ کب ہوگی ؟ ” قل عسی ان یکون قریبا “ دوبارہ جی اٹھنے کا ٹھیک وقت تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقت قریب ہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 1 یا کوئی اور ایسی مخلوق اور چیز بن جائو جس کا زندہ ہونا تمہارے خیال میں بہت ہی بعید اور مشکل ہو کچھ بھی ہو جائو مگر زندہ ضرور ہو گے اس پر یہ یوں کہیں گے اچھا بتائو وہ کون ہے جو ہم کو دوبارہ زندہ کرے گا آپ ان سے فرما دیجیے وہی زندہ کرے گا جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اس پر یہ آپ کے سامنے اپنے سروں کو ہلانے اور مٹکانے لگیں گے اور کہیں گے۔ اچھا بتائو یہ دوبارہ زندہ ہونا کب ہوگا۔ آپ فرما دیجیے عجب نہیں کہ اس کام کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو۔ یعنی اول تو مر کر دوبارہ زندہ ہونا مشکل پھر جب محل حیات بھی باقی نہ رہے اور محل حیات کے تمام اجزا منتشر ہوجائیں۔ ارشاد ہواتم محل حیات پر شبہ کر رہے ہو کہتے ہیں تم پتھر یا لوہا بن جائو یا کوئی اور چیز جو تمہارے ذہن میں حیات اور زندگی سے بہت بعید ہو اور جس میں قبول حیات کی کوئی توقع ہی نہ ہو تم وہ چیزبن جائو اور یہ کوئی حکم نہیں بلکہ تعلیق ہے کہ اگر پتھر اور لوہا وغیرہ ہو جائو تب بھی محل قدرت ہی رہو گے اور جب پتھر اور لوہا جو کھبی حیات حیوانی سے آشنا ہی نہیں ہوئے ان کا زندہ ہونا ہوسکتا ہے تو اجزائے انسانی جو محل حیات رہ چکے ہیں ان کا زندہ ہوجانا تو بہت ہی اقرب ہے اور جب قابلیت ظاہر ہوگئی تو اب فاعل حیات کو پوچھیں گے جب اس کا جواب ہوگیا اور فاعل بتادیا گیا اور فاعل وہی ہے جس نے محض جما د کو زندگی بخشی۔ تو بطور انکار سر کو ہلاک کر وقت کا سوال کریں گے کہ آخر یہ دوبارہ زندہ ہونا ہوگا کب ؟ اس کا جواب دلوایا گیا۔ کیا عجب … ہے کہ اس کا وقت قریب ہی آگیا ہو۔ وما یدریک لعل الساعۃ تکون قریباً ۔