Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 64

سورة بنی اسراءیل

وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہُمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۶۴﴾

And incite [to senselessness] whoever you can among them with your voice and assault them with your horses and foot soldiers and become a partner in their wealth and their children and promise them." But Satan does not promise them except delusion.

ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں ( جھوٹے ) وعدے دے لے ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ ... And fool them gradually those whom you can among them with your voice, It was said that this refers to singing. Mujahid said, "With idle entertainment and singing," meaning, influence them with that. Ibn Abbas said, "Every caller who calls people to disobey Allah." This was the view of Qatadah, and was also the opinion favored by Ibn Jarir. ... وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ ... Ajib upon them with your cavalry and your infantry. Send your troops and cavalry and infantry against them. The meaning is, send whatever forces you have at your disposal against them. This is a command (related to the divine decree), as Allah says elsewhere: أَلَمْ تَرَ أَنَّأ أَرْسَلْنَا الشَّيَـطِينَ عَلَى الْكَـفِرِينَ تَوُزُّهُمْ أَزّاً See you not that We have sent the Shayatin against the disbelievers to push them to do evil. (19:83), meaning, to provoke them and drive them towards evil. ... وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ ... Ajlib upon them with your cavalry and your infantry, Ibn Abbas and Mujahid said, "Everyone who rides or walks to go and commit sin and disobey Allah." Qatadah said, "He has infantry and cavalry among the Jinn and among humans. They are the ones who obey him." The Arabs use the verb Ajlaba when describing somebody shouting at another person. Hence it is forbidden in races to shout at one another and push one another. From this root is also derived the word Jalabah, which means raising voices. ... وَشَارِكْهُمْ فِي الاَمْوَالِ وَالاَوْلادِ ... and share with them wealth and children, Ibn Abbas and Mujahid said, "This means what he commands them to do of spending money in disobedience to Allah, may He be exalted." ... وَالاَوْلادِ ... and children, Ibn Abbas, as reported by Al-Awfi, Mujahid and Ad-Dahhak said, "This means the children of Zina (i.e., illegitimate children)." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "This means the children whom they used to kill out of folly, without knowledge." Qatadah reported that Al-Hasan Al-Basri said: "Allah caused Shaytan to take a share of wealth and children by making them Magians, Jews and Christians, and making them follow any religion other than Islam, and by making them give a part of their wealth to the Shaytan." Qatadah said the same. ... وَشَارِكْهُمْ فِي الاَمْوَالِ وَالاَوْلادِ ... and share with them wealth and children. The fact that only wealth and children are mentioned in this Ayah, does not mean that it is limited only to those things. Everything in which a person disobeys Allah or obeys the Shaytan means that he is sharing with him. It was reported in Sahih Muslim from Iyad bin Himar that the Messenger of Allah said: يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ فَجَاءَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُم Allah the Mighty and Exalted says, "I have created My servants as Hunafa' (monotheists), then the Shayatin come to them and lead them astray from their religion and (tell that) what I have permitted for them is forbidden to them." According to the Two Sahihs, the Messenger of Allah said: لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ قَالَ بِسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ أَبَدًا When one of you wants to have intercourse with his wife, let him say, `In the Name of Allah. O Allah, keep us away from Shaytan and keep Shaytan away from what you bestow on us (children).' Then if a child is decreed for them from that, the Shaytan will never harm him. ... وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا "...and make promises to them." But Shaytan promises them nothing but deceit. As Allah tells us, Iblis will say, on the Day when the matter is decided: إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ Verily, Allah promised you a promise of truth. And I too promised you, but I betrayed you. (14:22)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 آواز سے مراد پرفریب دعوت یا گانے، موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں، جن کے ذریعے سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ 64۔ 2 ان لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور اس کے پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، یا مراد ہے ہر ممکن ذرائع جو شیطان گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ 64۔ 3 مال میں شیطان کے شامل ہونے کا مطلب حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے اور اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کردینا مثلًا بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور اولاد میں شرکت کا مطلب، زنا کاری، عبدالات، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھنا، غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا کہ برے اخلاق و کردار کے حامل ہوں، ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کردینا، اولاد کو مجوسی، یہودی و نصرانی وغیرہ بنانا اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہوجاتی ہے۔ 64۔ 4 کہ کوئی جنت و دوزخ نہیں ہے، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے وغیرہ۔ 64۔ 5 غُروُر (فریب) کا مطلب ہوتا ہے غلط کام کو اس طرح مزین کرکے دکھانا کہ وہ اچھا اور درست لگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] شیطان کی آواز سے مراد :۔ شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو اسے اللہ کی نافرمانی پر اکساتی ہو اور یہ آواز عموماً شیطانوں کے چیلوں چانٹوں ہی سے آتی ہے پھر اس شیطانی آواز میں ہر قسم کا گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا، گانابجانا، موسیقی، راگ رنگ اور مزامیر طرب و نشاط کی محفلیں سب کچھ آتا ہے جو اللہ کی یاد سے انسان کو غافل بنائے رکھتی ہیں اور اس کی اصل فطرت پر پردہ ڈالے رکھتی ہیں۔ [٨١] یعنی تجھے اس بات کی بھی اجازت ہے کہ ڈاکوؤں کی طرح اپنی پوری جمعیت کے ساتھ۔ خواہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتی ہو یا جنوں اور شیطانوں سے، اولاد آدم پر پوری شان و شوکت کے ساتھ حملہ آور ہو اور ان میں جس قدر تباہی اور گمراہی مچاسکتا ہے مچالے۔ [٨٢] شیطان کی مال واولاد میں شرکت کی صورتیں :۔ یعنی مال کمانے کے جتنے ناجائز ذرائع انسان اختیار کرتا ہے وہ سب شیطانی انگیخت اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کرتا ہے۔ اور حرام خور انسان شیطان کے مشورے ایسے قبول کرتا ہے جیسے شیطان بھی اس کے کام کاج میں شریک ہے۔ پھر شیطان تو انسان کو یہ راہ دکھا کر الگ ہوجاتا ہے اور سارا گناہ کا بار بنی آدم پر پڑجاتا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے مشرکین مکہ اپنے اموال کھیتی اور چوپایوں میں سے اللہ کا حصہ الگ نکالتے تھے اور اپنے بتوں کا الگ۔ اسی طرح جو مال بھی بتوں کے چڑھاوے، قربانی یا غیر اللہ کی نذر و نیاز کے طور پر دیا جاتا ہے وہ سب بنی آدم کے اموال میں شیطان کی شراکت ہے۔ اور اولاد میں شراکت یہ ہے کہ اولاد تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور اس کا نام پیراں دتہ، غوث بخش، عبدالنبی، میراں بخش، یا اسی قسم کے دوسرے شرکیہ نام رکھ کر اولاد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے یا اولاد کے لیے اللہ کے سوا دوسروں کے در پر جائے اور ان کے ہاں قربانیاں اور نذر و نیاز دے۔ [٨٣] شیطان کے وعدے :۔ شیطان کے وعدوں اور ان وعدوں کی حقیقت کے لیے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٢٢ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ ۔۔ : ” اسْتَفْزِزْ “ ” فَزٌّ“ سے مشتق ہے جس کا معنی ہلکا و خفیف ہے۔ ” رَجُلٌ فَزٌّ أَیْ خَفِیْفٌ“ ہلکا آدمی، یعنی تو جسے اپنی آواز سے ہلکا اور بےوقعت بنا سکے بنا لے۔ شاہ رفیع الدین (رح) نے ترجمہ کیا ہے ” اور بہکا جس کو بہکا سکے “ کیونکہ آدمی ہلکا اور بےقدر و قیمت ہو کر ہی بہکتا ہے۔ بِصَوْتِكَ : شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ آواز ہے جو اللہ کی نافرمانی کی دعوت دے، اس میں گانا بجانا، بدکاری اور ہر برے کام کی دعوت اور ترغیب شامل ہے۔ وَاَجْلِبْ عَلَيْهِم۔۔ : جلب کھینچ کر لانے کو کہتے ہیں اور اس شور کو بھی جس سے گھوڑے کو تیز دوڑانا مقصود ہو۔ ” خَیْلٌ“ گھوڑوں کی جماعت کو کہتے ہیں اور گھڑ سواروں کی جماعت کو بھی۔ ” رَجِلٌ“ ” رَاجِلٌ“ کی جمع ہے، پیادے۔ وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ : اموال میں شیطان کی شراکت یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمایا جائے، یا حرام کاموں میں خرچ کیا جائے، مثلاً سود، رشوت، چوری ڈاکے اور دھوکے وغیرہ سے مال کمایا جائے اور اسے غیر اللہ کے نام پر یا بدکاری و بےحیائی اور نافرمانی کے کاموں میں خرچ کیا جائے۔ اولاد میں شراکت یہ ہے کہ شیطان انھیں دین حنیف کی تعلیمات کے خلاف پرورش دلانے میں کامیاب ہوجائے، ان کے لیے زنا اور اللہ کی نافرمانی کے مواقع میسر کر دے، انھیں اپنے سلف صالحین سے متنفر کر دے، میاں بیوی کی صحبت کے وقت دونوں کو شیطان سے بچانے کی دعا مانگنا فراموش کروا دے، تاکہ پیدا ہونے والی اولاد میں اس کا حصہ ہوجائے، یا ان کے نام ایسے رکھوا دے جن سے ظاہر ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور نے عطا کیے ہیں۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبد العزیٰ ، عبد شمس اور عبد وَدّ وغیرہ رکھتے تھے۔ ہمارے زمانے میں رسول بخش، حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی اور پیراں دتہ وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ مزید وہ آیات جن میں مذکور اشیاء میں شیطان کی مشارکت کا ذکر ہے وہ یہ ہیں سورة انعام ( ١٣٦، ١٣٨) اور سورة یونس (٥٤) ۔ وَعِدْهُمْ : یعنی انھیں جھوٹے وعدے دلا، مثلاً یہ کہ اگر شرک کرو گے تو یہ فائدہ ہوگا، سودی کاروبار سے یہ نفع ہوگا اور یہ کہ دنیا میں تمہیں مال و دولت ملی ہے، آخرت میں بھی ملے گی اور یہ کہ ابھی بہت وقت ہے عیش کرلو، پھر توبہ کرلینا وغیرہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کو پانچ حکم دیے ہیں : ” اذْهَبْ “ ” اسْتَفْزِزْ “ ” اَجْلِبْ “ ” شَارِكْهُمْ “ اور ” عِدْهُمْ “ یہ تمام احکام تہدید، یعنی ڈانٹنے کے لیے ہیں، جیسے فرمایا : (اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ) [ حٰآ السجدۃ : ٤٠ ] ” جو چاہو کرو۔ “ یہ احکام تعمیل کے لیے نہیں ہیں، کیونکہ یہ سب گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ گناہ کا حکم نہیں دیتا۔ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا : یعنی شیطان کے سب وعدے محض دھوکا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مفہوم کئی اور مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٢٠) ، حدید (١٤) اور ابراہیم (٢٢) اس سے پہلے شیطان کو مخاطب کر کے بات ہو رہی تھی، یہاں شیطان کو غائب کے صیغے سے ذکر کیا، یہ التفات شیطان کی تحقیر کے لیے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(2) Secondly, he had said if he was given respite till the day of Qiyamah, he will mislead the entire progeny of &Adam, except a few of them. That Allah Ta’ ala has elected to answer in the later verses. He said that the Shaitan will have no control over His sincere servants even if he were to rally his entire forces against them and as for the insincere who fall into his trap, they will meet the same fate as his, all consigned to Hell. When this verse (64) mentions the horsemen and footmen of the Shaitanic army, it does not necessarily mean that the Shaitan actually has combat support in that formation. In fact, this is a manner of referring to the full force and power of the Shaitan. And if the Shaitan does have horsemen and footmen actually, even that too cannot be denied. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said: Those who come out in support of disbelief and sin, horsemen or footmen, they are nothing but the army of the Shaitan. Now remains the question as to how the Shaitan came to know that he would succeed in enticing and misleading the progeny of &Adam (علیہ السلام) ، the basis on which he claimed that he will subdue them. There are two possibilities. Perhaps, by looking at the ingredients that went into the making of man, he had gathered that man would be de¬sire-prone and it would not be difficult to entice him successfully. And then, it is also not far out to believe that his very claim was nothing but a bland lie. As for the sense of: وَشَارِ‌كْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ (and share with them in their wealth and their children - 64), Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said: Wealth and property acquired by false, impermissible and unlawful means or spent on what is haram is the sharing of the Shaitan in it. As for the sharing of the Shaitan in children, it could either be through illegitima¬cy, or by naming them like disbelievers and polytheists, or by indulging in polytheistic customs to ensure their security, or by taking to Haram sources of income to bring them up. (Qurtubi)

دوسری بات یہ کہی تھی کہ اگر قیامت زندگی ملنے کی میری درخواست منظور کرلی گئی تو میں آدم کی ساری اولاد کو بجز قدر قلیل کے گمراہ کر ڈالوں گا آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اس کا جواب دے دیا کہ میرے خاص بندے جو مخلص ہیں ان پر تو تیرا قابو نہ چلے گا چاہے تو اپنا سارا لاؤ لشکر لے آوے اور پورا زور خرچ کرے باقی غیر مخلص اگر وہ تیرے قابو میں آگئے تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو تیرا ہے کہ جہنم کے عذاب میں تم سب گرفتار ہو گے اس میں (آیت) اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ میں جو شیطانی لشکر کے سوار اور پیادوں کا ذکر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں بھی شیطان کے کچھ افراد سوار ہوں کچھ پیادے بلکہ یہ محاورہ پورے لشکر اور پوری طاقت استعمال کرنے کے لئے بولا جاتا ہے اور اگر واقع میں ایسا ہو کہ کچھ شیطان سوار ہوتے ہوں کچھ پیادہ تو اس میں بھی کوئی وجہ انکار نہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جتنے افراد بھی کفر و معصیت کی حمایت کے لئے لڑنے کو چلتے ہیں وہ سوار اور پیادے سب شیطان ہی کا سوار اور پیادہ لشکر ہے رہا یہ معاملہ کہ شیطان کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ اولاد آدم کو بہکا کر گمراہ کرنے پر قادر ہوجائے گا جس کی بناء پر اس نے یہ دعوی کیا تو ممکن ہے کہ انسان کے اجزا ترکیبی کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کے اندر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوگا اس لئے بہکانے میں آجانا دشوار نہیں اور اس میں بھی کچھ بعد نہیں کہ یہ دعوی بھی محض جھوٹ ہی ہو۔ (آیت) وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۔ لوگوں کے اموال اور اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بیان فرمایا کہ اموال میں جو مال ناجائز حرام طریقوں سے حاصل کیا جائے یا حرام کاموں میں خرچ کیا جائے یہی شیطان کی اس میں شرکت ہے اور اولاد میں شیطان کی شرکت اولاد حرام ہونے سے بھی ہوتی ہے اور اس سے بھی کہ اولاد کے نام مشرکانہ رکھے یا ان کی حفاظت کے لئے مشرکانہ رسوم ادا کرے یا ان کی پرورش کے لئے حرام ذرائع آمدنی اختیار کرے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۭ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا 64؀ فز قال تعالی: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء/ 64] ، أي : أزعج، وقال تعالی: فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء/ 103] ، أي : يزعجهم، وفَزَّنِي فلان، أي : أزعجني، والْفَزُّ : ولد البقرة، وسمّي بذلک لما تصوّر فيه من الخفّة، كما يسمّى عجلا لما تصوّر فيه من العجلة . ( ف ز ز ) الا ستفزاز ہلکا سمجھنا گھبرادینا اور جگہ سے ہٹا دینا قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء/ 64] اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ ۔ فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء/ 103] تو اس نے چاہا کہ انہیں گڑ بڑ اکر سر امین ( مصر میں سے نکال دے ۔ اور فزنی فلان کے معنی ہیں اس نے مجھے پریشان کر کے میری جگہ سے ہٹا دیا اور گائے کے بچہ کو فز کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خفت یعنی سکی پائی جاتی ہے جس طرح کہ اس میں عجلت جلدی بازی کا تصور کر کے اسے عجل کہا جاتا ہے ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ صوت الصَّوْتُ : هو الهواء المنضغط عن قرع جسمین، وذلک ضربان : صَوْتٌ مجرّدٌ عن تنفّس بشیء کالصَّوْتِ الممتدّ ، وتنفّس بِصَوْتٍ ما . والمتنفّس ضربان : غير اختیاريّ : كما يكون من الجمادات ومن الحیوانات، واختیاريّ : كما يكون من الإنسان، وذلک ضربان : ضرب بالید کصَوْتِ العود وما يجري مجراه، وضرب بالفم . والذي بالفم ضربان : نطق وغیر نطق، وغیر النّطق کصَوْتِ النّاي، والنّطق منه إما مفرد من الکلام، وإمّا مركّب، كأحد الأنواع من الکلام . قال تعالی: وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه/ 108] ، وقال : إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان/ 19] ، لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات/ 2] ، و تخصیص الصَّوْتِ بالنّهي لکونه أعمّ من النّطق والکلام، ويجوز أنه خصّه لأنّ المکروه رفع الصَّوْتِ فوقه، لا رفع الکلام، ورجلٌ صَيِّتٌ: شدید الصَّوْتِ ، وصَائِتٌ: صائح، والصِّيتُ خُصَّ بالذّكر الحسن، وإن کان في الأصل انتشار الصَّوْتِ. والإِنْصَاتُ : هو الاستماع إليه مع ترک الکلام . قال تعالی: وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف/ 204] ، وقال : يقال للإجابة إِنْصَاتٌ ، ولیس ذلک بشیء، فإنّ الإجابة تکون بعد الإِنْصَاتِ ، وإن استعمل فيه فذلک حثّ علی الاستماع لتمکّن الإجابة . ( ص و ت ) الصوات ( آواز ) اس ہوا کو کہتے ہیں جو وہ جسموں کے ٹکرانے سے منضغظ یعنی دب جائے اس کی دو قسمیں ہیں ( 1 ) وہ صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت ممتد ( 2 ) وہ صورت جو تنفس کے ساتھ ملا ہوتا ہے پھر صورت متنفس دو قسم پر ہے ایک غیر اختیاری جیسا کہ جمادات حیوانات سے سرز د ہوتا ہے ۔ دو م اختیاری جیسا کہ انسان سے صادر ہوتا ہے جو صورت انسان سے صادر ہوتا ہے پھر دو قسم پر ہے ایک وہ جو ہاتھ کی حرکت سے پیدا ہو جیسے عود ( ستار ) اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی آواز ۔ دوم وہ جو منہ سے نکلتا ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو نطق کے ساتھ ہو دوم وہ جو بغیر نطق کے ہو جیسے نے یعنی بانسری کی آواز پھر نطق کی دو صورتیں ہیں ایک مفرد دوم مرکب جو کہ انواع کلام میں سے کسی ایک نوع پر مشتمل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه/ 108] اور خدا کے سامنے آوازیں لسبت ہوجائیں گی تو تم آواز خفی کے سوا کوئی اور آواز نہ سنو گے إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان/ 19] ان انکر الا ضوات لصوات الحمیر کیوں کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات/ 2] اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ نطق و کلام سے عام ہے اور ہوسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق صوت یعنی محض آواز کے ساتھ ہو نہ کہ بلند آؤاز کے ساتھ کلام کرنے سے نیز اس کی وجہ تخصیص یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آنحضرت کے آواز سے بلند آواز کرنے کی کراہت ظاہر کرنا مقصود ہو اور مطلق بلند آوازو الا آدمی رجل صائت چیخنے والا الصیت کے اصل منعی مشہور ہونے کے ہیں مگر استعمال میں اچھی شہرت کے ستاھ مخصوص ہوچکا ہے الانصات کے معنی چپ کر کے توجہ کے کسی کی بات سننا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف/ 204] اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو بعض نے کیا ہے کہ انصات کے معنی جواب دینا بھی آتے ہیں لیکن یہ آیت نہیں ہے کیونکہ جواب تو انصات یعنی بات سننے کے بعد ہوتا ہے اور اگر اس معنی میں استعمال بھی ہو تو آیت میں اس امر پر تر غیب ہو کی کہ کان لگا کر سنوتا کہ اسے قبول کرنے پر قوت حاصل ہو ۔ جلب أصل الجَلْب : سوق الشیء . يقال : جَلَبْتُ جَلْباً ، قال الشاعر وقد يجلب الشیء البعید الجوالب وأَجْلَبْتُ عليه : صحت عليه بقهر . قال اللہ عزّ وجل : وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء/ 64] ، والجَلَب المنهي عنه في قوله عليه السلام : «لا جَلَب» قيل : هو أن يجلب المصّدّق أغنام القوم عن مرعاها فيعدها، وقیل : هو أن يأتي أحد المتسابقین بمن يجلب علی فرسه، وهو أن يزجره ويصيح به ليكون هو السابق . والجُلْبَة : قشرة تعلو الجرح، وأجلب فيه، والجِلْبُ : سحابة رقیقة تشبه الجلبة . والجَلابیب : القمص والخمر، الواحد : جِلْبَاب . ( ج ل ب ) جلب ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ہنکاتے اور چلاتے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ کبھی جواب دور کی چیز کو کھینچ کرلے آتا ہے ۔ اجنب ( افعال ) علیہ کسی پر چلا کر زبر دستی ( سے آگے بڑھانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء/ 64] اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ ۔ اور حدیث لاجنب ( یعنی جلب جائز نہیں ہے ) کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ، ایک یہ کہ مصدق یعنی زکوۃ جمع کرنے والا چراگاہ سے کہیں دور بیٹھ جائے اور وہاں جانوروں کو حاضر کرنے کا حکم دے اور گھڑ دوڑ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص دوڑ میں اپنے گھوڑے پر پہنچنے کے لئے ایک آدمی کو مقرر کرے تاکہ وہ آگے بڑھ جائے ۔ الجلبۃ ۔ پوست جراحی کہ خشک شدہ باشد ۔ الجلب ۔ پتلا سا بادل جو زخم کے پردہ کیطرح ہوتا ہے الجلا لیب اس کا واحد جلباب ہے جس کے معنی چادر یا قمیص کے ہیں ۔ خيل والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) «1» ، فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» «2» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق «3» ، لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ( خ ی ل ) الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا [ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» . والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

شیطان کے وار سب پر کارگر نہیں ہوتے قول باری ہے (واستفززمن استطعت منھم بصوتک اور تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھیلا سکتا ہے پھسلا لے) جسے یہ بات کہی جا رہی ہے یعنی شیطان کو یہ دھمکی ہے اور اسے خربدار کیا جا رہا ہے کہ اس کی کارستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے نیز یہ کہ وہ اس کی سزا ضرور پا کر رہ یگا اور اس سے ضرور اس کا اتنقا ملیا جائے گا۔ اس کی مثال کا یہ قول ہے ۔ ” تم اپنا پورا زور لگا لو پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارا کیا بنتا ہے۔ “ استفزز کے معنی استزل ، کے ہیں یعنی پھسلا دے۔ محاورہ میں استفزہ اور استنزلہ ہم معنی فعل ہیں۔ قول باری (بصوتک) کی تفسیر میں مجاہد سے مروی ہے کہ یہ غناء اور لہو یعنی گانا بجانا ہے۔ ان دونوں باتوں کی ممانعت ہے اور ان کا تعلق شیطان کی آواز سے ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ وہ آواز ہے جس کے ذریعے شیطان لوگوں کو معصیت کی طرف بلاتا ہے۔ ہر وہ آواز جس کے ذریعے فساد کی دعوت دی جائے شیطانی آواز ہوتی ہے۔ قول باری ہے (واحلب علیھم اور ان پر چڑھالا) اجلاب ہانکنے کو کہتے ہیں جس میں ہانکنے والے کا شور و غل شامل ہوتا ہے۔ جلبہ زبردست شور و غل کو کہتے ہیں۔ قول باری ہے (بخیلک و رجلک اپنے سوار اور پیادے) حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ جن و انس میں سے اللہ کی معصیت کی طرف جانے والا ہر سوار اور پیادہ شیطان کا سوار اور پیادہ ہتا ہے۔ رجل راجل کی جمع ہے جس طرح تجرتا جد کی اور رکب راکب کی جمع ہے۔ قول باری ہے (وشارکھم فی الاموال و الاولاد اور مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا) ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں ” ان چیزوں میں تو ان کا شریک بن جا، ان میں سے کچھ وہ چیزیں ہیں جن کی لوگوں کو طلب ان کی اپنی نفسانی خواہشات کی بنا پر ہوگی اور کچھ چیزوں کو وہ تیرے اکسانے کی بنا پر طلب کریں گے۔ “ مجاہد اور ضحاک کا قول ہے۔ ” اولاد میں ان کے ساتھ سا جھا لگا ، یعنی اولاد زنا “ ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مئو و وہ یعنی زندہ درگور کی جانے والی لڑکی مراد ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو یہودی اور نصرانی ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عباس سے ایک روایت کے مطابق اس سے لوگوں کا عبدالحارث اور عبدشمس نام رکھنا مراد ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں جب ان تمام وجوہ کا احتمال ہے تو اسے ان تمام وجوہ پر محمو لکیا جائے اور یہ تمام معانی مراد ہوں گے۔ اس لئے کہ یہ تمام چیزیں وہ ہیں جن میں شیطان لوگوں کو اکسا کر اور ان کی دعوت دے کر اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) اور جا ان میں سے جس پر تیرا بس چلے، اپنی تبلیغ سے اس کے قدم پھسلا دینا یا یہ کہ امیر اور تمام گانوں کی آوازوں اور ہر قسم کی برائیوں سے ان کو گمراہ کردینا۔ اور ان پر اپنے سوار مشرکین اور پیادہ مشرکین چڑھا لانا اور ان کے خلاف مشرکین کے لشکر سے مدد حاصل کرنا اور ان کو اموال حرام اور اولاد حرام میں گرفتار کردینا اور ان سے وعدے کرنا کہ جنت اور دوزخ کچھ نہیں اور شیطان ان لوگوں سے بالکل جھوٹے وعدے کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ ) عربی میں بکری کے ایسے نوزائیدہ بچے کو فزّ کہتے ہیں جو ابھی ٹھیک سے چلنے کے قابل نہ ہو اور کھڑا ہونے کی کوشش میں اس کی ٹانگیں لڑ کھڑاتی ہوں۔ اس مناسبت سے یہ لفظ محاورۃً اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کی ٹانگیں کسی معاملے میں لڑ کھڑا جائیں قدم ڈگمگا جائیں اور ہمت جواب دے دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76. The literal meaning of the Arabic text is: You may sweep away those whom you find superficial and weak minded. 77. Here, Satan has been likened to that robber who assaults a habitation with cavalry and infantry and orders them to rob. The cavalry and the infantry of Satan are those jinns and human beings who are engaged in numerous forms and positions in carrying out his mission. 78. This is a very meaningful sentence which depicts a true and perfect picture of the relationship between Satan and his followers. On the one hand, Satan becomes a partner with the one who follows him in the earning and spending of his money without putting in any labor in it. On the other hand, he does not become a partner in bearing the consequences of his error, crime and sin. But his foolish dupe follows his instructions as if he were a partner, nay, a stronger party. Again in regard to the children of such a man, the father himself bears the whole burden of bringing them up, but under the misguidance of Satan he trains them in wrong and unmoral ways as if he alone was not their father but Satan as well was a partner in it. 79. Satan entices them with false promises of success and entangles them in the snare of false expectations.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :76 اصل میں لفظ ” استفزاز“ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی استحفاف کے ہیں ۔ یعنی کسی کو ہلکا اور کمزور پا کر اسے بہا لے جانا ، یا اس کے قدم پھسلا دینا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :77 اس فقرے میں شیطان کو اس ڈاکو سے تشبیہ دی گئی ہے جو کسی بستی پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لائے اور ان کو اشارہ کرتا جائے کہ ادھر لوٹو ، ادھر چھاپہ مارو ، اور وہاں غارتگری کرو ۔ شیطان کے سواروں اور پیادوں سے مراد وہ سب جن اور انسان ہیں جو بے شمار مختلف شکلوں اور حیثیتوں میں ابلیس کے مشن کی خدمت کر رہے ہیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :78 یہ ایک بڑا ہی معنی خیز فقرہ ہے جس میں شیطان اور اس کے پیروؤں کے باہمی تعلق کی پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے ۔ جو شخص مال کمانے اور اس کو خرچ کرنے میں شیطان کے اشاروں پر چلتا ہے ، اس کے ساتھ گویا شیطان مفت کا شریک بنا ہوا ہے ۔ محنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ، جرم اور گناہ اور غلط کاری کے برے نتائج میں وہ حصہ دار نہیں ، مگر اس کے اشاروں پر یہ بیوقوف اس طرح چل رہا ہے جیسے اس کے کاروبار میں وہ برابر کا شریک ، بلکہ شریک غالب ہے ۔ اسی طرح اولاد تو آدمی کی اپنی ہوتی ہے ، اور اسے پالنے پوسنے میں سارے پاپڑ آدمی خود بیلتا ہے ، مگر شیطان کے اشاروں پر وہ اس اولاد کو گمراہی اور بداخلاقی کی تربیت اس طرح دیتا ہے ، گویا اس اولاد کا تنہا وہی باپ نہیں ہے بلکہ شیطان بھی باپ ہونے میں اس کا شریک ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :79 یعنی ان کو غلط امیدیں دلا ۔ ان کو جھوٹی توقعات کےچکر میں ڈال ۔ ان کو سبز باغ دکھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: آواز سے بہکانے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں گناہ کے وسوسے پیدا کرے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد گانے بجانے کی آواز ہے جو انسان کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے۔ 36: شیطان کو دشمن کی فوج سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک فوج میں ساروں کے بھی دستے ہوتے ہیں اور پیدل چلنے والے دستے بھی، اسی طرح شیطان اپنی ایک فوج رکھتا ہے جس میں شریر جنات اور انسان شامل ہیں، یہ سب مل کر انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی مدد کرتے ہیں۔ 37: اس میں اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مال اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف حاصل کرتایا انہیں ناجائز کاموں میں استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے مال اور اولاد میں شیطان کا حصہ لگالیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:64) استفزز۔ امر واحد مذکر حاضر استفزاز (افتعال) مصدر فز مادہ تو گھبرائے۔ فزنی فلان اس نے مجھے پریشان کر کے میری جگہ سے ہٹا دیا۔ یا قرآن مجید میں آیا ہے فاراد ان یستفزہم من الارض (17:103) تو اس نے چاہا کہ انہیں گڑ بڑا کر سرزمین (مصر) میں سے نکال دے پس واستفزز من الستطعت منہم بصوتک اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ ۔ اجلب علیہم۔ امر واحد مذکر حاضر۔ الجلب (نصر۔ ضرب) کے اصل معنی کسی چیز کو ہنکانے اور چلانے کے ہیں۔ اجلاب (باب افعال) سے اس کے معنی اکٹھا کرنے، شور مچانے اور کھینچ لانے کے ہیں اسی سے جلب زر ہے۔ دولت کو کھینچ کر اکٹھا کرنا۔ اجلب علی کسی پر چلا زبردستی اسے آگے بڑھانا جیسے گھوڑے کو چلا کر آگے دوڑانا۔ واجلب علیہم بخیلک ورجلک۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ۔ خیل۔ اصل میں گھوڑوں کو کہتے ہیں مجازًا سواروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ خیلک تیرے سوار۔ رجلک۔ رجل وراجل۔ پاپیادہ چلنے والا۔ یہ الرجل بمعنی پائوں سے مشتق ہے رجل راجل کی جمع ہے۔ پا پیادہ چلنے والے۔ رجلک مضاف مضاف الیہ۔ تیرے پیادے۔ غرورا۔ دھوکہ۔ جھوٹی امید، فریب۔ وعدا۔ مصدر۔ محذوف کی صفت کی وجہ سے منصوب ہے۔ ای وما یعدہم الشیطن الا وعدا غرورا۔ اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے سب دھوکہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 صورت سے مراد شیطان کا لوگوں کو نافرمانی کی طرف دعوت دینا ہے۔ بعض علمائے سلف نے اس سے مراد گانا بجانا بھی لیا ہے۔ (قرطبی) مال میں شیطان کی شرکت یہ ہے کہ حرام کاموں میں صرف کیا جائے اور بتوں یا پیروں، بزرگوں کی نیاز دی جائے اور اولاد میں شرکت یہ ہے کہ اسے گمراہی اور بداخلاقی کی تعلیم دی جائے یا سمجھا جائے کہ فلاں نے بخشا ہے۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبدالعزی وعبد الشمس وغیرہ رکھتے اور ہمارے زمانہ میں رسول بخش حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ (وحیدی بتصرف)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی اغوا وسوسہ سے۔ 8۔ کہ سب مل کر گمراہ کرنے میں خوب زور لگالیں۔ 1۔ یعنی مال و اولاد کو ذریعہ گمراہی بنادینا چناچہ مشاہد ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واستفزز……(٧١ : ٤٦) ” تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے ، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا “۔ یہاں شیطان کے وسائل گمراہی اور ضلالت کو مجسم طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ کسی طرح شیان انسانوں کے دل ، ان کے شعور اور ان کی عقل پر تسلط اختیار کرلیتا ہے۔ گویا آدم و ابلیس کے درمیان کھلی جنگ ہے۔ ہمہ گیر جنگ ہے۔ اس میں آواز ، گھوڑے اور ٹینک پیارے اور تمام دوسرے وسائل شیطان استعمال کرتا ہے جیسا کہ تمام روایتی جنگوں کے درمیان ہر قسم کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ آوازیں بھی دی جاتیں اور آوازوں اور مبارزت کی وجہ سے دشمن کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ استدراج اور کیمو فلاج سے کام لیا جاتا ہے۔ جنگی چالیں چلی جاتی ہیں ، پہلے کسی دشمن کو کھلے میدان میں لایا جاتا ہے ، پھر اس پر وار کیا جاتا ہے یا گھیر لیا جاتا ہے۔ وشارکھم فی الاموال والاولاد (٧١ : ٤٦) ” مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا “۔ جاہلانہ بت پرستی کے اندر یہ شرکت پائی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے بنائے ہوئے بتوں اور الہوں کے لئے اہل جاہلیت اپنے اموال میں سے حصے مقرر کرتے تھے۔ یہ تمام حصے گویا شیطان کے تھے۔ اولاد میں شیطان کی حصہ داری یوں تھی کہ اولاد میں سے بعض کو وہ ان الہوں کی خدمت کے لئے وقف کردیتے تھے جو درحقیقت شیان کے ہوجاتے تھے۔ مثلاً عبد اللہ اور عبدہ مناۃ اور بعض اوقات وہ براہ راست شیان کا حصہ کرتے تھے مثلاً عبد الحارث یعنی شیان کا بندہ ۔ اسی طرح وہ تمام دولت جو حرام ذرائع سے آتی تھی یا جو حرام طریقوں میں صرف ہوتی تھی ، بدکاریوں اور گنہ کاریوں کی راہ میں جو لٹائی جاتی تھی۔ حرام اولاد بھی شرکت شیطان کا ایک نمونہ ہے۔ یہاں مراد عمومی شرکت ہے۔ ذکر صرف مال اور اولاد کا ہوا ہے اس لئے کہ مال اور اولاد معشیت کے بنیادی فیکٹر ہیں۔ ابلیس کو ابنی آدم کے گمراہ کرنے میں ہر قسم کے وسائل استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی ایسے وعدے جو پورے نہ کیے جاسکیں۔ وعدھم ……(٧١ : ٤٦) ” اور ان کو وعدوں کے جال میں پھنسا دے اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں “۔ مثلاً یہ کہ اگر تم نے میری راہ اپنائی تو تم پر کوئی عذاب نہ ہوا ، تم سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور یہ کہ حرام ذرائع سے ہر قسم کا مال تمہارے پاس جمع ہوگا۔ تم دنیا میں غالب اور کامیاب رہو گا اور ناپاک ذرائع آمدنی اور نجس طرز معیشت کے تمام دروازے تمہارے لئے کھلے ہوں گے۔ شیطان کا سب سے بڑا جھوٹا وعدہ یہ ہوتا ہے کہ گناہوں اور خطا کاریوں کے بعد تمہیں معاف کردیا جائے گا۔ یہ وہ سوراخ ہے ، جس کے ذریعے شیطان ہر دل میں داخل ہوجاتا ہے خصوصاً ایسے کمزور لوگوں کے دلوں میں جو گناہوں اور خطاکاریوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے یا ایسے لوگوں کے دلوں میں جو ارتکاب معصیت میں بےباک ہوتے ہیں اور انہیں قابل فخر و عزت سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وہ یوں چاپلوسی اختیار کرتا ہے کہ بھائی اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور اللہ غفور ورحیم ہے۔ اسے اس بات میں دلچسپی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو سزا دے۔ شیطان ! تم جائو تمہیں اجازت ہے کہ جو لوگ تمہاری طرف میلان رکھتے ہیں ان کو پھانسو لیکن میرے بعض بندے ایسے بھی ہوں گے جن پر تمہارے دائو نہیں چلیں گے کیونکہ وہ ایسے قلعوں میں محفوظ ہوں گے جو تمہارے اور تمہاری افواج کی دسترس سے دور ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ جل شانہ نے مزید فرمایا (وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ ) کہ تجھ سے جو کچھ ہوسکے اپنی کوشش کرلینا ان کے بہکانے اور ورغلانے کے لیے آواز لگانا ان پر سوار اور پیادے چڑھا کرلے آنا (اور عرب کا محاورہ تھا جب کسی پر پوری قوت کے ساتھ کوئی شخص حملہ آور ہوتا تو کہا جاتا تھا کہ اس نے اپنے سوار اور پیادے لیکر چڑھائی کردی) تفسیر قرطبی میں اول تو یہ معنی لکھا ہے اجمع علیھم کلما تقدر علیھم من مکائدک یعنی جتنے بھی فریب اور مکر تجھ سے ہوسکیں سب کو اختیار کرلینا اور پھر ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جو بھی گھوڑے اللہ کی معصیت میں چلیں اور جو بھی قدم اللہ کی نافرمانی میں اٹھے اور جو بھی حرام مال مل جائے اور جو بھی حرام کی اولاد ہو سب شیطانی چیزیں ہیں۔ قال الراغب فی مفرداتہ قولہ تعالیٰ (لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا) یجوزان یکون من قولھم حنکت الدابۃ اصبت حنکھا باللجام والرسن فیکون نحو قولک لالجمن فلانا ولارسننہ ویجوز ان یکون من قولھم احتنک الجراد الارض ای استولی بحن کہ علیھا فاکلھا واستاصلھا فیکون معناہ علیھم استیلاۂ علی ذلک۔ فی روح المعانی واستفززای واستخف یقال استفزہ اذا استخفہ فخدعہ واوقعہ فیما ارادہ منہ ١ ھ۔ وفی تفسیر القرطبی واستفززای استزل واستخف واصلہ القطع والمعنی استزلہ بقطعک ایاہ عن الحق۔ علامہ قرطبی اپنی تفسیر (ج ١/ ٢٨٨) (وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ ) کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ وہ آواز جو اللہ کی نافرمانی کی طرف بلائے وہ سب شیطان کی آواز ہے۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد (رض) سے نقل کیا ہے کہ گانا بجانا اور گانے بجانے کی آوازیں یہ سب شیطان کی آوازیں ہیں لوگوں کو بہکانے اور ورغلانے اور راہ حق سے ہٹانے اور نماز و ذکر سے غافل کرنے کے طریقے جو شیطان اختیار کرتا ہے ان میں گانا بجانا بھی ہے جن لوگوں کو شیطانی کام پسند ہوتے ہیں ان کو گانے بجانے سے بہت محبت ہوتی ہے اور شیطانی کاموں میں ایسی چیزوں کی بہتات ہوتی ہے ہندوؤں کے مندروں اور عیسائیوں کے گرجوں میں گانا بجانے کی چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جب کوئی مداری تماشا دکھاتا ہے تو گانے بجانے سے شروع کرتا ہے سینماؤں میں اور ٹیوی پر اور ریڈیو پر گانے بجانے کے پروگرام آتے رہتے ہیں لوگ ان سے بہت خوش ہیں بچے بوڑھے جوان سب ہی گانے بجانے کے دلدادہ بن جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ راتوں رات جاگتے ہیں اور قوالی سنتے ہیں جس میں ہارمونیم وغیرہ استعمال ہوتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ یوں کہتے ہیں کہ قوالی کی محفل میں شریک ہونا ثواب ہے کیونکہ اس میں نعتیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں خدارا انصاف کریں کہ یہ راتوں کا جاگنا (پھر صبح کو فجر کی نماز ضائع کردینا) نعت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سننے کے لیے ہے یا نفس کو ساز اور ہارمونیم کے ذریعے حرام غذا دینے کے لیے اور شیطان کو خوش کرنے کے لیے ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا امرنی ربی بمحق المغازف والمزامیر والاوثان والصلب وامر الجاھلیہ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣١٨) یعنی میرے رب نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ گانے بجانے کے آلات کو اور بتوں کو اور صلیب کو (جسے عیسائی پوجتے ہیں) اور جاہلیت کے کاموں کو مٹا دوں۔ کیسی نادانی کی بات ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن چیزوں کو مٹانے کے لیے تشریف لائے ان ہی چیزوں کو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت سننے کے لیے استعمال کرتے ہیں پھر اوپر سے ثواب کی امید بھی رکھتے ہیں نفس و شیطان نے ایسا غلبہ پایا ہے کہ قرآن و حدیث بتانے والوں کی بات ناگوار معلوم ہوتی ہیں۔ مزید فرمایا (وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ ) (اور ان کے اموال میں شریک ہوجا) اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تو بنی آدم کو اس پر ابھارنا کہ وہ حرام مال کمائیں اور حرام مواقع میں یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں مال خرچ کریں اور اگر حلال مال کمالیں تو اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ کردیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی باتیں سمجھانا کہ وہ تیرے کہنے کے مطابق اپنے اموال میں تحریم اور تحلیل اختیار کریں جیسے مشرکین عرب نے مویشیوں میں بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دے رکھا تھا اور بعض جانوروں کو اپنے باطل معبودوں کے نام پر ذبح کرتے تھے چونکہ شیطان کی تلقین اور تعلیم سے ایسا کرتے تھے اس لیے یہ سب مال شیطان کے حساب میں لگ گیا اور وہ ان مالوں میں ساجھی ہوگا۔ (وَالْاَوْلَادِ ) (یعنی تو ان کی اولاد میں شریک ہوجانا) اولاد میں شریک ہونے کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے دو باتیں منقول ہیں ایک تو یہ کہ وہ تیرے کہنے سے اپنی اولاد کو قتل کریں گے اور اولاد کے بارے میں ایسے ایسے اعمال کریں گے جو اللہ کی شریعت میں معاصی میں شمار ہونگے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے عبد الحارث عبد العزیٰ عبد اللات اور عبد الشمس وغیرہ نام رکھنا مراد ہے۔ حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تو بنی آدم کی اولاد کو شرک اور کفر پر ڈال دینا یعنی ماں باپ کو ایسی باتیں سمجھانا کہ وہ اپنی اولاد کو کفر سمجھائیں اور پڑھائیں اور اس پر جمائیں۔ اور حضرت مجاہد (رض) نے یوں فرمایا کہ جب کوئی شخص عورت سے جماع کرنے لگے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو جن اس کے عضو خاص کے ساتھ لپٹ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اجماع کرتا ہے (اس سے جو اولاد پیدا ہوگی اس میں شیطان کی شرکت ہوجائے گی کیونکہ انسانی مرد کے نطفے کے ساتھ اس کا نطفہ بھی رحم میں چلا گیا) یہ اقوال علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیے ہیں۔ (ج ٢/ ٨٩) حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے سوال فرمایا کیا تمہارے اندر مغربون دیکھے گئے ہیں میں نے عرض کیا مغربون کون ہیں ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن میں جنات شریک ہوجاتے ہیں شریک ہونے کا ایک مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا اور ملا علی قاری (رض) نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں ایک اور مطلب بھی لکھا ہے کہ شیاطین انسانوں کو زنا کرنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس زنا سے جو اولاد ہوتی ہے وہ چونکہ حرامی ہوتی ہے اس کا وجود اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے یوں ہی ہوتا ہے کہ وہ زنا پر ابھارتا ہے اس لیے اس اولاد میں اس کی شرکت ہوگی۔ (مرقاۃ ج ٨/ ٣٦٧) آکام المرجان ج ١/ ٧٧ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ مخنث (پیدائشی ہیجڑے) جنات کی اولاد ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت حیض میں جماع کرنے سے منع فرمایا ہے سو اگر کوئی شخص حالت حیض میں جماع کرلے تو اس سے پہلے شیطان جماع کرلیتا ہے پھر اس سے جو حمل ہوجاتا ہے اس سے مخنث پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے (یعنی جماع کرنا چاہے) اور اس سے پہلے یہ پڑھے۔ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا (میں اللہ کا نام لے کر یہ کام کرتا ہوں اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد تو ہم کو دے اس سے (بھی) شیطان کو دور رکھ) تو اس دعا کے پڑھ لینے کے بعد اس وقت ہمبستری سے جو اولاد پیدا ہوگی شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم) یہ جو فرمایا کہ اگر مذکورہ بالا دعا پڑھ لی جائے اور اس وقت کا جماع حمل قرار ہونے کا ذریعہ بن جائے تو اس سے جو اولاد پیدا ہوگی اسے شیطان کبھی ضرر نہ دے سکے گا۔ حدیث کی شرح لکھنے والوں نے اس کے کئی معنی لکھے ہیں ان میں سے ایک مطلب یہ ہے کہ بچہ مرگی سے اور دیوانگی سے محفوظ رہے گا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ شیطان اس نومولود کے دین پر حملہ نہ کرسکے گا اس کی زندگی مسلمانوں والی ہوگی اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح) پھر فرمایا (وَعِدْھُمْ ) یہ بھی ابلیس کو خطاب ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو بنی آدم سے وعدے کرنا مثلاً یہ بتانا کہ باطل معبود سفارش کردیں گے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کیے بغیر نسب سے کام چل جائے گا اور یہ کہ کافر مشرک کا داخلہ دوزخ ہمیشہ کے لیے نہ ہوگا اور یہ کہ دنیا کی زندگی بہت بڑی ہے اس میں لگے رہو بڑھاپے میں اعمال صالحہ کو دیکھا جائے گا اور یہ کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا نہیں ہے (وغیرہ وغیرہ) ۔ ضروری نہیں کہ شیطان سب سے ایک ہی قسم کے وعدے کرتا ہو جس طرح موقعہ دیکھتا ہے الگ الگ وعدے کرتا ہے امیدیں دلاتا ہے اور راہ حق سے ہٹاتا ہے کافروں کے بہکانے اور کفر پر جمائے رکھنے کے طریقے اور ہیں اور اہل ایمان کو ایمان سے ہٹانے اور فرائض و واجبات سے غافل رکھنے اور اعمال صالحہ سے دور رکھنے کے طریقے دوسرے ہیں۔ (وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا) ابھی سلسلہ خطاب جاری ہے یہ جملہ معترضہ ہے مطلب یہ کہ بنی آدم سے شیطان جو بھی وعدے کرتا ہے اس کے یہ سب وعدے صرف دھوکے کے وعدے ہیں بنی آدم اس کی طرف سے چوکنے رہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64 اور اولاد آدم میں سے جس جس کو تو اپنی آواز اور چیخ و پکار سے اکھاڑ سکے اور اس کو اس کی جگہ سے ہلا سکے اور اکھیڑ سکے تو اکھیڑ دیجیو اور ہلا دیجیو اور ان پر اپنے سوار اور پیادوں کو چڑھا لائیو اور ان کے مال اور ان کی اولاد میں شریک ہو جائیو اور ان سے وعدے کیجیو اور شیطان اولاد آدم (علیہ السلام) سے جو وعدے کرتا ہے وہ وعدے نہیں ہوتے مگر فریب اور دھوکہ ۔ آواز یعنی وسوسہ اور اغوا اکھیڑنا یعنی راہ راست سے ان کا قدم ڈگمگانے اور ہلانے میں کسر نہ کیجیو لشکر چڑھالانا یعنی سب مل کر گمراہ کرنا مال اور اولاد کے ذریعے گمراہ کرنا جھوٹے وعدے کرنا یہ سب امور تہدیدی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ فحشاء اور گناہوں کی اجازت نہیں دیا کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ جو کیا جاسکے وہ کر لیجیو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مال میں ساجھا یہ کہ بتوں کی نیاز اپنے مال میں فرض سمجھتے ہیں اور اولاد میں یہ کہ ایک کو بتاتے ہیں فلانے کا بخشا ہے دوسرا فلانے کا بخشا 12