Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 67

سورة بنی اسراءیل

وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الۡبَحۡرِ ضَلَّ مَنۡ تَدۡعُوۡنَ اِلَّاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىکُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اَعۡرَضۡتُمۡ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ کَفُوۡرًا ﴿۶۷﴾

And when adversity touches you at sea, lost are [all] those you invoke except for Him. But when He delivers you to the land, you turn away [from Him]. And ever is man ungrateful.

اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When Harm befalls Them, the Disbelievers do not remember anyone except Allah Allah tells us that when harm befalls people, they call on Him, turning to Him and sincerely beseeching Him. Hence Allah says: وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ ... And when harm touches you upon the sea, those that you call upon vanish from you except Him... . meaning, everything they worship besides Allah disappears from their hearts and minds. Similar happened to Ikrimah bin Abi Jahl when he fled from the Messenger of Allah after the conquest of Makkah, and headed for Ethiopia. He set out across the sea to go to Ethiopia, but a stormy wind arose. The people said to one another: "None can save you except Allah Alone." Ikrimah said to himself, "By Allah if none can benefit on the sea except Allah then no doubt none can benefit on land except Allah. `O Allah! I promise You that if You bring me safely out of this, I will go and put my hand in the hand of Muhammad and surely, I will find him full of pity, kindness and mercy."' They came out of it safely and were delivered from the sea. Then Ikrimah went to the Messenger of Allah, and declared his Islam, and he became a good Muslim, may Allah be pleased with him. ... فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ... But when He brings you safe to land, you turn away. means, you forget what you remembered of Divine Oneness (Tawhid) when you were on the sea, and you turn away from calling on Him Alone with no partner or associate. ... وَكَانَ الاِنْسَانُ كَفُورًا And man is ever ungrateful. means, by nature he forgets and denies His blessings, except for those whom Allah protects.   Show more

مصیبت ختم ہوتے ہی شرک اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ بندے مصیبت کے وقت تو خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دلی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں وہ مصیبت اللہ تعالیٰ نے ٹال دی تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ فتح مکہ کے وقت جب کہ ابو جہل کا لڑکا عکرمہ حبشہ جانے کے ارادے سے...  بھاگا اور کشتی میں بیٹھ کر چلا اتفاقا کشتی طوفان میں پھنس گئی ، باد مخالف کے جھونکے اسے پتے کی طرح ہلانے لگے ، اس وقت کشتی میں جتنے کفار تھے ، سب ایک دوسرے سے کہنے لگے اس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے گا ۔ اسی کو پکارو ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہ کام آ سکتا ہے ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہی کام آ سکتا ہے ۔ اے اللہ میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقینا وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی خدمت میں حاصر ہوئے اور اسلام قبول کیا پھر تو اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ پس فرماتا ہے کہ سمندر کی اس مصیبت کے وقت تو اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہو لیکن جاتے ہو لیکن پھر اس کے ہٹتے ہی اللہ کی توحید ہٹا دیتے ہو اور دوسروں سے التجائیں کرنے لگتے ہو ۔ انسان ہے ہی ایسا ناشکرا کہ نعمتوں کو بھلا بیٹھتا ہے بلکہ منکر ہو جاتا ہے ہاں جسے اللہ بچا لے اور توفیق خیر دے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یہ مضموں پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] گرداب میں صرف اللہ کو پکارنا :۔ شیطانی اغوا کی کیفیت بیان کرنے کے بعد پھر سے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل ذکر کیے جارہے ہیں۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ جب ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی یا سمندر کے طوفانی تھپیڑے کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور کشتی والوں کو سب ظاہری اسباب ختم ہوتے...  نظر آنے لگتے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ کو پکارتے اور اپنے دوسرے سب معبودوں کو بھول جاتے تھے۔ اسی فطری داعیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور مختار کل ہونے کے ثبوت پر پیش فرمایا ہے اور باقی معبودوں کی تردید کی ہے مگر آج کا مشرک اس دور کے مشرکوں سے اپنے شرک میں پختہ تر نظر آتا ہے وہ اس آڑے وقت میں بھی && یا بہاول الحق، بیڑا بنے دھک && (یعنی اے بہاول الحق ! یہ کشتی پار لگا دو ) کا نعرہ لگاتا ہے۔ (قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 30؀) 9 ۔ التوبہ :30) ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سورة یونس کے حاشیہ نمبر ٣٤ میں ملاحظہ فرمائیے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ۔۔ : زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ نبوت کے کفار کی بت پرستی کے باوجود ان کی فطرت میں رکھی گئی توحید کا ذکر بطور دلیل ہو رہا ہے کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو پہاڑوں جیسی موجوں میں جہاز گھر جاتا ہے اور موت صاف نظر آنے لگتی ہے تو تم اپنے تمام خداؤں، داتاؤں، مشکل کشاؤ... ں اور حاجت رواؤں کو بھول کر اپنی فطرت میں رکھی ہوئی توحید کی وجہ سے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہو، پھر جب وہ تمہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو، جیسے اپنے رب سے تمہاری کوئی آشنائی ہی نہ تھی اور پھر اپنے خود ساختہ خداؤں کو پکارنے لگتے ہو اور انھی کا احسان ماننے لگتے ہو۔ کس قدر احسان ناشناسی اور ناشکری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مشرک انسان ہمیشہ سے بیحد ناشکرا رہا ہے۔ ” اَلْاِنْسَان “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس سے مراد کفار ہیں، کیونکہ مومن شکر گزار ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْر) [ سبا : ١٣ ] ” اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔ “ کفار کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (٢٢، ٢٣) ، عنکبوت (٦٥) ، لقمان (٣٢) اور زمر (٨) یہ تو زمانۂ جاہلیت کے ان لوگوں کا حال تھا جو مشرک تھے اور اللہ اور رسول نے انھیں مشرک قرار دیا، حالانکہ وہ سخت مصیبت میں صرف اللہ کو پکارتے تھے، مگر ہمارے زمانے کے بعض مسلمان کہلانے والوں کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی اللہ کے ساتھ یا اللہ کے علاوہ دوسروں کو مدد کے لیے پکارنا نہیں بھولتے، پھر بھی نہ ان کی توحید میں کوئی خلل آتا ہے، نہ اسلام کا کچھ بگڑتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَ... سَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ میا 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) اور جس وقت دریا میں تمہیں کوئی تکلیف یا غرق ہونے کا ڈر ہوتا ہے تو جن بتوں کو تم پوجتے ہو، سب کو چھوڑ دیتے ہو ان میں سے کسی سے بھی نجات کی درخواست نہیں کرتے، سوائے خدائے وحدہ لاشریک کے اسی کے سامنے نجات کی درخواست کرتے ہو۔ پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو پھر شکر خداوندی اور توحید خدا... وندی سے پھرجاتے ہو، واقعی کافر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا بڑا ناشکرا ہے  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ) جب کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے اور موت سامنے نظر آنے لگتی ہے تو : (ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ) اس وقت تمہیں اپنے ان معبودوں میں سے کوئی بھی یاد نہیں رہتا جنہیں تم عام حالات میں اپنا مددگار سمجھتے ہو۔ اس آڑے وقت میں تم صرف اللہ ہی کو مدد ... کے لیے پکارتے ہو۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آچکا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84. That is, this is a proof of the fact that your real nature knows no other Lord than Allah, and you feel in the depths of your hearts that He alone possesses the real power of every gain or loss. Had it not been so, man would never have invoked Allah at the time when he realized that no other helper could remove his misfortune.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :84 یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی ، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے ۔ ورنہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اس وقت تم ک... و ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا ؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٧:۔ اللہ پاک نے اس آیت میں انسان کی ناشکری کا حال بیان فرمایا کہ جب انسان کو کسی مصیبت سے پالا پڑتا ہے تو فقط خدا ہی یاد آتا ہے اور جب وہ مصیبت ٹل جاتی ہے وہی پہلی نافرمانیاں پھر کرنے لگتا ہے اور اسے یہ بھی تو یاد نہیں رہتا کہ اس پر کوئی وقت آیا تھا اور اس نے خدا کو پکار کر اس سے مدد چاہی تھی غرض ک... ہ یہ لوگ پرلے درجے کے ناشکرے ہیں اور تم جان لیتے ہو کہ اب ہم سب کے سب ڈوبے اور اس مرنے کے خیال کے آتے ہی اپنے سارے جھوٹے معبودوں کو بالکل بھول جاتے ہو اور نرے اللہ وحدہ لاشریک سے مدد چاہتے ہو اللہ پاک تمہاری منت وعاجزی پر رحم کھا کر گرداب بلا سے کشتیاں پار لگا دیتا ہے پھر تم خدا کو ایسا بھول جاتے ہو گویا کبھی یاد ہی نہیں کیا تھا۔ عکرمہ بن ابی جہل کا واقعہ ہے کہ جب یہ فتح مکہ کے دن حضرت صلعم سے ڈر کر بھاگے تو کشتیوں پر سوار ہو کر دریا کی راہ سے ملک حبشہ جانے لگے پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک تیز ہوا آئی جس سے کشتی تہ وبالا ہونے لگی کشتی پر جو لوگ سوار تھے وہ کہنے لگے کہ اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ نرے اللہ کو پکار کر مدد چاہو عکرمہ (رض) نے اس بات کو سن کر دل میں خیال کیا کہ اگر سوا اللہ کے اور کوئی دریا میں کچھ نفع نہیں دیتا تو خشکی میں بھی اور کوئی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور پھر یہ بات کہی کہ اے اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھ کو دریا سے صحیح وسالم نکال لایا تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دونگا غرض کہ کشتی پار ہوگئی اور سب لوگ بچ گئے عکرمہ اپنے عہد کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مسلمان ہوگئے اور بہت اچھے پکے مسلمان ہوئے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب (رض) رومی کی ایک حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ایماندار لوگ تکلیف و راحت کسی حال میں اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق صبر کرتے ہیں اور راحت کے وقت شکر ١ ؎۔ اس لیے ایماندار لوگوں کے لیے ہر حال میں بہتری ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ مصیبت اور تکلیف کے وقت تو مشرک لوگ بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں مگر تکلیف و راحت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا یہ ایمانداروں کا کام ہے ہر ایماندار آدمی کو راحت کے وقت شریعت کے اس قاعدہ کی پابندی ضروری ہے کیونکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا بڑا خوف تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگوں سے راحت کے وقت اس قاعدہ کی پابندی نہ ہوسکے گی چناچہ صحیح بخاری ومسلم ٢ ؎ میں عمرو بن عوف (رض) انصاری سے اور فقط صحیح مسلم ٣ ؎ میں ابوہررہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس خوف کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذاص ١٧ ج ٣۔ ٢ ؎ تفسیر ہذاص ١٨ ج ٣۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٤٠ کتاب الرقاق۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:67) ضل۔ ماضی بمعنی حال۔ گم ہوجاتے ہیں۔ غائب ہوجاتے ہیں۔ ضلال۔ گمراہ ہونا بھٹکنا ۔ ہلاک ہونا۔ راہ مستقیم سے بھٹک جانا۔ راہ سے دور جا پڑنا۔ نجکم۔ فعل ماضی واحد مذکر غائب۔ تنجیۃ (تفعیل) سے مصدر۔ کم ضمیر خطاب مفعول ۔ اس نے تم کو نجات دی۔ یہاں بمعنی حال آیا ہے جب وہ تم کو نجات دیتا ہے (زمین کی طرف) ... تم کو بچا لاتا ہے۔ مادہ ن ج و۔ اعرضتم۔ تم روگردانی کرلیتے ہو۔ تم منہ پھیر لیتے ہو۔ اعراض (افعال) ماضی جمع مذکر حاضر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ تو زمانہ جاہلیت نے ان لوگوں کا حال تھا جو مشرک تھے اور اللہ و رسول نے انہیں مشرک قرار دیا مگر ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی اللہ کے ساتھ یا اللہ کے علاوہ دوسروں کو مدد کے لئے پکارنا نہیں بھولتے اور پھر بھی ان کی توحید میں کوئی فرق نہیں آتا۔ 7 اس سے بڑھ ... کر احسان فراموشی اور کیا ہوگی کہ جونہی اپنا کام نکل گیا محسن کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ دل سے بھی کہ ان کا خیال نہیں آتا اور فریاد رسی سے بھی کہ وہ امداد نہیں کرسکتے جس سے بدلالت حال و مقال تمہارے اعتراف سے بطلان شرک لازم آتا ہے ،۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آپ اس کشتی رانی اور خوشگوار سفر کے دوران اچانک مشکلات اور اضطرابات سے دوچار ہوتے ہیں ، کشی موجوں کے تھپیڑوں میں گھری ہوتی ہے۔ وہ اس قدر ہچکولے کھاتی ہے کہ اس کے سواروں کو اب اللہ کے سوا تمام باطل الہہ بھول جاتے ہیں ۔ اب اس ہمہ گیر خطرے میں وہ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ کے سامنے دست بدعا...  ہوتے ہیں اور صرف اللہ کا پکارتے ہیں۔ ضل من تدعون الا ایاہ (٧١ : ٧٦) ” تو اس کے سوا تم جن جن کو پکارتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں “۔ لیکن انسان بہرحال انسان تو ہے ہی۔ جونہی یہ طوفان بیٹھتا ہے ، جونہی اس کے قدم خشکی پر پڑتے ہیں ، تو یہ کرب اور کو ف کے وہ لمحات فوراً بھول جاتا ہے ، پھر وہ اللہ کو بھی بھول جاتا ہے۔ اب وہ ہوا وہوس اور خواہشات اور چاہتوں کی موجوں میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اور سمندر کے خطرات میں اس کی حقیقی فطرت پر سے جو پردے ہٹ گئے تھے اور جو غبار چھٹ گئی تھی وہ دوبارہ آجاتی ہے۔ فلما نجکم……(٧١ : ٧٦) ” مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے “۔ مگر صرف وہ لوگ جن کے دل اللہ سے ملے ہوئے ہوں اور وہ نور ربانی سے منور ہوں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نہایت ہی موثر انداز ین ان کے شعور اور وجدان کو بیدار کرتا ہے کہ سمندر کے جن خطرات سے تم باہر نکل آئے ہو ، وہ تو دوسری شکلوں میں خشکی میں بھی تمہارا پیچھا کر رہے ہیں۔ نیز تم لوگ دوبارہ سمندر کے سفر پر بھی تو جاسکتے ہو ، مقصد یہ ہے کہ روحانی امن و سکون صرف اللہ کے ساتھ رابطے اور ذکر الٰہی ہی میں ملتا ہے۔ صرف اللہ کے جوار رحمت ہی میں سکون ملتا ہے ، حقیقی سکون۔ نہ سمندر میں اور نہ خشکی میں ، نہ خوشگوار سمندری سفر میں اور نہ ناقابل کنٹرول بحری امواج میں۔ نہ حصن حصین میں اور نہ محلات اور کوٹھیوں میں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد انسانوں کے شرک اختیار کرنے اور آڑے وقت میں باطل معبودوں کو چھوڑ کر معبود حقیقی ہی کی طرف متوجہ ہونے کا تذکرہ فرمایا۔ یہ انسان کا عجیب طریقہ کار ہے کہ اچھی حالت میں باطل معبودوں کی عبادت کرتا رہتا ہے اور پھر جب کسی بڑی مصیبت میں گھر گیا مثلاً دریا کے سفر میں گیا وہ کشتی ڈگمگانے لگی تو سارے ... معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور اللہ ہی سے مانگنے لگتا ہے اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے سمندر کی مصیبت سے نجات دے دیتا ہے اور عافیت کے ساتھ باسلامت خشکی میں پہنچا دیتا ہے تو پھر وہی پرانی حرکت کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روگردانی کرتا ہے اور شرک کرنے لگتا ہے۔ (وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا) (اور انسان بڑا ناشکرا ہے) یہ کتنی بڑی ناشکری ہے کہ جس ذات پاک نے انعام فرمایا کشتی کو بھنور سے نکالا۔ ہواؤں کے بھونچال سے نجات دی۔ انسان اسی نجات دینے والے کو بھول جاتا ہے۔ اور نجات پاکر پھر شرک کرنے لگتا ہے۔ کما قال تعالیٰ فی سورة الزمر (ثُمَّ اِِذَا خَوَّلَہٗ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُوْآ اِِلَیْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلّٰہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ) سورة عنکبوت میں فرمایا (نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَاھُمْ یُشْرِکُوْنَ لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

67 اور جب تم کو دریا میں کوئی آفت اور مصیبت پہونچتی ہے تو اس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے وہ سب معبود ان باطلہ جن کو تم پکارتے ہو تمہارے دلوں سے گم ہوجاتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ تم کو دریا سے خشکی کی جانب بچا لاتا ہے تو تم پھر سابقہ عادت کے موافق روگردانی اور اعراض کرنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا و... ر ناسپاس ہے۔ یعنی جب دریا میں ناموافق ہوا کی وجہ سے غرق ہونے کا خطرہ ہوجاتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں اور ایمان لانے کا وعدہ کرتے ہیں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو کمزور اور لغو سمجھ کر فراموش کردیتے ہو۔ لئن انجیتنا من ھذہ لنکونن من الشاکرین۔ اور جہاں نجات ملی اور خشکی پر اللہ تعالیٰ نے پہونچایا تب ہی اپنی جبلت کے موافق کفر کرنے لگے۔  Show more