Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 72

سورة بنی اسراءیل

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾

And whoever is blind in this [life] will be blind in the Hereafter and more astray in way.

اور جو کوئی اس جہان میں اندھا رہا ، وہ آخرت میں بھی اندھا اور راستے سے بہت ہی بھٹکا ہوا رہے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن كَانَ فِي هَـذِهِ أَعْمَى ... And whoever is blind in this, Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah and Ibn Zayd said: this means in this worldly life. أَعْمَى (blind), means, blind to the signs and proofs of Allah. ... فَهُوَ فِي الاخِرَةِ أَعْمَى ... then he will be blind in the Hereafter, as he was blind in this world. ... وَأَضَلُّ سَبِيلً and most astray from the path. most astray as he was in this world. We seek refuge with Allah from that.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 اَ عْمَیٰ (اندھا) سے مراد دل کا اندھا ہے یعنی جو دنیا میں حق کے دیکھنے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے محروم رہا، وہ آخرت میں اندھا، اور رب کے خصوصی فضل و کرم سے محروم رہے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یعنی دنیا میں ہدایت کے راستہ کو دیکھنے کی کوشش ہی نہ کی اور اندھا بنا رہا۔ وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور جنت کی راہ نظر ہی نہ آئے گی۔ دنیا میں اس کا اندھاپن اختیاری تھا اور اس کی اصلاح ممکن تھی۔ لیکن آخرت میں اس کا اندھا پن اضطراری ہوگا جو دنیا کے اندھا پن کے نتیجہ میں واقع ہوگا اور چونکہ اس کی اصلاح کی اب کوئی صورت ممکن نہ ہوگی نہ کسی دوسرے کا اسے راستہ دکھانا کام آسکے گا۔ لہذا ایسا شخص جنت سے دور ہی کہیں بھٹکتا رہے گا اور اسے صرف اپنے سامنے جہنم کے مختلف طرح کے عذاب ہی نظر آئیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى ۔۔ : اس سے مراد دل کا اندھا ہونا ہے، کیونکہ دنیا میں تو آنکھیں مسلم و کافر دونوں کو دی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ) [ الحج : ٤٦ ] ” پس بیشک قصہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں اور لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ “ وَاَضَلُّ سَبِيْلًا : زیادہ گمراہ اس لیے کہ دنیا میں گمراہ کے راہ راست پر آنے کی امید ہے، قیامت کو اس کا موقع نہیں ہوگا۔ یہاں اندھے اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور دوسرے مقامات پر ان کے دیکھنے کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ ) [ الکہف : ٥٣ ] ” اور مجرم لوگ آگ کو دیکھیں گے۔ “ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ قیامت کے پچاس ہزار سال کے برابر دن میں مجرموں پر مختلف احوال گزریں گے، وہ قبروں سے اٹھتے وقت اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، بعد میں دیکھنے، سننے اور بولنے کے مراحل سے بھی گزریں گے۔ ترجمان القرآن ابن عباس (رض) کی تطبیق یہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا 72؀ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ومن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی جو شخص اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا) حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ جو شخص اس دنیا کے اندر حق کے اعتقاد سے اندھا رہا جو اس دنیا کا متقضی ہے اس لئے کہ یہ دنیا اس کی آنکھوں کے سامنے ہے اور وہ بچشم خود اس کے انتظام، اس کی گردش اور اس کے اندر اللہ کی نعمتوں کی لگاتار آمد و رفت کا مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود حق سے بےبہرہ ہے تو ایسا شخص آخرت میں بھی جو اس کی نظروں سے پوشیدہ ہے اندھا ہی رہے گا اور راہ ہدایت پانے میں زیادہ ناکام ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) اور جو شخص دنیا میں ان نعمتوں کے شکر کی بجا آوری سے اندھا رہے گا وہ جنت کی نعمتوں سے بھی اندھا رہے گا اور زیادہ گمراہ ہوگا یا یہ کہ جو شخص اس دنیا میں راہ نجات اور حجت وبیان کے دیکھنے سے اندھا رہے گا اور زیادہ گمراہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا) جس شخص نے اس دنیا میں اپنی پوری زندگی حیوانوں کی طرح گزار دی جس کا دیکھنا اور سننا حیوانوں کا سا دیکھنا اور سننا تھا جس نے نہ تو انفس و آفاق میں بکھری ہوئی اللہ تعالیٰ کی اَن گنت نشانیوں کو چشم بصیرت سے دیکھا نہ ان کے ذریعے سے اپنے خالق ومالک کو پہچانا اس نے اپنی زندگی گویا اندھے پن میں گزار دی۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ اندھا ہوگا۔ اسی اندھے پن سے بچنے کے لیے علامہ اقبال نے کیا خوب نصیحت کی ہے : ” دیدن دگر آموز شنیدن دگر آموز ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: یہاں اندھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں حق کو دیکھنے سے محروم رہا، چنانچہ وہ آخرت میں بھی نجات کا راستہ نہیں دیکھ سکے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٢:۔ اوپر کی آیت میں اللہ پاک نے یہ بات بیان فرمائی تھی کہ آخرت میں جن لوگوں کے داہنے ہاتھ میں عمل کا کاغذ ہوگا وہ تو خوش ہو ہو کر پڑھیں گے اور دوسروں کو دکھلائیں گے۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کے اعمال نیک ہیں اب بائیں ہاتھ میں جن کے نامہ اعمال دیئے جائیں گے ان کے حق میں یہ آیت ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں راہ حق سے دور رہے اور اچھے برے میں انہوں نے تمیز نہیں کی گویا اندھے تھے کہ خدا کی ظاہر قدرت کو بھی دیکھ کر ایمان نہیں لائے۔ آسمان و زمین دریا پہاڑ اور بہتیری مخلوق خدا نے بنائی ہے وہ کل خدا کی توحید ثابت کر رہی ہے ان میں کسی ایک کے دیکھنے سے بھی راہ یاب نہ ہوئے ایسا شخص آخرت میں اندھا ہوگا بلکہ اور بھی گمرا ہوگا کیونکہ اگر وہاں غور وفکر کرنے پر ایمان کا ارادہ کرے گا تو کچھ حاصل نہ ہوگا سورة الحاقہ میں آئے گا کہ جن لوگوں کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جاویں گے وہ کہیں گے ہمارا نامہ اعمال اگر ہم کو نہ دیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ سورة الحاقہ کی آیتوں سے اس آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ اندھوں کی طرح نامہ اعمال کے پڑھنے سے گھبرائیں گی اس واسطے ان کو اندھا فرمایا۔ سورة الحاقہ کی آیتوں میں یہ بھی ہے کہ نامہ اعمال کے بائیں ہاتھ میں دیتے ہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہوجائے گا کہ یہ لوگ دوزخی ہیں اس لیے ان لوگوں کو بہشت کی راہ سے دور فرمایا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ١ ؎ کہ جو بائیں ہاتھ کے اعمالنامہ والے اپنے گناہوں کا انکار کریں گے ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جاکر ان کے ہاتھ پیروں سے سارے گناہوں کی گواہی ادا کرائی جائے گی اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس سے گناہوں کے منکر بائیں ہاتھ کے اعمالنامے والے لوگوں کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٤٠٩ ج ٢ فی بیان ان الا عضاء منطقتہ شاہدۃ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:72) اعمی۔ اندھا۔ عمی سے جس کے معنی بینائی کے مفقود ہوجانے کے ہیں خواہ یہ بینائی دل کی ہو یا آنکھوں کی۔ اضل ضلال سے اسم التفضیل کا صیغہ ہے بہت بہکا ہوا۔ زیادہ گمراہ۔ زیادہ راہ مستقیم سے ہٹا ہوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہدایت سے اندھے لوگ صرف خود گمراہ اور اندھے نہیں ہوتے۔ بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ اور اندھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ گمراہ لوگ انبیاء (علیہ السلام) کو ورغلانے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کی بھی یہی کوشش تھی کی کسی طرح آپ کو بہکا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طریقہ سے آپ کو بہکانے میں کامیاب ہوجائیں۔ ان کی سازشوں اور کوششوں کے پیش نظر آپ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ استعمال فرمائے۔ ان آیات کا ترجمہ بریلوی مکتبہ فکرکے ایک عالم نے اپنی تفسیر میں یوں کیا ہے۔ اے پیغمبر ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھا۔ اگر اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی۔ تو کفار کی سازشیں اور مخالفت اس قدر شدید تھیں کہ آپ بھی ان کی طرف جھک جاتے۔ اگر آپ جھک جاتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت میں دوگنا عذاب کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے الفاظ آپ کی ازواج مطہرات کے بارے میں بھی استعمال فرمائے ہیں۔ اے پیغمبر کے گھر والو ! اگر تم میں سے کوئی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے تو اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں۔ (الاحزاب : ٣٠) (ضیاء القرآن) انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ آپ کو بر گشتہ کردیں۔ اس کتاب سے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ ہماری طرف بہتان منسوب کریں۔ اس صورت میں وہ آپ کو اپنا گہرادوست بنا لیں گے (٧٣) اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ ضرور مائل ہوجاتے ان کی طرف کچھ نہ کچھ۔ (٧٤) بفرض محال اگر آپ ایسا کرتے تو اس وقت ہم آپ کو چکھاتے دوگنا عذاب، موت کے بعد۔ پھر آپ نہ پاتے اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار۔ ان آیات میں ایک طرف کفار کی سازشوں اور مذموم کوششوں کا ذکر ہے اور دوسری طرف ان الفاظ میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثابت قدمی اور استقامت کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد اور بےمثال استقامت دیکھ کر بالآخر کفار ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ مسائل ١۔ جو کوئی اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راہ حق سے بھٹکانہ چاہتے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق پر قائم رہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔ ٥۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے پیچھے لگتے تو آپ کو دوگنا عذاب کا سامنا کرنا پڑتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا : ١۔ پھر ہم تجھے دنیا اور آخرت میں دو گنے عذاب سے دو چار کرتے اور آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٢۔ پھر وہ اپنا کوئی دوست اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الفتح : ٢٢) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھلائی یا برائی کا ارادہ کرے تو کوئی اس سے آپ کو بچا نہیں سکتا۔ (الاحزاب : ١٧) ٤۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

72 اور جو شخص اس عالم میں راہ حق سے اندھا بنا رہا تو وہ آخرت میں بھی راہ نجات پانے سے اندھا ہی رہے گا اور اس عالم سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہوگا۔ یعنی دنیا میں تو راہ حق بتانے والے موجود تھے اور وہاں کوئی راہ بتانے الا بھی نہ ہوگا وانی لھم التناوش من مکان بعید۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ہدایت سے اندھا رہا ویسا ہی آخرت میں بہشت کی راہ سے اندھا ہے اور دور پڑا ہے۔ 12 اوپر ذکر تھا اصحاب یمین کا اور یہ لوگ اصحاب الشمال ہوں گے جن کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔