Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 8

سورة بنی اسراءیل

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾

[Then Allah said], "It is expected, [if you repent], that your Lord will have mercy upon you. But if you return [to sin], We will return [to punishment]. And We have made Hell, for the disbelievers, a prison-bed."

امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے ۔ ہاں اگر تم پھر بھی وہی کرنے لگے تو بھی ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم کوبنا رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

عَسَى رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ ... with utter destruction. It may be that your Lord may show mercy unto you, meaning that He may rid you of them. ... وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا ... but if you return (to sins), We shall return (to Our punishment). meaning, if you return to causing mischief, عُدْنَا (We shall return) means, We `will once again punish you in this world, along with the punishment and torment We save for you in the Hereafter.' ... وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا And We have made Hell a prison (Hasir) for the disbelievers. meaning, a place of permanent detention, a prison which cannot be avoided or escaped. Ibn Abbas said, "Hasir here means a jail." Mujahid said, "They will be detained in it." Others said like- wise. Al-Hasan said, "Hasir means a bed of Fire." Qatadah said: "The Children of Israel returned to aggression, so Allah sent this group against them, Muhammad and his companions, who made them pay the Jizyah, with willing submission, and feeling themselves subdued."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یہ انھیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کرلی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کردیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرچکے ہیں چناچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کرچکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انھیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ 8۔ 2 یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انھیں بھگتنا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] دور نبوی میں یہود کی فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ دو بار کی انتہائی سرکشی اور اس کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد دور نبوی کے یہود کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر تم نے اس نبی آخرالزمان سے وہی سرکشی اور بغاوت جاری رکھی جو تم سابقہ انبیاء کے وقت کرتے رہے تو پھر تمہیں ایسی ہی سزا ملے گی جیسے پہلے مل چکی ہے لیکن اس تنبیہ کا بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور یہود مدینہ نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کی بجائے آپ سے بدعہدیاں، شرارتیں اور فتنہ انگیزیاں ہی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں انھیں یہ سزا ملی کہ کچھ قتل کیے گئے، کچھ غلام بنائے گئے اور کچھ جلا وطن کیے گئے۔ حتیٰ کہ دور فاروقی میں سب یہود وہاں سے نکال کو خطہ عرب کو ان سے خالی کرا لیا گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ : یہ اللہ کی رحمت کا بیان ہے کہ اتنی سرکشی اور سزا کے بعد بھی اگر تم واپس پلٹ آؤ اور حد سے بڑھی ہوئی اس دوسری سرکشی اور اس کی وجہ سے ناقابل بیان تباہی سے دو چار ہونے کے بعد بھی تورات و انجیل میں مذکور نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرو تو پوری امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف کی آیات (١٥٦، ١٥٧) میں فرمایا کہ میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو اس رسول کی پیروی کریں گے جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ چناچہ اس بشارت کے مطابق جو اسرائیلی، مثلاً عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے وہ رحمت الٰہی کے حق دار بن گئے۔ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا : یعنی اگر تم پھر دوبارہ حد سے بڑھے اور فساد کبیر کے مرتکب ہوئے تو ہم دوبارہ تمہارے ساتھ وہی پہلے جیسا سلوک کریں گے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ نے یہود مدینہ کے ساتھ صلح کے ساتھ رہنے کا اور متحد ہو کر حملہ آور دشمن کا مقابلہ کرنے کا معاہدہ کیا، مگر بنوقینقاع نے ایک مسلم خاتون کی بےحرمتی کی، پھر معاہدہ توڑ دیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور آخر کار انھیں مدینہ سے جلا وطن کردیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ کسی معاملے کے لیے بنونضیر قبیلہ میں تشریف لے گئے تو انھوں نے آپ کو چھت سے پتھر گرا کر شہید کرنے کی سازش کی، جو آپ کے علم میں آگئی، آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا، وہ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ان کی کتاب تورات میں مذکور سزا دینے کا ارادہ کیا، مگر ان کے ہمدرد عبداللہ بن ابی منافق کے حد سے بڑھے ہوئے اصرار پر آپ نے ان کی جاں بخشی کرکے انھیں بھی جلاوطن کردیا۔ پھر تیسرے قبیلے بنوقریظہ نے خندق کے موقع پر جب دس ہزار کفار کے لشکر جرار نے مدینہ جیسی چھوٹی سی بستی پر یلغار کرکے محاصرہ کیا ہوا تھا، انھوں نے عین حالت جنگ میں معاہدہ توڑ کر دشمن کا ساتھ دیا، تو حملہ آوروں سے فارغ ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ وہ مقابلہ نہ کرسکے تو مسلمانوں میں سے اپنے پرانے خیر خواہ اور ہمدرد سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے پر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا، اگر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر حوالے ہوتے تو شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پہلے قبیلوں کی طرح رعایت فرماتے، مگر جب انھوں نے سعد بن معاذ (رض) کو حکم مانا، اس امید پر کہ وہ عبداللہ بن ابی منافق کی طرح ہماری پرانی دوستی کا خیال رکھیں گے تو سعد (رض) نے فرمایا : ” اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کا حکم نافذ کرنے کے راستے میں کوئی دوستی حائل نہ ہو۔ “ چناچہ انھوں نے وہ فیصلہ کیا جو تورات میں مذکور تھا اور جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ کا فیصلہ قرار دیا۔ چناچہ ان کے تمام بالغ مرد جو سات سو تھے، قتل کردیے گئے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنا لیا گیا۔[ دیکھیے بخاری، المغازی، باب مرجع النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب۔۔ : ٤١٢٢ ] یہ ” وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا “ کی ایک تفسیر تھی۔ پھر خیبر والوں نے عبداللہ بن عمر (رض) کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو امیر المومنین عمر بن خطاب نے تمام یہود و نصاریٰ کو پورے جزیرۂ عرب سے جلا وطن کردیا۔ پھر اللہ کے وعدے کے مطابق ان کی ہر سرکشی پر ان کی سرکوبی کرنے والا کوئی نہ کوئی فرماں روا ہمیشہ ان کا بندوبست کرتا رہا۔ (دیکھیے اعراف : ١٦٧) قریب زمانے میں ہٹلر نے انھیں عبرت ناک انجام سے دو چار کیا۔ اب تمام کفار نصاریٰ ، کمیونسٹوں اور بت پرست ہندوؤں کی پشت پناہی سے، پھر یہ لوگ فلسطین میں قدس پر قبضہ کرکے اپنی ریاست اسرائیل کے نام سے بنا کر فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور مسلم دشمنی کی وجہ سے تمام کفار ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس کے وعدے کے مطابق عنقریب ان کے ساتھ دوبارہ وہی کچھ ہونے والا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آ کر رہے گا جب مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں پتھر اور درخت بھی ان کے قتل کے لیے مسلمانوں کو ان کی اطلاع دیں گے، جیسا کہ اس سے پہلے صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جسے نافذ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بنی اسرائیل کی یہ ساری داستان مسلمانوں کو عبرت کے لیے سنائی گئی ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا :” حَصِيْرًا “ یا تو ” حَصَرَ یَحْصُرُ حَصْرًا “ (ن) سے ہے، جس کا معنی قید کرنا، گھیرنا ہے، یعنی قید خانہ، یا مراد وہ حصیر (چٹائی) ہے جو بچھائی جاتی ہے، یعنی جہنم ان کا بچھونا بنے گی، جیسا کہ فرمایا : (لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ ) [ الأعراف : ٤١ ] ” ان کے لیے جہنم کے بستر ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After having mentioned these two events, Allah Ta’ ala declared His Law in such matters by saying: إِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (If you do this again, We shall do that again - 8). This law which means - if you return to disobedience and contumacy, We shall, once again, make a similar penalty and pun¬ishment zoom back upon you& - has been declared as valid right through the last day of Qiyamah. That its addressees were the people of Bani Isra&il who were present during the blessed time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) serves as a reminder to them. It is being pointed out to them that they should not forget that they were seized by divine punishment twice when they had first opposed the code of Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، and then the code of Sayyidna &Isa (علیہ السلام) . Now this was the period of the Code of laws brought by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This was a period that will continue up to the Last Day. Let them, therefore, realize that the fate of those who chose to be hostile to it will turn out to be no different. Consequently, this was actually happened. These people became hostile to Islam and the religious code of laws brought by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When they did that, they were expelled and disgraced at the hands of Muslims, and finally Baytul-Maqdis, their Qiblah, too came under Muslim control. However, the only difference was that their past conquering kings had treated them disgracefully and had desecrated their Qiblah too. Now when Muslims took over Baytul-Maqdis, they reconstructed the great Mosque of al-Quds ash-Sharif which was lying demolished and desolate for centuries and thereby reinstated the honor and reverence of the Qi¬blah of prophets. The events of Bani Isra&il are a lesson for Muslims and what has happened to Baytul-Maqdis in our time is a part of the same chain Obviously, the purpose of narrating these events relating to the Bani Isra&il in the Qur&an and making Muslims listen to them is to let Muslims understand that they are no exceptions to this divine law. Be it this mortal world or the eternal universe of their Faith, their honor and as¬cendancy, possessions and wealth are inseparably tied with obedience to Allah. Whenever they veer away from their obedience to Allah and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) their enemies and disbelieving tyrants of all sorts shall be empowered to prevail over them. When this happens, the desecration of their places of worship will also not remain too far. The calamity of the Jewish usurpation of Baytul-Maqdis in our time and the added sacrilege of setting fire to it has thrown the world of Islam into acute anxiety. In reality, it is confirming the Qur&an. Muslims forgot Allah and His Rasul (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ignored the life waiting for them in the Hereafter and opted to scrounge for their share in the glamour and grandeur of the mortal world. When they became aliens to the dictates of the Qur’ an, and Sunnah, the same divine law stood activated before them. A few hundred thousand Jews overcame them. They also inflicted the loss of life and property on them. Worse still is the fate of one of the three great¬est mosques of the world according to the religious law of Islam, a mosque that has the distinction of being the Qiblah of all prophets. It was snatched from them and those who took it over had a track record of being the most disgraced people in this world, that is, the Jews. In addi¬tion to that, it is common observation that these people stand nowhere close to Muslims in terms of their numbers, nor do they have some signif-icant superiority over the current collective Muslim holdings of war mate¬rials. This also tells us that this event does not really give Jews any niche of honour in the annals of world nations. However, it does provide punishment for Muslims in return for their disobedience. It clearly shows that everything that came to pass came as the punishment of our own misdeeds. And it also shows that there is no remedy for it except that we should feel ashamed of our misdeeds, make a genuine taubah (repentance), start obeying the commandments of Allah, become true Muslims and shun the great sins of imitating and trusting others. If we were to do just that, insha&Allah, true to the Divine promise, Baytul-Maq¬dis and Palestine shall return to us. But, it is regrettable that the pre¬sent-day Arab rulers and common Muslims living in Arab lands have yet to be alerted to that reality. They are still relying on foreign assistance while making plans of taking Baytul-Maqdis back, something that does not appear to be probable, at least outwardly. Where else shall we lodge our plaint but Allah! The only weapon system and military hardware with which Baytul-Maqdis and Palestine can return to Muslim hands are still there waiting to be picked up - Return to Allah, genuinely and passionately. Have certitude of Akhirah. Obey the injunctions of the Shari&ah. Stay away from imitating and trusting others in our social and political goals. Finally, let us place our trust in Allah and wage a purely Islamic Jihad as enjoined by the Shari&ah. May Allah Ta` ala give our Arab rulers and other Muslims the ability to answer the challenge effectively. A strange coincidence Allah Ta` ala has made two places on this Earth to serve as the Qi¬blah or orientation for those who worship Him, the Baytul-Maqdis and the Baytullah. But, the divine law relating to each of them is different. That Baytullah shall be protected and that disbelievers shall never take it over is a security concern that Allah Ta’ ala has taken it upon Himself. The Event of the Elephant mentioned in Surah al-Fil (105) of the Holy Qur&an came as its result. When the Christian king of Yaman (Abrahah al-Ashram) invaded Baytullah, Allah Ta’ ala destroyed him and his army along with the contingent of elephants he had brought, through birds, much before he could reach Baytullah. But, this law does not apply in the case of Baytul-Maqdis. Instead, as the verses cited above tell us, when Muslims go astray and start indulg¬ing in disobedience and sin, this Qiblah will be snatched away from them and it will pass into the control of disbelievers. Disbelievers too are the servants of Allah, but not among the accepted ones About the first event (5), the Holy Qur’ an said: When the people of Faith start letting them be seduced to discord, sin, disobedience and dis¬order, Allah Ta’ ala shall set upon them such servants of His as would break into their homes killing and plundering. At this place, the Qur’ an has used the expression: عِباداً لَّنَا (` ibadal-lana: Some servants belonging to Us) and not: عِبَادَنَا (` ibadana: Our servants) - even though it was brief. There is wisdom behind it. Is it not that the attribution of a servant to Allah is, for him, the greatest conceivable honor? This is similar to what we have explained at the beginning of this very Surah under our com¬ments on the first verse: أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ (asra& bi` abdihi: made His servant travel at night). There it was said that certainly great was the honour and nearness the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was blessed with during the night of the Mi` raj. But, when the Qur&an describes this event, it does not mention ei¬ther his blessed name or some attribute. It simply said: عَبْدِهِ (abdihi: His servant). This tells us that the ultimate perfection a human person can have, and the highest station he can occupy, is that Allah Ta’ ala chooses to cherish a servant by calling him &His& servant. In the verse under refer¬ence, the people who meted out the punishment to the Bani Isra&il were kafirs, or disbelievers after all. Therefore, instead of calling them: عِبَادِنَا (Our servants), Allah Ta’ ala has broken the element of attribution and connection and said: عِبَاداًلَّنا (some servants belonging to Us). Thus, a hint has been given here that all human beings are nothing but servants of Allah as created, but because of the absence of &Iman or faith, they are not the kind of accepted servants who could be attributed directly to Allah Ta` ala.

ان دونوں واقعات کے ذکر کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان معاملات میں اپنا ضابطہ بیان فرما دیا وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا یعنی اگر تم پھر نافرمانی اور سرکشی کی طرف لوٹو گے تو ہم پھر اس طرح کی سزاء و عذاب تم پر لوٹا دیں گے یہ ضابطہ قیامت تک کے لئے ارشاد ہوا ہے اور اس کے مخاطب وہ بنی اسرائیل تھے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں موجود تھے جس میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ جس طرح پہلے شریعت موسویہ کی مخالفت سے اور دوسری مرتبہ شریعت عیسویہ کی مخالفت سے تم لوگ سزا و عذاب میں گرفتار ہوئے تھے اب تیسرا دور شریعت محمدیہ کا ہے جو قیامت تک چلے گا اس کی مخالفت کرنے کا بھی وہی انجام ہوگا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان لوگوں نے شریعت محمدیہ اور اسلام کی مخالفت کی تو مسلمانوں کے ہاتھوں جلا وطن اور ذلیل و خوار ہوئے اور بالآخر انکے قبلہ بیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا فرق یہ رہا کہ پیچھلے بادشاہوں نے ان کو بھی ذلیل و خوار کیا تھا اور ان کے قبلہ بیت المقدس کی بےحرمتی بھی کی تھی اب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو مسجد بیت المقدس جو صدیوں سے منہدم اور غیر آباد پڑی تھی اس کو از سر نو تعمیر کیا اور اس قبلہ انبیاء کے احترام کو بحال کیا۔ واقعات بنی اسرائیل مسلمانوں کے لئے عبرت میں موجودہ واقعہ بیت المقدس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے : بنی اسرائیل کے یہ واقعات قرآن کریم میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو سنانے سے بظاہر مقصد یہی ہے کہ مسلمان بھی اس ضابطہ الہیہ سے مستثنی نہیں ہیں دنیا ودین میں ان کی عزت و شوکت اور مال و دولت اطاعت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہیں جب وہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے انحراف کریں گے تو ان کے دشمنوں اور کافروں کو ان پر غالب اور مسلط کردیا جائے گا جن کے ہاتھوں ان کے معاہدہ ومساجد کی بےحرمتی بھی ہوگی۔ آج کل جو حادثہ فاجعہ بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضہ کا اور پھر اس کو آگ لگانے کا سارے عالم اسلام کو پریشان کئے ہوئے ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ اسی قرآنی ارشاد کی تصدیق ہو رہی ہے مسلمانوں نے خدا و رسول کو بھلایا آخرت سے غافل ہو کر دنیا کی شان و شوکت میں لگ گئے اور قرآن وسنت کے احکام سے بیگانہ ہوگئے تو وہ ہی ضابطہ قدرت الہیہ سامنے آیا کہ کروڑوں عربوں پر چند لاکھ یہودی غالب آگئے انہوں نے ان کی جان ومال کو بھی نقصان پہنچایا اور شریعت اسلام کی رو سے دنیا کی تین عظیم الشان مسجدوں میں سے ایک جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ رہا ہے وہ ان سے چھین لیا گیا اور ایک ایسی قوم غالب آگئی جو دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار سمجھی جاتی رہی ہے یعنی یہود اس پر مزید مشاہدہ ہے کہ وہ قوم نہ تعداد میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت رکھتی ہے اور نہ مسلمانوں کے مجموعی موجودہ سامان حرب کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ واقعہ یہود کو کوئی عزت کا مقام نہیں دیتا البتہ مسلمانوں کے لئے ان کی سرکشی کی سزا ضرور ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہماری بداعمالیوں کی سزاء کے طور پر ہوا اور اس کا علاج بجز اس کے کچھ نہیں کہ ہم پھر اپنی بداعمالیوں پر نادم ہو کر سچی توبہ کریں احکام الہیہ کی اطاعت میں لگ جائیں سچے مسلمان بنیں غیروں کی نقالی اور غیروں پر اعتماد کے گناہ عظیم سے باز آجائیں تو حسب وعدہ ربانی انشاء اللہ تعالیٰ بیت المقدس اور فلسطین پھر ہمارے قبضہ میں آئے گا مگر افسوس یہ ہے کہ آج کل کے عرب حکمران اور وہاں کے عام مسلمان اب تک بھی اس حقیقت پر متنبہ نہیں ہوئے وہ اب بھی غیروں کی امداد پر سہارا لگائے ہوئے بیت المقدس کی واپسی کے پلان اور نقشے بنا رہے ہیں جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا فالی اللہ المشتکی۔ وہ اسلحہ اور سامان جس سے بیت المقدس اور فلسطین پھر مسلمانوں کو واپس مل سکتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف انابت ورجوع آخرت پر یقین احکام شرعیہ کا اتباع اپنی معاشرت اور سیاست میں غیروں پر اعتماد اور ان کی نقالی سے اجتناب اور پھر اللہ پر بھروسہ کر کے خالص اسلامی اور شرعی جہاد ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عرب حکمرانوں اور دوسرے مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرما دیں ایک عجیب معاملہ : اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں اپنی عبادت کے لئے دو جگہوں کو عبادت کرنے والوں کا قبلہ بنایا ہے ایک بیت المقدس دوسرا بیت اللہ مگر قانون قدرت دونوں کے متعلق الگ الگ ہے بیت اللہ کی حفاظت اور کفار کا اس پر غالب نہ آنا یہ اللہ نے خود اپنی ذمہ لے لیا ہے اس کا نتیجہ وہ واقعہ فیل ہے جو قرآن کریم کی سورة فیل میں ذکر کیا گیا ہے کہ یمن کے نصرانی بادشاہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے معہ اس کے ہاتھیوں کی فوج کے بیت اللہ کے قریب تک جانے سے پہلے ہی پرندے جانوروں کے ذریعہ ہلاک و برباد کردیا۔ لیکن بیت المقدس کے متعلق یہ قانون نہیں بلکہ آیات مذکورہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب مسلمان گمراہی اور معاصی میں مبتلا ہوں گے تو ان کی سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ بھی چھین لیا جائے گا اور کفار اس پر غالب آجائیں گے۔ کافر بھی اللہ کے بندے ہیں مگر اس کے مقبول نہیں : مذکور الصدر پہلے واقعہ میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب اہل دین فتنہ و فساد پر اتر آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کر دینگے جو ان کے گھروں میں گھس کر ان کو قتل و غارت کریں گے اس جگہ قرآن کریم نے لفظ عِبَادًا لَّنَآ فرمایا ہے عِبَادَنَا نہیں کہا حالانکہ وہ مختصر تھا حکمت یہ ہے کہ کسی بندہ کی اضافت ونسبت اللہ کی طرف ہوجانا اس کے لئے سب سے بڑا اعزاز ہے جیسا کہ اسی سورة کے شروع میں اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ کے تحت میں یہ بتلایا جا چکا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو انتہائی اعزاز اور غایت قرب شب معراج میں نصیب ہوا قرآن نے اس واقعہ کے بیان میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی یا کوئی صفت بیان کرنے کے بجائے صرف بِعَبْدِهٖ کہہ کر یہ بتلا دیا کہ انسان کا آخری کمال اور انتہائی اونچا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا بندہ کہہ کر نوازیں آیت مذکورہ میں جن لوگوں سے بنی اسرائیل کی سزاء کا کام لیا گیا یہ خود بھی کافر تھے اس لئے حق تعالیٰ نے ان کو عِبَادَنَا کے لفظ سے تعبیر فرمانے کے بجائے اضافت ونسبت کو توڑ کر عِبَادًا لَّنَآ فرمایا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تکوینی طور پر تو سارے ہی انسان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں مگر بغیر ایمان کے مقبول بندے نہیں ہوتے جن کی نسبت واضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاسکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا ۝ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ حصر الحَصْر : التضييق، قال عزّ وجلّ : وَاحْصُرُوهُمْ [ التوبة/ 5] ، أي : ضيقوا عليهم، وقال عزّ وجل : وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء/ 8] ، أي : حابسا . قال الحسن : معناه : مهادا «5» ، كأنه جعله الحصیر المرمول کقوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ [ الأعراف/ 41] فحصیر في الأول بمعنی الحاصر، وفي الثاني بمعنی المحصور، فإنّ الحصیر سمّي بذلک لحصر بعض طاقاته علی بعض، وقول لبید : 114- ومعالم غلب الرّقاب كأنهم ... جنّ لدی باب الحصیر قيام «6» أي : لدی سلطان «7» ، وتسمیته بذلک إمّا لکونه محصورا نحو : محجّب، وإمّا لکونه حاصرا، أي : مانعا لمن أراد أن يمنعه من الوصول إليه، وقوله عزّ وجلّ : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران/ 39] ، ( ح ص ر ) الحصر ( ن ) کے معنی تضییق یعنی تنگ کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا :۔ اور گھیر لو یعنی انہیں تنگ کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء/ 8] اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنا رکھا ہے ۔ میں حصیر کے معنی روکنے والا کے ہیں ۔ حسن نے کہا ہے کہ حصیر کے معنی مھاد یعنی بچھونے کے ہیں گویا ان کے نزدیک اس سے حصیر مرموں یعنی چنائی مراد ہے اور چٹائی کو حصیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ریشے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ اور لبید کے شعر ع ( الکامل ) (110) ومقامۃ غلب الرقاب کانھم جن لدی باب الحصیر قیام اور بہت سے موٹی گردنوں والے بہادر ہیں جو بادشاہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے حنات معلوم ہوتے ہیں میں حصیر کے معنی بادشاہ کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) عجب نہیں کہ (اگر تم شریعت محمدیہ کی پیروی کرو) تو تمہارا پروردگار اس کے بعد تم رحم فرمائے، اور اگر تم پھر وہی شرارت کرو گے تو ہم بھی پھر وہی سزا کا برتاؤ کریں گے اور اگر تم نیکیاں کرو گے تو ہم بھی رحمتیں نازل فرمائیں گے اور ہم نے جہنم کو ایسے کافروں کا جیل خانہ بنا رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا) اگر تم نے پہلے کی طرح ہماری نا فرمانیوں اور احکام شریعت سے اعراض کی روش اختیار کی تو ہم بھی اسی طرح پھر تمہیں سزا دیں گے۔ (وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا) نافرمانیوں کی سزا دنیا میں تو ملے گی ہی جبکہ جہنم کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا۔ جس طرح جانوروں کو گھیر کر باڑے میں بند کردیا جاتا ہے اسی طرح آخرت میں اللہ کے نافرمانوں کو اکٹھا کر کے جہنم کے قید خانے میں دھکیل دیا جائے گا۔ (اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ ! )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10. Though this admonition has been given as a parenthesis at the end of the address to the children of Israel, it does not mean that this and the address itself are solely meant for them. As a matter of fact, the whole address is really directed towards the disbelievers of Makkah but, instead of addressing them directly, some important historical events from the history of the children of Israel have been cited in order to serve as admonition for them.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :10 اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں ۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں ، مگر چونکہ ان کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے ، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرما دیا گیا تا کہ ان اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:8) عسی ربکم ان یرحمکم۔ (عجب نہیں کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے) یہ خطاب ان اسرائیلیوں سے ہے جو قرآن کے معاصر اور براہ راست مخاطب تھے۔ اس سے قبل ان تبتم عن المعاصی وتؤمنوا باللہ وبرسولہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) محذوف ہے یہ اس جملہ شرطیہ کا جواب ہے عسی ربکم ان یرحمکم۔ ان عدتم۔ یہ جملہ شرطیہ ہے اگر تم سرکشی کی طرف دوبارہ پھرے۔ عدنا۔ جوابِ شرط۔ تو (اس کی سزا و عذاب دینے کے لئے) ہم بھی دوبارہ (ایسا ہی) کریں گے (جیسا کہ پہلے تمہیں سزا دی تھی) عاد یعود عود (باب نصر) پھر آنا۔ پھر کرنا۔ کسی چیز سے ہٹ جانے کے بعد پھر اس کی طرف لوٹنا۔ یہاں ماضی بمعنی مستقبل ہے۔ یعنی اگر تم سرکشی کی طرف دوبارہ پھر تو پھر ہم بھی دوبارہ سزا دہی کی طرف رجوع کریں گے۔ حصیرا۔ زندان خانہ۔ قید خانہ ۔ بندی خانہ۔ حصر سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ بمعنی فاعل بھی ہوسکتا ہے کیونکہ قید خانہ روکنے والا ہوتا ہے اور بمعنی مفعول بھی کیونکہ وہ رکا ہوا ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی قتل اور قید ہوگئے اور جلا وطنی یا جزیہ کی ذلت برداشت کرنا پڑیگی۔ چناچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو مسلسلمانوں کے ہاتھوں میں سزا ملی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ چناچہ حضور کے وقت میں انہوں نے آپ کی مخالفت کی، پھر قتل اور قید اور ذلیل ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

عسبی ربکم ان یرحمکم (٧١ : ٨) ” ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر حم کرے “۔ اگر تم اپنی تاریخ سے عبرت حاصل کرو۔ لیکن یاد رکھو اگر تم نے سرکشی کا یہ عمل پھر دہرایا تو اس کے نتائج پھر ظاہر ہوں گے۔ اللہ کی سنت جاری وساری ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ وان عدتم عدنا (٧١ : ٨) ” لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے “۔ ہاں انہوں نے پھر فساد کیا ، اللہ نے ان پر مسلمانوں کو مسلط کردیا اور ان کو جزیرۃ العرب سے خارج ۔۔ کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے پوری دنیا میں فساد کیا تو اللہ نے ان پر اپنے اور بندوں کو مسلط کردیا اور ہٹلر نے ان کی گوشمالی کی۔ اور دور حاضر ہوں انہوں نے پھر فساد اور سرکشی شروع کردی ہے۔ اسرائیل کی شکل میں منطم ہو کر انہوں نے پورے شرق اوسط کو مصائب میں مبتلا کردیا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان پر اللہ کسی ایسی قوم کو مسلط کردے جو ان کو ان کی سرکشی کی پوری سزا دے تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو اور اللہ کا وعدہ ہمیشہ پورا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ قطعی ہے کہ اگر تم نے پھر ایسا کیا تو ہم ۔۔ ایسا کریں گے۔ اور وہ وقت دور نہیں کہ بنی اسرائیل اپنے کیے کا مزہ چکھ لیں۔ اب یہاں سیاق کلام اہل کفر کے اخروی انجام کی طرف ہوجاتا ہے کیونکہ اکثر مقصد ۔۔ کافر ہی ہوتے ہیں ان کے درمیان یک رنگی ہوتی ہے۔ وجعلنا جھنم لککفرین حصیرا (٧١ : ٨) ” اور کافروں کے لئے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا دیا ہے “۔ یہ جہنم اس طرح ان کو گھیر لے گی کہ ان میں سے کوئی اسے بچ کر نہ نکل سکے گا۔ یہ جہنم اس قدر وسیع ہوگی کہ سب اس میں سماجائیں گے۔ سبق کے اس حصے میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ پہلو بیان ہوا کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی کہ یہ لوگ اس سے ہدایت لیں۔ لیکن انہوں نے ہدایت نہ لی بلکہ گمراہ ہوئے اور اللہ کی ہلاکت نے ان کو آلیا۔ اب سیاق کلام قرآن کریم کی طرف منتقل ہوجاتا ہے کہ اس طرح یہ قرآن بھی نہایت ہی ٹھوس تعلیمات پیش کر رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا) (اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے حصیر بنا دیا) حصیر کا ترجمہ بعض حضرات نے سجن یعنی جیل خانہ کیا ہے کیونکہ یہ حصر یحصر سے ماخوذ ہے جو روکنے کے معنی میں آتا ہے اور حضرت حسن نے فرمایا کہ اس سے فراش یعنی بچھونا مراد ہے حصیر چٹائی کو کہتے ہیں اسی نسبت سے انہوں نے اس کا یہ معنی لیا ہے آیت کریمہ (لَھُمْ مِّنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍ ) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ اس کے بعد اگر تم ٹھیک راہ پر چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ تم پر مہربانی فرمائے گا اور تمہیں دنیا میں اقتدار اور غلبہ دے گا لیکن اگر پھر تم نے راہ فساد اختیار کی تو پھر دنیا میں ویسا ہی عذاب دیں گے اور آخرت میں جہنم میں قید کیے جاؤ گے۔ یہ یہودی کب باز آنے والے تھے چناچہ اس کے بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی، آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، آپ پر جادو کرنے کی کوشش کی اور کھانے میں آپ کو زہر دیا تو دنیا میں یہ سزا ملی کہ کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور باقیوں نے ذلت سے جزیہ دینا قبول کیا۔ وعاد بنو قریظۃ و بنو النضیر و اشباھہم فارادوا قتل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسحروہ و جعلوا السلم فی طعامہ و حاربہ فعاد اللہ علیہم بالانتقام فقتل بنی قریظۃ واجلی بنی النضیر و ضرب علیہم الجرزیۃ یودونھا عن یدوھم صاغرون (مظھری ج 5 ص 418) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 عجب نہیں کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم فرمائے اور اگر تم پھر ان شرارتوں کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی قسم کی سزا کا اعادہ کریں گے اور آخرت میں تو ہم نے جہنم کو کافروں کا قید خانہ بنا ہی رکھا ہے۔ یعنی اس کے نافرمانوں کو دنیا میں بھی سزا دی جائے گی اور آخرت میں تو بہرحال جہنم کا قید خانہ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے بنا ہی رکھا ہے۔ مفسرین نے حملہ آوروں کی تعین میں بہت سے اقوال نقل کئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں تو رات میں کہہ دیا تھا کہ دو بار بنی اسرائیل شرارت ریں گے اس کی جزا میں دشمن ان کے ملک میں غالب ہوں گے اسی طرح ہوا ہے ایک بار جالوت غالب ہوا ہے پھر حق تعالیٰ نے اس کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے ہاتھ سے ہلاک کیا پیچھے بنی اسرائیل کو اور قوت زیادہ دی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت میں دوسری بار فارسی لوگوں میں سے بخت نصر غالب ہوا تب سے ان کی سلطنت نے قوت نہ پکڑی اب فرمایا کہ اللہ مہربانی پر آیا ہے اگر اس نبی کے تابع ہو تو وہی سلطنت اور غلبہ پھر کر دے اور اگر پھر وہی شرارت کرو گے تو ہم پھر وہی کریں گے یعنی مسلمانوں کو ان پر غالب کیا اور آخرت میں دوزخ تیار ہے۔ 12