Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 86

سورة بنی اسراءیل

وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ﴿ۙ۸۶﴾

And if We willed, We could surely do away with that which We revealed to you. Then you would not find for yourself concerning it an advocate against Us.

اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سلب کرلیں پھر آپ کو اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آسکے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

If Allah willed, He could take away the Qur'an Allah says: وَلَيِن شِيْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلً إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا

قرآن اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعام کی ہے یعنی آپ پر نہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کر سکتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآں کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا ۔ ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کر کے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے ۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بےمثل بےنظیر بےشریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے ۔ ابن اسحاق نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا واللہ اعلم ۔ ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔ 86۔ 2 جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] وحی کے بتدریج نزول میں آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے : اس آیت کا تعلق دراصل سابقہ مضمون سے ہے جو کفار مکہ نے سمجھوتہ کی ایک شکل یہ پیش کی تھی کہ اگر آپ ان آیات کی تلاوت چھوڑ دیں جن میں ہمارے معبودوں کی توہین ہوتی ہے تو ہم آپ کے مطیع بن جائیں گے۔ اس آیت میں دراصل وحی الٰہی کی اہمیت مذکور ہوئی ہے کہ اس وحی الٰہی کی ہی تو برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جارہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ آپ کو اور صحابہ کو صبر اور ثابت قدمی میسر آرہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپ کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ رہی ہے وہ منقطع ہوسکتی ہے اور اندریں صورت تمہیں سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہوگی۔ یہ تو آپ پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ آپ پر وحی اس انداز اور اس تدریج کے ساتھ حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے جس سے اسلام کی سربلندی کے لیے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ پر حاشیہ نمبر ٢٧ ملاحظہ فرمائیے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کی طرف وحی کیا ہے سب لے جائیں، نہ آپ کے سینے میں رہے، نہ آپ کے کسی صحابی یا امتی کے سینے میں، نہ کسی کاغذ یا دوسری چیز میں، پھر اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے مقابلے میں آپ کو کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ ۙاِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ : لیکن یہ تیرے رب کی رحمت ہے کہ وہ اسے لے نہیں گیا، بلکہ اسے تیرے پاس ہی رہنے دیا ہے۔ یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ معلوم ہوا قرآن قیامت تک باقی رہے گا، کوئی شخص اس کے تمام اوراق ختم کرکے بھی اسے ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کا اصل ٹھکانا اہل علم کے سینے ہیں (دیکھیے عنکبوت : ٤٩) اور رب کا وعدہ بھی ہے کہ وہ اسے نہیں لے جائے گا، بلکہ اس کی حفاظت کرے گا، فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] ” بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا : یہاں فضل کبیر اور دوسری جگہ فضل عظیم فرمایا : (وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا) [ النساء : ١١٣ ] ” اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر ہمیشہ سے (عظیم) بہت بڑا ہے۔ “ اس فضل کبیر و عظیم میں سے چند یہ ہیں کہ آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی، اسے آپ کے اور آپ کی امت کے پاس قیامت تک کے لیے باقی رکھا، آپ کو اولاد آدم کا سردار بنایا، تمام لوگوں کے لیے رسول اور آخری نبی بنایا، تمام نبیوں کی امامت اور معراج کا شرف بخشا، شفاعت کبریٰ اور مقام محمود عطا فرمایا۔ جس فضل کو اللہ تعالیٰ عظیم و کبیر فرمائے اسے کوئی کیسے شمار کرسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

We can now move to verse 86: وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ (And if We so will, We will surely take away...). It will be recollected that, in the previous verse (85), by giving an answer to the question about Ruh as true to the measure of its necessity, the underlying effort to find out the reality of the Ruh was blocked and it was declared that man&s knowledge, no matter how much, still remains relatively insignificant in terms of the great span of the ulti¬mate reality of things. Therefore, getting entangled with unnecessary debates and investigations is a waste of precious time. The present verse: وَلَئِن شِئْنَا (And if We so will) indicates that the sum total of whatever knowl¬edge human beings have been given, even that is no private property of theirs. Allah Ta` ala can, if He so wills, take away that too. Therefore, they should be grateful to Allah for whatever of knowledge they have and stay away from wasting time in redundant and unnecessary investi¬gations - specially when pure investigation is just not the objective, instead, testing others or belittling them is. If one did that, it is not out of the realm of possibility that this crookedness may result in all that one has in the name of knowledge taken away in toto. The address in this verse is, though, to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but the purpose is to really make his followers listen and get the message - when even the knowl¬edge of the Rasul of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not within his exclusive power and control, not much can be said about others!

(آیت) وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ پچھلی آیت میں روح کے سوال پر بقدر ضرورت جواب دے کر روح کی حقیقت دریافت کرنے کی کوشش سے کہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ انسان کا علم کتنا ہی زیادہ ہوجائے مگر حقائق الاشیاء کی ہمہ گیری کے اعتبار سے کم ہی رہتا ہے اس لئے غیر ضروری مباحث اور تحقیقات میں الجھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے آیت وَلَىِٕنْ شِـئْنَا میں اس طرف اشارہ ہے کی انسان کو جس قدر بھی علم ملا ہے وہ بھی اس کی ذاتی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس کو بھی سلب کرسکتے ہیں اس لئے اس کو چاہئے کہ موجودہ علم پر اللہ کا شکر ادا کرے اور فضول ولا یعنی تحقیقات میں وقت ضائع نہ کرے خصوصا جبکہ مقصود و تحقیق کرنا بھی نہ ہو بلکہ دوسرے کا امتحان لینا یا اس کو خفیف کرنا مقصود ہو اگر اس نے ایسا کیا تو کچھ بعید نہیں کہ اس کج روی کے نتیجہ میں جتنا علم حاصل ہے وہ سب سلب ہوجائے اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر اصل سنانا امت کو مقصود ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم بھی ان کے اختیار میں نہیں تو دوسروں کا کیا کہنا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَيْنَا وَكِيْلًا 86؀ۙ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) اور اگر ہم چاہیں تو جس قدر بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ پر وحی بھیجی ہے اور آپ نے اس کو محفوظ کیا ہے سب سلب کرلیں۔ پھر آپ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی اور اس چیز کو روکنے والا بھی نہ ملے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٦۔ ٨٧:۔ اوپر ذکر تھا کہ یہ قرآن ایسے بڑے فائدہ کی چیز ہے کہ اس سے دلی اور جسمانی بیماریوں کو شفا ہوتی ہے اس آیت میں اس فائدہ کی قدر بڑھانے کے لیے فرمایا اگر ہم اس قرآن کو لوگوں کے دل اور ورقوں سے ایسا مٹا اور بھلا دیں کہ اس کا اثر تک باقی نہ رہے تو ہمارے اس کام پر کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اعتراض کرے اور اس کو پھیر لاوے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں صحیح سند کی عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے قریب قرآن اٹھا لیا جائے گا، لوگوں نے پوچھا یہ کس طرح ہوگا قرآن تو حافظوں کے سینہ میں محفوظ ہے اور ورقوں میں لکھا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے جواب دیا کہ قیامت کے قریب ایک رات ایسی آئے گی کہ جس میں تمہارے دل اور تمہارے ورقوں میں قرآن نہ ہوگا اور صبح کے وقت تم اٹھوگے تو کوئی اثر اس کا نہ پاؤ گے پھر یہ آیت پڑھی ١ ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت سے پہلے ایک ایسی ہوا چلے گی کہ قرآن مجید کا ایک ایک حرف لوگوں کے دلوں سے فراموش ہوجائے گا اور ورقوں میں سے حرف مٹا دیئے جائیں گے اس مضمون کی ایک صحیح روایت تفسیر ابن ابی حاتم اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) سے بھی ہے ٢ ؎۔ پھر اللہ پاک نے اپنا فضل وانعام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیان فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں کہ قرآن کو اٹھا لیں مگر یہ ہمارا فضل و کرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا اور علاوہ اس کے اور بہت سی مہربانیاں اللہ کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولاد آدم ( علیہ السلام) کا سردار اور خاتم الانبیاء قرار دیا مقام محمود عطا کیا اس کے سوا اور بہت سے اور بڑے بڑے فضل خدا کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہیں۔ صحیح مسلم میں ابو موسیٰ (رض) اشعری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم سب صحابہ سورة برائۃ کی برابر ایک سورة قرآن شریف کی سورتوں میں سے پڑھا کرتے تھے مگر اب اس کی ایک آیت بھی یاد نہیں رہی۔ اس حدیث سے آیت کا اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کے مضمون کے موافق جب اللہ چاہے اس بھولی ہوئی سورت کی طرح سارے قرآن کو لوگوں کے دل اور ورقوں سے بھلا اور مٹا دیوے چناچہ قیامت کے قریب جب وہ چاہے گا تو ایسا ہی کرے گا۔ ١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٠١ ج ٤۔ ٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ٢٠١ ج ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:86) ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا۔ پھر تم نہیں پائو گے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی و مددگار جو اسے (وہ جو ہم نے تم پر وحی کیا ہے یعنی قرآن) واپس دلا سکے۔ بہ میں ضمیر واحدمذکر غائب الذی اوحینا الیک کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 86 تا 89 لئن البتہ، اگر۔ شئنا ہم نے چاہا۔ لنذھبن البتہ ہم چاہیں گے۔ (لے جائیں گے۔ ) اوحینا ہم نے وحی کی۔ کبیر بڑا۔ اجتمعت جمع ہوگئی۔ ان تاتوا یہ کہ وہ لے آئیں۔ لایاتون وہ لا نہ سکیں گے۔ ظھیر مددگار۔ ابی انکار کردیا۔ تشریح : آیت نمبر 86 تا 89 اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے قرآن جیسی کتاب وحی کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی جس میں تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ موجود ہے۔ اس کتاب ہدایت پر عمل کرنے سے ایک نئی روحانی اور دنیاوی زندگی حاصل کرنا انسانی سعادت ہے۔ لیکن انسان کی یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے اس کے انکار پر جمع کر بیٹھ جاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ان دشمنان اسلام سے فرمایا جا رہا ہے جنہوں نے قرآن کی ابدی تعلیمات سے منہ موڑ کر اور ناقدری کر کے اپنے آپ کو دنیاوی آخرت کی ہر بھلائی سے محروم کرلیا ہے۔ فرمایا کہ ان کی ناقدری کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زندگی کی راہوں میں بھٹکنے اور کفر و شرک پر قائم رہنے والوں کو بھٹکنے کے لئے اسی طرح چھوڑ دیا جاتا اور اس قرآن کو سلب کرلیا جاتا لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کا یہ خصوصی فضل و کرم ہے کہ اس نے دنیا کو اس کتاب ہدایت سے محروم نہیں فرمایا بلکہ منکرین کی تمام تر حماقت و جہالت کے باوجود اللہ نے اس کی تعلیمات کو مکمل فرمایا۔ قرآن کریم ایک معجزہ ہے جس کے سامنے تمام دنیا کے انسان اور جنات تک اس قرآن جیسا لانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ سامنے کی بات ہے کہ عرب کے کفار جو پانی زبان دانی پر فخر و غرور میں ساری دنیا کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے جب قرآن کریم نازل ہوا تو یہ سارے لوگ قرآن کے سامنے گونگے بن کر رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی پانچ سورتوں سورة بقرہ، سورة یونس، سورة ہود، سورة بنی اسرائیل اور سورة طور میں اس بات کا چیلنج کیا ہے کہ اللہ کے سوا کائنات میں جتنے بھی لوگ ہیں یا جنات ہیں وہ سب مل کر بھی اس قرآن جیسا بنا کر نہیں لاسکتے۔ ایسی ہدایت کی قدر نہ کرنا اور ناشکری اور ناقدری کا طریقہ اختیار کرنا سوائے بدنصیبی کے اور کیا ہے۔ کفار مکہ طرح طرح کے سوالات کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو خود ہی گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی زبان پر ناز کرنے والے جنات جن کو وہ غیبی طاقتوں کا پیکر سمجھتے تھے وہ سب مل کر بھی قرآن جیسی کتاب نہیں لاسکتے تو وہ بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہوں نے ان کفار کے درمیان پوری زندگی گذاری ہے ہر شخص جانتا تھا کہ آپ نے کبھی کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ آپ ” امی “ لقب ہیں۔ پھر وہ کام جو ساری دنیا مل کر نہیں کرسکتی ایک نبی امی کیسے کرسکتے ہیں۔ حقیقتاً ان کی آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں کہ اتنی سی بات کو بھی نہیں سمجھتے اور اپنی ضد ہٹ دھرمی، فخر و غرور میں ایک سچائی کا انکار کے اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی دو سب سے بڑی نعمتیں ہیں ایک تو قرآن کریم اور دوسری نعمت نبی مکرم خاتم النبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ۔ چونکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا اتنا زیادہ فضل و کرم ہے کہ اس نے کفار و مشرکین کی مخالفت اور ناقدری کے باوجود اس قرآن کو آپ کے قلب مبارک پر جمع فرمایا اور اس کی وضاحت کے ذریعہ ساری انسانیت کو راہ ہدایت عطا فرما دی اور بھٹکنے سے بچا لیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : الروح کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ لوگو تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بھی لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے وہ من جانب اللہ تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ اے نبی ! جو کچھ ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ ہم اسے واپس لے جانے میں پوری طرح قادر ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ لوگوں کو جو تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہاں یہ ثابت کیا ہے کہ جو کچھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی صورت میں علم دیا گیا ہے۔ وہ بھی من جانب اللہ ہے اور آپ کو منصب نبوت پر فائز کرنا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل ہے۔ منصب نبوت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل ہے کہ دنیا کا کوئی منصب اور دولت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اے نبی ! یہ یاد رکھیں اللہ نے جو وحی کی صورت میں آپ پر اپنا فضل نازل کیا ہے۔ وہ اس پر پوری طرح قادر ہے کہ اپنے فضل کو واپس لے جائے۔ واپس لے جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آپ کوئی مددگار نہیں پاسکتے۔ وحی کا علم واپس لے جانے کا تذکرہ فرما کر بالواسطہ طور پر کفار کے اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔ جو وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ پھر اس بات کی بھی نفی کی گئی کہ نبوت کسی شخص کے ذاتی کمال یا محنت کی وجہ سے عطا نہیں کی جاتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر وہ چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ جس کے مقابلے میں تمام نعمتیں فروتر ہیں۔ ان الفاظ سے کفار کے اس فکر کی تردید ہوتی ہے جو کہا کرتے تھے کہ نبوت تو کسی مالدار اور بڑے آدمی کو ملنی چاہیے تھی۔ کفار کے فکر کی تردید کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرمادی ہے کہ میر اپیغمبر وحی پر بھی کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا۔ (وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ )[ العکنبوت : ٤٨] ” اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے۔ “ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِینَ )[ الحاقۃ : ٤٤۔ ٤٧] ” اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بنا لاتے تو ہم ان کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ان کی شہ رگ کاٹ ڈالتے تم میں سے کوئی ہمیں روکنے والا نہ ہوتا۔ “ (وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّتْ طَاءِفَۃٌ مِنْہُمْ أَنْ یُضِلُّوْکَ وَمَا یُضِلُّوْنَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۔ )[ النساء : ١١٣] ” اور اگر تم پر اللہ کی مہربانی اور فضل نہ ہوتا تو ان میں سے ایک جماعت تمہیں بہکانے کا قصد کر ہی چکی ہوتی اور یہ اپنے سو ا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ اللہ نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے۔ تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ “ مسائل ١۔ اگر اللہ چاہتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی سلب کرلیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوتا۔ ٣۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت وفضل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا : ١۔ اگر ہم چاہتے تو وحی سلب کرلیتے، پھر اللہ کے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٦) ٢۔ پھر آپ نہیں پائیں گے ہم پر کوئی مددگار۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٣۔ آپ ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٤۔ جن پر اللہ کی طرف سے لعنت ہو آپ ان کا کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (النساء : ٥٢) ٥۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لیے آپ کوئی راہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا احسان جتلاتا ہے کہ اس نے ازراہ کرم تو پر وحی نازل کی۔ اور پھر قرآن کریم کو محفوظ رکھا۔ رسول اللہ سے زیادہ یہ احسان انسانوں پر ہے کیونکہ انسانیت پوری کی پوری اس قرآن کی بدولت رحمت اور ہدایت سے سرفراز ہے۔ اور نسلاً بعد نسل یہ سرچشمہ نور و ہدایت ضوفشاں ہے۔ جس طرح روح اللہ کے اسرار میں سے ہے اور کوئی انسان اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ، اس طرح یہ قرآن بھی اللہ کی معجزانہ صفت ہے اور کوئی انسان بلکہ تمام مخلوق بھی جمع ہوجائے تو اس کی نقل نہیں اتارسکتی۔ اور انس و جن و جو ظاہری اور خفیہ مخلوقات ہیں دونوں جمع ہو کر بھی اگر سعی کریں تو قرآن جیسی کتاب ان کے لئے لانا ممکن نہیں ہے۔ اگر چہ وہ ایک دوسرے کے سچے معاون کیوں نہ بن جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77:۔ یہ زجر ہے مشرکین مکہ ازراہ عناد و تعنت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مختلف قسم کے سوالات پیش کرتے انہی میں سے روح کے بارے میں ان کا سوال تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفور شفقت کی بنا پر اس بات کے متمنی تھے کہ مشرکین کو اگر ان کا مطلوب معجزہ دکھا دیا جائے تو شاید وہ ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں اس سے منع فرمایا کہ آپ کی سچائی کو ثابت کرنے کیلئے معجزہ معراج کافی ہے اور دوسرا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے جس کا مثل ساری دنیا کے جن و انس مل کر بھی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ قرآن بھی تو ہمارا معجزہ ہے یہ آپ نے تھوڑا ہی بنایا ہے اگر ہم یہ قرآن آپ کے سینے سے اٹھا لیں تو آپ اسے واپس نہیں لاسکتے اور نہ کوئی اس معاملہ میں آپ کی مدد کر کے آپ کو واپس دلا سکتا ہے۔ ” الا رحمۃ الخ “ مستثنی منقطع ہے یعنی ہم آپ پر اس قدر مہربان ہیں کہ ایسا نہیں کریں گے یعنی لکن لا نشاء ذلک رحمۃ من ربک (قرطبی ج 10 ص 325) آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے اللہ نے آپ کو اولاد آدم کا سردار بنایا اور آپ کو مقام محمود، شرف معراج اور قرآن مجید عطا فرمایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86 اور اپنے پیغمبر ہم اگر چاہیں تو جس قدر اور جو کچھ ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی ہے وہ سب سلب کرلیں پھر اس سلب شدہ وحی کو واپس لانے کے لئے آپ ہمارے مقابلہ میں اپنا کوئی حمایتی بھی نہ پائیں۔