Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 88

سورة بنی اسراءیل

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾

Say, "If mankind and the jinn gathered in order to produce the like of this Qur'an, they could not produce the like of it, even if they were to each other assistants."

کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ ( آپس میں ) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا الْقُرْانِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُورًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 قرآن مجید سے متعلق یہ چلینج اس سے قبل بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہ چلینج آج تک تشنہ جواب ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] یہ چیلنج پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣، ٢٤۔ سورة یونس کی آیت نمبر ٣٧، ٣٨، سورة ہود کی آیت نمبر ١٣، ١٤، میں بھی مذکور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ ۔۔ : اس آیت میں پورے قرآن کی مثل لانے کا چیلنج ہے، سورة ہود (١٣) میں دس سورتوں کا، بقرہ (٢٣) اور یونس (٣٨) میں ایک سورت کا اور سورة طور (٣٤) میں اس کے بھی بعض حصے کا، مگر قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ نہ اس زمانے میں کفار اس کا جواب دے سکے اور نہ آئندہ قیامت تک اس کا جواب ممکن ہے۔ یہاں انسانوں کے ساتھ جنات کو بھی شامل کردیا ہے، اس لیے کہ کفار یہ اتہام لگاتے تھے کہ کوئی جن اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر القا کرجاتا ہے اور پھر جنوں کو اپنے سے اعلیٰ اور عالم الغیب بھی سمجھتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The subject in verse 88: قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ (If all humans and jinns join together...) appears in some other verses of the Holy Qur&an as well. Challenging the humankind, it has been said there: If you do not take the Qur&an to be the word of Allah, rather take it to be a word of man, then, you too are human, why would you not come up with its like? Along with that challenge, it was also said in this verse: Not the human-kind alone, you are welcome to join up with jinns, but you, all combined together, will still be unable to come out with one Surah - even one verse - like that of the Qur&an. The repetition of this subject at this place may possibly be to show the futility of what the deniers of the message were trying to do. Here they were trying to test the veracity of the mission of a prophet of Allah by asking all sorts of questions, the one about the Ruh being one of them. Being an exercise in futility, why would they go about digging into unnecessary issues only to determine whether or not the prophet sent to them was true? Why they would not look into the Qur’ an as it is? It leaves no room for doubt in the veracity of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as Proph¬et and Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The reason is simple. When the humans and jinns of the whole world are incapable of producing the least like of it, what doubt could there be in that it is but the Divine Word. And once it is proved so manifestly that the Holy Qur&an is Divine Word, hardly any doubt remains in that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was a true prophet and mes¬senger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

(آیت) قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ یہ مضمون قرآن مجید کی چند آیات میں آیا ہے جس میں پوری دنیائے انسان کو خطاب کر کے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اگر تم قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے بلکہ کسی انسان کا بنایا ہوا مانتے ہو تو پھر تم بھی انسان ہو اس کی مثال بنا کر دکھلا دو اس آیت میں اس دعوی کے ساتھ یہ بھی فرما دیا گیا کہ صرف انسان نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ ملا لو اور پھر تم سب مل کر قرآن کی ایک سورت بلکہ ایک آیت کی مثال بھی نہ بنا سکو گے۔ اس مضمون کا اس جگہ پر اعادہ ممکن ہے کہ یہ بتلانے کے لئے ہو کہ تم جو ہمارے رسول سے مختلف قسم کے سوالات روح وغیرہ کے متعلق ان کی رسالت و نبوت کی آزمائش کے لئے کرتے ہو کیوں ان فضول قصوں میں پڑے ہو خود قرآن کریم کو دیکھ لو تو آپ کی نبوت و رسالت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ جب ساری دنیا کے جن و انس اس کی ادنی سی مثال بنانے سے عاجز ہیں تو اس کے کلام الہی ہونے میں کیا شبہ رہتا ہے اور جب قرآن کریم کا کلام الہی ہونا اس بداہت سے ثابت ہوگیا تو آپ کی نبوت و رسالت میں کسی شبہ کی کیا گنجائش رہتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا 88؀ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے جِنّ والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اعجاز قرآن قول باری ہے (قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لایاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیراً کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں) اس آیت میں اعجاز قرآن پر بھرپور دلالت موجود ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ الفاظ قرآن کی ترتیب میں مستقل طور پر اعجاز موجود ہے اور معانی اور ان کی تنسیق میں مستقل طور پر اعجاز ہے۔ انہوں نے اس پر اس چیز سے استدلال کیا ہے کہ قرآن اس آیت میں تمام اہل عرب و عجم اور جن و انس کو چیلنج کر رہا ہے۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ اہل عجم کو عربی زبان سے نابلد ہونے کی بنا پر نظم قرآنی یعنی الفاظ کے متعلق چیلنج نہیں دیا جاسکتا اس لئے ضروری ہے کہ انہیں قرآن کے معانی اور ان کی ترتیب و تنسیق کی جہت سے چیلنج کیا جائے، الفاظ کی ترتیب و نظم کی جہت سے چیلنج نہ کیا جائے۔ بعض حضرات قرآن کے اعجاز کو صرف نظم الفاظ کی جہت سے تسلیم کرتے ہیں یعنی الفاظ کی ترتیب اور عبارت کی فصاحت و بلاغت میں اعجاز کا ظہور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعجاز قرآن کے کئی وجوہ ہیں۔ جن میں سے نظم الفاظ کی خوبصورتی عبارت کی اعلیٰ فصاحت و بلاغت اور اس کا اختصار نیز قلیل الفاظ کے اندر معانی کثیرہ کا وجود وغیرہ ہیں۔ دوسری طرف پورے قرآن مجید میں ایک لفظ ایسا نہیں ہے جو معیار سے گرا ہوا ہو یا بھرتی کے طور پر لایا گیا ہو یا الفاظ و معانی میں کوئی تناقض یا اختلاف و تضاد ہو۔ ان تمام وجوہ کے لحاظ سے پورا قرآن ایک ہی منہاج اور معیار پر برقرار ہے۔ اس کے برعکس مخلوق کے کلام کی یہ خصویت ہے کہ طویل ہونے کی صورت میں یہ کلام غیر معیاری الفاظ ، گھٹیا معانی اور معانی میں تناقض سے پاک نہیں رہ سکتا۔ دنیا کی تمام زبانوں میں اہل زبان کے کلام کے اندر مذکورہ بالا عیوب و نقائص موجود ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق صرف عربی زبان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ اہل عجم کو درج بالا معانی جیسے معانی پیش کرنے کا چیلنج دیا گیا ہو جو ہمارے مذکورہ ان تمام عیوب و نقائص سے پاک ہو جن کی بنا پر ایک کلام غیر معیاری قرار دیا جاتا ہے۔ ایک اور جہت سے اسے دیکھیے ، فصاحت و بلاغت کا تعلق صرف عربی زبان کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس کا وجود دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ہے اگرچہ عربی زبان دنیا کی فصیح و بلیغ ترین زبان ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ ترین مقام پر جاگزیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ اہل عجم کو اس بات کا چیلنج دیا گیا ہو کہ وہ ایسا کلام پیش کریں جو ان کی اپنی زبان میں فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچا ہوا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ اگر تمام انسان اور جنات اس بات کے لیے جمع ہوجائیں کہ اس قرآن کریم جیسا فصیح وبلیغ قرآن بنا دیں جس میں اومر و نواہی، وعدے وعید، ناسخ ومنسوخ، محکم و متشابہ اور جو امور ہوچکے اور جو ہونے والے ہیں سب ہی کا بیان ہو، تب بھی ایسا نہ لاسکیں گے، اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ قل لئن اجتمعت الانس والجن “۔ (الخ) ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یا عکرمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کی ایک جماعت میں آئے تو وہ (یہودی) لوگ کہنے لگے کہ ہم آپ کا اتباع کیسے کریں، حالانکہ آپ نے ہمارا قبلہ بھی چھوڑ دیا ہے اور یہ جو قرآن کریم آپ لے آئے ہیں اس میں ہم توریت کی طرح اتصال نہیں دیکھتے تو ہمارے لیے ایسی کتاب نازل کروائیے جسے ہم پہچانتے ہوں ورنہ ہم آپ کے پاس جیسی آپ کتاب لے کر آئے ہیں ویسی کتاب لے کر آتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی آپ فرما دیجیے کہ اگر تمام انسان اور جنات سب اس بات کے لیے جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا لائیں تب بھی ایسا نہ لاسکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا) اس موضوع پر قرآن کا اپنے مخاطبین سے یہ سب سے پہلا مطالبہ ہے جس میں ان سے پورے قرآن کا جواب دینے کو کہا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

105. This challenge occurs at several other places in the Quran: (Surah Al-Baqarah, Ayat 23); (Surah Younus, Ayats 38-39); (Surah Al-Momin, Ayats 13-14); (Surah At-Toor, Ayats 33-34). At all these places, this has been cited as an answer to the charge of the disbelievers that Muhammad (peace be upon him) has himself invented the Quran but is presenting it as Allah’s Word. Besides this, the same has also been refuted in (Surah Younus, Ayat 16): “Say also, had not Allah willed that I should recite the Quran to you, I could not have recited it to you, nor could I have been able to give you any information about it: already have I lived a lifetime among you before its revelation. Do you not use your common sense?” Now let us turn to the three arguments contained in these verses as a proof that the Quran is the Word of Allah. (1) The Quran is such a miracle in regard to its language, style, arguments, themes, topics, teachings and prophecies that it is beyond any human power to produce the like of it, as if to say, "You say that a man has invented this but We challenge that even the whole of mankind combined cannot produce a Book like this: nay, even if the jinns, whom the mushriks worship as deities and whom this Book openly attacks, should come to the help of the disbelievers, they cannot produce a Book like this to refute this challenge. (2) As regards to the charge that Muhammad (peace be upon him) has himself invented this Book, the Quran refutes their claim, as if to say” Muhammad is one of you and not a foreigner. He has lived among you for forty years before the revelation of the Quran. Did you ever hear words like those of the Quran from him even a day before his claim of Prophethood, or did you ever hear him discussing themes and problems contained in the Quran? If you consider the matter from this point of view, it will become obvious to you that the sudden change which has come about in the language, ideas, information, style and the way of thinking of Muhammad, could not take place without divine guidance. (3) Can you not see that after the recital of the Quran, he does not disappear but lives among you? You hear other things than the Quran from him. Do you not notice that the distinction between the two different styles of expression is so obvious that no man can successfully adopt the two styles at one and the same time. The distinction can also be noticed, even today, between the language of the Quran and that of the traditions of the Prophet (peace be upon him). Anyone well versed in the Arabic language and literature notices the difference which is so marked that one can categorically say that these modes of expression cannot belong to one and the same person. (For further reference please also see (E.N. 21 of Surah Younus, Ayat 16).

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :105 یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید میں تین مقامات پر گزر چکا ہے ۔ سوررہ بقرہ ، آیات۲۳ ، ۲٤ ۔ سورہ یونس ، آیت ۳۸ اور سورہ ہود ، آیت ١۳ ۔ آگے سورہ طور ، آیات ۳۳ ۔ ۳٤ میں بھی یہی مضمون آرہا ہے ۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ مزید برآں سورہ یونس ، آیت ١٦ میں اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ قُلْ لَّوْ شَآءَ اللہُ مَا تَلَوْ تُہُ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہ اَفَلَا تَعْقِلُونَ ۔ یعنی ” اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہرگز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا ۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں ، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے“؟ ان آیات میں قرآن کے کلام الہی ہونے پر جو استدلال کیا گیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں سے مرکب ہے: ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان ، اسلوب بیان ، طرز استدلال ، مضامین ، مباحث ، تعلیمات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے ۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے ، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر وہ جن جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے ، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے ، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کو اس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں ۔ تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں قرآن سنا کر کہں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں ۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگوئیں اور تقاریر بھی سنا کرتے ہو ۔ قرآن کے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام میں زبان اور اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف اسٹائل کبھی ہو نہیں سکتے ۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کے لوگوں میں رہتے سہتے تھے ۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں ۔ ان کی زبان اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہو سکتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲١ ۔ الطور ، حواشی ۲۲ ، ۲۷ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٨۔ ٨٩:۔ تفسیر ابن جریر اور ابن اسحاق میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک صحیح روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہود کے چند علماء نے یہ کہا تھا کہ قرآن شریف کی عبارت تو رات جیسی فصیح نہیں ہے اس لیے ہم چاہیں تو قرآن جیسی عبارت بنا سکتے ہیں اور یہود سے یہ بات سن کر قریش بھی کہا کرتے تھے لونشاء لقلنا مثل ھذا (٣١/٨) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا قرآن بنا سکتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور قسم کھا کر فرمایا کہ ساری دنیا بھر کے انسان اور جنات ایک ہوجائیں جب بھی ان سے اس قرآن کے مانند کلام نہیں بن سکتا اس آیت سے قرآن شریف کا معجزہ ہونا اور ایسا معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے جس کے مقابلہ سے جن و انسان عاجز ہیں قرآن شریف کے معجزہ ہونے کی بحث ایک ایسی بڑی بحث ہے جس کی دو چار دس پانچ مثالیں نہیں ہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں ہیں۔ علماء نے اس خاص بحث میں بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ قاضی ابوبکر باقلانی کی کتاب اس باب میں بےمثل مشہور ہے حاصل کلام یہ ہے کہ گذشتہ سچے تاریخی حالات آئندہ کے غیب کے واقعات یہ معنوی معجزات تو قرآن شریف میں جدا ہیں یہ ایک خاص معجزہ قرآن شریف جدا ہے کہ الفاظ قرآن شریف کے وہی ہیں جو اہل عرب کی زبان ہے لیکن ایسی حسن ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان لفظوں کو برتا ہے کہ وہ حسن ترتیب طاقت انسان سے باہر ایک چیز ہے نظم نثر کی جتنی خوبیاں اہل عرب میں مشہور ہیں وہ سب قرآن میں ہیں اور اس خوبی کے ساتھ ہیں کہ تیرہ برس تک مکہ کے فصیح لوگوں سے یہی مقابلہ ہوا کہ اگر یہ کلام الٰہی معجزہ نہیں ہے تو تم بھی اس طرح کا کلام بنا کر لاؤ مگر سب عاجز ہوگئے اور کچھ نہ ہوسکا مستدرک حاکم میں معتبر سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس وقت کا ایک تاریخی حال یوں منقول ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل نے ولید بن مغیرہ سے کہا کہ ہم سب لوگ چندہ کر کے تم کو بہت سا روپیہ دیتے ہیں تم وہ روپیہ دل جمعی سے بیٹھ کر کھاؤ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پڑھتے ہیں اس کے مقابل کا کچھ کلام بناؤ ولید بن مغیرہ نے جواب دیا کہ فصیح انسانوں کے شعر کلام قصیدے تم کو معلوم ہیں کہ کسی کو قریش میں میرے برابر یاد نہیں ہیں لیکن یہ کلام جو محمد پڑھتے ہیں ان سب سے نرالا ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کلام میں ایسا جادو کا اثر ہے کہ اس کے سننے کے بعد دل قابو میں نہیں رہتا ١ ؎۔ اسی واسطے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے مجھ کو توقع ہے کہ قیامت کے دن میری امت کی تعداد سب انبیاء ( علیہ السلام) سے بڑھ کر ہوگی۔ ٢ ؎ قرآن شریف کا یہ معجزہ اب بھی سب کے آنکھوں کے سامنے ہے کہ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں ہر سال غیر قوموں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٣ ؎۔ کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے ٤ ؎۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے یہ حدیثیں آخری آیت کی گویا تفسیر ہیں جس کا حال یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب کے موافق دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں، جس قدر قرآن کی آیتوں سے ان لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے اسی قدر قرآن کو جھٹلانے پر یہ لوگ آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٤٤٣ تفسیر سورة المدثر۔ ٢ ؎ تفسیر ہذاص ٢١١ ج ٣۔ ٣ ؎ تفسیر ہذاص ٩٠ ج ٣۔ ٤ ؎ تفسیر ہذاص ٣٠ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہ کفار کے اس دعویٰ کی تردید ہے کہ اگر چاہیں تو ہم بھی ایسا قرآن تصنیف کر کے پیش کرسکتے ہیں۔ قرآن میں تحدی سورة بقرہ :23 یونس 38، ہود 13 طور 34 میں بھی مذکور ہے۔ یہاں سارے قرآن کے متعلق تحدی کی گئی ہے۔ سورة ہود میں دس سورتوں اور بقرہ یونس میں صرف ایک سورة اور سورة طور میں تو سورة کے کچھ حصہ کے متعلق تحدی مذکور ہے۔ (رازی) مگر قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ نہ اس زمانے میں کفار مکہ اس کا جواب دے سکے اور نہ آئندہ قیامت تک اس کا جواب ممکن ہے۔ یہاں انسانوں کے ساتھ جنات کو بھی شامل کردیا ہے اس لئے کہ کافر یہ اتہام لگائے کہ کوئی جنی اس (ﷺ) پر القا کرجاتا ہے۔ اور پھر جنوں کو اپنے سے اعلیٰ اور عالم الغیب بھی سمجھتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے ذریعے قرآن نازل ہوا کرتا تھا۔ جس کے بارے میں کفار یہ الزام لگاتے کہ آپ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ جس پر انہیں ایک دفعہ پھر چیلنج دیا گیا ہے۔ حق کے مقابلے میں انسان جب ہٹ دھرمی اور مسلسل تکبر کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ تو اسے حق قبول کرنے سے الرجی سی ہوجاتی ہے۔ جس بناء پر وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ کفار مکہ کی بھی یہی حالت ہوچکی تھی۔ ایک وقت میں وہ الزام لگاتے کہ روم کے فلاں شخص سے بالواسطہ سیکھ کر اس کا کلام ہمارے سامنے قرآن کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ دوسرے وقت یہ الزام دیتے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کلام بنا کر ہمارے سامنے سناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے الزمات کا جواب دیتے ہوئے یکے بعد دیگرچار چیلنج دئیے۔ جن میں پہلا چیلنج یہ تھا کہ اے پیغمبر ! آپ انہیں چیلنج کریں کہ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو تو اس جیسا قرآن بنا کر پیش کرو۔ اگر جن وانس سب کے سب جمع ہوجائیں کہ قرآن جیسا کلام لے آئیں۔ تو بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ بیشک یہ ایک دوسرے کی معاونت بھی کریں۔ ہم نے انہیں سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں توحیدو رسالت اور آخرت کے بارے میں مختلف الفاظ اور انداز میں کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ مگر لوگوں کی اکثریت اس کے ساتھ کفر کا رویہ ہی اختیار کرتی ہے۔ قرآن مجید کے چیلنج : ١۔ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کے لائیں۔ (الطور : ٣٤) ٢۔ دس آیات بناکر پیش کرو۔ (ھود : ١٣) ٣۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں ؟ کہ آپ نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کہہ دو اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورة بنالاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ پورا قرآن مجید نہیں تو اس جیسی ایک سورة بنا کرلے آؤ۔ (البقرۃ : ٢٣) مسائل ١۔ جن وانس مل کر بھی اس قرآن جیسی کتاب نہیں لاسکتے۔ ٢۔ سارے ایک دوسرے کے مددگار بن کر بھی قرآن کا جواب پیش نہیں کرسکتے۔ ٣۔ قرآن مجید میں طرح طرح کے مضامین بیان کیے گئے ہیں۔ ٤۔ اکثر لوگ بار بار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا مختلف الفاظ اور انداز میں سمجھانے کا طریقہ : ١۔ ہم نے اس قرآن میں تمام باتیں ہر طرح سے بیان کردی ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٨٩) ٢۔ یقیناً ہم نے قرآن میں تمام باتیں بیان کردیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) ٣۔ ہم نے اسے لوگوں میں بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر بہت سے لوگوں نے انکار کے سوا کچھ قبول نہ کیا۔ (الفرقان : ٥٠) ٤۔ دیکھیں ہم کس طرح آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔ (الانعام : ٦٥) ٥۔ اسی طرح ہم اپنی آیات پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ آپ نے یہ کسی سے پڑھی ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے آپ واضح کردیں۔ (الانعام : ١٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ قرآن محض عبارتوں ، تراکیب اور الفاظ کا نام نہیں ہے کہ جن و انس اس کی نقل کرلیں گے۔ بلکہ یہ قرآن اللہ کی دوسری مخلوقات اور عجائب کی طرح ہے جن کی نقل کوئی انسان نہیں کرسکتا۔ یہ روح کی طرح ایک امر الٰہی ہے نہ انسان روح کے اسرار و رموز اور حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ انسان صرف روح کے اوصاف اور آثار کو جانتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کے معانی ، نظریا ات اور اسرار کو پوری طرح انسان نہیں سمجھ سکتے کہ اس جیسے کتاب لے آئیں۔ پھر قرآن ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں انسانی فطرت کے تمام قوانین اور تمام طور طریقوں کو مدنظر رکھ کر یہ حکم تجویز کیا گیا ہے اور یہ نظام ایسا ہے کہ ہر انسانی سوسائٹی کو ہر طرح کے حالات میں راہنمائی فراہم کرسکتا ہے ۔ چناچہ اس میں ایک فرد کے لئے بھی ہدایت ہے ، ایک مختلف النوع سوسائٹی کے لئے بھی ہدایات ہیں۔ اس میں ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جو زندگی کے تمام نشیب و فراز اور زندگی کے مختلف النوع مسائل کے مکمل اور تشفی بخش حل تجویز کرتے ہیں اور ہر حل پوری طرح مکمل اور ہمہ گیر ہے۔ ان قوانین کے اندر ایسی جامعیت ہے کہ یہ مختلف النوع اور بدلتی ہوئی زندگی کے مختلف حالات میں سے ہر حال پر ، اس کے قوانین منطق ہوتے ہیں۔ خواہ یہ حالات انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے۔ کیونکہ ان قوانین کا مقنن وہ ذات ہے جو اس انسان کے فطری تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اور انسان کی مختلف النوع ضروریات سے واقف ہے کیونکہ وہ خود انسان کا خالق ہے۔ رہے وہ قوانین اور طرز ہائے زندگی اور تنظمیات جو انسان نے وضع کیے ہیں تو ان کے اندر انسانی کمزوری کی چھاپ اس وقت بھی موجود ہوتی ہے جس وقت کوئی اسمبلی ان قوانین کو وضع کرتی ہے۔ لہٰذا یہ قوانین وقتی ہوتے ہیں بلکہ وقتی ضروریات کے لئے بھی ناکافی ہوتے ہیں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہوجاتے ہیں اور انہیں فرسودہ کہا جاتا ہے۔ جب حالات بدلتے ہیں تو پھر ان قوانین کے بدلنے کے لئے واویلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ جدید تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ قرآن کریم کے اعجاز کا مفہوم صرف ختم قرآن ، فصیح وبلیغ عبارات اور معانی کے حسن ادا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جن و انس اس جیسی کتاب لانے سے جو عاجز رہے ہیں اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جن و انس نے آج ایسا انظام حیات تجویز نہیں کیا جو قرآن نے پیش کیا ہے جو ایک مکمل نظام زندگی ہے اور زندگی کے پورے معاملات پر محیط ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر تمام انسان اور جنات بھی جمع ہوجائیں تو قرآن جیسی کوئی چیز بنا کر نہیں لاسکتے پہلی آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے نبی سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے کرم و انعام کا اظہار فرمایا ہے کہ یہ جو وحی ہم نے آپ کے پاس بھیجی ہے اپنی قدرت اور اختیار سے بھیجی ہے۔ اور آپ کے پاس اس کا باقی رکھنا بھی ہماری قدرت سے ہے ہم اگر چاہیں تو اسے سلب کرلیں یعنی آپ کو بھلا دیں۔ جیسے ہمیں وحی بھیجنے پر قدرت ہے ایسے ہی بھلا دینے پر بھی قدرت ہے اگر ہم آپ کو بھلا دیں تو اس کے واپس لانے کے لیے ہمارے مقابلہ میں کوئی آپ کو حمایت کرنے والا نہ ملے گا۔ ہاں اگر اللہ اپنی رحمت سے پھر واپس فرما دے یا سرے سے واپس ہی نہ لے تو یہ اس کا فضل و انعام ہے۔ (قال البغوی ص ١٣٥ ج ٣) استثناء منقطع معناہ ولکن لانشاء ذٰلِکَ (اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا) (بلاشبہ آپ پر اس کا بڑا فضل ہے) آپ کو سید الخلائق بنایا مقام محمود بھی عطا کیا۔ کتاب کا معجزہ بھی عطا فرمایا جو کلام اللہ بھی ہے اور کتاب اللہ بھی آپ کو آخر الانبیاء بنایا رہتی دنیا تک آپ کی شریعت باقی رکھی ہے، بیشمار علوم عطا فرمائے اور بہت بڑی امت عطا فرمائی، آپ کی اتنی زیادہ فضیلتیں ہیں جو مخلوق کے شمار سے باہر ہیں۔ سورة نساء میں فرمایا (وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا) (اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ علوم عطا فرمائے جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ ) اس کے بعد فرمایا (قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ ) اس میں قرآن مجید کا اعجاز بیان فرمایا ہے اور فرمایا کہ سارے انسان اور سارے جنات آپس میں مل کر ایک دوسرے کے مددگار بن کر اگر یہ کوشش کریں کہ قرآن جیسی کوئی چیز بنا کرلے آئیں تو ہرگز نہیں لاسکیں گے، قرآن مجید معجزہ ہے اور سراپا معجزہ ہے اس کی تالیف و نظم میں بلاغت کا وہ کام ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا قرآن کے عہد اول سے تمام فصحاء و بلغاء کو یہ چیلنج ہے کہ اس جیسی ایک سورت بنا کرلے آؤ مگر آج تک عاجز ہیں اور عاجز رہیں گے۔ یہ بلاغت وجوہ اعجاز میں سے ایک وجہ ہے اس کے علاوہ اور بھی وجوہ اعجاز ہیں۔ چونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر الانبیاء ہیں اور آپ کی امت آخر الامم ہے اور قیامت تک آپ کی دعوت سارے انسانوں کے لیے ہے اس لیے آپ کو بہت سے معجزات جو آپ کی حیات طیبہ میں کثیر تعداد میں دئیے گئے ان کے علاوہ ایک ایسا معجزہ بھی دے دیا جو ہمیشہ کے لیے معجزہ ہے اور وہ قرآن کریم ہے۔ (اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا) قرآن حکیم کے طرز بیان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے قرآن میں ہر قسم کے عمدہ مضامین مختلف طریقوں سے بیان کیے ہیں۔ اس میں عبرتیں بھی ہیں مواعظ بھی ہیں۔ احکام بھی ہیں۔ وعدے بھی ہیں وعیدیں بھی ہیں۔ قصص بھی ہیں۔ ترغیب و ترہیب بھی ہے اور اوامرو نواہی بھی ہیں، معاشرت کا طریقہ بھی بتایا ہے اور اخلاق و آداب کا بیان بھی ہے ما بعد الموت کی خبریں بھی ہیں، حشر نشر کی تفصیلات بھی، اور مضامین کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اکثر لوگ اس کے انکار پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ قولہ تعالیٰ من کل مثل قال صاحب الروح من کل معنی بدیع ھو فی الحسن والغربۃ واستجلاب النفوس کالمثل۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:۔ آپ ان معاندین سے فرما دیں کیا معجزہ قرآن تمہارے لیے کافی نہیں ؟ یہ تو ایسا بےنظیر معجزہ ہے کہ تمام جن و انس مل کر اور باہمی صلاح مشورہ کر کے بھی اس کا مثل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ قرآن مجید اپنی فصاحت و بلاغاغت میں، حسن و جمال نظم و تالیف میں، اخبار بالمغیبات اور دلائل وبراہین میں ایسا بےمثال ہے کہ اس کی نطیر بنانا محال اور غیر اللہ کی طاقت سے باہر ہے ای لو تظاھرو علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن فی بلاغتہ و حسن نظمہ و تالیفہ لعجزوا عن الاتیان بمثلہ (مدارک ج 2 ص 352)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 آگے قرآن کریم کے اعجاز کا ذکر فرمایا اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے اگر تمام انسان اور جنات سب کے سب اس بات پر جمع ہوجائیں کہ اس جیسا قرآن کریم بنا لائیں تو اس جیسا قرآن کریم نہ لاسکیں گے خواہ وہ آپ س میں ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔ یعنی تمام مخلوق مل کر بھی قرآن کریم کا جواب لانے سے عاجز اور بےبس ہے۔