Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 92

سورة بنی اسراءیل

اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۲﴾

Or you make the heaven fall upon us in fragments as you have claimed or you bring Allah and the angels before [us]

یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالٰی کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کر دیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا ... Or you cause the heaven to fall upon us in pieces, as you have pretended, means, `you promised us that on the Day of Resurrection the heavens will be split asunder, being broken and torn up, with parts of it falling down, so do that in this world and make it fall in pieces.' This is like when they said: اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَأءِ O Allah! If this (the Qur'an) is indeed the truth from You, then rain down stones on us from the sky. (8:32) Similarly, the people of Shu`ayb asked him: فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفاً مِّنَ السَّمَأءِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّـدِقِينَ So cause a piece of the heaven to fall on us, if you are of the truthful! (26:187) So Allah punished them with the punishment of the day of Shadow (a gloomy cloud), which was the torment of a Great Day. (26:189) ... أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَليِكَةِ قَبِيلً or you bring Allah and the angels before (us) face to face;" As for the Prophet of Repentance and Mercy, who was sent as a mercy to the worlds, he asked Allah to delay their punishment, in the hope that Allah would bring forth from their offspring people who would worship Allah Alone, with no partner or associate. This is what indeed did happen, for among those who are mentioned above were some who later embraced Islam and became good and sincere Muslims, even Abdullah bin Abi Umayyah, who followed the Prophet (out of that meeting) and spoke to him as he did. He became a sincere Muslim and turned to Allah in repentance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 یعنی ہمارے روبرو آکر کھڑے ہوجائیں اور ہم انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ ۔۔ :” كِسَفًا “ ” کِسْفَۃٌ“ کی جمع ہے، ٹکڑے۔ ” قَبِيْلًا “ بمعنی ” مُقَابِلاً “ ، جیسا کہ ” عَشِیْرٌ“ بمعنی ” مُعَاشِرٌ“ ہوتا ہے، یعنی آنکھوں کے سامنے۔ اس آیت میں ان کے دو مطالبے ذکر ہوئے۔ پہلے مطالبے میں ان بدنصیبوں کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے جس میں ارشاد ہے : (اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ ) [ سبا : ٩ ] ” اگر ہم چاہیں تو انھیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔ “ اس وعید سے خوف زدہ ہونے کے بجائے وہ جلد از جلد عذاب لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جیسا کہ سورة انفال (٣٢) میں مذکور ہے۔ دوسرے مطالبے یعنی اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے لانے کی تفصیل سورة فرقان (٢١، ٢٢) میں دیکھیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا 92۝ۙ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ كسف كُسُوفُ الشمس والقمر : استتارهما بعارض مخصوص، وبه شبّه كُسُوفُ الوجه والحال، فقیل : كَاسِفُ الوجه وكَاسِفُ الحال، والکِسْفَةُ : قطعة من السّحاب والقطن، ونحو ذلک من الأجسام المتخلخلة الحائلة، وجمعها كِسَفٌ ، قال : وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] ، فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] وکسفا «1» بالسّكون . فَكِسَفٌ جمع كِسْفَةٍ ، نحو : سدرة وسِدَرٍ. وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] . قال أبو زيد : كَسَفْتُ الثّوب أَكْسِفُهُ كِسْفاً :إذا قطعته قطعا «2» ، وقیل : كَسَفْتُ عرقوب الإبل، قال بعضهم : هو كَسَحْتُ لا غيرُ. ( ک س ف ) کسوف الشمش والقمر کے معنی ہیں سورج یا چاند کا کیس خاص عارض سے مستور یعنی گہن میں آجانا کے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر چہرہ یا حالت کے خراب ہونے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے کا سف الوجھہ یا کا سف الحال ۔ الکسفۃ کے معنی بادل روئی یا اس قسم کے دوسرے متخلخل اجسام کے ٹکڑے کے ہیں اس کی جمع کسف آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاکر گراؤ أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لاکر گراؤ ۔ ایک قرات میں کسفا بسکون سین ہے اور کسف کا واحد کسفۃ ہے جیسے سدرۃ وسدرۃ اور فرمایا : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ابو ذید نے کہا ہے کسفت الثوب ( ج ) کسفا کے معنی کپڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں بعض نے کسفت عر قوب الابل بھی کہا ہے جس کے معنی اونٹ کی کونچ کاٹ دینے کے ہیں لیکن ) بعض ایک لغت کے نزدیک اس معی میں صر ف کسحت ( ف ) ہی استعمال ہوتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ (1) قَبِيلُ والقَبِيلُ : جمع قَبِيلَةٍ ، وهي الجماعة المجتمعة التي يقبل بعضها علی بعض . قال تعالی: وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] ، أي : جماعة جماعة . وقیل : معناه كفيلا . من قولهم : قَبلْتُ فلانا وتَقَبَّلْتُ به، أي : تكفّلت به، وقیل مُقَابَلَةً ، أي : معاینة، ويقال : فلان لا يعرف قَبِيلًا من دبیر أي : ما أَقْبَلَتْ به المرأة من غزلها وما أدبرت به . القبیل یہ قبیلہ کی جمع ہے یعنی وہ جماعت جو ایک دوسرے پر متوجہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] تمہاری قو میں اور قبیلے بنائے ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبیل بمعنی کفیل یعنی ضامن کے ہے اور یہ قبلت فلانا وتتبلت بہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ضامن بننے کے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے معنی مقابلہ یعنی معائنہ کئے ہیں ۔ مثل مشہور ہے : ۔ وہ عورت کے اگلے اور پچھلے سوت میں تمیز نہیں کرسکتا یعنی بیوقوف ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) یا آپ ہم پر آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکرا گرا دیں یا آپ اپنے دعوے پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو گواہ کرکے ہمارے سامنے لا کر نہ کھڑا کردیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا) یعنی آپ ہمیں قیامت کے حوالے سے خبریں سنا سنا کر جو ڈراتے رہتے ہیں کہ اس وقت آسمان پھٹ جائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو آپ آسمان کا کوئی ٹکڑا ابھی ہم پر گرا کر دکھا دیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 بدبختوں کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے جس میں ارشاد ہے : ان نشاء تخسف بہم الارض او نسقط الیھم کسفا من السمآء کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیں۔ (سبا :9)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 یا جیسا تو ہم سے کہا کرتا ہے ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دے یا تو اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے روبرو لا کر کھڑا کر دے اور ہمارے سامنے لے آ۔