Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 1

سورة الكهف

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾

[All] praise is [due] to Allah , who has sent down upon His Servant the Book and has not made therein any deviance.

تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Revelation of the Qur'an brings both Good News and a Warning Allah praises His Holy Self; الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا All praise is due to Allah, Who has sent down to His servant the Book, and has not placed therein any crookedness. In the beginning of this Tafsir, we mentioned that Allah, praises His Holy Self at the beginning and end of matters, for He is the One to be praised in all circumstances, all praise and thanks be to Him, in the beginning and in the end. He praises Himself for revealing His Mighty Book to His Noble Messenger Muhammad, which is the greatest blessing that Allah has granted the people of this earth. Through the Qur'an, He brings them out of the darkness into light. He has made it a Book that is straight, neither distorted nor confusion therein. It clearly guides to a straight path, plain and manifest, giving a warning to the disbelievers and good news to the believers. This is why Allah says: ... وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا and has not placed therein any crookedness. meaning, there is nothing twisted or confusing about it. But He has made it balanced and straightforward as He said;

مستحق تعریف قرآن مجید ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہم اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی کوئی کسر کوئی کمی نہیں صراط مستقیم کی رہبر واضح جلی صاف اور واضح ہے ۔ بدکاروں کو ڈرانے والی ، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی ، معتدل ، سیدھی ، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے ۔ جو عذاب اللہ کی طرف کے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی ۔ ہاں جو اس پر یقین کرے ایمان لائے نیک عمل کرے اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے ۔ جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں ۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے ۔ مشرکین کے سوالات بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں یہ تو یہ ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بےعلمی سے کہتے رہے کلمۃ کا نصب تمیز کی بنا پر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے کبرت کلمتہم ھذہ کلمۃ اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے ۔ تقدیر عبارتیہ ہے اعظم بکلمتہم کلمۃ جیسے کہا جاتا ہے اکرم بزید رجلا بعض بصریوں کا یہی قول ہے ۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمتہ پڑھا جیسے ہے کہا جاتا ہے عظم قولک وکبر شانک جمہور کی قرأت پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بےدلیل ہے صرف کذب و افترا ہے اسی لئے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں اس سورت کا شان نزول یہ بیان ہو گیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ان سے پوچھو ان کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و اوصاف بیان کئے آپ کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو ۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو ۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے ۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا مشرق مغرب ہو آیا تھا ۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو ۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے ۔ اب چلو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے ۔ آپ نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے پندرہ دن گزر گئے نہ آپ پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے سورہ کہف نازل ہوئی اسی میں انشاء اللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور آیت ( وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85؀ ) 17- الإسراء:85 ) میں روح کی بابت جواب دیا گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورة کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورة کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری) 1۔ 1 یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١] سورة کہف کی فضیلت میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص رات کو گھر میں یہ سورت پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا گھوڑا بدکنے لگا۔ اس نے اوپر جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا جو بادل کی طرح سایہ کیے ہوئے تھا صبح اس نے یہ واقعہ رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوئی تھی۔ (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة کہف) اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ٢۔ سیدنا ابو الدرداء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اس سورة کی ابتدائی تین آیات پڑھتا رہے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الکہف) اور مسلم میں اس طرح ہے کہ جو شخص سورة کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب فضائل القرآن۔ پہلی فصل) ٣۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھے دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن ہوجاتا ہے۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوۃ کتاب فضائل القرآن۔ تیسری فصل) [ ١۔ الف ] یعنی اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد و ثنا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے مطالب صاف صاف بیان کرتی ہے نہ اس کے مطالب میں کوئی پیچ و خم ہے اور نہ اس کے انداز بیان میں کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ ۔۔ : یہ سورت ان پانچ سورتوں میں شامل ہے جن کی ابتدا ” اَلْحَمْدُ “ کے ساتھ ہوئی ہے، دوسری چار سورتیں فاتحہ، انعام، سبا اور فاطر ہیں۔ پچھلی سورت کا خاتمہ بھی ” اَلْحَمْدُ “ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا اور انتہا اللہ کے پاکیزہ نام کے ساتھ یا اس کی حمد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ان تمام سورتوں میں سے ہر سورت کا طریقہ اگرچہ مختلف ہے مگر مقصود لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ حمد کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اور کوئی نہیں، کیونکہ کسی میں کوئی خوبی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ : سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد کا مالک ہونے کی دلیل کے لیے چار صفات بیان ہوئی ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد اور خوبیوں کا مالک ہونے کی ایک ہی دلیل بیان کی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر ” اَلْکِتٰب “ نازل فرمانا ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام انعامات اگرچہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر یہ نعمت سب سے اہم ہے، کیونکہ اس پر ہمیشہ کی زندگی یعنی اخروی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔ عَلٰي عَبْدِهِ : ” اپنے بندے پر، اپنے غلام پر “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا خاص عبد قرار دینے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےانتہا شان بیان ہوئی ہے، اگرچہ زمین و آسمان میں رہنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی غلام ہے، مگر ” اپنا غلام “ کہنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو عزت ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملی ہے، جیسا کہ (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) [ بنی إسرائیل : ١ ] میں ہے اور اس کتاب کی بھی تعریف ہے جو نازل کی گئی۔ ” اَلْکِتٰبُ “ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی یہ کتاب، مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ جب صرف ” اَلْکِتٰب “ کہا جائے تو قرآن کریم ہی مراد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے سوا کسی اور میں یہ کمال ہی نہیں کہ اسے ” اَلْکِتٰب “ کہا جاسکے۔ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا : ” عِوَجًا “ کجی، ٹیڑھا پن۔ ” عِوجاً “ پر تنوین عموم کے لیے ہے جو نفی کے بعد آکر مزید عام ہوگیا ہے، یعنی اس کتاب میں کسی بھی قسم کا کوئی ٹیڑھا پن نہیں، نہ الفاظ میں، نہ معانی میں، نہ فصاحت و بلاغت میں، نہ یہ کہ اس کی آیات کا آپس میں کوئی اختلاف ہو، یا اس کی کوئی خبر غلط نکلے، یا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو۔ دیکھیے زمر (٢٨) ، بنی اسرائیل (٩ تا ١٠) اور نساء (٨٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The properties and merits of Surah al-Kahf According to a narration of Sayyidna Abu al-Darda& (رض) appearing in Muslim, Abu Dawud, Tirmidhi, al-Nasa&i and the Musnad of Ahmad, one who has memorized the first ten verses of Surah al-Kahf will remain pro¬tected from the ill effects of Dajjal (imposter). In another report in the same books and from the same authority, the same thing has been said about having memorized the last ten verses of Surah al-Kahf. And it has been reported in the Musnad of Ahmad on the authority of Sayyidna Sahl ibn Mu` adh (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"One who recites the first and the last verses of Surah al-Kahf, for him there is light from his feet up to his head. And the one who were to recite the whole Surah, then, for him there is light from the earth up to the sky.|" And it appears in some narratives that a person who recites Surah al-Kahf on the day of Jumu&ah will have light from his feet up to the sky. This light will serve him well on the day of Qiyamah, and every sin com¬mitted by him between the past and the present Jumu&ah will be forgiv¬en.|" (Imam Ibn Kathir has declared this report to be mawquf (a Hadith the narration of which stops at a Sahabi and does not ascend to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)). And Hafiz Zya& al-Maqdisi, in his book Al-Mukhtarah, has reported on the authority of Sayyidna ` Ali (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"One who recites Surah al-Kahf on the day of Jumu&ah will remain protected from every fitnah. And if Dajjal appears, he will stay safe against the trying challenges released by him as well.|" (All these narrative reports have been taken from Tafsir ibn Kathir) According to a report from Dailami on the authority of Sayyidna Anas (رض) appearing in Ruh al-Ma’ ani, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"The entire Surah al-Kahf was revealed at one time and seventy thousand angels came with it|" - which shows its majesty. The cause of revelation Imam ibn Jarir al-Tabari has reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) عنہما that the Quraysh of Makkah (disturbed by the rising influence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as a prophet) sent two of their men, Nadr ibn Harith and &Uqbah ibn Abi Mu` ayt, to the Jewish scholars of Madinah. Their mission was to find out what they said about him as they were learned in past scriptures of the Torah and Injil. The Jewish scholars told them, |"put three questions before him. If he answers these correctly,* you should know that he is a Prophet and Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and if he fails to do that, you should know that he is a pretender and not a messenger. Firstly, ask him about the young men who had left their city in the distant past and what had happened to them, for this is a unique event. Secondly, ask him about the person who had traveled through the East and West of the Earth and what had happened to him. Thirdly, ask him about the Ruh (soul, spirit) as to what it was?|" * That is, he gives the answer he should give (and his correct answer to the question about &Rte& will be that Allah Ta` ala knows its reality best). So, this report which appears in Tafsir al-Tabari, p. 191, v. 15 is not contrary to the report which has ap¬peared on pages 544-47 of this volume under the commentary on verse 85 of Surah Banff Isra&il - Muhammad Taqi Usmani. The two Quraysh emissaries returned to Makkah al-Mukarramah, informed their tribesmen that they had come back with a decisive plan of action and told them all about their encounter with the Jewish scholars of Madinah. Then, these people took these questions to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He heard the questions and said that he will answer them tomorrow. But, he forgot to say &insha Allah& at that time. These people went back and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) kept waiting for the Divine revelation in the hope that he will be told about answers to these questions through wahy. But, no wahy came until the next day as promised. In fact, fifteen days went by and things stood as they were, neither did Sayyidna Jibra&il come nor did the revelation. The Quraysh of Makkah started throwing taunts which caused real pain to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . After fifteen days, came angel Jibra&il with Surah al-Kahf (wherein the delay caused has also been explained by saying that one should say &insha Allah& when promising to do something in the future. Since, this was not done in the event concerned, therefore, revelation was delayed as a measure of reminder. In this Surah, verses relating to this matter such as: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ (18:23, 24) will be appearing later). Also related in this Surah there was the event about the young men known as Ashab al-Kahf or the People of the Cave, and the event concerning the travel of Dhul-Qarnain from the East to the West. Also included therein was the answer to the question asked about &Ruh& (Qurtubi and Mazhari with reference to Ibn Jarir). But, answering the question about Ruh (soul, spirit) briefly was as dictated by wisdom. This was taken up separately at the end of Surah Bani Isra&il (17:85) and this is the reason why Surah al-Kahf has been placed after Surah Bani Isra&il [ al-Isra&] - as mentioned by Al-Suyuti. Commentary The word: عوج (&iwaj) in: وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا (and allowed no crooked¬ness in it - 1) means crookedness of any kind, or inclination towards one side or deviation from the norms of rectitude. The Holy Qur&an remains pure and free of all that in terms of the perfection of its words and mean¬ings. It simply admits of no distortion anywhere, either in eloquence or in knowledge and wisdom. The sense which has been conveyed in a negative or eliminative form through: ` وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا (and allowed no crooked¬ness in it) has been fortified positively through the word: قَيِّمًا (qayyima) which follows immediately for emphasis. The reason is that this word carries the sense of: مُستَقِیمَا (mustaqima) and that which is: مُستَقِیم (musta¬qim: straightforward, straight, upright) will not have the least crooked¬ness or tilt towards any side. However, قَیَّم (qayyim) can also have anoth¬er sense, that of caretaker, custodian and protector. Given this probability, the sense of the expression would be that the Qur’ an, while perfect in itself as free from all kinds of excess, deficiency and crooked¬ness, keeps others upright, firm and unflinching and protects the inter-ests and advantages of all servants of Allah. Thus the gist of the two ex¬pressions would be that the Holy Qur&an stands perfect in itself and has the ability to make men and women created by Allah become equally per¬fect. (Mazhari)

سورة کہف کی خصوصیات اور فضائل : مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد میں حضرت ابو الدردا (رض) سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے سورة کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور کتب مذکورہ میں حضرت ابوالدردا (رض) ہی سے ایک دوسری روایت میں یہی مضمون سورة کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرنے کے متعلق منقول ہے اور مسند احمد میں بروایت حضرت سہل بن معاذ (رض) یہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص سورة کہف کی پہلی اور آخری آیتیں پڑھ لے تو اس کے لئے اس کے قدم سے سر تک ایک نور ہوجاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے جو اس کے لئے زمین سے آسمان تک نور ہوجاتا ہے۔ اور حافظ ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب مختارہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھ لے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے معصوم رہے گا، اور اگر دجال نکل آئے تو یہ اس کے فتنہ سے بھی معصوم رہے گا۔ { یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں } روح المعانی میں دیلمی سے بروایت حضرت انس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة کہف پوری کی پوری ایک وقت میں نازل ہوئی، اور ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ آئے، جس سے اس کی عظمت شان ظاہر ہوتی ہے۔ شان نزول : امام ابن جریر طبری نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ ( مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا چرچا ہوا اور قریش مکہ اس سے پریشان ہوئے تو) انہوں نے اپنے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیجا کہ وہ لوگ کتب سابقہ تورات و انجیل کے عالم ہیں وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ علماء یہود نے ان کو بتلایا کہ تم لوگ ان سے تین سوالات کرو، اگر انہوں نے ان کا جواب صحیح دے دیاتو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، اور یہ نہ کرسکے تو یہ سمجھ لو کہ یہ بات بنانے والے ہیں رسول نہیں۔ ایک تو ان سے ان نوجوانوں کا حال دریافت کرو جو قدیم زمانے میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے ان کا کیا واقعہ ہے، کیونکہ یہ واقعہ عجیبہ ہے، دوسرے ان سے اس شخص کا حال پوچھو جس نے دنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر کیا اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرے ان سے روح کے متعلق سوال کرو کہ وہ کیا چیز ہے ؟ یہ دونوں قریشی مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنی برادری کے لوگوں سے کہا کہ ہم ایک فیصلہ کن صورت حال لے کر آئے ہیں، علماء یہود کا پورا قصہ سنا دیا، پھر یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ سوالات لے کر حاضر ہوئے، آپ نے سن کر فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا، مگر آپ اس وقت انشاء اللہ کہنا بھول گئے یہ لوگ لوٹ گئے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی الہی کے انتطار میں رہے کہ ان سوالات کا جواب وحی سے بتلا دیا جائے گا، مگر وعدے کے مطابق اگلے دن تک کوئی وحی نہ آئی، بلکہ پندرہ دن اسی حال پر گذر گئے کہ نہ جبرائیل امین آئے نہ کوئی وحی نازل ہوئی، قریش مکہ نے مذاق اڑانا شروع کیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے سخت رنج و غم پہونچا۔ پندرہ دن کے بعد جبرائیل امین سورة کہف لے کر نازل ہوئے (جس میں تاخیر وحی کا سبب بھی بیان کردیا گیا ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہنا چاہیے، اس واقعہ میں چونکہ ایسا نہ ہوا اس پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی میں تاخیر ہوئی، اس سورة میں اس معاملہ کے متعلق یہ آیتیں آگے آئیں گی (آیت) (وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ) اور اس سورة میں نوجوانوں کا واقعہ بھی پورا بتلا دیا گیا، جن کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے، اور مشرق و مغرب کے سفر کرنے والے ذوالقرنین کے واقعہ کا بھی مفصل بیان آ گیا، اور روح کے سوال کا جواب بھی، (قرطبی و مظہری بحوالہ ابن جریر) (مگر روح کے سوال کا جواب اجمال کے ساتھ دینا مقتضائے حکمت تھا، اس کو سورة بنی اسرائیل کے آخر میں علیحدہ کر کے بیان کردیا گیا، اور اسی سبب سے سورة کہف کو سورة بنی اسرائیل کے بعد رکھا گیا ہے، کذا اذکرہ السیوطی) ۔ خلاصہ تفسیر : تمام خوبیاں اس اللہ کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے (خاص) بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب نازل فرمائی، اور اس (کتاب) میں (کسی قسم کی) ذرا بھی کجی نہیں رکھی (نہ لفظی کہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو، اور نہ معنوی کہ اس کا کوئی حکم حکمت کے خلاف ہو بلکہ اس کو) بالکل استقامت کے سانھ موصوف بنایا ( اور نازل اس لئے کیا کہ) تاکہ وہ ( کتاب کافروں کو عموما) ایک سخت عذاب سے جو من جانب اللہ (ان کو آخرت میں ہوگا) ڈرائے اور اہل ایمان کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دے کہ ان کو (آخرت میں) اچھا اجر ملے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ (کفار میں سے بالخصوص) ان لوگوں کو (عذاب سے) ڈرائے جو یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے (اور اولاد کا عقیدہ رکھنے والے کافروں کا عام کافروں سے الگ کر کے اس لئے بیان کیا گیا کہ اس باطل عقیدہ میں عرب کے عام لوگ مشرکین، یہود، نصاری سب ہی مبتلا تھے) نہ تو اس کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے، اور نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھی، بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، (اور) وہ لوگ بالکل (ہی) جھوٹ بکتے ہیں (جو عقلا بھی ناممکن ہے، کوئی ادنی عقل والا بھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا، اور آپ جو ان لوگوں کے کفر و انکار پر اتنا غم کرتے ہیں کہ) سو شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون (قرآنی) پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دیدیں گے (یعنی اتنا غم نہ کیجئے کہ ہلاکت کے قریب کر دے، وجہ یہ ہے کہ دنیا عالم امتحان ہے، اس میں ایمان و کفر اور خیر وشر دونوں کا مجموعہ ہی رہے گا، سبھی مومن ہوجائیں گے ایسا نہ ہوگا، اسی امتحان کے لئے) ہم نے زمین پر کئی چیزوں کو اس (زمین) کے لئے باعث رونق بنایا، تاکہ ہم (اس کے ذریعہ) لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے (یہ امتحان کرنا ہے کہ کون اس دنیا کی زنیت اور رونق پر مفتون ہو کر اللہ سے آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور کون نہیں، غرض یہ کہ یہ عالم ابتلا ہے، اور ان کے کفر کا نتیجہ دنیا ہی میں ظاہر ہوجانے کا انتظار نہ کیجئے کیونکہ وہ ہمارا کام ہے، ایک مقررہ وقت پر ہوگا، چناچہ ایک روز وہ آئے گا کہ) ہم زمین کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کردیں گے ( نہ اس پر کوئی بسنے والا رہے گا نہ کوئی درخت اور پہاڑ اور نہ کوئی مکان و تعمیر، خلاصہ یہ ہے کہ آپ اپنا کام تبلیغ کا کرتے رہئے، منکرین کے انجام بد کا اتنا غم نہ کیجئے) ۔ معارف و مسائل : (آیت) وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاقَـيِّمًا لفظ عوج کے معنی کسی قسم کی کجی اور ایک طرف جھکاؤ کے ہیں قرآن کریم اپنے لفظی اور معنوی کلام میں اس سے پاک ہے، نہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی جگہ ذرہ برابر کمی یا کجی ہو سکتی ہے نہ علم و حکمت کے لحاظ سے، جو مفہوم لفظ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا سے ایک منفی صورت میں بتلایا گیا ہے، پھر تاکید کے لئے اسی مضمون کو مثبت طور پر لفظ قیما سے واضح کردیا ہے، کیونکہ قیما کے معنے ہیں مستقیما اور مستقیم وہی ہے جس میں کوئی ادنی کجی اور میلان کسی جانب نہ ہو، اور یہاں قیم کے ایک دوسرے معنی بھی ہو سکتے ہیں، یعنی نگران اور محافظ، اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن کریم جیسا اپنی ذات میں کامل مکمل ہر قسم کی کجی اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی طرح یہ دوسروں کو بھی استقامت پر رکھنے والا اور بندوں کی تمام مصالح کی حفاظت کرنے والا ہے، اب خلاصہ ان دونوں کا یہ ہوجائے گا کہ قرآن کریم خود بھی کامل و مکمل ہے اور مخلوق خدا کو بھی کامل و مکمل بنانے والا ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو عوج الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال : عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، ( ع و ج ) العوج ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) تمام خوبیاں اور شکر والوہیت اس اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں جس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ جبریل امین قرآن کریم نازل فرمایا توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کے بیان میں توریت وانجیل اور تمام آسمانی کتب کے بیان سے اس قرآن کریم میں کوئی مخالفت نہیں کی، یہ آیت مبارکہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ قرآن کریم تمام تمام آسمانی کتب کے مخالف ہے تمام کتابوں پر اس کو غالب بنایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ ) رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور نسبت ہے اسے یہاں لفظ ” عبد “ سے نمایاں فرمایا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. That is, there is nothing intricate or complicated in it that may be beyond anyone’s understanding nor is there anything that deviates from the straight path of the truth and thus cause hesitation in the mind of a truth loving person.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :1 یعنی اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے ، اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٥:۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے سمرہ بن جندب کی حدیث سورة بنی اسرائیل کی تفسیر میں گزر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ الحمد للہ کا کلمہ اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا ہے ١ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی بعض سورتوں کے اول میں اور بعض کے آخر میں یہ کلمہ اس لیے فرمایا ہے کہ یہ اللہ کا پیارا کلمہ اس کے نیک بندوں کے منہ سے نکلے اور ان کا عقبے کا بھلا ہوجائے مشرکین مکہ یہ کہتے تھے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بنا لیا ہے انزل علی عبدہ الکتب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو چھٹلایا اور فرمایا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کو اس نے اپنے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے جس میں کسی طرح کی کچھ کجی نہیں عبارت اس کی ایسی ہے جس کو منکر لوگ بھی جادو کے اثر کی ایک چیز بتلاتے ہیں غیب کی خبریں اور میں کئی ایسی سچی ہیں جو پہلی آسمانی کتابوں میں ہیں پہلی کتابوں کی صداقت اس میں ایسی ہے جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی پوری گواہی دیتی ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کی آیتیں سن کر جب ولید بن مغیرہ کے دل پر اثر ہوا تو اس نے کہا اس کلام میں داود کا سا اثر معلوم ہوتا ہے ٢ ؎۔ یہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ میں بڑا لسان مشہور تھا زیادہ حال اس کا سورة المدثر میں آوے گا۔ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ جس طرح توریت میں تھا اسی طرح قرآن کے آگے کی آیتوں میں ہے منکر قرآن لوگ قرآن کی عبادت میں جادو کا اثر جو بتلاتے تھے اس کا مطلب حضرت عبداللہ بن عباس کی اوپر کی روایت سے اور قرآن میں پہلی آسمانی کتابوں کی صداقت جو ہے ان قصوں سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب انبیاء کی نبوت کی مثال ایک عالیشان خوبصورت مکان کی بیان کر کے یہ فرمایا ہے کہ اس مکان میں ایک آخری اینٹ کی کسر تھی جو کسر میرے نبی ہونے کے بعد پوری ہوگئی ٣ ؎۔ قرآن کو قیما جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف ایسا ٹھیک اتارا جس سے نبوت کا عالیشان محل ٹھیک ہوگیا اب آگے قرآن شریف کے نازل فرمانے کا مقصد بیان فرمایا کہ یہ قرآن نافرمان لوگوں کو دوزخ کے سخت عذاب کا ڈر اور فرمانبر دار لوگوں کو جنت کی خوشخبری سنا دینے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے کئی جگہ روایتیں گزر چکی ہیں کہ نیک عمل کا اجر دس گنے سے لے کر سات سو تک اور بعض نیکیوں کا اجر اس سے بھی زیادہ ہے ٤ ؎۔ وہی حدیثیں اجرا حسنا کی گویا تفسیر ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رض) کی روایتیں کئی جگہ گزر چکی ہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ کے فرشتے جنتیوں کو ہمیشہ صحت و تندرستی سے جنت میں رہنے کی خوشخبری سنائیں گے ٥ ؎۔ یہ روایتیں ماکثین فیہ ابدا کی گویا تفسیر ہیں پھر فرمایا جو لوگ اتنی بڑی جھوٹی بات منہ سے نکالتے ہیں کہ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں ان کے اور ان کے بڑوں کے پاس ان بےٹھکانے باتوں کی کچھ سند نہیں ہے اس لیے ان کو دوزخ کے سخت عذاب کا ڈر سنا دیا جائے۔ صحیح بخاری دوزخ کے عذاب کا جو حال معلوم ہے اگر وہ میں پورا لوگوں کے روبرو بیان کر دوں تو سوائے رونے کے لوگوں سے دنیا کا اور کام نہ ہو سکے ٦ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں دوزخ کے سخت عذاب کا آیا ہے اس کی پوری تفسیر علمائے امت کی طاقت سے باہر ہے کیونکہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لیے اس کا پورا حال اللہ کے رسول نے اللہ کے حکم سے امت کے لوگوں سے بیان نہیں کیا۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٨ ج ١۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٤٤٣ ج ٤۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٥١١ باب فضائل سیدالمرسلین۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ص ٩٢٠ ج ٢ باب من ہم بحسنتہ اوسیتہ۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٢ باب صفحتہ الجنتہ واہلہا۔ ٦ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٦ باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوتعلمون ماعلم لضحکتم قلیلا الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:1) عبدہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ عبد سے مراد ذات اقدس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور ضمیر واحد مذکر غائب ہ کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہے۔ الکتب۔ ای القران۔ عوجا۔ العوج (باب نصر) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کھڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں۔ العوج اس ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جاسکے۔ مثلاً لکڑی وغیرہ کا ٹیڑھا پن۔ اور العوج اس ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل اور بصیرت سے دیکھا جاسکے۔ مثلاً معاشرہ میں دینی اور معاشی ناہمواریاں ۔ یا فہم و ادراک میں کجی۔ اور جگہ قرآن کی تعریف میں ارشاد ہے قرانا عربیا غیر ذی عوج (39:28) یہ قرآن عربی جس میں کوئی عیب واختلاف (لفظی یا معنوی ناہمواری) نہیں ہے۔ عوج۔ اسم ، پیچیدگی۔ ٹیڑھا پن۔ صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں۔ عوجا کی تنوین تقلیل کیلئے ہے یعنی اس میں ذرا سی بھی کجی نہیں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الکہف : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف سورة کہف بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور اس میں انہی دو سوالوں کے جوابات ارشاد فرمائے گئے جو کفار مکہ نے یہود مدینہ سے پوچھ کر کئے تھے ، تیسرے سوال کا جواب سورة بنی اسرائیل میں اجمالا بیان ہوچکا جو روح کے بارے میں تھا ، مگر ان دونوں کے جواب مفصل دیئے گئے ، اگرچہ ان کی تفصیل بھی جغرافیائی محل وقوع تاریخی اعتبار سے زمانہ افراد کی حتمی تعداد وغیرہ باتوں کو بیان نہیں کرتی ، کہ قرآن حکیم کا موضوع تاریخ و جغرافیہ نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا اور ان کی اصلاح احوال ہے تو جس حد تک واقعہ سے اس امر میں مدد حاصل ہوتی ہو اس حد تک اس واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے بلکہ بعض واقعات کے مختلف اجزا مختلف مواقع پر بیان فرمائے گئے کہ وہاں ان کی مثال پیش کرنا مطلوب تھا اور بعض واقعات کو کئی کئی بار دہرایا گیا جس سے بھی یہی مقصود ہے ۔ مفسرین نے اس سورة کے بہت زیادہ فضائل نقل فرمائے ہیں اور مختلف فتنوں سے حفاظت کے لیے اس کی تلاوت کا ارشاد فرمایا گیا ہے روزانہ پڑھے یا ہر جمعہ کو پڑھے ، یا پھر پہلی اور آخری آیات یاد کر کے بطور وظیفہ پڑھنا فتنوں سے حفاظت کا سبب ہے ۔ قصہ ان حضرات کا مختصرا یہ ہے کہ اس شہر پر جس کے یہ لوگ باسی تھے ایک ظالم اور کافر دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کرتا تھا ، مفسرین نے اسے اندلس کا شہر لکھا ہے اور ایسیائے کوچک کا شہر بھی لکھا ہے اور بعض مفسرین نے فلسطین سے نیچے آپلہ یا موجودہ عقبہ کے قریب لکھا ہے جو سب اندازے ہیں اور کوئی بھی قطعی نہیں بلکہ دین عیسوی میں رہبانیت کی بہت فضیلت تھی ، اس اعتبار سے اکثر لوگوں نے عمریں غاروں میں گذار دیں تو مختلف جگہوں پر ایسے غار ملتے ہیں جن میں فوت شدہ لوگوں کے ڈھانچے پائے گئے ہیں لیکن یہ متعین نہیں کیا جاسکتا کہ جن لوگوں کا قصہ قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے وہ یہی اصحاب کہف ہیں یا یہ ان کا غار ہے ، رقیم بعض حضرات کے نزدیک ایک وادی کا نام ہے جس میں یہ غار ہے اور بعض حضرات کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جس کے یہ لوگ رہنے والے تھے جدید مؤرخین نے بھی اس موضوع پر بہت تحقیق کی ہے مگر نتیجہ سوائے بحث کے کچھ نہیں کہ یقینی اور حتمی بات کوئی نہیں بتا سکتا سوائے اس کے کہ یہ لوگ دین عیسوی پر تھے اور چند نوجوان تھے جو امراء سلطنت کے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے تھے بادشاہ ظالم تھا اور قوم بت پرستی میں مبتلا تھی انہیں اس بات سے نفرت پیدا ہوئی اور ایک قومی اجتماع میں بت پرستی دیکھ کر وہاں سے الگ ہوگئے ، مگر بادشاہ کے پاس کسی نے شکایت کردی اس نے انہیں بلا کر ڈانٹا اور موقع دیا کہ آبائی مذہب اپنا لو ورنہ قتل کردئیے جاؤ گے ، انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور واپس کفر میں جانے پر آبادی چھوڑنے اور جنگل میں پناہ لینے کو ترجیح دی چناچہ ایک غار میں پناہ گزین ہوئے اور اللہ سے پناہ چاہی ، اللہ جل جلالہ نے انہیں اپنی قدرت کاملہ سے آرام کی نیند سلا دیا ، اور وہ تین سو سال سوتے رہے ۔ دریں اثنا زمانہ بدل گیا ملک ایک مسلمان حکمران نے فتح کرلیا جو دین عیسوی پر تھا اور جس کا نام بیدوسیس تھا تب اللہ جل جلالہ نے انہیں جگا دیا وہ خوراک حاصل کرنے بازار گئے تو سکہ دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑگئے ، چناچہ بادشاہ تک بات پہنچی اور یوں سارا واقعہ قدرت الہی کا کرشمہ اور قیامت میں جی اٹھنے کا ثبوت بن کر ظاہر ہوا وہ بادشاہ سے رخصت ہو کر اپنے غار میں آئے تو اللہ جل جلالہ نے موت وارد کردی اور پھر انہیں کوئی نہ دیکھ سکا یہ تو تھا اس سارے قصے کا اجمالی تذکرہ اب جو بات قرآن نے ارشاد فرمائی حق وہی ہے لہذا اس کی طرف ہی متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ سب سے پہلے اللہ جل جلالہ کی عظمت اور بلندی شان اور احسان عظیم عظیم کا تذکرہ ہے کہ تمام خوبیاں اور کمالات اسی ذات کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس میں کسی طرف کے جھکاؤ یا کسی جانب میلان کا شائبہ تک نہیں ، فصاحت وبلاغت ہو یا معنوی کمال ہر طرح سے خود ایک سیدھی راہ متعین فرمائی ہے اور کسی واقعہ یا طبقہ یا شے متاثر نہیں ہوتی بلکہ صاف صاف اور حق بات بیان کرتی ہے ۔ جو بھی غلطی اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرے اسے اس کے شدید اور پریشان کن نتائج سے خبردار کرتی ہے ، اور ایسے لوگوں کو جنہیں ایمان نصیب ہو جو اپنے ایمان اور عقیدے کا نری دعوی نہیں کرتے بلکہ ایمان کے مطابق احکام نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی میں نیک کام کرتے ہیں کہ یہی ایمان کا تقاضا ہے انہیں خوشخبری سناتی ہے اور بہترین اجر کی خبر دیتی ہے جس سے وہ ہمیشہ لطف اندوز ہوا کریں گے ۔ نیز ان لوگوں کو جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذ اللہ اللہ کی اولاد ہے خاص طور پر اس کے انجام بد سے خبردار کرتی ہے کہ ان کے منہ سے نکلنے والی یہ بات بہت بڑی گستاخی ہے جس کے بارے میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور ان کے آباء و اجداد کے پاس کوئی دلیل تھی ، ایسا کہنے والے لوگ بہت بڑا جھوٹ بولتے ہیں ۔ (انسانیت پر شفقت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حال) کفار ومشرکین کی ان خرافات اور گستاخیوں کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت کا یہ حال کہ ان کی ایمان سے محرومی کے دکھ میں گویا آپ جان دے دیں گے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر محسوس نہ فرمائیے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور کسی کو حکما مومن نہ بنایا جائے گا ، اللہ جل جلالہ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی کریم ہستی اور قرآن جیسی کتاب عطا فرمائی ، اب فیصلہ ان کا ہے کہ کونسی راہ اپناتے ہیں لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں کو اتنی شدت سے محسوس نہ فرمائیں کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔ دوستاں راکجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظر داری : (مال و دولت دنیا باعث زینت ہے) زمین پر ہم نے جو بھی بنایا ہے وہ سب دنیا کی سجاوٹ ، زینت اور خوبصورتی کا سبب ہے ، اور لوگوں کو اپنی طرف راغب کرلیتا ہے مگر مقصد حصول دنیا میں کمال حاصل کرنا نہیں ، بلکہ آزمائش ہی یہی ہے کہ اس زیب وزینت کو راستے کی دیوار نہ بناتے ہوئے کون بہترین اور اچھے کام کرتا ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو مال و دولت دنیا سے عزیز تر رکھتا ہے اور یہ سب رونق ایک خاص وقت تک کے لیے ہے آخر کو یہ سب تباہ وبرباد کرکے دنیا کو ایک چٹیل میدان کردیا جائے گا ۔ تو اے مخاطب تیرے خیال میں اصحاب کہف والرقیم کا حال ہماری قدرت کے کمال کی بہت عجیب و غریب بات ہے یعنی یہ اتنی بڑی بات نہیں بلکہ ارض وسما کی تخلیق ایک وسیع نظام کا قیام اور اس کا مسلسل چلنا یہ سب کچھ اس بات سے عجیب تر ہے جسے تم کوئی اہمیت نہیں دے رہے اور اس کی عظمت کا اقرار نہیں کرتے ، چند آدمیوں کو باقی رکھنا عجیب ہے یا ایک کائنات کو قائم رکھنا ۔ چناچہ وہ بات اس طرح ہے کہ چند نوجوانوں نے ایک ظالم حکمران سے بھاگ کر اور ساری دولت دنیا کو اپنے ایمان پر قربان کرکے ایک غار میں پناہ لی اور اللہ کو پکارا کہ اے ہمارے رب ہم پر اپنی رحمت کی بارش کر اور ہمارے کام کو درست کر دے یعنی تیری خاطر جہان سے منہ موڑ کر جب ہم نے غار کو اپنایا ہے تو ہمارے اس کام کو کامیاب فرما یہ نہ ہو کہ ہم مجبور و لاچار ہو کر پھر کفار کے ہتھے چڑھ جائیں ،۔ (مقبولیت دعا کی شرط) گویا جو دعا دنیاوی مفادات سے بالا ہو کر محض دینی فائدے اور حصول قرب الہی کے جذبے سے کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے خواہ وہ امر عقلا محال بھی ہو ، چناچہ ہم نے انہیں غم دنیا ، خوف کفار اور حوائج ضروریہ سب سے بچانے کے لیے ان پر گہری نیند طاری کردی جو برسوں ان پر طاری رہی یعنی تین صدیاں بیت گئیں تو ایک روز انہیں بیدار کردیا کہ دیکھیں ان میں سے کون سمجھ پاتا ہے کہ اس آغوش رحمت میں کتنا عرصۃ بیت گیا کہ خود ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر ہی گذری ہے ، یعنی دن کا کچھ حصہ اور بعض نے کہا کہ اللہ جل جلالہ ہی بہتر جانتا ہے اور دنیا کے لوگوں کو بھی ایک بہت بڑی نشانی دکھائی جائے جو اس کی قدرت پہ دلالت کرتی ہو۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 5 لم یجعل نہیں بنایا۔ عوج ٹیڑہ پن۔ کجی۔ قیم بالکل درست، صحیح۔ باس شدید سخت عذاب۔ ما کثین ٹھیرنے والے، جمنے والے۔ ابداً ہمیشہ کبرثت بڑی۔ کلمۃ بات، کلمہ افواہ (فوہ) منہ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 سورۃ الکہف کے ابتدائی تعارف میں آپ نے ملاحظہ کرلیا ہے کہب عض یہودیوں کے کہنے پر کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف، ذوالقرنین اور روح کے متعلق سوالات کئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ عرب والے ان باتوں سے ناواقف ہیں جب ہم سوال کریں گے اور ان کا جواب نہ مل سکے گا تو ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا مذاق اڑانے اور یہ کہنے کا موقع ہاتھ آجائے گا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ (نعوذ باللہ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ہی گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الکہف کی ابتداء اس طرح فرمائی ہے کہ یہ کتاب الٰہی اللہ نے اپنے بندے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے وہ اللہ جو اس کائنات میں ہر طرح کی خوبیوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ یہ اللہ کا نازل کیا ہوا کلام ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو سیدھی راہ عطا کردی جائے تاکہ وہ دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اور کامیابیاں حاصل کرسکیں۔ لیکن وہ لوگ جو اس راہ مستقیم سے ہٹ کر چلنے والے ہیں ان کو بھی معلوم ہوجائے کہ ان کے لئے نہ تو دنیا کی عزتیں ہیں اور نہ آخرت کی ابدی راحتیں ہیں۔ فرمایا کہ اللہ نے ہر درو کے لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قرآن کریم کو اپنے آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے جو راہ ہدایت بتانے اور منزل تک پہنچانے میں اس قدر واضح، صاف اور آسان ہے جس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی الجھاؤ دشواری نہیں ہے۔ یہ کتاب الٰہی چند خصوصیات رکھتی ہے۔ ۔ (1) اس کو سمجھنے اور عمل کرنے میں ذرا بھی ٹیڑہ پن، منطقی انداز فکر یا فلسفیانہ الجھاؤ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے نہایت صاف صاف اور واضح احکامات پر مشتمل ہے۔ یہ ان کتابوں کی طرح نہیں ہے جس میں فکر و تحقیق کی لاتعداد باتیں ہوتی ہیں مگر عملی زندگی میں ان کو ڈھالنا مشکل اور ناممکن ہوتا ہے چونکہ قرآن کریم دنیا اور آخرت کو سدھار نے کا ذریعہ ہے اس لئے اس کا ہر اصول آسان اور سہل ہے جس پر عمل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ (2) اس کتاب الٰہی کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ” قیم “ ہے اس قدر درست، صحیح، کامل اور مکمل ہے کہ اس کو پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے والا ” راہ مستقیم “ پر رہتا ہے یہ اس کتاب الٰہی کی خصوصیت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے رنگ کے اندر رنگ لیتی ہے اور ہر شخص کو علم و عمل کا پیکر بنا دیتی ہے۔ (3) تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب الٰہی کو ماننے، سمجھنے اور عمل کرنے والے لوگوں کو نہ صرف اس دنیا کی کامیابیاں عطا کی جاتی ہیں بلکہ ایمان و عمل صالح اختیار کرنے والوں کے لئے ابدی راحتوں، کامیابیوں اور عزت و سربلندی کی ایسی خوش خبریاں بھی دی گئی ہیں جن راحتوں میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ (4) چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ جو لوگ بد عمل، بدنیت، اور بد عقیدہ ہیں جنہوں نے اللہ کی عبادت و بندگی کے بجائے اللہ کے نبیوں کو اللہ کا بیٹا بنا دیا ہے اور وہ ان ہی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں ان کے لئے سخت سزا ہے۔ جیسے نصاری نے حضرت عیسیٰ کو اور یہودیوں نے حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرمایا کہ یہ ایک ایسا سفید جھوٹ اور بےتحقیق بات ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی سخت گستاخی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة بنی اسرائیل کا اختتام اس حکم کے ساتھ ہوا ہے۔ اے پیغمبر ! اللہ کی حمد وثناء کیجیے۔ جس کا کسی حوالے سے بھی کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی ذات، صفات اور شان کے اعتبار سے ہر کسی سے بلند وبالا ہے۔ سورة الکھف کی ابتداء اللہ کی حمد سے ہورہی ہے جس نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس میں کوئی نقص اور جھول نہیں ہے۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ جس میں کسی قسم کی جھول، تضاد اور پچیدگی نہیں پائی جاتی۔ جس کے فرمان واضح، ٹھوس، سیدھے سادھے، صراط مستقیم کے ترجمان اور ہر قسم کے الجھاؤ، عیب اور نقصان سے پاک ہیں۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ لوگوں کو عذاب شدید سے ڈرایا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں صالح کردار مومنوں کے لیے بہترین اجر کی خوشخبری دی گئی ہے۔ جن کا صلہ جنت ہے جس میں صالح اعمال کرنے والے لوگوں کو داخل کیا جائے گا وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ یہاں قرآن مجید کے تین اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ قرآن مجید میں برے اعمال کی نشاندہی اور اس کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید صالح کردار ایمان داروں کو جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی خوشخبری دیتا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے۔ کہ اس کے احکام اور مضامین میں کسی قسم کی پیچیدگی، الجھاؤ ،

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سورة کہف کو اللہ تعالیٰ نے حمد سے شروع فرمایا ہے جیسا کہ سورة فاتحہ اور سورة انعام اور سورة سبا اور سورة فاطر بھی اسی سے شروع فرمائی ہیں۔ چونکہ یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تکذیب کرنے کے لیے مشرکین کو یہ سوال سمجھایا تھا کہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ معلوم کرو اور رسالت کی تکذیب قرآن مجید کی تکذیب کو مستلزم ہے اس لیے سورة کی ابتداء میں یوں فرمایا (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا) کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندہ پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی نہ اس کے لفظوں میں کوئی خلل ہے اور نہ فصاحت و بلاغت میں کمی اور نہ معنی میں تناقض ہے۔ کجی کی نفی فرما کر قَیّْمًا فرمایا چونکہ یہ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ کا مفعول نہیں ہے اس لیے عِوَجًا پر سکتہ یا وقف ہونا چاہیے تاکہ قَیِّمًا نفی کے تحت داخل نہ ہوجائے۔ صاحب روایت حضرت حفص (رح) سے جن چار مواقع میں سکتہ مروی ہے ان میں سے ایک جگہ یہ بھی ہے حضرات قراء کرام نے نقل کیا ہے کہ حضرت حفص (رح) تشریف لے جا رہے تھے کسی اعرابی سے سنا کہ اس نے عِوَجًا کے بجائے قَیّْمًا پر وقف کردیا۔ حضرت موصوف نے فرمایا کیف یکون العوج قیما کہ ٹیڑھی چیز کیسے سیدھی ہوگی ؟ اس کے بعد انہوں نے عِوَجًا پر سکتہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ قال الامام الجزری فی النشر باب السکت علی الساکن قبل الھمز وغیرہ ووجہ السکت فی عوجا قصد بیان ان قیما بعدہ لیس متصلا بما قبلہ فی الاعراب فیکون منصوبا بفعل مضمر تقدیرہ انزلہ قیما فیکون حالا من الھاء فی انزلہ۔ قَیّْمًا، مُسْتَقِیْمًا کے معنی میں ہے جس کا معنی بالکل ٹھیک صحیح ہے، بعض حضرات نے تو اس کا وہی ترجمہ کردیا جو پہلے جملہ کا تھا یعنی لا خلل فی لفظہ ولا فی معناہ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس کے احکام میں افراط اور تفریط نہیں ہے صاحب روح المعانی نے دو قول اور لکھے ہیں فراء کا قول ہے کہ قَیّْمًا سے یہ مراد ہے کہ اس نے اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتب سماویہ کی تصدیق کی ہے اور ان کی صحت کی گواہی دی ہے اور ابو مسلم سے نقل کیا ہے کہ قیم کا معنی یہ ہے کہ وہ بندوں کے مصالح کا کفیل ہے اور وہ سب باتیں بتاتا ہے جن سے بندوں کی معاش و معاد دونوں درست ہوجائیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” الحمد للہ “ سورة فاتحہ کی تفسیر میں بالتفصیل گذر چکا ہے کہ قرآن مجید جہاں کہیں یہ جملہ (الحمد للہ) واقع ہوا ہے۔ وہاں حمد (تعریف) سے اللہ تعالیٰ کی صفات الوہیت یا بالفاظ دیگر صفاتِ کارسازی مراد ہیں۔ مثلا ً خالق ومالک اور رزق ہونا، عالم الغیب کارساز اور متصرف و مختار ہونا۔ مافوق الاسباب حاجت روا اور مشکلکشا ہونا وغیرہ تو اس جملے کا حاصل یہ ہے۔ کہ تمام صفات کارسازی اللہ تعالیٰ کی ذات مفیض برکات کے ساتھ خاص ہیں اور ان میں سے کوئی ایک صفت بھی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سے کسی ایک میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اور ” من فی السموات والارض “ (آسمان میں رہنے والوں، زمین بسنے والوں اور زیر خاک فروکش ہونے والوں) میں سے کوئی بھی ان صفات میں اس کا شریک نہیں۔ ” الحمد للہ “ میں جو دعوی کیا گیا ہے اس کا ماحصل دو جملوں میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب اور وہی متصرف و مختار ہے۔ 4:۔ ” الذی “ مو صول مع صلہ ماقبل کے لیے علت ہے یعنی صلہ کی صورت میں جو بات ذکر کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد ہونے کی دلیل ہے۔ وفی وصفہ تعالیٰ بالموصول اشعار بعلیۃ ما فی حیز الصلۃ الستحقاق الحمد (روح ج 15 ص 600) ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صلہ میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی ہے۔ جس میں دونوں خوبیاں ہیں۔ (1) اس میں عِوَج (کجی) ۔ اس کا بیان بالکل واضح اور نکھرا ہوا ہے۔ اس کے الفاظ و معانی میں اصول فصاحت و بلاغت اور دعوت حق سے ذرہ بھر انحراف نہیں ای شیئا من العوج باختلال اللفظ من جھۃ الاعراب و مخالفۃ الفصاحۃ وتناقض المعنی و کونہ مشتملا علی ما لیس بحق او داعیا لغیر اللہ تعالیٰ (روح ج 15 ص 185) ۔ (2) اس کتاب کے مضامین پختہ اور ہر لحاظ سے ایسے جامع اور مکمل ہیں کہ ان سے منکرین کے تمام شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں۔ قیما ای مستقیما کما اخرجہ ابن المنذر عن الضحاک وروی ایضا عن ابن عباس (روح) ۔ ایسی خوبیوں والی کتاب نازل کرنا صرف اسی ذات سے ممکن ہوسکتا ہے جس کا علم محیط کل ہو اور وہ عالم الغیب ہو۔ اس سے دعوائے مذکور کا ایک حصہ ثابت ہوگیا۔ اس کے بعد قرآن نازل کرنے کی غرض وغایت بیان فرمائی۔” لینذر باسا شدیدا “ قرآن اس لیے نازل کیا تاکہ منکرین کو آخرت کے عذاب دردناک سے ڈرایا جائے اور ماننے والوں کو آخرت میں ملنے والے انعامات کی خوشخبری سنائی جائے اس سے اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت و تصرف کا پتہ چلتا ہے یہ دعوے کے دوسرے جزو کی دلیل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس کتاب میں ذرا سی بھی کوئی کجی نہیں رکھی اور اس کو کسی طرح کی کجی سے موصوف نہیں بنایا۔