Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 105

سورة الكهف

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَزۡنًا ﴿۱۰۵﴾

Those are the ones who disbelieve in the verses of their Lord and in [their] meeting Him, so their deeds have become worthless; and We will not assign to them on the Day of Resurrection any importance.

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُولَيِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَايِهِ ... They are those who deny the Ayat of their Lord and the meeting with Him. they denied the signs of Allah in this world, the proofs that He has established of His Oneness and of the truth of His Messengers, and they denied the Hereafter. ... فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ... So their works are in vain, ... فَلَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا and on the Day of Resurrection, We shall assign no weight for them. means, `We will not make their Balance heavy because it is empty of any goodness.' Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said: إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ يَزِنُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَقَالَ اقْرَءُوا إِنْ شِيْتُمْ فَلَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا A huge fat man will come forward on the Day of Resurrection and he will weigh no more than the wing of a gnat to Allah. Recite, if you wish: and on the Day of Resurrection, We shall assign no weight for them. It was also recorded by Muslim.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 رب کی آیات سے مراد توحید کے وہ دلائل ہیں جو کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ آیات شرعی ہیں اور جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیں اور پیغمبروں نے تبلیغ وتوضیع کی۔ اور رب کی ملاقات سے کفر کا مطلب آخرت کی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے سے انکار ہے۔ 105۔ 2 یعنی ہمارے ہاں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی یا یہ مطلب ہے کہ ہم ان کے لئے میزان کا اہتمام ہی نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے اعمال تولے جائیں، اس لئے کہ اعمال تو خدا کو ایک ماننے والوں کے تولے جائیں گے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں ہونگی، جب کہ ان کے نامہ اعمال نیکیوں سے بالکل خالی ہوں گے جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ' قیامت والے دن موٹا تازہ آدمی آئے گا، اللہ کے ہاں اس کا اتنا وزن نہیں ہوگا جتنا مچھر کے پر کا ہوتا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ سورة کہف)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] کافروں کے نیک اعمال کے لئے ترازو کیوں نہ رکھا جائے گا ؟ یعنی دنیا کے حصول میں ایسے منہمک رہے کہ اللہ کبھی بھولے سے بھی یاد نہ آیا اور نہ ہی آخرت کے لیے کوئی نیکی کا کام کیا ایسے لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انہوں نے دنیا میں اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہوں گے تو انھیں اس کا کچھ بدلہ نہیں ملے گا اس لیے کہ انہوں نے یہ نیک کام آخرت کے لیے نہیں کیے تھے بلکہ دنیا کے لیے کیے تھے تو دنیا میں انھیں ان کا بدلہ مل گیا۔ مثلاً کسی نے کوئی تعلیمی درس گاہ یا ہسپتال کھولا تو اس سے اس کا مفاد یا تو قومی مفاد تھا یا اپنی شہرت وغیرہ۔ تو یہ مفاد انھیں دنیا میں ہی مل گئے۔ ایسی عمارتوں پر ان کا نام کندہ ہوگیا مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ رہا۔ لوگوں میں ان کی نیک نامی کی شہرت ہوچکی لہذا آخرت میں انھیں کچھ اجر نہیں ملے گا۔ رہ گیا ان کا کفر اور ان کے برے اعمال تو صرف ان کو تولنے کا کچھ فائدہ ہی نہیں، فائدہ تو تب ہوسکتا ہے جب دوسرے پلڑے میں بھی کچھ وزن ہو اگر ایک پلڑا یکسر خالی ہو تو تولا کیا جائے ؟ پھر ان کے کفر اور برے اعمال کی وجہ سے انھیں جہنم رسید کیا جائے گا اور وہ سب سے زیادہ گھاٹے والے اس لحاظ سے رہے کہ دنیا میں وہ نیک اعمال بھی کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں مگر آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی بنا پر وہ انھیں لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جنہوں نے اپنی ساری عمر بدکرداریوں میں گزاری تھی اور نیکی کے کام کیے ہی نہ تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۔۔ : یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو مانتے ہی نہ تھے، سو انھوں نے اس کے لیے کچھ بھی نہ کیا، نیکیوں کے پلڑے میں کچھ ہے ہی نہیں تو صرف ایک پلڑے کا وزن کیا جائے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last sentence in the same verse (105): فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (and We shall not assign to them any weight) means that their deeds may appear to be great outwardly, but when placed on the balance of reckoning, they will carry no weight. The reason is that these deeds will be of no use and will not carry any weight because of kufr (disbelief) and shirk (ascribing of partners to Allah). According to a Hadith of Sayyidna Abu Hurairah (رض) appearing in the Sahih of al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: On the day of Qiyamah, there will come a tall and heavy man who, in the sight of Allah, will not be worth the weight of a mosquito.& Then he said: &If you wish to verify it, recite this verse of the Qur&an: فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (and We shall not assign to them any weight).& Sayyidna Abu Said al-Khudri says: & (on the day of Qiyamah) deeds as big as the mountains of Tihamah will be brought in. But, they will carry no weight on the balance of justice.& (Qurtubi)

(آیت) فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا یعنی ان کے اعمال جو ظاہر میں بڑے بڑے نظر آئیں گے مگر میزان حساب میں ان کا کوئی وزن نہ ہوگا کیونکہ یہ اعمال کفر و شرک کی وجہ سے بیکار اور بےوزن ہوں گے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز ایک آدمی قد آور اور فربہ آئے گا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن دار نہ ہوگا اور پھر فرمایا کہ اگر اس کی تصدیق کرنا چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھو (آیت) فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا اور حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ (قیامت کے روز) ایسے ایسے اعمال لائے جائیں گے جو جسامت کے اعتبار سے تہامہ کے پہاڑوں کے برابر ہوں گے مگر میزان عدل میں ان کا کوئی وزن نہ ہوگا (قرطبی )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَزْنًا۝ ١٠٥ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء/ 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت/ 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة/ 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی / مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کر رہے ہیں ان کے سارے نیک کام غارت گئے تو قیامت کے دن بمع ان کے نیک اعمال کا ذرا بھی وزن قائم نہ کریں گے یعنی قیامت کے دن ان کے نیک اعمال کا ذرہ برابر بھی وزن قائم نہیں کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ ) ایسے لوگ بیشک اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کو اور قرآن کو مانتے ہیں لیکن اگر حقیقتاً وہ آخرت کو بھلا کر دن رات دنیا سمیٹنے ہی میں مصروف ہیں تو اپنے عمل سے گویا وہ اللہ کی آیات اور آخرت میں اس سے ہونے والی ملاقات کا انکار کر رہے ہیں۔ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے : (وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ ) (العنکبوت : ٦٤) ” یقینا آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے “۔ لیکن طالبان دنیا کا عمل اللہ کی اس بات کی تصدیق کرنے کے بجائے اس کو جھٹلاتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات کو اور اس کے سامنے روزمحشر کی حاضری کو عملی طور پر جھٹلادیا ہے۔ (فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا) قیامت کے دن ایسے لوگوں کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا۔ اگر انہوں نے اپنے دل کی تسلی اور ضمیر کی خوشی کے لیے بھلائی کے کچھ کام کیے بھی ہوں گے تو ایسی نیکیاں جو ایمان اور یقین سے خالی ہوں گی ان کی اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ چناچہ ان کی ایسی تمام نیکیاں ضائع کردی جائیں گی اور میزان میں ان کا وزن کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اس بھیانک انجام کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دنیا کی آرائش و زیبائش میں گم ہو کر انسان کو نہ اللہ کا خیال رہتا ہے اور نہ آخرت کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کی زیب وزینت کے حوالے سے یہ مضمون اس سورت میں بار بار دہرایا گیا ہے (ملاحظہ ہو : آیت ٧ ‘ ٢٧ اور ٤٦) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. “So worthless will be their deeds” in the sense that they will be of no avail to them in the life after death, even though they might have considered them as their great achievements but the fact is that they will lose all their value as soon as the world shall come to an end. When they will go before their Lord, and all their deeds shall be placed in the scales, they will have no weight at all whether they had built great palaces, established great universities and libraries, set up great factories and laboratories, constructed highways and railways, in short, all their inventions, industries, sciences and arts and other things of which they were very proud in this world, will lose their weights in the scales. The only thing which will have weight there will be that which had been done in accordance with the divine instructions and with the intention to please Allah. It is, therefore, obvious that if all of one’s endeavors were confined to the worldly things and the achievement of worldly desires whose results one would see in this world, one should not reasonably expect to see their results in the Hereafter, for they would have gone waste with the end of this world. It is equally obvious, that only the deeds of the one, who performed them strictly in accordance with His instructions to win His approval with a view to avail of their results in the Hereafter, will find that his deeds had weight in the scales. On the contrary, such a one will find that all his endeavors in the world had gone waste.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :77 یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں ، بہرحال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے ۔ اپنے قصر اور محلات ، اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں ، اپنے کارخانے اور معمل ، اپنی سڑکیں اور ریلیں ، اپنی ایجادیں اور صنعتیں ، اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں ، اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں ، ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سکیں ۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں ۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ ہی فنا ہو گیا ۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو ، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں ۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:105) حبطت وہ اکارت ہوگئے، وہ ضائع ہوگئے۔ وہ مٹ گئے۔ ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ لا نقیم۔ مضارع منفی جمع متکلم اقامۃ (افعال) مصدر۔ ہم قائم نہیں کریں گے۔ الاقامۃ (افعال) فی المکانکے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اور اقامۃ الشیٔ(کسی چیز کی اقامۃ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے قل یاھل الکتب لستم علی شیٔ حتی تقیموا التوارۃ والانجیل (5:68) کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل کو قائم نہیں رکھو گے تم کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نمازیوں کی تعریف کی گئی ہے وہاں اقامۃ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیئت کا ادا کرنا نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا مراد ہے۔ یہاں لا نقیم۔۔ وزناکے معنی ہیں کہ ہم اسے کوئی وزن نہیں دیں گے۔ ہمارے ہاں اس کی کوئی قدرو وقعت نہ ہوگی۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے یاتی ناس باعمال یوم القیامۃھی عندہم فی العظم کجبال تھا مۃ فاذا وزنوھا لم تزن شیئا۔ لوگ قیامت کے دن اپنے ایسے اعمال پیش کریں گے جو ان کے نزدیک تہامہ پہاڑ جتنے عظیم ہوں گے۔ لیکن جب ان کو فرشتے کریں گے تو ان کا کچھ بھی وزن نہ ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان کے اعمال تو لے ہی نہ جائیں گے کیونکہ لوتنے کی ضرورت تو اس وقت ہوگی جب دوسری طرف کچھ نیک اعمال بھی ہوں تاکہ موازنہ ہو سکے کہ ان کی نیکیاں زیادہ ہیں یا برائیاں۔ فو عمل صالح وہ ہے جو خلاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اور سنت مطہرہ کے موافق ہو اور اس میں ریا کاری یا کسی قسم کی ذاتی یا قومی مصلحت کو دخل نہ ہورنہ وہ عمل مردود ٹھہرے گا بعض علما نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ تصور شیخ شرک ہے اور یہ استدلال قومی اور واضح ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین کے ساتھ کفار کا انجام ذکر کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں بظاہر کفار کا تذکرہ اور ان کی سزا کا بیان ہے لیکن اس کی ابتداء ” اُوْلٰٓءِکَ “ کے لفظ سے کی گئی ہے۔ جس کا معنیٰ ” وہ “ یا ” یہی لوگ “ گویا کہ کفار کے ساتھ مشرکین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جو اپنے رب کی آیات کا انکار کرنے کے ساتھ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ ان کے اعمال تو اس طرح ضائع ہوں گے کہ ان کے لیے قیامت کے دن ترازو ہی نہیں رکھا جائے گا۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کہ انھوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ مذاق کیا تھا۔ حساب و کتاب کے حوالے سے تین قسم کے لوگ : قرآن مجید سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے حوالے سے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان میں ایک خوش نصیب جماعت ایسی ہوگی جنھیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ دوسرے وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے ترازو ہی نہیں رکھا جائے گا انہیں یوں ہی جہنم داخل کردیا جائے گا۔ تیسری قسم کے لوگوں سے ان کے اعمال کے مطابق ہلکا یا بھاری حساب لیا جائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْءًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔ “ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنِّی لَاَعْلَمُ اٰخِرَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلاَ نِ اَلجَنَّۃَ وَاٰخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِّنْھَا رَجُلٌ یُؤْتٰی بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ اَعْرِضُوْ عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہٖ وَارْفَعُوْاعَنْہٗ کِبَارَھَا فَتُعْرَضُ اعَلَیْہِ صِغَارُ ذُنُوْبِہٖ فَیُقَالُ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا ‘ کَذَ ا وَکَذَا وَعَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا ‘ کَذَا کَذَا وَکَذَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّنْکِرَ وَھُوَمُشْفِقٌ مِّنْ کِبَارِ ذُنُوْبِہٖ اَنْ تُعْرَضَ عَلَیْہِ فَیُقَالُ لَہٗ فَاِنَّ لَکَ مَکَانَ کُلِّ سَیِّءَۃٍحَسَنَۃً فَیَقُوْلُ رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ اَشْیَاءَ لَا اَرٰھَا ھٰھُنَا وَلَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ ۔ ) [ رواہ مسلم : باب أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً فیہَا ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلا شبہ میں جانتا ہوں کہ اہل جنت میں سے سب سے آخر میں جنت میں کون داخل ہوگا ؟ اور اہل جہنم میں سے سب سے آخر میں جہنم میں سے کون نکالا جائے گا ؟ وہ ایسا شخص ہوگا ‘ جسے قیامت کے دن پیش کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور اس کے کبیرہ گناہوں کو چھپائے رکھوچنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ پیش کئے جائیں گے اور اسے کہا جائیگا کہ تو نے فلاں دن ‘ فلاں کام کیا ؟ اور فلاں دن فلاں عمل کیا ؟ وہ اقرار کرے گا ‘ اس میں انکار کرنے کی جرأت نہ ہوگی البتہ وہ اپنے کبیرہ گناہوں سے خائف ہوگا کہ کہیں وہ اس کے سامنے نہ لائے جائیں تب اس سے کہا جائے گا ‘ بیشک تیرے لیے ہر برائی کے بدلہ میں ایک نیکی ہے وہ عرض کرے گا ‘ اے میرے پروردگار ! میں نے بہت سے اور بھی گناہ کیے تھے جن کو میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ یہ بیان کرتے ہوئے اتنا ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ “ تفسیر بالقرآن حساب و کتاب کے حوالے سے تین قسم کے لوگ : ١۔ یقیناً صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر عطا کیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٢۔ مذکر و مؤنث میں سے جو بھی نیک اعمال کرے گا اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اسے بغیر حساب کے رزق عطا ہوگا۔ (المومن : ٤٠) ٣۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگیا وہ کامیاب ہوا۔ (المومنون : ١٠٢) ٤۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ہم ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف : ١٠٥) ٥۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا ہلکا ہوا یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کیا۔ (الاعراف : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولئک الذین کفروا بایت ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم (٨١ : ٥٠١) ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا ، اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ “ حبوط کا اصلی اور لغوی مفہوم ، جانور کا پیٹ پھولنا ہے ، جب وہ کوئی زہریلی گھاس کھالے۔ ضائع ہونے والے انسانی اعمال کی حقیقت بنانے کے لئے حبوط سے کوئی موزوں لفظ نہیں ہے۔ یہ جانور پھول جاتا ہے ، نادان مالک جانتا ہے کہ یہ جانور توانا اور مضبوط ہوگیا ہے اور اب وہ کامیاب اور نفع بخش ہوگا لیکن اس کے نتیجے میں اس کی موت واقعہ ہوجاتی ہے۔ اولئک الذین کفر وا بایت ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزناً (٨١ : ٥٠١) ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا ، اس لئے ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے۔ قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ “ کیونکہ یہ بےکار اور مہمل ہوگئے تھے۔ نہ ان کی قیمت ہے اور نہ وزن اللہ کے صحیح پیمانوں کے مطابق ان کا وزن نہ ہوگا ، تو اب کیا ہوگا ان لوگوں کا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ) (وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات یعنی قیامت کے دن کا انکار کیا سو ان کے اعمال حبط یعنی غارت ہوں گے ان پر انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ) (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا) (صحیح بخاری صفحہ ٦٩١ ج ٢) حضرات علماء کرام نے اس کا ایک مطلب تو یہ بتایا ہے کہ ان لوگوں کی اللہ کے ہاں کوئی قدر و منزلت نہ ہوگی، اور بعض حضرات نے یہ مطلب بتایا ہے کہ ان کے لیے ترازو ہی نصب نہیں کی جائے گی۔ یعنی ان لوگوں کے اعمال تولے ہی نہیں جائیں گے اور کافر دوزخ میں بغیر حساب چلے جائیں گے، اعمال ان کے تولے جائیں گے جو کامل مومن تھے اور جو ریا کار اور منافق تھے، ان کے اعمال کے بارے میں مفسرین کے اقوال ہم سورة اعراف کی آیت (وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِنِ الْحَقُّ ) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں مراجعت کرلی جائے۔ حدیث شریف میں لفظ العظیم السمین وارد ہوا ہے اس کا ظاہری ترجمہ تو وہی ہے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ بڑے اور موٹے تازے لوگ آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا۔ اس میں جو لفظ العظیم ہے اس سے دنیاوی پوزیشن اور عہدہ اور مرتبہ مراد ہے بڑے بڑے عہدوں والے، بادشاہ صدر، مالدار، جائیداد والے، میدان قیامت میں آئیں گے وہاں ان کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگی۔ صدر صاحب دنیا سے سدھارے، منصف صاحب اپنی زندگی سے ہارے، وزیر صاحب چل بسے، لوگ کوٹھیوں پر جمع ہیں۔ نعش پر ہوائی جہاز سے پھول برسائے جا رہے ہیں۔ اخبارات میں سیاہ کلام چھپ رہے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیوی سے موت کی خبریں نشر ہو رہی ہیں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی موت بڑی قابل رشک ہے دنیا کا تو یہ حال ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ مرنے والا مومن ہے یا کافر، صالح ہے یا فاسق و فاجر، اگر کفر پر مرا ہے تو ہمیشہ کے لیے بڑے درد ناک عذاب میں جا رہا ہے۔ قیامت تک برزخ میں مبتلائے عذاب رہے گا۔ پھر قیامت کے دن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا مصیبتوں میں مبتلا ہوگا۔ پھر دوزخ میں داخل ہوگا جس کی آگ دنیاوی آگ سے انہتر گنا زیادہ گرم ہے اس میں سے کبھی بھی نکلنا نہ ہوگا۔ بحکم (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا) اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا بھلا ایسے شخص کی موت وحیات کیسے قابل رشک ہوسکتی ہے ؟ یہ ہوائی جہازوں کے پھول برزخ کے مبتلائے عذاب کو کیا نفع دیں گے ؟ اور اخبارات کے اداریے نیز ٹیوی اور ریڈیو کے اعلانات کیا فائدہ مند ہوں گے ؟ خوب غور کرنے کی بات ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کو نہ مانا اس کی آیتوں کا انکار کیا قیامت کے دن کی حاضری کو جھٹلایا محض دنیا کی ترقیات اور مادی کامیابی کو بڑی معراج سمجھتے رہے یہ لوگ جب قیامت کے دن حاضر ہوں گے تو کفر اور حب دنیا اور دنیا کی کوششیں ہی ان کے اعمال ناموں میں ہوں گی، وہاں یہ چیزیں بےوزن ہونگی اور دوزخ میں جانا پڑے گا۔ اس وقت آنکھیں کھلیں گی اور سمجھ لیں گے کہ سراسر ناکام رہے۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین و کفار جو دنیا کی زندگی میں اپنے خیال میں نیک کام کرتے ہیں مثلاً پانی پلانے کی جگہ کا انتظام کرتے ہیں اور مجبور کی مدد کر گزرتے ہیں یا اللہ کے ناموں کے ورد رکھتے ہیں الیٰ غیر ذلک اس قسم کے کام نجات نہ دلائیں گے۔ ہندوؤں کے سادھو جو بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اور مجاہدہ کرکے نفس کو مارتے ہیں اور نصاریٰ کے راہب اور پادری جو نیکی کے خیال سے شادی نہیں کرتے ان کے تمام افعال بےسود ہیں آخرت میں کفر کی وجہ سے کچھ نہ پائیں گے۔ کافر کی نیکیاں مردود ہیں وہ قیامت کے روز نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوں گے۔ سورة ابراہیم میں ارشاد ہے (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ) یعنی کافروں کو اگر اپنی نجات کے متعلق یہ خیال ہو کہ ہمارے اعمال ہم کو نفع دیں گے تو اس کے متعلق سن لیں گے جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کی حالت ایسی ہے جیسے کچھ راکھ جسے تیز آندھی کے دن میں تیزی کے ساتھ ہوا اڑا لے جائے۔ (کہ اس صورت میں اس راکھ کا نام و نشان نہ رہے گا) اسی طرح ان لوگوں نے جو عمل کیے تھے ان کا کوئی حصہ ان کو حاصل نہ ہوگا (بلکہ راکھ کی طرح سب ضائع و برباد ہوجائیں گے اور کفر و معاصی ہی قیامت کے روز ساتھ ہوں گے) یہ بڑے دور دراز کی گمراہی ہے (کہ گمان تو یہ ہے کہ ہمارے عمل نافع ہوں گے اور پھر ضرورت کے وقت کچھ کام بھی نہ آئیں گے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی آیتوں کا اور اس کی پیشی میں حاضر ہونے کا انکار کرتے رہے لہٰذا ان کے تمام اعمال نیست و نابود اور اکارت ہوگئے۔ پس ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یعنی جب عمل ہی نہیں رہے تو تلے کیا یا یہ کہ قیامت کے دن ان کا کوئی وزن اور ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں وہ آخرت کو مانتے نہ تھے تو اس کے واسطے کچھ کام نہ کیا پھر ایک پلہ کیا تو لے۔ 12