Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 16

سورة الكهف

وَ اِذِ اعۡتَزَلۡتُمُوۡہُمۡ وَمَا یَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاۡ وٗۤا اِلَی الۡکَہۡفِ یَنۡشُرۡ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَیُہَیِّیٔۡ لَکُمۡ مِّنۡ اَمۡرِکُمۡ مِّرۡفَقًا ﴿۱۶﴾

[The youths said to one another], "And when you have withdrawn from them and that which they worship other than Allah , retreat to the cave. Your Lord will spread out for you of His mercy and will prepare for you from your affair facility."

جب کہ تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ ... And when you withdraw from them, and that which they worship, except Allah, meaning, when you depart from them and follow a different religion, opposing their worship of others besides Allah, then separate from them in a physical sense too, ... فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحمته ... then seek refuge in the cave; your Lord will open a way for you from His mercy, meaning, He will bestow His mercy upon you, by which He will conceal you from your people. ... ويُهَيِّيْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا and will make easy for you your affair. means, He will give you what you need. So they left and fled to the cave where they sought refuge. Then their people noticed they were missing, and the king looked for them, and it was said when he could not find them that Allah concealed them from him so that he could not find any trace of them or any information about them. As Allah concealed His Prophet Muhammad and his Companion (Abu Bakr) As-Siddiq, when they sought refuge in the cave of Thawr. The Quraysh idolators came in pursuit, but they did not find him even though they passed right by him. When the Messenger of Allah noticed that As-Siddiq was anxious and said, "O Messenger of Allah, if one of them looks down at the place of his feet, he will see us," he told him: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا O Abu Bakr, what do you think of two who have Allah as their third? And Allah said: إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِى الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِىَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ If you help him not, for Allah did indeed help him when the disbelievers drove him out, the second of the two; when they were in the cave, he said to his companion: "Do not grieve, surely, Allah is with us." Then Allah sent down His tranquility upon him, and strengthened him with forces which you saw not, and made the word of those who disbelieved the lower, while the Word of Allah became the higher; and Allah is All-Mighty, All-Wise. (9:40) The story of this cave (Thawr) is far greater and more wondrous than that of the people of the Cave.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی جب تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کرلی ہے، تو اب جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کرلو۔ یہ اصحاب کہف نے آپس میں کہا۔ چناچہ اس کے بعد وہ ایک غار میں جا چھپے، جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا، لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے، جس طرح نبی کی تلاش میں کفار مکہ غار ثور تک پہنچ جانے کے باوجود، جس میں آپ حضرت ابوبکر کے ساتھ موجود تھے، ناکام رہے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] ڈائنا دیوی کے مندر کی شہرت اور شرکیہ رسوم ورواج :۔ جس زمانے میں ان توحید پرست نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اس وقت شہر افسُسْ جس کے یہ لوگ باشندے تھے، ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا پاٹ کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادوگر، عامل، فال گیر اور تعویذ لکھنے والے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں توحید پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اس فقرے سے کیا جاسکتا ہے جو اگلے رکوع میں آرہا ہے کہ اگر انھیں ہم پر اختیار مل گیا تو وہ لوگ یا تو ہمیں سنگسار کر ڈالیں گے یا پھر ہمیں اسی بت پرستی اور شرک والے مذہب میں واپس چلے جانے پر مجبور کردیں گے۔ [١٤] چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اپنے دامن رحمت میں لے کر صدیوں تک ان پر نیند طاری کردی اور جب جاگے تو یہ توحید اور توحید پرستوں کا دشمن بادشاہ دقیانوس مرکھپ چکا تھا اور جو موجودہ بادشاہ تھا اس نے عیسائیت کا مذہب قبول کرلیا تھا اس بادشاہ کا نام قیصر تھیوڈوسیس (Theodosius) ثانی بتایا جاتا ہے۔ اس کے دور میں پوری رومی سلطنت نے عیسائیت کا مذہب قبول کرلیا تھا لہذا اب توحید پرستوں پر کوئی ایسی سختی نہ رہی تھی جو دقیانوس کے زمانہ میں تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭوَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ ۔۔ :” مِّرْفَقًا “” اَلْاِرْتِفَاقُ “ کا معنی فائدہ اٹھانا ہے، یعنی کوئی سہولت، آسانی۔ ان کی قوم اور بادشاہ میں سے کسی نے ان کی دعوت قبول نہ کی تو انھوں نے مشورہ کیا کہ جب تم ان لوگوں سے اور ان کے معبودوں سے علیحدہ ہوچکے تو اب یہاں رہ کر جان یا ایمان بچانا مشکل ہے، اس لیے کسی پہاڑ کے کھلے غار میں پناہ لے لو۔ رہا کھانا پینا اور دوسری ضروریات زندگی تو جب تم اپنے رب کی راہ میں ہجرت کر رہے ہو تو وہ خود اپنی رحمت کا دامن پھیلا دے گا اور ہر معاملے میں تمہارے لیے آسانی مہیا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس کا وعدہ فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٠٠) باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کرکے وہ ایک پہاڑ کے کھلے غار میں جا بیٹھے، نیند غالب آئی تو سو گئے۔ معلوم ہوا کہ جب معاشرے میں رہ کر دین پر عمل ممکن نہ رہے تو ہجرت کے لیے پہاڑ ہی بہترین مقام ہیں، چناچہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُوْشِکُ أَنْ یَّکُوْنَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِھَا شَعَفَ الْجِبَالِ ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ ، یَفِرُّ بِدِیْنِہِ مِنَ الْفِتَنِ ) [ بخاري، الإیمان، باب من الدین الفرار من الفتن : ١٩، عن أبي سعید الخدری (رض) ] ” قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال چند بکریاں ہوں گی، جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کے پیچھے پھرتا رہے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگتا پھرے گا۔ “ جب کفار مکہ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ طے کرلیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر (رض) کے ہمراہ تین راتیں غار ثور میں چھپے رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار سے محفوظ رکھا۔ دیکھیے سورة توبہ (٤٠) ۔ 3 بعض لوگوں نے اس سے عزلت یعنی لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے کا استدلال کیا ہے، حالانکہ اصحاب کہف نے کفار سے علیحدگی اختیار کی، اپنوں سے نہیں، بلکہ آپس میں تو وہ اکٹھے ہی رہے۔ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ (قاسمی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

About the verse: فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ (then seek refuge in the Cave - 16), Ibn Kathir says that the course adopted by the People of Kahf was that they left the city in which it was not possible to worship Allah and took refuge in the Cave. This is the Sunnah, the way of all prophets. They migrate from such places and opt for a place where ` Ibadah could be done.

فَاْوٗٓا اِلَى الْكَهْفِ ابن کثیر نے فرمایا کہ اصحاب کہف نے جو صورت اختیار کی کہ جس شہر میں رہ کر اللہ کی عبادت نہ ہو سکتی تھی اس کو چھوڑ کر غار میں پناہ لی، یہی سنت ہے تمام انبیاء کی کہ ایسے مقامات سے ہجرت کر کے وہ جگہ اختیار کرتے ہیں جہاں عبادت کی جاسکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَہْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَيُہَيِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا۝ ١٦ عزل الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف/ 16] ( ع ز ل ) الا عتزال کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف/ 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ أوى) ملانا) المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ، وقال تعالی: آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف/ 69] آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف/ 69] أي : ضمّه إلى نفسه . ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اور آیت کریمہ :۔ { آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ } ( سورة يوسف 69) کے معنی یہ ہیں کہ ہوسف نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ هيأ الْهَيْئَةُ : الحالة التي يكون عليها الشیء، محسوسة کانت أو معقولة، لکن في المحسوس أكثر . قال تعالی: أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران/ 49] ، وَالمُهايأَةُ : ما يَتَهَيَّأُ القوم له فيتراضون عليه علی وجه التّخمین، قال تعالی: وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف/ 10] ، وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف/ 16] وقیل : هَيَّاكَ أن تفعل کذا . بمعنی: إيّاك، قال الشاعر : هيّاك هيّاک وحنواء العنق ( ھ ی ء ) الھیئتہ اصل میں کسی چیز کی حالت کو کہتے ہیں عام اس سے کہ وہ حالت محسوسہ ہو یا معقولہ لیکن عموما یہ لفظ حالت محسوسہ یعنی شکل و صورت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران/ 49] کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بہ شکل پر ندبناتا ہوں ۔ لمھایاۃ ( مہموز ) جس کے لئے لوگ تیار ہوں ۔ اور اس پر موافقت کا اظہار کریں ۔ ھیاء کے معنی کسی معاملہ کیلئے اسباب مہیا کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف/ 10] اور ہمارے کام میں درستی ( کے سامان ) مہیا کر ۔ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف/ 16] اور تمہارے کاموں میں آسانی ( کے سامان ) مہیا کرے گا ۔ اور ایاک ان تفعل کذا میں لغت ھیاک ان تفعل کزا بھی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( ( 4 5 8 ) ھیاک ھیاک وحنواء العنق گردن مروڑنے یعنی تکبر سے دور رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) جب تم نے ان کو اور ان کے دین کو اور ان کے بتوں کو جن کی یہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں الگ کردیا ہے تم خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور اس غار میں چل کر پناہ لو تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلائے گا اور تمہارے لیے کل کو کامیابی کا سامان درست فرمائے گا یعنی آخر الامر کامیابی ہوگی یہ نوجوانوں کی آپس میں گفتگو تھی،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. When these God worshiping youths fled the habitations to take refuge in the hills, the city of Ephesus was the principal center of idol worship and sorcery in Asia Minor. There was a great temple dedicated to the goddess Diana, which was well known in the whole world and attracted devotees from far places. The sorcerers, workers of magic and occult arts, soothsayers and amulet writers of Ephesus were well known and their black business had spread throughout Syria and Palestine, even as far as Egypt. The Jews also had a big share in it, who attributed this art to Prophet Solomon. (Cyclopedia of Biblical Literature under Ephesus). The predicament in which the righteous people living in an environment of idolatry and superstition were involved can well be imagined from the remark of the companions of the cave that occurs in( Ayat 20): If they succeed in over powering us, they will surely stone us to death or force us back into their faith.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :11 جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر اِفسُس ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا ۔ وہاں ڈائنا دیوں کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے ۔ وہاں کے جادو گر ، عامل ، فال گیر اور تعویذ نوید دنیا بھر میں مشہور تھے ۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے ( ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان Ephesus شرد اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے ، جو اگلے رکوع میں آرہا ہے ، کہ اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یعنی جب تم دین حق اختیار کرلیا ہے، اور تمہارے شہر کے لوگ تمہارے مخالف ہوگئے ہیں، تو اب اس دین کے مطابق عیادت کرنے کی یہی صورت ہے کہ شہر سے باہر پہاڑ پر جو غار ہے اس میں جا بیٹھو کہ کسی کو تمہارا پتہ نہ چلے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:16) اعتزلتموہم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ وائو اشباع کا ہے۔ اعتزال مصدر۔ تم نے ان سے کنارہ کرلیا۔ (اور جب) تم نے (ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں) ان سے کنارہ کرلیا۔ قرآن مجید میں ہے فاعتزلوا النسائ۔ (2:222) عورتوں سے کنارہ کش رہو اسی سے ہے معتزلۃ عقل پرست فرقہ جو اہل سنت سے الگ ہوگیا تھا۔ خواجہ حسن بصری (رح) ایک دن کس مسئلہ پر دلائل دے رہے تھے کہ ان کا ایک شاگرد واصل بن عطاء اختلاف رائے کی بنا پر الگ ہو کر ایک گروہ سے اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے لگا۔ خواجہ حسن بصری نے فرمایا اعتزل عنا۔ وہ ہم سے کنارہ کش ہوگیا۔ اسی بناء پر واصل بن عطاء کے پیروکار معتزلہ مشہور ہوگئے۔ واذاعتزلتموہم۔ سے اخیر آیہ ہذا تک کلام ان توحید پرست نوجوانوں کا آپس میں بطور مشورہ کے ہے۔ وما یعبدون الا للہ۔ میں ما موصولہ ہے۔ ای واذاعتزلتموہم واعتزلتم الذین یعبدونہم اور الا اللہ استثناء متصل ہے۔ بنا بریں کہ وہ (ان نوجوانوں کی قوم) اللہ کی عبادت بھی کرتے تھے اور بتوں کی بھی۔ یا وما یعبدون الا اللہ جملہ معترضہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ معترضہ اللہ کی جانب سے ہے کہ یہ نوجوان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرتے تھے اس صورت میں ما نافیہ ہوگا۔ فاوٗا۔ تم جا بیٹھو۔ تم فروکش ہوجائو۔ ایوائ۔ (افعال) سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اوی۔ یؤوی۔ ینشر۔ مضارع واحد مذکر غائب ۔ مجزوم بوجہ جواب امر۔ النشر۔ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں۔ یہ کپڑے صحیفے کے پھیلانے، بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کو مشہور کردینے پر بولا جاتا ہے۔ جیسے واذا الصحف نشرت (81:20) اور جب عملوں کے دفتر کھولے جائیں گے اور وھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا وینشر رحمتہ (42:48) اور وہی تو ہے جو لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے۔ ینشرلکم ربکم من رحمتہ تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت عام کر دے گا۔ یھییئ۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب تھیئۃ وتھییء (تفعیل) مصدر۔ وہ فراہم کر دے گا وہ تیار کر دے گا۔ (نیز ملاحظہ ہو 18:10) ۔ مرفقا۔ رفق یرفق (نصر) رفق یرفق (کرم) ورفق یرفق (سمع) رفقا۔ مرفقا ومرفقا۔ بہ۔ لہ۔ علیہ۔ نرمی اور مہربانی سے پیش آنا۔ یہاں اس کا معنی ہے ما یرتفق ای ینتفع بہ۔ جس سے فائدہ اور نفع حاصل کیا جائے۔ فائدے اور نفع کا سامان۔ یہاں مرفقا مفعول ہے یھییء کا۔ ویھیی لکم من امرکم مرفقا۔ اور مہیا کر دے گا تمہارے لئے تمہارے کام میں آسانی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس شہر سے نکل کر پاس ایک پہاڑی میں کھوہ تھی۔ آپس میں مشورہ کر کے وہاں جا بیٹھے نیند غالب ہوئی سو گئے کسی کو معلوم نہ ہوا تب سے اب تک سوتے ہیں۔ بیچ میں ایک بار اللہ نے جگا دیا جس سے لوگوں پر خبر کھلی، پھر سو رہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، بالآخر مجبور ہو کر نوجوانوں کا قوم سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ۔ نامعلوم نوجوانوں نے کتنی مدّت اور کس قدر مظالم برداشت کیے ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یقیناً انہوں نے با ربا رسوچا ہوگا کہ جائیں تو کہاں جائیں ؟ سلطنت رومہ میں ہر جگہ شرک کا غوغہ مچ رہا ہے۔ وقت کی حکومت ان کی دشمن ہوچکی ہے۔ جب حکومت اور عوام اس بات پر متفق ہوگئے کہ ان کو پتھر مارمار کر جان سے مار دینا چاہیے تو اس صورت حال میں اللہ کی توحید کے متوالوں اور اس کی عظمت پر سب کچھ قربان کردینے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ان لوگوں سے اپنی جان اور ایمان بچانا چاہیے۔ جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ بات طے کرنے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے غار میں داخل ہوئے کہ تمہارا رب تم پر کرم فرمائے گا اور ہمارے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اسباب مہیا فرمائے گا۔ بعض مفسرین نے ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات القاء کردی تھی۔ جس بناء پر انہیں یقین ہوگیا کہ ہمارا رب اپنے کرم سے ہماری مشکلات کو ضرور آسان فرمائے گا کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ توحید کی دعوت لے کر اٹھے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ کیونکہ مواحد کا اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہ اسی سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ اصحاب کہف نے معبودان باطل کو چھوڑ کر غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ٢۔ جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے وہ اللہ کی رحمت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا اعتزلتموھم و مایعبدون الا اللہ فاو وآ الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ ویھیمی لکم من امرکم مرفقاً (٨١ : ٦١) ” اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبود ان غیر اللہ سے بےتعلق ہوچکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو ، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا امن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لئے سرو سامان مہیا کرے گا۔ “ یہاں حقیقی مومن دلوں کی اصل حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ نوجوان اپنی قوم کو چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے ہیں۔ یہ اپنے علاقے کو چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ رہے ہیں ، گھروں اور کاروبار اور کرہ ارض اور اس دنیا کی زیب وزینت کو چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ رہے ہیں ، گھروں اور کاروبار اور کرہ ارض اور اس دنیا کی زیب وزینت کو چھوڑ رہے ہیں اور یہ لوگ کہاں پناہ لے رہے ہیں ؟ ایک کرخت پتھریلی جگہ اور تاریک غار میں۔ لیکن یہاں رحمت خداوندی ہے اور اس رحمت میں وہ خوش ہیں۔ اس تاریک غار میں انہیں اللہ کی رحمت سے رضا مندی نہایت وسیع نظر آتی ہے۔ ینشرلکم ربکم من رحمتہ (٨١ : ٦١) ” تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن پھیلا دے گا۔ “ ینشر کا لفظ کشادگی ، وسعت اور خوشی اور مسرت کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ تاریک غار ان کے لئے ایک کھلا میدان ہے اور کھلی فضا ہے۔ طویل و عریض میدان ہے اور اس میں رحمت خداوندی کی چھائوں ہے اور یہاں وہ نہایت ہی خوشحالی ، آرام اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ جب اللہ کی رحمت ہو تو نہایت ہی تنگ جگہ ایک وسیع میدان نظر آتی ہے اور ان کی اونچی اونچی دیواریں کر جاتی ہیں اور تنہائی اور وحشت کے غبار چھٹ جاتے ہیں۔ رحمت خداوندی شفقت اور خوشی اور سہولت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اس ظاہری دنیا کی قدر وق یمت کیا ہے ؟ اور دنیاوی زندگی کی ان اقدار کی کیا قیمت جن سے لوگ اس زندگی میں متعارف ہوچکے ہیں ؟ اور ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی دنیا ایک دوسری دنیا ہے۔ اس دنیا کے ساز و سامان کچھ اور ہیں۔ اس دنیا میں ایک مومن رحمٰن کے ساتھ ، انس و محبت کے ساتھ ، اللہ کے سایہ میں اللہ کی رضا مندی ، محبت اور اطمینان کے وسیع سائے میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ اب اس منظر سے پردہ گرتا ہے اور جب پردہ اٹھتا ہے تو ایک دوسرا منظر ہمارے سامنے ہے۔ یہ نوجوان ہیں یہ اس غار میں نہایت ہی اطمینان سے گہری نیند میں ڈوبے ہوئے آرام کر رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ یہ ” اذ اوی الفتیۃ الخ “ کی تفصیل ہے اصحاب کہف کے رئیس یملیخا یا مکسلمینا نے ان سے کہا۔ جب تم ان مشرکوں سے اور ان کے ان ٹھاکروں سے علیحدہ ہوجاؤ۔ جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں تو کسی غار میں گھس جاؤ۔ ھو من قول رئیسھم یملیخا فیما ذکر ابن عطیۃ وقال الغزنوی رئیسھم مکسلمینا (قرطبی ج 10 ص 367) ۔ ” ینشر لکم ربکم من رحمتہ “ یہ ” ربنا اتنا من لدنک رحمۃ “ سے متعلق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا۔ اور تمہارے اس کام میں آرام اور آسانی کا سامان بہم پہنچا دے گا۔ ” مرفقا “ مفعلا کے وزن پر مصدر ہے۔ جس کے معنی رفق اور آسانی کے ہیں۔ قال ابو زید ھو مصدر کالرفق علی مفعل (بحر ج 6 س 107) ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اصحاب کہف خود باطل معبودوں اور ان کے پوجاریوں کے پاس سے بھاگنے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں مگر اس کے باوجود نادان لوگوں نے ان کو معبود بنا رکھا ہے اور پھر اصحاب کہف وہاں سے بھاگ کر غار میں پناہ لینے کی ٹھان چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و توفیق اور آرام و کشائش کے امیدوار اور متمنی ہیں۔ جس سے ان کی اپنی عاجزی، درماندگی اور حاجت مندی ظاہر ہورہی ہے تو جو خود محتاج اور عاجز و لاچار ہو۔ وہ دوسروں کا حاجت روا اور کارساز کس طرح بن سکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 اور اس جواب کے بعد ان نوجوانوں نے آپس میں کہا کہ جب تم ان لوگوں سے عقیدے اور دین میں جدا ہی ہوگئے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے ان کے تمام معبودوں سے بھی الگ ہوگئے اور کنارہ کشی اختیار کرچکے تو اب تم پہاڑ کے کسی غار میں چل بیٹھو جہاں تم پر تمہارا پروردگار اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے اس کام میں تمہارے لئے آرام و سہولت مہیا کر دے گا۔ یعنی جب تم اپنی قوم کی بد عقیدگی اور ان کے جھوٹے معبودوں سے کنارہ کش ہی ہوگئے تو اب تم اپنی فکر کرو اور کسی پہاڑ کی کھوہ میں چل بیٹھو وہاں تم پر تمہارا پروردگار اپنی رحمت اور مہربانی پھیلائے گا اور تمہارے کام میں بھی سہولت و آسانی مہیا فرما دے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرماتے ہیں اس شہر سے نکل کر پاس ایک پہاڑ میں کھوہ تھی آپس میں مشورت کر کر وہاں جا بیٹھے ، نیند غالب ہوئی سو گئے کسی کو معلوم نہ ہوا اب تک سوتے ہیں بیچ میں ایک بار اللہ تعالیٰ نے جگایا تھا جس سے لوگوں پر خبر کھلی پھر سو رہے۔