Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 2

سورة الكهف

قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲﴾

[He has made it] straight, to warn of severe punishment from Him and to give good tidings to the believers who do righteous deeds that they will have a good reward

بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کر دے اور ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنادے کہ ان کے لئے بہترین بدلہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَيِّمًا ... (He has made it) straight, meaning straightforward, ... لِّيُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِن لَّدُنْهُ ... to give warning of a severe punishment from Him, meaning, to those who oppose His Prophet and disbelieve in His Book, He issues a warning of severe punishment hastened in this world and postponed to the world Hereafter. مِن لَّدُنْهُ (from Him). means, from Allah. For none can punish as He punishes and none is stronger or more reliable than Him. ... وَيُبَشِّرَ الْمُوْمِنِينَ ... and to give good news to the believers, means, those who believe in this Qur'an and confirm their faith by righteous actions. ... الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ ... who do righteous deeds, ... أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا that they shall have a fair reward. means, a beautiful reward from Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢] قرآن سابقہ کتابوں کے لئے معیار :۔ قیما بہت وسیع المعنی لفظ ہے اس کا ایک معنی تو ترجمہ میں بیان ہوا ہے دوسرا معنی یہ ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں کے لیے ایک معیار اور کسوٹی کا کام دیتی ہے ایک تو اس میں سابقہ تعلیمات کا خلاصہ موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ کتاب سابقہ کتب کے صرف صحیح اور منزل من اللہ مضامین کی تصدیق کرتی ہے اور اگر کہیں تضاد ہوگا تو وہ اہل کتاب کی تحریف لفظی یا معنوی کی وجہ سے ہوگا یا پھر ان کا اپنی طرف سے اضافہ ہوگا۔ [٣] یعنی اس کتاب کا بھی اور اسی طرح جملہ آسمانی کتابوں کی تعلیم کا لب لباب یہی ہے کہ قیامت یقیناً آنے والی ہے اس دن تمام لوگوں کو ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ ضرور ملنے والا ہے لہذا ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے حضور جواب دہی کی وجہ سے اس دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کریں اور جو اللہ کے فرماں بردار بن کر رہیں انھیں جنت اور دائمی خوشیوں کی بشارت بھی دیتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” قَـيِّمًا “ میں مبالغہ ہے، یعنی بالکل سیدھی، پہلے فرمایا تھا کہ اس میں کوئی کجی نہیں رکھی، اب فرمایا بالکل سیدھی ہے۔ بات ایک ہی ہے مگر اس تاکید کا فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایک چیز میں بظاہر کوئی کجی نہیں ہوتی، مگر حقیقت میں اور باریکی سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی نہ کوئی کجی ہوتی ہے، اس سے اس کی بھی نفی ہوگئی۔ جیسے ایک جگہ ہموار نظر آتی ہے مگر آلہ رکھ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہموار نہیں۔ ” قَـيِّمًا “ کا معنی نگران بھی ہے، ” مُھَیْمِنٌ“ کا بھی یہی معنی ہے۔ (دیکھیے مائدہ : ٤٨) اس صورت میں مراد یہ ہوگی کہ یہ کتاب پچھلی تمام کتابوں پر نگران ہے، یعنی ان کے مضامین کا درست یا تحریف شدہ ہونا اس کتاب کی تصدیق یا تکذیب سے معلوم ہوتا ہے۔ لِّيُنْذِرَ بَاْسًا ۔۔ : یہاں یہ بتایا کہ اس کتاب کو اپنے بندے پر اس لیے نازل فرمایا کہ وہ اس سخت عذاب سے ڈرائے جو اس کی جانب سے ہوگا، مگر یہ نہیں بتایا کہ کسے ڈرائے، اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ مراد عموم ہے، یعنی کافر و مومن ہر ایک کو اللہ کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے، یا یہ کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بتائی ہے، چناچہ فرمایا : (وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا) [ الکہف : ٤ ] ” اور (تاکہ) ان لوگوں کو ڈرائے جنھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ “ اس آیت (٤) میں یہ نہیں بتایا کہ کس چیز سے ڈرائے، اس کا ذکر زیر تفسیر آیت (٢) میں ہے کہ اس کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے۔ دونوں آیات کو ملائیں تو مضمون یہ بنے گا : ” تاکہ ان لوگوں کو اپنی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ “ دونوں آیتوں میں ڈرانے کا ذکر دو بار آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کتاب اور پیغمبر کے فرائض میں ڈرانے کا فریضہ زیادہ اہم ہے، کیونکہ ایمان نہ لانے والے زیادہ ہیں، جن میں سے کوئی مسیح (علیہ السلام) کو اور کوئی عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتا ہے، کوئی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتا ہے، کوئی اپنے انبیاء و اولیاء کو اللہ کے نور کا ٹکڑا اور کوئی انھیں عین اللہ تعالیٰ قرار دیتا ہے، جیسا کہ نصرانیوں نے کہا : (اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ) [ المائدۃ : ٧٢ ] ” بیشک اللہ مسیح ابن مریم ہی تو ہے۔ “ اور ہماری امت کے ایک ظالم نے کہا ہے ؂ وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ کتاب ان سب کو اس کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈراتی ہے، خواہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں ہو یا صرف آخرت میں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد رکھنے کی تردید کے لیے دیکھیے سورة مریم (٨٨ تا ٩٥) ” مِّنْ لَّدُنْهُ “ سے عذاب کی ہولناکی بیان کرنا مقصود ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَـيِّمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَـنًا ۝ۙ قيم دِيناً قِيَماً [ الأنعام/ 161] ، أي : ثابتا مُقَوِّماً لأمور معاشهم ومعادهم . وقرئ : قيما «2» مخفّفا من قيام . وقیل : هو وصف، نحو : قوم عدی، ومکان سوی، ولحم زيم «3» ، وماء روی، وعلی هذا قوله تعالی: ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف/ 40] ، وقوله : وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف/ 1- 2] ، وقوله : وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة/ 5] فَالْقَيِّمَةُ هاهنا اسم للأمّة القائمة بالقسط المشار إليهم بقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] ، وقوله : كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء/ 135] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] فقد أشار بقوله : صُحُفاً مُطَهَّرَةً إلى القرآن، وبقوله : كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 3] إلى ما فيه من معاني كتب اللہ تعالی، فإنّ القرآن مجمع ثمرة كتب اللہ تعالیٰ المتقدّمة . وقوله : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة/ 255] أي : القائم الحافظ لكلّ شيء، والمعطی له ما به قِوَامُهُ قيم اور آیت کریمہ : ۔ دِيناً قِيَماً [ الأنعام/ 161] یعنی دین صحیح ہے ۔ میں قیما بھی ثابت ومقوم کے معنی میں ہے یعنی ایسا دین جو لوگوں کے معاشی اور اخروی معامات کی اصلاح کرنے والا ہے ایک قرات میں قیما مخفف ہے جو قیام سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صفت کا صغیہ ہے جس طرح کہ قوم عدی مکان سوی لحم ذی ماء روی میں عدی سوی اور ذی وغیرہ اسمائے صفات ہیں اور اسی معنی میں فرمایا : ۔ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف/ 40] یہی دین ( کا ) سیدھا راستہ ) ہے ؛ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف/ 1- 2] اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ سیدھی اور سلیس اتاری ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة/ 5] یہی سچا دین ہے ۔ میں قیمتہ سے مراد امت عادلہ ہے جس کیطرف آیت کریمہ : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] تم سب سے بہتر ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء/ 135] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ میں اشارہ پایاجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] جو پاک اوراق پڑھتے ہیں جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ میں صحفا مطھرۃ سے قرآن پاک میں کی طرف اشارہ ہے ۔ اور کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک میں تمام کتب سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کتب متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے اور آیت : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة/ 255] خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا ۔ میں قیوم ( اسمائے حسٰنی سے ہے یعنی ذات الہٰی ہر چیز کی نگران اور محافظ ہے اور ہر چیز کو اس کی ضرورت زندگی بہم پہنچاتی ہے نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢۔ ٣) اور بالکل استقامت کے ساتھ موصوف بنایاتا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم کے ذریعے سے ایک سخت عذاب سے ڈرائیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اور بذریعہ قرآن کریم آپ ان اہل ایمان کو جو کہ مخلص ہیں اور نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری سنائیں کہ ان کو جنت میں اچھا اجر ملے گا کہ جس اجر وثواب میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ وہاں سے نکلے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (قَـيِّمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ ) یعنی نبی اکرم پر نزول قرآن کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کو ایک بہت بڑی آفت کے بارے میں خبردار کردیں۔ یہاں لفظ بَاْسًا بہت اہم ہے۔ یہ لفظ و احد ہو تو اس کا مطلب جنگ ہوتا ہے اور جب بطور جمع آئے تو اس کے معنی سختی مصیبت بھوک تکلیف وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ کی آیت ١٧٧ (آیت البر) میں یہ لفظ بطور واحد بھی آیا ہے اور بطور جمع بھی : (وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ) ۔ چناچہ وہاں دونوں صورتوں میں اس لفظ کے معنی مختلف ہیں : ” الْْبَاْسَآءِ “ کے معنی فقر و تنگدستی اور مصائب و تکالیف کے ہیں جبکہ ” وَحِیْنَ الْبَاْسِ “ سے مراد جنگ کا وقت ہے۔ بہر حال آیت زیر نظر میں ” بَاْسًا شَدِیْدًا “ سے ایک بڑی آفت بھی مراد ہوسکتی ہے اور بہت شدید قسم کی جنگ بھی۔ آفت کے معنی میں اس لفظ کا اشارہ اس دجالی فتنہ کی طرف ہے جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار نہ کیا ہو کیونکہ یہ فتنہ ایک مؤمن کے لیے سخت ترین امتحان ہوگا اور پوری انسانی تاریخ میں اس فتنے سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔ دوسری طرف اس لفظ (بَاْسًا شَدِیْدًا) کو اگر خاص طور پر جنگ کے معنی میں لیا جائے تو اس سے ” المَلحَمۃُ الْعُظمٰی “ مراد ہے اور اس کا تعلق بھی فتنہ دجال ہی سے ہے۔ کتب احادیث (کتاب الفتن کتاب آثار القیامۃ کتاب الملاحم وغیرہ ) میں اس خوفناک جنگ کا ذکر بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ عیسائی روایات میں اس جنگ کو ” ہرمجدون “ (Armageddon) کا نام دیا گیا ہے۔ بہر حال حضرت مسیح کے تشریف لانے اور ان کے ہاتھوں دجال کے قتل کے بعد اس فتنہ یا جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ بہت سی احادیث میں ہمیں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ دجالی فتنہ کے ساتھ سورة الکہف کی ایک خاص مناسبت ہے اور اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس سورة کے ساتھ ذہنی اور قلبی تعلق قائم کرنا بہت مفید ہے۔ اس مقصد کے لیے احادیث میں جمعہ کے روز سورة الکہف کی تلاوت کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے اور اگر پوری سورت کی تلاوت نہ کی جاسکے تو کم از کم اس کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کرنا بھی مفید بتایا گیا ہے۔ یہاں پر دجالی فتنہ کی حقیقت کے بارے میں کچھ وضاحت بھی ضروری ہے۔ ” دجل “ کے لفظی معنی دھوکہ اور فریب کے ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق ” دجال “ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت بڑا دھوکے باز ہو ‘ جس نے دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ اور فریب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ چناچہ نبی اکرم نے جن تیس دجالوں کی پیدائش کی خبر دی ہے ان سے جھوٹے نبی ہی مراد ہیں۔ دجالیت کے اس عمومی مفہوم کو مدنظر رکھا جائے تو آج کے دور میں مادہ پرستی بھی ایک بہت بڑا دجالی فتنہ ہے۔ آج لوگوں کے اذہان و قلوب نظریات و افکار اور اخلاق و اقدار پر مادیت کا اس قدر غلبہ ہوگیا ہے کہ انسان اللہ کو بھول چکا ہے۔ آج وہ مسبب الاسباب کو بھول کر مادی اسباب پر توکل کرتا ہے۔ وہ قرآن کے اس فرمان کو یکسر فراموش کرچکا ہے کہ : (وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) (آل عمران) یعنی دنیوی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے جبکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ آخرت کی زندگی پر پڑے ہوئے دنیا اور اس کی مادیت کے پردے سے دھوکا کھا کر انسان نے دنیوی زندگی ہی کو اصل سمجھ لیا ہے ‘ لہٰذا اس کی تمام دوڑ دھوپ اسی زندگی کے لیے ہے۔ اسی زندگی کے مستقبل کو سنوارنے کی اس کو فکر ہے اور یوں وہ مادہ پرستی کے دجالی فتنے میں گرفتار ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ دجال اور دجالی فتنے کا ایک خصوصی مفہوم بھی ہے۔ اس مفہوم میں اس سے مراد ایک مخصوص فتنہ ہے جو قرب قیامت کے زمانے میں ایک خاص شخصیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوگا۔ اس بارے میں کتب احادیث میں بڑی تفصیلات موجود ہیں لیکن بعض روایات میں کچھ پیچیدگیاں بھی ہیں اور تضادات بھی۔ ان کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ علمی سطح پر غور و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ ظاہری طور پر نظر آنے والے تضادات میں مطابقت کے پہلوؤں کو تلاش کرنا اہل علم کا کام ہے۔ بہر حال یہاں ان تفاصیل کا ذکر اور ان پر تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔ اس موضوع کے بارے میں یہاں صرف اس قدر جان لینا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ نے قرب قیامت کے زمانے میں دجال کے ظاہر ہونے اور ایک بہت بڑا فتنہ اٹھانے کے بارے میں خبریں دی ہیں۔ جو حضرات اس حوالے سے تفصیلی معلومات چاہتے ہوں وہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ” تفسیر سورة الکہف “ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس موضوع پر ” دنیا کی حقیقت “ کے عنوان سے میری ایک تقریر کی ریکارڈنگ بھی دستیاب ہے ‘ جس میں میں نے سورة الکہف کے مضامین کا خلاصہ بیان کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:2) قیما۔ درست کرنے والے۔ یعنی ایسی کتاب جو (نہ صرف بذاتہٖ ہر قسم کی کجی یا خامی سے مبرّا ہے بلکہ) دوسروں کی کجیوں اور خامیوں کی اصلاح کرتی ہے۔ ای ثابتا ومقوما لامور معاشہم ومعادہم یعنی کود کجی سے بالاتر اور دوسروں کے معاش ومعاد کو درست کرنے والی۔ حروف مادہ ق و م۔ ولم یجعل لہ عوجا قیما۔ صاحب کشاف نے وائو کو حرف عطف اور ولم یجعل لہ کو انزل پر معطوف لیا ہے۔ ان کے نزدیک قیما کو الکتب کا حال ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ فعل مضمر کی وجہ سے ہے اور تقدیر کلام یوں ہے ولم یجعل لہ عوجا جعلہ قیما۔ لیکن بعض کے نزدیک ولم یجعل لہ عوجا میں وائو حالیہ ہے گویا ولم یجعل لہ عوجا اور قیمادونوں حال ہیں جب دونوں حال ہوئے تو حال اور ذوالحال میں فاصلہ نہ رہا۔ لینذر۔ لام تعلیل کے لئے ہے ینذر مضارع واحد غائب منصوب بوجہ عمل لا۔ انذار (افعال) مصدر تاکہ وہ ڈرائے (ڈرائے کا فاعل کتاب ہے) لینذر باسا شدیدا۔ تقدیر کلام یوں ہے۔ لینذر والذین کفروا باسا شدیدا تاکہ وہ کافروں کو عذاب شدید سے ڈرائے۔ مفعول اول محذوف ہے۔ من لدنہ۔ اس کی طرف سے۔ ان لہم اجرا حسنا۔ یہ بشارت کا بیان ہے۔ اور مراد اس اجر سے جنت ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

تضاد اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ ناصرف اس میں الجھاؤ اور تعارض نہیں پایا جاتا بلکہ اس کی یہ بھی صفت ہے کہ اس کے ارشادات سادہ اور ٹھوس ہیں جن پر عمل پیرا ہونا آسان ہے اور اس کے بدلے دنیا اور آخرت کی کا میابی نصیب ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ حقیقی تعریفات کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ قرآن مجید میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی۔ ٤۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کا موثر ذریعہ ہے۔ ٥۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے باعث رحمت اور بشارت ہے۔ ٦۔ اعمال صالحہ کرنے والے مومنین کے لیے بہترین اجر اور خوشیوں کا پیغام ہے۔ تفسیر بالقرآن عمل صالح کا صلہ : ١۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کے لیے خوشخبری اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (الکھف : ٢) ٢۔ جو بھی مومن صالح عمل کرے گا اس کی محنت کو رائیگاں نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٩٤) ٣۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الحج : ٥) ٤۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کے گناہوں کو اللہ ختم کردیں گے۔ (العنکبوت : ٧) ٥۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے نعمتوں والی جنت ہے۔ (لقمان : ٨) ٦۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس میں مہمانی کا اہتمام ہوگا۔ (الکھف : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سورت کا آغاز نہایت ہی پر اعتماد اور فیصلہ کن انداز میں ہو رہا ہے ۔ اللہ کی تعریف اس بات پر کی جا رہی ہے کہ اس نے اپنے بندے پر یہ کتاب اتاری۔ یہ ایک سیدھی کتاب ہے ، اس کی تعلیمات سیدھی ہیں اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ ان میں کوئی ٹیڑھ پن اور ہیر پھیر نہیں ہے ، اس میں لاگ لپیٹ کے بغیر بات کی جا رہ ی ہے۔ یہ کیوں ؟ لینذرباسا شدیداً من لدنہ (٨١ : ٢) ” تکاہ لوگوں کو خدا کی طرف سے آنے والے سخت عذاب سے ڈراوے۔ “ پہلی ہی آیت سے نشان منزل آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کتاب کا نظریہ کیا ہے ، بغیر کسی التباس اور بغیر کسی پیچیدگی کے ۔ اللہ نے یہ کتاب نازل کی ہے او اللہ قابل حمد وثناء ہے کہ اس نے یہ احسان کیا۔ محمد اللہ کے بندے ہیں جیسا کہ متام لوگ اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ کوئی شریک۔ او یہ کتاب کیسی ہے ؟ اس میں کوئی ٹیڑھ پن نہیں ہے۔ یہ قیم ہے۔ اس کی تعلیمات کے سیھدے پن کا اظہار ایک دفعہ یوں کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ٹیڑھ پن نہیں اور دوسری مرتبہ یوں کہا جاتا ہے کہ یہ قیم ہے یعنی سیدھی۔ یعنی اس کتاب اور اسلام کے صراط مستقیم ہونے کی تاکید شدید۔ اور یہ کتاب کیوں نازل کی گئی ؟ لینذر باسا شدیداً من لدنہ وبشر المومنین الذین یعملون الصلحت ان لھم اجرا حسناً (٨١ : ٢) ” تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے۔ “ اس پوری سورت میں سخت اور قطعی الفاظ میں ڈراوا بھی ہے۔ ڈراوے کا آغاز تو اجمالی اور اصولی طور پر ہوتا ہے۔ لینذر باسا شدیداً من لذنہ (٨١ : ٢) ” تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کردے۔ اور اس کے بعد پھر مخصوص طور پر مشرکین کو ڈرایا جاتا ہے۔ وینذر الذین قالوا اتخذ اللہ ولدا۔ اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ “ لیکن انذار اور ڈراوے کے ساتھ ساتھ مومنین کے لئے تبشیر بھی ہے۔ ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو عمل صالح کرتے ہیں۔ یہاں ایمان کے بعد عمل صالح کی قید لگائی گئی ہے۔ الذین یعملون الصلحت (٨١ : ٢) یہ اس لئے لگائی گئی ہے کہ عمل صالح ایمان کی دلیل ہوتا ہے اور ظاہری عمل کی بنا پر کوئی کسی کے بارے میں فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کی غلط سوچ اور غلط انداز فکر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس کائنات کے سب سے بڑے اور سب سے مشکل اور نازک مسئلے کے بارے کس قدر غلط سوچ رکھتے ہیں یعنی اس کائنات کے بارے میں اور اس کے خلاق کے بارے میں عقائد کے مسئلے کے متعلق۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ ) تاکہ وہ قرآن کافروں کو ایک سخت عذب سے ڈرائے جو اللہ کی طرف سے ہوگا۔ (وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا حَسَنًا) (اور تاکہ ایمان والوں کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ انہیں اچھا اجر ملے گا۔ ) (مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا) (یہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے) اجرا حسنا سے جنت مراد ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ (وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا) (اور تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد بنالی ہے) پہلے تمام کافروں کو ڈرانے کا تذکرہ فرمایا پھر مستقل طور پر ان لوگوں کے ڈرانے کا ذکر فرمایا جو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے، اہل عرب کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں، یہ بہت بڑا شرک ہے ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآءِھِمْ ) (ان لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں اور نہ ان کے آباء و اجداد کو کوئی علم ہے) جو کچھ کہتے ہیں علم کی بنیاد پر نہیں اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں باپ دادوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ انہیں اصل حقیقت کا پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ہونا محال ہے۔ (کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ) (یہ بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکل رہا ہے) یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرکے بےجا جسارت کی ہے ان کا یہ بات کہنا افتراء کے اعتبار سے اور کلمہ کفر ہونے کے اعتبار سے بڑا کلمہ ہے اور بہت ہی بڑا جرم ہے کسی بھی درجہ میں زبان سے نکالنے کے لائق ہی نہیں ہے۔ (اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا) (یہ لوگ بس جھوٹ ہی بولتے ہیں) سورة مریم میں فرمایا (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (اور انہوں نے کہا کہ رحمن نے اولاد اختیار کرلی ہے بلاشبہ تم نے بہت سخت حرکت کی ہے کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جائیں اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے رحمن کے لیے اولاد تجویز کی، اور رحمن کی شان کے لیے لائق نہیں ہے کہ وہ اولاد اختیار کرے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ ” لینذر باسا شدیدا الخ “ میں لام ” انزل “ سے متعلق ہے۔ قرآن مجید نازل کرنے کے یہاں دو مقصد بیان کیے گئے ہیں۔ اول تخویف وانذار۔ دوم تبشیر۔ پہلے ” لینذر “ سے تخویف۔ پھر ” یبشر “ سے بشارت اس کے بعد پھر ” وینذر “ سے تخویف کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے تخویف کے بیان میں مفعول (منکرین) کا ذکر نہیں کیا گیا اور عذاب شدید کا ذکر کیا گیا ہے بشارت کے سلسلے مفعول (المومنین) اور اجر دونوں مذکور ہیں۔ اس سورت میں چونکہ مقصود منکرین کے شبہات کا ازالہ ہے اس لیے بعد عہد کی وجہ سے ” و ینذر “ کا اعادہ کر کے منکرین کا ذکر کیا گیا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ کون سے منکرین ہیں جن کا یہاں انذار مقصود ہے اور جن کے شبہات کا ازالہ کرنا ہے۔ چناچہ فرمایا ” الذین قالوا اتخذ اللہ ولدا “ ان لوگوں کا انذار مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ولد تجویز کرتے ہیں قرآن مجید میں مشرکین کے اس قول کو اتخاذِ ولد سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی بیٹا یعنی متبنی بنانے کے ہیں۔ عربی محاورات میں یہ ترکیب اسی مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت آسیہ زوجہ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اور عزیز مصر نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق کہا تھا ” عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا “ (قصص رکوع 1 اور یوسف رکوع 3) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے لیے حقیقی بیٹا تجویز نہیں کرتے تھے۔ نفی اتخاذ الولد ظاھر فی التبنی (روح ج 15 ص 195) بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں، انبیاء علیہم السلام، اولیاء اور ملائکہ کرام کو اپنے متبنی اور نائب بنایا ہوا ہے اور ان کو بعض مافوق الاسباب امور میں تصرف واختیار دے دیا ہے، جیسا کہ باپ اپنے بیٹوں کو بعض اختیارات سونپ دیتا ہے اس طرح لفظ ولد یہاں حقیقی بیٹے کے معنوں میں نہیں بلکہ نائب متصرف کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ ومنھم من اعتقد ان اللہ ھو السید وھو المدبر لکنہ قد یخلع علی بعض عبیدہ لباس الشرف والتالہ ویجعلہ متصرفا فی بعض الامور الخاصۃ و یقبل شفاعتہ فی عبادہ بمنزلۃ ملک الملوک یبعث علی کل قطر ملکا یقلد تدبیر المملکۃ فیما عدا الامور العظام ہی فیتلجلج لسانہ ان یسمیھم عباد اللہ فیسویہم وغیرہم فعدعن ذلک الی تسمیتہم ابناء اللہ ومحبو بے اللہ (حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص ص 48) اور کچھ مشرکین ایسے ہیں جن کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے اور وہی مدبر عالم ہے لیکن وہ کبھی اپنے بعض مقرب بندوں کو بزرگی اور الوہیت کی خلعت سے سرفراز فرما کر ان کو بعض خاص امور میں متصرف بنا دیتا ہے اور دوسروں کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرماتا ہے جیسا کہ دنیا کا ایک شہنشاہ ہر علاقے پر ایک چھوٹا بادشاہ مقرر کر کے اس کا انتظام اس کے سپرد کردیتا ہے باستثنائے امور عظیمہ۔ اب ان کی زبان ان مقربین کو اللہ کے بندے کہتے ہوئے لڑکھڑاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح مقربین اور عوام میں کوئی فرق نہیں رہتا اس لیے وہ ان کو اللہ کے بندے کہنے کی بجائے اللہ کے بیٹے اور اللہ کے محبوب کہہ دیا کرتے ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کا اللہ کے نیک بندوں کو ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اللہ کے حقیقی بیٹے ہیں ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ کے محبوب اور اسکے پیارے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بعض امور میں تصرف کا اختیار دے رکھا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2 بالکل سیدھی اور ٹھیک اتاری اس لئے نازل کی اور اتاری تاکہ وہ ایک سخت عذاب سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا لوگوں کو ڈرائے اور ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری اور بشارت دے کہ ان کو اچھا اجر ملے گا۔