Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 20

سورة الكهف

اِنَّہُمۡ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ یَرۡجُمُوۡکُمۡ اَوۡ یُعِیۡدُوۡکُمۡ فِیۡ مِلَّتِہِمۡ وَ لَنۡ تُفۡلِحُوۡۤا اِذًا اَبَدًا ﴿۲۰﴾

Indeed, if they come to know of you, they will stone you or return you to their religion. And never would you succeed, then - ever."

اگر یہ کافر تم پر غلبہ پا لیں تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں پھر اپنے دین میں لوٹا لیں گے اور پھر تم کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکو گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّهُمْ إِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ ... and let no man know of you. For, if they come to know of you, they will stone you, means, `if they find out where you are,' .... يَرْجُمُوكُمْ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فِي مِلَّتِهِمْ ... they will stone you or turn you back to their religion; They were referring to the followers of Decianus, who they were afraid might find out where they were, and punish them with all kinds of torture until they made them go back to their former religion, or until they died, for if they agreed to go back to their (old) religion, they would never attain success in this world or the Hereafter. So they said: ... وَلَن تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا and in that case you will never be successful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی آخرت کی جس کامیابی کے لئے ہم نے صعوبت، مشقت برداشت کی، ظاہر بات ہے کہ اگر اہل شہر نے ہمیں مجبور کرکے پھر آبائی دین کی طرف لوٹا دیا، تو ہمارا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا، ہماری محنت بھی برباد جائے گی اور ہم نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: رجم (rajm) in: يَرْ‌جُمُوكُمْ means they will stone you to death - 19.& It will be recalled that the king had warned them - before they went to the Cave - that they will be killed if they kept adhering to their present faith. This verse tells us that a renegade in their faith used to be punished by being stoned to death in which everyone participated, expressed collective anger and lent a hand in killing him. Perhaps, the punishment for adultery committed by a married man or woman by stoning to death, as proposed in the Shari` ah of Islam, may be aimed at exposing the one guilty of this abominable act at the cost of all norms of modesty and propriety. The execution of the culprit was to remain public with everyone joining in so that two things were ensured - let that disgrace be at collective level, and let all Muslims express their wrath practically so that no one dares repeat this act of shame among them. The expression فَابْعَثُوا أَحَدَكُم (So send one of you – 19) tells us that the group in the Cave picked up a man from among them to go to the city and gave him the money to buy food which he would bring back. Al-Qurtubi finds this significant. He quotes Ibn Khuwaizmandad and describes some rulings deduced from here. Rulings 1. Partnership in capital is permissible - because, this amount was shared by all. 2. Power of attorney or delegation of management is permissible in capital, that is, one person can, as an authorized agent disburse from shared capital with the permission of others. If a group of people shares food, it is permissible - though, individu¬al food intake usually differs with one eating less while the other, more.

اَوْ يَرْجُمُوْكُمْ رجم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں، بادشاہ نے غار میں جانے سے پہلے ان کو دھمکی دی تھی کہ اگر اپنا یہ دین نہ چھوڑو گے تو قتل کر دئیے جاؤ گے، اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ان کے دین سے پھرجانے والے کی سزائے قتل بصورت سنگساری دی جاتی تھی تاکہ سب لوگ اس میں شریک ہوں، اور ساری قوم اپنے غیظ و غضب کا اظہار کر کے قتل کر ے۔ شاید شریعت اسلام میں شادی شدہ مرد و عورت کے زنا کی سزا بھی جو سنگسار کر کے قتل کرنا تجویز کیا گیا ہے اس کا بھی منشا یہ ہو کہ جس شخص نے حیا کے سارے پردوں کو توڑ کر اس فعل قبیح کا ارتکاب کیا ہے اس کا قتل منظر عام پر سب لوگوں کی شرکت کے ساتھ ہونا چاہئے تاکہ اس کی رسوائی بھی پوری ہو، اور سب مسلمان عملا اپنے غیظ و غضب کا اظہار کریں، تاکہ آئندہ قوم میں اس حرکت کا اعادہ نہ ہو سکے۔ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ اس واقعہ میں جماعت اصحاب کہف نے اپنے میں سے ایک آدمی کو شہر بھیجنے کے لئے منتخب کیا، اور رقم اس کے حوالہ کی کہ وہ کھانا خرید کر لائے، قرطبی نے بحوالہ ابن خویز مندا فرمایا کہ اس سے چند فقہی مسائل حاصل ہوئے۔ چند مسائل : اول یہ کہ مال میں شرکت جائز ہے، کیونکہ یہ رقم سب کی مشترک تھی، دوسری یہ کہ مال میں وکالت جائز ہے، کہ مشترک مال میں کوئی ایک شخص بحیثیت وکیل دوسروں کی اجازت سے تصرفات کرے، تیسرے یہ کہ چند رفیق اگر کھانے میں شرکت رکھیں یہ جائز ہے، اگرچہ کھانے کی مقداریں عادۃ مختلف ہوتی ہیں، کوئی کم کھاتا ہے کوئی زیادہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہُمْ اِنْ يَّظْہَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِہِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا۝ ٢٠ ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔ رجم الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ( ر ج م ) الرجام ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ ملل المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها، ( م ل ل ) الملۃ ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) اگر یہ مجوس تمہاری خبر پالیں تو تمہیں قتل کر ڈالیں گے یا پھر تمہیں اپنے مجوسیت کے طریقہ پر کرلیں گے اب اگر تم ان کے دین کو اختیار کرلو گے تو پھر کبھی عذاب خداوندی سے نجات نہیں ملے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (اِنَّهُمْ اِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا) اگر انہوں نے تمہیں مجبور کردیا کہ تم پھر سے ان کا دین قبول کرلو تو ایسی صورت میں تم ہمیشہ کے لیے ہدایت سے دور ہوجاؤ گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:20) انہم۔ میں ضمیر جمع مذکر غائب اہل شہر کے لئے ہے۔ ان یظھروا علیکم۔ اگر وہ تمہاری خبر پالیں گے۔ اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے۔ ظھر بالمقابل بطن کے ہو تو بمعنی ظاہر ہونا۔ نمایاں ہونا جیسے ما ظھر منہا وما بطن (6:15) ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ ظھر بمعنی زیادہ ہونا اور پھیل جانا کے بھی آیا ہے۔ مثلاً ظھر الفساد فی البر والبحر۔ (30:14) خشکی اور تری میں (لوگوں کے اعمال کے سبب) فساد پھیل گیا۔ ظھرجب بصلہ علی آئے تو بمعنی پانا کے ہوتا ہے، جیسے آیۃ ہذا میں ۔ اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے۔ یرجموکم۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ مجزوم بوجہ جواب شرط کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم کو سنگسار کردیں گے وہ تم کو پتھر مار کر ہلاک کردیں گے۔ یعیدوکم۔ اعادۃ مصدر۔ وہ دوبارہ تم کو (اپنے طریقہ میں) لوٹا دیں گے۔ مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط۔ لن تفلحوا۔ مضارع معروف نفی تاکید بلن۔ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی۔ بوجہ عمل لن گرگیا۔ تم فلاح نہیں پائو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi