Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 22

سورة الكهف

سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَۃٌ سَادِسُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡہِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا ﴿٪۲۲﴾  15

They will say there were three, the fourth of them being their dog; and they will say there were five, the sixth of them being their dog - guessing at the unseen; and they will say there were seven, and the eighth of them was their dog. Say, [O Muhammad], "My Lord is most knowing of their number. None knows them except a few. So do not argue about them except with an obvious argument and do not inquire about them among [the speculators] from anyone."

کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا غیب کی باتوں میں اٹکل ( کے تیر تکے ) چلاتے ہیں کچھ کہیں گے کہ وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو بخوبی جاننے والا ہے ، انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں پس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو ہی کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Their Number Allah tells: سَيَقُولُونَ ثَلَثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُم ... They say they were three, the dog being the fourth among them; and they say they were five, the dog being the sixth, guessing at the unseen; and they say they were seven, and the dog being th... e eighth. Allah tells us that people disputed over the number of the people of the Cave. The Ayah mentions three views, proving that there was no fourth suggestion. Allah indicates that the first two opinions are invalid, by saying, رَجْمًا بِالْغَيْبِ (guessing at the unseen), meaning that they spoke without knowledge, like a person who aims at an unknown target -- he is hardly likely to hit it, and if he does, it was not on purpose. Then Allah mentions the third opinion, and does not comment on it, or He affirms it by saying, وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ (and the dog being the eighth), indicating that this is correct and this is what happened. سَيَقُولُونَ ثَلَثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ... ... قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم ... Say: "My Lord knows best their number..." indicating that the best thing to do in matters like this is to refer knowledge to Allah, because there is no need to indulge in discussing such matters without knowledge. If we are given knowledge of a matter, then we may talk about it, otherwise we should refrain. ... مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلاَّا قَلِيلٌ ... none knows them but a few. of mankind. Qatadah said that Ibn Abbas said: "I am one of the few mentioned in this Ayah; they were seven." Ibn Jurayj also narrated that Ata' Al-Khurasani narrated from him, "I am one of those referred to in this Ayah," and he would say: "Their number was seven." Ibn Jarir recorded that Ibn Abbas said: مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلاَّا قَلِيلٌ (none knows them but a few), "I am one of the few, and they were seven." The chains of these reports narrated from Ibn Abbas, which say that they were seven, are Sahih, and this is in accordance with what we have stated above. ... فَلَ تُمَارِ فِيهِمْ إِلاَّ مِرَاء ظَاهِرًا ... So debate not except with the clear proof. meaning, gently and politely, for there is not a great deal to be gained from knowing about that. ... وَلاَ تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا And consult not any of them (about the people of the Cave). meaning, `They do not have any knowledge about it except what they make up, guessing at the unseen; they have no evidence from an infallible source. But Allah has sent you, O Muhammad, with the truth in which there is no doubt or confusion, which is to be given priority over all previous books and sayings.'   Show more

اصحاف کہف کی تعداد لوگ اصحاف کہف کی گنتی میں گچھ کا کچھ کہا کرتے تھے تین قسم کے لوگ تھے چوتھی گنتی بیان نہیں فرمائی ۔ دو پہلے کے اقوال کو تو ضعیف کر دیا کہ یہ اٹکل کے تکے ہیں ، بےنشانے کے پتھر ہیں ، کہ اگر کہیں لگ جائیں تو کمال نہیں نہ لگیں تو زوال نہیں ، ہاں تیسرا قول بیان فرما کر سکوت اخت... یار فرمایا تردید نہیں کی یعنی سات وہ آٹھواں ان کا کتا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی بات صحیح اور واقع میں یونہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بہتر یہی ہے کہ علم اللہ کی طرف اسے لوٹا دیا جائے ایسی باتوں میں کوئی صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے غور و خوض کرنا عبث ہے ، جس بات کا علم ہو جائے منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے ۔ اس گنتی کا صحیح علم بہت کم لوگوں کو ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں انہیں میں سے ہوں ، میں جانتا ہوں وہ سات تھے ۔ حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور یہی ہم نے پہلے لکھا تھا ۔ ان میں سے بعض تو بہت ہی کم عمر تھے ۔ عنفوان شباب میں تھے یہ لوگ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ، روتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے رہتے تھے ۔ مروی ہے کہ یہ تو نو تھے ان میں سے جو سب سے بڑے تھے ان کا نام مکسلمین تھا اسی نے بادشاہ سے باتیں کی تھیں اور اسے اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دی تھی ۔ باقی کے نام یہ ہیں فحستلمین ، تملیخ ، مطونس ، کشطونس ، بیرونس ، دنیموس ، بطونس اور قابوس ۔ ہاں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت یہی ہے کہ یہ سات شخص تھے آیت کے ظاہری الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ شعیب جبائی کہتے ہیں ان کے کتے کا نام حمران تھا لیکن ان ناموں کی صحت میں نظر ہے واللہ اعلم ۔ ان میں کی بہت سی چیزیں اہل کتاب سے لی ہوئی ہیں ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں یہ ایک نہایت ہی ہلکا کام ہے جس میں کوئی بڑا فائدہ نہیں اور نہ ان کے بارے میں کسی سے دریافت کیجئے ، کیونکہ عموما وہ اپنے دل سے جوڑ کر کہتے ہیں کوئی صحیح اور سچی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ، جو کچھ آپ کے سامنے بیان فرمایا ہے ، یہ جھوٹ سے پاک ہے ، شک شبہ سے دور ہے ، قابل ایمان و یقین ہے ، بس یہی حق ہے اور سب سے مقدم ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یہ کہنے والے اور ان کی مختلف تعداد بتلانے والے عہد رسالت کے مؤمن اور کافر تھے، خصوصاً اہل کتاب جو کتب آسمانی سے آگاہی اور علم کا دعویٰ رکھتے تھے۔ 22۔ 2 یعنی علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں، جس طرح بغیر دیکھے کوئی پتھر مارے، یہ بھی اس طرح اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں۔ 22۔ 3 اللہ تعالیٰ نے صرف تین ق... ول بیان فرمائے، پہلے وہ دو قولوں کو رَجْمَا بالْغَیْبِ (ظن وتخمین) کہہ کر ان کو کمزور رائے قرار دیا اور اس تیسرے قول کا ذکر اس کے بعد کیا، جس سے اہل تفسیر نے استدلال کیا ہے کہ یہ انداز اس قول کی صحت کی دلیل ہے اور فی الواقع ان کی اتنی ہی تعداد تھی (ابن کثیر) 22۔ 4 بعض صحابہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے میں بھی ان کم لوگوں میں سے ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی ؟ وہ صرف سات تھے جیسا کہ تیسرے قول میں بتلایا گیا ہے (ابن کثیر) 22۔ 5 یعنی صرف ان ہی باتوں پر اکتفا کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے سے کردی گئی ہے۔ یا تعین عدد میں بحث و تکرار نہ کریں، صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 22۔ 6 یعنی بحث کرنے والوں سے ان کی بابت کچھ نہ پوچھیں، اس لئے کہ جس سے پوچھا جائے، اس کو پوچھنے والے سے زیادہ علم ہونا چاہئے، جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی یقینی علم کا ایک ذریعہ وحی، موجود ہے، جب کہ دوسروں کے پاس ذہنی تصور کے سوا کچھ بھی نہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] اصحاب کہف کی تعداد اور بیکار بحثوں سے اجتناب کا حکم :۔ اصحاب کہف سے متعلق ایک بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اصحاب کہف کی صحیح تعداد جانتے ہیں اور وہ سات تھے کیونکہ اللہ ت... عالیٰ نے تین یا پانچ کہنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد رجماً بالغیب کا لفظ فرمایا ہے مگر سات کہنے والوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا، بعض علماء نے اور بھی کئی وجوہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ فی الواقع سات ہی تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بحث میں دلچسپی لینے سے منع فرما دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ یہ بات کسی اور سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بحث اس لحاظ سے بالکل بیکار ہے کہ اس پر کسی عمل کی بنیاد نہیں اٹھتی۔ اسی طرح کی بیکار بحثوں کی ایک مثال یہ ہے کہ جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم کو منع کیا تھا وہ کون سا درخت تھا ؟ یا یہ کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا نام کیا تھا ؟ یا یہ کہ نماز وسطی کون سی ہے ؟ اور اس بات پر بعض مفسرین نے صفحوں کے صفحے سیاہ کردیئے ہیں جن کا ماحصل یہ نکلتا ہے کہ پانچوں نمازیں ہی مختلف ترتیب سے نماز وسطی بن سکتی ہیں حالانکہ احادیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ نماز وسطی سے مراد نماز عصر ہے یا یہ بحث کہ آیا کوا حلال ہے یا حرام ؟ حالانکہ اگر یہ حلال ثابت ہو بھی جائے تو کوئی اسے کھانا گوارا نہیں کرے گا۔ اسی طرح کی ایک بحث گوہ کے حلال یا حرام ہونے کی ہے جس پر بحث و تکرار اور مناظرے بھی ہوچکے ہیں حالانکہ عملی زندگی سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خمعتزلہ اور مسئلہ خلق قرآن :۔ اور جب ایسی باتیں صفات الٰہی کے بارے میں چھڑ جاتی ہیں تو فرقہ بازی تک نوبت جاپہنچتی ہے اور اپنے ایمان تک کو سلامت رکھنا غیر محفوظ ہوجاتا ہے جیسے کچھ مدت پیشتر یہ بحث چھڑ گئی کہ اللہ تعالیٰ تو ہر بات پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور اسی مسئلہ پر دو متحارب فریق بن گئے۔ ایسی ہی ایک بحث یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے تو کیا وہ جادو کا علم بھی جانتا ہے ؟ اور اس کی سب سے واضح مثال مسئلہ خلق قرآن ہے جو معتزلہ نے پیدا کیا تھا اور وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک قرار دیتے تھے۔ خلفائے بنو عباس بالخصوص مامون الرشید معتزلہ کے عقائد سے شدید متاثر تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو محض اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے تھے اور امام احمدبن حنبل نے اسی مسئلہ کی خاطر مدتوں قید و بند اور مارپیٹ کی سختیاں جھیلی تھیں۔ بالآخر خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں ایک سفید ریش بزرگ خلیفہ کے پاس آیا اور درباری معتزلی عالم ابن ابی دؤاد سے مناظرہ کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس بزرگ نے ابن ابی دؤاد سے کہا : میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول نے دعوت دی اور نہ خلفائے راشدین نے، تم اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہو اور اسے منوانے کے لیے زبردستی سے کام لیتے ہو تو اب دو ہی باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انہوں نے سکوت اختیار فرمایا تو تمہیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ ان کو علم نہ تھا تو اے گستاخ ابن گستاخ ! ذرا سوچ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو تھا اور نہ خلفائے راشدین کو ہوا تو تمہیں کیسے اس کا علم ہوگیا ؟ ابن ابی دؤاد سے اس کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔ واثق باللہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دوسرے کمرہ میں چلا گیا وہ زبان سے باربار یہ فقرہ دہراتا تھا کہ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو ہوا اس کا علم تجھے کیسے ہوگیا ؟ مجلس برخاست کردی گئی خلیفہ نے اس بزرگ کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اس کے بعد امام احمد بن حنبل پر سختیاں بند کردیں اور حالات کا پانسا پلٹ گیا اور آہستہ آہستہ مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ جس نے بیشمار مسلمانوں کی ناحق جان لی تھی، ختم ہوگیا۔ غور فرمائیے کہ اس مسئلہ کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ تعلق ہے ؟ بفرض محال اس کے مخلوق ثابت ہوجانے کے بعد اس کے احکام میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے ؟ بس ایسی بیکار بحثوں میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ایسی بحثوں میں پڑنے کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ شیطانی راہیں بیشمار کھل جاتی ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ ۔۔ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے سے مشرکین عرب میں اصحاب کہف سے متعلق طرح طرح کی باتیں موجود تھیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھیں۔ 3 اصحاب کہف کے ناموں کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ناموں کی ... صراحت غالباً اسرائیلی کتب تواریخ سے ماخوذ ہے اور ان اسماء کے تلفظ میں بھی بہت اختلاف ہے، کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہوسکتا۔ (فتح الباری) پھر بعض لوگ ان ناموں کے خواص اور فائدے بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لیے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں، بلکہ اگر ” یا “ حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں، یا ان ناموں میں نفع پہنچانے یا نقصان سے بچانے کی تاثیر کا عقیدہ رکھا جائے تو صاف شرک ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس بارے میں بعض روایات بھی گھڑ لی گئی ہیں جو ابن عباس اور دیگر اصحاب (رض) کی طرف منسوب ہیں، مگر ان میں سے کوئی روایت بھی ابن عباس (رض) یا سلف صالحین سے ثابت نہیں۔ نواب صدیق حسن خاں (رح) نے اپنی تفسیر میں ان ناموں کے ساتھ علاج کی تردید کی ہے۔ 3 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے اہل کتاب یہ تو جانتے تھے کہ کسی زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے، مگر وہ اس کی حقیقت سے بیخبر تھے۔ اس لیے محض اٹکل سے اس کی تفصیلات بیان کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کے متعلق ان کے دو قول ذکر فرما کر ان کی تردید فرمائی، البتہ تیسرے قول کا ذکر فرما کر کہ وہ سات تھے، اس کی تردید نہیں فرمائی، بلکہ فرمایا، کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے متعلق زیادہ جانتا ہے اور انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر اس بحث کے بےفائدہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں سے سرسری بحث کے سوا کوئی بحث کریں، نہ ان کے متعلق ان میں سے کسی سے کچھ پوچھیں، کیونکہ ان کے پاس اس کا کچھ علم نہیں۔ اکثر اہل علم نے، جن میں ابن عباس (رض) بھی ہیں، آخری قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رض) نے فرمایا کہ جس بات میں مختلف اقوال ہوں اسے بیان کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام اقوال ذکر کیے جائیں اور صحیح قول کی طرف اشارہ کردیا جائے اور بحث کا فائدہ بھی بیان کیا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے تینوں باتیں بیان فرما دیں۔ (قاسمی ملخصاً )  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The verse opens with the word: سَيَقُولُونَ (sayaqulun: Some will say).Who are these people who will say? There are two probabilities therein. (1) They could be the people who had differed among themselves during the time of the People of Kahf about their name and lineage, already mentioned in the previous verse. Out of these very people, some had made the first statement, some others, ... the second and still others, the third. (Mentioned in al-Bahr al-Muhit from al-Mawardi) (2) The second probability is that the pronoun in &sayaqulun& could be reverting back to the Christians of Najran who had argued with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the number of the People of Kahf. They had three sects among them. One sect was called Malkaniyah. They made the first statement about the number, that is, gave the number as three. The sec¬ond sect was Ya` qubiyah. They went by the second statement, that is, they were five. The third sect was Nasturiyah. They made the third statement, saying that they were seven. However, some said that this third statement was that of Muslims. What finally happened was that the third statement turned out to be true as it appears from the hint given by the Qur&an*, and the word of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . (Al-Bahr al-Muhit) *. The hint is that the former two views about their number have been termed by the Qur&an as &conjectures& while the third view has appeared without such a comment. (Mul} ammad Taqi Usmani) The use of the conjunction waw:(and) in: وَثَامِنُهُمْ (wa thaminuhum: and the eighth of them) is worth noticing here. At this place, three state¬ments have been reported about the number of the People of Kahf - three, five and seven - and after each, their dog has been counted. But, no conjunction &waw& has been introduced in between their number and the count of the dog in the first two statements. The sentence: ثَلَاثَةٌ رَّ‌ابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ (Three, the fourth of them being their dog) and the sentence: خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ. (Five, the sixth of them being their dog) appear without that conjunction &waw.& But, the arrangement is different in the third statement. Here, the word: سَبْعَةٌ (Seven) is followed by a connective &waw& attached to the text of: وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ (and the eighth of them is their dog). Giving its reason, commentators say that early Arabs used to count up to seven digits, after which the number that followed was counted as separate, similar to its present counterpart, the number 9 where units end and the tens begin. Therefore, while counting from three to seven, they would not use the connective To give a number after seven, they would state it separately with the help of a connective &waw& - and for this reason, this &waw& (and) was called the &waw° (and) of &thaman& (eight). (Mazhari and others) The names of the People of Kahf The fact of the matter is that the names of the People of Kahf do not stand proved authentically from any Sahih Hadith. Names given in exe¬getical and historical reports differ. The closest out of these is the report given on the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) by al-Tabarani in al-Mu&jim al-Ausat with sound chains of narrators. The names given there are: Muksalmina مُکسلمِینا Tamlikha تَملِیخَا Martunis مَرطُونس Sanunis سنونس Sarinunisy سَارینونس Dhu Niwas ذونواس Ka&astitiunis کِعسططیونس Basic rule in debatable matters: Avoid long-drawn argumentation Referring to the animated efforts to determine the number of the Peo¬ple of Kahf, and other matters, the text says: فَلَا تُمَارِ‌ فِيهِمْ إِلَّا مِرَ‌اءً ظَاهِرً‌ا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا (So do not argue about them except [ with ] an apparent argu¬mentation. And do not ask anyone of these about them). The rule of conduct, a golden legacy of the Qur&an, taught in these two sentences to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are, in fact, significant guiding principles for the learned among the Muslim community. The thing to do when difference arises on any issue is to state what is necessary clearly. If people, even after that, elect to pursue a course of unnecessary debate, one should offer cursory comments in the light of the earlier presentation and conclude the debate. Any effort to dig deeper to affirm one&s claim or to make the extra effort to refute the assertion of debaters should be avoided - for nothing good would really come out of it. Moreover, any fur¬ther prolongation of the debate and altercation would result in uncalled for waste of time as well as pose the danger of mutual bickering. The second line of guidance given in the other sentence is that the op¬timum information given to him through Divine revelation about the Peo¬ple of Kahf should be taken as perfectly sufficient and satisfactory for all practical purposes. Let him not worry about finding more and asking oth-ers. As for asking others, it could have another aspect too. May be, the question asked is to expose their ignorance or to disgrace them. This too would be contrary to the high morals prophets have. Therefore, restraint was placed on asking both kinds of questions, either for additional inves¬tigation, or to prove the addressee ignorant and disgrace him.  Show more

خلاصہ تفسیر :۔ (جس وقت اصحاب کہف کا قصہ بیان کریں گے تو) بعضے لوگ تو کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعضے کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے (اور) یہ لوگ بےتحقیق بات کو ہانک رہے ہیں اور بعضے کہیں گے کہ وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے، آپ (ان اختلاف کرنے والوں سے) کہہ دیجئے کہ میرا رب...  ان کی تعداد خوب (صحیح صحیح) جانتا ہے ( کہ ان مختلف اقوال میں کوئی قول صحیح بھی ہے یا سب غلط ہیں) ان (کی تعداد) کو (صحیح صحیح) جانتا ہے ( کہ ان مختلف اقوال میں کوئی قول صحیح بھی ہے یا سب غلط ہیں) ان (کی تعداد) کو صحیح صحیح) بہت کم لوگ جاتنے ہیں (اور چونکہ تعداد متعین کرنے میں کوئی خاص فائدہ نہیں تھا، اس لئے آیت میں کوئی صریح فیصلہ نہیں فرمایا، لیکن روایات میں حضرت ابن عباس (رض) اور ابن مسعود (رض) سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا انا من القلیل کانوا سبعۃ یعنی میں بھی ان قلیل لوگوں میں داخل ہوں جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ کم لوگ جانتے ہیں وہ سات تھے، کذا فی الدرالمنثور عن ابی حاتم وغیرہ، اور آیت میں بھی اس قول کی صحت کا اشارہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اس قول کو نقل کر کے اس کو رد نہیں فرمایا، بخلاف پہلے دونوں قول کے کہ ان کے تردید میں رجما بالغیب فرمایا گیا ہے، (واللہ اعلم) سو ( اس پر بھی اگر وہ لوگ اختلاف سے باز نہ آویں تو) آپ اس معاملہ میں بجز سرسری بحث کے زیادہ بحث نہ کیجئے (یعنی مختصر طور پر تو ان کے خیالات کا رد قرآن کی آیات میں آ ہی چکا ہے جو رجما بالغیب، قل ربی اعلم سے بیان کردیا گیا ہے، پس سرسری بحث یہی ہے کہ اس پر اکتفا کریں، ان کے اعتراض کے جواب میں اس سے زیادہ مشغول ہونا اور اپنے دعوے کے اثبات میں زیادہ کاوش کرنا مناسب نہیں کہ یہ بحث ہی کوئی خاص فائدہ نہیں رکھتی) اور آپ ان (اصحاب کہف) کے بارے میں ان لوگوں میں سے کسی سے بھی کچھ نہ پوچھئے (جس طرح آپ کو ان کے اعتراض و جواب میں زیادہ کاوش سے منع کیا گیا، اسی طرح اس کی بھی ممانعت فرما دی کہ اب اس معاملہ کے متعلق کسی سے سوال یا تحقیق کرنے، کیونکہ جتنی بات ضروری تھی وہ وحی میں آگئی غیر ضروری سوالات اور تحقیقات شان انبیاء کے خلاف ہے) ۔ معارف و مسائل :۔ اختلافی بحثوں میں گفتگو کے آداب : سَيَقُوْلُوْنَ یعنی وہ لوگ کہیں گے، وہ کہنے والے کون لوگ ہیں، اس میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ مراد ان سے وہی لوگ ہوں جن کا باہم اختلاف اصحاب کہف کے زمانے میں ان کے نام و نسب وغیرہ کے متعلق ہوا تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں آیا ہے انہی لوگوں میں سے بعض نے عدد کے متعلق پہلا بعض نے دوسرا، بعض نے تیسرا قول اختیار کیا تھا۔ (ذکرہ فی البحر عن الماوردی) اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ سَيَقُوْلُوْنَ کی ضمیر نصاری نجران کی طرف عائد ہو، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی تعداد کے بارے میں مناظرہ کیا تھا، ان کے تین فرقے تھے ایک فرقہ ملکانیہ کے نام سے موسوم تھا، اس نے تعداد کے متعلق پہلا قول کہا، یعنی تین کا عدد بتلایا، دوسرا فرقہ یعقوبیہ تھا، اس نے دوسرا یعنی پانچ ہونا اختیار کیا، تیسرا فرقہ نسطوریہ تھا اس نے تیسرا قول کہا کہ سات تھے، اور بعض نے کہا کہ یہ تیسرا قول مسلمانوں کا تھا، اور بالاخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر اور قرآن کے اشارے سے تیسرے قول کا صحیح ہونا معلوم ہوا (بحر محیط) یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اس جگہ اصحاب کہف کی تعداد میں تین قول نقل کئے گئے ہیں، تین، پانچ، سات، اور ہر ایک کے بعد ان کے کتے کو شمار کیا گیا ہے، لیکن پہلے دو قول میں ان کی تعداد اور کتے کے شمار میں واؤ عاطفہ نہیں لایا گیا، ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ اور خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ بلا واو عاطفہ کے آیا، اور تیسرے قول میں سبعۃ کے بعد واو عاطفہ کے ساتھ وَّثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ فرمایا۔ اس کی وجہ حضرات مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ عرب کے لوگوں میں عدد کی پہلی گرہ سات ہی ہوتی تھی، سات کے بعد جو عدد آئے وہ الگ سا شمار ہوتا تھا، جیسا کہ آجکل نو کا عدد اس کے قائم مقام ہے کہ نو تک اکائی ہے، دس سے دہائی شروع ہوتی ہے، ایک الگ سا عدد ہوتا ہے اسی لئے تین سے لے کر سات تک جو تعداد شمار کرتے تو اس میں واؤ عطف نہیں لاتے تھے سات کے بعد کوئی عدد بتلانا ہوتا تو واؤ عاطفہ کے ساتھ الگ کر کے بتلاتے تھے، اور اسی لئے اس واؤ کو واؤ ثمان کا لقب دیا جاتا تھا (مظہری وغیرہ) اسماء اصحاب کہف : اصل بات تو یہ ہے کہ کسی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام صحیح صحیح ثابت نہیں تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کئے گئے ہیں، ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ تھے۔ مکسلمینا، تملیخا، مرطونس، سنونس، سارینونس، ذونواس، کعسططیونس (آیت) فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا یعنی آپ اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے متعلق ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں کاوش نہ کریں، بلکہ سرسری بحث فرما دیں، اور ان لوگوں سے آپ خود بھی کوئی سوال اس کے متعلق نہ کریں۔ اختلافی معاملات میں طویل بحثوں سے اجتناب کیا جائے : ان دونوں جملوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ درحقیقت علماء امت کے لئے اہم رہنما اصول ہیں، کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کردیا جائے اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کردی جائے، اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جائے کہ اس کا کوئی خاص فائدہ تو ہے نہیں، مزید بحث و تکرار میں وقت کی اضاعت بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔ دوسری ہدایت دوسرے جملے میں یہ دی گئی ہے کہ وحی آلہی کے ذریعہ سے قصہ اصحاب کہف کی جتنی معلومات آپ کو دے دیگئی ہیں ان پر قناعت فرما دیں کہ وہ بالکل کافی ہیں، زائد کی تحقیقات اور لوگوں سے سوال وغیرہ میں نہ پڑیں، اور دوسروں سے سوالات کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی جہالت یا ناواقفیت ظاہر کرنے اور ان کو رسوا کرنے کے لئے سوال کیا جائے یہ بھی اخلاق انبیاء کے خلاف ہے، اس لئے دوسرے لوگوں سے دونوں طرح کے سوال کرنا ممنوع کردیا گیا، یعنی تحقیق مزید کے لئے ہو یا مخاطب کی تجہیل و رسوائی کے لئے ہو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ۝ ٠ۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَيْبِ۝ ٠ۚ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ۝ ٠ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا يَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ۝ ٠ۥۣ فَلَا تُمَارِ فِيْہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَا... ہِرًا۝ ٠۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا۝ ٢٢ۧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كلب الكَلْبُ : الحیوان النّبّاح، والأنثی كَلْبَةٌ ، والجمع : أَكْلُبٌ وكِلَابٌ ، وقد يقال للجمع كَلِيبٌ. قال تعالی: كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف/ 176] قال : وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف/ 18] وعنه اشتقّ الکلب للحرص، ومنه يقال : هو أحرص من کلب» ، ورجل كِلبٌ: شدید الحرص، وكَلْبٌ كَلِبٌ. أي : مجنون يَكْلَبُ بلحوم الناس فيأخذه شبه جنون، ومن عقره كُلِبَ. أي : يأخذه داء، فيقال : رجل كَلِبٌ ، وقوم كَلْبَى. قال الشاعر : دماؤهم من الکلب الشّفاء «2» وقد يصيب الكَلِبُ البعیرَ : ويقال : أَكْلَبَ الرّجلُ : أصاب إبله ذلك، وكَلِبَ الشّتاءُ : اشتدّ برده وحدّته تشبيها بِالْكَلْبِ الْكَلِبِ ، ودهر كَلِبٌ ، ويقال : أرض كَلِبَةٌ: إذا لم ترو فتیبس تشبيها بالرّجل الکلب، لأنه لا يشرب فييبس . والکَلَّابُ وَالمُكَلِّبُ : الذي يعلّم الکلب . قال تعالی: وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة/ 4] . وأرض مَكْلَبَةٌ: كثيرة الکلاب، والْكَلْبُ : المسمار في قائم السّيف، والْكَلْبَةُ : سير يدخل تحت السّير الذي تشدّ به المزادة فيخرز به، وذلک لتصوّره بصورة الکلب في الاصطیاد به، وقد كَلَبْتُ الأديم : خرزته، بذلک، قال الشاعر : سير صناع في أديم تَكْلُبُهُ «3» والْكَلْبُ : نجم في السّماء مشبّه بالکلب لکونه تابعا لنجم يقال له : الرّاعي، والْكَلْبَتَانِ : آلة مع الحدّادین سمّيا بذلک تشبيها بکلبین في اصطیادهما، وثنّي اللّفظ لکونهما اثنین، والکَلُّوبُ : شيء يمسک به، وكَلَالِيبُ البازي : مخالبه . اشتقّ من الکلب لإمساکه ما يعلق عليه إمساک الکلب . ( ک ل ب ) الکلب ( کتا ) بھونکنے والاجانور ۔ اس کی مونث کلبتہ اور جمع کلب وکلاب آتی ہے ۔ کبھی اس کی جمع کلیب بھی آجاتی ہے ۔ كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف/ 176] تو اس کی مثال کتے کی کسی ہے ۔ وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف/ 18] اور ان کا کتا چو کھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ اور اسی سے اکلب ( بفتح اللام ) مشتق جس کے معنی شدت حرص کے ہیں ۔ اسی سے کہا جاتا ہے : ھو احرص من کلب ۔ وہ کتے سے زیادہ حریص ہے اور رجل کلب کے معنی سخت حریص آدمی کے ہیں اور کلب کلب باء لا کتا جسے انسان کا گوشت کھانے کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ اور جسے وہ کاٹ کھائے اسے بھی ہڑکائے کتے جیسا مرض لاحق ہوجاتا ہے مفرد کے لئے رجل کلب اور کے لئے قوم کلبٰی کہتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 3 81 ) دماء ھم من الکلب الشفلا ان کے خون کلب کی مرض سے شفا بخشے ہیں ۔ اور کبھی یہ مرض اونٹ کو بھی لاحق ہوجاتا ہے چناچہ اکلب ا الرجل کے معنی باؤلے اونٹ کا مالک ہونے کے ہیں ۔ کلب الشتاء سردی سخت ہوگئی گویا وہ کتے کی طرح باؤلی ہوگئی ہے ۔ دھر کلب سخت زمانہ ۔ ارض کلبتہ ۔ اس زمین کو کہتے ہیں جو سیر لب نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہوجائے جیسا کہ باؤلا ادمی پانی نہ پینے کی وجہ سے آخر کار سوکھ کر رہ جاتا ہے الکلاب والمکلب ۔ اس شخص کو کہتے ہیں جو کتوں کو شکار کے لئے سدھاتا اور انہیں تعلیم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة/ 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے ۔ ارض مکلبتہ ۔ بہت کتول والی سر زمین ۔ الکلاب والکلب ۔ میخ جو تلوار کے قبضہ میں لگی ہوتی ہے ۔ الکبتہ ۔ توشہ دان باندھنے کے تسمیہ سے نیچے کا تسمیہ جس سے اسے سیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ نام شکاری کتے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے ۔ پس کلبت الادیم کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( الرحز ) ( 382 ) سیر صیناع فی ادیم تکلبتہ کاریگر عورت کے تسمیہ کیطرح ملائم اور چمکدار ہے جس سے وہ مشکیزہ سیرہی ہو ۔ الکلب ۔ تاروں کے ایک جھمکے کا نام ہے جسے کتے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے جھمکے کے تابع ہوتا ہے جسے الراعی ( چروہا ) کہا جاتا ہے ۔ الکلبتان ( سپناہ ) لوہار کے ایک اوزار کا نام ہے جس سے وہ گرم لوہا کو پکڑتا ہے کسی چیز کو پکڑنے کے لحاظ سے اسے شکار کتے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ۔ اور دوکنارے ہونے کی ۔ وجہ سے تنثیہ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے ۔ الکلوب ۔ کنڈی ۔ کلالیب جمع کلالیب البازی ۔ باز کے نیچے یہ بھی کلکب سے مشتق ہے ۔ کیونکہ جو چیز اس کے پنجہ میں آجائے اسے کتے طرح پکڑ کر روک لیتا ہے ۔ رجم الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ( ر ج م ) الرجام ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں ۔ استفتا الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] ، استفتا اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] تو ان سے پوچھو۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اور یہ لوگ انکی تعداد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے، چناچہ نجران کے عیسائیوں میں سید اور اس کے ساتھی یعنی نسطوریہ کہہ رہے تھے کہ وہ تین ہیں اور چوتھا ان کا کتا ہے اور عاقب اور اس کے ساتھی یعنی مار یعقوبیہ کہہ رہے تھے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ لوگ بےتحقیق باتیں کر رہے تھے ... اور اصحاب ملک یعنی ملکانیہ کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ سات تھے آٹھواں ان کا قطمیر کتا تھا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مخاطبین سے فرما دیجیے کہ میرا پروردگار ان کا شمار خوب صحیح جانتا ہے اور ان کے شمار کو صحیح طور پر بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں جو کہ ان میں مسلمان تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی ان تھوڑے لوگوں میں سے ہوں وہ کتے سمیت آٹھ تھے لہذا آپ ان مخاطبین سے بھی اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں کوئی بحث نہ کیجیے، بس ان کو آیات قرآنیہ پڑھ کر سنا دیجیے اور ان کی تعداد کے بارے میں ان لوگوں میں سے کسی سے بھی کچھ نہ پوچھیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے بیان فرما دیا وہ ہی آپ کے لیے کافی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ) قرآن مجید میں ان کی تعداد کے بارے میں صراحت تو نہیں کی گئی مگر اکثر مفسرین کے مطابق بین السطور میں آخری رائے کے درست ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اس میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ پہلے فقرے (ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ ) اور دوسرے...  فقرے ( خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ ) کے درمیان میں ” و “ نہیں ہے ‘ جبکہ تیسرے فقرے میں (سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ ) کے درمیان میں ” و “ موجود ہے۔ چناچہ پہلے دونوں کلمات کے مقابلے میں تیسرے کلمہ کے بیان میں ” و “ کی وجہ سے زیادہ زور ہے ۔ اس ضمن میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب وہ لوگ جاگے تھے تو ان میں سے ایک نے سوال کیا تھا : (کَمْ لَبِثْتُمْ ) کہ تم یہاں کتنی دیر سوئے رہے ہو ؟ اس سوال کا جواب قرآن حکیم میں بایں الفاظ نقل ہوا ہے : (قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ) انہوں نے کہا کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم عرصہ تک سوئے رہے ہیں۔ یہاں پر قالُوْا چونکہ جمع کا صیغہ ہے اس لیے یہ جواب دینے والے کم از کم تین لوگ تھے جبکہ اس سوال کے جواب میں ان کے جن ساتھیوں نے دوسری رائے دی تھی وہ بھی کم از کم تین ہی تھے کیونکہ ان کے لیے بھی قالُوْا جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوا ہے : (قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ) ۔ اس طرح ان کی تعداد سات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ یعنی ایک پوچھنے والا تین لوگ ایک رائے دینے والے اور ان کے جواب میں تین لوگ دوسری رائے کا اظہار کرنے والے۔ اس کے علاوہ قدیم رومن لٹریچر میں بھی جہاں ان کا ذکر ملتا ہے وہاں ان کی تعداد سات ہی بتائی گئی ہے۔ قبل ازیں گبن کی کتاب کا حوالہ بھی دیا جا چکا ہے جس میں Seven Sleepers کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں جس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے میں بحث کرنے اور جھگڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے : (فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا) یعنی جو بات دعوت دین اور اقامت دین کے حوالے سے اہم نہ ہو اس میں بےمقصد چھان بین کرنا اور بحث و نزاع میں پڑنا گویا وقت ضائع کرنے اور اپنی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. This shows that about three hundred years after this event, at the time of the revelation of the Quran, different stories had become current among the Christians about the sleepers of the cave, but generally these stories had no authentic source behind them. This was because that was not the age of the press in which authentic books might have been published. Therefore naturally the stories of...  events were carried from place to place by means of oral traditions, and with the passage of time many tales of fiction got mixed up with the real story. 23. This is meant to impress that the real thing in this story is not the number of the sleepers but the lessons it teaches. (1) A true believer should not on any account turn away from the truth and bow before falsehood. (2) A believer should not merely rely on the material means but on Allah. He should trust in God and follow the right way, even though the outward adverse circumstances might appear to be unfavorable. (3) It is wrong to suppose that Allah is bound by any so called law of nature, for He is able to do anything He wills even though that might seem to be against some common experience. He has the power to change any so called law of nature, whenever and wherever He wills and bring about any extraordinary supernatural thing. So much so that He can raise up anyone who might have been asleep for two hundred years, as if he had slept only for a few hours, without letting any change take place in his appearance, dress, health, indeed in anything, during the passage of time. (4) This teaches us that Allah has the power to bring to life all the generations past, present and future all together as asserted by the Prophets and divine Scriptures. (5) It teaches us that ignorant people have always been perverting the signs of Allah which are sent for the right guidance of the people. That is how the miracle of the sleepers of the cave, which had been shown as a proof of the Hereafter, had been turned into a means of shirk, as if they were some saints who had been sent only for this purpose. It is obvious from the above mentioned real lessons, which one can learn from the story of the sleepers, that a wise man will pay his attention to these things and not divert it in search of their number, their names, the color of their dog and the like. Only those people, who have no interest for the reality but for superficial things, will spend their time and energy in making investigations about such things. That is why Allah instructed the Prophet (peace be upon him): You should not enter into useless and irrelevant discussions about such things even if other people try to involve you in them. Instead of wasting your time in such useless things, you should concentrate your attention only on your mission. That is why Allah has not Himself told their exact number lest it should encourage such people as are always hankering after useless things.  Show more

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :22 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد ، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبۃً زی... ادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں ۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے ، اور امتداد زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں ۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :23 مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے ، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے ، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس عادت جاریہ کو لوگ قانون فطرت سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالیٰ درحقیقت اس کا پابند نہیں ہے ، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے ، کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے ، اور اس کی عمر ، شکل ، صورت ، لباس ، تندرستی ، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا ، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں ۔ اصحاب کہف کو جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں ، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کردیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں ۔ ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے ، اور ان کے نام کیا کیا تھے ، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا ، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو ، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو ، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: اس آیت نے یہ مستقل سبق دے دیا ہے کہ جس معاملے پر انسان کا کوئی عملی مسئلہ موقوف نہ ہو، اس کے بارے میں خواہ مخواہ بحثیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اصحاب کہف کے واقعے میں اصل سبق لینے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے کس طرح ناموافق حالات میں حق پر ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی مد... د فرمائی۔ رہا یہ کہ ان کی صحیح تعداد کیا تھی؟ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بحث کا بازار گرم کیا جائے۔ لہذا اس میں الجھنے کے بجائے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کوئی اس معاملے میں بحث کرنا بھی چاہے تو اسے سرسری گفتگو کر کے ٹال دو، اور اپنا وقت ضائع نہ کرو۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢:۔ اس کی تفسیر میں یہ بات ایک جگہ بیان کردی گئی ہے کہ نصاری میں کئی فرقے ہیں اور ایک فرقہ دوسرے فرقے کی بات نہیں سنتا اسی واسط فرمایا یہ قصہ سن کر آپس کے اختلاف کے سبب سے بعضے ان میں سے یہ کہیں گے کہ وہ غار میں چھپنے وال تین ہیں اور چوتھا ان کا کتا ہے اور بعضے یہ کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا ... کتا ہے پھر فرمایا ان لوگوں کی یہ باتیں ایسی بےٹھکانے ہیں جس طرح کوئی شخص ایک نشانہ پتھر مارنا چاہے مگر پتھر ایسا بےٹھکانے پھینکے کہ کوئی پتھر نشانہ کے ادھر جائے اور کوئی ادھر غرض نشانہ پر ایک بھی نہ لگے۔ پھر فرمایا کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات ہیں اور آٹھواں کتا ہے لیکن اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ ان کی صحیح گنتی اللہ کو ہی معلوم ہے دنیا میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جن کو ان کی صحیح گنتی کی خبر ہے پھر فرمایا ان کی گنتی کے جان لینے پر کوئی دین کا معاملہ منحصر نہیں ہے اس لیے اے رسول اللہ کے نہ تم اس بات میں ان لوگوں سے جھگڑا کرو نہ کسی سے ان کی گنتی کا حال پوچھو۔ تفسیر عبدالرزاق اوسط طبرانی وغیرہ میں صحیح سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ١ ؎۔ آیت میں اس قول کو ” نشانہ “ سے بہکا ہوا پھر نہیں فرمایا اس سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کی پوری تائید ہوتی ہے۔ مسند امام احمد ترمذی ابن ماجہ مستدرک حاکم وغیرہ میں ابو امامہ (رض) سے صحیح روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بےفائدہ باتوں میں جھگڑا کرنے سے امت کے لوگوں کو اسی طرح روکا ہے ٢ ؎۔ جس طرح آیت میں اصحاب کہف کی گنتی کے جھگڑے سے روکا گیا ہے اس لیے یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت اگرچہ اہل کتاب کے جھگڑے کی شان میں ہے لیکن صحیح حدیث کے موافق آیت کے حکم میں یہ امت بھی داخل ہے فلا تمار فیھم الا مراء ظاھرا حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے قرآن میں جس قدر یہ قصہ نازل ہوا ہے وہ اہل کتاب کو سنا دیا جائے اس سے زیادہ جھگڑے کی ضرورت نہیں۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢١٧ ج ٤ ) (٢ ؎ ابن ماجہ ص ٦ باب اجتناب البدع والجدل )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:22) سیقولون ابھی (کچھ لوگ) کہیں گے۔ ان سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اصحاب کہف کا قصہ چھیڑا تھا۔ رجما بالغیب۔ اٹکل پچو۔ غیب کے متعلق محض قیاس آرائی۔ رجما منصوب بوجہ مصدر کے ہے۔ ای یرجمون رجما بالغیر الغائب عنہم۔ الرجم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں لیکن ... استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان۔ توہم۔ سب وشتم۔ اور کسی کو دھتکارنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عدتہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی تعداد۔ لا تمار۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تو جھگڑا نہ کر۔ تو بحث نہ کر۔ مماراۃ (مفاعلۃ) سے جس کا معنی کسی ایسی بات پر جھگڑا کرنا اور گفتگو کرنے کے ہیں کہ جس میں شبہ اور تردد ہو۔ مری مادہ۔ مرائ۔ مصدر۔ گفتگو جو کسی مشکوک امر کے متعلق ہو مراء ظاہرا سرسری سی گفتگو۔ لا تستفت۔ فعل نہی۔ واحد مذکر حاضر۔ تو سوال نہ کر۔ تو دریافت نہ کر۔ تو نہ پوچھ۔ تو تحقیق نہ کر۔ استفتاء (استفعال) مصدر سے جس کے معنی ہیں فتویٰ طلب کرنا۔ افتاہ (افعال) فتویٰ دینا اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ویستفتونک فی النسائ۔ (ای پیغمبر) لوگ تجھ سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ دریافت کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں۔ فی مادہ۔ ولا تستفت فیہم منہم احدا۔ اور نہ پوچھو ان (اصحاب کہف) کے متعلق ان میں سے (جو آپ سے اصحاب کہف کے بارہ میں پوچھ رہے ہیں) کسی سے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے مشرکین عرب میں اصحاب کہف کے متعلق طرح طرح افسانے موجود تھے مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھی۔ فائدہ اصحاب کہف کے اسما کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ناموں کی صراحت غالباً اسرائیلی تاریخوں سے ماخوذ ہے اور ان اسماء...  کے تلفظ میں بھی بہت اختلاف ہے اور کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہوسکتا۔ (فتح الباری) پھر بعض لوگ ان ناموں کے خواص و منافع بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں بلکہ اگر یا حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں تو صاف شرک ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس بارے میں بعض روایات بھی گھڑ لی گئی ہیں جو ابن عباس اور بعض دیگر اصحاب کی طرف منسوب ہیں مگر ان میں سے کوئی روایت بھی حضرت ابن عباس اور سلف صالح سے ثابت نہیں ہے : (و لعلہ شیء اختر والمتزیون بندی المشائخ لاخذ البداھم من النساء و مخفہ (القول) (روح) نواب صدیق حسن خان نے اپنی تفسیر میں ان ناموں کے ذریعے علاج کی تردید کی ہے۔ (وحیدی)13 کہ وہ کسی قسم کے لوگ تھے ان کے نام کیا تھے یا ان کی تعداد کیا تھی ؟ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جو ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں وہ تعداد میں سات تھے۔ (ابن کثیر) 1 یعنی جتنا غصہ ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں اتنا انہیں سنا دیں اس سے زیادہ کسی بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں ہے۔2 اس لئے کہ ان کے پاس کوئی صحیح اور مستند معلومات نہیں ہے۔ صرف سنے سنائے یا اٹکل پچو افسانے ہیں۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 22 سیقولون وہ عنقریب کہیں گے۔ ثلثۃ تین۔ رابع چوتھا۔ کلب کتا۔ خمسۃ پانچ۔ سادس چھٹا۔ رجم پتھر پھینکنا، اندازہ لگانا۔ بالغیب بن دیکھے۔ سبعۃ سات۔ ثامن آٹھواں۔ لاتمار بحث نہ کرو۔ لاتستفت مت پوچھو۔ احد کوئی ایک ۔ کسی ایک سے۔ تشریح : آیت نمبر 22 قرآن کریم میں علم و تحقیق سے منع نہیں ... کیا گیا بلکہ ان بےکار بحثوں اور گفتگو سے منع کیا گیا ہے جن کا حاصل سوائے زبانی جمع جوڑ بحثوں اور بےمعنی گفتگو کے اور کچھ نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری بلکہ ان کی بربادی کا بڑا سبب بےت کے سوالات اور بےکار بحثوں میں پڑنا تھا اصول کی بات یہ ہے کہ جو قوم اور اس کے افراد فضول اور بےکار کی بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ان کو کسی حسن عمل کی توفیق نہیں ملتی۔ قرآن کریم جس کے نازل کرنے کا بنیادی مقصد ایمان اور عمل صالح میں پختگی اور دنیا و آخرت میں صحیح طرز عمل اختیار کر کے ہر طرح کی فلاح حاصل کرنا ہے اس نے فضول بحثوں اور باتوں سے بچنے کی تاکید کی ہے تاکہ انسانی صلاحیتیں صرف فضول اور بےکار باتوں کی نظر نہ ہوجائیں۔ فرمایا کہ جب آپ ان لوگوں کو اصحاب کہف کا واقعہ سنائیں گے تو بےعمل لوگ آپ سے طرح طرح کے سوالات کریں گے۔ کوئی کہے گا کہ اصحاب کہف کی تعداد تین تھی اور چوتھا ان کا کتا تھا، کوئی کہے گا کہ نہیں بلکہ ان کی تعداد پانچ تھی اور چھٹا ان کا کتنا تھا کوئی کہے گا کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ اس طرح وہ باتیں اور بحثیں کرنے کے بہانے تلاش کریں گے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی باتوں میں نہ پڑیں اور نہ ان کے کہنے سے اپنے ذہن کو ادھر ادھر لے جائیں کیونکہ اس بات کا سب سے بہتر علم اللہ کے پاس ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ آپ پیغام حق پہنچا دیجیے بقیہ ان کی باتوں کو سرسری طور پر سن کر نظر انداز کردیجیے۔ علماء امت اور مفسرین نے بھی ان باتوں کی تحقیق میں اپنا وقت نہیں لگایا البتہ بعض صحابہ کرام نے اصحاب کہف کی تعداد کو بتایا ہے اس پر ہم ضرور غور کرسکتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اصحاب کہف کی تعداد سات تھی کیونکہ آیت کی ابتداء میں اللہ کے ارشاد کا اندازہ اور تھا اور آخر میں بغیر واؤ عاطفہ کے اور ہے۔ بیان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی تعداد سات تھی ان کا کتا اس تعداد کے علاوہ ہے۔ بہرحال اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اہل ایمان اس بات پر غور فرمائیں کہ اصحاب کہف کی تعداد جتنی بھی تھی ایک بات ان سب میں مشترک تھی اور وہ یہ تھی کہ ایمان کی حفاظت اور حسن عمل کا اتنا عظیم جذبہ تھا کہ انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرنے میں مصلحتوں کا سہارا نہیں لیا۔ انہوں نے اپنے گھر بار کی راحتیں چھوڑنا گوارا کیا لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا انہوں نے حق و صداقت کے لئے دنیا کے اسباب پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ اللہ کی ذتا پر بھروسہ کیا۔ اصحاب کہف کے اس عظیم جذبے کو آگے بڑھایا جائے محض ان بحثوں سے کیا فائدہ کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ ان کے کتے کا رنگ کیا تھا وغیرہ وغیرہ صحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ پر کوئی خاص گفتگو نہیں بلکہ سرسری طور پر کچھ اس کی تفصیل ارشاد فرمائی ہے۔ درحقیقت کفار مکہ سے اور قیامت تک آنے والے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ چند نوجوان جنہوں نے اللہ کی رضا کے لئے اپنی جوانی اور راحتوں کو قربان کردیا تھا لیکن جھوٹے معبودوں اور ظالم بادشاہ کے ظلم کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا تھا یہ ان کی سب سے بڑی عظمت ہے لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جو ابراہیمی ہونے پر فخر تو کرتے ہیں لیکن حضرت ابراہیم اور اصحاب کہف جیسا جذبہ پیدا نہیں کرتے اللہ تو اپنے بندوں کے معمولی سے حسن عمل کو بھی بہت پسند کرتا ہے جو لوگ اپنی جوانیوں کو اور اپنی راحتوں کو اللہ کے لئے قربان کردیتے ہیں اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں عظیم مقام عطا فرماتے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ چونکہ کوئی فائدہ متعدد بہا اس کی تعیین کے متعلق نہ تھا لہذا اس اختلاف کا کوئی صریح فیصلہ آیت میں نہیں فرمایا۔ لیکن روایات میں حضرت عباس و حضرت ابو مسعود (رض) کا قول آیا ہے ” انا من القلیل سبعة “ یعنی میں ان قلیل میں سے ہوں اور وہ سات تھے اور آیت میں بھی اشارة اس کی صحت مفہوم ہوتی ہے، کیونکہ اس اخ... یر قول کو نقل کر کے اس کو رد نہیں فرمایا۔ 6۔ سرسری بحث سے یہ مراد ہے کہ آپ وحی کے مطابق ان کے روبرو قصہ بیان کردیجئے اور زیادہ سوال و جواب نہ کیجئے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے درمیان اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اختلاف رہا ہے، اس بارے میں خصوصی ہدایت۔ اصحاب کہف کے بارے میں شروع سے لوگوں میں یہ اختلاف رہا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی ؟ یہی اختلاف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ تین آدمی تھے اور...  چوتھا ان کا کتا تھا۔ دوسروں کا خیال تھا کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ تیسرے گروہ کا خیال تھا کہ وہ سات جوان تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر اس بحث سے لاتعلق رہنے کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ آپ فرمائیں کہ میرا رب ان کی تعداد کو خوب جانتا ہے۔ ان کی صحیح تعداد کو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ کو اس معاملے میں سرسری گفتگو سے بڑھ کر زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اصحاب کہف کے بارے میں کسی سے جاننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نوجوان تھوڑے ہوں یا زیادہ اصل بات تو ان کا عقیدہ اور کردار ہے۔ (مَایَعْلَمُھُمْ الاَّ قَلِیْلٌ)[ الکھف : ٢٢] ” چند لوگوں کے سوا اصحاب کہف کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ “ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جو جانتے ہیں کہ ان کی اصل تعداد کیا تھی۔ اپنے موقف کی تائید کے لیے وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں پہلی دو تعداد کا یہ کہہ کر رد فرمایا ہے کہ اس کے بارے میں لوگ اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہیں۔ اصحاب کہف کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا یہ بتلاکر اس کی تردید نہیں کی گئی۔ اس بنیاد پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ (واللہ اعلم) اس آیت مبارکہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جن باتوں کا براہ راست شریعت اور عمل کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ انکے بارے میں بحث مباحثہ اور پوچھ گچھ کرنا مناسب نہیں کیونکہ جن لوگوں کو لایعنی باتوں میں پوچھ گچھ اور بحث و مباحثہ کرنے کی عادت ہوجائے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت بےعمل ہوتی ہے۔ بلکہ ان کی غالب اکثریت گمراہ ہوجایا کرتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ ’ حضرت علی (رض) کہتے ہیں جب میں تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث بیان کروں تو اللہ کی قسم ! مجھے آسمان سے گرنا زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ بولوں۔ جب میں تمہارے اور اپنے درمیان بات کرتا ہوں تو یقیناً جنگ دھوکہ ہے۔ یقیناً میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے۔ آخری زمانے میں لوگ ہوں گے، چرب زبان، نادان ہوں گے، اچھی اور بھلائی کی بات کرنے والے ہوں گے، ان کا ایمان ان کی حلقوم سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ جہاں بھی تم انہیں پاؤقتل کردو۔ یقیناً ان کو قتل کرنے والے آدمی کے لیے قیامت کے دن اجر ہوگا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب استتابۃ المرتدین ] (عَنْ عَلِیِّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ سَےَخْرُجُ قُوْمٌ فِی اٰخِرِ الزَّمَانِ حُدَّاثُ الْاَنْسنَانِِ سُفَھَآءُ الْاَحْلَامِ ےَقُولُوْنَ مِنْ قَوْلِ خَےْرِ الْبَرِیَّۃِ لَا ےُجَاوِزُ اِےْمَانُھُمْ حَنَاجِرَھُمْ ےَمْرُقُوْنَ مِنَ الَّدِےْنَ کَمَا ےَمْرُقُ السُّھْمُ مِنَ الرَّمْےَۃِ ) [ رواہ ا لبخاری : کتاب استتابۃ المرتدین باب قتل الخوارج ] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نوعمر، عقل و دانش کے لحاظ سے نادان، کتاب وسنت کو پیش کریں گے مگر حقیقتاً نور ایمان سے ایسے خالی ہوں گے کیونکہ ایمان ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہوجاتا ہے۔ “ تفسیر بالقرآن ہر چیزکا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے : ١۔ فرما دیجیے ! میرا پروردگار ہی ان کی تعداد کا علم رکھتا ہے۔ (الکھف : ٢٢) ٢۔ اصحاب کہف نے کہا تمہارا رب جانتا ہے تم کتنی دیر ٹھہرے ہو ؟ (الکھف : ١٩) ٣۔ اللہ جانتا ہے رسالت کسے عطا کرنی ہے ؟ (الانعام : ١٢٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (ھود : ٥) ٥۔ اللہ جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے۔ (ھود : ٣١) ٦۔ اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے۔ (القلم : ٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ان لوگوں کی تعداد کے بارے میں بحث لا حاصل ہے۔ اس لئے کہ اگر ان کی تعداد تین ہو یا چار ہو ، پانچ ہو یا زیادہ تو اس سے اصل واقعہ اور اس سے جو عبرت سکھانا تھا اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کتنے تھے ، یہ بات اللہ ہی جانتا ہے۔ یا وہ قلیل لوگ جانتے تھے جن کے سامنے یہ واقعہ ہوا۔ یا جن تک صحیح روایات پہن... چیں۔ لہٰذا ان کی تعداد کے بارے میں مباحثہ کرنا بےفائدہ بات ہے ان کی تعداد کم ہو یا زیادہ ان کے واقعہ سے جو نصیحت اور عبرت حاصل ہوتی ہے ، اس پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لئے قرآن مجید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سے ان کی تعداد کے بارے میں نہ الجھیں اور نہ ان کے بارے ان اہل کتاب سے پوچھیں کیونکہ ان کا علم خود مضطرب ہے۔ اس لئے کہ اسلام اور قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ انسان کو عقل و خرو کی قوتوں کو ایسے کاموں میں نہیں کھپانا چاہئے جس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔ نیز ایک مسلم کو اس موضوع پر بحث نہیں کرنا چاہئے جس میں اسے پورا پورا علم حاصل نہ ہو۔ یہ واقعہ ایک قدیم تاریخی واقعہ ہے۔ اصل حقائق سے صرف اللہ خبردار ہے۔ لہٰذا اسے علم الٰہی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔ ماضی کے غیوبات کے باے میں بحث سے منع کیا گیا تو اس موقعہ پر اس سے بھی منع کردیا گیا کہ مستقبل کے غیوبات کے بارے میں فضول پیشن گوئیوں میں بھی نہ الجھا جائے کہ کل کیا ہوگا ؟ جب انسان مستقبل کے بارے میں کوئی بات جانتا نہیں تو وہ اس کے بارے میں کیا قطعی رائے دے سکتا ہے ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب کہف کی تعداد میں اختلاف اور اس کا جواب جس طرح اصحاب کہف کی مدت قیام فی الکہف میں اختلاف ہوا کہ وہ کتنے دن رہے اور خود وہ بھی اختلاف کر بیٹھے اور صحیح بات تک نہ پہنچ سکے اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہوا کہ ان کی تعداد کتنی تھی، آیت مذکورہ بالا میں تین قول نقل فرمائے ہیں ایک قول یہ ہے کہ اصحاب کہف...  تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا، اور تیسرا قول یہ ہے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ صاحب روح المعانی صفحہ ٤٨٠ ج ١٥ نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ یہ اقوال ان لوگوں کے ہیں جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان میں سے ایک شخص عاقب تھا اور نصاریٰ کے فرقہ نسطوریہ کا سردار تھا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے پہلی دو باتیں کہی تھیں تیسرا قول بعض مسلمانوں کا ہے پہلے دو قولوں کے ذکر فرمانے کے بعد (رَجْمًام بالْغَیْبِ ) فرمایا (کہ اٹکل پچو بات کہہ رہے ہیں) اور تیسرے قول کو علیحدہ ذکر کیا اور ساتھ ہی یوں فرمایا (قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِھِمْ مَّا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ) (آپ فرما دیجیے کہ میرا رب ان کی تعداد خوب جانتا ہے ان کو صرف تھوڑے سے لوگ جانتے ہیں) اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا کہ اصحاب کہف کی تعداد سات تھی اللہ شانہ نے فرمایا کہ ان کی تعداد کو اللہ ہی خوب جانتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ انہیں صرف تھوڑے لوگ جانتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے تھے کہ میں بھی ان ہی میں سے ہوں جن کو ان کی تعداد کا علم ہے، وہ فرماتے تھے کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ عام طور پر سے امت مسلمہ میں یہ ہی قول مشہور ہے اور ان کے نام بھی تفسیر کی کتابوں میں لکھے ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے ان کے یہ نام منقول ہیں مکسلمینا، یملیخا، مرطولس، ثبینس، دردونس، کفا شیطیطوس، منطنوا سیس اور کتے کا نام قطمیر نقل کیا گیا ہے بظاہر حضرت ابن عباس (رض) نے اہل کتاب سے ان کے نام سنے ہونگے جن کو انہوں نے آگے روایت کردیے یہ نام چونکہ عجمی ہیں اور بہت پرانی کسی زبان کے الفاظ ہیں اس لیے ان کا صحیح اعراب کے ساتھ یقینی طور پر تلفظ کرنا اہل علم سے بھی مخفی ہے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں وذکر الحافظ ابن حجر فی شرح البخاری ان فی النطق باسماءھم اختلافا کثیرا ولا یقع الوثوق من ضبطھا وفی البحر ان اسماء اصحاب الکھف العجمیۃ لا تنضبط بشکل ولا نقط والسند فی معرفتھا ضعیف۔ آیت کے آخر میں دو باتوں کی ممانعت فرمائی ہے اولاً یوں فرمایا (فَلَا تُمَارِفِیْھِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاھِرًا) جس کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب کہف کے عدد وغیرہ کے بارے میں سرسری بحث سے زیادہ بات نہ کیجیے وحی کے موافق انہیں قصہ سنا دیں زیادہ سوال جواب نہ کریں اور دوسری ممانعت یہ فرمائی (وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْھِمْ مِّنْھُمْ اَحَدًا) (کہ ان کے بارے میں کسی سے سوال نہ کیجیے) اللہ تعالیٰ شانہ نے جو بتادیا اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ان میں جو لوگ کچھ باتیں کرتے ہیں وہ اٹکل اور گمان اور قیاس سے کہتے ہیں لہٰذا ان سے پوچھنے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس سے کوئی فائدہ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” س “ استقبال کے لیے ہے اور ” یقولون “ کی ضمیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم عصر یہود کی طرف راجع ہے اس سے اصحاب کہف کی تعدداد میں علماء یہود کے اختلاف کا ذکر مقصود ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ جس واقعہ کو انہوں نے بطور امتحان پیش کیا ہے اس کی پوری حقیقت سے وہ خود بھی آگاہ نہیں ہیں۔ الضمیر ف... یہ وفی الفعلین بدہ کما اکتارہ ابن عطیۃ و بعض المحققین للیھود المعاصرین لہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخائضین فی قصۃ اصحاب الکھف (روح ج 15 ص 240) یعنی جب آپ اصحاب کہف کا واقعہ بیان کریں گے۔ تو یہود کے بعض علماء ان کی تعداد کتے کے علاوہ تین بتائیں گے۔ 25:۔ یہ ” سیقولون “ پر معطوف ہے۔ اور بعض ان میں سے اصحاب کہف کی تعداد کتے کے علاوہ پانچ بتائیں گے۔ ” رجما بالغیب “ لیکن یہ سب اندھیرے کے تیر ہیں صحیح بات کا ان میں سے کسی کو علم نہیں۔ ” و یقولون سبعۃ الخ “ اور کچھ لوگ ان کی تعداد کتے کے علاوہ سات بتائیں گے۔ اس ” یقولون “ کا فاعل یا تو علماء یہود ہی کی ایک جماعت ہے۔ یا اس سے مراد مسلمان ہیں۔ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطلاع سے مسلمان یہ تعداد بتائیں گے۔ ” قل ربی اعلم بعدتھم “ آپ فرما دیجیے۔ ان کی صحیح صحیح تعداد اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے۔ ” ما یعلمھم الا قلیل “ ان کی صحیح صیح گنتی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ میں بھی ان قلیل میں سے ہوں، جو ان کی صحیح صحیح تعداد جانتے ہیں وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ قال (ابن عباس) حین وقعت الواو انقطعت العدۃ ای لم یبق بعدھا عدۃ عاد یلتفت الیھا و ثبت انھم سبعۃ و ثامنھم کلبھم علی القطع والبتات (روح ج 15 ص 242) ۔ تیسرے قول کی صحت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پہلے دونوں اقوال کے بعد ” رجما بالغیب “ فرمایا اور تیسرا قول اس کے بعد ذکر فرمایا تو اس سے معلوم ہوا کہ پہلے دونوں قول اندھیرے کے تیر ہیں اور محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔ اور تیسرا قول یقینی اور شک و شبہہ سے بالا تر ہے۔ (کبیر ج 5 ص 700) ۔ 26:۔ آپ اصحاب کہف کی تعداد اور ان کے واقعہ کی بابت اہل کتاب سے سرسری بحث کے سوا زیادہ بحث و تمحیص نہ کریں۔ بس صرف وحی کے مطابق پورا واقعہ بیان فرما دیں۔ اور اس سے خود بخود غلط اقوال کی تردید ہوجائے گی۔ ” ولا تستفت فیھم الخ “ اور اصحاب کہف کے بارے میں اہل کتاب سے کسی قسم کا سوال نہ کریں۔ کیونکہ وحی کے ذریعے ہم نے ان سے متعلق تمام ضروری باتیں بیان کردی ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 اب کچھ لوگ تو یوں کہیں گے یعنی اصحاب کہف کا قصہ بیان کرتے وقت ان کی تعداد کے متعلق یوں کہیں گے کہ وہ تین ہیں اور چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ لوگ یوں کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں اور چھٹا ان کا کتا ہے ان لوگوں کے نام بن دیکھے نشانے پر پتھر پھینکنا ہے یعنی محض اٹکل سے ان کا کہنا ہے اور کچھ لوگ ان میں سے ی... وں کہیں گے کہ وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے اے پیغمبر آپ ان اختلاف کرنے والوں سے کہہ دیجیے کہ ان اصحاب کہف کی گنتی کو میرا پروردگار خوب جانتا ہے ان کی ٹھیک ٹھیک گنتی کو نہیں جانتے مگر بہت تھوڑے اور قلیل لوگ۔ لہٰذا اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے ان اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے سلسلے میں سوائے بحث کے زیادہ جھگڑا نہ کیجیے اور نہ ان اصحاب کہف کے متعلق ان لوگوں میں سے کسی سے کچھ پوچھئے اور دریافت کیجیے۔ یعنی ان کے واقعات میں سے جس قدر ضروری تھا وہ وحی کے ذریعہ بتایا گیا۔ مزید تفصیل جو غیر ضروری تھی وہ نہیں بتائی گئی لہٰذا اب ان کے ابرے میں مزید گفتگو اور مزید بحث و مباحثہ یا سوال و جواب اور مزید تفصیل معلوم کرنے کی کوشش سب بےکار ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ان باتوں میں جھگڑا کرنا کچھ حاصل نہیں رکھتا۔ ابن عباس نے کہا کہ وہ سات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو باتوں کو بن دیکھا نشان کہا اور اس کو نہیں کہا۔ 12 ابن کثیر نے عبداللہ ابن عباس (رض) کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ جن قلیل کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کیا ہے ان ہی قلیل میں میں بھی ہوں۔  Show more