Commentary The verse opens with the word: سَيَقُولُونَ (sayaqulun: Some will say).Who are these people who will say? There are two probabilities therein. (1) They could be the people who had differed among themselves during the time of the People of Kahf about their name and lineage, already mentioned in the previous verse. Out of these very people, some had made the first statement, some others, ... the second and still others, the third. (Mentioned in al-Bahr al-Muhit from al-Mawardi) (2) The second probability is that the pronoun in &sayaqulun& could be reverting back to the Christians of Najran who had argued with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the number of the People of Kahf. They had three sects among them. One sect was called Malkaniyah. They made the first statement about the number, that is, gave the number as three. The sec¬ond sect was Ya` qubiyah. They went by the second statement, that is, they were five. The third sect was Nasturiyah. They made the third statement, saying that they were seven. However, some said that this third statement was that of Muslims. What finally happened was that the third statement turned out to be true as it appears from the hint given by the Qur&an*, and the word of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . (Al-Bahr al-Muhit) *. The hint is that the former two views about their number have been termed by the Qur&an as &conjectures& while the third view has appeared without such a comment. (Mul} ammad Taqi Usmani) The use of the conjunction waw:(and) in: وَثَامِنُهُمْ (wa thaminuhum: and the eighth of them) is worth noticing here. At this place, three state¬ments have been reported about the number of the People of Kahf - three, five and seven - and after each, their dog has been counted. But, no conjunction &waw& has been introduced in between their number and the count of the dog in the first two statements. The sentence: ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ (Three, the fourth of them being their dog) and the sentence: خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ. (Five, the sixth of them being their dog) appear without that conjunction &waw.& But, the arrangement is different in the third statement. Here, the word: سَبْعَةٌ (Seven) is followed by a connective &waw& attached to the text of: وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ (and the eighth of them is their dog). Giving its reason, commentators say that early Arabs used to count up to seven digits, after which the number that followed was counted as separate, similar to its present counterpart, the number 9 where units end and the tens begin. Therefore, while counting from three to seven, they would not use the connective To give a number after seven, they would state it separately with the help of a connective &waw& - and for this reason, this &waw& (and) was called the &waw° (and) of &thaman& (eight). (Mazhari and others) The names of the People of Kahf The fact of the matter is that the names of the People of Kahf do not stand proved authentically from any Sahih Hadith. Names given in exe¬getical and historical reports differ. The closest out of these is the report given on the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) by al-Tabarani in al-Mu&jim al-Ausat with sound chains of narrators. The names given there are: Muksalmina مُکسلمِینا Tamlikha تَملِیخَا Martunis مَرطُونس Sanunis سنونس Sarinunisy سَارینونس Dhu Niwas ذونواس Ka&astitiunis کِعسططیونس Basic rule in debatable matters: Avoid long-drawn argumentation Referring to the animated efforts to determine the number of the Peo¬ple of Kahf, and other matters, the text says: فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا (So do not argue about them except [ with ] an apparent argu¬mentation. And do not ask anyone of these about them). The rule of conduct, a golden legacy of the Qur&an, taught in these two sentences to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are, in fact, significant guiding principles for the learned among the Muslim community. The thing to do when difference arises on any issue is to state what is necessary clearly. If people, even after that, elect to pursue a course of unnecessary debate, one should offer cursory comments in the light of the earlier presentation and conclude the debate. Any effort to dig deeper to affirm one&s claim or to make the extra effort to refute the assertion of debaters should be avoided - for nothing good would really come out of it. Moreover, any fur¬ther prolongation of the debate and altercation would result in uncalled for waste of time as well as pose the danger of mutual bickering. The second line of guidance given in the other sentence is that the op¬timum information given to him through Divine revelation about the Peo¬ple of Kahf should be taken as perfectly sufficient and satisfactory for all practical purposes. Let him not worry about finding more and asking oth-ers. As for asking others, it could have another aspect too. May be, the question asked is to expose their ignorance or to disgrace them. This too would be contrary to the high morals prophets have. Therefore, restraint was placed on asking both kinds of questions, either for additional inves¬tigation, or to prove the addressee ignorant and disgrace him. Show more
خلاصہ تفسیر :۔ (جس وقت اصحاب کہف کا قصہ بیان کریں گے تو) بعضے لوگ تو کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعضے کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے (اور) یہ لوگ بےتحقیق بات کو ہانک رہے ہیں اور بعضے کہیں گے کہ وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے، آپ (ان اختلاف کرنے والوں سے) کہہ دیجئے کہ میرا رب... ان کی تعداد خوب (صحیح صحیح) جانتا ہے ( کہ ان مختلف اقوال میں کوئی قول صحیح بھی ہے یا سب غلط ہیں) ان (کی تعداد) کو (صحیح صحیح) جانتا ہے ( کہ ان مختلف اقوال میں کوئی قول صحیح بھی ہے یا سب غلط ہیں) ان (کی تعداد) کو صحیح صحیح) بہت کم لوگ جاتنے ہیں (اور چونکہ تعداد متعین کرنے میں کوئی خاص فائدہ نہیں تھا، اس لئے آیت میں کوئی صریح فیصلہ نہیں فرمایا، لیکن روایات میں حضرت ابن عباس (رض) اور ابن مسعود (رض) سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا انا من القلیل کانوا سبعۃ یعنی میں بھی ان قلیل لوگوں میں داخل ہوں جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ کم لوگ جانتے ہیں وہ سات تھے، کذا فی الدرالمنثور عن ابی حاتم وغیرہ، اور آیت میں بھی اس قول کی صحت کا اشارہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اس قول کو نقل کر کے اس کو رد نہیں فرمایا، بخلاف پہلے دونوں قول کے کہ ان کے تردید میں رجما بالغیب فرمایا گیا ہے، (واللہ اعلم) سو ( اس پر بھی اگر وہ لوگ اختلاف سے باز نہ آویں تو) آپ اس معاملہ میں بجز سرسری بحث کے زیادہ بحث نہ کیجئے (یعنی مختصر طور پر تو ان کے خیالات کا رد قرآن کی آیات میں آ ہی چکا ہے جو رجما بالغیب، قل ربی اعلم سے بیان کردیا گیا ہے، پس سرسری بحث یہی ہے کہ اس پر اکتفا کریں، ان کے اعتراض کے جواب میں اس سے زیادہ مشغول ہونا اور اپنے دعوے کے اثبات میں زیادہ کاوش کرنا مناسب نہیں کہ یہ بحث ہی کوئی خاص فائدہ نہیں رکھتی) اور آپ ان (اصحاب کہف) کے بارے میں ان لوگوں میں سے کسی سے بھی کچھ نہ پوچھئے (جس طرح آپ کو ان کے اعتراض و جواب میں زیادہ کاوش سے منع کیا گیا، اسی طرح اس کی بھی ممانعت فرما دی کہ اب اس معاملہ کے متعلق کسی سے سوال یا تحقیق کرنے، کیونکہ جتنی بات ضروری تھی وہ وحی میں آگئی غیر ضروری سوالات اور تحقیقات شان انبیاء کے خلاف ہے) ۔ معارف و مسائل :۔ اختلافی بحثوں میں گفتگو کے آداب : سَيَقُوْلُوْنَ یعنی وہ لوگ کہیں گے، وہ کہنے والے کون لوگ ہیں، اس میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ مراد ان سے وہی لوگ ہوں جن کا باہم اختلاف اصحاب کہف کے زمانے میں ان کے نام و نسب وغیرہ کے متعلق ہوا تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں آیا ہے انہی لوگوں میں سے بعض نے عدد کے متعلق پہلا بعض نے دوسرا، بعض نے تیسرا قول اختیار کیا تھا۔ (ذکرہ فی البحر عن الماوردی) اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ سَيَقُوْلُوْنَ کی ضمیر نصاری نجران کی طرف عائد ہو، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی تعداد کے بارے میں مناظرہ کیا تھا، ان کے تین فرقے تھے ایک فرقہ ملکانیہ کے نام سے موسوم تھا، اس نے تعداد کے متعلق پہلا قول کہا، یعنی تین کا عدد بتلایا، دوسرا فرقہ یعقوبیہ تھا، اس نے دوسرا یعنی پانچ ہونا اختیار کیا، تیسرا فرقہ نسطوریہ تھا اس نے تیسرا قول کہا کہ سات تھے، اور بعض نے کہا کہ یہ تیسرا قول مسلمانوں کا تھا، اور بالاخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر اور قرآن کے اشارے سے تیسرے قول کا صحیح ہونا معلوم ہوا (بحر محیط) یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اس جگہ اصحاب کہف کی تعداد میں تین قول نقل کئے گئے ہیں، تین، پانچ، سات، اور ہر ایک کے بعد ان کے کتے کو شمار کیا گیا ہے، لیکن پہلے دو قول میں ان کی تعداد اور کتے کے شمار میں واؤ عاطفہ نہیں لایا گیا، ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ اور خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ بلا واو عاطفہ کے آیا، اور تیسرے قول میں سبعۃ کے بعد واو عاطفہ کے ساتھ وَّثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ فرمایا۔ اس کی وجہ حضرات مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ عرب کے لوگوں میں عدد کی پہلی گرہ سات ہی ہوتی تھی، سات کے بعد جو عدد آئے وہ الگ سا شمار ہوتا تھا، جیسا کہ آجکل نو کا عدد اس کے قائم مقام ہے کہ نو تک اکائی ہے، دس سے دہائی شروع ہوتی ہے، ایک الگ سا عدد ہوتا ہے اسی لئے تین سے لے کر سات تک جو تعداد شمار کرتے تو اس میں واؤ عطف نہیں لاتے تھے سات کے بعد کوئی عدد بتلانا ہوتا تو واؤ عاطفہ کے ساتھ الگ کر کے بتلاتے تھے، اور اسی لئے اس واؤ کو واؤ ثمان کا لقب دیا جاتا تھا (مظہری وغیرہ) اسماء اصحاب کہف : اصل بات تو یہ ہے کہ کسی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام صحیح صحیح ثابت نہیں تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کئے گئے ہیں، ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ تھے۔ مکسلمینا، تملیخا، مرطونس، سنونس، سارینونس، ذونواس، کعسططیونس (آیت) فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا یعنی آپ اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے متعلق ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں کاوش نہ کریں، بلکہ سرسری بحث فرما دیں، اور ان لوگوں سے آپ خود بھی کوئی سوال اس کے متعلق نہ کریں۔ اختلافی معاملات میں طویل بحثوں سے اجتناب کیا جائے : ان دونوں جملوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ درحقیقت علماء امت کے لئے اہم رہنما اصول ہیں، کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کردیا جائے اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کردی جائے، اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جائے کہ اس کا کوئی خاص فائدہ تو ہے نہیں، مزید بحث و تکرار میں وقت کی اضاعت بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔ دوسری ہدایت دوسرے جملے میں یہ دی گئی ہے کہ وحی آلہی کے ذریعہ سے قصہ اصحاب کہف کی جتنی معلومات آپ کو دے دیگئی ہیں ان پر قناعت فرما دیں کہ وہ بالکل کافی ہیں، زائد کی تحقیقات اور لوگوں سے سوال وغیرہ میں نہ پڑیں، اور دوسروں سے سوالات کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی جہالت یا ناواقفیت ظاہر کرنے اور ان کو رسوا کرنے کے لئے سوال کیا جائے یہ بھی اخلاق انبیاء کے خلاف ہے، اس لئے دوسرے لوگوں سے دونوں طرح کے سوال کرنا ممنوع کردیا گیا، یعنی تحقیق مزید کے لئے ہو یا مخاطب کی تجہیل و رسوائی کے لئے ہو۔ Show more