Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 4

سورة الكهف

وَّ یُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ٭﴿۴﴾

And to warn those who say, " Allah has taken a son."

اور ان لوگوں کو بھی ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اولاد رکھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And to warn those who say, "Allah has begotten a child." Ibn Ishaq said: "These are the pagan Arabs, who said, `We worship the angels who are the daughters of Allah."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 جیسے یہودیوں عیسائیوں اور بعض مشرکین (فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں) کا عقیدہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ اس آیت کے مخاطب عیسائی بھی ہیں جنہوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابن اللہ ہونے کو اپنے عقیدہ کا لازمی جزو قرار دے لیا ہے مشرکین مکہ بھی جنہوں نے اللہ کے لیے بیٹوں کے بجائے کئی بیٹیاں تجویز کر رکھی تھیں جیسے لات، عزیٰ اور منات وغیرہ اور یہود بھی جو سیدنا عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے گویا قرآن کے نزول کا مقصد عام لوگوں کو ڈرانا تو ہے ہی اور بالخصوص ان لوگوں کو ڈرانا ہے جو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۝ ٤ۤ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور آپ بالخصوص بذریعہ قرآن کریم یہود و نصاری اور بعض مشرکین کو بھی ڈرائیے جو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا) دور حاضر کی دجالیت کی اصل جڑ موجودہ مسیحیت ہے جس کی بنیاد تثلیث پر رکھی گئی ہے اور اب اسے مسیحیت کے بجائے Paulism کہنا زیادہ درست ہے۔ اس میں سب سے پہلے حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دیا گیا۔ پھر اس میں کفارے کا عقیدہ شامل کیا گیا کہ جو کوئی بھی حضرت مسیح پر ایمان لائے گا اسے تمام گناہوں سے پیشگی معافی مل جائے گی۔ اس کے بعد شریعت کو ساقط کر کے اس سلسلے میں تمام اختیارات پوپ کو دے دیے گئے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام۔ ان تحریفات کی وجہ سے یورپ میں عام لوگوں کو لفظ ” مذہب “ سے ہی شدید نفرت ہوگئی۔ پھر جب ہسپانیہ میں مسلمانوں کے زیر اثر جدید علوم کو فروغ ملاتو فرانس اٹلی جرمنی وغیرہ کے بیشمار نوجوانوں نے قرطبہ غرناطہ اور طلیطلہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا۔ یہ نوجوان حصول تعلیم کے بعد جب اپنے اپنے ممالک میں واپس گئے تو یورپ میں ان کی نئی فکر کی وجہ سے اصلاح مذہب (Reformation) اور احیائے علوم (Renaissance) کی تحریکات شروع ہوئیں۔ ان کی وجہ سے یورپ کے عام لوگ جدید علوم کی طرف راغب تو ہوئے مگر معاشرے میں پہلے سے موجود مذہب مخالف جذبات کی وجہ سے مذہب دشمنی خود بخود اس تحریک میں شامل ہوگئی۔ نتیجتاً جدید علوم کے ساتھ مذہب سے بیزاری روحانیت سے لا تعلقی آخرت سے انکار اور خدا کے تصور سے بیگانگی جیسے خیالات بھی یورپی معاشرے میں مستقلاً جڑ پکڑ گئے ‘ اور یہ سب کچھ عیسائیت میں کی جانے والی مذکورہ تحریفات کا رد عمل تھا۔ آیت زیر نظر میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے یہ عقیدہ ایجاد کیا تھا کہ مسیح (نعوذ باللہ) اللہ کا بیٹا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2. “Those who say” includes the Christians, the Jews and the mushrik Arabs who assigned offspring to Allah.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :2 یعنی جو خدا کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں ۔ اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکین عرب بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مراد ہیں نصاریٰ جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یا مشرکین عرب بھی جو فرشتوں کو خدا کی بٹیاں قرار دیتے ہیں اور یہود جو حضرت عزیز کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں مومنوں کو خوشخبری دی گئی ہے اور اب ان لوگوں کو انتباہ کیا جاتا ہے جو مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید ان لوگوں کو سخت ترین انتباہ کرتا ہے جو ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ حالانکہ ان کے پاس نہ اس کی دلیل ہے اور نہ ہی ان کے آباؤ اجداد علم کی بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے تھے گویا کہ یہ عقیدہ اور بات سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جو بات اپنی زبان سے نکال رہے ہیں یہ جھوٹ ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی گستاخی ہے۔ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تشریح میں عرض کیا جا چکا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور کفار میں سے ایک گروہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی کی شراکت سے مبرّا اور اولاد کی حاجت سے بےنیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصور ات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے۔ کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا حاجت ہے ؟ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، قلبی سکون کا باعث، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان باتوں میں سے کسی بات کی ضرورت نہیں ہے۔ اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے۔ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں، انبیاء کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ان حاجات اور تمثیلات سے پاک ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ : ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : باب وقالوا اتخذاللہ ولدا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اسے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جیسا کہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔ مسائل ١۔ ایسے لوگوں کو ڈرانا چاہیے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ ٢۔ مشرکین اور ان کے آباؤ اجداد کے پاس اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کی کوئی دلیلنہ تھی اور نہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر کفار جھوٹ باندھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے : ١۔ ان لوگوں کو ڈرائیے جو کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ (الکھف : ٤۔ ٥) ٢۔ انہوں نے کہا کہ رحمٰن کی اولاد ہے یہ تم بہت ہی بری بات کہتے ہو۔ (مریم : ٨٨ تا ٨٩) ٣۔ اللہ کے لیے لائق نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اولاد سے پاک ہے۔ (مریم : ٣٥) ٤۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں۔ (الفرقان : ٢) ٥۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک اور بےنیاز ہے۔ (یونس : ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 اور تاکہ یہ کتاب یہ کتاب ان کو بھی ڈرائے جنہوں نے یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے۔