Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 46

سورة الكهف

اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا ﴿۴۶﴾

Wealth and children are [but] adornment of the worldly life. But the enduring good deeds are better to your Lord for reward and better for [one's] hope.

مال و اولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے اور ( ہاں ) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور ( آئندہ کی ) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... Wealth and children are the adornment of the life of this world. This is like the Ayah: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَتِ مِنَ النِّسَأءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَـطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ Beautified for men is the love of things they covet; women, children, vaulted hoards of gold... (3:14) Allah says: إِنَّمَأ أَمْوَلُكُمْ وَأَوْلَـدُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ Your wealth and your children are only a trial, whereas Allah! With Him is a great reward (Paradise). (64:15) turning towards Allah and worshipping Him is better for you than keeping busy with them, and accumulating wealth for them and going to extremes in feeling pity and compassion for them. Allah says: ... وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا But the good righteous deeds that last, are better with your Lord for reward and better for hope. Ibn Abbas, Sa`id bin Jubayr and others among the Salaf said that; the good righteous deeds that last are the five daily prayers. Ata' bin Abi Rabah and Sa`id bin Jubayr narrated from Ibn Abbas, "The good righteous deeds that last are Subhan Allah (glory be to Allah)', Al-Hamdu Lillah (praise be to Allah)', La ilaha illallah (there is none worthy of worship except Allah)', and Allahu Akbar (Allah is Most Great).'" The Commander of the faithful, Uthman bin Affan was questioned, "Which are the good righteous deeds that last" He replied, "They are: La ilaha illallah, Subhan Allah, Al-Hamdu Lillah, Allahu Akbar and La hawla wa la quwwata illa billah hil-`Aliyil-`Azim (there is no strength and no power except with Allah the Exalted, the Almighty)."' This was recorded by Imam Ahmad. Imam Ahmad also recorded from a freed slave of the Messenger of Allah that he said: بَخٍ بَخٍ لِخَمْسٍ مَا أَثْقَلَهُنَّ فِي الْمِيزَانِ لاَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ للهِ وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ يُتَوَفَّى فَيَحْتَسِبُهُ وَالِدُهُ وَقَالَ بَخٍ بَخٍ لِخَمْسٍ مَنْ لَقِيَ اللهَ مُسْتَيْقِنًا بِهِنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ يُوْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الاْاخِرِ وَبِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَبِالْحِسَاب Well done! Well done for five things! (How heavy they will weigh in the balance! "La ilaha illallah, Allahu Akbar, Subhan Allah, and Al-Hamdu Lillah," and a righteous son who dies and his parents seek the reward of Allah. And he said: (Well done! Well done for five things! Whoever meets Allah believing in them, he will enter Paradise; if he believes in: Allah, the Last Day, Paradise and Hell, resurrection after death, and the Reckoning. ... وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ ... the good righteous deeds that last, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "This is the celebration of the remembrance of Allah, saying; La ilaha illallah, Allahu Akbar, Subhan Allah, Al-Hamdu Lillah, Tabarak Allah, La hawla wa la quwwata illa billah, Astaghfirallah, Sallallahu `ala Rasul-Allah', and fasting, prayer, Hajj, Sadaqah (charity), freeing slaves, Jihad, maintaining ties of kinship, and all other good deeds. These are the righteous good deeds that last, which will remain in Paradise for those who do them for as long as heaven and earth remain." Al-Awfi reported from Ibn Abbas: "They are good words." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "They are all righteous deeds." This was also the view chosen by Ibn Jarir, may Allah have mercy on him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 اس میں اہل ایمان دنیا کا اور جو دنیا کے مال اسباب، قبیلہ اور خاندان اور آل اولاد پر فخر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ چیزیں تو دنیا فانی کی عارضی زینت ہیں۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہیں آئیں گی۔ اسی لئے اسے آگے فرمایا کہ آخرت میں کام آنے والے عمل وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں۔ 46۔ 2 باقیات صالحات (باقی رہنے والی نییکیاں) کون سی یا کون کون سی ہیں ؟ کسی نے نماز کو، کسی نے تحمید و تسبیح اور تکبیر و تہلیل کو اور کسی نے اعمال خیر کو مصداق قرار دیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے اور تمام نیکیوں کو شامل ہے۔ تمام فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب باقیات صالحات ہیں بلکہ برے کاموں سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے، جس پر عند اللہ اجر وثواب کی امید ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] باقیات صالحات :۔ یہ مال و دولت اور بیٹے وغیرہ انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اور اخروی زندگی کو بھول ہی جائے اور انہی چیزوں پر تکیہ کر بیٹھے بلکہ اسے ایسی چیزوں پر امید وابستہ رکھنی چاہیے جو فنا ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہنے والی ہیں اور وہ اس کے نیک اعمال ہیں جن کا بدلہ بھی بہت اچھا ملے گا اور ان پر توقع بھی لگائی جاسکتی ہے اور آپ نے فرمایا کہ یہ کلمات : (سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الّٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ) باقیات صالحات ہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسے نیک اعمال کی داغ بیل ڈال جاتا ہے کہ بعد میں مدتوں لوگ اس سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ایسے اعمال کا اجر اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے جیسے کوئی شخص نیک اولاد چھوڑ جائے جو اس کے حق میں دعا کرتی رہے یا کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے جب تک اس میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے گا اس کو حصہ رسدی ثواب پہنچتا رہے گا یا کوئی رفاہ عامہ کا کام کر جائے جیسے کنواں یا سرائے، ہسپتال یا باغ یا کوئی اور چیز عام لوگوں کے فائدہ کے لیے وقف کر جائے (مسلم کتاب الوصیۃ باب م اے لحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) یہی چیزیں اس لائق ہیں جن میں انسان کو اپنی کوششیں صرف کرنا چاہییں۔ دنیا کی فانی چیزوں میں مستغرق نہ ہونا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ ۔۔ : اس آیت سے مقصود لوگوں کو نیک اعمال کی طرف توجہ دلانا ہے، تاکہ وہ باقی رہنے والے نیک اعمال کو چھوڑ کر، جو آخرت میں کام آنے والے ہیں، محض دنیا کی زندگی کی زینت والی چیزوں میں مشغول نہ رہیں، کیونکہ دنیا کی زندگی بےثبات اور عارضی ہے، جیسا کہ پچھلی آیت میں مثال سے واضح فرمایا، تو اس کی چمک دمک اور زینت اس سے بھی زیادہ بےثبات اور عارضی ہے۔ سو باقی کو فانی پر ترجیح دینا ہی کامیابی ہے۔ اس آیت میں مال اور بیٹوں ہی کا ذکر فرمایا، کیونکہ مال میں انسان کی ملکیت کی ہر چیز آجاتی ہے، مکان، مویشی اور سونا چاندی وغیرہ۔ دوسری آیات میں ان کی تفصیل اور ان کا فتنہ و آزمائش ہونا تفصیل سے ذکر فرمایا، دیکھیے آل عمران (١٤، ١٥) ، منافقون (٩) اور تغابن (١٤، ١٥) ۔ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ : ان الفاظ میں وہ تمام نیک اعمال آجاتے ہیں جو اللہ کو راضی کرنے والے ہیں اور ان کا اجر قیامت کے دن کے لیے باقی ہے۔ عثمان (رض) سے پوچھا گیا کہ ” الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ “ کیا ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا باللّٰہِ ) [ مسند أحمد : ١؍٧١، ح : ٥١٥ ] ” الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ “ کا ایک خاص مفہوم بھی ہے، یعنی وہ اعمال جن کا ثواب آدمی کو فوت ہونے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا مَاتَ الإِْنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ ) [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ : ١٦٣١ ] ” جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، ایک وہ صدقہ جو جاری رہنے والا ہو (مثلاً مسجد، شفا خانہ، کنواں وغیرہ) ، ایک وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے (مثلاً تدریس، تصنیف، تبلیغ وغیرہ) اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے (یا شاگرد وغیرہ جو دعا کرتے رہیں) ۔ “ سلمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہِ ، وَإِنْ مَاتَ ، جَرَی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِيْ کَانَ یَعْمَلُہُ ، وَأُجْرِيَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرباط في سبیل اللہ عز وجل : ١٩١٣۔ ترمذي : ١٦٦٥۔ نساءي : ٣١٦٩، ٣١٧٠ ] ” اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا رباط (سرحد پر دشمن کے مقابلے کے لیے رہنا) ایک ماہ کے روزے اور اس کے قیام سے بہتر ہے، پھر اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کا وہ عمل اس کے لیے جاری رکھا جاتا ہے جو وہ کرتا تھا اور اس کے لیے اس کا رزق جاری رکھا جاتا ہے اور آزمائش کرنے والوں (منکر و نکیر) سے امن میں رہتا ہے۔ “ مسلم میں ایک دن اور ایک رات کے لفظ ہیں اور اس میں ” فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ “ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ، تعلیم دین، دعا کرنے والی اولاد صالح اور جہاد فی سبیل اللہ خاص باقیات صالحات ہیں، جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بدلہ تیرے رب کے ہاں تمام بدلوں سے بہتر ہے اور ان کے اجر کی امید بھی سب امیدوں سے بہتر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The meaning of &everlasting virtues& (&al-baqyat al-salilhat&- 34) The Musnad of Ahmad, Ibn Hibban and Hakim have reported on the authority of Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Accumulate &everlasting virtues& as much as you can.|" It was said, |"What are they?|" He said, |"Saying: سُبحَانَ اللہِ لَآ اللہُ ، الحَمدُ للہِ اللہُ اَکبَر وَلَاحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ (Pure is Allah. There is no god but Allah. All praise belongs to Al¬lah. Allah is great and there is no power and no strength except with Al¬lah). Hakim has called this Hadith - Sahih. And al-&Uqaili reports on the authority of Sayyidna Nu` man ibn Bashir (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, سُبحَانَ اللہِ ٓ والحَمدُ للہِ وَ لَا الہ الا اللہ وَ اللہُ اَکبَر (Pure is Allah and all praise belongs to Allah and there is no god but Allah and Allah is great): These are the &everlasting virtues.&|" The same has been reported by al-Tabarani from Sayyidna Sa&d ibn ` Ubadah (رض) . And the Sahih of Muslim and Tirmidhi have reported on the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"I like saying: سُبحَانَ اللہِ ٓ والحَمدُ للہِ قَ لَا الہُ و اللہُ اَکبَر (Pure is Allah and all praise belongs to Allah and there is no god but Allah and Allah is great) better than everything under the Sun.|" Sayyidna Jabir (رض) said, |"Recite: لَاحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ (la haula wala quw¬wata illa bil-lah: There is no power and there is no strength except with Allah) a lot, because it removes ninety nine types of ailments out of which anxiety is the least painful.|" Thus, according to the Tafsir of &everlasting virtues& in this verse by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، ` Ikrimah and Mujahid, it means the very recita¬tion of these words. And Said ibn Jubayr, Masruq and Ibrahim said that &everlasting virtues& denote five daily prayers. And there is another report from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) which says that &al-baqyat al-salihat& or &everlasting virtues& in this verse means righteous deeds in a general sense. Included therein are the words men¬tioned above, and the five prayers, and all other righteous deeds as well. This explanation has also been reported from early commentator Qatadah. (Mazhari) This also happens to be the drive of the meaning in terms of the words of the Qur&an for these words literally convey the sense of the righ¬teous deeds that are to keep surviving. And it is obvious that all deeds that qualify as righteous and sincere are abiding and everlasting in the sight of Allah. Ibn Jarir and al-Qurtubi have preferred this particular Tafsir. Sayyidna ` Ali (رض) said, &Cultivation is of two kinds. Wealth and chil¬dren are the cash crops of the mortal world while &everlasting virtues& are the deferred crops of the Hereafter.& Hasan al-Basri (رح) said, &Everlast¬ing virtues are one&s intention as the acceptance of righteous deeds de¬pends on it.& ` Ubaid ibn ` Umair (رض) said, &Everlasting virtues are righteous daughters for they are, for their parents, the greatest treasure-troves of reward from Allah.& This is supported by a narration of Sayyidah ` A&ishah (رض) according to which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said, |"I saw a man from my ummah under orders to be taken to Hell. Thereupon, his righteous daughters clung to him and started wailing and crying and plaintively supplicating: 0 Allah, spare him for he was very kind to us in the mortal world and he worked very hard to raise us in our family. Allah Ta` ala, in His mercy, forgave him. (Qurtubi)

معارف و مسائل : وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ مسند احمد، ابن حبان اور حاکم نے بروایت حضرت ابوسعید خدری (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باقیات صالحات کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا کرو، عرض کیا گیا کہ وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ لا الہ الا اللہ الحمد للہ اللہ اکبر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنا حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اور عقیلی نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سبحان اللہ والحمد للہ ولآالہ الا اللہ واللہ اکبر یہی باقیات صالحات ہیں، یہی مضمون طبرانی نے بروایت حضرت سعد بن عبادہ بھی روایت کیا ہے، اور صحیح مسلم و ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کلمہ یعنی سبحان اللہ والحمد للہ ولآالہ الا اللہ واللہ اکبر میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے، یعنی سارے جہان سے۔ اور حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ بکثرت پڑھا کرو کیونکہ یہ ننانوے باب بیماری اور تکلیف کے دور کردیتا ہے، جن میں سب سے کم درجہ کی تکلیف ہم یعنی فکر و غم ہے۔ اسی لئے اس آیت میں لفظ باقیات صالحات کی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) ، عکرمہ، مجاہد نے یہی کی ہے کی مراد اس سے یہی کلمات پڑھنا ہے، اور سعید بن جبیر، مسروق اور ابراہیم نے فرمایا کی باقیات صالحات سے پانچ نمازیں مراد ہیں۔ اور حضرت ابن عباس (رض) سے ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آیت میں باقیات صالحات سے مراد مطلق اعمال صالحہ ہیں جن میں یہ کلمات مذکورہ بھی داخل ہیں، پانچوں نمازیں بھی اور دوسرے تمام نیک اعمال بھی، حضرت قتادہ (رض) سے بھی یہی تفسیر منقول ہے (مظہری) الفاظ قرآن کے مطابق بھی یہی ہے کیونکہ ان الفاظ کا لفظی مفہوم وہ اعمال صالحہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سب ہی اللہ کے نزدیک باقی اور قائم ہیں ابن جریر طبری اور قرطبی نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ کھیتی دو قسم کی ہوتی ہے، دنیا کی کھیتی تو مال و اولاد ہے، اور آخرت کی کھیتی باقیات صالحات ہیں، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ باقیات صالحات انسان کی نیت اور ارادہ ہیں کی اعمال صالحہ کی قبولیت اس پر موقوف ہے۔ اور عبید ابن عمر نے فرمایا کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں کہ وہ اپنے والدین کے لئے سب سے بڑا ذخیرہ ثواب ہیں، اس پر حضرت صدیقہ عائشہ کی ایک روایت دلالت کرتی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کو جہنم میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا، تو اس کی نیک لڑکیاں اس کو چمٹ گئیں اور رونے اور شور کرنے لگیں، اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ اے اللہ انہوں نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا، اور ہماری تربیت میں محنت اٹھائی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما کر بخش دیا (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا۝ ٤٦ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) اس کے بعد دنیا کے ساز و سامان کا تذکرہ فرماتا ہے کہ اولاد یہ سب حیات دنیا کی ایک رونق ہے جیسا کہ گھاس پھوس میں سے کچھ باقی نہیں رہتا اسی طرح ان میں سے بھی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، اور پانچویں نمازیں اور باقیات سے مراد وہ نیکیاں ہیں جن کا ثواب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور صالحات سے مراد ( آیت) ” سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر “۔ ہے، یہ چیزیں آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی یعنی اعمال صالحہ مثلا نماز پر جو بندوں کو امیدیں ہوتی ہیں وہ آخرت میں پوری ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) اس سورت میں دنیوی زندگی کی زیب وزینت کا ذکر یہاں تیسری مرتبہ آیا ہے۔ اس سے پہلے ہم آیت ٧ میں پڑھ آئے ہیں کہ روئے زمین کی آرائش و زیبائش اور تمام رونقیں انسانوں کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہیں : (اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) پھر آیت ٢٨ میں رسول اللہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا : (تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) کہ اے نبی کہیں ان لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ آپ کا مطلوب و مقصود بھی دنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش ہی ہے (معاذ اللہ ! ) ۔ گویا یہ موضوع اس سورت کے مضامین کا عمود ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت ہر وقت ہمارے ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ یہ زندگی اور دنیوی مال و متاع سب عارضی ہیں۔ یہاں کے رشتے ناطے اور تمام تعلقات بھی اسی چار روزہ زندگی تک محدود ہیں۔ انسان کی آنکھ بند ہوتے ہی تمام رشتے اور تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور اللہ کی عدالت میں ہر انسان کو تن تنہا پیش ہونا ہوگا : (وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا) ( مریم) وہاں نہ باپ اولاد کی مدد کرے گا نہ بیٹا والدین کو سہارا دے گا اور نہ بیوی شوہر کا ساتھ دے گی۔ اس دن کے محاسبے کا سامنا ہر شخص کو اکیلے ہی کرنا ہوگا۔ (وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا) اس مختصر زندگی کی کمائی میں اگر کسی چیز کو بقا حاصل ہے تو وہ نیک اعمال ہیں۔ آخرت میں صرف وہی کام آئیں گے۔ چناچہ دنیوی مال و اسباب سے امیدیں نہ لگاؤ اولاد سے توقعات مت وابستہ کرو۔ یہ سب عارضی چیزیں ہیں جو تمہاری موت کے ساتھ ہی تمہارے لیے بےوقعت ہوجائیں گی۔ آخرت کا سہارا چاہیے تو نیک اعمال کا توشہ جمع کرو اور اسی پونجی سے اپنی امیدیں وابستہ کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: دنیا کے مال و اسباب سے امیدیں لگا کر بیٹھو تو ایک وقت وہ دھوکا دے جاتے ہیں، لیکن نیک اعمال جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیے جائیں، ان سے ثواب کی جو امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ وہ پوری ہوتی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:46) البقیت الصلحت۔ باقی رہ جانے والے اعمال صالحہ۔ ہر وہ عمل یا قول جو معرفت الٰہی محبت الٰہی یا طاعت الٰہی۔ کی طرف لے جانے والا ہو باقیات الصالحات میں داخل ہے۔ املا۔ بلحاظ توقع یا امید کے۔ بوجہ تمیز کے منصوب ہے۔ نیز ملاحظہ ہو وخیر عقبا۔ (18:44) سورة ہذا۔ یعنی جن سے بہتر نتائج اور بہتر جزا کی امیدیں کی جاسکتی ہیں۔ امل امید۔ توقع۔ امال جمع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” رہنے والی نیکیاں بہت کیا کرو۔ ” صحابہ نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں فرمایا : ” اللہ اکبر کہنا لا الہ الا اللہ کہنا سبحان اللہ کہنا الحمد للہ کہنا اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہنا۔ (مسند احمد) یوں باقی رہنے والی نیکی میں ہر وہ کام آسکتا ہے جس کا ثواب مرنے کے بعد قائم رہتا ہے۔ حدیث میں ہے : اذامات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلاث من صدقۃ جاویۃ او علم ینفع بہ او ولد صالح یدعولہ۔ یعنی جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل بند ہوجاتے ہیں صرف تین قسم کے اعمال کا فائدہ اس کو پہنچتا رہتا ہے۔ ہمیشہ جاری رہنے والا صدقہ ایسی علمی یادگار جس سے لوگ فیض حاصل کرتے رہیں۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں صدقہ جاریہ کی وضاحت مسجد بنانے، مسافر خانہ تیار کرنے، عام استعمال کے لئے کسی صورت میں پانی کا استعمال کرنے سے فرمائی گئی ہے اور علم کا فیض بصورت تدریس و تالیف یا قرآن و سنت کی حفاظت اور ان کی نشرو اشاعت بھی اس میں داخل ہے۔ (کذافی الترغیب)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اعمال صالحہ پر جو جو امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ آخرت میں پوری ہوں گی اور اس سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔ بخلاف متاع دنیا کے کہ اس سے کود دنیا ہی میں امیدیں پوری ہوتیں اور آخرت میں تو احتمال ہی نہیں ہے۔ اس لئے دنیا سے دلچسپی یا اس پر فخر نہ کرنا چاہئے، بلکہ آخرت کا اہتمام کرنا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مال اور اولاد اس زندگی کی زینت ہے اور اسلام جائز حدود کے اندر دنیا کی زینت سے نہیں روکتا۔ لیکن اسلام زینت دنیا کو اسی قدر اہمیت دیتا ہے اور اسی قدر قیمت دیتا ہے جس کی وہ مستحق ہیں۔ یعنی فنا اور دوام کے اعتبار سے۔ ضرورت سے زیادہ قیمت ان چیزوں کو نہیں دیتا۔ ماں اور اولاد زینت ہیں لیکن ان کی قدر و قیمت یہ نہیں ہے کہ وہ معیار اور میزان بن جائیں اور لوگوں کو دنیا میں ان کے سارے تولا جائے۔ اصل قیمت باقیات صالحات کی ہے۔ وہ اعمال ، وہ اقوال اور وہ عبادات ، جن کا جار قیامت میں ملنے والا ہے۔ اگرچہ لوگ عموماً مال اور اولاد سے دلچسپیاں واسبتہ کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور ان کے دل مال اور اولاد ہی سے متعلق ہوتے ہیں۔ لیکن باقیات صالحات زیادہ بہتر ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم باقیات صالحات سے امیدیں وابستہ کریں جن کی جزاء قیامت میں ملنے والی ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَکَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (جب چاہے وجود بخشے اور جن چیزوں کو چاہے ترقی دے اور جب چاہے فنا کردے۔ ) (اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) (مال اور بیٹے مالی زندگی کی زینت ہیں) ان پر اترانا اور ان میں دل لگانا ہوش مند آدمی کا کام نہیں۔ (وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا) (باقی رہنے والے اعمال صالحہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی) یعنی ہوش مند بندوں کو اعمال صالحہ میں لگا رہنا چاہیے جو اجرو ثواب کے اعتبار سے باقی رہنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعمال صالحہ کا بہت بڑا ثواب ملے گا، اللہ تعالیٰ سے ان کا ثواب ملنے کی امید رکھیں یہ امید تمام امیدوں سے بہتر ہے۔ اسی سورت کے ختم پر فرمایا (فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) (سو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو سو وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ ) باقیات کو جو صالحات کے ساتھ متصف فرمایا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو اعمال صالحہ نہیں یا جن اعمال صالحہ کو دوسرے اعمال کی وجہ سے حبط کردیا یا ارتداد کی وجہ سے باطل کردیا وہ باقی رہنے والے نہیں ہیں یعنی آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہ ملے گا، اور ان پر ثواب ملنے کی امید رکھنا عبث ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46 مال اور بیٹے تو دنیوی زندگی کی رونق اور بہار میں اور جو اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے پروردگار کے نزدیک اس دنیا سے باعتبار ثواب کے بھی بدرجہا بہتر ہیں اور ازروئے امید کے بھی بدرجہا بہتر ہیں۔ یعنی مال ہوا یا بیٹے ہوئے یہ تو صرف یہاں کی رونق ہیں ان کے ساتھ نہ کوئی امید وابستہ کی جاسکتی ہے اور نہ یہ چیزیں امید کے قابل ہیں اور نہ ان پر بھروسہ کیا جائے البتہ اعمال صالحہ جو باقی رہنے والے ہیں وہ ثواب کے اعتبارے بھی دنیا کے مقابلے میں بہتر اور امیدوار بھروسہ کے اعتبار سے بھی بہتر اور بدرجہا بہتر ہیں یہاں کی بےثباتی کسی اعتبار سے بھی آخرت سے بہتر نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں رہنے والی نیکیاں یہ کہ علم سکھا جاوے جو جاری رہے یا نیک رسم چلا جاوے مسجد کنواں سرائے باغ کھیت وقف کر جاوے یا اولاد کو تربیت کر کے صالح چھوڑ جاوے۔ 12 ابنکثیر نے باقیات الصالحات کے سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔ سعید بن مسیب کے نزدیک سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الا باللہ کا پڑھنا باقیات الصالحات میں سے ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے وہ حدیث میں مذکور ہے۔