The Story of Adam and Iblis
Allah points out to the Children of Adam the enmity of Iblis towards them and their father before them, and rebukes those who follow him and go against their Creator and Master. It is He who created them from nothing and sustains and nourishes them by His kindness, yet they still took Iblis as their friend and declared their enmity towards Allah.
So Allah says:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَإيِكَةِ
...
And (remember) when We said to the angels,
meaning all the angels, as was mentioned in the beginning of Surah Al-Baqarah.
...
اسْجُدُوا لاِدَمَ
...
Prostrate yourselves unto Adam,
a prostration of respect and honor, as Allah says:
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـيِكَةِ إِنِّى خَـلِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَـلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُواْ لَهُ سَـجِدِينَ
And (remember) when your Lord said to the angels, "I am going to create a human (Adam) from dried (sounding) clay of altered mud. So, when I have fashioned him completely and breathed into him the soul which I created for him, then fall (you) down prostrating yourselves unto him. (15:28-29)
...
فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ
...
So they prostrated themselves except Iblis. He was one of the Jinn;
meaning, his original nature betrayed him. He had been created from smokeless fire, whereas the angels had been created from light, as is stated in Sahih Muslim where it is reported that A'ishah, may Allah be pleased with her, said that the Messenger of Allah said:
خُلِقَتِ الْمَلَيِكَةُ مِنْ نُورٍ
وَخُلِقَ إِبْلِيسُ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ
وَخُلِقَ ادَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُم
The angels were created from light,
Iblis was created from smokeless fire, and
Adam was created from that which has been described to you.
When matters are crucial, every vessel leaks that which it contains and is betrayed by its true nature. Iblis used to do what the angels did and resembled them in their devotion and worship, so he was included when they were addressed, but he disobeyed and went against what he was told to do. So Allah points out here that he was one of the Jinn, i.e., he was created from fire, as He says elsewhere:
أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
I am better than he. You created me from fire, and You created him from clay. (38:76)
Al-Hasan Al-Basri said,
"Iblis was not one of the angels, not even for a second. He was the origin of the Jinn just as Adam, upon him be peace, was the origin of mankind."
This was narrated by Ibn Jarir with a Sahih chain.
...
فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ
...
he disobeyed the command of his Lord.
meaning by stepping beyond the bounds of obedience to Allah.
Fisq (disobeying) implies going out or stepping beyond. When the date emerges from its flower, the verb used in Arabic is Fasaqat; the same verb is used to describe a mouse coming out of its hole when it comes out to do damage.
Then Allah says, rebuking those who follow and obey Iblis:
...
أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاء مِن دُونِي
...
Will you then take him and his offspring as protectors and helpers rather than Me!
meaning, instead of Me.
...
وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ
...
while they are enemies to you,
This is why Allah says:
...
بِيْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلاً
What an evil is the exchange for the wrongdoers.
This is like the Ayah in Surah Ya Sin where, after mentioning the Resurrection and its terrors, and the ultimate end of the blessed and the doomed, Allah then says:
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ
(It will be said): "And O you the criminals! Get you apart this Day (from the believers). until;
أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ
(Did you not then understand). (36:59-62)
محسن کو چھوڑ کر دشمن سے دوستی
بیان ہو رہا ہے کہ ابلیس تمہارا بلکہ تمہارے اصلی باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی قدیمی دشمن رہا ہے اپنے خالق مالک کو چھوڑ کر تمہیں اس کی بات نہ ماننی چاہئے اللہ کے احسان و اکرام اس کے لطف و کرم کو دیکھو کہ اسی نے تمہیں پیدا کیا پالا پوسا پھر اسے چھوڑ کر اس کے بلکہ اپنے بھی دشمن کو دوست بنانا کس قدر خطرناک غلطی ہے ؟ اس کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے تمام فرشتوں کو بطور ان کی تشریف ، تعظیم اور تکریم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب نے حکم برداری کی لیکن چونکہ ابلیس بد اصل تھا ، آگ سے پیدا شدہ تھا ، اس نے انکار کر دیا اور فاسق بن گیا ۔ فرشتوں کی پیدائش نورانی تھی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کر دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آ جاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو وہی ٹپکتا ہے ۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا ، اسی لئے ان کے خطاب میں یہ بھی آ گیا لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آ گیا ، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے ۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی تیز آگ کے شعلے سے تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا ، جنتوں کا داروغہ تھا ، آسمان دینا کا بادشاہ تھا ، زمین کا بھی سلطان تھا ، اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آ گیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے ۔ وہ گھمنڈ ظاہر ہو گیا از روئے تکبر کے صاف انکا ردیا اور کافروں میں جا ملا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی مدنی بصری کوفی ۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا ۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا لیکن زمین پر رہتا تھا ۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا اسی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا ۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آ گیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہو گیا ۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہو سکتی ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا ۔ سلف کے اور بھی اس بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں لیکن یہ اکثر بیشتر بنی اسرائیلی ہیں صرف اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ نگاہ سے گزر جائیں ۔ اللہ ہی کو ان کے اکثر کا صحیح حال معلوم ہے ۔ ہاں بنی اسرائیل کی روایتیں وہ تو قطعا قابل تردید ہیں جو ہمارے ہاں کے دلائل کے خلاف ہوں ۔
بات یہ ہے کہ ہمیں تو قرآن کافی وافی ہے ، ہمیں اگلی کتابوں کی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ، ہم ان سے محض بےنیاز ہیں ۔ اس لئے کہ وہ تبدیل ترمیم کمی بیشی سے خالی نہیں ، بہت سی بناوٹی چیزیں ان میں داخل ہو گئی ہیں اور ایسے لوگ ان میں نہیں پائے جاتے جو اعلیٰ درجہ کے حافظ ہوں کہ میل کچیل دور کر دیں ، کھرا کھوٹا پرکھ لیں ، زیادتی اور باطل کے ملانے والوں کی دال نہ گلنے دیں جیسے کہ اللہ رحمن نے اس امت میں اپنے فضل و کرم سے ایسے امام اور علماء اور سادات اور بزرگ اور متقی اور پاکباز اور حفاظ پیدا کئے ہیں جنہوں نے احادیث کو جمع کیا ، تحریر کیا ۔ صحیح ، حسن ، ضعیف ، منکر ، متروک ، موضوع سب کو الگ الگ کر دکھایا یا گھڑنے والوں ، بنانے والوں ، جھوٹ بولنے والوں کو چھانٹ کر الگ کھڑا کر دیا تاکہ ختم المرسلین العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اور مبرک کلام محفوظ رہ سکے اور باطل سے بچ سکے اور کسی کا بس نہ چلے کہ آپ کے نام سے جھوٹ کو رواج دے لے اور باطل کو حق میں ملا دے ۔ پس ہماری دعا ہے کہ اس کل طبقہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضا مندی نازل فرمائے اور ان سب سے خوش رہے آمین ! آمین! اللہ انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور یقینا ان سے دوستی نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو ۔ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا ۔ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورہ یاسین میں قیامت ، اس کی ہولناکیوں اور نیک و بد لوگوں کے نتیجوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اے مجرموں تم آج کے دن الگ ہو جاؤ ، الخ ۔
اللہ کے سوا سب ہی بے اختیار ہیں
جنہیں تم اللہ کے سوا اللہ بنائے ہوئے ہو وہ سب تم جیسے ہی میرے غلام ہیں ۔
کسی چیز کی ملکیت انہیں حاصل نہیں ۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں میں نے انہیں شامل نہیں رکھا تھا بلکہ اس وقت وہ موجود بھی نہ تھے تمام چیزوں کو صرف میں نے ہی پیدا کیا ہے ۔ سب کی تدبیر صرف میرے ہی ہاتھ ہے ۔ میرا کوئی شریک ، وزیر ، مشیر ، نظیر ، نہیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ( قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ 22 ) 34- سبأ:22 ) ، جن جن کو تم اپنے گمان میں کچھ سمجھ رہے ہو سب کو ہی سوا اللہ کے پکار کر دیکھ لو یاد رکھو انہیں آسمان و زمین میں کسی ایک ذرے کے برابر بھی اختیارات حاصل نہیں نہ ان کا ان میں کوئی ساجھا ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔ نہ ان میں سے کوئی شفاعت کر سکتا ہے ، جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو جائے الخ مجھے یہ لائق نہیں نہ اس کی ضرورت کہ کسی کو خصوصا گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو اور مددگار بناؤں ۔