Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 52

سورة الكهف

وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ نَادُوۡا شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّوۡبِقًا ﴿۵۲﴾

And [warn of] the Day when He will say, "Call 'My partners' whom you claimed," and they will invoke them, but they will not respond to them. And We will put between them [a valley of] destruction.

اور جس دن وہ فرمائے گا کہ تمہارے خیال میں جو میرے شریک تھے انہیں پکارو! یہ پکاریں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب نہ دے گا ہم ان کے درمیان ہلاکت کا سامان کر دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Their Partners are not able to respond and the Criminals are brought to the Fire Allah tells; وَيَوْمَ يَقُولُ ... And (remember) the Day He will say: Allah tells us how He will address the idolators on the Day of Resurrection before all of creation, rebuking and scolding them, ... نَادُوا شُرَكَايِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ ... Call those (so-called) partners of Mine whom you claimed. meaning, in the world. Call them today to save you from the situation you are in! Allah says: وَلَقَدْ جِيْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَـكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنَـكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَأءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَأءُ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ And truly, you have come unto Us alone as We created you the first time. You have left what you were given behind your backs and We do see not with you your intercessors whom you claimed were your partners. Now all relations between you and them have been cut off, and all that you used to claim has vanished from you. (6:94) ... فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ ... Then they will cry unto them, but they will not answer them. As Allah says: وَقِيلَ ادْعُواْ شُرَكَأءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُمْ And it will be said (to them): "Call upon those partners of yours," then they will call upon them, but they will not answer them. (28: 64) And the Ayah: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ And who is more astray than one who calls others besides Allah, such as will not answer him. (46:5) Until the end of the two Ayat; And: وَاتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزّاً كَلَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَـدَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً And they have taken gods besides Allah, that they may grant them honor. Nay, but they will deny their worship of them, and become opponents to them. (19:81-82) ... وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقًا and We shall put Mawbiq between them. Ibn Abbas, Qatadah and others said: "Destruction." The meaning is that Allah is stating that these idolators will have no way of reaching the gods they claimed in this world. He will separate them in the Hereafter and neither party will have any means of reaching the other. There will be devastation, great horrors and other terrible things in between them. Abdullah bin Amr understood the pronoun in the phrase "between them" to refer to the believers and the disbelievers, meaning that the people of guidance and the people of misguidance will be separated. This then is like the Ayat: وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَيِذٍ يَتَفَرَّقُونَ And on the Day when the Hour will be established -- that Day shall (all men) be separated. (30:14) يَوْمَيِذٍ يَصَّدَّعُونَ On that Day men shall be divided. (30:43) وَامْتَازُواْ الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (It will be said), "And O you the criminals! Get you apart this Day (from the believers). (36:59) وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَأوُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ And on the Day when We shall gather them all together, then We shall say to those who joined partners, "Stop in your place! You and your partners." Then We shall separate between them... until, وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ And what they invented will vanish from them. (10:28-30) Then Allah says:

مشرک قیامت کو شرمندہ ہوں گے تمام مشرکوں کو قیامت کے دن شرمندہ کرنے کے لئے سب کے سامنے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو جنہیں تم دنیا میں پکارتے رہے تاکہ وہ تمہیں آج کے دن کی مصیبت سے بچا لیں وہ پکاریں گے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ پائیں گے جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ 94؀ۧ ) 6- الانعام:94 ) ہم تمہیں اسی طرح تنہا تنہا لائے جیسے کہ ہم نے تمہارے ساتھ ان شریکوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الہٰی ٹھیرائے ہوئے تھے اور جن کی شفاعت کا یقین کئے ہوئے تھے تمہارے اور ان کے درمیان میں تعلقات ٹوٹ گئے اور تمہارے گمان باطل ثابت ہو چکے اور آیت میں ہے ( وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ 64؀ ) 28- القصص:64 ) کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے الخ اسی مضمون کو آیت ومن اضل سے دو آیتوں تک بیان فرمایا ہے سورہ مریم میں ارشاد ہے کہ انہوں نے اپنی عزت کے لئے اللہ کے سوا اور بہت معبود بنا رکھے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو گا وہ تو سب ان کی عبادت کے منکر ہو جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ۔ ان میں اور ان کے معبودان باطل میں ہم آڑ حجاب اور ہلاکت کا گڑھا بنا دیں گے تاکہ یہ ان سے اور وہ ان سے نہ مل سکیں ۔ نیک راہ اور گمراہ الگ الگ رہیں ، جہنم کی یہ وادی انہیں آپس میں ملنے نہ دے گی ۔ کہتے ہیں یہ وادی لہو اور پیپ کی ہو گی ، ان میں آپس میں اس دن دشمنی ہو جائے گی ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے ہلاکت ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کی کوئی وادی بھی ہو یا اور کوئی فاصلے کی وادی ہو ، مقصود یہ ہے کہ ان عابدوں کو نہ معبود جواب تک نہ دیں گے نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مل سکیں گے ۔ کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت ہو گی اور ہولناک امور ہوں گے ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے مراد یہ ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں میں ہم آڑ کر دیں گے جیسے آیت ( وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ 14؀ ) 30- الروم:14 ) اور آیت ( فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ 43؀ ) 30- الروم:43 ) اور آیت ( وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ 59؀ ) 36-يس:59 ) اور آیت ( وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ 22؀ ) 6- الانعام:22 ) وغیرہ میں ہے ۔ یہ گنہگار جہنم دیکھ لیں گے ۔ ستر ہزار لگاموں میں وہ جکڑی ہوئی ہو گی ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے دیکھتے ہی سمجھ لیں گے کہ ہمارا قیدخانہ یہی ہے ۔ داخلے کے بغیر داخلے سے بھی زیادہ رنج و غم اور مصیبت والم شروع ہو جائے گا ۔ عذاب کا یقین عذاب سے پہلے کا عذاب ہم لیکن کوئی چھٹکارے کی راہ نہ پائیں گے کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی ۔ حدیث میں ہے کہ پانچ ہزار سال تک کافر اسی تھر تھری میں رہے گا کہ جہنم اس کے سامنے اور اس کا کلیجہ قابو سے باہر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 موبق کے ایک معنی حجاب۔ پردے اور آڑ کے ہیں یعنی ان کے درمیان پردہ اور فاصلہ کردیا جائے گا کیونکہ ان کے درمیان آپس میں عداوت ہوگی۔ نیز اس لئے کہ محشر میں یہ ایک دوسرے کو نہ مل سکیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جہنم میں پیپ اور خون کی مخصوص آبادی ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ مہلک کیا ہے، یہ ایک دوسرے کو مل ہی نہیں سکیں گے کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت کا سامان اور ہولناک چیزیں ہونگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] یعنی مشرکوں اور ان کے معبودوں کے درمیان ایک گہری خندق بنادیں گے جس میں آگ بھڑک رہی ہوگی۔ اس طرح نہ عابد اپنے معبودوں سے کوئی تعلق قائم کرسکیں گے اور نہ معبود اپنے پیروکاروں سے، اور اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ان عابد و معبود کے درمیان سخت عداوت ڈال دیں گے۔ دنیا میں تو عابد ان کی بہت عزت و احترام کرتے تھے اور انھیں خدائی کا درجہ دے رکھا تھا مگر اس دن وہ ان کے بدترین دشمن بن جائیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی کی وجہ سے ہم مبتلائے عذاب ہوئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِيَ ۔۔ : یعنی ان مشرکوں سے اس دن کا ذکر کیجیے جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے شریکوں کو آواز دو جنھیں تم نے میرے شریک سمجھ رکھا تھا، وہ انھیں پکاریں گے مگر مدد تو کجا، وہ انھیں جواب بھی نہیں دیں گے۔ دیکھیے قصص (٦٢ تا ٦٤) فاطر (١٣، ١٤) ، احقاف (٥، ٦) ، مریم (٨١، ٨٢) ، انعام (٩٤) اور ابراہیم (٢٢) ۔ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَّوْبِقًا : ” وَبَقَ یَبِقُ “ (ض، ع) بروزن ” وَرَثَ “ ہلاک ہونا، یعنی ہم ان مشرکوں اور ان لوگوں کے درمیان جنھیں وہ دنیا میں اپنا معبود سمجھتے تھے ہلاکت کی ایک جگہ بنادیں گے جس سے ان کا ایک دوسرے تک پہنچنا ممکن نہ رہے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَہُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ مَّوْبِقًا۝ ٥٢ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے وبق وَبَقَ : إذا تثبّط فهلك، وَبَقاً ومَوْبِقاً. قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُمْ مَوْبِقاً [ الكهف/ 52] وأَوْبَقَهُ كذا . قال تعالی: أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِما كَسَبُوا[ الشوری/ 34] ( و ب ق ) وبق ( ض ) وبقا وموبقا کے معنی ضعیف اور گراں بار ہوکر ہلاک ہوجانے کے ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُمْ مَوْبِقاً [ الكهف/ 52] اور ہم ان کے بیچ میں ہلاکت کی جگہ بنادیں گے ۔ اوبقتہ کذا ہلاک کرنا ۔ أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِما كَسَبُوا[ الشوری/ 34] یا ان کے اعمال کے سبب ان کو تباہ کردے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان بتوں کے پجاریوں سے کہے گا کہ اپنے ان معبودوں کو یاد کرو جن کی تم عبادت کرتے اور میرا شریک ٹھہراتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ تمہیں میرے عذاب سے نجات دلا دیں گے سو وہ ان معبودوں کو پکاریں مگر یہ ان کو جواب نہ دیں گے اور ہم ان عابد و معبود کے درمیان دوزخ میں وادی حائل کردیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَّوْبِقًا) یہ شریک ٹھہرائی جانے والی شخصیات چاہے انبیاء ہوں اولیاء اللہ ہوں یا فرشتے روز قیامت ان کے اور انہیں شریک ماننے والوں کے درمیان ہلاکت خیز خلیج حائل کردی جائے گی تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ ان کی مدد کو نہیں آسکتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. This theme has already been stated at several places in the Quran. This is to impress that it is shirk to discard the commandments and the guidance of Allah and to follow the orders and guidance of any other than Allah, though one may not be professing with his tongue that there is any partner of Allah: nay, if one might be cursing others but at the same time following their orders instead of divine commandments, even then that one shall be guilty of shirk. For instance, we see that everyone in this world curses satans but still follows them. According to the Quran, in spite of cursing them, if people follow satans, they shall be guilty of setting up satans as partners with Allah. Though this will not be shirk in so many words, it will be tantamount to the practice of shirk and the Quran denounces this as shirk. 51. Generally the commentators have assigned two meanings to this. The one is the same that we have adopted in our translation and the other is this: We will cause enmity between them. That is: Their friendship in this world shall be turned into bitter enmity in the Hereafter.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :50 یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا دراصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے ، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو ۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے ۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے ، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو ۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء حاشیہ ۹۱ ۔ ۱٤۵ ۔ الانعام ، حاشیہ ٦۷ ۔ ۱۰۷ جلد دوم التوبہ ، حاشیہ ۳۱ ۔ ابراہیم ، حاشیہ ۲۳ ۔ جلد سوم ، مریم ، حاشیہ ۲۷ ۔ المومنون ، حاشیہ ٤۱ ۔ الفرقان ، حاشیہ ۵٦ ۔ القصص ، حاشیہ ۸٦ جلد چہارم ، سَبَا ، حاشیہ ۵۹ ۔ ٦۰ ۔ ٦۱ ۔ ٦۲ ٦۳ ۔ یٰسین ، حاشیہ ۵۳ ، الشوریٰ ، حاشیہ ۳۸ ۔ لجاثیہ ، حاشیہ ۳۰ ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :51 مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے ۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے ۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:52) یوم۔ ای اذکر یوم۔ یقول۔ ای یقول اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ نادوا۔ امر۔ جمع مذکر حاضر۔ نداء مصدر۔ (مفاعلہ) ن۔ دی مادہ۔ تم پکارو۔ تم بلائو۔ زعمتم۔ ای زعمتم انہم شرکائی یا نادوا الذین زعمتم شرکائی۔ جن کو تم میرے شریک خیال کرتے تھے۔ فدعوہم۔ پس وہ انہیں پکاریں گے۔ ضمیر فاعل جمع مذکر غائب مشرکین وکافرین کے لئے ہے۔ اور ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب شرکاء کے لئے ہے۔ موبقا۔ وبق یبق (ضرب) وبق یبق (سمع) وبوق موبق۔ وبوق ہلاک ہونا۔ موبق ہلاکت کی جگہ۔ قید خانہ۔ دوچیزوں کے درمیان حائل ہونے والی چیز۔ یہاں مراد جہنم کا خاص درجہ ہے۔ وجعلنا بینہم موبقا۔ اور ہم مشرکوں اور ان کے باطل معبودوں کے درمیان ایک آڑ حائل کردیں گے (آڑ سے یہاں مراد جہنم ہے) اور جگہ قرآن مجید میں ہے اویوبقہن بما کسبوا (42 : 34) یا ان کے اعمال کے سبب ان کو تباہ کر دے۔ مواقعوھا۔ مواقعو۔ مضاف ھا مضاف الیہ۔ مواقعو اصل میں مواقعون تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون ساقط ہوگیا۔ مواقعۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ گرنے والے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب النار کے لئے ہے۔ (وہ خیال کریں گے کہ) وہ اس (آگ ) میں گرنے والے ہیں۔ مصرفا۔ اسم ظرف۔ صرف یصرف (ضرب) کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹا دینا۔ یا ایک چیز کو دوسری چیز سے بدل دینا۔ مصرف۔ لوٹنے کی جگہ، بچنے کا راستہ، نجات کی جگہ۔ اس سے باب تفعیل سے تصریف بھی بمعنی صرف کے ہے لیکن اس میں تکثیر کے معنی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً وتصریف الریاح (2: 164) ہوائوں کے رخ کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دینا۔ اور وصرفنا الایات (46:127) اور آیات کو ہم نے لوٹا لوٹا کر بیان کردیا۔ ولقد صرفنا فی ھذا القران من کل مثل۔ ای ولقد صرفنا من کل مثل للناس فی ھذا القران۔ ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں طرح طرح سے بیان کی ہیں۔ جدلا۔ باب سمع سے مصدر ہے جس کے معنی سخت جھگڑنے کے ہیں۔ جدل اسم بھی ہے سخت جھگڑا۔ باب مفاعلۃ سے بمعنی جھگڑنا۔ بحث کرنا جس میں فریقین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید میں آیا ہے وجادلہم بالتیھی احسن۔ (16:25) اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ اور الذین یجادلون فی ایت اللہ (40:35) جو لوگ خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ آیت ہذا میں الانسان سے مراد نافرمان اور سرکش انسان ہے۔ اکثر۔ بہت زیادہ۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ یعنی دوسری چیزوں سے ای ان جدل الانسان اکثر من جدل کل شیئ۔ یعنی انسان ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کجا کہ ان کی مدد کرسکیں اور ان کے کسی کام آسکیں5 یعنی ان کافروں اور ان لوگوں کے درمیان جنہیں وہ دنیا میں اپنا معبود سمجھتے تھے۔6 جس سے ان کا ایک دوسرے جس سے ان کا ایک دوسرے تک پہنچنا ممکن ہی نہ رہے گا حضرت انس فرماتے ہیں کہ وہ خون اور پیپ سے بھری ہوئی ایک گہری خندق ہوگی اور حسن فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سخت عداوت ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : غیر اللہ کو پکارنا شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہے کہ لوگ غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قیامت کے دن انجام۔ غیر اللہ کو پکارنے والوں کو قیامت کے دن رب ذوالجلال آواز دے گا۔ تم جن کو میرا شریک سمجھ کر پکارتے تھے۔ آج وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو انہیں بلاؤ۔ مشرکین آواز پہ آواز دیں گے لیکن دنیا میں جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر ان کے حضور قیام، رکوع، سجدہ، اعتکاف کرتے، ہاتھ جوڑتے اور نذرانہ پیش کرتے تھے۔ وہ ان کو کچھ جواب نہ دیں گے۔ جب ان کو آواز پہ آواز دے رہے ہوں گے تو اچانک جہنم ان کے سامنے کردی جائے گی۔ اسے دیکھتے ہی مشرکین کو یقین ہوجائے گا کہ وہ جہنم میں پھینکے جانے والے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا۔ جہنم کی آگ گمراہ پیروں اور مریدوں کے درمیان اس لیے حائل کردی جائے گی تاکہ ان کے دکھ میں اور اضافہ ہوجائے۔ کیونکہ وہ تو امید لگائے بیٹھے تھے کہ مشکل کشاؤں کو اس لیے ہمارے قریب کیا گیا ہے تاکہ وہ ہماری مدد کرسکیں۔ جب وہ اپنی امیدوں میں خوش، خوش دکھائی دیں گے تو اچانک ان کے درمیان جہنم کی آگ کھڑی کر کے گمراہ پیروں اور مریدوں کو آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ البتہ جن بزرگوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو شرک و بدعت سے منع کیا لیکن ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کے مزارات کو عبادت گاہ بنالیا ایسے بزرگوں کو جہنم سے بچاکر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِی کَانَتْ فِی قَوْمِ نُوحٍ فِی الْعَرَبِ بَعْدُ ، أَمَّا وُدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَۃِ الْجَنْدَلِ ، وَأَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِہُذَیْلٍ ، وَأَمَّا یَغُوثُ فَکَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِی غُطَیْفٍ بالْجُرُفِ عِنْدَ سَبَا، وَأَمَّا یَعُوقُ فَکَانَتْ لِہَمْدَانَ ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحَمِیْرِ ، لآلِ ذِی الْکَلاَعِ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِینَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ ، فَلَمَّا ہَلَکُوا أَوْحَی الشَّیْطَانُ إِلَی قَوْمِہِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِہِمُ الَّتِی کَانُوا یَجْلِسُونَ أَنْصَابًا، وَسَمُّوہَا بِأَسْمَاءِہِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتّٰی إِذَا ہَلَکَ أُولَءِکَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ )[ رواہ البخاری : باب (وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ )] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جن بتوں کی پوجا نوح (علیہ السلام) کی قوم کیا کرتی تھی بعد میں انہیں لوگ عرب میں لے آئے۔ ودّ کو دومۃ الجندل والوں نے اپنا معبود بنا لیا اور سواع کو ھذیل والوں نے، یغوث کو مراد قبیلے والوں نے اور ان کے بعد بنی غطیف نے سبا بستی میں جرف مقام پر اور یعوق کو ہمدان والوں نے اور نسر کو قبیلہ حمیر والوں نے، جوذی الکلاع کی اولاد تھے اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تمام نام نوح (علیہ السلام) کی قوم کے برگزیدہ لوگوں کے تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو القاء کیا۔ انہوں نے ان کے مجسموں کو اس جگہ پر نصب کیا، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے اور ان کے نام نیک لوگوں کے ناموں کی نسبت سے رکھ دیئے گئے، پہلے لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے جبیہ لوگ مرگئے تو ان کے بعدوالوں نے ان مورتیوں کی عبادت شروع کردی۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا کہ اپنے مشکل کشاؤں کو بلاؤ۔ ٢۔ جہنم سے مجرم بچ نہیں پائیں گے۔ ٣۔ مشرک اپنے معبودوں کو بلائیں گے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مشرکوں کو حکم ہوگا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ : ١۔ اس دن اللہ فرمائے گا بلاؤ ! میرے شرکاء کو جن کو تم میرا شریک سمجھتے تھے۔ وہ انہیں بلائیں گے تو وہ جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف : ٥٢) ٢۔ پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تم شریک تصوّر کرتے تھے۔ (الانعام : ٢٢) ٣۔ اس دن ہم انہیں آواز دیں گے کہ میرے شریک کہاں ہیں ؟ جنہیں تم شریک بناتے تھے۔ (القصص : ٦٢) ٤۔ کیا ان کے شرکاء ہیں تو وہ اپنے شریکوں کو لائیں اگر وہ سچے ہیں۔ (القلم : ٤١) ٥۔ قیامت کے دن ظلم کرنے والوں اور ان کے ہم جنس اور جن کی وہ پوجا کرتے تھے سب کو جمع کیا جائے گا۔ (الصٰفٰت : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لوگ اب ایک ایسی عدالت میں کھڑے ہوں گے جس میں کوئی دعویٰ بغیر دلیل کے مسموع نہیں ہے۔ اللہ ان سے مطالبہ کرے گا کہ لائیے وہ شرکاء جو تم میرے ساتھ قرار دیتے تھے۔ حکم ہوگا جائو ان کو بلا کر لائو۔ یہ لوگ اپنی حماقت میں اور مدہوشی میں پکارنے لگیں گے لیکن ان کے شرکاء ظاہر ہے کہ کوئی جواب نہ دیں گے۔ وہ خود مخلوق ہوں گے اور قیامت کے میدان میں نہ اپنی کسی چیز اور نہ دوسروں کے لئے کسی چیز کے مالک ہوں گے۔ خود خوفزدہ ہوں گے۔ اللہ ان شریک کرنے والوں اور ان کے شریکوں کے درمیان ایک ہلاکت کا گڑھا پیدا کردیں گے جس کو کوئی بھی پار نہیں کرسکے گا اور یہ گڑھا آگ کا ہوگا۔ وجعلنا بینھم موبقاً (٨١ : ٢٥) ” ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کردیں گے۔ “ یہ مجرم اب اگلے مرحلے کو دیکھیں گے۔ ہی خوف و ہراس میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ان کو آگ نظر آئے گی اور ان کو ہر لحظہ اس میں پڑنے کا خطرہ ہوگا ۔ عذاب کا یہ انتظار کس قر شدید ہوتا ہے۔ جب کوئی یہ توقع کرے کہ ابھی آنے والا ہے اور اب ہمیں اس سے نجات پانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ یَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَکَآءِ یَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْھُمْ ) اور اس دن کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ کا مشرکین سے فرمان ہوگا کہ تم انہیں پکارو جنہیں تم نے میرا شریک بنا رکھا تھا اس پر وہ انہیں پکاریں گے یعنی ان سے کہیں گے کہ ہماری مدد کرو۔ (فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَھُمْ ) (سو وہ ان کا جواب نہ دیں گے) یعنی مدد کرنے کے لیے ہاں نہ کریں گے۔ وہ خود اپنی ہی مصیبت میں مبتلا ہوں گے کسی کی مدد کرنے کی کیا مجال ہوگی۔ (وَ جَعَلْنَا بَیْنَھُمْ مَّوْبِقًا) اور ہم ان کے درمیان ایک آڑ بنا دیں گے جس کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہنچ بھی نہ سکیں گے مدد کرنا تو درکنار (وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ ) (اور مجرمین دوزخ کو دیکھیں گے) (فَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ مُّوَاقِعُوْھَا) (سو وہ یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں) (وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْھَا مَصْرِفًا) (اور وہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے) یعنی شرک کرنے والوں اور شرک کرانے والوں کا انجام یہ ہوگا کہ یہ سب دوزخ میں گرجائیں گے اور کوئی کسی کی مدد نہ کرسکے گا۔ فائدہ : لفظ (مَوْبقًا) وبق یبق سے ظرف کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے ہلاک ہونے کی جگہ، اگر لغوی معنی لیاجائے تو مطلب یہ ہوگا کہ مشرکین ان لوگوں کو پکاریں گے جنہیں اللہ کا شریک بنایا تھا ان کے پکارنے پر وہ انہیں جواب نہ دیں گے اور وہیں ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ ہوگی یعنی دوزخ موجود ہوگی جس میں دونوں جماعتیں گرجائیں گی موبق کا ترجمہ جو آڑ سے کیا گیا ہے یہ ابن الاعرابی سے منقول ہے صاحب معالم التنزیل ابن الاعرابی سے نقل کرتے ہیں کل حاجزبین شیئین فھو موبق انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ موبق دوزخ میں ایک وادی کا نام ہے اور حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ موبق دوزخ میں ایک آگ کی نہر ہے جو اس کے کنارے پر بہتی ہے اس میں بڑے بڑے سانپ ہیں جیسے کالے رنگ کے خچر ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ خدا کی اطاعت میں ابلیس اور اس کی ذریت کو شریک بنانے والوں کے لیے تخویف اخروی ہے، ان لوگوں نے شیطانی وسوسوں میں آخر غیر اللہ کی عبادت و پکار شروع کردی۔ اللہ کے نیک بندوں کو کارساز اور متصرف و مختار سمجھ کر حاجات و مشکلات میں غائبانہ طور پر پکارنے لگے اور ان کو خدا کے یہاں شفیع غالب سمجھ لیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بطور تبکیت و توبیخ فرمائے گا کہ دنیا میں جن کو تم میرا شریک بناتے تھے اور ان کو سفارشی سمجھتے تھے، آج ان کو بلاؤ تاکہ وہ تمہیں میرے عذاب سے چھڑا لیں، اس پر مشرکین اپنی عادت قدیمہ کے مطابق اپنے معبودوں کو مدد کے لیے پکاریں گے مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آئے گا۔ ادعوھم الیوم ینقذونکم مما انتم فیہ (ابن کثیر ج 3 ص 90) ھؤلاء المشرکین الذین اتخذوا من دون اللہ الھۃ کالملئکۃ و عیسیٰ دعوا ھؤلاء فلم یستجیبوا لھم (کبیر ج 5 ص 730) ۔ ” و جعلنا بینھم موبقا “ موبق، و بوق بمعنی ہلاکت سے اسم ظرف ہے یعنی جائے ہلاکت اور اس سے مراد جہنم ہے۔ ” بینھم “ کی ضمیر مشرکین اور ان معبودین کی طرف راجع ہے جو اپنی عبادت پر راضی تھے جیسے شیاطین اور جھوٹے پیر گدی نشین۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں فریق عذاب جہنم میں شریک ہوں گے۔ ای مھلکا یشترکون فیہ وھو النار (روح ج 15 ص 298) ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ موبق جہنم میں ایک وادی کا نام ہے اور مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور معبودین (جو اپنی عبادت پر راضی نہیں تھے مثلا فرشتے، انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام) کے درمیان جہنم کی وادی حائل ہوجائے گی اور مشرکین اس میں گرادئیے جائیں گے۔ وحصل بین اولئک الکفار و بین الملئکۃ و عیسیٰ (علیہ السلام) ھذا الموبق وھو ذالک الوادی فی جھنم (کبیر ج 5 ص 730) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ تعالیٰ نے شریک کرنے والوں سے فرمائے گا جن کو میرا شریک سمجھا کرتے تھے ان کو آج اپنی حمایت کے لئے پکارو پس وہ مشرک ان کو پکاریں گے سو وہ شریک ان مشرکوں کو کوئی جواب ہی نہیں دیں گے اور ہم ان کافروں کی اور ان شرکا کے درمیان ایک مہلک آڑحائل کردیں گے۔ یعنی قیامت میں ایسا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اہل شرک کو حکم دے گا کہ جن کو تم نے میرا شریک سمجھ رکھا تھا ان کو پکارو تاکہ آج وہ کچھ تمہاری مدد کریں اور تم کو عذاب سے بچائیں یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ اپنی پریشانی میں مبتلا ہوں گے ان کو جواب ہی کیا دیتے پھر اللہ تعالیٰ ایک مہلک اور خطرناک آڑ حائل کردیں گے تاکہ ان کی امداد سے بالکل مایوس ہوجائیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی خندق ہے آگ سے بھری۔ 12