Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 59

سورة الكهف

وَ تِلۡکَ الۡقُرٰۤی اَہۡلَکۡنٰہُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَ جَعَلۡنَا لِمَہۡلِکِہِمۡ مَّوۡعِدًا ﴿٪۵۹﴾  20

And those cities - We destroyed them when they wronged, and We made for their destruction an appointed time.

یہ ہیں وہ بستیاں جنہیں ہم نے ان کے مظالم کی بنا پر غارت کردیا اور ان کی تباہی کی بھی ہم نے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ... And these towns, We destroyed them when they did wrong. This refers to earlier nations in times past; `We destroyed them because of their stubborn disbelief.' ... وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِدًا And We appointed a fixed time for their destruction. `We appointed for them a set time limit, not to be increased or decreased. The same applies to you, O idolators, so beware or what happened to them will happen to you too, for you have rejected the noblest Messenger and greatest Prophet, and you are not dearer to Us than them, so fear My punishment and wrath.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انھیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انھیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہوجاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہوگیا۔ پھر انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنادیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہوجائے گی اور تم اپنے کفر وعناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو تم سے پہلی قوموں کا ہوچکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] ان تباہ شدہ بستیوں سے مراد وہ بستیاں ہیں جن پر اہل مکہ کا گذر ہوتا رہتا تھا اور وہ ان کی تباہی کے آثار بچشم خود دیکھ سکتے تھے اور یہ بستیاں قوم عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب (علیہم السلام) کی تھیں، اور قریش کو بتایا یہ جارہا ہے کہ ان لوگوں کو بھی ہم نے ان کی نافرمانی پر یکدم ہی ہلاک نہیں کر ڈالا تھا بلکہ ان کی ہلاکت کے لیے بھی ایک معین وقت مقرر تھا اسی طرح اگر ابھی تک تمہیں عذاب سے دو چار نہیں ہونا پڑا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر تمہارے یہی کرتوت رہے تو تم عذاب سے بچ سکو گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَهْلَكْنٰهُمْ ۔۔ : مراد ہیں سبا، ثمود، مدین اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیاں، جن کی سرگزشت سے عرب کے تمام لوگ واقف تھے اور جن پر قریش کا اپنے سفروں میں آتے جاتے ہمیشہ گزر ہوتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًا۝ ٥٩ۧ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) اور یہ بستیوں والے گزشتہ لوگ جن کی ہلاکت کے قصے مشہور ہیں جب انہوں نے شرک کیا تو ہم نے ان کو ہلاک کردیا، اور ہم نے انکے ہلاک ہونے کے لیے وقت مقرر کیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا) اَحقاف میں آباد قوم عاد کے افراد ہوں یا علاقۂ حجر کے باشندے اصحاب الایکہ ہوں یا عامورہ اور سدوم کے باسی سب اسی قانونِ الٰہی کے مطابق ہلاکت سے دو چار ہوئے۔ (وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا) وعدے کے اس طے شدہ وقت سے پہلے کسی قوم یا بستی پر کبھی کوئی عذاب نہیں آیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56. The ruined habitations were of Saba, Thamud, Midian and the people of Prophet Lot, which were visited by the Quraish during their trade journeys, and which were quite well known to other Arabs also.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :56 اشارہ ہے سبا اور ثمود ور مدین اور قوم لوط کے اجڑے دیارؤں کی طرف جنہیں قریش کے لوگ اپنے تجارتی سروں میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے اور جن سے عرب کے دوسرے لوگ بھی خوب واقف تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مراد ہیں سباء، محمود، مدین اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیاں جن کی سرگزشت سے عرب کے تمام لوگ واقف تھے اور جن پر اپنے سفروں میں آتے جاتے قریش کا ہمیشہ گزر ہوتا تھا۔5 تو اے کفار قریش تمہیں بھی ڈرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ آخر کار تمہارا بھی وہی حشر ہو جو ان بستیوں کا ہوا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : اوپر ذکر فرمایا کہ کافر اپنے مال و جاہ پر مغرور رہتے اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر آنحضرت سے کہتے کہ ان کو اپنے پاس نہ بٹھائو تو ہم بیٹھیں اس پر دو بھائیوں کا قصہ بیان فرمایا اور پھر دنیا کی مثال بیان کی اور بتایا کہ ابلیس اپنے غرور کے سبب ہی ہلاک ہوا۔ اب خضر اور موسیٰکا قصہ بیان فرما کر یہ سمجھایا کہ اللہ کے بندے اگر بہتر بھی ہوں تو بھی اپنے کو کسی سے بہتر نہیں سمجھتے۔ (کذا فی الموضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس کفر کا موجب ہلاک ہونا ثابت ہوا۔ 4۔ اوپر روسا کفار کی اس درخواست کی تقبیح تھی کہ ہماری مجلس تعلیم میں فقراء مسلمین نہ رہنے پاویں آگے موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک قصہ سے اس تقبیح کی زیادہ توضیح ہے کہ انہوں نے تو اپنے چھوٹے کو بعض خاص علوم میں استاد بنانے سے بھی عار نہیں فرمائی۔ اور تم کو ان غریبوں کے شریک تعلیم ہونے سے عار آتی ہے۔ و نیز اس مقصود کے ساتھ اس قصہ میں آپ کی نبوت پر بھی دلالت ہوگئی جس کی وجہ ظاہر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لہٰذا ان لوگوں کو چاہئے کہ اس مہلت سے دھوکہ نہ کھائیں۔ ان کی مہلت بھی ختم ہونے ہی والی ہے۔ اللہ کی سنت اپنا کام کر رہی ہے وہ اٹل ہے اور اللہ جو معیاد مقرر کرتا ہے وہ آ کر رہتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ تِلْکَ الْقُرآی اَھْلَکْنٰھُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا) (اور ان بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا) اس سے سابقہ امتیں مراد ہیں، جو حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کردی گئیں چونکہ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور اہل مکہ ان میں سے بعض اقوام سے واقف بھی تھے شام کو جاتے ہوئے ہلاک شدہ بستیوں پر گزرتے تھے اس لیے تِلْکَ الْقُرآی فرمایا جس میں عہد ذہنی کے طور پر ان بستیوں کی طرف اشارہ فرما دیا۔ (وَ جَعَلْنَا لِمَھْلِکِھُمْ مَّوْعِدًا) (اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے وقت معین مقرر کر رکھا تھا) وہ اسی کے مطابق ہلاک ہوئے پس جس طرح وہ اپنے اپنے وقت پر ہلاک ہوئے اے اہل مکہ تم بھی اپنے مقررہ وقت پر مبتلائے عذاب ہوگے تمہارے جلدی مچانے سے عذاب جلد نہ آئے گا اور جب اپنے مقرر وقت پر آئے گا تو موخر نہ ہوگا۔ چناچہ غزوہ بدر کے موقع پر یہ لوگ مقتول ہوئے قیدی ہوئے ذلیل ہوئے اور آخرت کا عذاب تو بہرحال ہر کافر کے لیے ضروری ہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59 اور یہ ہیں وہ بستیاں کہ جب ان کے رہنے والوں نے شرارت اور ظلم کا شیوہ اختیار کیا تو ہم نے ان بستیوں کو ہلاک و برباد کردیا اور ان کے بھی ہلاکک ہونے کا ایک وقت ہم نے مقرر اور معین کردیا تھا مراد کعبہ کے آس پاس کی بستیاں ہیں عاد وثمود وغیرہ وہاں بھی یہی قاعدہ برتا گیا کہ وہ لوگ پیغمبروں سے عذاب کا مطالبہ کرتے رہے لیکن عذاب کا جو وقت مقرر ہوچکا تھا اس سے پہلے عذاب نہیں آیا اور تاخیر ہونے کی وجہ سے عذاب ان پر سے ٹلا نہیں اسی طرح کفار عرب بھی عذاب کی تاخیر سے یہ قیاس نہ کریں کہ عذاب نہیں آئے گا۔