Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 6

سورة الكهف

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا ﴿۶﴾

Then perhaps you would kill yourself through grief over them, [O Muhammad], if they do not believe in this message, [and] out of sorrow.

پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do not feel sorry because the Idolators do not believe Allah consoles His Messenger for his sorrow over the idolators because they would not believe and keep away from him. He also said: فَلَ تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَتٍ So destroy not yourself in sorrow for them. (35:8) وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ And grieve not over them. (16:127) لَعَلَّكَ بَـخِعٌ نَّفْسَكَ أَلاَّ يَكُونُواْ مُوْمِنِينَ It may be that you are going to kill yourself with grief, that they do not become believers. (26:3) meaning, maybe you will destroy yourself with your grief over them. Allah says: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى اثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُوْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ ... Perhaps, you would kill yourself in grief, over their footsteps, because they believe not in this narration. meaning the Qur'an. ... أَسَفًا in grief. Allah is saying, `do not destroy yourself with regret.' Qatadah said: "killing yourself with anger and grief over them." Mujahid said: "with anxiety." These are synonymous, so the meaning is: `Do not feel sorry for them, just convey the Message of Allah to them. Whoever goes the right way, then he goes the right way only for the benefit of himself. And whoever goes astray, then he strays at his own loss, so do not destroy yourself in sorrow for them.' This World is the Place of Trial Then Allah tells us that He has made this world a temporary abode, adorned with transient beauty, and He made it a place of trial, not a place of settlement. So He says: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الاَْرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلً

مشرکین کی گمراہی پر افسوس نہ کرو مشرکین جو آپ سے دور بھاگتے تھے ، ایمان نہ لاتے تھے اس پر جو رنج و افسوس آپ کو ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کر رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ ان پر اتنا رنج نہ کرو ، اور جگہ ہے ان پر اتنے غمگین نہ ہو ، اور جگہ ہے ان کے ایمان نہ لانے سے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر ، یہاں بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو تو اپنی جان کو روگ نہ لگا لے اس قدر غم و غصہ رنج و افسوس نہ کر نہ گھبرا نہ دل تنگ ہو اپنا کام کئے جا ۔ تبلیغ میں کوتاہی نہ کر ۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے ۔ گمراہ اپنا برا کریں گے ۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے ۔ پھر فرماتا ہے دنیا فانی ہے اس کی زینت زوال والی ہے آخرت باقی ہے اس کی نعمت دوامی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس دنیا سے اور عورتوں سے بچو بنو اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا ۔ یہ دنیا ختم ہونے والی اور خراب ہونے والی ہے اجڑنے والی اور غارت ہونے والی ہے زمین ہموار صاف رہ جائے گی جس پر کسی قسم کی روئیدگی بھی نہ ہو گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم غیر آباد بنجر زمین کی طرف پانی کو لے چلتے ہیں اور اس میں سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے وہ خود کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی ۔ کیا پھر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں زمین اور زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں پس تو کچھ بھی ان سے سنے انہیں کیسے ہی حال میں دیکھے مطلق افسوس اور رنج نہ کر ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ رکھتے تھے اور ان کے اعراض و گریز سے آپ کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] آپ کو کفار مکہ کے ایمان نہ لانے کا افسوس :۔ جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی اس آیت میں انہی حالات کا اجمالی منظر پیش کیا گیا ہے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور کفار مکہ اپنی ساری قوتیں اسلام کے استیصال پر صرف کر رہے تھے ان حالات میں آپ کی انتہائی آرزو یہ تھی کہ ان سرداران قریش کو یا ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ اسلام لانے کی توفیق عطا فرما دے جس سے آپ کے سامنے بالخصوص دو فوائد تھے ایک یہ کہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں جو پیہم نافرمانیوں کی صورت میں یقیناً واقع ہوجاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہو اور مسلمانوں پر سختیوں میں کمی واقع ہوجائے۔ دن رات آپ کو یہی فکر لاحق رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کی ہدایت کی فکر میں آپ اپنے آپ کو ہلکان کرنا چھوڑ دیں اللہ خود اپنے دین کا محافظ ہے اس کی ان حالات پر کڑی نظر ہے اور وہی کچھ ہو کر رہے گا جو وہ چاہے گا آپ بس اپنا تبلیغ رسالت کا کام کرتے جائیے کسی کو ہدایت دینا اللہ کا کام ہے آپ کا نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ۔۔ : ” بَاخِعٌ“ ” بَخَعَ یَبْخَعُ نَفْسَہُ “ اس نے اپنے آپ کو غم سے مار ڈالا۔ ” لَعَلَّ “ کا لفظ محبوب چیز کے لیے بولا جائے تو ترجی، یعنی امید کرنا مراد ہوتا ہے اور ایسی چیز کے لیے بولا جائے جس کا خطرہ ہو تو اسے اشفاق یعنی ڈرنا کہا جاتا ہے، یہاں یہی مراد ہے۔ اس آیت سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر آپ اپنے آپ کو رنج و غم سے کیوں گھلا رہے ہیں ؟ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ تھا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ” بَاخِعٌ نَّفْسَكَ “ (اپنے آپ کو ہلاک کرلینے والے) کے الفاظ استعمال فرمائے۔ مزید دیکھیے سورة شعراء (٣) ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَہُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَھٰذِھِ الدَّوَابُّ الَّتِيْ تَقَعُ فِي النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَنْزِعُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ ، فَیَقْتَحِمْنَ فِیْھَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَاَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِیْھَا ) ” میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، جب اس نے اس کے اردگرد کو روشن کردیا تو پروانے اور اس قسم کے جانور اس آگ میں گرنے لگے۔ وہ اس میں گرتے تھے اور وہ شخص انھیں روکتا تھا اور وہ اس سے زبردستی آگ میں گھستے تھے۔ تو میں آگ سے بچانے کے لیے تمہاری کمروں کو پکڑنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گھستے ہو۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصي : ٦٤٨٣۔ مسلم : ١٦؍٢٢٨٤ ] مزید دیکھیے سورة فاطر (٨) ، نمل (٧٠) اور نحل (٢٧) ” عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ “ ان کے قدموں کے نشانات پر، یعنی ان کے پیچھے۔ ” اَسَفًا “ بہت زیادہ فکر و غم، یہ مفعول ہے، یعنی غم کی وجہ سے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۝ ٦ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ بخع البَخْعُ : قتل النفس غمّا، قال تعالی: فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ [ الكهف/ 6] حثّ علی ترک التأسف، نحو : فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ [ فاطر/ 8] . قال الشاعر : 40 ۔ ألا أيهذا الباخع الوجد نفسه«1» وبَخَعَ فلان بالطاعة وبما عليه من الحق : إذا أقرّ به وأذعن مع کراهة شدیدة تجري مجری بَخَعَ نفسه في شدته . ( ب خ ع ) البخع ( ف) کے معنی غم سے اپنے تیئں ہلاک ڈالنا کے ہیں ؟ اور آیت کریمہ : فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ [ الكهف/ 6] شاید تم عم وغصہ سے خود کو ہلاک کر ڈالو ۔۔۔۔۔۔ میں رنج وغم کے ترک کی ترغیب دی گئی ہے جیسا کہ آیت : فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ [ فاطر/ 8] میں ہے کہ ان پر حسرتوں کے باعث تہماری جان نہ نکل جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 40 ) الا ایھا الباخع الواجد نفسہ اے غم کی وجہ سے خود کو ہلاک کرنے والے بخع فلان بالطاعۃ فلان نے طاعت میں مبالغہ کیا ۔ بخع فلان بما علیہ من الحق فلاں نے سخت بیزاری کے ساتھ اپنے اوپر دوسرے کے حق کا اقرار کیا گویا یہاں سخت کرامت اور بیزاری کو خود کو ہلاک کرنے کے قائم مقام کردیا کیا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے أثر والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر/ 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی/ 16] . وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض . ( ا ث ر ) اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ { وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ } [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں { تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا } [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ { بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا } [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں أسِف الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف/ 55] أي : أغضبونا . ( ا س ف ) الاسف ۔ حزن اور غضب کے ممواعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ } ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) شاید آپ تو ان لوگوں کی وجہ سے اگر یہ لوگ اس قرآن کریم پر ایمان نہ لائے غم سے اپنی جان دے دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) تثلیث جیسے غلط عقائد کے جو بھیانک نتائج مستقبل میں نسل انسانی کے لیے متوقع تھے ان کے تصور اور ادراک سے رسول اللہ پر شدید دباؤ تھا۔ آپ خوب سمجھتے تھے کہ اگر یہ لوگ قرآن پر ایمان نہ لائے اور اپنے موجودہ مذہب پر ہی قائم رہے تو ان کے غلط عقائد کے سبب دنیا میں دجالیت کا فتنہ جنم لے گا جس کے اثرات نسل انسانی کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ یہی غم تھا جو آپ کی جان کو گھلائے جا رہا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4. This refers to the real cause of the anxiety of the Prophet (peace be upon him) at the time of the revelation of this Surah. It clearly shows that the Prophet (peace be upon him) did not grieve at the persecution from which he and his companions were suffering but at the deviation and moral degeneration of his people. What was consuming him was that, though he was trying to bring them out from their disgraceful state, they persisted in it. He was grieved because he was convinced that their deviation would inevitably lead them to destruction and scourge of Allah. Therefore he was working day and night to save them but it appeared that they were bent upon incurring the chastisement of Allah. The Prophet (peace be upon him) himself has described this state of his mind in a tradition to this effect: I may describe this thing in a parable. A person kindled a fire to spread light but the moths persist in falling over it to burn themselves alive. He tries to save them from the fire but the moths reduce his efforts to failure. The same is true of me and you. I hold you by your skirts to keep you away from the fire, but you are bent upon falling into it. (Bukhari, Muslim). Though apparently it is merely stated that it may be that you will consume your life for their sake out of sorrow, it also contains a sort of consolation for the Prophet (peace be upon him), as if to say: As you are not responsible for forcing them to believe, why should you consume yourself for their sake. Your only duty is to give good news and warning and not to turn people into believers. Therefore, you may go on carrying out your mission of giving good news to the believers and warning of the bad consequences to the disbelievers.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :4 یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں ، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی ۔ آپکو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے ۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے ۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے ۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے ، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے ۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو ۔ ( بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ۳ ) ۔ اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے ، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے ، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے ۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو ۔ جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کر دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ ٧:۔ تفسیر ابن جریر اور سیرۃ محمد ابن اسحاق میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس سورة کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے چند آدمیوں کو یہود کے پاس اس غرض سے بھیجا تھا کہ یہود کچھ مشکل باتیں قریش کو ایسی بتلا دیں جن کو قریش آنحضرت سے امتحان کے طور پر پوچھیں یہود نے تین باتیں بتلا کر یہ کہا کہ اگر ان باتوں کا جواب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے دیں تو جان لینا کہ وہ بلاشک سچے نبی ہیں ایک تو روح کا سوال تھا کہ روح کیا چیز ہے اور دوسرا یہ سوال تھا کہ وہ کون سے چند شخص ہیں جو دنیا میں جیتے جی غائب ہوگئے ہیں تیسرا یہ سوال تھا کہ وہ کون شخص ہے جس نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے جب یہود کے سکھلانے سے قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ باتیں پوچھیں تو آپ نے وحی کے بھروسہ پر یہ وعدہ کیا کہ کل تک ان باتوں کا جواب دے دوں گا انشاء اللہ کہنا آپ کو اس وعدہ کے وقت یاد نہ رہا اللہ تعالیٰ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بغیر انشاء اللہ کہنے کا وعدہ پسند نہیں آیا اس لیے پندرہ روز تک وحی نازل نہیں ہوئی وحی کے نازل نہ ہونے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت رنج ہوا آخر سولہ دن سورة بنی اسرائیل میں کی وہ آیت جس میں روح کا حال ہے اور یہ سورة جس میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا حال ہے یہ دونوں باتیں نازل ہوئیں ١ ؎۔ ان باتوں کو سن کر بھی جب قریش اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا رنج ہوا جس کا ذکر اس آیت میں ہے اس رنج کے دور کرنے کے لیے آخری آیت میں فرمایا کہ دنیا کے عیش و آرام کو اللہ تعالیٰ نے اسی امتحان کے لیے پیدا کیا ہے کہ بہت لوگ دنیا کی راحت کو اپنے پیدا ہونے کا مدار قرار دے کر آخرت سے مرتے دم تک بیخبر رہیں گے اور کچھ لوگ دنیا کے عیش و آرام کو ناپائیدار سمجھ کر عقبیٰ کی بہبودی کے کاموں میں لگے رہیں گے پھر اے رسول اللہ کے تمہارے رنج کے کرنے سے اللہ کے انتظام کے برخلاف تمام اہل مکہ کو کیونکر ہدایت ہوسکتی ہے صحیح بخاری ومسلم میں عمر وبن عوف (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنی امت کی تنگدستی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ میرے بعد ان کو دنیا کی راحت ملے اور وہ دنیا کی راحت میں پھنس کر پچھلی امتوں کی طرح ہلاک نہ ہو ٢ ؎۔ آخری آیت میں دنیا کی راحت کو جانچ کی چیز جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی جو حدیث ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی ایک دفعہ انشاء اللہ نہ کہنے سے رنج پہنچا تھا جنانچہ ایک روز کسی ذکر میں حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ اپنی نوے عورتوں سے مباشرت کروں گا تو نوے لڑکے خدا کی راہ میں لڑنے والے پیدا ہوں گے حضرت سیمان ( علیہ السلام) انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس لیے ایک ہی عورت کو حمل رہا وہ بھی کچا ہی ساقط ہوگیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر سلیمان ( علیہ السلام) انشاء اللہ کہتے تو ضرور نوے لڑکے پیدا ہوتے ٣ ؎۔ غرض آئندہ کی بات پر آدمی کو انشاء اللہ تعالیٰ کہنا ضرور ہے تاکہ اللہ کی مدد سے وہ بات پوری ہوجائے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٧١ ج ٣۔ ٢ ؎ تفسیر ہذاص ٣٦٨ ج ٢۔ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٧٨ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:6) فلعلک باخع لفسک۔ لعل۔ حرف مشابہ بفعل ہے۔ ک اس کا اسم۔ شاید تو۔ لعل۔ امید یا خوف پر دلالت کرنے کے لئے آتا ہے ان ان کان کی طرح ناصب ِ اسم اور رافع خبر ہے۔ امید کا رجوع کبھی متکلم کی طرف ہوتا ہے جیسے لعلنا نتبع السحرۃ (26:40) (اگر ہمارے جادوگر غالب آگئے تو ہمیں امید ہے کہ ہم ان ہی کی راہ پر رہیں گے) ۔ کبھی مخاطب کو امید دلانے کے لئے آتا ہے اس وقت امید کا رجوع مخاطب کی طرف ہوتا ہے مثلاً لعلہ یتذکر او یخشی (20: 44) پھر اس سے نرم گفتگو کرنا یہ امید رکھتے ہوئے کہ) شاید وہ نصیحت مان جائے یا ڈر ہی جائے۔ کبھی امید کا تعلق نہ متکلم سے ہوتا ہے نہ مخاطب سے بلکہ تیسرے شخص سے ہوتا ہے۔ جیسے آیت ہذا میں فلعلک باخع لفسک الا یکونوا مؤمنین۔ یعنی آپ کی حالت کو دیکھ کر لوگ یہ امید یا اندیشہ کرتے ہیں کہ آپ اپنی جان کھو دیں گے۔ اور جگہ اس کی مثال۔ فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک (11:12) یعنی لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ وحی کا کوئی حصہ ترک کردیں گے۔ باخع۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ بخع مصدر باب فتح۔ البخع کے معنی غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دالنا کے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے :۔ الا ایھا الباخع الوجد نفسہ۔ اے غم کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کرنے والے۔ علی اثارہم۔ اثارجمع اثر واحد۔ اثارہم مضاف مضاف الیہ۔ اثر۔ نشانی۔ علامت نشان قدم۔ جیسے فارتد اعلی اثارہما قصصا۔ (18:46) پھر دونوں اپنے قدموں کے نشان پر الٹے چلے۔ یہاں علی اثارہم۔ کے معنی ہیں من بعدہم ای من بعد تولیہم عن الایمان وتباعدہم منہ یعنی ان کے ایمان سے اعراض کرنے پر اور اس سے بعد پر۔ فلعلک باخع نفسک علی اثارہم۔ لوگ امید کرتے ہیں کہ آپ ان کے ایمان سے اعراض کے پیچھے غم سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ الحدیث۔ ای القران۔ اسفا۔ مفعول لہ ہے باخع کا اسف بمعنی افسوس کرنا۔ پچھتانا۔ ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث شرط فلعلک باخع نفسک جزائ۔ خبر الفظاً مقدم لائی گئی ہے لیکن معنی مؤخر ہے۔ الفاء جواب شرط کا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی رہتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ الیء پر آپ اپنے آپ کو رنج و غم سے کیوں گھلا رہے ہیں سا آیت سے انداز ہوسکتا ہے کہ ا آنحضرت کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے باخ نفسک (اپنے تئیں ہلاک کرلینے والے) کا لفظ استعمال کیا۔ اسی کیفیت کو آنحضرت نے خود ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ میری اور تم لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ تم پروانوں کی طرح آگ سے گر رہے ہو اور میں تمہاری بچانے کی کوشش کرنا ہوا (بخاری مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 6 تا 8 لعل شاید، توقع ہے۔ باخع ہلاک کنے والا۔ اثار پیچھے چھوڑ جانے والی نشانی۔ الحدیث بات چیت۔ اسف افسوس، کسی چیز کے نہ ہونے کا غم۔ زینۃ خوبصورتی، رونق۔ صعید صاف میدان، ریت، مٹی۔ جرز سرسبز زمین جو چٹیل میدان بن جائے۔ تشریح :- آیت نمبر 6 تا 8 اعلان نبوت کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن رات کفار و مشرکین کے سامنے دین اسلام کی سچائیوں اور آخرت کی ابدی زندگی کی راحتوں اور نہ ماننے والوں کے لئے شدید عذاب کی تبلیغ فرماتے تو وہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام کی صداقت پر ایمان لانے والوں کی طرح طرح سے اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ کفر و شرک میں زندگی گذارنے والے ایمان اور عمل صالح کو اختیار کر کے اپنی آخرت کو سنوار لیں لیکن دنیا کی ظاہری چمک دمک اور زیب وزینت کو سب کچھ سمجھنے والے آپ کی اطاعت قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئی فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے بنی کام کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سچی راہ دکھا دے اور اس پر چل کر اپنی زندگی کو دوسروں کے لئے ایک مثال بنا دے۔ اس کے بعد خود انسان کی اپنی عقل و سمجھ اور سعادت ہے کہ وہ حق و صداقت کا راستہ اختیار کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوارتا ہے یا بےسمجھی اور بد نصیبی سے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کرتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا کی ظاہری زیب وزینت اور خوبصورتی کو دیکھ کر اس کے دیوانے ہو رہے ہیں ان میں سے ایک چیز بھی باقی رہنے والی نہیں ہے۔ یہ پہاڑ، درخت، سرسبزی و شادابی اسی وقت تک ہے جب تک قیامت برپا نہیں ہوتی لیکن جب قیامت آجائے گی تو اس زمین پر سے ہر چیز کو ف نا کردیا جائے گا اور یہ دنیا ایک صاف چٹیل میدان کی طرح بن کر رہ جائیگی۔ انسان صرف اپنے اچھے یا برے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا ۔ پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ کون خوش نصیب ہے اور کون بد نصیب ہے۔ اس کے بعد اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اصحاب کہف بھی اگر دنیا کی زیب وزینت اور راحت و آرام میں لگے رہتے تو ان کو یہ عزت وسعادت نصیب نہ ہوتی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ وہ لوگ جو ان چند نوجوانوں کو مٹانا چاہتے تھے خود اس طرح سے مٹ گئے کہ ان کا وجود بھی باقی نہیں ہے یا وہ لوگ جو دنیا کی وقتی راحتوں میں لگ کر اللہ کو بھول گئے تھے آج لوگ ان کو جانتے تک نہیں لیکن وہ چند مخلص صاحب ایمان لوگ جنہوں نے دنیا کی راحت و آرام کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا اور اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنے گھر بار تک کو چھوڑ دیا تھا ان کا تذکرہ قیامت تک زندہ جاوید رہے گا۔ کفار مکہ کو بتایا جارہا ہے کہ ہمارے سچے نبی نے حق و صداقت کی ایک ایک بات کو پہنچا دیا ہے اب اگر وہ اصحاب کہف کی طرح اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں تو وہ آخرت کی راحتیں اور دنیا کا سکون حاصل کرسکیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے دین اسلام کی سچائیوں سے منہ پھیرا تو پھر دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہ جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کی ہرزہ سرائی اور کفر و شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غم زدہ ہونا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو دن رات بڑی دلسوزی اور محنت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ کی جان کے دشمن ہونے کے ساتھ کفر و شرک میں آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ اس قدر دل گرفتہ ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہوجائے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان دلاتے کہ اے نبی ! اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ایک ماننے اور اس کے ارشادات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو کیا آپ ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ کبھی آپ کی ان الفاظ کے ساتھ ڈھارس بندھائی جاتی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ کو ان پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ لہٰذا آپ انہیں نصیحت کرتے جائیں۔ آپ کو نصیحت کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (الغاشیہ : ٢١، ٢٢) آپ کو ان الفاظ کے ساتھ بھی تسلی دی گئی : ” کچھ لوگوں پر آپ جس قدر چاہیں محنت کرلیں وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ کفر و شرک اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے۔ ان کے لیے بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے۔ “ (البقرۃ : ٦۔ ٧) سورۃ کہف میں آپ کو اطمینان دلانے کے ساتھ لوگوں کے کفرو شرک کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ دنیا کی زیب وزینت میں محو ہو کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر جو آسائش اور زیب وزینت کا سامان پیدا کیا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ لوگوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کون دنیا کی آلائش سے بچ کر اچھے اعمال کرتا ہے۔ جہاں تک دنیا اور زمین کی زیب وزینت کا تعلق ہے بالآخر اللہ تعالیٰ سب کچھ نیست ونابود کرکے زمین کو چٹیل مید ان بنا دے گا۔ اگر کوئی چیز باقی رہنی ہے تو وہ انسان کے اچھے اور برے اعمال ہیں۔ ہر کسی کو اس کو اس کے اچھے اور برے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰیکَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ دیتا۔ “ (یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ ) مسائل ١۔ لوگوں کی آزمائش کے لیے زمین کو باعث رونق بنایا گیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن زمین کو چٹیل مید ان بنادیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیاکی حقیقت : ١۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٢۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٣۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٤۔ دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٥۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے، نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر معمولی فائدہ۔ (الرعد : ٢٦) ٦۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٧۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی کی طرح ہے۔ (یونس : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا (٨١ : ٦) ” اچھا تو اے نبی شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو ، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ “ یعنی تم رنج و ملال کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کردینا چاہتے ہو کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ حالانکہ ان لوگوں کا رویہ تو یہ ہے کہ آپ ان کے بارے میں کوئی رنج اور غم اپنے اوپر طاری نہ کریں۔ اب ان کو چھوڑ دیں۔ یہ اس دنیا میں گم ہیں اور اس دنیا میں جو سروسامان ہم نے پیدا کیا ہے ، وہ محض زیب وزینت کا سامان ہے۔ مال اور اولاد اور یہ ان لوگوں کے لئے امتحان اور آزمائش ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں کون اچھے اعمال کرتا ہے اور کون برے اعمال کرتا ہے۔ کون اس دنیا کی متاع کے لئے اپنے آپ کو مستحق ثابت کرتا ہے اور کون آخرت کے ساز و سامان کا خیال کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ان آیات کے بعد اصحاب کہف کا قصہ شروع ہونے والا ہے مشرکین اور یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طرح طرح کے سوال کیا کرتے تھے صحیح جواب پاتے تھے معجزات بھی دیکھتے تھے لیکن ایمان پھر بھی نہیں لاتے تھے۔ اصحاب کہف کا قصہ معلوم تو کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ ایمان پھر بھی نہ لائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے رنج ہونا ظاہر تھا اس لیے قصہ سنانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دے دی کہ آپ ان کے گمراہی پر جمع رہنے کی وجہ سے اپنی جان کو غمگین کرکے ہلاک نہ کریں آپ کے ذمہ پہنچانا ہے، منوانا آپ کے ذمہ نہیں ہے اس لیے پہلے ہی فرما دیا کہ شاید آپ ان کے پیچھے اپنی جان ہی کو ہلاک کردیں گے یعنی آپ ایسا نہ کریں یہ استفہام انکاری کے طور پر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک نہ کریں، اس میں لفظ شاید شک کے لیے نہیں ہے بلکہ محاورات میں جس طرح مخاطب کو قریب کرنے کے لیے بات کی جاتی ہے یہ اسی انداز کی بات ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب کچھ جانتا ہے اسے کسی بات میں شک نہیں ہے۔ آپ کو تسلی دینے کے بعد یہ بتایا کہ ہم نے دنیا میں جو کچھ پیدا فرمایا ہے یہ ظاہری زیب وزینت ہے اور ہم نے اسے اس لیے پیدا کیا کہ لوگوں کو آزمائیں کہ اس زندگی میں کون اچھے سے اچھے عمل کرتا ہے، اگر دنیا میں کشش نہ ہوتی تو امتحان ہی کیا ہوتا ؟ لوگ دنیا میں لگ کر اپنے خالق کا بھول گئے اور خالق کو جو پیغام اس کے رسولوں نے پہنچایا اس کی طرف بڑھنے میں چونکہ دنیا کا نقصان محسوس کرتے ہیں اس لیے حق جانتے ہوئے حق کو قبول نہیں کرتے حالانکہ یہ دنیا تھوڑی سی ہے تھوڑے دن کی ہے اور حق کی جو دعوت دی جا رہی ہے اس کے قبول کرنے پر ہمیشہ کی نعمتوں والی جاودانی زندگی ملے گی، اس عارضی دنیا پر جان نہ دیں یہ لہلہاتی ہوئی کھیتی کی طرح سے ہے آج ہری بھری ہے اور کل کو کچھ بھی نہیں، کھیتوں کا انجام تو ہمیشہ دیکھتے ہیں ایک دن وہ آنے والا ہے کہ زمین پر جو کچھ ہے کچھ بھی نہ رہے گا اور صاف میدان ہوجائے گا۔ سورة طٰہٰ میں فرمایا ہے (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (اور لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں سو آپ فرما دیجیے کہ میرا رب ان کو بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک ہموار میدان کردے گا کہ جس میں تو نہ ناہمواری دیکھے گا اور نہ تو کوئی بلندی دیکھے گا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ یہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ ” لعل “ یہاں ترجی کے لیے نہیں بلکہ اشفاق کے لیے ہے۔ کیونکہ لعل محبوب چیز کے ساتھ ترجی کے لیے ہوتا ہے اور محذور (یعنی جس سے مخاطب کو ڈرانا اور روکنا منظور ہو) کے ساتھ اظہار شفقت کے لیے۔ یہاں دوسری شق ہے اللہ تعالیٰ نے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکوں کے پیچھے جان مارنے سے منع فرمایا ہے (بحر ج 6 ص 97) ۔ آیت کا ترجمہ اس طرح ہوگا۔ کہیں آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک نہ کرلیں۔ ” اسفا “ یہ ” باخع “ کا مفعول لہ ہے اور اسف کے معنی شدت غم کے ہیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ مشرکین کفر و انکار سے باز آجائیں اور ایمان لے آئیں اور مسئلہ توحید کو مان لیں۔ مگر آپ کی امکانی کوششوں اور دعوت و تبلیغ کے انتہائی ناصحانہ اور موثر انداز کے باوجود کفر و انکار اور آپ کی مخالفت میں اور آگے بڑھ گئے۔ اس سے آپ کو محض ازراہ شفقت بہت زیادہ افسوس اور رنج و غم دامنگیر ہوا۔ یہاں تک کہ آپ ہر وقت متفکر اور غمگین رہنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کیلئے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ اور آپ کو تسلی دی کہ آپ نے فریضہ تبلیغ و انذار وتبشیر کا حق ادا کردیا۔ اور میرا پیغام توحید احسن طریق سے مشرکین تک پہنچا دیا۔ اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو آپ اس کا غم نہ کریں کیونکہ دولت ایمان سے ان کو سرفراز کرنا یہ نہ آپ کا فریضہ ہے نہ آپ کے اختیار وقدرت میں ہے المقصود ان یقال للرسول لا یعطم حزنک و اسفک بسبب کفرھم فنا بعثنک منذرا و مبشرا فاما تحصیل الایمان فی قلوبھم فلا قدرۃ لک علیہ والغرض تسلیۃ الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنہ (کبیر ج 5 ص 677) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 سو اے پیغمبر شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس قرآن کریم پر ایمان نہ لائے تو غم کھاتے کھاتے اپنی جان دے دیں گے۔ اپنے پیغمبر کو تسلی دی کہ اس قدر غم نہ کیجیے اور کڑھئے نہیں کہ آپ کی زندگی خطرے میں پڑجائے یہ عالم دار الابتلا ہے یہاں اقرار اور انکار سب ہی چلتا ہے آپ کا کام تبلیغ کرنا ار ان تک صحیح چیز کا پنچا دینا ہے۔ باقی یہ مانتے ہیں یا نہیں مانتے اس کی فکر آپ کو نہ ہونی چاہئے۔ چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے ساتھ بہت شغف اور بےانتہا محبت تھی اس لئے آپ کو لوگوں کے ایمان نہ لانے پر بہت رنج ہوتا تھا اور آپ بےچین رہا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو سمجھایا کہ تم افسوس کرتے کرتے کہیں اپنی جان کھودو گے اتنا غم نہ کھائو ایمان پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو سمجھایا کہ تم افسوس کرتے کرتے کہیں اپنی جان کھودو گے اتنا غم نہ کھائو ایمان ہماری مشیت پر موقوف ہے۔