Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 74

سورة الكهف

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ ۙ قَالَ اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا ﴿۷۴﴾

So they set out, until when they met a boy, al-Khidh r killed him. [Moses] said, "Have you killed a pure soul for other than [having killed] a soul? You have certainly done a deplorable thing."

پھر دونوں چلے ، یہاں تک کہ ایک لڑکے کو پایا اس نے اسے مار ڈالا ، موسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا؟ بیشک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of killing the Boy Allah tells: فَانطَلَقَا ... Then they both proceeded, means, after the first incident, ... حَتَّى إِذَا لَقِيَا غُلَمًا فَقَتَلَهُ ... till they met a boy, and he (Khidr) killed him. It has been stated previously that this boy was playing with other boys in one of the towns, and that Al-Khidr deliberately singled him out. He was the finest and most handsome of them all, and Al-Khidr killed him. When Musa, peace be upon him, saw that he denounced him even more fervently than in the first case, and said hastily: ... قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً ... He (Musa) said: Have you killed an innocent person, meaning, a young person who had not yet committed any sin or done anything wrong, yet you killed him ... بِغَيْرِ نَفْسٍ ... without Nafs, with no reason for killing him. ... لَّقَدْ جِيْتَ شَيْيًا نُّكْرًا Verily, you have committed a thing Nukr! meaning, something that is clearly evil. قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا

حکمت الہی کے مظاہر فرمان ہے کہ اس واقعہ کے بعد دونوں صاحب ایک ساتھ چلے ایک بستی میں چند بچے کھیلتے ہوئے ملے ان میں سے ایک بہت ہی تیز طرار نہایت خوبصورت چالاک اور بھلا لڑکا تھا ۔ اس کو پکڑ کر حضرت خضر نے اس کا سر توڑ دیا یا تو پتھر سے یا ہاتھ سے ہی گردن مروڑ دی بچہ اسی وقت مر گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور بڑے سخت لہجے میں کہا یہ کیا واہیات ہے ؟ چھوٹے بےگناہ بچے کو بغیر کسی شرعی سبب کے مار ڈالنا یہ کون سی بھلائی ہے ؟ بیشک تم نہایت منکر کام کرتے ہو ۔ الحمد للہ تفسیر محمدی کا پندرھواں پارہ ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔ آمین ۔ ثم آمین

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 غلام سے مراد بالغ جوان بھی ہوسکتا ہے اور نابالغ بچہ بھی۔ 74۔ 2 نکرا، فظیعامنکرا لا یعرف فی الشرع، ، ایسا بڑا برا کام جس کی شریعت میں گنجائش نہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں انکر من الامر الاول پہلے کام (کشتی کے تختے توڑنے) سے زیادہ برا کام۔ اس لئے کہ قتل، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ ممکن نہیں۔ جبکہ کشتی کے تختے اکھیڑ دینا، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو علم شریعت حاصل تھا، اس کی رو سے حضرت خضر کا یہ کام بہرحال خلاف شرع تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اعتراض کیا اور اسے نہایت برا کام قرار دیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] خضر نے نوجوان کو کیوں مارا ؟ :۔ یہ ایک خوبصورت نوجوان لڑکا تھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کی گردن کو مروڑا۔ حتیٰ کہ اس کی جان نکل گئی۔ اب ظاہر ہے کہ ایک شریعت کا علمبردار اولوالعزم پیغمبر ایسی بات کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ ؟ پہلے بھی ایک کام سیدنا موسیٰ کی طبیعت کے خلاف ہوچکا تھا اور یہ کام پہلے کام سے بھی سخت تر تھا لہذا سیدنا موسیٰ رہ نہ سکے اور یہ اعتراض کر ہی دیا بلکہ ہلکی سی ملامت بھی کردی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَانْطَلَقَا ۪حَتّىٰٓ اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکا جوان تھا، اگرچہ وہ اپنے جیسے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ کیونکہ گزشتہ حدیث میں ہے کہ وہ کافر تھا جب کہ اس کے والدین مومن تھے، اگر وہ بچہ ہوتا تو اسے کافر نہ کہا جاتا، کیونکہ مومنوں کی اولاد کو بچپن میں کافر نہیں کہا جاتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اسے کسی کو قتل نہ کرنے کی وجہ سے بےگناہ کہا ہے، بچہ ہونے کی وجہ سے نہیں۔ اس لیے خضر (علیہ السلام) کا اللہ کے حکم سے ایک کافر کو قتل کرنا کوئی جائے اعتراض نہیں۔ ” غلام “ کا لفظ بچے کے علاوہ جوان اور ادھیڑ عمر پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث معراج میں موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” ھٰذَا الْغُلَامُ “ کہا ہے۔ [ بخاری : ٣٢٠٧ ] 3 بعض حضرات نے اس سوال کے جواب میں کہ خضر (علیہ السلام) کے لیے اس لڑکے کا قتل کیونکر جائز تھا، خضر (علیہ السلام) کو فرشتوں میں سے قرار دیا ہے جو اللہ کے حکم سے تکوینی امور سرانجام دیتے ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ کارکنان قضا و قدرنہ کھاتے ہیں، نہ مہمان نوازی کے طور پر کھانے کا سوال کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا بھنا ہوا بچھڑا پیش کرنے کا واقعہ اس کی دلیل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

We now move to the sentence: حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا (until when they met a boy -74). The word: غُلَام (ghulam) in the text is used for a minor boy in the Arabic usage. This boy killed by al-Khadir (علیہ السلام) was a minor - as corroborated by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and most commentators. Further on, when the words: نَفْسًا زَكِيَّةً (innocent person) were used for him, that too supports the view that he was a minor. The reason is that زَكِيَّةً (zakiyyah) means &free of sin& and it can be either the attribute of a prophet or a minor child who faces no accounting for what is done by him and no sin is written in his Book of Deeds.

(آیت) حَتّىٰٓ اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا لفظ غلام عربی زبان کے اعتبار سے نابالغ لڑکے کو کہا جاتا ہے یہ لڑکا جس کو خضر (علیہ السلام) نے قتل کیا اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور اکثر مفسرین نے یہی کہا ہے کہ وہ نابالغ تھا اور آگے جو اس کے متلعق آیا نَفْسًا زَكِيَّةًۢ اس سے بھی اس کے نابالغ ہونے کی تائید ہوتی ہے کیونکہ زکیہ کے معنی ہیں گناہوں سے پاک اور یہ صفت یا پیغمبر کی ہو سکتی ہے یا نابالغ بچے کی جس کے افعال و اعمال پر مواخذہ نہیں اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَانْطَلَقَا ۝ ٠۪ حَتّٰٓي اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ۝ ٠ۙ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّۃًۢ بِغَيْرِ نَفْسٍ۝ ٠ۭ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا نُّكْرًا۝ ٧٤ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةًۢبِغَيْرِ نَفْسٍ ) اس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا کسی کا خون نہیں بہایا تھا پھر بھی آپ نے اسے قتل کردیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

39: مذکورہ حدیث میں ہے کہ وہ لڑکا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر دھڑ سے الگ کردیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:74) زکیۃ۔ گناہوں سے پاک، معصوم زکاء بروزن فعیلۃ صفت مشبہ کا واحد مؤنث۔ بغیر نفس۔ بغیر کسی سبب کے (ابن کثیر) بغیر قصاص کے۔ بغیر کسی گناہ کے ۔ بغیر کسی جان کے بدلہ کے۔ نکرا۔ ایسا مشکل امر جو سمجھ میں نہ آسکے ۔ امر عظیم ۔ ایسا امر جس سے سب کانوں پر ہاتھ رکھیں۔ نکر۔ کا درجہ قسبح میں امر سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ سخت نامرغوب۔ الانکار کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو۔ المنکر ہر وہ فعل جسے عقل سلیم قبیح خیال کرے یا عقل کو اس کے حسن وقسبح میں توقف ہو۔ مگر شریعت نے بھی اس کے قبیح ہونے کا حکم ہو۔ لقد جئت شیئا نکرا۔ یقینا آپ نے بڑا بیجا اور نازیبا فعل کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 پہلے سے بھی زیادہ خراب کیونکہ کشتی کا تختہ تو پھر بھی جوڑا جاسکتا تھا مگر اس لڑکے کی گئی ہوئی جان کہاں سے آئے گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پہلے تو کشتی میں شگاف ڈالا تھا اور لوگوں کی ہلاکت کا محض احتمال تھا لیکن اب تو واضح طور پر انہوں نے ایک شخص کو قتل کردیا۔ یہ قتل عمد تھا۔ محض احتمال قتل نہ تھا اور یہ گناہ کبیرہ تھا۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) صبر نہ کرسکتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے عہد کیا تھا اور انہیں یہ عہد یاد بھی تھا۔ اس دفعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہ بھولے تھے اور نہ غافل تھے۔ اب انہوں نے بالا ارادہ اعتراض کردیا۔ کیونکہ وہ اس گناہ کبیرہ پر اعتراض کئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ نہ وہ اس کی کوئی تاویل کرسکتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ لڑکا بےگناہ تھا۔ اس نے ایسا کوء فعل نہ کیا جس کے نتیجے میں اس کا قتل جائز ہو۔ بلکہ وہ تھا بھی نابالغ اس پر تو حد جاری ہی نہ ہو سکتی تھی۔ عبدصالح دوبارہ ان سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوچکا ہے اور وہ انہیں پھر یاد دلاتے ہیں اور یہ کہ تجربے کے بعد تجربہ بتلاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) برداشت نہیں کرسکتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

70:۔ یہ دوسرا واقعہ ہے جب کشتی سے اتر کر آگے چلے تو ایک لڑکا ملا حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس لڑکے کو قتل کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پھر بول اٹھے کہ تم نے ایک معصوم اور بےگناہ بچے کو قتل کرکے بہت برا فعل کیا ہے۔ اس پر حضرت خضر (علیہ السلام) نے پھر ان کو ان کا سابقہ عہد یاد دلایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں کہا، اب اگر میں تم پر اعتراض کروں تو بیشک آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ آپ کے پاس مجھے جدا کرنے کا معقول عذر ہوگا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ مقتول چھوٹا لڑکا نہیں تھا بلکہ نوجوان آدمی تھا اور ” غلٰم “ کے معنی نوجوان کے بھی آتے ہیں۔ وقیل کان بالغا شابا (روح ج 15 ص 338) ۔ وقیل کان رجلا (خازن ج 4 ص 282) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 پھر دونوں بزرگ روانہ ہوگئے یہاں تک کہ جب ان دونوں نے ایک کم سن اور نابالغ لڑکے سے ملاقات کی تو حضرت خضر نے اس لڑکے کو مار ڈالا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا آپ نے ایک پاکیزہ اور بےگناہ جان کو قتل کردیا اور وہ بھی بغیر کسی جان کے بدلے قتل کیا بلاشبہ تو آپ نے بڑی ان ہوئی اور بےجا حرکت کی۔ یعنی اس نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا جو قصاص کے طور پر قتل کرتے اس سے بڑھ کر اور کیا بےجا اور ان ہوئی حرکت ہوسکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ستھری یعنی بےگناہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہو اس پر کچھ گناہ نہیں ایک گائوں پاس لڑکے کھیلتے تھے ایک لڑکے کو مار ڈالا اور چل کھڑے ہوئے۔