Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 83

سورة الكهف

وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾

And they ask you, [O Muhammad], about Dhul-Qarnayn. Say, "I will recite to you about him a report."

آپ سے ذوالقر نین کا واقعہ یہ لوگ دریافت کر رہے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Dhul-Qarnayn Allah says to His Prophet, وَيَسْأَلُونَكَ ... And they ask you, (O Muhammad), ... عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ... about Dhul-Qarnayn. i.e., about his story. We have already mentioned how the disbelievers of Makkah sent word to the People of the Book and asked them for some information with which they could test the Prophet. They (the People of the Book) said, `Ask him about a man who traveled extensively throughout the earth, and about some young men who nobody knows what they did, and about the Ruh (the soul),' then Surah Al-Kahf was revealed. ... قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا Say: "I shall recite to you something of his story." Dhul-Qarnayn had great Power Allah tells,

کفار کے سوالات کے جوابات ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ سے نہ بن پڑیں ۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی ۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی بہ نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہوگئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو ۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی ۔ تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لئے آئے ہو ۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا ۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا ۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھالے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ ۔ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بیکار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں ۔ تعجب ہے کہ امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے ۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے ۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا ۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے ۔ آپ پر ایمان لایا تھا ، آپ کا تابعدار بنا تھا ۔ انہی کے وزیر حضرت خضر علیہ السلام تھے ۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم ۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ حضرت میسح علیہ السلام سے تقریبا تین سو سال پہلے تھا اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں ۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کر دیے ہیں ۔ وہب کہتے ہیں یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا ۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سنیگ سے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایایہ لوگ مخالف ہوگئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے ۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی ۔ ساتھ ہی قوت لشکر آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا ۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے ۔ ہر چیز کا اسے علم دے رکھا تھا ۔ زمین کے ادنی اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے ۔ تمام زبانیں جانتے تھے ۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی اس کی زبان بول لیتے تھے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہر چیز کا سامان دیا تھا ۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہے اس لئے بھی کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کر دیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو با رہا سامنے آچکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بےسند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ ، خرافات ، تحریف ، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں ۔ افسوس انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور فساد پھیل گیا ۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہربات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہی دی ۔ دیکھئے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں ( وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ 23؁ ) 27- النمل:23 ) وہ ہر چیز دی گئی تھی اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموما جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا اسی طرح حضرت ذوالقرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عزوجل نے حضرت ذوالقرنین کو دے رکھے تھے واللہ اعلم ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق ومغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 یہ مشرکین کے اس تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئے تھے، ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں۔ یہ نام اس لئے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لئے کہ اس نے مشرق ومغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی دو لٹوں دو مینڈھیوں یا، دو زلفوں والا۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق ومغرب تک پھیلا ہوا تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ' ' ترجمان القرآن '۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۄوَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ : واؤ کے ساتھ ذوالقرنین کے قصے کا موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے پر عطف ہے۔ بقاعی (رض) نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلام) کے خضر (علیہ السلام) کے ساتھ قصہ میں علم کے حصول کے لیے سفروں کا ذکر تھا اور ذوالقرنین کے قصہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفروں کا ذکر ہے۔ چونکہ علم عمل کی بنیاد ہے، اس لیے اس کا ذکر پہلے فرمایا۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ دو باغوں والے شخص اور ابلیس کے تکبر اور ان کے انجام کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولو العزم پیغمبر کا اتنے مرتبے کے باوجود اور ذوالقرنین جیسے عظیم بادشاہ کا مشرق و مغرب کی سلطنت کے باوجود ہر قسم کے کبر و غرور سے پاک ہونے کا اور حد درجہ کی تواضع اختیار کرنے کا ذکر فرمایا، تاکہ ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔ 3 ذوالقرنین کون تھا، کس ملک کا تھا، قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ اتنا واضح ہے کہ عرب کے لوگ اس سے واقف تھے۔ ان کے شعروں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، اس لیے انھوں نے اس کے متعلق سوال کیا، مگر ان سے گزشتہ فاتح فرماں رواؤں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں ہوتی، اس لیے مفسرین میں اس کے متعلق بہت ہی اختلاف ہے۔ آلوسی (رض) نے فرمایا کہ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب ” اَلْآثَارُ الْبَاقِیَۃُ عَنِ الْقُرُوْنِ الْخَالِیَۃِ “ میں ذکر کیا ہے کہ ذوالقرنین (یمن کا) ابوکرب حمیری ہے، جس کی اولاد ہونے پر، مشرق و مغرب کا بادشاہ ہونے پر اور مسلم ہونے پر تبع یمنی نے اپنے اشعار میں فخر کا اظہار کیا ہے، جو روح المعانی میں منقول ہیں۔ البیرونی نے اس قول کے حقیقت کے سب سے زیادہ قریب ہونے کا ایک قرینہ یہ لکھا ہے کہ یمن کے بادشاہوں کے لقب لفظ ” ذو “ سے شروع ہوتے تھے، جیسے ذو نواس اور ذویزن وغیرہ۔ بعض نے یونانی فاتح سکندر مقدونی کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے، جیسے علامہ قاسمی (رض) وغیرہ، جب کہ بہت سے مفسرین مثلاً ابن قیم، طنطاوی اور آلوسی وغیرہ نے شدت سے اس کی تردید کی ہے، کیونکہ یہ سکندر ارسطو کا شاگرد اور بت پرست تھا، جب کہ قرآن میں مذکور ذوالقرنین مومن، موحد اور متقی تھا۔ برصغیر کے ایک مفسر نے ذو القرنین کے متعلق قرآن میں مذکور صفات ایرانی بادشاہ خورس پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے بعد آنے والے ایک صاحب نے تاریخ اور بائبل سے خورس ہی کو سب سے زیادہ ذوالقرنین کا مصداق ٹھہرانے کا حق دار قرار دیا ہے۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک اور بادشاہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم عصر تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہی سے اللہ تعالیٰ نے اسے خارق عادت اسباب و وسائل عطا فرمائے۔ اس کے وزیر خضر تھے، اس لیے خضر کے قصے کے ساتھ اس کا قصہ بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں اور ابن کثیر (رض) نے اپنی تفسیر میں اس کو ترجیح دی ہے۔ ابن کثیر نے اس کا نام بھی اسکندر بیان کیا ہے۔ یہ ہیں بڑے بڑے اہل علم یا متجد دین کے اقوال جن کا ماخذ جاہلی اشعار ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، یا زمانۂ قبل مسیح کی تاریخ، جس کے مؤرخین کا حال قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہے نہ ان کی ثقاہت، یا آثار قدیمہ ہیں جن کی معدوم زبانیں یورپی کفار نے اندازے سے پڑھیں، جو کسی طرح بھی اعتماد کے قابل نہیں، یا بائبل جس میں مذکور باتوں کو (جو نہ قرآن و حدیث کے مطابق ہوں نہ مخالف) ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق نہ سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ پھر ایسی باتوں پر یقین کیسے ہوسکتا ہے ! ؟ لطف یہ ہے کہ جو بھی نیا مفسر نئی سے نئی بات نکال کر قدیم تاریخ، آثار قدیمہ، جاہلی اشعار، بائبل کے اقوال کا ڈھیر لگا دیتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا صاحب کمال گنا جاتا ہے، حالانکہ ان میں سے کسی سے بھی یقین کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کسی قصے کو تاریخ کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے ان حصوں کو اجاگر کرتا ہے جن سے عبرت اور سبق حاصل ہو۔ قرآن کے مطابق ذوالقرنین اللہ کا نیک بندہ تھا جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے مشرق سے مغرب تک اللہ کے دین کو غالب کیا اور اپنے محروسہ (ماتحت) ممالک میں امن قائم کیا اور انھیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کی نہایت عمدہ تدبیر کی۔ اگر ہم کسی قابل یقین ذریعے سے اس کی تعیین نہ کرسکیں یا اس کے مفصل حالات معلوم نہ کرسکیں تو قرآن کے منشا و مقصد میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ آخر کتنے ہی نبی ہیں جن کے نام قرآن و حدیث میں نہیں۔ دیکھیے سورة مومن (٧٨) تو کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر امت میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گزرا ہے، ہم ان ناقابل اعتماد ذرائع سے ہند، چین، روس، یورپ اور افریقہ میں آنے والے نبیوں کے نام متعین کرنے کی بےکار کوششوں میں وقت ضائع کریں گے، تاکہ لوگ کہیں واہ ! کیا بات نکالی ہے۔ 3 ذوالقرنین کے اس لقب کی مختلف وجہیں بیان کی گئی ہیں، کیونکہ قرن کے کئی معانی ہیں، سینگ، کنارا، بالوں کی مینڈھی۔ دو سینگوں والا سے مراد مرد شجاع ہے، کیونکہ عرب شجاع آدمی کو کبش کہتے ہیں، کیونکہ مینڈھا اپنے سینگوں سے ٹکر مارتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے تاج پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ زمین کے مشرق و مغرب کے دونوں کناروں تک پہنچا۔ چوتھی یہ کہ اس کے سر کے بالوں کی دو مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ چاروں باتیں بیک وقت بھی وجہ تسمیہ ہوسکتی ہیں۔ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا : ” ذِكْرًا “ تنوین کی وجہ سے ترجمہ ” کچھ ذکر “ کیا گیا ہے، یعنی اس کی پوری تاریخ نہیں بلکہ کچھ ذکر بیان کروں گا، جس سے تم نصیحت اور سبق حاصل کرسکو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Verse 84 opens with the statement: يَسْأَلُونَكَ (They ask you). Who is ask¬ing? Related narratives show that they were the Quraysh of Makkah, those who were coached to ask three questions from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The purpose was to test his prophethood and veracity. The ques¬tions were about Ruh (spirit), Ashab al-Kahf (People of Kahf) and Dhul-Qarnain. Two of these have already been answered. The story of the People of Kahf has appeared earlier in this Surah, 9-26. The question about &Ruh& has appeared towards the later part of the previous Surah (Bani Isra&il 17:85). Who was Dhul-Qarnain and what happened to him? This is the third question. (Al-Bahr al-Muhit) Dhul-Qarnain: His identity, period and country and the reason why he was so named Why was he named Dhul-Qarnain? (the one having two horns) Regarding its reason, there are numerous sayings, and strong differences. Some said that he had two curly locks of hair, therefore, he was called Dhul-Qarnain. Some others said that he ruled countries of the East and West, therefore, he was named Dhul-Qarnain. There was someone who also said that he had marks on his head that resembled those of horns. It appears in some narratives that he had wound marks on both sides of his head, therefore, he was identified as Dhul-Qarnain. Allah knows best. But, this much already stands determined that the Qur’ an has certainly not given him the name of Dhul-Qarnain. In fact, this name came from the Jews. He may have been known by this name with them. Whatever part of the event of Dhul-Qarnain has been mentioned by the Holy Qur&an is no more than what is described below: He was a righteous and just king who reached the East and the West and conquered countries in between and ruled there justly. All sorts of means had been provided to him by Allah Ta` ala in order to help him achieve his objectives. On the route of his conquests, he traveled in three directions: to the far West, to the far East and then to the mountain range in the North. At the last mentioned place, he closed the pass in between two mountains by a wall cast in molten metal which made it possible for the people of the area to stay protected against the pillage of Gog and Magog.|" As for the question posed by the Jews to test the veracity and proph¬et-hood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the answer given had left them satisfied. They did not ask any_ more questions, such as: Why was he given the name, Dhul-Qarnain? Which country did he come from? What period of time did he belong to? This tells us that the Jews themselves took such questions to be unnecessary and redundant. And it is obvious that the Qur&an mentions only that part of history or stories which relates to what is beneficial in the present life or in the life to come, or on which de¬pends the understanding of something necessary. Therefore, neither did the Qur&an take these things up nor were there any details about it described in any authentic Hadith. And it was for the same reason that the most righteous forbears of Islam, the Sahabah and the Tabi` in also paid no particular attention to it. Now the thing that remains to be addressed is this matter of histori¬cal narratives or that of the present Torah and Injil. Then it is also evi¬dent that perennial interpolations and alterations have not left even the present Torah and Injil intact as revealed Scriptures. Their status can now be that of history at the most. As for ancient historical narratives, they are overwhelmingly filled with Isra&ili tales, that come from no au¬thentic source, nor have they been found trustworthy in the sight of the learned of any time. Whatever the commentators have said in this mat-ter is a compendium of these very historical narratives. Therefore, there are countless differences in them. Europeans have given great impor¬tance to history in modern times. No doubt, they have carried out pains-taking research in this field. Through archaeological excavations and col¬lection of inscriptions and artifacts, they have tried to reach the reality behind past events and in this process, they have come up with achieve¬ments not matched in earlier times. But, archaeological finds, inscrip¬tions etc., can certainly help support an event but it is not possible to read a whole event through these. For it, therefore, historical narratives alone have become the basis. As for the validity of old historical narra¬tives in these matters, we have just now learnt that their status is no more than that of a story. In their books, scholars of Tafsir, classical or modern, have reported these narratives in their historical status only - no Qur&anic objective depends on the element of their authenticity. Here too, that which is necessary is being written with the same status in view. A comprehensive research relating to this event appears in &Qasas al-Qur&an& by Maulana Hifzur-Rahman (رح) . Readers with a taste for history may see it there. In some narratives, it appears that there have been four kings who ruled over the whole world - two believers, and two, disbelievers. The be¬lieving kings are Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) and Dhul-Qarnain while the disbelieving ones are Nimrod (Namrud) and Nebuchadnezzar (Bukht Nassar). About Dhul-Qarnain, it is a strange coincidence that several men have been famous in the world while bearing the same name. And it is equally strange that the title Sikandar (Alexander) is also attached with the Dhul-Qarnain of every period of time. Approximately three hundred years before Sayyidna Masih (علیہ السلام) ، there is a king known as Sikandar (Alexander). He is identified with the appellations of the Greek, the Macedonian, the Roman etc. He was the one who had Aristotle (Arastu) as his minister, who fought a war against Dara (Darius) and who conquered his country after killing him. This was the very last person to have become known in the world by the name Sik¬andar (Alexander). Stories relating to him are comparatively more fa¬mous around the world, so some people have also equated him with the Dhul-Qarnain mentioned in the Qur’ an. This is totally wrong because this person was a fire-worshipping polytheist. As for the Dhul-Qarnain mentioned by the Qur&an, he may not be a prophet for ` Ulama& have dif¬fered about his being a prophet. But, everyone unanimously agrees that he was a righteous believer - then, there is the textual authority of the Qur&an in its own right which bears testimony to it. Quoting Ibn ` Asakir, Hafiz Ibn Kathir has given his complete family tree in al-Bidayah wa an-Nihayah which ascends to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . He has said, this is the Sikandar who is recognized as the Greek, the Egyptian and the Macedonian, who founded the city of Iskandariyah (Alexandria) after his name and the Roman calendar dates back to his time. This Sikandar Dhul-Qarnain appeared after a long passage of time from the first one. This time has been identified as being more than two thousand years. He was the one who killed Dara (Darius), overpowered the Persian monarchy and conquered their country. But, this person was a polytheist. Declaring him to be the one mentioned in the Qur’ an is totally wrong. Ibn Kathir&s own words are being quoted below: فاما ذولقرنین فھوا سکندر بن فیلبس بن مصریح بن برس بن مبطون بن رومی بن نعطی بن یونانبن یافث بن بونہ بن شرخون بن رومہ بن شرخط بن توفیل بن رومی بن لاصفر بن یقزبن العیص بن اسحٰق بن ابرٰھیم خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔ کذا نسبہ الحافظ ابن عساکر فی تاریخہ المقدونی، الیونانی المصری بانی الاسکندریۃ الذی یؤرخ بایامہ الروم ، وکان متاٌخراً عن الاول بدھر طویل، وکان ھٰذی قبن المسیح بنحو من ثلثمایٔۃ سنۃ و کان ارسطا طالیس الفیلسوف وزیرہ و ھو الذی قتل دارا و اذل ملوک الفرس واوطاٌ ارضھم وانما نبھنا علیہ ، لان کثیرا من الناس یعتقد انھما واحد ، وان المذکور فی القران ھو الذی کان ارطاطلیس وزیرہ، فیقع بسبب ذلک خطاء کبیروفساد عریض طویل، فان الاوَّل کان عبداً مؤمنا صالحاوملکا عادلاً ، وکان وزیرہ الخضر، وقد کان بین زمانیھما ازید من الفی سنۃ، فاین ھذامن ھذا ؟ لا یستویان ولا یشتبھان الا علی غبی لا یعرف حقایٔق الامور (البدایۃ والنھایۃ ص 106/ج 2) First of all, this research of Imam ibn Kathir, the great scholar of Hadith and history, helps remove a misconception. It clarifies that this Iskandar, who lived three hundred years before Sayyidna Masih (علیہ السلام) who fought Dara (Darius) and the Persian kings, and who is the founder of Alexandria, is not the Dhul-Qarnain mentioned in the Qur’ an. This misconception seems to have affected some leading commentators as well. Abu Hayyan in al-Bahr al-Muhit and ` Allamah &Alusi in Ruh al-Ma&ani have said that this very Dhul-Qarnain is the one mentioned in the Qur’ an. The second point emerges from the sentence of Ibn Kathir: وَ اَنَّہ کان نَبِیِّاً (he was a prophet). It shows that, in the sight of Ibn Kathir, the weighti¬er opinion was that he was a prophet. Although, according to the major¬ity of scholars, the weightier opinion is what Ibn Kathir has himself reported on the authority Abi al-Tufayl from Sayyidna Ali (رض) that he was neither a prophet nor an angel, rather was a righteous believer. Therefore, some ` Ulama have explained it by saying that the pronoun in: اَنَّہ کان (he was) reverts to Al-Khadir (علیہ السلام) and not to Dhul-Qarnain - which is closer in sense. This leaves us with a problem. The Qur’ an mentions Dhul-Qarnain. Who is he? Which period of time did he belong to? Regarding this, say¬ings of ` Ulama& differ. According to Ibn Kathir, his time was the time of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) two thousand years before the time of Alexand¬er, the Greek, the Macedonian. Al-Khadir (علیہ السلام) was his minister. Ibn Kathir has also reported from the early righteous elders in al-Bidayah wa an-Nihayah that Dhul-Qarnain went for Hajj traveling on foot. When Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) found out about his arrival, he went out of Mak¬kah to greet him. It is said that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) also prayed for him and passed out some good counsel to him. (Al-Bidayah, p. 108, v. 3) Tafsir Ibn Kathir reports from Adhraqi that he did tawaf with Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and offered sacrifice. And Abu al-Raihan al-Bairuni has said in his book al-&Athar al-Baqiyah ` an al-Qurun al-Khaliyah that &this Dhul-Qarnain mentioned in the Qur&an is Abu Bakr ibn Samma ibn ` Umar ibn Ifriqis al-Himyari, the one who conquered the East and West of the Earth. Tubba& al-Himya¬ri al-Yamani has shown pride in his poetry that his grandfather, Dhul-Qarnain, was a believer. He says: قد کان ذوالقرنین جدی مسلماً ملکاً علافی الرض غیر مبعَّد بَلَغ المشارِقَ والمغارِبَ یَبتَغِی اسباب مُلکِ مَّن کَرِیمِ سَیِّدٖ Dhul-Qarnain, my grandfather, was a believing Muslim A king who conquered the non-believing Earth He reached the Easts and the Wests seeking Means of power from the noble Master. Abu Hayyan has reported this narrative in al-Bahr al-Muhit. Ibn Kathir has also mentioned it in al-Bidayah wa an-Nihayah. Ibn Kathir adds that &this Dhul-Qarnain is the first Tubba& (the title of the kings of Yaman). He was among the Tababi&ah (plural of Tubba& ) of Yaman and this is the same person who had ruled in favour of Sayyidna (علیہ السلام) in the case of Bi&r Sab’ (seven wells) & - (al-Bidayah, p. 105, v. 2). In all these narratives, irrespective of the difference regarding the elements of his identity, his time period has been identified as that of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . As for the detailed discussion relating to Dhul-Qarnain provided by Maulana Hifzur-Rahman in his book, Qasas a1-Qur&an, it can be stated in a nutshell. It can be said that the Dhul-Qarnain mentioned in the Qur&an is the king of Persia who is called Khorus by the Jews, Cyrus by the Greeks, Gorush by the Persians and Kai-Khusro by the Arabs. His period is said to be the period of Daniyal (Daniel) from among the proph¬ets of Bani Isra&i1 - much later than the time of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . This brings it closer to the time of Iskandar al-Maqduni (Alexander, the Macedonian), the killer of Dara (Darius). But, the learned Maulana - like Ibn Kathir - has also strongly maintained that Alexander, the Macedo¬nian who had Aristotle as his minister cannot be the Dhul-Qarnain. The former was a fire-worshipping polytheist while the later, a righteous be¬liever. According to his research about the detailed description of Bani Isra&il falling into wrongdoing and rebellion twice, and of the respective punishment given to them twice, as in Surah Bani Isra&il (al-&&Isra& ), the Qur’ an says on the occasion of the first transgression of Bani Isra&il: بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ‌ (We sent upon you some of Our ser¬vants having strong aggressive power, who combed through the houses - 17:5). Here, the men with &strong aggressive power& are Nebuchadnezzar and his supporting troops who killed forty thousand - seventy thousand in some narratives - men from the Bani Isra&il in Baytul-Maqdis, while taking more than one hundred thousand of them driven like a flock of sheep to his city of Babel. After that, as regards the second statement of the Qur’ an: ثُمَّ رَ‌دَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّ‌ةَ عَلَيْهِمْ (Then We gave you your turn to overpower them - 17:6), this event transpired at the hands of the same king, Kai-Khusraw (Khorus or Cyrus). He was a righteous believer. He con-fronted Nebuchadnezzar, secured the release of Bani Isra&il held as cap¬tives by him and rehabilitated them back into Palestine. He even went on to resettle and repopulate the city of Baytul-Maqdis that was ran-sacked earlier to the limit that he managed to have all treasures and major effects of Baytul-Maqdis carried away by Nebuchadnezzar from there returned back into the possession of Bani Isra&il. Thus, this person proved to be the savior of Bani Isra&il (the Jews). It is likely that of the questions the Jews of Madinah had set for the Quraysh of Makkah which they would ask the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to test his prophethood, was this question about Dhul-Qarnain and that it had an underlying reason. This question was special since the Jews took him to be their savior and respected him. In short, Maulana Hifzur-Rahman has collected a sufficiently large number of evidences from the prophesies of the prophets of Bani Isra&il with reference to the present Old Testament as well as from historical narratives to present his research on this subject. Anyone who finds it imperative to proceed towards additional research may consult it. My purpose in reporting all these narratives was simply to bring into focus sayings of leading Muslim scholars, historians and commentators as they relate to the life and time of Dhul-Qarnain. To decide as to whose saying is weightier and worthier out of these is not part of my objective. The reason is that things not claimed by the Qur’ an nor explained by Hadith are things we have not been obligated to fix and clarify on our own for that responsibility does not rest on our shoulders. Thus, whichev¬er saying turns out to be regarded as more weighty, worthy and sound, the aim of the Qur&an will stand achieved after all. Allah knows best. Let us now proceed to the explanation of the verses. Let us look at the first verse cited above: قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرً‌ا (I shall now recite to you a narration about him - 83). It prompts us to find out as to why the Holy Qur&an has elected to bypass the possible shorter expres¬sion ذِکرَہ dhikrahu (his narrations) at this place and has opted for two words: مِنہُ ذِکراً (&minhu dhikra& ) (some narration about him)? A little reflec¬tion would reveal that these two words have been used as indicators. They tell us that the Qur&an has not promised to narrate the entire story of Dhul-Qarnain in its historical setting. Instead, it has stated that it will mention it in part. This is evident from the use of the particle: مِن (min) and the nunnation (tanwin) of &dhikra& - a distinct feature of Arab¬ic grammar. As for the historical debate relating to the name, lineage and time period of Dhul-Qarnain reported earlier, the Holy Qur’ an has already said in advance that it has skipped it as something unnecessary.

خلاصہ تفسیر : ذوالقرنین کا پہلا سفر : اور یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کا حال پوچھتے ہیں (اس پوچھنے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ان کی تاریخ قریب قریب گم تھی اور اسی لئے اس قصبہ کے جو امور قرآن میں مذکور نہیں کہ وہ اصل قصہ سے زائد تھے ان امور کے متعلق آج تک اہل تاریخ میں اختلافات شدید پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے قریش مکہ نے بمشورہ یہود مدینہ اس قصہ کا سوال کے لئے انتخاب کیا تھا اس لئے اس قصہ کی تفصیلات جو قرآن میں مذکور ہیں وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی واضح دلیل ہے) آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں (آگے حق تعالیٰ کی طرف سے اس کی حکایت شروع ہوئی کہ ذوالقرنین ایک ایسے جلیل القدر بادشاہ ہو گذرے ہیں کہ) ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو ہر قسم کا سامان (کافی) دیا تھا (جس سے وہ اپنے شاہی منصوبوں کو پورا کرسکیں) چناچہ وہ (بارادہ فتوحات ملک مغرب) ایک راہ پر ہو لئے (اور سفر کرنا شروع کیا) یہاں تک کہ جب (سفر کرتے کرتے درمیانی شہروں کو فتح کرتے ہوئے) غروب آفتاب کے موقع (یعنی جانب مغرب میں انتہائی آبادی) پر پہنچے تو آفتاب ان کو ایک سیاہ پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا (مراد اس سے غالباً سمندر ہے کہ اس کا پانی اکثر جگہ سیاہ نظر آتا ہے اور اگرچہ آفتاب حقیقۃ سمندر میں غروب نہیں ہوتا مگر سمندر سے آگے نگاہ نہ جاتی ہو تو سمندر ہی میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوگا) اور اس موقع پر انہوں نے ایک قوم دیکھی (جن کے کافر ہونے پر اگلی آیت اما من ظلم دلالت کرتی ہے) ہم نے (بصورت الہام یا اس زمانے کے پیغمبر کے واسطے سے) یہ کہا کہ اے ذوالقرنین (اس قوم کے بارے میں دو اختیار ہیں) خواہ (ان کو ابتداء ہی سے قتل وغیرہ کے ذریعہ) سزا دو اور خواہ ان کے بارے میں نرمی کا معاملہ اختیار کرو (یعنی ان کو ایمان کی دعوت دو پھر نہ مانیں تو قتل کردو بغیر تبلیغ و دعوت کے ابتداء ہی قتل کرنے کا اختیار شاید اس لئے دیا گیا ہو کہ ان کو اس سے پہلے کسی ذریعہ سے دعوت ایمان پہنچ چکی ہوگی لیکن دوسری صورت یعنی پہلے دعوت پھر قتل کا بہتر ہونا اشارہ سے بیان کردیا کہ اس دوسری صورت کو اتخاذ حسن سے تعبیر فرمایا) ذوالقرنین نے عرض کیا کہ (میں دوسری ہی صورت اختیار کرکے پہلے ان کو دعوت ایمان دوں گا) لیکن (دعوت ایمان کے بعد) جو ظالم (یعنی کافر) رہے گا سو اس کو تو ہم لوگ (قتل وغیرہ کی) سزا دیں گے (اور یہ سزا تو دنیا میں ہوگی) پھر وہ (مرنے کے بعد) اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچا دیا جائے گا پھر وہ اس کو (دوزخ کی) سخت سزا دے گا اور جو شخص (دعوت ایمان کے بعد) ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لئے (آخرت میں بھی) بدلے میں بھلائی ملے گی اور ہم بھی (دنیا میں) اپنے برتاؤ میں اس کو آسان (اور نرم) بات کہیں گے (یعنی ان پر کوئی عملی سختی تو کیا کی جاتی زبانی اور قولی بھی کوئی سختی نہیں کی جائے گی) معارف و مسائل : يَسْـــَٔـلُوْنَكَ (یعنی وہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں) یہ لوگ سوال کرنے والے کون ہیں روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قریش مکہ تھے جن کو یہودیوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور حقانیت کا امتحان کرنے کے لئے تین سوال بتلائے تھے روح کے متعلق اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں ان میں دو کا جواب آچکا ہے اصحاب کہف ابھی گذرا ہے اور روح کا سوال پچھلی سورة کے آخر میں گذر چکا ہے یہ تیسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھا اور اس کو کیا حالات پیش آئے (بحر محیط) ذوالقرنین کون تھے ؟ کس زمانے اور کس ملک میں تھے ؟ اور ان کو ذوالقرنین کہنے کی وجہ : ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین کیوں ہوا اس کی وجہ میں بیشمار اقوال اور سخت اختلافات ہیں بعض نے کہا کہ ان کی دو زلفیں تھیں اس لئے ذوالقرنین کہلائے بعض نے کہا کہ مشرق و مغرب کے ممالک پر حکمران ہوئے اس لئے ذوالقرنین نام رکھا گیا کسی نے یہ بھی کہا کہ ان کے سر پر کچھ ایسے نشانات تھے جیسے سینگ کے ہوتے ہیں بعض روایات میں ہے کہ ان کے سر پر دونوں جانب چوٹ کے نشانات تھے اس لئے ذوالقرنین کہا گیا واللہ اعلم مگر اتنی بات متعین ہے کہ قرآن نے خود ان کا نام ذوالقرنین نہیں رکھا بلکہ یہ نام یہود نے بتلایا ان کے یہاں اس نام کی شہرت ہوگی واقعہ ذوالقرنین کا جتنا حصہ قرآن کریم نے بتلایا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ۔ وہ ایک صالح عادل بادشاہ تھے جو مشرق و مغرب میں پہنچنے اور ان کے ممالک کو فتح کیا اور ان میں عدل و انصاف کی حکمرانی کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہر طرح کے سامان اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے عطاء کردیئے گئے تھے انہوں نے فتوحات کرتے ہوئے تین اطراف میں سفر کئے مغرب اقصی تک اور مشرق اقصی تک پھر جانب شمال میں کوہستانی سلسلے تک اسی جگہ انہوں نے دو پہاڑوں کے درمیانی درے کو ایک عظیم الشان آہنی دیوار کے ذریعہ بند کردیا جس سے یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج سے اس علاقہ کے لوگ محفوظ ہوگئے۔ یہود نے جو سوال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت اور نبوت کا امتحان کرنے کے امتحان کرنے کے لئے پیش کیا تھا وہ اس جواب سے مطمئن ہوگئے انہوں نے مزید یہ سوالات نہیں کئے کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا یہ کس ملک میں اور کس زمانے میں تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم تاریخ و قصص کا صرف اتنا حصہ ذکر کرتا ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دینا کا متعلق ہو یا جس پر کسی ضروری چیز کا سمجھنا موقوف ہو اس لئے نہ قرآن کریم نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کی یہ تفصیلات بیان کی گئیں اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا سمجھنا ان چیزوں کے علم پر موقوف ہے اسی لئے سلف صالحین صحابہ وتابعین نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اب معاملہ صرف تاریخی روایات کا یا موجودہ تورات و انجیل کا رہ گیا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ موجودہ تورات و انجیل کو بھی مسلسل تحریفات نے آسمانی کتاب کی حیثیت میں نہیں چھوڑا ان کا مقام بھی اب زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ ہی کا ہوسکتا ہے اور زمانہ قدیم کی تاریخ روایات زیادہ تر اسرائیلی قصوں کہانیوں سے ہی پُر ہیں جن کی نہ کوئی سند ہے نہ وہ کسی زمانے کے عقلاء وحکماء کے نزدیک قابل اعتماد پائی گئی ہیں حضرات مفسرین نے اس بھی اس معاملہ میں جو کچھ لکھا وہ سب انہی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے اسی لئے ان میں اختلافات بیشمار ہیں اہل یورپ نے اس زمانے میں تاریخ کو بڑی اہمیت دی اس پر تحقیق و تفتیش میں بلاشبہ بڑی محنت و کاوش سے کام لیا آثار قدیمہ کی کھدائی اور وہاں کے کتبات وغیرہ کو جمع کرکے ان کے ذریعہ قدیم واقعات کی حقیقت تک پہنچنے میں وہ کام انجام دیئے جو اس سے پہلے زمانہ میں نظر نہیں آتے لیکن آثار قدیمہ اور ان کے کتبات سے کسی واقعہ کی تائید میں مدد تو مل سکتی ہے مگر خود ان سے کوئی واقعہ پورا نہیں پڑھا جاسکتا اس کے لئے تو تاریخی روایات ہی بنیاد بن گئی ہیں اور ان معاملات میں زمانہ قدیم کی تاریخی روایات کا حال ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ ایک کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ قدیم و جدید علماء تفسیر نے بھی اپنی کتابوں میں یہ روایات ایک تاریخی حیثیت ہی سے نقل کی ہیں جن کی صحت پر کوئی قرآنی مقصد موقوف نہیں یہاں بھی اسی حیثیت سے بقدر ضرورت لکھا جاتا ہے اس واقعہ کی پوری تفتیش و تحقیق مولانا حفظ الرحمن صاحب (رح) نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھی ہے تاریخی ذوق رکھنے والے حضرات اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ پوری دنیا پر سلطنت و حکومت کرنے والے چار بادشاہ ہوئے ہیں دو مومن اور دو کافر مومن بادشاہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ذوالقرنین ہیں اور کافر نمرود اور بخت نصر ہیں ذوالقرنین کے معاملہ میں یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس نام سے دنیا میں متعدد آدمی مشہور ہوئے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہر زمانے کے ذی القرنین کے ساتھ لقب سکندر بھی شامل ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً تین سو سال پہلے ایک بادشاہ سکندر کے نام سے معروف و مشہور ہے جس کو سکندر یونانی مقدونی رومی وغیرہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جس کا وزیر ارسطو تھا اور جس کی جنگ دارا سے ہوئی اور اسے قتل کرکے اس کا ملک فتح کیا سکندر کے نام سے دنیا میں معروف ہونے والا آخری شخص یہی تھا اسی کے قصے دنیا میں زیادہ مشہور ہیں بعض لوگوں نے اس کو بھی قرآن میں مذکور ذوالقرنین کہہ دیا یہ سراسر غلط ہے کیونکہ یہ شخص آتش پرست مشرک تھا قرآن کریم نے جس ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے ان کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور خود قرآن کی نصوص اس پر شاہد ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بحوالہ ابن عساکر اس کا پورا نسب نامہ لکھا ہے جو اوپر جا کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) سے ملتا ہے اور فرمایا کہ یہی وہ سکندر ہے جو یونانی مصری مقدونی کے ناموں سے معروف ہے جس نے اپنے نام پر شہر اسکندریہ آباد کیا اور روم کی تاریخ اسی کے زمانے سے چلتی ہے اور یہ سکندر ذی القرنین اول سے ایک طویل زمانے کے بعد ہوا ہے جو دو ہزار سال سے زائد بتلایا جاتا ہے اسی نے دارا کو قتل کیا اور شاہان فارس کو مغلوب کرکے ان کا ملک فتح کیا مگر یہ شخص مشرک تھا اس کو قرآن میں مذکور ذوالقرنین قرار دینا سراسر غلطی ہے ابن کثیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔ فاماذالقرنین الثانی فھو اسکندر بن فیلبس بن مصریح بن برس بن مبطون بن رومی بن نعطی بن یونان بن یافث بن بونہ بن شرخون بن رومہ بن شرخط بن توفیل بن رومی بن الاصفر بن یقز بن العیص بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کذا انسبہ الحافظ ابن عساکر فی تاریخہ المقدونی الیونانی المصری بانی الاسکندریۃ الذی یؤ رخ بایامہ الروم وکان متأخرا عن الاول بدھر طویل وکان ھذا قبل المسیح بنحو من ثلثمائۃ سنۃ وکان ارطا طالیس الفیلسوف وزیرہ و ھوالذی قتل دارا واذل ملوک الفرس واوطأ ارضہم وانما نبھنا علیہ لان کثیرا من الناس یعتقد انھما واحد وان المذکور فی القرآن ھوالذی کان ارطا طالیس وزیرہ فیقع بسبب ذلک خطاء کبیر و فساد عریض طویل فان الاول کان عبدا مؤ منا صالحا وملکا عادلا وکان وزیرہ الخضر وقد کان نبیا علی ماقررناہ قبل ھذا واما الثانی فکان مشرکا کان وزیرہ میلسوفا وقد کان بین زمانیھما ازید من الفے سنۃ فاین ھذا من ہذا لایستویان ولا یشتبھان الاعلی غبی لایعرف حقائق الامور البدایۃ والنھایۃ ص ١٠٦ ج ٢) حدیث و تاریخ کے امام ابن کثیر کی اس تحقیق سے ایک تو یہ مغالطہ رفع ہوا کہ یہ اسکندر جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تین سو سال پہلے گذرا ہے اور جس کی جنگ دارا اور ملوک فارس سے ہوئی اور ربانی اسکندریہ ہے یہ وہ ذوالقرنین نہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے یہ مغالطہ بعض اکابر مفسرین کو بھی لگا ہے ابوحیان نے بحر محیط میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اسی کو ذوالقرنین مذکور فی القرآن کہہ دیا ہے۔ دوسری بات وانہ کان نبیا کے جملے سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن کثیر کے نزدیک ان کا نبی ہونا راجح ہے اگرچہ جمہور کے نزدیک راجح وہ قول ہے جو خود ابن کثیر نے بروایت ابی الطفیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ نہ وہ نبی تھے نہ فرشتہ بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے اسی لئے بعض علماء نے یہ توجیہ کی کہ انہ کان کی ضمیر ذوالقرنین کی طرف نہیں خضر (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے وہوالاقرب۔ اب مسئلہ یہ رہتا ہے کہ پھر وہ ذوالقرنین جس کا قرآن میں ہے کون ہیں اور کس زمانے میں ہوئے ہیں اس کے متعلق بھی علماء کے اقوال بہت مختلف ہیں ابن کثیر کے نزدیک ان کا زمانہ اسکندر یونانی مقدونی سے دوہزار سال پہلے حضرت الخلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کا زمانہ ہے اور ان کے وزیر حضرت خضر (علیہ السلام) تھے ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں سلف صالحین سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ذوالقرنین پیادہ پا حج کے لئے پہنچے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے آنے کا علم ہوا تو مکہ سے باہر نکل کر استقبال کیا اور حضرت خلیل (علیہ السلام) نے ان کے لئے دعاء بھی کی اور کچھ وصیتیں اور نصیحتیں بھی ان کو فرمائیں (البدایہ ص ١٠٨ ج ٢) اور تفسیر ابن کثیر میں بحوالہ ازرقی نقل کیا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ طواف کیا پھر قربانی دی۔ اور ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیۃ میں کہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں ہے ابوبکر بن سمی بن عمر بن افریقیس حمیری ہے جس نے زمین کے مشارق و مغارب کو فتح کیا اور تبع حمیری یمنی نے اپنے اشعار میں اس پر فخر کیا ہے کہ میرے دادا ذوالقرنین مسلمان تھے ان کے اشعار یہ ہیں۔ قد کان ذوالقرنین جدی مسلما ملکا علافی الارض غیر مبعد بلغ المشارق والمغارب یبتغی اسباب ملک من کریم سید یہ روایت بحر محیط میں ابو حیان نے نقل کی ہے ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں اس کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ یہ ذوالقرنین تبابعہ یمن میں سب سے پہلا تبع ہے اور یہی وہ شخص ہے جس نے بیر سبع کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں فیصلہ دیا تھا (البدایہ ص ١٠٥ ج ٢) ان تمام روایات میں ان کی شخصیت اور نام و نسب کے بارے میں اختلاف ہونے کے باوجود ان کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ بتلایا گیا ہے۔ اور مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اپنی کتاب قصص القرآن میں جو ذوالقرنین کے متعلق بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین مذکور فی القرآن فارس کا وہ بادشاہ ہے جس کو یہودی خورس یونانی سائرس فارسی گورش اور عرب کے خسرو کہتے ہیں جس کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بہت بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل میں سے دانیال کا زمانہ بتلایا جاتا ہے جو سکندر مقدونی قاتل دارا کے زمانے کے قریب قریب ہوجاتا ہے مگر مولانا موصوف نے بھی ابن کثیر وغیرہ کی طرح اس کا شدت سے انکار کیا ہے کہ ذوالقرنین وہ سکندر مقدونی جس کا وزیر ارسطو تھا وہ نہیں ہوسکتا وہ مشرک آتش پرست تھا یہ مومن صالح تھے۔ مولانا موصوف کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورة بنی اسرائیل میں جو دو مرتبہ بنی اسرائیل کے شر و فساد میں مبتلا ہونے اور دونوں مرتبہ کی سزا کا ذکر تفصیل سے آیا ہے اس میں بنی اسرائیل کے پہلے فساد کے موقع پر جو قرآن کریم نے فرمایا ہے اولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ (یعنی تمہارے فساد کی سزا میں ہم مسلط کردیں گے تم پر اپنے کچھ ایسے بندے جو بڑی قوت و شوکت والے ہوں گے وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے) اس میں یہ قوت و شوکت والے لوگ بخت نصر اور اس کے اعوان ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں چالیس ہزار اور بعض روایات میں ستر ہزار بنی اسرائیل کو قتل کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کو قید کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا کر بابل لے گیا اور اس کے بعد جو قرآن کریم نے فرمایا ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ (یعنی ہم نے پھر لوٹا دیا تمہارے غلبہ کو ان پر) یہ واقعہ اسی کیخسرو خورس بادشاہ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا یہ مومن صالح تھا اس نے بخت نصر کا مقابلہ کرکے اس کے قیدی بنی اسرائیل کو اس کے قبضہ سے نکالا اور دوبارہ فلسطین میں آباد کیا بیت المقدس کو جو ویران کردیا تھا اس کو بھی دوبارہ آباد کیا اور بیت المقدس کے خزائن اور اہم سامان جو بخت نصر یہاں سے لے گیا تھا وہ سب واپس بنی اسرائیل کے قبضہ میں دیئے اس لئے یہ شخص بنی اسرائیل (یہود) کا نجات دہندہ ثابت ہوا۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہود مدینہ نے جو امتحان نبوت کے لئے قریش مکہ کے واسطے سوالات متعین کئے ان میں ذوالقرنین کے سوال کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ یہود اس کو اپنا نجات دہندہ مان کر اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اپنی اس تحقیق پر موجودہ تورات کے حوالہ سے انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں سے پھر تاریخی روایات سے اس پر کافی شواہد پیش کئے ہیں جو صاحب مزید تحقیق کے درپے ہوں وہ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں میرا مقصد ان تمام روایات کے نقل کرنے سے صرف اتنا تھا کہ ذوالقرنین کی شخصیت اور ان کے زمانے کے بارے میں علماء امت اور ائمہ تاریخ و تفسیر کے اقوال سامنے آجائیں ان میں سے راجح کس کا قول ہے یہ میرے مقصد کا جزء نہیں کیونکہ جن امور کا نہ قرآن نے دعوی کیا نہ حدیث نے ان کو بیان کیا ان کے معین ومبین کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں اور ان میں جو قول بھی راجح اور صحیح قرار پائے مقصد قرآنی ہر حال میں حاصل ہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم آگے آیات کی تفسیر دیکھئے۔ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا اس میں یہ قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ذکرہ کا مختصر لفظ چھوڑ کر ذِكْرًا کے دو کلمے کیوں اختیار کئے غور کیجئے تو ان دو کلموں میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ قرآن نے ذوالقرنین کا پورا قصہ اور اس کی تاریخ ذکر کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک حصہ بیان کرنے کے لئے فرمایا جس پر حرف من اور ذکرا کی تنوین بقواعد عربیت شاہد ہے اوپر جو تاریخی بحث ذوالقرنین کے نام و نسب اور زمانے وغیرہ کی لکھی گئی ہے قرآن کریم نے اس کو غیر ضروری سمجھ چھوڑ دینے کا پہلے ہی اظہار فرما دیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۝ ٠ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْہُ ذِكْرًا۝ ٨٣ۭ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں تلو ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ، أراد به هاهنا الاتباع علی سبیل الاقتداء والمرتبة،. والتلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣ تا ٩٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ والے آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں، آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو راستوں اور منزلوں کی معرفت عطا کی تھی ، چناچہ انہوں نے سفر کے لیے ایک راستہ اختیار کرلیا یہاں تک کہ جب غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو آفتاب ان کو سیاہ رنگ کے پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا اور اس موقع پر انہوں نے ایک کافر قوم دیکھی ، ہم نے بطور الہام کے کہا کہ ذوالقرنین یا تو ان کو قتل کرو، یہاں تک کہ یہ کلمہ لاالہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں یا ان کے ساتھ پہلے نرمی کا معاملہ کرو کہ ان کو معاف کر دو اور چھوڑ دو ۔ ذوالقرنین نے عرض کیا بالکل ٹھیک لیکن جس نے ان میں سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو ہم اسے دنیا میں قتل کریں گے اور پھر وہ آخرت میں اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچایا جائے گا اور وہ اسے دوزخ کی سخت سزا دے گا۔ اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے آخرت میں بھی جنت ملے گی اور ہم بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔ پھر ذوالقرنین نے ممالک مشرقیہ کے فتح کرنے کے ارادہ سے مشرق کی طرف راہ لی تو طلوع آفتاب کے موقع پر پہنچ کر انہوں نے آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے ہوئے دیکھا کہ جن کے لیے ہم نے آفتاب سے اوپر پہاڑ درخت کپڑے وغیرہ کی کوئی آڑ نہیں رکھی تھی کہ حق بات سے بالکل عاری قوم تھی اور اس قوم کو تارج وتاویل اور منسک کہا جاتا تھا۔ غرض کہ ذوالقرنین جیسا کہ منتہائے مغرب تک پہنچے تھے، اسی طرح سفر کرتے منتہائے مشرق تک پہنچے اور ان کو جو کچھ واقعات وغیرہ کی خبر تھی۔ ہمیں اس کی پوری خبر ہے، پھر ذوالقرنین فتوحات کرتے ہوئے مشرق کی سمت میں روم کی طرف ہوئے۔ یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان میں پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرف ایک قوم کو دیکھا جو دوسروں کی بات نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے بذریعہ ترجمان کہا کہ اے ذوالقرنین ! یاجوج اس سر زمین میں بڑا فساد مچاتے ہیں، یعنی ہمارئے تروتازہ میوؤں کا کھاجاتے ہیں اور خشک کو لے جاتے ہیں اور ہماری اولاد کو قتل کر ڈالتے ہیں اور ہمارے آدمیوں کو کھاجاتے ہیں۔ یاجوج بھی ایک آدمی کا نام تھا اور ماجوج بھی ایک شخص کا اور یہ دونوں یافث بن نوح کی اولاد میں سے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس قوم کی کثرت کی وجہ سے یہ اس کا نام پڑگیا۔ تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کے لیے کچھ ضروری چیزیں جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کچھ رکاوٹ بنادیں۔ ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس بادشاہت اور مال میں میرے پروردگار نے مجھے اختیار دیا ہے اور عطا کی ہے وہ اس مزدوری سے بہت زیادہ ہے، انہوں نے عرض کیا سو آپ کس قسم کی حمایت چاہتے ہیں، ذوالقرنین نے جواب دیا ہاتھ پیروں اور اوزاروں سے میری مدد کرو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنائے دیتا ہوں تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے دونوں سروں کے خلاء کو پر کردیا تو ان کو حکم دیا دھونکو، چناچہ انہوں نے آگ جلا کر ان کو دھونکنا شروع کیا، یہاں تک کہ جب ان لوہے کی چادروں کو دھونکتے دھونکتے لال انگارا کردیا تو اس وقت حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں، چناچہ وہ تانبا اس پر ڈال دیا گیا۔ تو پھر یاجوج ماجوج اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نیچے کی طرف سے لگا سکتے تھے تب ذوالقرنین نے فرمایا کہ یہ دیوار کی تیاری میرے پروردگار کی ایک خاص رحمت ہے جس وقت یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آئے گا تو وہ اسے ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بارے میں برحق ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس رکوع میں ذوالقرنین کے بارے میں یہود مدینہ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر مفسرین ذوالقرنین سے ناواقف تھے۔ چناچہ تیرہ سو سال تک عام طور پر سکندر اعظم ہی کو ذوالقرنین سمجھا جاتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں ذوالقرنین کی فتوحات کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے یہ انداز سکندر اعظم کی فتوحات سے ملتا جلتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذوالقرنین کی سیرت کا وہ نقشہ جو قرآن نے پیش کیا ہے اس کی سکندر اعظم کی سیرت کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔ بہرحال جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذوالقرنین قدیم ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس کا لقب تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایران کے علاقے میں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں قائم تھیں۔ ایک کا نام پارس تھا جس سے ” فارس “ کا لفظ بنا ہے اور دوسرے کا نام ” مادا “ تھا۔ کیخورس یا سائرس نے ان دونوں مملکتوں کو ملا کر ایک ملک بنا دیا اور یوں سلطنت ایران کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ دو مملکتوں کے فرمانروا ہونے کی علامت کے طور پر اس نے اپنے تاج میں دو سینگ لگا رکھے تھے اور اس طرح اس کا لقب ذوالقرنین (دو سینگوں والا) پڑگیا۔ آیت ٨٣ (وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا) ذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق کو اہل علم کے حلقے میں متعارف کرانے کا سہرا مولانا ابو الکلام آزاد کے سر ہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر ” ترجمان القرآن “ میں اس موضوع پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قدیم ایران کا بادشاہ کیخورس یا سائرس ہی ذوالقرنین تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تحقیق کی بنیاد ان معلومات پر ہے جو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایک کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی تھیں۔ اس کھدائی کے دوران اس عظیم فاتح بادشاہ کا ایک مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا اور مقبرہ بھی۔ اس کھدائی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر رضا شاہ پہلوی نے اس کی ڈھائی ہزار سالہ برسی منانے کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ دریافت شدہ مجسمے کے سر پر جو تاج تھا اس میں دو سینگ بھی موجود تھے جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایران کا یہی بادشاہ (کیخورس یا سائرس) تھا جو تاریخ میں ذوالقرنین کے لقب سے مشہور ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے خصوصی طور پر یہ سوال کیوں پوچھا تھا اور ذوالقرنین کی شخصیت میں ان کی اس دلچسپی کا سبب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ملتا ہے۔ جب ٨٧ قبل مسیح کے لگ بھک عراق کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کر کے یروشلم کو تباہ کیا تو اس شہر کی اکثریت کو تہ تیغ کردیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو وہ اپنی فوج کے ساتھ بابل (Babilonia) لے گیا جہاں یہ لوگ ڈیڑھ سو سال تک اسیری کی حالت میں رہے۔ جب ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس (آئندہ سطور میں انہیں ” ذوالقرنین “ ہی لکھاجائے گا) نے ایران کو متحد کرنے کے بعد اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو سب سے پہلے عراق کو فتح کیا۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ نقشے کو ذہن میں رکھا جائے تو فلسطین ‘ اسرائیل شرق اردن مغربی کنارہ اور لبنان کے ممالک پر مشتمل پورے علاقے کو اس زمانے میں شام عرب یا شام اور اس سے مشرق میں واقع علاقے کو عراق عرب یا عراق کہا جاتا تھا جبکہ عراق کے مزید مشرق میں ایران واقع تھا۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالقرنین نے بابل میں اسیر یہودیوں کو آزاد کردیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر اپنا تباہ شدہ شہر یروشلم دوبارہ آباد کرلیں۔ چناچہ حضرت عزیر کی قیادت میں یہودیوں کا قافلہ بابل سے واپس یروشلم آیا۔ انہوں نے اپنے اس شہر کو پھر سے آباد کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی از سر نو تعمیر کیا۔ اس پس منظر میں یہودی ذوالقرنین کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور اسی سبب سے ان کے بارے میں انہوں نے حضور سے یہ سوال پوچھا تھا۔ ذوالقرنین کی فتوحات کے سلسلے میں تین مہمات کا ذکر تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ان مہمات میں ایران سے مغرب میں بحیرۂ روم (Mediterranian) تک پورے علاقے کی تسخیر ‘ مشرق میں بلوچستان اور مکران تک لشکرکشی اور شمال میں بحیرۂ خَزَر (Caspian Sea) اور بحیرۂ اسود (Black Sea) کے درمیانی پہاڑی علاقے کی فتوحات شامل ہیں۔ ذوالقرنین کا یہ سلسلہ فتوحات حضرت عمر کے دور خلافت کی فتوحات کے سلسلے سے مشابہ ہے۔ حضرت عمر کے دور میں بھی جزیرہ نمائے عرب سے مختلف سمتوں میں تین لشکروں نے پیش قدمی کی تھی ایک لشکر شام اور پھر مصر گیا تھا دوسرے لشکر نے عراق کے بعد ایران کو فتح کیا تھا جبکہ تیسرا لشکر شمال میں کوہ قاف (Caucasus) تک جا پہنچا تھا۔ قدیم روایات میں ذوالقرنین کے بارے میں کچھ ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ ابتدائی عمر میں وہ ایک چھوٹی سی مملکت کے شہزادے تھے۔ ان کے اپنے ملک میں کچھ ایسے حالات ہوئے کہ کچھ لوگ ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ عرصہ صحرا میں روپوش رہے۔ اسی عرصے کے دوران ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرتشت ہی اللہ کے نبی ہوں اور انہی کی تعلیمات سے انہوں نے استفادہ کیا ہو۔ بہر حال قرآن نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے وہ ایک نیک اور صالح بندۂ مومن کا کردار ہے اور اس کردار کی خصوصیات تاریخی اعتبار سے اس زمانے کے کسی اور فاتح حکمران پر منطبق نہیں ہوتیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61. It is quite obvious that the conjunction wao joins this story with the previous story of Khidr. Thus it is a selfevident proof that the previous two stories of the sleepers of the cave and Moses and Khidr were also related in answer to the queries of the disbelievers of Makkah who, in consultation with the people of the Book, had put these questions to Muhammad (peace be upon him) as a test of his Prophethood. 62. The identification of Zul-Qarnain has been a controversial matter from the earliest times. In general the commentators have been of the opinion that he was Alexander the Great but the characteristics of Zul-Qarnain described in the Quran are not applicable to him. However, now the commentators are inclined to believe that Zul- Qarnain was Cyrus, an ancient king of Iran. We are also of the opinion that probably Zul-Qarnain was Cyrus, but the historical facts, which have come to light up to this time, are not sufficient to make any categorical assertion. Now let us consider the characteristics of Zul-Qarnain in the light of his story as given in the Quran. (1) The title Zul-Qarnain (the two-horned) should have been quite familiar to the Jews, for it was at their instigation that the disbelievers of Makkah put this question to the Prophet (peace be upon him). Therefore we must turn to the Jewish literature in order to learn who was the person known as the two-horned or which was the kingdom known as the two-horned. (2) Zul-Qarnain must have been a great ruler and a great conqueror whose conquests might have spread from the east to the west and on the third side to the north or to the south. Before the revelation of the Quran there had been several persons who were such great conquerors. So we must confine our research for the other characteristics of Zul-Qarnain to one of these persons. (3) This title should be applicable to such a ruler who might have constructed a strong wall across a mountain pass to protect his kingdom from the incursions of Gog and Magog. In order to investigate this thing, we will have to determine as to who were Gog and Magog. We will also have to find out when such a wall was built and by whom and to which territory it was adjacent. (4) Besides possessing the above mentioned characteristics, he should also be a God-worshiper and a just ruler, for the Quran has brought into prominence these characteristics more than anything else. The first of these characteristics is easily applicable to Cyrus, for according to the Bible, Prophet Daniel saw in his vision that the united kingdom of Media and Persia was like a two-horned ram before the rise of the Greeks. (Dan. 8: 3, 20). The Jews had a very high opinion of the twohorned one, because it was his invasion which brought about the downfall of the kingdom of Babylon and the liberation of the Israelites Please also refer to (E.N. 8 of Surah Al-Isra). The second characteristic is applicable to him to a great extent but not completely. Though his conquests spread to Syria and Asia Minor in the West and to Bakhtar (Balkh) in the East, there is no trace of any of his great expeditions to the North or to the South, whereas the Quran makes an explicit mention of his third expedition. Nevertheless, this third expedition is not wholly out of question for history tells us that his kingdom extended to Caucasia in the North. As regards to Gog and Magog, it has been nearly established that they were the wild tribes of Central Asia who were known by different names: Tartars, Mongols, Huns and Scythians, who had been making inroads on settled kingdoms and empires from very ancient times. It is also known that strong bulwarks had been built in southern regions of Caucasia, though it has not been as yet historically established that these were built by Cyrus. As regards to the last characteristic, Cyrus is the only known conqueror among the ancient rulers, to whom this may be applicable, for even his enemies have been full of praise for him for his justice, and, Ezra, a book of the Bible, asserts that he was a God worshiper and a God fearing king who set free the Israelites because of his God worship, and ordered that the Temple of Solomon should be rebuilt for the worship of Allah, Who has no partner. In the light of the above, we admit that of all the conquerors, who had passed away before the revelation of the Quran, Cyrus alone is the one to whom the characteristics of Zul-Qarnain are most applicable, but we need more evidence to determine specifically that Cyrus is definitely Zul-Qarnain. Anyhow, there is no other conqueror to whom the characteristics stated in the Quran are as much applicable as to Cyrus. Historically, it is enough to say that Cyrus was a Persian ruler, whose rise began about 549 B.C. In a few years, he conquered the kingdom of Media and Lydia and afterwards conquered Babylon in 539 B.C. After this no powerful kingdom was left to oppose him. His conquests extended to Sind and the territory known as Turkistan on one side, and to Egypt and Libya and to Thrace and Macedonia and to Caucasia and Khawarzam in the North. In fact, the whole civilized world was under his sway.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :61 وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ کا عطف لا محالہ پچھلے قصے ہی پر ہے ۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورے کے یہ تینوں اہم قصے دراصل کفار مکہ نے اہل کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :62 یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا ۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں ۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس ( خسرو یا سائرس ) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا ۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : 1 ) ۔ اس کا لقب ذو القرنین ( لغوی معنی دو سینگوں والا ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا ، ضرور معروف ہونا چاہیے ۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ دو سینگوں والے کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے ۔ 2 ) ۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں ۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی ۔ 3 ) ۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو ۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے ۔ 4 ) ۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو ، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے ۔ یہودیوں میں اس دو سینگوں والے کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی ( تفہیم القرآن سورہ بنی اسرائیل ، حاشیہ 8 ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ، مگر پوری طرح نہیں ۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر ( بلخ ) تک وسیع ہوئیں ، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز ) تک وسیع تھی ۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی ، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے ۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے ۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جاسکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے ۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا ۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ذو القرنین کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے ۔ تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے ۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549 ق ۔ م ۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا ۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا ( الجبال ) اور لیڈیا ( یشیائے کوچک ) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق ، م ، میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی ۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد ( موجودہ ترکستان ) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک ، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز ( کاکیشیا ) اور خوار زم تک پھیل گئی ۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: اس سورت کے تعارف میں گزرچکا ہے کہ مشرکین نے حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کئے تھے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا، یہاں سے اس سوال کا جواب دیا جارہا ہے، قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس شخص کا نام ذوالقرنین تھا، ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا، یہ کسی نا معلوم وجہ سے ایک بادشاہ کا لقب تھا، قرآن کریم نے اس بادشاہ کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ کون تھا اور کس زمانے میں تھا البتہ ہمارے زمانے کے بیشتر محققین کا رجحان یہ ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ سائرس تھا، جس نے بنی اسرائیل کو بابل کی جلا وطنی سے نجات دلاکر انہیں دوبارہ فلسطین میں آباد کیا تھا، قرآن کریم نے اتنا بتایا ہے کہ انہوں نے تین لمبے سفر کئے تھے، پہلا دنیا کی انتہائی مغربی آبادی تک، دوسرا انتہائی مشرقی آبادی تک، اور تیسرا انتہائی شمالی علاقے تک، جہاں انہوں نے یاجوج ماجوج کے وحشیانہ حملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک دیوار تعمیر کی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ ٨٦:۔ شروع سورة ایک تفسیر میں گزر چکا ہے کہ یہود کے سکھانے سے مشرکین مکہ نے روح اصحاب کہف اور سکندر القرنین مصری اور سکندر رومی کا ایک ہونا پایا جاتا ہے ١ ؎ اور اسی روایت کی بنا پر تفسیر ابن جریر کے علاوہ بعض اور تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ قرآن شریف میں جس شخص کا قصہ ہے وہ سکندر رومی ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) نے عقبہ بن عامر (رض) کی اسی روایت کو ضعیف ٹھہرا کر معتبر اہل تاریخ مثلا سہیلی ارزقی کے قول کے موافق اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ سکندر دو شخص گزرے ہیں پہلا سکندر ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے اس سکندر اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا زمانہ ایک ہی ہے یہ سکندر ملت ابراہیمی کا پابند شخص تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اس شخص نے حج ادا کیا ہے اس سکندر کے وزیر خضر (علیہ السلام) تھے دوسرا سکندر رومی ہے جس کا وزیر ارسطو تھا یہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سو برس پہلے ہوا ہے یہ سکندر ثانی اور اس کا وزیر ارسطو بت پرست لوگ تھے ٢ ؎۔ تاریخی قصے لکھے گئے ہیں بنی اسرئیلی رواتیں نہیں لی گئی ہیں اسی طرح سہیلی قدیمی تاریخوں کے حافظ علماء اندلس میں مشہور ہیں اس واسطے قرآن شریف کی تفسیر میں ایسے ہی لوگوں کا قول معتبر قرار پاسکتا ہے کیونکہ قرآن شریف میں جس شخص کا قصہ ہے اس میں یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایک مشرک قوم کو اس کے قابو میں کردیا تو اس نے اس قوم کو یہ حکم سنایا کہ اس قوم میں کے جو لوگ شرک پر قائم رہیں گے ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جائے گا اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ جدا سخت عذاب کرے گا اور اس قوم کے جو لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قائل ہو کر عقبیٰ کی بہبودی کے لیے نیک عمل کریں گے دنیا میں ہم لوگ بھی ان سے اچھی طرح پیش آئیں گے اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں کو بڑا اجر ملے گا قرآن شریف کی ان آیتوں سے یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا قصہ قرآن شریف میں ہے وہ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت قیامت ملت ابرہیمی کے نیک عمل ان سب باتوں کا قائل تھا اس لیے اس سکندر اول اور بت پرست سکندر ثانی کو ایک ٹھہرانا قرآن شریف کی آیتوں اور معتبر علمائے اسلام کے قول کے برخلاف ہے۔ تفسیر عبدالرزاق تفسیر ابن منذر اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) سے صحیح روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو معلوم نہیں کہ تبع اور ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں ٣ ؎ اس حدیث سے بھی سہیلی ارزقی اور حافظ ابن کثیر کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ قرآن شریف میں سکندر رومی کا قصہ نہیں ہے کس لیے قرآن شریف میں ذوالقرنین کے نام سے قصہ آیا ہے اگر ذوالقرنین اور بت پرست سکندر رومی ایک ہوتے تو بت پرست سکندر ثانی کی نبوت کا شبہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز نہ ہوتا فتح الباری میں کئی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے جس میں ذوالقرنین کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کرنے اور اسی زمانہ میں حج کرنے کا ذکر ہے ٤ ؎۔ سیرہ ابن اسحاق میں ہے ذوالقرنین کا نام سکندر ہے ان روایتوں سے بھی پہلی ارزقی اور حافظ ابن کثیر کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ سکندر دو شحص گزرے ہیں کیونکہ سکندر رومی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں دو ہزار برس سے زیادہ کی مدت کا فرق ہے پھر یہ سکندر ثانی حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں کہاں سے آسکتا ہے محمد بن مسلم ابن شہاب زہری کا قول ہے کہ اس سکندر اول نے سورج کی غربی اور شرقی دونوں شعاعوں کے نیچے بہت دور تک کا سفر کیا اس لیے اس کا نام ذوالقرنین ہوگیا۔ یہ ابن شہاب زہری بڑے ثقہ اور مشہور تابعی ہیں اور حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایت ہے قرآن کے معنے سینگ کے ہیں یہاں سورج کی غربی اور شرقی دونوں شعاعوں کو سورج کے سینگ قرار دیا گیا ہے۔ ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے یہ مشرکین مکہ تم سے ذوالقرنین کا حال جو پوچھتے ہیں تو تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تم لوگوں کو اس کا قصہ سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو روئے زمین کی بادشاہت دی تھی اور ہر طرح بادشاہت کا سامان اس کو عنایت کیا تھا جس سامان کو کام میں لاکر اس نے زمین کی غربی جانب کا سفر کیا اور اس کو یہ معلوم ہوا کہ ایک دلدل کے چشمہ میں سورج غروب ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح کشتی کے بیٹھنے والے شخص کو غروب کے وقت یہ دنیا ہے کہ دریا کے کنارے پر سورج غروب ہوجاتا ہے۔ یا ایک قلعہ کے رہنے والے شخص کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قلعہ کی دیوار کے پیچھے سورج غروب ہوجاتا ہے اسی طرح سکندر کو یہ دکھائی دیا کہ اس دلدل کے چشمہ میں سورج غروب ہوتا ہے ورنہ سورج تو ساری زمین سے کئی حصہ بڑا ہے زمین کے اتنے ٹکڑے میں جس میں کہ دلدل کا چشمہ ہے اس قدر گنجائش کہاں ہے کہ اس میں سورج چھپ جائے علاوہ اس کے سورج آسمان پر ہے اور یہ دلدل کا چشمہ زمین پر پھر سورج کا آسمان سے اتر کر زمین کے اس دلدل کے چشمہ میں غروب ہونا کیوں کر اس کے موافق ہے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج کی چال کی تفسیر یوں فرمائی ہے سورج لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوجانے کے بعد عرش معلی کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور دوسرے دن مشرق سے نکلنے کی اس کو اجازت ہوجاتی ہے ہاں قیامت کے قریب اس کو مغرب سے نکلنے کا حکم ہوگا یہ حدیث صحیح بخاری مسلم نسائی وغیرہ میں ابوذر (رض) کی روایت سے آئی ہے ٥ ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے وہی مطلب ہوا جو اوپر بیان کیا گیا کہ دلدل کے چشمے کے پاس جاکر سورج سکندر کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی ٹھہرائی ہوئی چال کے موافق وہاں سے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس دلدل کے چشمہ کے پاس اللہ تعالیٰ نے ایک مشرک قوم کو سکندر کے قابو میں کردیا تو سکندر نے اس قوم کو یہ حکم سنایا کہ اس قوم میں کے جو لوگ شرک پر جمے رہیں گے ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جائے گا الور عقبیٰ میں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ جدا سخت عذاب کرے گا اور اس قوم میں کے جو لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قائل ہو کر عقبیٰ کی بہبودی کی نیت سے نیک عمل کریں گے دنیا میں ہم لوگ بھی ان سے اچھی طرح پیش آئیں گے اور عقبیٰ میں بھی ان کو بڑا اجر ملے گا۔ مجاہد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ تمام روئے زمین کی بادشاہت چار شخصوں کو ملی ہے جس میں سلیمان (علیہ السلام) اور ذوالقرنین ایماندار تھے اور نمرود اور بخت نصر کافر۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریرص ٨ ص ج ١٦ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیرص ١٠٠ ج ٣۔ ٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٤٠ ج ٤ ٤ ؎ ص ٢٢٨ ج ٣ باب قصہ یا جوج ما جوج۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٧٢ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:83) ذی القرنین۔ مضاف مضاف الیہ۔ ترکیب اضافی بحالت جر۔ دو سینگوں والا۔ قرنین۔ جمع ۔ قرن واحد۔ دو کنارے۔ دو سینگ۔ ایک نیک عادل با اقتدار بادشاہ کا نام جس کی شخصیت کے تعین میں اختلاف ہے۔ ساتلوا۔ س حرف۔ مضارع کو مستقبل قریب کے معنی میں مخصوص کردیتا ہے۔ اتلوا۔ مضارع واحد متکلم۔ تلاوۃ مصدر۔ میں عنقریب پڑھ کر سنائوں گا۔ میں عنقریب بیان کروں گا۔ تلو مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ان پوچھنے والوں سے مراد کفار مکہ میں جنہوں نے یہود کے مشورہ سے تین سوالات بطور امتحان پیش کئے تھے۔ ایک روح کے بارے میں دوسرا اصحاب کہف کے بارے میں اور تیسرا ذوالقرنین کے بارے میں …قرآن میں ذوالقرنین سے مراد کون ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں عض کہتے ہیں کہ یہ یونان کے سکندر اعظم کا لقب تھا جس نے اسکندریہ کی بنیاد رکھی تھی۔ امام رازی نے تاریخی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اس کا زمانہ حضرت مسیح سے تقریباً تین سو سال قبل کا ہے۔ مگر یہ بات اس لئے صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ایک خدا پرست اور انصاف پسند فرمانروا تھا حالانکہ سکندر اعظم کافر اور بت پرست بادشاہ تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک اور بادشاہ ہے جو حضرت ابراہیم کا ہم عصر تھا اور حضرت ابراہیم کی دعا سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے خارق عادت اسباب و وسائل عطا فرمائے اور اس کا وزیر خضر تھا اس لئے خضر کے قصہ کے ساتھ اس کا قصہ بیان فرمایا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور ابن کثیر نے اس کا نام بھی اسکندر بیان کیا ہے اسکندر یونانی اور اس کے درمیان تقریباً دو ہزار سال کا زمانہ ہے۔ مولانا ابوالکام آزاد نے ترجمان میں اس کے متعلق قرآن کی بیان کردہ صفات و خصوصیات کو ایران کے بادشاہ خورس پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے اور صاحب قصص القرآن ج و 229117) نے مولانا آزاد کی تصویب کی ہے۔ بہرحال ذوالقرنین سے کوئی بھی مراد ہو قرآن نے جس انداز سے اس کا ذکر کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی عظیم الشان فتوحات اور عدل و انصاف کی وجہ سے نہ صرف عہد رسالت کے یہود کے درمیان ایک معروف شخصیت تھی بلکہ مشرکین عرب بھی اس کے حال سے واقف تھے کیونکہ قدیم شعرائے عرب نے اپنے اشعار میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ شاید اسے ذوالقرنین اس لئے کہتے ہوں کہ اس نے دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) کی مسافت طے کی تھی۔ اس کی وجہ سمیہ میں دیگر اقوال بھی منقول ہیں۔ البدایہ و منتہایۃ میں حافظ ابن کثیر نے بہت مفصل بحث کی ہے۔ (ابن کثیر شکافی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٢) اسرارومعارف آپ سے ذوالقرنین کے بارے سوال کرتے ہیں کہ یہ ایک بہت عظیم الشان بادشاہ گذرا تھا اور اس کے بہت سے قصے مشہور ومعروف تھے ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے تو کفار مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سوال کیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آتی ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے صحیح اور درست بات ارشاد فرمائیے ۔ (ذوالقرنین کون تھا) ذوالقرنین کا نام قرآن نے نہیں دیا بلکہ پہلے سے مشہور تھا اور اسی نام سے مشہور تھا اور اسی نام سے سوال ہوا تھا ، یہ نام کیوں تھا اس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، بعض کے مطابق اس کے سر پر دو چوٹیاں تھیں تو بعض نے کہا کہ دو سینگ نما چیزیں تھیں اور بعض کی رائے میں سر پر دونوں جانب زخم کی نشان تھے ، نام سکندر اور لقب ذوالقرنین تھا ، قرآن نے اس کے مومن صالح اور عظیم حکمران ہونے کی خبر دی ہے ، اس کے علاوہ اسرائیلی روایات ہیں جن کا اعتبار نہیں ہاں اس نام کے کئی لوگ گذرے ہیں جن کے نام بھی سکندر ہی تھے اور ان سب میں آخر وہ سکندر تھا جو مقدونیہ کا رہنے والا اور سکندر اعظم مشہور ہے اسے ذوالقرنین قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ مومن نہ تھا بلکہ مشرک تھا اور آتش پرست تھا ، ارسطو اسی کا وزیر تھا یہ ذوالقرنین البدایہ والنہایہ کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا ہے ۔ واللہ اعلم۔ بہرحال ارشاد ہوا کہ ان سے کہیے میں تمہیں اس کا کچھ احوال سناتا ہوں گریا یہ تفصیل جو ضروری نہیں خود کتاب اللہ مذکور نہیں ہے ، بات یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے اسے بہت مضبوط سلطنت بخشی تھی ۔ (حکومت بھی بہت بڑی نعمت ہے) اور اس کے پاس سلطنت کی بقا اور دشمنوں سے مقابلہ کے تمام اسباب مہیا تھے کہ حکومت واقتدار اگر اللہ جل جلالہ کی اطاعت کے ساتھ نصیب ہو تو بہت ہی بڑی نعمت ہے ۔ چناچہ وہ ایک سمت نکلا اور شہروں پہ شہر اور علاقے فتح کرتا ہوا انتہائی مغرب میں جا پہنچا جہاں آگے خشکی نہ تھی بلکہ حد نگاہ پر سورج سیاہ دلدل یعنی سمندر میں ڈوبتا ہوا لگتا تھا وہاں اسے ایک کافر اور انتہائی ظالم قوم سے واسطہ پڑا جن پر وہ غالب آیا اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے ارشاد ہوا ۔ (ولی سے بھی خطاب ممکن ہے) کہ اے ذوالقرنین انہیں سزا دے یا حسن سلوک کرے تجھے اس کا اختیار ہے ، یہاں بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے وہ نبی ہو اور بذریعہ وحی خطاب ہوا ہو ، بعض کے مطابق حضرت خضر (علیہ السلام) اس کے معاون تھے ، ان کے ذریعے ہوا مگر ان کی نبوت پہ بھی کوئی دلیل نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ خود اسے الہام یا القا ہوا کہ ولی سے خطاب بھی ہو سکتا ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے ہوا اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ، لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ اگر یہ لوگ باز آگئے اور تائب ہوگئے ، تو بہتر ورنہ جو ظلم پہ قائم رہے انہیں ضرور سزا دوں گا اور قتل کئے جائیں گے ، مگر کفر کے مقابل تو یہ سزا بھی بہت معمولی ہے اصل سزا تو انہیں قتل ہونے کے بعد ملے گی جب برزخ اور آخرت میں پہنچیں گے تو اللہ جل جلالہ انہیں سخت عذاب دے گا ہاں جن کو ایمان نصیب ہوگیا اور انہوں نے اپنا کردار درست کرلیا اور صالح اعمال اختیار کیے تو ان پر کوئی سختی نہ کی جائے گی بلکہ انعامات سے نوازے جائیں گے اور عزت واحترام پائیں گے ۔ پھر وہ سفر پہ نکلا تو انتہائے مشرق تک جا پہنچا یوں نظر آتا تھا جیسے سورج یہیں سے طلوع ہوتا ہے کہ زمین اور خشکی کی حد ختم ہوگئی ، اور وہاں ایسی قوم سے واسطہ پڑا جو کھلے آسمان تلے رہنے کے عادی تھے اور گھر نام کی کوئی شے نہ بناتے تھے ان سے بھی وہی معاملہ کیا جو اہل مغرب سے کیا تھا کہ یہ جو بات بتائی جا رہی ہے یہ اس کی حقیقی خبر ہے محض قصہ کہانی کی طرح کی بات نہیں ۔ پھر تیسری جانب متوجہ ہوا مفسرین کے مطابق شرق وغرب کی تسخیر کے بعد شمال کا عزم کیا اور بلند پہاڑوں کے درمیان ایسی قوم کو پایا جن کے پاس کوئی لغت نہ تھی ، اور نہ علم کے ذرائع تھے کہ وہ باشعور ہوتے تو انہوں نے کہا اے ذوالقرنین ہمیں تو یاجوج وماجوج کی تباہی کا سامنا ہی پریشان کئے رکھتا ہے اور ہم کچھ بھی تو کر نہیں پاتے ، نہ قیام امن کی کوئی صورت ہے نہ تحصیل علم کی ۔ (یاجوج وماجوج کیا ہیں) اس موضوع پر بہت طویل بحثیں کی گئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ انسانوں ہی میں سے ایک بیحد وحشی قوم شمال کے علاقوں میں اسی سد سکندری کے پیچھے قید ہے جو قرب قیامت میں نکلے گی اور روئے زمین کو تاخت و تاراج کر دے گی اور پھر اللہ جل جلالہ کے حکم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے کسی وباء میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجائے گی ، یہ سب ظہور دجال ، نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور یاجوج وماجوج قیامت سے پہلے کے واقعات ہیں جو ظہور پذیر ہوں گے ، چناچہ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ ان سے حفاظت کا کوئی طریقہ بتادیں یا ان کے اور ہمارے درمیان دیوار کھڑی کردیں تو ہم اس کے لیے ٹیکس اور مالی معاونت کو تیار ہیں آپ نے کہا کہ مال و دولت تو مجھے میرے رب نے بہت دے رکھا ہے ہاں تو تم کام کر کے دو اور افرادی قوت سے میری مدد کرو تو میں اس درے میں ایک ناقابل شکست دیوار بنا دوں ، چناچہ اس نے لوہے کی موٹی چادریں منگوائیں اور اس طرح ان کی دیوار بنائی کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کو بھر کر برابر کردیا ، پھر انہیں گرم کرانا شروع کردیا جب وہ سب گرم ہو کر آگ کی طرح دہکنے لگیں تو ان پر پگھلا ہوا تانبہ ڈلوا دیا اور یوں وہ سب ایک جان ہو کر ایک بہت مضبوط دیوار بن گئی تو کہا لو اب نہ تو وہ اس پر چڑھ سکیں گے کہ اس کی سطح ایسی نہیں کہ اوپر چڑھا جاسکے اور بہت مضبوط ہے نہ ہی اس میں سوراخ کرسکیں گے ، یہ دیوار اور اس کے بنانے کی توفیق سب ہی تو میرے رب کی رحمت ہے ہاں جب اللہ جل جلالہ کا وعدہ آئے گا اور وہ انہیں راستہ دینا چاہے گا تو اس کی مضبوطی وغیرہ کچھ نہ رہے گی اور یہ تباہ ہوجائے گی کہ میرے پروردگار کے وعدے یقینی طور پر سچے ہیں ۔ اور جب ان کے نکلنے کا زمانہ آئے گا تو ایک سیلاب کی طرح ملکوں پہ بڑھتے اور تباہ کرتے چلے آئیں گے اور ہر شے کو تاراج کردیں گے ، یہ قرب قیامت کا زمانہ ہوگا کہ پھر اس کے بعد ہی واقعات قیامت شروع ہوجائیں گے اور صور پھونکے جائیں گے دنیا کی بساط لپٹ جائے گی اور کفار جہنم کو رو برو پائیں گے ، وہ لوگ جو دنیا میں محو ہو کر میری یاد بھول چکے تھے اور ایمان تک نہ لائے اور احقاق حق کی پرواہ تک نہ کی بلکہ سنی ان سنی کرتے رہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 83 تا 91 یسئلون وہ سوال کرتے ہیں۔ ذوالقرنین بہت طاقتور۔ ساتلوا بہت جلد میں بتاؤں گا۔ مکنا ہم نے جمایا، اقتدار دیا تھا۔ سبب سامان۔ اتبع وہ پیچھے گیا۔ اس نے تیاری کی۔ حمئۃ دلدل، کیچڑ، سیاہ۔ یرد لوٹایا جائے گا۔ الحسنی بہترین، بھلا۔ یسر آسان۔ ستر پردہ، رکاوٹ، احطنا ہم نے گھیر لیا۔ لدیہ اس کے پاس ۔ خبر علم، خبر۔ تشریح :- آیت نمبر 83 تا 91 تاریخ انسانی کے ہر دور میں اچھے اور برے کردار کے لوگ گذرتے رہتے ہیں۔ بہترین کردار کے لوگوں کی زندگی دوسروں کے لئے مشعل راہ، نمونہ عمل اور نشان راہ ہوتی ہے۔ جب کہ برے اور بدکردار لوگ کسی عزت کے مستحق نہیں ہوتے۔ یوں تو ہر قوم اور اس کے افراد کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے جس کو ادا کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے گذر جاتے ہیں۔ لیکن انسان کے اچھے یا برے کردار کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کے ہاتھ میں ہر طرح کی طاقت و قوت ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی طاقت و قوت، حکومت و سلطنت اور مال و دلوت کو مجبوروں بےکسوں اور مظلوموں کو تباہ و برباد کرنے پر لگاتا ہے تو اس کا شمار فرعون، نمرود، شداد اور قارون جیسے ظالموں اور فخر و غرور کے پیکروں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اگر وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو مظلوموں کی ہمدردی، ان کی امداد و اعانت اور فریاد رسی پر صرف کرتا ہے تو اس سے نہ صرف انسانیت کو آبرو ملتی ہے بلکہ ہر شخص ان کے ادب و احترام میں اپنی گردن جھکا دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ذوالقرنین بھی اللہ کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے جنہوں نے مشرق و مغرب کے فاتح اور ایک عظیم سلطنت میں خود مختار ہونے کے باوجود ظلم ، زیادتی اور بےانصافی کے بجائے عدل و انصاف اور امن و محبت کا ایک ایسا نظام قائم کیا اور مظلوموں، بےکسوں اور مجبوروں کے ساتھ ایسی ہمدردی کا رویہ اختیار کیا جو تاریخ انسانی میں ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل بن گیا۔ قریش مکہ کو یہودیوں نے یہ سکھادیا تھا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا امتحان لینے کے لئے تین سوالات کریں۔ روح کیا ہے ؟ اصحاب کہف کون تھے ؟ ذوالقرنین کا واقعہ اور خصوصیات کیا تھیں ؟ یہودی اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ عرب کے لوگ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات اور روح کی حقیقت سے بیخبر ہیں۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جائے گا تو وہ اس کا جواب نہ دے سکیں گے اور ہمیں مذاق اڑانے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔ کیونکہ نعوذ باللہ ان کا گمان یہ تھا کہ قرآن کریم اللہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے خود ہی گھڑ کر اور بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف اور روح کے متعلق تفصیل سے ارشاد فرما کر اب ذوالقرنین کے متعلق ارشاد فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا واقعہ سنا کر قریش مکہ کو شرم دلائی ہے کہ ذوالقرنین کے پاس سب کچھ تھا لیکن انہوں نے غرور اور تکبر کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے غریبوں، محتاجوں اور مجبوروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کر کے اپنی عظمت کو چار چاند لگا دیئے تھے اور قریش مکہ معمولی سی سرداریوں اور مال و دولت پر اس قدر اترا رہے ہیں کہ اللہ کا نام لینے والے کمزور اور بےبس مسلمانوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں جن سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ فرمایا کہ ذوالقرنین ایک نیک دل اور انصاف پسند حکمران تھے جو ایک عظیم سلطنت اور صاحب اقتدار ہونے کے باوجود ہر شخص کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کو سب سے بڑی نیکی تصور کرتے تھے۔ فرمایا کہ ذوالقرنین جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے انہوں نے پوری زندگی دنیا کے کونے کونے کا سفر کیا اور جس کو بھی ضرورت مند سمجھا اس کی پوری مدد فرمائی اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم نہیں کیا۔ انہوں نے مغرب، مشرق اور شمال و جنوب کے متعدد سفر کئے اور فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ انہیں اللہ نے تمام مادی وسائل، ذرائع اور مال و اسباب عطا فرما رکھے تھے۔ وہ تمام تر وسائل کے ساتھ سب سے پہلے مغرب کی سمت روانہ ہوئے۔ وہ چلتے چلتے اس مقام تک پہنچ گئے۔ جہاں حد نظر تک دلدل تھی۔ نہ تو آگے جانے کا پیدل راستہ تھا اور نہ کوئی انسان وہاں تک پہنچ سکتا تھا۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ وہاں ٹھہر گئے سورج غروب ہوتے ہوئے ایسا لگا جیسے وہ سیاہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔ وہاں ذوالقرنین نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بالکل الگ تھلگ ایک بستی میں رہتی تھی۔ ایک فاتح بادشاہ اور حکمران کے اعتبار سے اس زمانہ کے رواج کے مطابق ان کے لئے دوراستے کھلے ہوئے تھے کہ وہ ایک ظالم فاتح کی طرح ان کا مال و اسباب لوٹ کر ان کو اپنا غلام بنا لے یا ایک عادل بادشاہ کی طرح ان کے ساتھ بھلائی، ہمدردی اور عدل و انصاف کا معاملہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اگر اللہ کسی کو اقتدار، طاقت اور قوت عطا کرتا ہے تو اس کو کمزور کے ساتھ بہترین معاملہ کرنا چاہئے۔ چناچہ ذوالقرنین نے عدل و انصاف اور امن و سلامتی کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اعلان عام کردیا کہ وہ ہر شخص کے ساتھ بہترین معاملہ کرے گا۔ البتہ اگر کوئی اپنی حدود سے آگے بڑھنے اور زیادتی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ مغرب کا سفر کرنے کے بعد ذوالقرنین نے مشرقی سمت کا رخ کیا۔ راستے میں چلتے ہوئے کچھ ایسے لوگوں کی آبادی پر نظر پڑی جو حیوانوں جیسی جنگلی زندگی گذار رہے تھے۔ نہ ان کے پاس رہنے کے گھر تھے۔ نہ دھوپ سے بچنے کا سامان تھا۔ نہ ایسا ڈھنگ کا لباس تھا جس سے وہ اپنے بدن کو پوری طرح ڈھانپ سکیں۔ سورج اور دھوپ کی شدت نے ان کے بدن جھلسا کر رکھ دیئے تھے۔ ذوالقرنین نے حکم دیا کہ ان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ بہترین سلوک اور احسان و کرم کا معاملہ کیا جائے۔ ذوالقرنین کے یہ دو سفر مشرق و مغرب کی طرف کئے گئے تھے۔ انہوں نے ہر جگہ ایسا عدل و انصاف قائم کیا جس سے پوری دنیا میں خیر و بھلائی پھیل گئی۔ قرن کے معنی زمانہ، صدی، سینگ و قوت کے آتے ہیں۔ چونکہ ذوالقرنین نے مشرق و مغرب کے ملکوں کو کھنگال ڈالا تھا شاید اسی لئے ان کو ذوالقرنین کہا جانے لگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین نہ صرف دنیا بھر کے فاتح تھے بلکہ انہوں نے عدل و انصاف کا ایک ایسا بہترین کردار پیش کیا تھا جو ساری دنیا کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ ذوالقرنین چونکہ اللہ کو ایک ماننے والے ، اس کے فرماں بردار اور اطاعت گذار تھے لہٰذا ان کے متعلق یہ کہنا کہ ذوالقرنین اور سکندر اعظم ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں اس لئے غلط ہوجاتا ہے کہ سکندر اعظم توحید پرست نہ تھا جب کہ ذوالقرنین توحید خالص کے ماننے والے اور اللہ کے شکر گزاربندے تھے۔ بعض حضرات نے تو ان کی نیکیوں اور توحید کی بنا پر یہاں تک فرما دیا کہ وہ نبی تھے۔ بہرحال ذوالقرنین کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن صالح ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اس پر قرآن کی آیات بھی گواہ ہیں۔ مشرق و مغرب کے اس فاتحانہ سفر کے بعد ذوالقرنین نے تیسرا سفر بھی کیا جس کی تفصیل اگلی آیات میں آرہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : الکہف کے تعارف میں عرض کیا ہے کہ یہ سورة اہل مکہ کے سوالات کے جواب میں نازل ہوئی تھی۔ اہل مکہ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔ ان کی دن رات کوشش تھی کہ کسی ایک بات میں سہی اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی نظروں میں جھوٹا یا کم از کم لاجواب کردیا جائے۔ اس کے لیے انھوں نے مدینہ میں یہودیوں کے پاس وفد بھیجا۔ یہودیوں نے اس سورة میں ذکردوسرے سوالات کے ساتھ ایک سوال یہ بھی بتلایا کہ واپس جا کر محمد سے یہ بھی پوچھنا کہ ” ذوالقرنین “ کون تھا اور اس نے مشرق سے لے کر مغرب تک جو فتوحات حاصل کیں ان کی تفصیلات کیا ہیں۔ اہل مکہ نے واپس آکر آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ جس کا جواب دینے سے پہلے یہ ارشاد ہوا ہے کہ یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں لہٰذا ہم آپ کو ذوالقرنین کے بارے میں کچھ باتیں بتلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن مجید تاریخ، جغرافیہ اور دنیوی علوم و فنون کی کتاب نہیں ہے۔ تاریخ، جغرافیہ اور دنیوی علوم و فنون کے بارے میں قرآن مجید اتنا ہی اشارہ اور بات کرتا ہے جس کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے انسان کی ہدایت اور فائدے کے ساتھ ہوتا ہے اس سے آگے قرآن کچھ بھی ذکر نہیں کرتا۔ اس لیے ذوالقرنین کے بارے میں جواب دینے سے پہلے ” مِنْہُ ذِکْرًا “ کے لفظ استعمال کرکے واضح کردیا گیا ہے۔ کہ ہم اس کے واقعات میں سے کچھ واقعات کا ذکر آپ کے سامنے کریں گے۔ لفظ ذکر کا ایک معنٰی نصیحت بھی ہے۔ اس لیے یہ حقیقت بھی بتلا دی گئی کہ ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لیے اس کے کردار اور واقعات میں ایک عبرت اور نصیحت ہے بشرطیکہ یہ اسے پانے کی کوشش کریں۔ ذوالقرنین وہ شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بہت سے اختیارات دیے تھے اسے وسیع و عریض مملکت اور ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کیا تھا۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ” ذوالقرنین “ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (خسردیا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : ١۔ اس کا لقب ذوالقرنین ( لغوی معنی ( دو سینگوں والا) کم از کم یہودیوں میں جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ” دو سینگوں والے “ کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔ ٢۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں، ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی ایک میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔ ٣۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج وماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج وماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔ ٤۔ اس میں مذکورۂ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جاسکتی ہے کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے، یہودیوں میں اس ” دو سینگوں والے “ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی۔ دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے مگر پوری طرح نہیں اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر ( بلخ) تک وسیع ہوئی مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے۔ حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز) تک وسیع تھی۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تا تاری منگولی، ھن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور داریال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جاسکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ” ذوالقرنین “ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن تعین کے ساتھ اسے ذوالقرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج ٥٤٩ ق م کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا ( ایشیائے کوچک کی) سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ٥٣٩ ق م میں بابل کو بھی فتح کرلیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغْد ( موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔ (بحوالہ : تفہیم القرآن) مسائل ١۔ ذوالقرنین ایک عظیم حکمران تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وسیع مملکت اور ہر قسم کے وسائل عنایت فرمائے تھے۔ ٣۔ ذوالقرنین کے کردار اور واقعات میں معاشرے کے بڑے لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اور وسائل دینے والا ہے : ١۔ ہم نے اسے (ذوالقرنین) زمین میں اقتدار بخشا اور ہر طرح کا ساز و سامان بھی دیا۔ (الکہف : ٨٤) ٢۔ کہہ دیجیے اللہ ہی بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہتا ہے اقتدار سے نوازتا ہے جس سے چاہتا چھین لیتا ہے (آل عمران : ٢٦) ٣۔ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم عطا کیا۔ (النساء : ٥٤) ٤۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اس کی اولاد نہیں اور اس کی بادشاہت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ (الفرقان : ٢) ٥۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٤٣١ ایک نظر میں یہ سورة کہف کا آخری سبق ہے۔ اس سبق کا بڑا حصہ ذوالقرنین کے قصے کے بارے میں ہے۔ اس میں ذوالقرنین کے تین سفروں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ سفر مشرق ، سفر مغرب اور سفروسط نیز اس میں یاجوج اور ماجوج کے مقابلے میں ان کی جانب سے دیوار کھڑی کرنے کا خصوصی ذکر ہے۔ قرآن کریم نے اس قصے میں ذوالقرنین کا ایک قول نقل کیا ہے۔ تعمیر سد کے بعد وہ کہتا ہے۔ قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقاً (٨١ : ٨٩) ” ذوالقرنین نے کہا ، یہ میرے رب کی رحمت ہے ، مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ “ اس کے بعد نفخ صور اور قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر آتا ہے اور اس سبق اور اس سورة دونوں کا خاتمہ تین مختصر قطعات پر ہوتا ہے۔ جن پر بات ختم کی جاتی ہے اور ہر ایک مقطعہ کا آغاز لفظ قل کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان قطعات کے ذریعہ پوری سورة کے مضامین کا خلاصہ دیا جاتا ہے اور سورة کا عام فکری رجحان بتا دیا جاتا ہے۔ گویا یہ خلاصہ کلام قاری کے دل و دماغ کی تاروں پر آخری ضربات ہیں لیکن ذرا زیادہ قوت کے ساتھ ہیں۔ محمد ابن اسحاق نے اس سورة کے شان نزول کے سلسلے میں یہ روایت نقل کی ہے۔ ” مجھے ہمارے شہر کے ایک شیخ نے بتایا ، جس نے ہمارے ہاں چالیس سال سے اوپر قیام کیا۔ انہوں نے عکرمہ ، عن ابن عباس کی سند سے روایت کی ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ قریش نے نضر ابن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ میں یہود کے علماء کے پاس بھیجا ، قریش نے ان سے کہا کہ ان علماء سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کرو ، ان کا پورا تعارف کر ائو ، ان کی باتوں کے بارے میں ان کو پوری طرح آگاہ کرو ، یہ لوگ پہلے اہل کتاب ہیں ، ان کے پاس انبیاء کے بارے میں ہمارے مقابلے میں زیادہ علم ہے۔ یہ لوگ اس سفر پر نکلے یہاں تک کہ یہ مدینہ آئے ، انہوں نے یہودی علماء سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سوالات کئے۔ انہوں نے حضرت محمد کا پورا تعارف کرایا اور آپ کے بعض اقوال و نظریات ان کو بتائے ان دونوں نے یہ گزاشر کی کہ تم لوگ حاملین تورات ہو ، ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ تم ہمیں ہمارے اس شخص کے بارے میں صحیح معلومات دو اور اپنی رائے بھی دو ۔ کہتے ہیں کہ ان علماء نے اس وفد کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین سوالات بتاتے ہیں ، تم یہ سوالات ان سے پوچھو۔ اگر اس نے ان تینوں کے جوابات تمہیں دے دیئے تو وہ بیشک نبی مرسل ہیں ، اللہ کے سچے نبی ہیں۔ اگر انہوں نے ان سوالات کے جوابات نہ دیئے تو پھر یہ شخص باتیں بتانے والا ہے۔ تم جانو اور وہ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ نوجوان کون تھے جو پہلے زمانے میں دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان کا معاملہ کیا تھا ؟ کیونکہ ان کا قصہ بڑا عجیب ہے۔ ان سے دوسرا سوال یہ کرو کہ وہ مہم جو شخص کون تھا جس نے کرہ ارض کے مشرق و مغرب کا سفر کیا۔ اس کے متعلق واقعات و خبریں۔ تیسرا سوال یہ کہ ان سے پوچھیں کہ روح کیا ہے۔ اگر اس نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیئے تو وہ سچا نبی ہے۔ تمہیں چاہئے کہ اس کی اطاعت کرو ، اور اگر اس نے ان سوالات کا جواب نہ دیا تو وہ اپنی طرف سے باتیں بنانے والا شخص ہے ، اس کے بارے میں تم جو چاہو کرو۔ نضر اور عقبہ واپس قریش کے پاس آئے۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ ہم تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں۔ ہمیں یہودی علماء نے یہ مشورہ دیا کہ اس سے کچھ باتیں پوچھو۔ انہوں نے قریش کو یہ سوالات بتائے۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا ، محمد ہمیں ان سوالات کے بارے میں صحیح بتائو۔ انہوں نے وہ سوالات آپ کے سامنے رکھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں تمہارے سوالات کا جواب کل دوں گا لیکن آپ نے اس موقع پر لفظ انشاء اللہ نے کہا۔ یہ لوگ چلے گئے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پندرہ شب و روز جبرئیل کا اتنظار کرتے رہے لیکن وحی نہ آئی نہ جبرئیل آئے۔ اہل مکہ مارے خوشی کے ناچنے لگے۔ وہ کہتے ہمارے ساتھ محمد کا وعدہ کل کا تھا لیکن آج پندرہواں دن ہے اور محمد ہمیں سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےحد رنج ہوا۔ کیونکہ ایک تو وحی بند ہوگئی ، دوسرے اہل مکہ بغلیں بجانے لگے۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل سورة کہ لے کر نازل ہوئے۔ اس سورة میں آپ کو تنبیہ کی گئی کہ آپ ان لوگوں کے باتوں سے پریشان کیو ہوئے ؟ اس سورة میں نوجوانوں کا قصہ شرق و غرب تک پہنچنے والے شخص کا قصہ اور روح کے بارے میں جواب نازل ہوا۔ یہ تو تھی ایک رویات اور حضرت ابن عباس (رض) سے آیت روح کے نزول کے سلسلے میں ایک دوسری روایت بھی مروی ہے ……نے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ یہودیوں نے حضور سے سوال کیا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ جسم میں جو روح ہے اسے کس طرح سزا دی جاتی ہے جبکہ روح من جانب اللہ ہے ؟ اس بارے میں آپ پر کوئی آیت نازل نہ ہوئی تھی اس لئے آپ نے ان کو کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر یہ آیت ازل ہوئی۔ قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً (٨١ : ٥٨) ” کہہ دو ، روح اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘ چونکہ اسباب نزول میں روایات متعدد ہیں لہٰذا ہم اسی مفہوم پر اکتفا کرتے ہیں جو قرآن کی نص قطعی سے ثابت ہے۔ اس آیت میں صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کے بارے میں اس وقت سوال کیا گیا تھا لیکن یقینی طور پر معلوم نہیں ہے کہ یہ سوال کس نے کیا تھا۔ نیز اگر معلوم بھی ہوجائے کہ یہ سوال کس نے کن حالات میں کیا تھا تو اس سے اس قصے کے اصل حقائق اور عبرت آموزی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ تفسیر میں اسی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھیں جس حد تک نص سے بات معلوم ہوتی ہے۔ اس پر حاشیہ آرائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب (الا ثارلباقیۃ عن القرون الخالیہ) میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے وہ ملوک حمیر میں تھا انہوں نے محض اس کے نام ذوالقرنین سے یہ قیاس کیا ہے کیونکہ ملوک حمیر اپنے نام کے ساتھ (ذو) کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ مثلاً ذونواس ، اس کا نام دراصل ابوبکر بن افریقی تھا۔ یہ اپنی فوجیں لے کر بحر متوسط کے ساحل کے ساتھ ساتھ آخر تک گیا۔ تونس اور مراکش اس نے فتح کیا۔ اس نے شہر افریقہ بتایا ، بعد کے زمانوں میں پورے بر اعظم کا نام افریقہ پڑگیا اور ذوالقرنین اس کو سا لئے کہا گیا کہ یہ سورج کے دونوں سینگوں تک پہنچ گیا۔ (یعنی مشرق و مغرب تک) ۔ البیرونی کی یہ بات صحیح بیھ ہو سکتی ہے لیکن ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ ہم بالجزم کوئی بات کہہ سکیں یا اس شخص کی حقیقت کے بارے میں چھان بین کرسکیں اس لئے کہ انسانی تاریخ میں اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ہے ، جس کی تاریخ کے ایک حصے کے بارے میں ہمیں قرآن کریم بتاتا ہے۔ اس قصے کی نوعیت بھی ایسی ہے جس طرح قصص القرآن کے دور سے حصو کی ہے۔ مثلاً قصہ قوم نوح ، قوم ہود ، قوم صالح وغیرہ۔ کیونکہ ان قصص کا تعلق جس دور سے ہے وہ ماقبل التاریخ دور ہے۔ تاریخ نو دور جدید کی ایک مولود چیز ہے جبکہ انسانوں کا زمانہ اس سے بہت پہلے کا ہے۔ زمانہ ” تاریخ مدون “ سے قبل ایسے واقعات گزرے ہیں جن کے بارے میں انسان کو کوئی علم نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا تاریخی ریکارڈ نہیں ہے ، جہاں سے ہم کوئی یقینی بات اخذ کرسکیں۔ اگر تورات تحریف اور اضافوں سے پاک ہوتی تو وہ ان قدیم واقعات کے بارے میں ایک قابل اعتماد ریکارڈ ہوتی۔ لیکن تورات ایسے قصے کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ نیز اس میں ایسی باتیں کثرت سے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل وحی پر اضافہ ہیں۔ تو رات میں جو تاریخی قصے ہیں وہ تاریخ کا مستند ماخذ نہیں ہو سکتے۔ اب قرآن ہی وہ ماخذ رہ جاتا ہے جو حذف و اضافہ اور تحریف سے پاک ہے اور اس کے اندر جو بھی تاریخی مواد ہے وہ درست ہے۔ ایک نہایت ہی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہم قرآن کریم کی تاریخ کی روشنی میں نہیں پڑھ سکتے۔ اس کی دو واضح وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ تاریخ بالکل دور جدید کی لکھی ہوئی چیز ہے اور ہے بھی نامکمل۔ انساین تاریخ کے کئی واقعات بلکہ بیشمار اہم واقعات میں ریکارڈ ہونے سے بالکل رہ گئے ہیں۔ ان کے بارے میں انسانوں کو اب کوئی علم نہیں ہے۔ قرآن کریم ان واقعات میں سے بعض واقعات کو پیشک رتا ہے جن کے بارے میں تاریخ فہمی دامن ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تاریخ نے اگرچہ بعض واقعات کو سمجھا اور قلم بند کیا ہے لیکن یہ کام بہرحال دوسرے انسانی اعمال کی طرح قصور اور غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ اس میں غلطی اور تخریف کا ہر جگہ امکان موجود ہے ۔ ہم خود اپنے زمانے میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ذرائع مواصلات ترقی کر گئے ہیں اور تحقیقات کے لئے بیشمار ذرائع میسر ہیں لیکن ایک ہی واقعہ کے بارے میں رپورٹروں کی رپورٹ مختلف ہوتی ہے۔ لوگ مختلف زاویوں سے اسیب یان کرتے ہیں اور متضاد تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ خام مواد جس سے انسانوں کی تاریخ کو مرتب کیا گیا ہے۔ کوئی جس قدر چاہے تحقیق و تفتیش کا دعویٰ کیوں نہ کرے تاریخی ریکارڈ بہرحال مشکوک ہوتا ہے۔ یہ بات کرنا تو موجودہ دور کے مرتب کردہ اصول تاریخ کے بھی خلاف ہے کہ قرآن مجید جن واقعات کا ذکر کرتا ہے ان کو ہم تاریخ کی کسوٹی پر رکھیں ، جبکہ اسلامی عقیدہ اور اسلامی نظریہ حیات تو اس کی سرے سے اجازت ہی نہیں دیتا کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید ایک قول فیصل ہے۔ اس اندازہ کی بات نہ تو وہ شخص کرسکتا ہے جو ایک سچا مومن ہے اور نہ وہ شخص کر سکات ہے جو دور جدید کے انداز تحقیق و تفتیش کو جانتا ہے۔ قرآن کریم کی صحت کو تاریخ سے معلوم کرنا محض بےعقلی ہے۔ پوچھنے والوں نے ذوالقرنین کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ سوالات پوچھے۔ آپ کی سیرت کے مصدقہ ذرائع اور مصادر بتاتے ہیں کہ آپ پر اللہ نے وحی بھیجی اور وہ قرآن میں قلم بند کردی گئی۔ قرآن کے سوا اس دور کی تاریخ کے بارے میں اور کوئی ریکارڈ موجود نہی ہے لہذا ہم بغیر علم کے اس کے بارے عقل گھوڑے نہیں دوڑا سکتے۔ تفاسیر میں بیشمار اقوال وارد ہیں لیکن ہماری تفسیروں کے بیشمار اقوال بھی قابل یقین نہیں ہیں۔ ہم ان تفاسیر کے اقوال میں سے جو قول بھی لیں ہمیں چاہئے کہ اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں کیونکہ ہماری قدیم تفاسیر میں اسرائیلیات اور قصے کہانیاں بھی راہ پا گئی ہیں۔ قرآن مجید کے سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے تین سفر کئے۔ ایک سفر مشرق ، ایک سفر مغرب اور تیسرا سفر (بین البدین) دو بندوں والی جگہ کا سفر۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کریم کے مطابق انہی تین سفروں کو یہاں لیں۔ قرآن کریم ذوالقرنین کی بات یوں شروع کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ذوالقرنین کا مفصل قصہ، مغرب و مشرق کا سفر کرنا یاجوج و ماجوج سے حفاظت کے لیے دیوار بنانا مذکورہ بالا آیات میں ذوالقرنین کی شخصیت اور ان کے مغرب اور مشرق کے اسفار اور ایک قوم کی درخواست کرنے پر یاجوج ماجوج سے حفاظت کرنے کے لیے دیوار بنا دینے کا تذکرہ فرمایا ہے یہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ علماء یہود نے قریش مکہ سے کہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین باتیں دریافت کرو اگر وہ ان کا جواب دیدیں تو سمجھ لینا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور نبی مرسل ہیں، وہ تین باتیں جن کا سوال کرنے کی تلقین کی تھی ان میں ایک سوال روح کے بارے میں تھا اور دوسرا سوال اصحاب کہف کے بارے میں اور تیسرا سوال ذوالقرنین کے بارے میں تھا سورة الاسراء میں روح کے بارے میں سوال و جواب گزر چکا ہے اور سورة کہف کے رکوع نمبر ٢ اور نمبر ٣ میں اصحاب کہف کا تذکرہ ہوچکا ہے ذوالقرنین کے بارے میں جو سوال کیا تھا یہاں اس کا جواب مذکور ہے۔ ذوالقرنین کون تھے اور یاجوج ماجوج کہاں تھے اور جو دیوار یاجوج ماجوج کے فساد سے بچانے کے لیے بنائی تھی وہ کہاں ہے یہ سوال دلوں میں ابھرتے ہیں اور ایک مومن آدمی کے لیے تو قرآن کا اجمالی بیان ہی کافی ہے لیکن اس دور میں چونکہ تحقیق اور تفتیش کا ذوق کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے اس لیے مذکورہ بالا تینوں سوالوں کا جواب آجائے تو مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ذوالقرنین کون تھے ان کا نام کیا تھا اور ذوالقرنین کیوں کہا جاتا تھا پہلا سوال کہ ذوالقرنین کون تھے اور ان کا نام کیا تھا اور ان کو ذوالقرنین کیوں کہا جاتا تھا ؟ اس کے بارے میں اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بعض لوگوں نے ذوالقرنین کو اسکندر مقدونی بتایا ہے جس کا وزیر ارسطو (فلسفی) تھا۔ محققین کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین (جنہوں نے یاجوج ماجوج کی حفاظت کے لیے دیوار بنائی تھی) وہ ایک مومن صالح آدمی تھے (اور بعض حضرات نے انہیں نبی بھی نہیں مانا ہے) اور سکندر مقدونی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جابر اور ظالم بادشاہ تھا۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے سکندر مقدونی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اسکندریہ شہر کا بانی تھا (جو مصر میں ایک مشہور شہر ہے) اور وہ ذوالقرنین اول (جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے) سے بہت متاخر تھا یہ شخص (بانی اسکندریہ) حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا اس نے دارا کو قتل کیا اور شاہان فارس کو ذلیل کیا اس کے بعد حافظ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں۔ وانما نبھنا علیہ الان کثیرا من الناس یعتقد انھما واحد وان المذکور فی القرآن ھو الذی کان ارطاطالیس وزیرہ فیقع بسبب ذلک خطاء کبیر و فساد عریض طویل کثیر فان الاول کان عبدا مومنا صالحا وملکا عادلا وکان وزیرہ الخضر وقد کان نبیا علی ما قررنا قبل ھذا واما الثانی فکان مشرکا وکان وزیرہ فیلسوفا وقد کان بین زمانیھما ازید من الفا سنۃ فان ھذا من ھذا لا یستویان ولا یشتبھان الا علی غبی لا یعرف حقائق الامور۔ (البدایۃ والنہایہ ص ١٠٦ ج ٢) (ترجمہ) ہم نے اس بات پر اس لیے تنبیہ کی ہے کہ بہت سے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے وہ وہی ذوالقرنین ہے جس کا وزیر ارسطو تھا اور اس کی وجہ سے بہت بڑی غلطی اور بہت بڑی خرابی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ ذوالقرنین اول (جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے) وہ عبد مومن تھے صالح انسان تھے اور ملک عادل تھے اور ان کے وزیر حضرت خضر تھے اور خود بھی نبی تھے جیسا کہ ہم نے پہلے ثابت کیا ہے، اور دوسرا ذوالقرنین مشرک تھا اور اس کا وزیر ایک فلسفی تھا اور ان دونوں کے درمیان دو ہزار سے زائد مدت کا فصل تھا سو یہ کہاں اور وہ کہاں ؟ دونوں میں ایسے ہی کوڑھ مغز آدمی کو اشتباہ ہوسکتا ہے جو حقائق الامور کو نہ جانتا ہو۔ یہ بات معلوم ہونے کے بعد کہ ذوالقرنین کون تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے حافظ ابن کثیر نے ان کے نام کے بارے میں چند اقوال نقل کیے ہیں۔ (١) عبد اللہ بن ضحاک بن معد (٢) مصعب بن عبد اللہ بن قنان (٣) مرزوبان بن مرزبہ (٤) صعب بن ذی مرائد (٥) ہرمس (٦) ہر دیس، پھر لکھا ہے کہ سام بن نوح (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ بنی حمیر میں سے تھے۔ چونکہ قرآن مجید میں ان کا لقب ہی ذکر کیا ہے نام اور نسل کا تذکرہ نہیں فرمایا اس لیے اتنا زیادہ اختلاف ہوا اور اصل مقصود میں اس اختلاف سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ حافظ ابن کثیر نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے اور اسحاق بن بشر سے نقل کیا ہے کہ ان کے وزیر اور مشیر حضرت خضر (علیہ السلام) ان کے لشکر کے سب سے اگلے حصہ کے امیر تھے۔ پھر یہ بھی لکھا ہے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل ( علیہ السلام) کے ساتھ کعبہ مکرمہ کا طواف کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے پیدل حج کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے آنے کا علم ہوا تو ان کا استقبال کیا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے بادل کو مسخر کردیا وہ جہاں چاہتے تھے ان کو لے جاتے تھے۔ واللہ اعلم ذوالقرنین کا یہ لقب کیوں معروف ہوا ؟ اس سوال کے جواب میں اول تو یہ سمجھنا چاہیے کہ قرنین تثنیہ ہے قرن کا اور قرن عموماً سینگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور سو سال کی مدت کے لیے لفظ قرن کا اطلاق ہوتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے ان کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے (ج ١٦ ص ٢٤ پر) گیارہ قول نقل کیے ہیں اور ان کے لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔ فیھا ما لا یکاد یصح (یعنی ان میں وہ باتیں ہیں جو صحیح ہونے کے قریب بھی نہیں ہیں) ان گیارہ وجوہ میں بعض باتیں دل کو لگتی ہیں ایک تو یہ کہ ان کے زمانہ سلطنت میں دو قرنیں ختم ہوگئی تھیں یعنی دو سو سال سے زیادہ ان کی حکومت رہی۔ دوسرا یہ کہ ان کے سر میں دو سینگ تھے جیسے بکری کے کھر ہوتے ہیں اور یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عمامہ استعمال کیا تاکہ انہیں چھپا کر رکھا جائے تیسرا یہ کہ ان کے تاج میں دو سینگ تھے اور چوتھا یہ کہ انہوں نے مشرق اور مغرب کا سفر کیا تھا ہر جانب کو ایک قرن سے تعبیر کیا گیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74: شبہہ رابعہ کا جواب :۔ یہ چوتھے شب ہے کا جواب ہے، شبہہ یہ تھا کہ ذو القرنین کو اللہ تعالیٰ نے بڑی قدرت اور طاقت عطا فرمائی تھی جیسا کہ خود قرآن میں بھی فرمایا۔ ” انا مکنا لہ فی الارض واتینہ من کل شیء سببا “ اس پر شبہہ ہوتا تھا کہ ذو القرنین متصرف فی الامور تھا تو اس کا جواب دیا کہ اس کو جو طاقت دی گئی تھی وہ صرف ظاہری اسباب کے تحت تھی اور وہ بھی بقدر ضرورت، لیکن مافوق الاسباب امور میں سے وہ کسی چیز پر قادر نہیں تھا اور اسباب ظاہری کے اعتبار سے بھی ہر طرف سے عاجز آگیا۔ مشرق میں بوجہ گرمی اور مغرب میں دلدل کی وجہ سے اور شمال میں یاجوج ماجوج کی وجہ سے۔ ” یسئلونک “ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین کے بارے میں بھی آپ سے سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں یہ آیتیں نازل ہوئی اور اگر واقعہ میں سوال نہیں ہوا تو مطلب یہ ہوگا ” و ان یسئلوک “ یعنی اگر وہ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کریں تو آپ اس کا یہ جواب دیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83 اور اے پیغمبر یہ منکرین مکہ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور ذوالقرنین کا حال دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجیے کہ میں اس کا ذکر ا بھی تم کو پڑھ کر سناتا ہوں اور اس کا واقعہ تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اس بادشاہ کو ذوالقرنین کہتے ہیں اس واسطے کہ دنیا کے دونوں سروں پر پھر گیا تھا مشرق اور مغرب پر بعضے کہتے ہیں یہ لقب ہے سکندر کا بعضے کہتے ہیں کوئی بادشاہ پہلے گزرا ہے۔ 12 بعض حضرات نے کہا ہے ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات اور معانقہ کیا ہے اور اس کو جب معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مکہ میں ہیں تو یہ سواری پر سوار نہ ہوا اور پیدل چل کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو دعا دی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) اس کے وزیر تھے اس پر بہت لوگوں نے اتفاق کیا ہے کہ یہ کوئی دین دار بادشاہ تھا جو نبی یا ولی ہو گزرا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ اہل عرب میں سے تھا عرب کے شعراء اس کی بہت تعریف کرتے ہیں اور اس کا نام بہت ادب و احترام سے لیتے ہیں چونکہ یہ واقعہ تدوین تاریخ سے پہلے کا ہے اس لئے تاریخ میں کوئی اطمینان بخش تفصیل نہیں ملتی۔ (واللہ اعلم)