Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 85

سورة الكهف

فَاَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۸۵﴾

So he followed a way

وہ ایک راہ کے پیچھے لگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

His traveling and reaching the Place where the Sun sets (the West) Allah tells, فَأَتْبَعَ سَبَبًا So he followed a way. Ibn Abbas said that; he followed different routes to achieve what he wanted. Mujahid said that; he followed different routes, east and west. According to one report narrated from Mujahid, he said: سَبَبًا (a way), means, "A route through the land." Qatadah said, "It means he followed the routes and landmarks of the earth."

ذوالقرنین کا تعارف ۔ ذوالقرنین ایک راہ لگ گئے زمین کی ایک سمت یعنی مغربی دانب کوچ کر دیا ۔ جو نشانات زمین پر تھے ان کے سہارے چل کھڑے ہوئے ۔ جہاں تک مغربی رخ چل سکتے تھے چلتے رہے یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گے ۔ یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا ناممکن ہے ۔ ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے ۔ حضرت ذوالقرنین پہنچ گئے ۔ اور یہ جو بعض قصے مشہور ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے بھی آپ تجاوز کر گئے اور سورج مدتوں ان کی پشت پر غروب ہوتا رہا یہ بےبنیاد باتیں ہیں اور عموما اہل کتاب کی خرافات ہیں اور ان میں سے بھی بددینوں کی گھڑنت ہیں اور محض دروغ بےمروغ ہیں ۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے ۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا حمئۃ یا تو مشتق ہے حماۃ سے یعنی چکنی مٹی ۔ آیت قرآنی ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28؀ ) 15- الحجر:28 ) میں اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ یہی مطلب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر حضرت نافع نے سنا کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہوجاتا تھا ۔ ایک قرأت میں فی عین حامیۃ ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا ۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سورج کو غروب ہوتے دیکھ کر فرمایا اللہ کی بھڑکی آگ میں اگر اللہ کے حکم سے اس کی سوزش کم نہ ہوجاتی تو یہ تو زمین کی تمام چیزوں کو جھلس ڈالتا ۔ اس کی صحت میں نظر ہے بلکہ مرفوع ہونے میں بھی بہت ممکن ہے کہ یہ عبداللہ بن عمرو کا اپنا کلام ہو اور ان دو تھیلوں کی کتابوں سے لیا گیا ہو جو انہیں یرموک سے ملے تھے واللہ اعلم ۔ ابن حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ کہف کی یہی آیت تلاوت فرمائی تو آپ نے ( عین حامیۃ ) پڑھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم تو حمئۃ پڑھتے ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کس طرح پڑھتے ہیں انہوں نے جواب دیا جس طرح آپ نے پڑھا ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے گھر میں قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہئے ، وہی اس کے پورے عالم ہیں ۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ یہ سب قصہ سن کرا بن حاضر نے کہا اگر میں اس وقت ہوتا تو آپ کی تائید میں تبع کے وہ دو شعر پڑھ دیتا جس میں اس نے ذو القرنین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق ومغرب تک پہنچا کیونکہ اللہ کے حکم نے اسے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے تھے اس نے دیکھا کہ سورج سیاہ مٹی جیسے کیچڑ میں غروب ہوتا نظر آتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا اس شعر میں تین لفظ ہیں خلب ، ثاط اور حرمد ۔ ان کے کیا معنی ہیں ؟ مٹی ، کیچڑا اور سیاہ ۔ اسی وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام سے یا کسی اور شخص سے فرمایا یہ جو کہتے ہیں لکھ لو ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سورہ کہف کی تلاوت حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے سنی اور جب آپ نے حمئۃ پڑھا تو کہا کہ واللہ جس طرح تورات میں ہے اسی طرح پڑھتے ہوئے میں نے آپ ہی کو سنا تورات میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کیچڑ میں ڈوبتا ہے وہیں ایک شہر تھا جو بہت بڑا تھا اس کے بارہ ہزار دروازے تھے اگر وہاں شور غل نہ ہو تو کیا عجب کہ ان لوگوں کو سورج کے غروب ہونے کی آواز تک آئے وہاں ایک بہت بڑی امت کو آپ نے بستا ہوا پایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں پر بھی انہیں غلبہ دیا اب ان کے اختیار میں تھا کہ یہ ان پر جبر وظلم کریں یا ان میں عدل وانصاف کریں ۔ اس پر ذوالقرنین نے اپنے عدل وایمان کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ جو اپنے کفر وشرک پر اڑا رہے گا اسے تو ہم سزا دیں گے قتل وغارت سے یا یہ کہ تانبے کے برتن کو گرم آگ کر کے اس میں ڈال دیں گے کہ وہیں اس کا مرنڈا ہو جائے یا یہ کہ سپاہیوں کے ہاتھوں انہیں بدترین سزائیں کرائیں گے واللہ اعلم ۔ اور پھر جب وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت تر اور دردناک وعذاب کرے گا ۔ اس سے قیامت کے دن کا بھی ثبوت ہوتا ہے ۔ اور جو ایمان لائے ہماری توحید کی دعوت قبول کر لے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے دست برداری کر لے اسے اللہ اپنے ہاں بہترین بدلہ دے گا اور خودہم بھی اس کی عزت افزائی کریں گے اور بھلی بات کہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 دوسرے سبب کے معنی راستے کے کئے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے مزید وسائل تیار اور مہیا کئے، جس طرح اللہ کے پیدا کردہ لوہے سے مختلف قسم کے ہتھیار اور اسی طرح دیگر خام مواد سے بہت سی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَتْبَعَ سَبَبًا : ” تَبِعَ “ ساتھ گیا، ” أَتْبَعَ “ (افعال) ساتھ لے گیا، یعنی اس نے اپنے اقتدار کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے اور پوری زمین پر اللہ کا کلمہ غالب کرنے کے لیے ایک لمبے سفر کی تیاری کی اور اس کے لیے درکار افواج، اسلحہ اور سامان سفر ساتھ لے کر مغرب کی طرف جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکل پڑا۔ راستے میں ہر مقابل کو زیر کرتا ہوا اور ہر رکاوٹ کو روندتا ہوا زمین کے اس حصے تک جا پہنچا جہاں تک اس وقت آبادی موجود تھی اور سفر ممکن تھا، اس سے آگے سمندر سے پہلے وسیع و عریض دلدلی علاقہ تھا، جس میں نہ خشکی کے ذرائع سے سفر ہوسکتا تھا، نہ بحری ذرائع سے۔ وہاں اس نے سورج غروب ہونے کا مشاہدہ کیا تو وہ اسے ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا، کیونکہ آگے سمندر کے اثر سے اور چشموں کی کثرت سے زمین دلدل اور کیچڑ بنی ہوئی تھی۔ جس طرح سمندر، صحرا یا میدان میں سے جو چیز بھی سامنے ہو سورج اسی میں غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں نے جو اعتراض کیا ہے کہ قرآن کے بیان کے مطابق سورج کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے، انھوں نے غور ہی نہیں کیا کہ قرآن نے ذوالقرنین کا مشاہدہ بیان فرمایا ہے اور اب بھی دیکھنے والے کو ایسے ہی نظر آئے گا۔ اصل حقیقت دوسری جگہ بیان فرمائی ہے، فرمایا : (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ) [ یٰس : ٣٨ ] ” اور سورج اپنے ایک ٹھکانے کے لیے چل رہا ہے۔ (جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) ۔ “ قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ ۔۔ : یعنی مغرب کی طرف آبادی کے آخری حصے میں اس نے ایک قوم کو پایا تو ہم نے کہا کہ اے ذو القرنین ! تمہیں اختیار ہے، چاہو تو انھیں قتل، قید یا غلامی کی صورت میں یا جس طرح چاہو سزا دو ، یا ان کے بارے میں کوئی نیک سلوک اختیار کرو۔ 3 اللہ تعالیٰ کے فرمان ” قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ “ (ہم نے کہا اے ذو القرنین ! ) کو بعض مفسرین نے ذوالقرنین کے نبی ہونے کی دلیل قرار دیا ہے، مگر یہ الفاظ اس مفہوم کے لیے صریح نہیں ہیں، کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ طالوت کی طرح کوئی نبی ہو، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اسے یہ پیغام دیا ہو، جیسے فرمایا : (فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ) [ البقرۃ : ٧٣ ] ” تو ہم نے کہا اس پر اس کا کوئی ٹکڑا مارو۔ “ یا اس قوم کو مکمل طور پر ذوالقرنین کے اختیار میں دینے کی حالت کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہو، اس لیے اکثر سلف اس کے نبی ہونے کے قائل نہیں۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اللہ کا نیک، مخلص اور مجاہد بندہ تھا، جس نے اپنے آرام کو چھوڑ کر ساری زندگی غلبۂ اسلام کے لیے جہاد میں صرف کردی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 85: فَأَتْبَعَ سَبَبًا So he followed a way) means that - though, the material means related to everything, even those that would facilitate his access to every region of the world - however, the first thing he did was to use his means to travel in the direction of the West.

فَاَتْبَعَ سَبَبًا مراد یہ ہے کہ سامان تو ہر قسم کے اور دنیا کے ہر خطہ میں پہنچنے کے ان کو دیدئیے گئے تھے انہوں نے سب سے پہلے جانب مغرب سفر کے سامان سے کام لیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَتْبَعَ سَبَبًا۝ ٨٥ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے سبب السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر : فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر : ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر : لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2» والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح . ( س ب ب ) السبب اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:85) فاتبع سببا۔ وہ ایک راستہ پر ہو لیا۔ وہ ایک راہ پر روانہ ہوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ایک راستے پر سفر شروع کیا۔ پہلے اس نے مغرب کی جانب مہم کا آغاز کیا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ذوالقرنین کی پہلی مہم اور اس کی فتوحات۔ قرآن مجید نے ذوالقرنین کی مملکت اور اس کے اسباب و وسائل کا ذکر کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال فرمائے ہیں۔” فَأَتْبَعَ سَبَبًا “ اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک جماعت نے اس کا معنیٰ کیا ہے کہ وہ اسباب کے پیچھے چلا جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اس نے اپنی مملکت میں وسائل کے حصول کے لیے ٹھیک ٹھیک اقدامات کیے اور وسائل کی خوب منصوبہ بندی کی۔ ترقی یافتہ مملکت اور کامیاب حکمران کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ وسائل کے حصول کے ساتھ اس کی پلاننگ میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیتا۔ ” فَأَتْبَعَ سَبَبًا “ کا دوسرا معنٰی یہ لیا گیا ہے کہ اس نے ایک راہ اختیار کی۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے فتح حاصل کرنے کے لیے ایک علاقے کو سامنے رکھا اور اس کے بارے میں بڑی حکمت عملی کے ساتھ فوجی مہم کا نقشہ تیار کیا۔ یہی بات فتح کی کلید ہوا کرتی ہے۔ اس پیش بندی کے ساتھ جدید اسلحہ، تربیت یافتہ اور منظم فوج، بہترین منصوبہ بندی اور مصمم ارادہ کے ساتھ لشکر جرار کی کمان کرتا ہے۔ ان وسائل کے ساتھ ذوالقرنین علاقے پر علاقہ اور بڑی بڑی حکومتوں کو فتح کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتا گیا۔ یہاں تک اپنی مملکت کے مغرب میں اس مقام پر جاپہنچا جس سے آگے سمندر ہی سمندر تھا۔ اس نے ساحل سمندر پر کھڑے ہو کر فتح یاب آنکھوں کے ساتھ سورج کا نظارہ کیا۔ جو مغرب کے وقت یوں دکھائی دیا جیسے وہ سمندر کی دلدل میں غوطہ زن اور دھنس رہا ہے۔ اس علاقہ کے لوگ ذوالقرنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گذار ہوتے ہیں کہ اے بادشاہ سلامت آپ غالب ہیں اور ہم مغلوب ہیں۔ لہٰذا ہم کلی طور پر سرنگوں اور آپ کے سامنے تابع فرماں ہیں۔ ہم اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ چاہیں ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں اگر چاہیں تو ہمیں گرفتار کریں اور سزا دیں۔ اگلی گفتگو کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ذوالقرنین کو یہ ارشاد فرمایا کہ تو ان لوگوں کو سزا دے یا ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اس نے کہا جس نے کسی کے ساتھ ظلم کیا تو بہت جلد اسے ” اللہ “ دنیا میں سزا دے گا، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا وہ اسے سخت ترین عذاب دے گا۔ لیکن جو شخص ایمان لایا اور اس نے صالح اعمال کیے اس کے لیے بہترین بدلہ ہے اور عنقریب اس کے لیے ان کے کام کو آسان کردیں گے۔ اس گفتگو کے بارے میں اہل علم کا استدلال ہے کہ ذوالقرنین حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کا پیغمبر بھی تھا۔ لیکن جید اہل علم کا خیال ہے کہ فقط ان الفاظ سے ذوالقرنین کا پیغمبر ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن شخصیات اور شہد کی مکھی کے بارے میں بھی یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی، ظاہر ہے کہ ساری شخصیات اور شہد کی مکھی پیغمبر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اہل علم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ! للہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے دل میں یہ الفاظ القاء فرمائے جس کے نتیجہ میں اس نے خود کلامی کی یا اس کے عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے تاکہ لوگ بالخصوص حکمرانوں کو اس کے عقیدہ اور کردار کی اہمیّت جتلائی جائے۔ ہر دو صورتوں میں بات کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک حکمران کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ جو اقدام اٹھائے اس کے پیچھے یہ عقیدہ کار فرما ہو کہ اگر وہ کسی پر ظلم کرے گا تو اسے آخرت میں اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ اگر وہ مفتوح قوم اور اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کرے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے نیک نامی اور آخرت میں اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ یہی وہ نصیحت ہے جو ذوالقرنین کے بارے میں معلومات دینے سے پہلے اہل مکہ کو کی گئی ہے کہ اے سوال کرنے والو ! اس واقعہ میں تمہارے لیے بڑی ہی نصیحت کا سامان ہے۔ غور کرو کہ ذوالقرنین اتنا بڑا بادشاہ اور فاتح ہونے کے باوجود مفتوح اور کمزور لوگوں کے ساتھ کس قدر رحم دل اور مہربان تھا لیکن تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اپنے عزیز اقرباء پر ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہو۔ یاد رکھو عنقریب تمہیں اس ظلم کا انجام دیکھنا پڑے گا۔ اور یہ بھی عقیدہ رکھو کہ جو نیک اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا میں بھی آسانی پیدا کرے گا۔ مشفق اور ظالم بادشاہ کا فرق : (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَدْنَاہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ وَأَبْعَدَہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَاءِرٌ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الإِمَامِ الْعَادِلِ ] ” حضرت ابی سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں سے محبوب اور قریب ترین شخص عادل بادشاہ ہوگا۔ لوگوں میں سے مبغوض اور اللہ سے دور شخص ظلم کرنے والا بادشاہ ہوگا “ سورج ڈوبتا نہیں : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ ہُرَیْرَۃَقَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنُ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے ؟ میں نے کہا ‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چناچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔ “ ( الحمد اللہ آج سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ واقعتاً سورج نہیں ڈوبتا) مسائل ١۔ ذوالقرنین دنیا کے عظیم حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس نے وسائل جمع کیے اور ان کی خوب منصوبہ بندی کی۔ ٢۔ ذوالقرنین اپنے ملک کے مغرب میں پیش قدمی کرتے ہوئے ساحل سمندر تک پہنچ گیا۔ ٣۔ وہ ظلم کرنے کی بجائے رعایا پر احسان اور نرمی کرنے والا تھا۔ ٤۔ ذوالقرنین صحیح العقیدہ اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھنے والا بادشاہ تھا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مغرب الشمس وہ جگہ ہے جہاں دیکھنے والے کو سورج غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مختلف مقامات میں سورج کی جائے غروب مختلف ہوتی ہے ، بعض مقامات پر یوں نظر آتا ہے کہ سورج پہاڑ کے پیچھے غروب ہو رہا ہے ۔ بعض مقامات پر یوں نظر آتا ہے کہ سورج پانیوں میں غروب ہوتا ہے جس طرح بڑے بڑے سمندروں میں ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر یوں نظر آتا ہے کہ سورج صحرائوں اور ریگستانوں میں غروب ہو رہا ہے ۔ مثلاً جہاں نظر کے سامنے صحرا اور ریگستان ہوں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین بحر اوقیانوس کے ساحل تک پہنچ گیا تھا۔ اسے بحر ظلمات بھی کہتے ہیں اور اس وقت یہ گمان کیا جاتا تھا کہ خشکی اس سمندر کے ساحل پر ختم ہوجاتی ہے اس لئے اس نے دیکھا کہ سورج کالے پانیوں میں ڈوبنے لگا ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ یہ شخص جاتے جاتے ایک ایسے ساحل پر پہنچ گیا جہاں کوئی دریا آ کر سمندر میں گرتا تھا۔ ایسے مقامات پر گھاس اور کیچڑ اور سیاہ دلدل جمع ہوجاتی ہے۔ ایسے مقامات پر تالات بھی نظر آتے ہیں جو چشموں کے مانند ہوتے ہیں۔ یہاں سورج کی جائے غروب کے بارے میں قرآن مجید نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہ ہیں : وجدھا تغرب فی عین حمئۃ (٨١ : ٦٨) ” اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا۔ “ قرآن کی اس نشاندہی کے باوجود ہم اس جگہ کی نشاندہی نہیں کرسکتے کیونکہ قرآن میں کسی جگہ کی تخصیص نہیں کی ، ایسی جگہ یا جگہیں کئی ہو سکتی ہیں۔ قرآن کے علاوہ اور کوئی مرجع و ماخذ بھی ایسا نہیں ہے ، جس پر ہم اس مقام کے تعین کے سلسلے میں اعتماد کرسکتے ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی شخص جو تفسیر بھی کرے گا اس میں غلطی کا امکان ہوگا کیونکہ وہ تفسیر کسی مسند ذریعہ علم کی طرف منسوب نہ ہوگی۔ بہرحال اس سیاہ چشمے یا سیاہ دلدل کے پاس ذوالقرنین کو ایک قوم ملی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 لہٰذا وہ ایک سامان کے پیچھے لگا اور وہ ایک راہ پر ہو لیا۔ یعنی فتوحات کے قصد سے سامان سفر کی تیاری کرنے لگا اور مغرب کی راہ ہو لیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی سر انجام کرنے لگا سفرکا۔ 12