Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 87

سورة الكهف

قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا ﴿۸۷﴾

He said, "As for one who wrongs, we will punish him. Then he will be returned to his Lord, and He will punish him with a terrible punishment.

اس نے کہا کہ جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت تر عذاب دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ ... He said: "As for him who does wrong, meaning who persists in his Kufr and in associating others in worship with his Lord, ... فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ... we shall punish him, Qatadah said, i.e., by killing him. ... ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا and then he will be brought back unto his Lord, Who will punish him with a terrible torment. meaning a severe, far-reaching and painful punishment. This implies a confirmation of the Hereafter and the reward and punishment.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 یعنی جو کفر و شرک پر جما رہے گا، اسے ہم سزا دیں گے یعنی پچھلی غلطیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] ذوالقرنین کا مغربی قوم سے سلوک :۔ چناچہ ذوالقرنین نے دوسری راہ اختیار کی کہ اس قوم کو پوری طرح سمجھایا جائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے نتیجہ میں جو لوگ اکڑ جائیں گے اور ظالموں کی روش اختیار کریں گے ہم صرف انھیں ہی سزا دیں گے اور انھیں سے سختی کا برتاؤ کریں گے پھر موت کے بعد جب ایسا آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو وہ اسے سخت عذاب بھی دے گا لیکن جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں گے اور اپنا طرززندگی بدل کر نیک کام کرنے لگیں گے ان کو اللہ کے ہاں اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی ان سے نرمی کا برتاؤ کریں گے جیسا کہ ہر عادل بادشاہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ غلبہ پانے کے بعد بدکردار لوگوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور بھلے لوگوں سے مہربانی کرتے اور ان سے مہربانی سے پیش آتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ ۔۔ : ذوالقرنین نے اپنی فتح و قوت کے نشے میں آکر سب کو تہ تیغ کرنے یا غلام بنانے کے بجائے ہر ایک سے وہ سلوک کرنے کا اظہار کیا جس کے وہ لائق تھا۔ ” قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ “ (جو شخص ظلم کرے گا) سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٨٢) اس کا ایک قرینہ یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح والوں کا ذکر ہے، یعنی کفار و مشرکین میں سے ہر ایک سے اس کے حسب حال سخت سزا کا سلوک کروں گا، جنگ پر آمادہ لوگوں کو قتل اور قید کروں گا اور غلام بناؤں گا۔ دوسروں سے جزیہ لے کر غلام بنا کر رکھوں گا، پھر قیامت کے دن وہ اپنے کفر و شرک کی بہت بری سزا پائیں گے۔ رہے ایمان اور عمل صالح والے تو ان کے لیے بدلے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور ہم ان کے ساتھ اپنے تمام معاملات میں آسانی کا سلوک کریں گے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی جنگوں میں اسی پر عمل فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّہٖ فَيُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّكْرًا۝ ٨٧ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَيُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا) یہاں ظلم سے مراد کفر اور شرک بھی ہوسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٧۔ ٨٩:۔ مغرب کی طرف کے سفر سے فارغ ہو کر ذوالقرنین نے مشرق کی طرف کا جو سفر کیا ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کی بادشاہت کا سامان جو ذوالقرنین کو دیا تھا اس سامان کو کام میں لاکر مغرب کی طرف کے سفر کے بعد اس نے مشرق کی طرف کا سفر کیا اور ایسی سر زمین پر پہنچا جہاں پہلے پہلے سورج نکلتا ہے اور وہاں اس نے ایک ایسی قوم کو دیکھا کہ جن کے لیے سورج کی دھوپ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی آڑ نہیں بنائی مطلب یہ ہے کہ اس سرزمین پر نہ قدرتی کچھ پہاڑو درخت ایسے ہیں کہ ان کی آڑ میں وہ لوگ دھوپ سے بچ سکیں نہ وحشی پن کے سبب سے اتنی عقل ان لوگوں میں ہے کہ وہ مکان بنادیں زمین میں سرنگیں کھود رکھی ہیں دھوپ کے وقت ان میں گھس جاتے ہیں اور ٹھنڈے وقت ان سرنگوں سے نکل کر دنیا کا کچھ کام دھندہ کرلیتے ہیں قتادہ کا قول ہے کہ یہ سرزمین جشیوں کی آخری سرحد پر ہے کذالک اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اور ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے پہاڑ اور دھوپ سے بچنے کی آڑ کے لیے پیدا کیے ہیں اس زمین پر نہیں ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اتنی عقل دی ہے کہ مکان بنا کر دھوپ سے بچ جائیں بعضے مفسروں نے کذالک کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ذوالقرنین نے جو حکم مغرب کی طرف کے سفر میں مشرک قوم کو سنایا تھا وہی حکم اس مشرقی قوم کو سنایا کہ اس قوم میں کے جو لوگ شرک پر اڑے رہیں گے ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جائے گا اور عقبیٰ میں بھی ایسے بہبودی کی نیت سے نیک عمل کریں گے دنیا میں ہم لوگ بھی ان سے اچھی طرح پیش آئیں گے اور عقبیٰ میں بھی ان کو بڑا اجر ملے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے یہ حدیث وقد احطنا بما لدیہ خبرا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ذوالقرنین کے پاس جو کچھ اتنے بڑے سفر کا سامان تھا اور جو کچھ اس سفر میں اس نے عجائبات دیکھے تھے ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے کیونکہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر یہ سب باتیں اور تمام دنیا کی باتیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لی ہیں۔ ١ ؎ مثلا تفسیر ہذاص ٢٠ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:87) اما۔ حرف شرط استعمال ہوا ہے (اس کے حرف شرط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد حرف فاء کا آنا لازم ہے) پس۔ سو۔ لیکن ۔ مگر ۔ اما من ظلم فسوت نعذبہسو جو ظلم کرے گا تو ہم اسے ضرور سزا دیں گے۔ یہ تفصیل اور تاکید کے لئے بھی آتا ہے۔ مثلاً اما السفینۃ فکانت لمسکین (18:79) وہ جو کشتی تھی وہ چند غریبوں کی تھی۔ اور تاکید کی مثال اما زید فذاھب۔ لیکن زید وہ تو ضرور جانے والا ہے۔ عذابا نکرا۔ شدید عذاب، سخت عذاب۔ موصوف صفت ۔ عذابا بوجہ نعذب کے مصدر ہونے کے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس نے کہا ” جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے ، پھر وہ اپنے رب کی طرف بلایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا ، اس کے لئے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔ “ اس نے اعلان کیا کہ ظالموں کو وہ سخت سزا دے گا اور پھر ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے گا اور اللہ ان کو مزید سخت عذاب دے گا۔ (نکرا) کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا سخت عذاب دے گا جس کی کوئی مثال نہ ہوگی۔ رہے صالح مسلمان تو ان کے لئے جزائے حسن ہے۔ ان کے ساتھ بہتر سلوک ہوگا ، ان کی تکریم ہوگی ، ان کی معاونت ہوگی اور ان کے لئے آسانیاں ہوں گی۔ یہ ہے ایک صالح حکومت کا منشور۔ اسلامی حکومت میں حکومتی پالیسی میں مومن صالح کی عزت اور حوصلہ افزائی ہونا چاہئے۔ اس کے لئے سہولتیں اور جزائے حسن کا اتنظار ہونا چاہئے ، ظالموں اور حد سے تجاوز کرنے والوں پر سختی ہونا چاہئے اور ان کی پکڑ دھکڑ اور سزا جاری رہنا چاہئے۔ جب کسی معاشرے میں صالح عنصر کی تکریم اور اس کے احسان کا بدلہ احسان سے ملے اور اس کی حوصلہ افزائی ہو اور عزت و منزلت ہو اور مجرمین اور ظالموں کی بےعزتی ، سزا اور ان کے اوپر سختی ہو تو عام لوگوں کا میلان اصلاح کی طرف ہوجاتا ہے۔ لیکن جب حکومت کا دستور یوں بدل جائے کہ ظالم ، چور اور ڈاکو دربار حکومت میں راہ پا لیں ، ان کی عزت ہو اور وہ حکام کے مقرب ہوں اور نیک اور صالح لوگوں کے خلاف حکومت کا اعلان جنگ ہو ، ان کی بیخ کنی کی جا رہی ہو تو تو سمجھئے کہ اب حکومت عذاب الٰہی بن کر عوام پر مسلط ہوگئی ہے اور یہ حکومت وسیلہ اصلحا نہیں ہے بلکہ ذریعہ فساد ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم سوسائٹی میں فساد اور طوائف الملوکی پھیل جاتی ہے اور برائی نیکی پر غالب آجاتی ہے۔ اب ذوالقرنین کا سفر مشرق شروع ہوتا ہے ، جہاں تک وہ مشرق کی طرف بڑھ سکتا ہے اور اسباب جہاں تک اسے میسر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 ذوالقرانین نے کہا ان لوگوں میں سے جو کفر کا مرتکب رہے گا اور ظلم پر قائم رہے گا تو اس کو ہم سزا دیں گے پھر وہ قیامت میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اس کو سخت انہوئی سزا دے گا۔