Surat Marium

Surah: 19

Verse: 10

سورة مريم

قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ﴿۱۰﴾

[Zechariah] said, "My Lord, make for me a sign." He said, "Your sign is that you will not speak to the people for three nights, [being] sound."

کہنے لگے میرے پروردگار میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دے ارشاد ہوا کہ تیرے لئے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کےتو تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Sign of the Pregnancy Allah, the Exalted, informed about Zakariyya that he said, قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي ايَةً ... He (Zakariyya) said: "My Lord! Appoint for me a sign." "Give me a sign and a proof of the existence of that which You have promised me, so that my soul will be at rest and my heart will be at ease with Your promise." Similarly Ibrahim said, رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُوْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَيِنَّ قَلْبِى My Lord! Show me how You give life to the dead. He (Allah) said: "Do you not believe" He said: "Yes (I believe), but to put my heart at ease." (2:260) Then Allah says, ... قَالَ ايَتُكَ ... He said: "Your sign is..." meaning, "Your sign will be..." ... أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَثَ لَيَالٍ سَوِيًّا that you shall not speak unto mankind for three nights, though having no bodily defect. Meaning, `your tongue will be prevented from speaking for three nights while you are healthy and fit, without any sickness or illness.' Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Wahb, As-Suddi, Qatadah and others said, "His tongue was arrested without any sickness or illness." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "He used to recite and glorify Allah, but he was not able to speak to his people except by gestures." Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said, ثَلَثَ لَيَالٍ سَوِيًّا (three nights, though having no bodily defect), "The nights were consecutive." However, the first statement that is reported from him and the majority is more correct. This Ayah is similar to what Allah, the Exalted, said in Surah Al Imran, قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّيَ ايَةً قَالَ ايَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالاِبْكَارِ He said: "O my Lord! Make a sign for me." (Allah) said "Your sign is that you shall not speak to mankind for three days except with signals. And remember your Lord much, and glorify (Him) in the afternoon and in the morning. (3:41) This is a proof that he did not speak to his people for these three nights and their days as well. إِلاَّ رَمْزًا (except with signals), Meaning, with bodily gestures, this is why Allah says in this noble Ayah,

تشفی قلب کے لیے ایک اور مانگ ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اپنے مزیداطمینان اور تشفی قلب کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس بات پر کوئی نشان ظاہر فرما جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے مردوں کے جی اٹھنے کے دیکھنے کی تمنا اسی لئے ظاہر فرمائی تھی تو ارشاد ہوا کہ تو گونگا نہ ہو گابیمار نہ ہوگا لیکن تیری زبان لوگوں سے باتیں نہ کرسکے گی تین دن رات تک یہی حالت رہے گی ۔ یہی ہوا بھی کہ تسبیح استغفار حمد وثنا وغیرہ پر تو زبان چلتی تھی لیکن لوگوں سے بات نہ کرسکتے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ سویا کے معنی پے درپے کے ہیں یعنی مسلسل برابر تین شبانہ روز تمہاری زبان دنیوی باتوں سے رکی رہے گی ۔ پہلا قول بھی آپ ہی سے مروی ہے اور جمہور کی تفسیر بھی یہی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے چنانچہ سورۃ آل عمران میں اس کا بیان بھی گزر چکا ہے کہ علامت طلب کرنے پر فرمان ہوا کہ تین دن تک تم صرف اشاروں کنایوں سے لوگوں سے باتیں کرسکتے ہو ۔ ہاں اپنے رب کی یاد بکثرت کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔ پس ان تین دن رات میں آپ کسی انسان سے کوئی بات نہیں کرسکتے تھے ہاں اشاروں سے اپنا مطلب سمجھا دیا کرتے تھے لیکن یہ نہیں کہ آپ گونگے ہوگئے ہوں ۔ اب آپ اپنے حجرے سے جہاں جاکر تنہائی میں اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا کی تھی باہر آئے اور جو نعمت اللہ نے آپ پر انعام کی تھی اور جس تسبیح وذکر کا آپ کو حکم ہوا تھا وہی قوم کو بھی حکم دیا لیکن چونکہ بول نہ سکتے تھے اس لئے انہیں اشاروں سے سمجھایا یا زمین پر لکھ کر انہیں سمجھا دیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہوگی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آگئے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] سیدنا زکریا کا حمل کی علامت پوچھنا :۔ یعنی ایسی نشانی جس سے معلوم ہوجائے کہ اب حمل قرار پا گیا ہے۔ چناچہ علامت یہ بتائی گئی کہ تمہاری قوت گویائی بحال رہنے کے باوجود تم لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے البتہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے زبان چلتی رہے گی۔ چناچہ جب وہ وقت آگیا تو آپ ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہنے لگے۔ اور دوسروں کو اشارہ سے تاکید کردی کہ ہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہیں اور اللہ کا شکر ادا کرنے میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْٓ اٰيَةً : یعنی کوئی ایسی نشانی بتادے کہ ان حالات میں ہمارے ہاں لڑکے کی پیدائش ہونے والی ہو تو مجھے پہلے سے اس کا پتا چل جائے۔ ۭ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ۔۔ : ”ۭ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ “ تندرست، صحیح اعضاء والا، نہ گونگا نہ بہرا۔ یہاں تین راتوں کا ذکر ہے، جبکہ سورة آل عمران میں تین دنوں کا ذکر ہے، یعنی نشانی یہ ہے کہ تین دن رات صحیح سالم، تندرست ہوتے ہوئے تم لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو تو سمجھ لو کہ حمل قرار پا گیا۔ لوگوں کے ساتھ کلام سے زبان بند ہوگئی تھی، اللہ کے ذکر اور تسبیح و تحمید سے نہیں۔ دیکھیے سورة آل عمران (٤١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

سَوِيًّا means healthy. This word has been added here to denote that Sayyidna Zakariyya&s (علیہ السلام) loss of speech for three days was not due to any illness, for during this entire period of three days he could utter words of prayer and supplication. This special condition was a miracle and a sign from Allah Ta’ ala about his wife&s pregnancy.

سَوِيًّا : کے معنے تندرست کے ہیں یہ لفظ اس لئے بڑھایا گیا کہ زکریا (علیہ السلام) پر اس حالت کا طاری ہونا کہ کسی انسان سے بات نہ کرسکیں کسی بیماری کی وجہ سے نہیں تھا اور اسی وجہ سے ذکر اللہ اور عبادت میں انکی زبان ان تینوں دنوں میں برابر کھلی ہوئی تھی بلکہ یہ حالت بطور معجزہ اور علامت حمل کے ان پر طاری کی گئی تھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْٓ اٰيَۃً۝ ٠ۭ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا۝ ١٠ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) تب زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری بیوی کے حاملہ ہونے کے لیے کوئی علامت مقرر فرما دیجیے۔ ارشاد ہوا کہ علامت یہ ہے کہ تین دن تین رات تک تم لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے حالانکہ تندرست ہو گے کسی قسم کی کوئی بیماری اور گونگا پن نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا) گویا بطور نشانی اللہ تعالیٰ نے تین دنوں تک حضرت زکریا (علیہ السلام) کی قوت گویائی سلب کرلی۔ سورة آل عمران (آیت ٤١) میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : (قَالَ اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ الاَّ رَمْزًا ط) یعنی آپ ( علیہ السلام) تین دن تک لوگوں سے گفتگو نہیں کرسکو گے مگر اشاروں کنایوں میں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یعنی کوئی ایسی نشانی بتا دیجئے جس سے مجھے یہ پتہ چل جائے کہ حمل قرار پا چکا ہے 7: یعنی جب حمل قرار پائے گا تو تم سے بولنے کی قوت تین دن کے لیے سلب کرلی جائے گی۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کر سکوگے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:10) ایۃ۔ کوئی ایسی نشانی کہ جس سے معلوم ہو کہ میری التجاء منظور ہوگئی ہے تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں۔ علامۃ علی تحقق المسئول لا شکرک (نشانی کہ جس سے میں سمجھ جائوں کہ اب ظہور وعدہ کا وقت آپہنچا اور میں بالکل مطمئن ہوجائوں کہ تیرے فرشتہ نے جو بشارت مجھے پہنچائی ہے وہ تیری ہی طرف سے ہے۔ (ضیا القرآن) ۔ الا تکلم الناس۔ ای ان لا۔ لا تکلم۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ تو کلام نہیں کرسکے گا تو بول نہیں کرسکے گا۔ سویا۔ بھلا چنگا۔ جو مقدار اور کیفیت دونوں حیثیت سے افراط و تفریط سے محفوظ ہو۔ درست۔ تندرست۔ صحیح۔ سالم ۔ غیر ناقص۔ رجل سوی۔ وہ مرد جو اپنی خلقت میں ہر عیب۔ نقص، افراط تفریط سے پاک ہو۔ سویا حال ہے اور تکلم کا فاعل اس کا ذوالحال ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ سویا کا تعلق ثلث لیال سے ہے۔ یعنی تین کامل راتیں فائدہ آیت نمبر 4 میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا ہے اور قال سے مراد قال زکریا ہے۔ آیت نمبر 7 میں ی زکریا سے لے کر من قبل سمیاتک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے حضرت زکریا کی دعا کے جواب میں۔ اس سے قبل فاجاب اللہ دعاء ہ وقالمقدر ہے۔ آیت نمبر 9 میں۔ قال کذلک میں قال کی ضمیر فاعل کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے اور یہ کلام بلاواسطہ فرشتہ کے ارشاد فرمایا۔ ایسا ہی ہوگا۔ اور اگلی عبارت قال ربک ھو علی ھین وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا۔ بھی ارشاد ربانی کا حصہ ہی ہے ۔ ترجمہ یوں ہوگا۔ ارشاد ہوا۔ ایسا ہی ہوگا۔ تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لئے آسان ہے اور اس سے پیشتر میں نے ہی تو تم کو پیدا کیا تھا درآنحالیکہ تم تو کچھ بھی نہ تھے۔ اسی طرح آیت نمبر 10 قال ایتک۔۔ سویا۔ میں قال کی ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور یہ جواب بھی فرشتہ بشارت کے واسطہ سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو دیا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی کوئی ایسی نشانی بتاہ دے کہ ان حالات میں ہمارے ہاں لڑکے کی پیدائش ہونے والی ہو تو مجھ پہلے سے اس کا پتا چل جائے۔ 9 یعنی جب تین رات (دن) تک تم صحیح وسالم ہونے کے باوجود لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے تو سمجھ لینا کہ حمل قرار دیا گیا۔ سلف کی تفسیر کے مطابق کسی مرض کے بغیر ہی زبان بند ہوگئی تھی (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا (٩١ : ٠١) ” فرمایا تیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کرسکے گا۔ “ چناچہ ایسا ہی ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ اب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے درخواست کی۔ کوئی علامت مقرر کی جائے۔ جس سے ان کو بیوی کے امید سے ہونے کا پتہ چل جائے تاکہ وہ اس نعمت کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرسکیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ جب تمہاری بیوی امید سے ہوجائے گی۔ تب تم تندرست اور چنگا بھلا ہونے کے باوجود تین دن بات نہیں کرسکو گے۔ ” سویا “ تندرست، گونگا پن سے محفوظ۔ سوی الخلق سلیم الجوارح مابک شائبۃ بکم ولا خرس (ابو السعود ج 5 ص 776) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) غیب داں نہ تھے ورنہ انہیں علامت مقرر کرانے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور جو غیب داں نہ ہو، وہ کارساز اور متصرف فی الامور نہیں ہوسکتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 زکریا نے عرض کیا اے میرے پروردگار ! میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دیجیے یعنی وقوع حمل کے قرب کی۔ ارشاد ہوا تیرے لئے علامت یہ ہے کہ تو تین رات اور تین دن تک لوگوں سے کلام نہ کرسکے گا۔ حالانکہ تو صحیح سالم اور تندرست ہوگا یہاں تین راتوں کا ذکر اور آل عمران میں تین دن مذکور ہیں اس لئے معلوم ہوا کہ تین دن اور تین رات یہ حالت رہے گی کہ بجز اشارے کے زبان میں گویائی کی طاقت نہ ہوگی۔