Surat Marium

Surah: 19

Verse: 13

سورة مريم

وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا ﴿ۙ۱۳﴾

And affection from Us and purity, and he was fearing of Allah

اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی وہ پرہیزگار شخص تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا ... And (made him) Hananan from Us, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا (And Hananan from Us), "This means mercy from Us." Ikrimah, Qatadah and Ad-Dahhak all said the same. Ad-Dahhak added, "Mercy that no one would be able to give except Us." Qatadah added, "With it, Allah had mercy upon Zakariyya." Mujahid said, وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا (And Hananan from Us), "This was gentleness from His Lord upon him." The apparent meaning is that Allah's statement Hananan (affection, compassion) is directly related to His statement, وَاتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (and We gave him wisdom while yet a child), meaning, "We gave him wisdom, compassion and purity." This means that he was a compassionate man, who was righteous. Hanan means the love for affection and tenderness (towards others). Concerning Allah's statement, ... وَزَكَاةً ... and Zakatan, This is related to His statement, وَحَنَانًا (And Hananan). The word Zakah means purity from filth, wickedness and sins. Qatadah said, "The word Zakah means the righteous deed." Ad-Dahhak and Ibn Jurayj both said, "The righteous deed is the pure (Zakah) deed." Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said, وَزَكَاةً (and Zakatan), "This means that he was a blessing." ... وَكَانَ تَقِيًّا and he was pious. meaning that he was pure and had no inclination to do sins. Allah said; وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 حَنَانًا، شفقت، مہربانی، یعنی ہم نے اس کو والدین اوراقربا پر شفقت و مہربانی کرنے کا جذبہ اور اسے نفس کی آلائشوں اور گناہوں سے پاکیزگی و طہارت بھی عطا کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] حنانا سے مراد مہربانی، شفقت اور محبت کی وہ قسم ہے جو ماں کو اپنے بچہ سے ہوتی ہے۔ یعنی سیدنا یحییٰں لوگوں کے حق میں اس قدر ہمدرد، غمگسار اور نرم دل تھے جیسے ماں اپنی اولاد کے حق میں ہوتی ہے۔ پاکیزہ اخلاق کے مالک اور ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ سیدنا یحییٰں نے نہ کبھی کوئی گناہ کا کام کیا اور نہ گناہ کا ارادہ کیا اور اللہ کے ڈر سے روتے رہنے کی وجہ سے ان کے رخساروں پر نشان پڑگئے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا ۔۔ : ” ّحَنَانًا “ کا عطف ” اَلْحُکْمَ “ پر ہے، یعنی ہم نے اسے حکم (قوت فیصلہ) اور بڑی شفقت اور پاکیزگی عطا کی۔ ” حَنَانًا “ اور ” زَکٰوةً “ پر تنوین تفخیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی شفقت اور پاکیزگی “ کیا ہے۔ پاکیزگی سے مراد اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہے جو گناہوں سے بچنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ” تَقِيًّا “ ” وَقٰی یَقِيْ “ سے ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے، پہلی واؤ کو تاء سے بدل دیا گیا ہے، یعنی اللہ کی نافرمانی سے بہت بچنے والا تھا۔ “ ’ من لدنا “ اپنے پاس سے، یعنی یہ حکم حنان اور زکوٰۃ کسی اور کے پاس ہیں ہی نہیں، صرف ہمارے پاس ہیں اور ہم ہی نے اپنے پاس سے انھیں عطا کیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

حَنَانًا Literal meaning of this word is soft heartedness, compassion and mercy, and these qualities were specially granted to Sayyidna Yahya (علیہ السلام) .

حَنَانًا : لفظ کے لغوی معنے رقت قلب اور رحمت و شفقت کے ہیں جو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو امتیازی طور پر دی گئی تھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوۃً۝ ٠ۭ وَكَانَ تَقِيًّا۝ ١٣ۙ حنَ الحنین : النّزاع المتضمّن للإشفاق يقال : حَنَّتِ المرأة، والنّاقة لولدها، وقد يكون مع ذلک صوت، ولذلک يعبّر بالحنین عن الصّوت الدّالّ علی النزاع والشّفقة، أو متصوّر بصورته . وعلی ذلک حنین الجذع، وریح حَنُون، وقوس حَنَّانَة : إذا رنّت عند الإنباض «8» . وقیل : ما له حانَّة ولا آنّة، أي : لا ناقة ولا شاة سمینة، ووصفتا بذلک اعتبارا بصوتيهما، ولمّا کان الحنین متضمّنا للإشفاق، والإشفاق لا ينفكّ من الرّحمة عبّر عن الرّحمة به في نحو قوله تعالی: وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا[ مریم/ 13] ، ومنه قيل : الحَنَّان المنّان «9» ، وحَنَانَيْكَ : إشفاقا بعد إشفاق، وتثنیته کتثنية لبيّك وسعديك، وَيَوْمَ حُنَيْنٍ [ التوبة/ 25] ، منسوب إلى مکان معروف . ( ح ن ن ) الحنین کسی چیز کی طرف مشقتانہ کھنچنا کہا جاتا ہے ۔ جنت المرء ۃ والناقۃ لولدھا عورت اور اونٹنی کا اپنے بچے کا مشتاق ہونا اس اشتیاق کے ساتھ چونکہ کبھی آواز بھی ہوتی ہے اس لئے حنین اس آواز کو کہتے ہیں جس میں استیاق اور شفقت پائی جائے یا اشتیاق کی صورت کا تصور کے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے چناچہ ( حدیث ) حنین الجذع اس معنی پر محمول ہے ریح حنوان سرسراہٹ چلنے والی ہوا ۔ توس حنانۃ آواز نکالنے والی کمان محاورہ ہے ۔ مثل ) مالہ حانۃ ولاآنۃ ۔ یعنی اس کے پاس کوئی اونٹنی ہے نہ کوئی موٹی بھیڑ اس میں اونٹنی اور بھیڑ کی یہ صفت ان کی صوت کی بنا پر ہے ۔ اور حنین معنی شفقت پر مشتمل ہوتا ہے اور شفقت میں ہمیشہ جذبہ رحمت کا فرما ہوتا ہے اس لئے اس سے مراد رحمت لے لی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا ؛وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا[ مریم/ 13] اور اپنے پاس سے شفقت دی ۔ تھی ۔ اسی سے اسماء حسنی الحنان والمنان ہے ۔ جس کے معنی بہت زیادہ رحم کھانے والے کے ہیں ۔ حنانیک تجھ سے رحم کی التجا کرتا ہوں ۔ یہ لبیک وسعدیک کی طرح تثنیہ لایا جاتا ہے ۔ حنین ( مکہ اور طائف کے درمیان ) ایک مشہور مقام کا نام ہے ۔ جہاں 8 ھ کو جنگ حنین ہوئی تھی ) قرآن میں ہے : وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ [ التوبة/ 25] اور ( جنگ ) حنین کے دن جب کہ تم کو اپنی جماعت ، کی کثرت پر غرہ تھا ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. The Arabic word hanan is almost synonymous with mother’s love. In other words, Prophet John bore in his heart the same kind of intense love for Allah’s servants as a mother has for her child.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :11 اصل میں لفظ حنان استعمال ہوا ہے جو قریب قریب مامتا کا ہم معنی ہے ۔ یعنی ایک ماں کو جو غایت درجے کی شفقت اپنی اولاد پر ہوتی ہے ، جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے ۔ وہ شفقت حضرت یحیی کے دل میں بندگان خدا کے لیئے پیدا کی گئی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:13) حنانا۔ حن یحن (ضرب) کا مصدر ہے۔ رحمت ۔ شفقت ۔ مہربانی۔ اس کا عطف الحکم پر ہے اور تنوین تفخیم (تعظیم و تکریم) کے لئے ہے۔ زکوۃ۔ ستھرائی ۔ پاکیزگی۔ اس کا عطف بھی الحکم پر ہے۔ یعنی ہم نے اس کو دانائی نرم دلی۔ اور پاکیزگی بچپن میں ہی عطا فرمادی۔ تقیا۔ پرہیزگار۔ متقی۔ وقایۃ مصدر وقی مادہ۔ وقایۃ کے معنی ہر اس چیز سے حفاظت کرنا۔ جو ایذا دے یا ضرر پہنچائے۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ جاری ہے۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو کتاب، حکمت ودانشمندی اور قوت فیصلہ عطا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان اوصاف سے بھی متصف فرمایا تھا۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے اسے اپنی طرف سے طبیعت کی نرمی، فکر و عمل کی پاکیزگی اور ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی توفیق دی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔ یہی باتیں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کا جوہر ہوتی ہیں اور انھیں باتوں کی اپنی امت کو تلقین فرمایا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور انتہائی پاکباز شخصیت تھے۔ ٢۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نبی ہونے کے باوجود اپنے والدین کے انتہا درجہ کے فرمانبردار تھے۔ تفسیر بالقرآن والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم : ١۔ ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (البقرۃ : ٨٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔ (النساء : ٣٦) ٣۔ فرما دیجیے آؤ ! میں تمہیں ایسی باتیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں، اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (الانعام : ١٥١) ٤۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٥۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف : ١٥) ٦۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اگر والدین شرک پر ابھاریں تو ان کی اطاعت نہ کی جائے۔ (العنکبوت : ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” ہم نے اسے بچپن ہی میں حکم سے نوازا اور اپنی طرف سے اسے نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ بڑا پرہیز گار تھا۔ “ یہ تھی وہ قابلیت جس سے اللہ نے ان کو نوازا تھا اور اس طرح منصب خلافت زکریا کی ذمہ داریاں نبھانے میں ان کی مدد کی گئی۔ اسے بچپن ہی میں حکم اور حکمت عطا کردی گئی تھی ، لہٰذا وہ اہلیت میں بھی یکتا کردیئے گئے جس طرح وہ اپنے نام اور اپنی ولادت میں ممتاز تھے۔ حکمت جو کسی بھی شخص میں بڑے تجربے کے بعد آتی ہے حضرت یحییٰ کو زمانہ طفولیت ہی میں عطا کردی گئی تھی۔ نیز آپ کو پیدائشی طور پر نرم دلی عطا کردی گئی تھی ، اس لئے ان کو اس کے اظہار کے لئے کوئی تکلیف نہ کرنا پڑی اور نہ اس کی ٹریننگ کر کے ، اس رویہ کو عادت ثانیہ بنانے کی ضرورت تھی۔ بلکہ وقت پیداش وہ ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ نرم دلی ہر ذمہ دار کے لئے خصوصاً نبی کے لئے ایک بنیادی صفت ہے تاکہ وہ مختلف لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرسکے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی گہری محبت پیدا ہوجائے اور وہ کچے چلے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو طہارت ، عفت اور قلبی صفائی عطا کردی تھی۔ اس کے ذریعہ وہ دلوں کی کدورت ، اور دلوں کی میل کو صاف کرتے تھے اور عوام کے اندر پاکیزگی اور اخلاقی تطہیر کا کام کرتے تھے۔ وکان تقیاً (٣١) ” وہ بڑے پرہیز گار تھے۔ “ موصول باللہ تھے ، اللہ سے ڈرنے والے تھے ، اللہ کو ہر وقت پیش نظر رکھنے والے تھے ، اس سے ڈرنے والے تھے اور اللہ کی نگرانی کا خیال رکھنے والے تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ ظاہر و باطن کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تھا وہ زاد راہ جو اللہ نے بچپن ہی میں حضرت یحییٰ کو دے دیا تھا ، تاکہ وہ اپنے باپ کا خلیفہ ہو ، جس کے لئے زکریا نے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اور گڑا گڑا کر دعا کی تھی اور رب نے اس دعا کو قبول کرلیا تھا اور یہ پاکیزہ بچہ ان کو عطا کیا تھا۔ یہاں آ کر یحییٰ بھی منظر سے اچانو اوجھل ہوجاتے ہیں ، پردہ گرتا ہے ، جس طرح اس سے قبل زکریا (علیہ السلام) اچانک پس منظر میں چلے گئے تھے ، لیکن چند جھلکیوں میں ان کی زنگدی کے خطوط کھینچ دیئے گئے ، ان کے رجحانات اور طرز زندگی کی جھلکیاں دکھا دی گئیں۔ پوری کہانی کا مقصد دو مناظر تھے ، حضرت زکریا کی دعا اور خدا کی جانب سے اعلان قبولیت اور یہ مقصد چند الفاظ میں عالم بالا سے حضرت یحییٰ کو آواز دے کر پکارنے اور ان کی اہلیت اور قابلیت کے ذکر کے اندر پورا کردیا گیا۔ لہٰذا تفصیلات دینے اور ایک ایک واقعہ قلم بند کرنے یک ضرورت ہی نہ رہی۔ اگر ان مناظر کے بعد کوئی حضرت یحییٰ کی زندگی کے بہت سے واقعات بھی دے دے تو مقصد قصہ میں کوئی اضافہ نہ کرسکے گا۔ اب قرآن کریم حضرت یحییٰ کی پیدائش سے بھی زیادہ عیجب ولادت کی طرف آتا ہے۔ یہ قصہ ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ سیاق کلام بڑھاپے میں ایک بانجھ عورت اور ایک کھوسٹ بوڑھے سے بچہ کی ولادت کا عجیب منظر پیش کر کے اب بتدریج قارئین کو ایک نہایت ہی مختلف فیہ عجیب تر واقعہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس دوسرے واقعہ میں زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ایک کنواری سے بن باپ بچہ پیدا ہوگیا۔ اگر ہم خود حضرت انسان اور آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کو نظر انداز کردیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت تاریخ انسانیت میں ایک بہت بڑا عجوبہ ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے ، نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ماقبل تاریخ میں اور نہ آپ کے بعد کی تاریخ میں۔ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے بھی بڑا عجوبہ خود آدم کی تخلیق ہے ، لیکن اس وقت انسانیت موجود ہی نہ تھی کہ اللہ نے انسان اول کو کس طرح بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا۔ انسان بعد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تخلیق آدم کا مشاہدہ نہ کیا تھا۔ مشیت خداوندی نے یہ چاہا کہ یہ دوسرا عجوبہ خود لوگوں کے سامنے واقع ہو۔ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوجائیں اور جب سے انسان کو اس کرئہ ارض پر آباد کیا گیا ہے اور جس سنت کے مطابق انسان کا سل سلہ توالدو تناسل جاری ہے اس سے ہٹ کر ایک واقعہ ایسا ہوجائے کہ لوگ بچشم سرا سے دیکھ لیں اور یہ واقعہ اس قدر مشہور ممتاز اور ناقابل فراموش ہو کر صدیوں تک آنے والی نسلیں اس سے عبرت لیں کیونکہ پہلا معجزہ اور اعجوبہ وجود انسان سے قبل ہوا تھا۔ اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کے لئے ایک سنت جاری فرما دی ہے کہ تمام انواع و اقسام کے جاندار ایک مخصوص سنت توالد و تناسل کے مطباق چلتے رہیں اور یہ سلسلہ مرد و عورت سے جاری ہوگا۔ یہاں تک کہ جن چیزوں میں مرد اور عورت نہیں ہے ، ان میں بھی فرد واحد میں مذکر و مونث کے خلیے رکھ دیئے گئے ہیں۔ یہ سنت قرون سے چلتی آرہی ہے اور ذہن انساین میں یہ پوری طرح بیٹھ گئی ہے۔ انسان یہ سوچنے لگا ہے کہ شاید تخلیق کا یہی واحد طریقہ ممکن ہے۔ تخلیق آدم کو وہ بھلا بیٹھا کہ کس طرح پہلا انسان وجود میں آیا۔ انسانی سوچ اور مشاہدے سے یہ بات ذرا باہر بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی بن باپ تخلیق کر کے یہ بتایا کہ اللہ اپنی جاری کی ہوئی سنت کا خود پابند نہیں ہے۔ اللہ کا ارادہ آزاد ہے اس کی قدرت بےقید ہے اور اس کا ارادہ کسی شکل اور طریقہ کا پابند نہیں ہے۔ تالہ پابند نے نہیں ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ جیسا واقعہ جاری نہ رہا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لئے جو سنت جاری کر رکھی تھی اسے جاری رکھنا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے واقعہ سے توالدو تناسل انسانیت کی سنت جاریہ کو بدلنا مقصود نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت ، مشیت اور ارادے کی آزادی کے ثبوت کے لئے بس یہ ایک مثال ہی کافی تھی کہ اللہ خود اپنے جاری کردہ قوانین کا پابند نہیں ہے۔ ولنجعلہ ایۃ للناس ” تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی بنائیں۔ “ یہ واقعہ چونکہ سنت الہیہ سے ہٹ کر عجیب و غریب تھا اس لئے بعض فرقے اسے صحیح طرح نہ سمجھ سکے اور اس واقعہ کو ظاہر کرنے کی حکمت بھی وہ نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی طرف الوہیت کی صفات کی نسبت شروع کردی اور آپ کی ولادت کے بارے میں اوہام و خرافات کا تانا بانا بننا شروع کردیا۔ انہوں نے ان کی اس تخلیق سے اللہ کا جو اصل مقصد تھا اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ ہدایت کے بجائے الٹا گمراہی کی طرف چلے گئے۔ یعنی بجائے اس کے کہ وہ کہتے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت الہیہ بےقید ہے انہوں نے خود حضرت عیسیٰ کو الہ بنا لیا اور ان کے عقائد خراب ہوگئے۔ اس سورة میں قرآن کریم اس واقعہ کو ذرا تفصیل سے نقل کرتا ہے ، اس واقعہ کا حقیقی مقصد بتاتا ہے اور خرافات اور قصے کہانیوں کی تردید کرتا ہے۔ انداز بیان نہیات ہی پر تاثیر مناظر کی شکل میں ہے ، جو جذباتی مناظر اور انساین تاثرات سے بھرپور ہیں۔ جو شخص ان مناظر کی غور سے پڑھتا ہے اور چشم تصور سے دیکھتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ کانپ اٹھتا ہے ، ذرا غور سے پڑھیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا) (اور یحییٰ کو ہم نے اپنے پاس سے رقت قلبی عطا فرما دی) یہ رقت قلبی مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آنے اور انھیں صراط مستقیم پر لانے اور اعمال صالحہ پر ڈالنے میں مفید ہوتی ہے اس بارے میں جو مخلوق سے تکلیف پہنچے اس پر صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ وَزَکوٰۃً (اور اس بچہ کو ہم نے پاکیزگی عطا کی) یہ لفظ زکوٰۃ کا ترجمہ ہے لفظ زکوٰۃ کا اصل معنی پاکیزہ ہونے کا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس موقع پر اس کی تفسیر میں فرمایا الطاعۃ والاخلاص کہ اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کو اپنی فرمانبرداری اور اخلاص فی الاعمال کی نعمت فرمائی اور حضرت قتادہ (رح) سے مروی ہے کہ اس سے عمل صالح مراد ہے اور مفسر کلبی نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے صدقۃ تصدق اللہ بھا علی ابویہ (یعنی یحییٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اللہ کی طرف سے ایک صدقہ ہے جو کہ ماں باپ کو عطا فرمایا) (وَکَانَ تَقِیًّا) اور یحییٰ (علیہ السلام) تقی تھے، اس لفظ میں تمام اعمال خیر کو اخلاص کے ساتھ اور پوری فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرنا اور چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ رہنا داخل ہوجاتا ہے مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور گناہ کا کوئی ذرا سا ارادہ بھی نہیں کیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 اور اپنے پاس سے رحم دلی اور پاکیزگی عطا کی تھی اور وہ بہت پرہیز گار۔