Surat Marium

Surah: 19

Verse: 14

سورة مريم

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴿۱۴﴾

And dutiful to his parents, and he was not a disobedient tyrant.

اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والا تھا وہ سرکش اور گناہ گار نہ تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And dutiful to his parents, and he was not arrogant or disobedient. After Allah mentioned Yahya's obedience to his Lord and that Allah created him full of mercy, purity and piety, He attached to it his obedience to his parents and his good treatment of them. Allah mentioned that he refrained from disobeying them in speech, actions, commands and prohibitions. Due to this Allah says, وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا (and he was not arrogant or disobedient). Then, after mentioning these beautiful characteristics, Allah mentions his reward for this, وَسَلَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی اپنے ماں باپ کی یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں والدین کے لئے شفقت و محبت کا اور ان کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کا جذبہ اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے تو یہ اس کا خاص فضل وکرم ہے اور اس کے برعکس جذبہ یا رویہ، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل خاص سے محرومی کا نتیجہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] بڑھاپے کی اولاد، اور بالخصوص ایسی اولاد جو اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر حاصل ہو، کے عادات واطوار ماں باپ کے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اچھے نہیں ہوتے لیکن یحییٰ میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ وہ ماں باپ کے انتہائی فرمانبردار، ان سے بہتر سے بہتر سلوک کرنے والے تھے۔ نافرمانی یا سرکشی کی ان میں بو تک نہ تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَبَرّاً ابِوَالِدَيْهِ ۔۔ : آرزوؤں اور امنگوں سے پیدا ہونے والی اولاد عموماً مغرور، سرکش اور نافرمان ہوتی ہے، یحییٰ (علیہ السلام) ایسے نہ تھے، بلکہ ماں باپ کے ساتھ بہت نیک سلوک کرنے والے تھے۔ وہ نہ سرکش تھے اور نہ اپنے والدین یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے تھے۔ ظاہر یہ ہے کہ ” عَصِيًّا “ ” عَصَی یَعْصِيْ “ سے ” فَعُوْلٌ“ کے وزن پر ہے، تعلیل کے بعد ” عَصِيًّا “ بن گیا۔ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر بھی ہوسکتا ہے، دونوں وزن مبالغہ کے لیے ہیں۔ (شنقیطی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّبَرًّۢا بِوَالِدَيْہِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا۝ ١٤ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَّبَرًّام بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا) یہ اوصاف اللہ تعالیٰ کی خصوصی عطا کے طور پر حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی گھٹیّ میں ڈال دیے گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:14) برا۔ البر۔ یہ بحر کی ضد ہے اور اس کے معنی خشکی کے ہیں۔ پھر معنی کی وسعت کے اعتبار سے اس سے البرکا لفظ مشتق کیا گیا۔ جس کے معنی وسیع پیمانے پر نیکی کرنے کے ہیں۔ اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے۔ جیسے انہ ھو البر الرحیم۔ (52:28) بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بر العبد ربہبندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی۔ البر۔ (نیکی) دو قسم پر ہے۔ اعتقادی اور عملی۔ اور آیت کریمہ لیس البر ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن بااللہ والیوم الاخر۔ والملئکۃ والکتب والنبیین واتی المال علی حبہ۔۔ الخ (2:177) نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کرو۔ بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اس کی محبت میں مال صرف کرے۔۔ الخ اس میں دونوں قسم کی نیکی کا بیان ہے۔ برالوالدین۔ کے معنی ہیں ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتائو اور احسان کرنا۔ برا بوالدیہ۔ اپنے والدین کے ساتھ نہایت اچھا سلوک اور احسان کرنے والا۔ برا صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اس کا عطف کان کی خبر تقیا پر ہے۔ اور بدیں وجہ منصوب ہے۔ جبارا عصیا۔ جبار۔ سرکش۔ زبردست دبائو والا۔ انسانوں میں جبار وہ شخص ہے جو اپنے نقص کو علو مرتبت کے ادعا سے پورا کرنا چاہے جس کا وہ مستحق نہیں۔ اس معنی میں جبار کا استعمال بطور مذمت ہوتا ہے۔ اور صفت باری تعالیٰ میں جو وصف جبار مذکور ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ارادہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں قادر مطلق ہے۔ جبار۔ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ عصیا۔ بڑا نافرمان۔ بہت بےحکم معصیۃ اور عصیان سے بروزن فعیل یا مفعول صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ صاحب البحر المحیط رقمطراز ہیں عصیا کے معنی ہیں کثیر العصیان عاصی کے ہیں۔ یعنی ایسا نافرمان جو بڑی نافرمانی کرے۔ یہ اصل میں عصوی تھا۔ بروزن فعولجو مبالغہ کے لئے ہے۔ اور اس کا احتمال بھی ہے کہ بروزن فعیلہو اور یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے : علامہ قرطبی (رح) نے امام کسائی سے نقل کیا ہے کہ عصی اور عاصدونوں کے معنی ایک ہیں۔ اس صورت میں یہ صفت مشبہ کا صیغہ ہوگا۔ جبارا وعصیاہر دو بوجہ خبر کے منصوب ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس میں حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی طرف اشارہ ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَبَرًّا بْوَالِدَیْہِ ) (اور ہم نے یحییٰ کو والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے والا بنایا) (وَلَمْ یَجْعَلْہُ جَبَّارًا عَصِیًّا) (اور اللہ نے ان کو جبار یعنی متکبر نہیں بنایا اور عصی یعنی نافرمان نہیں بنایا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ گناہوں سے بالکلیہ اجتناب کرنے والے حدیث میں ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے اپنی زندگی بھر میں کوئی گناہ نہیں کیا اور نہ گناہ کرنے کا ارادہ ہی کیا۔ ” و برا بوالدیہ “ ماں باپ دونوں پر احسان کرنے والا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے چونکہ ماں باپ دونوں تھے۔ اس لیے دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 اور اپنے ماں باپ کا بڑا خدمت گزار تھا اور وہ سرکشی کرنے والا اور نافرمانی کرنے والا نہ تھا۔ یعنی دین کا فہم اور رحم دلی اخلاق کی پاکیزگی ، پرہیز گاری والدین کا اطاعت گزارا اور خدمت گزار اور سرکش نہیں، نافرمان نہیں گویا تمام خوبیوں سے اس کو نوازا تھا خواہ وہ حقوق العباد ہوں یا حقوق اللہ ہوں سب باتیں ان اوصاف میں داخل ہوگئیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی علم کتاب لوگوں کو سکھانے لگے اپنے باپ کی جگہ زور سے یعنی باپ ضعیف تھے اور وہ جوان 12 ایک لڑکے نے ان کو بلایا کھیلنے کو کہا ہم کو اس واسطے نہیں بنایا 12 یعنی آرزو کے لڑکے ایسے ہوتے ہیں وہ ایسا نہ تھا۔ 12