Surat Marium

Surah: 19

Verse: 17

سورة مريم

فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴿۱۷﴾

And she took, in seclusion from them, a screen. Then We sent to her Our Angel, and he represented himself to her as a well-proportioned man.

اور ان لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح ( جبرائیل علیہ السلام ) کو بھیجا پس وہ اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا ... She placed a screen before them; This means that she hid herself from them and concealed herself. ... فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا ... then We sent to her Our Ruh, Then, Allah sent Jibril to her. ... فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا and he appeared before her in the form of a man in all respects. This mean... s that he came to her in the form of a perfect and complete man. Mujahid, Ad-Dahhak, Qatadah, Ibn Jurayj, Wahb bin Munabbih and As-Suddi all commented on Allah's statement, فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا (then We sent to her Our Ruh), "It means Jibril." قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انھیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ 17۔ 2 رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے ج... ب دیکھا کہ ایک شخص بےدھڑک اندر آگیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قرائتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قراءت میں ہے) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کرلیا۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتًا نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہوگی۔ (اَ رْسَلَنِیْ ، یَقُولُ لَکَ اَرْسَلٰتُ رَسُوْلِیْ اِلَیْکِ الأھَبَ لَکِ ) ' یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا ' اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] سیدہ مریم کی بیت المقدس کے حجرہ میں عبادت :۔ سیدنا یحییٰں کی خرق عادت پیدائش کے بعد اب سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ بغیر باپ پیدائش کا آغاز ہو رہا ہے۔ سیدہ مریم ( علیہ السلام) بیت المقدس کے مشرقی جانب کے ایک حجرہ میں گوشہ نشین ہو کر اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کرتیں۔ پھر اس کمرہ میں بھ... ی ایک پردہ ڈال لیا تاکہ دوسرے لوگوں سے بھی الگ تھلگ رہ کر پوری یکسوئی سے ذکر و فکر میں مشغول رہ سکیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ جب جوان ہوئیں تو انھیں حیض آگیا اور بہت زیادہ شرم محسوس ہوئی تو اس وقت سب لوگوں سے پردہ کرلیا۔ پھر اسی علیحدگی میں غسل حیض بھی کیا۔ [١٨] یہاں روح سے مراد فرشتہ ہے۔ سیدنا جبریل ایک نوجوان اور خوبصورت مرد کی شکل میں اسی پردہ کے مقام پر نمودار ہوگئے اور فرشتے جب انسانی شکل میں نبیوں یا برگزیدہ ہستیوں کے پاس آتے ہیں تو عموما خوش منظر صورتوں میں ہی آتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا : ایام سے فارغ ہونے پر غسل کے لیے پردہ تان لیا، یا عبادت میں مکمل تنہائی کے لیے۔ فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا : روح سے مراد یہاں جبریل (علیہ السلام) ہیں، جیسا کہ سورة شعراء (١٩٣) اور سورة قدر (٤) میں انھی کے متعلق روح کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ ہر روح کا مالک ال... لہ تعالیٰ ہی ہے مگر جبریل (علیہ السلام) کو خاص طور پر اپنا قرار دینے میں ان کی شان کی بلندی کا اظہار ہے، جیسا کہ ہر گھر اور ہر اونٹنی اللہ کی ملکیت ہے، مگر بیت اللہ اور ناقۃ اللہ کی شان انوکھی ہے۔ اس لیے ” رُوْحَنَا “ کا ترجمہ ” اپنا خاص فرشتہ “ کیا ہے۔ فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا : ” سَوِيًّا “ پورے اعضا والا تندرست (انسان) ۔ جبریل (علیہ السلام) انسان کی شکل میں اس لیے آئے کہ مریم [ کے لیے انھیں ان کی اصل صورت میں دیکھنا شدید خوف کا باعث یا ناقابل برداشت ہوتا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی زندگی میں جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں صرف دو بار دیکھا ہے۔ دیکھیے سورة نجم (٥ تا ١٨) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ کے حکم سے اپنی شکل بدل سکتے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَاَرسَلنَا اِلیھَا رُوحَنَا |"Then, We sent to her Our Spirit.|" - 19:17. A majority of scholars hold the view that رُوح (Spirit) refers to Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) but some say that it refers to Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) himself. Allah Ta` ala had placed before Sayyidah Maryam (علیہا السلام) the likeness of the son to be born to her. But the former version is more appropriate an... d is confirmed by the statement that follows. فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَراً سَوِیَّا |"He took before her the form of a perfect human.|" - 19:17. It is not given to a human being to see an angel in its real form, because he will be overwhelmed by fright at such an experience. This, indeed is, that happened to The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the cave of Hira& on his first encounter with Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) and again later on. Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) appeared before Sayyidah Maryam (علیہا السلام) in the form of a man, so as not to frighten her. When Sayyidah Maryam (علیہا السلام) saw a man near her she became apprehensive of his intentions and said  Show more

فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا : روح سے مراد جمہور کے نزدیک حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں اور بعض نے کہا کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے بپیدا ہونے والے بشر کی شبیہ ان کے سامنے کردی۔ مگر پہلا قول راجح ہے بعد کے کلمات سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ فَتَمَثَّلَ لَ... هَا بَشَرًا سَوِيًّا : فرشتہ کو اس کی اپنی اصلی صورت وہیئت میں دیکھنا انسان کے لئے آسان نہیں، اس کی ہیبت غالب آجاتی ہے جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غار حراء میں اور بعد میں پیش آیا۔ اس مصلحت سے جبرئیل امین حضرت مریم علیہا اسلام کے سامنے بشکل انسانی ظاہر ہوئے۔ جب حضرت مریم نے ایک انسان کو اپنے قریب دیکھا جو پردہ کے اندر آگیا تو خطرہ ہوا کہ اس کا ارادہ برا معلوم ہوتا ہے اس لئے فرمایا :  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًا۝ ٠ۣ۠ فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِيًّا۝ ١٧ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ د... ُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ حجب الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف : ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف/ 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری/ 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین/ 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] . ( ح ج ب ) الحجب والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف/ 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری/ 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین/ 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ روح ( فرشته) وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة/ 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] روح اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) پھر انہوں نے گھر والوں کے سامنے پردہ ڈال لیا تاکہ اس کی آڑ میں غسل کرسکیں چناچہ غسل سے فراغت کے بعد ہم نے ان پاس اپنے فرشتے جبریل امین (علیہ السلام) کو بھیجا وہ ان کے سامنے ایک پورے نوجوان کی صورت میں ظاہر ہوئے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًا) انہوں نے گوشے میں پردہ تان کر خلوت کا ماحول بنا لیا تاکہ یکسوئی سے اللہ کی عبادت کرسکیں۔ (فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا) یہاں پر روح بمعنی فرشتہ ہے۔ قبل ازیں تفصیلاً بیان ہوچکا ہے کہ فرشتہ بھی روح ہے ‘ وحی بھی روح ہے ‘ قرآن بھی روح ہے اور روح انس... انی بھی روح ہے۔ (فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًاسَوِیًّا) یعنی فرشتہ ان کے سامنے ایک مکمل انسان کی صورت میں نمودار ہوا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. The Sanctuary where she had retired for devotion was an eastern chamber in the Temple, and as was customary she had hung a curtain to conceal herself from the people. It cannot be Nazareth as some people have wrongly taken it to be, because Nazareth is to the north of Jerusalem.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :14 سورہ آل عمران میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے اپنی مانی ہوئی نذر کے مطابق ان کو بیت المقدس میں عبادت کے لیئے بٹھا دیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی حفاظت و کفالت اپنے ذمے لے لی تھی ۔ وہاں یہ ذکر بھی گزر چکا ہے کہ حضرت مریم بیت المقدس کی ایک محراب میں معتک... ف ہو گئی تھیں ۔ اب یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس میں حضرت مریم معتکف تھیں بیت المقدس سے شرقی حصے میں واقع تھی اور انہوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ کر لیا تھا ۔ جن لوگوں نے محض بائیبل کی موافقت کی خاطر مکاناً شرقیاً سے مراد لیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے ، کیونکہ ناصرہ یروشلم کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: علیحدہ جاکر پردہ ڈالنے کی وجہ بعض مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ غسل کرنا چاہتی تھیں، اور بعض نے کہا ہے کہ عبادت کے لئے تنہائی اختیار کرنا مقصود تھا، علامہ قرطبی نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:17) فاتخذت حجاباپردہ کرلیا۔ من دونہم۔ ای من دون اھلھا اہل خانہ کی طرف سے پردہ کرلیا۔ روحناجبرئیل (علیہ السلام) فتمثل۔ تمثل یتمثل تمثل (تفعل) سے ماضی واحد مذکر غائب کسی دوسری چیز کی صورت پکڑنے کو تمثیل کہتے ہیں۔ اس معنی میں جب تمثیل کا استعمال ہوتا ہے تو اس کا تعدیہ لام سے ہوتا ہے۔ تمثل لھا۔ وہ...  ظاہر ہوا اس کے سامنے بشرا سویا چنگا بھلا تندرست انسان بن کر۔ نیز ملاحظہ ہو (19:10) مذکورہ بالا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 بعض مفسرین نے اگرچہ روحنا ہماری (روح) سے مراد حضرت عیسیٰ کی روح مراد لی ہے مگر زیادہ تر قرین قیاس یہی ہے کہ اس سے مراد حضرت جبرئیل ہی لئے جائیں جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ ایک اچھے خاصے پورے آدمی کی شکل میں ان کے سامنے آگیا۔ (فتح مقدر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشراً سویاً (٩١ : ٨١) ” اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پور انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ یہ اب کسی بھی کنواری عورت کی طرح گھبرا اٹھتی ہے ، جس کے کمرے میں اچانک ایک پورا نوجوان مرد داخل ہوجائے۔ وہ اللہ کی پناہ میں آتی ... ہے۔ اللہ سے پناہ طلب کرتی ہے ، اس شخص کو اللہ اور تقویٰ و طہارت کا واسطہ دیتی ہے۔ اللہ کے خوف کا واسطہ دیتی ہے ، وہ کہتی ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ، یہ جگہ خالی نہیں ہے۔ اللہ موجود ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 پھر اس نے ان لوگوں کے درے اور ان کے بالمقابل ایک پردہ ڈال لیا پس ہم نے اس مریم کے پاس اپنے ایک فرشتے کو بھیجا وہ فرشتہ اس کے سامنے ایک صحیح الخلقت آدمی کو شکل و صورت اختیار کر کے ظاہر ہوا۔ حضرت مریم نے اپنے اہل سے دور نکل جانے کے باوجود پھر پردہ ڈال لیا جب نہانے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ ایک نوجوا... ن خوب روکھڑا ہوا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جو ان خوش صورت 12 خلاصہ : کہ فرشتہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آیا کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو وحشت نہ ہو اور وہ ڈر نہ جائیں اس لئے بشر بن کر آئے یہ فرشتہ بقول مفسرین حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تھے۔  Show more