Surat Marium

Surah: 19

Verse: 2

سورة مريم

ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾

[This is] a mention of the mercy of your Lord to His servant Zechariah

یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A reminder of the mercy of your Lord to His servant Zakariyya. This means that this is a reminder of Allah's mercy upon His servant Zakariyya. Yahya bin Ya`mar recited it, ( ذَكَّرَ رَحْمَةِ رَبكَ عَبْدَه زكريا ) "He has reminded of your Lord's mercy to His servant Zakariyya." The word Zakariyya in the Ayah has been recited with elongation and also shortened. Both recitations are well-known. He was a great Prophet from the Prophets of the Children of Israel. In Sahih Al-Bukhari, it is recorded (that the Prophet said about Zakariyya) that He was a carpenter who used to eat from what he earned with his own hand through carpentry. Concerning Allah's statement, إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاء خَفِيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 حضرت زکر یا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] سیدنا زکریا اور یحییٰ (علیہما السلام) نیز سیدہ مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے واقعات پہلے سورة آل عمران کے رکوع نمبر ٣ اور ٤ میں گزر چکے ہیں۔ ان کے حواشی بھی مدنظر رکھے جائیں۔ سیدنا یحییٰ اور سیدنا عیسیٰ (علیہما السلام) دونوں کی پیدائش خرق عادت کے طور پر ہوئی تھی۔ مگر چونکہ سیدنا یحییٰ کی پیدائش نسبتا ً کم خرق عادت ہے۔ اس لئے اسے بطور تمہید پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا : یہاں ” ہٰذَا “ محذوف ہے، یعنی یہ تیرے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔ رحمت سے مراد یہاں زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول کرنا اور انھیں سخت بڑھاپے اور بیوی بانجھ ہونے کے باوجود یحییٰ (علیہ السلام) جیسا عظیم مرتبے والا بیٹا عطا فرمانا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَ زَکَرِیَّاءُ نَجَّارًا ) [ مسلم، الفضائل، باب من فضائل زکریا۔ : ٢٣٧٩ ] ” زکریا (علیہ السلام) نجار (ترکھان) تھے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ وہ داؤد (علیہ السلام) کی طرح اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ وَ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ) [ بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ : ٢٠٧٢، عن المقدام (رض) ]” کسی شخص نے کبھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر نہیں کھایا اور اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢۔ ٣) یہ تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی فرمانے کا اپنے بندہ زکریا (علیہ السلام) پر کہ ان کو لڑکا عطا فرمایا جب کہ زکریا (علیہ السلام) نے محراب میں اپنی قوم سے پوشیدہ طور پر اپنے پروردگار کو پکارا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا) ” یہاں ذکر تو حضرت عیسیٰ کا کرنا مقصود ہے مگر آپ کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ حضرت یحییٰ کی ولادت بھی تو ایک بہت بڑا معجزہ تھی۔ حضرت زکریا بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ کی اہلیہ بھی نہ صرف بوڑھی تھیں بلکہ عمر بھر بانجھ بھی رہی تھیں۔ ان حالات میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش کوئی معمول کا واقعہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو یہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. For comparison please see the story of Zachariah as given in (Ayats 34-57 of Surah Aal-Imran) and the E.Ns thereof. 2. In order to understand the position held by Zachariah, a descendant of Prophet Aaron, one should be acquainted with the system of priesthood among the children of Israel. After the conquest of Palestine, the entire land was divided among the 12 tribes of the descendants of Prophet Jacob as inheritance, and the 13th tribe, the Levites, was entrusted with religious services and duties. Even among the Levites, the house that was separated to sanctify the most holy things, to burn incense before the Lord, to minister unto him, and to bless in his name forever was the house of Prophet Aaron. The other Levites were not allowed to enter the Temple. Their duty was to wait on the sons of Aaron for the service of the house of the Lord, in the courts, and in the chambers, and in the purifying of all holy things, and to offer all burnt sacrifices unto the Lord in the Sabbaths, in the new moon, and on the set festivals. The descendants of Aaron were divided into 24 families, who came to serve the house of the Lord by turns. One of these families was of Abiah whose chief was Zachariah. Thus it was Zachariah’s duty to go into the house on his family’s turn and burn incense before the Lord. (For details, see 1 Chronicles, chapters 23, 24).

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :1 تقابل کے لیئے سورہ آل عمران رکوع 4 پیش نظر رہے جس میں یہ قصہ دوسرے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے ۔ تفہیم القران ج 1 ۔ ص 246 ۔ 250 ) سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :2 یہ حضرت زکریا جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے حضرت ہارون کے خاندان سے تھے ۔ ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت ( Priesthood ) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب کی اولاد کے 12قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کر دیا گیا ، اور تیرھواں قبیلہ ( یعنی لاوی بن یعقوب کا گھرانا ) مذہبی خدمات کے لیئے مخصوص رہا پھر بنی لاوی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو ، مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلا نے کی خدمت اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام کرتا تھا ، حضرت ہارون کا خاندان تھا ۔ باقی دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے ، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے ، اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لیئے حاضر ہوتے ۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا تھے ۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور بخور جلا نے کی خدمت انجام دیتے تھے ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب توار یخ اول ۔ باب 23 ، 24 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:2) ذکر رحمۃ ربک عبدہ زکریا۔ اس میں ھذا (محذوف) مبتدا ہے اور ذکر رحمۃ۔۔ زکریا۔ اس کی خبر ہے۔ عبدہ مفعول ہے رحمۃ کا اور زکریابدل ہے عبدہکا۔ ترجمہ یوں ہوا۔ یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا جو اس نے اپنے بندے زکریا پر فرمائی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس ترجمہ کے مطابق ” زکریا “ کا لفظ ” عبدہ “ سے عطف بیان یا بدل ہے اور ” عبدہ “ رحمتہ کا مفعول ہے اور حضرت زکریا پر رحمت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت یحییٰ عنایت کئے۔ (شوکانی) حضرت یحییٰ بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاء میں سے تھے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زکریا بخار بڑھئی) تھے۔ نیز ان کے قصہ کے لئے دیکھئے سورة عمران

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اصل قصے کا آغاز ایک دعا کے منظر سے ہوتا ہے۔ یہ دعا حضرت زکریا کرتے ہیں اور نہایت عاجزی اور خضوع و خشوع کے ساتھ کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ یہ پہلے شبہہ کا جواب ہے۔ اس پورے واقعہ سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کا عجز و احتیاج ظاہر ہوتا ہے۔ وہ بیٹے کے لیے انتہائی عجز و نیاز سے دعا کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ متصرف و کارساز نہیں ہوسکتے۔ ” رحمۃ “ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے اور ” عبدہ زکریا “ مبدل منہ اور بدل مل کر اس کا مفعول ہے یہ مجموعہ مل کر ” ذکر “ کا مضاف الیہ ہے اور مرکب اضافی مبتدا محذوف ھذا کی خبر ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ رحمت جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر کی تھی۔ یہ اس کا ذکر ہے۔ ” نداء خفیا “ یعنی آہستہ اور چھپ کر یہ ” نادی “ کا مفعول مطلق ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعاء اخفاء اور آہستگی سے کی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے لیے جہر و اخفاء برابر ہے تو دعا میں اخفاء بہتر ہے جو ریاء سے ابعد اور اخلاص سے اقرب ہے۔ راعی سنۃ اللہ فی اخفاء دعوۃ لان الجھر والاخفا عند اللہ سیان فکان الاخفاء اولی لانہ ابعد عن الریاء وادخل فی الاخلاص (کبیر ج 5 ص 764) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2 اے پیغمبر یہ آپ کے پروردگار کی اس رحمت و مہربانی کا تذکرہ ہے جو اس نے اپنے مقبول بندے زکریا نامی پر فرمائی تھی یعنی یہ قصہ جو آگے بیان کیا جاتا ہے یہ اس رحمت کا تذکرہ ہے جو اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر فرمائی تھی۔