Surat Marium

Surah: 19

Verse: 26

سورة مريم

فَکُلِیۡ وَ اشۡرَبِیۡ وَ قَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾

So eat and drink and be contented. And if you see from among humanity anyone, say, 'Indeed, I have vowed to the Most Merciful abstention, so I will not speak today to [any] man.' "

اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ مان رکھا ہے ۔ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ... It will let fall fresh ripe dates upon you. So eat and drink and rejoice. Meaning to be happy. This is why `Amr bin Maymun said, "Nothing is better for the woman confined in childbed than dried dates and fresh dates." Then he recited this noble Ayah. Concerning Allah's statement, ... فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا ... And if you see any human being, This means any person that you see, ... فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا Say: `Verily, I have vowed a fast unto the Most Gracious (Allah), so I shall not speak to any human being today.' Meaning, by signaling with gestures, not a statement by speech. This is so that she does not negate her oath itself, فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا (so I shall not speak to any human being today). Anas bin Malik commented on, إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا (I have vowed a fast unto the Most Gracious), He said; "A vow of silence." Likewise said Ibn Abbas and Ad-Dahhak. The meaning here is that in their Law, when fasting, it was forbidden for them to eat and speak. As-Suddi, Qatadah and Abdur-Rahman bin Zayd have all stated this view. Abdur-Rahman bin Zayd said, "When `Isa said to Maryam, أَلاَّ تَحْزَنِي (Grieve not), She said, `How can I not grieve when you are with me and I have no husband nor am I an owned slave woman! What excuse do I have with the people! Woe unto me, if I had only died before this, and had been a thing forgotten and unknown.' Then, `Isa said to her, `I will suffice you with a statement, فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا And if you see any human being, say: `Verily, I have vowed a fast unto the Most Gracious so I shall not speak to any human being this day." All of this is from the speech of `Isa to his mother." Wahb said the same as well.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔ 26۔ 2 یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] زچگی کے دوران خوردونوش کے لئے اللہ کی معجزانہ مدد :۔ جس کھجور کے درخت کے تنے سے سیدہ مریم نے سہارا لیا تھا وہ قدرے بلندی پر واقع تھا اس کے نیچے سے پھر اسی فرشتہ کی آواز سنائی دی جس نے لڑکے کی بشارت دی تھی اور جس کی بشارت شاید اس وقت سیدہ مریم بھول گئی تھیں۔ اور وہ آواز یہ تھی کہ ذرا نیچے تو دیکھو اللہ نے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے یہ تمہارے پینے کے لئے ہے اور اسی کھجور کے تنے کو زور سے ہلاؤ تو تازہ پکی کھجوریں جھڑنے لگیں گی۔ یہ سیدہ مریم کے کھانے کا سامان کیا گیا اور یہ دونوں چیزیں معجزانہ طور پر پیدا کی گئی تھیں۔ جو اس حالت زچگی کے لئے ایک سادہ غذا بھی تھی اور مناسب و متوازن بھی۔ [٢٦] پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے امداد کی صورتیں اور چپ کا روزہ :۔ اللہ کی مہربانی سے بچہ پیدا ہوگیا۔ فرشتہ کی آمد سے تنہائی میں کمی واقع ہوئی۔ کھانے پینے کا سامان بھی مہیا ہوگیا اور چوتھی اور سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ بدنامی سے بچاؤ کی کیا صورت ہو اور لوگ جو دیکھیں گے اور پوچھیں گے تو انھیں کیا جواب دیا جائے۔ اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا اور فرشتے نے سیدہ مریم کو ہدایت کی کہ اگر کوئی آدمی دیکھے تو اس کو اشارہ سے یہ کہہ دینا کہ میں نے آج چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ لہذا کسی آدمی سے بات کرنا مجھے منع ہے۔ واضح رہے کہ چپ کا روزہ پہلی امتوں میں مشروع تھا مگر شریعت محمدیہ میں مشروع نہیں۔ ایسے روزہ میں انسان ذکر اذکار اور اللہ سے دعا وغیرہ تو کرسکتا تھا، مگر لوگوں سے بات چیت نہیں کرسکتا تھا جیسا کہ سیدنا زکریا کو بھی سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے حمل کی علامت ایسا ہی تین دن کا روزہ بتایا گیا تھا۔ ایسے روزہ میں فرشتوں سے بات چیت ممنوع نہیں تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

But in the matter of their actual use the order was reversed i.e. eating was enjoined first and then drinking. It is perhaps because normally a person first makes arrangement for drinking water and then for food, specially such food as is more likely to produce thirst. But when it comes to their use the sequence gets reversed i.e. one eats first and then drinks water. (Ruh ul-Ma ani).

(آیت) فَكُلِيْ وَاشْرَبِيْ : وجہ غالباً یہ ہے کہ انسان کی فطری عادت ہے کہ پانی کا اہتمام کھانے سے پہلے کرتا ہے خصوصاً ایسی غذا جس کے بعد پیاس لگنا یقینی ہو اسکے کھانے سے پہلے پانی مہیا کرتا ہے مگر استعمال کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ پہلے غذا کھاتا ہے پھر پانی پیتا ہے۔ (رُوح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكُلِيْ وَاشْرَبِيْ وَقَرِّيْ عَيْنًا۝ ٠ۚ فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا۝ ٠ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا۝ ٢٦ۚ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔ قرر ( آنکھ ٹهنڈي کرنا) صببت فيها ماء قَارّاً ، أي : باردا، واسم ذلک الماء الْقَرَارَةُ والْقَرِرَةُ. واقْتَرَّ فلان اقْتِرَاراً نحو : تبرّد، وقَرَّتْ عينه تَقَرُّ : سُرّت، قال : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه/ 40] ، وقیل لمن يسرّ به : قُرَّةُ عين، قال : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص/ 9] ، وقوله : هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] ، قيل : أصله من القُرِّ ، أي : البرد، فَقَرَّتْ عينه، قيل : معناه بردت فصحّت، وقیل : بل لأنّ للسّرور دمعة باردة قَارَّةً ، وللحزن دمعة حارّة، ولذلک يقال فيمن يدعی عليه : أسخن اللہ عينه، وقیل : هو من الْقَرَارِ. والمعنی: أعطاه اللہ ما تسکن به عينه فلا يطمح إلى غيره، وأَقَرَّ بالحقّ : اعترف به وأثبته علی نفسه . وتَقَرَّرَ الأمرُ علی كذا أي : حصل، والقارُورَةُ معروفة، وجمعها : قَوَارِيرُ قال : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 16] ، وقال : رْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] ، أي : من زجاج . قرت لیلتنا تقر رات کا ٹھنڈا ہونا ۔ یوم قر ٹھنڈا دن ) لیلۃ فرۃ ( ٹھنڈی رات ) قر فلان فلاں کو سردی لگ گئی اور مقرور کے معنی ٹھنڈا زدہ آدمی کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ۔ حرۃ تحت قرۃ یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف بات کرے ۔ قررت القدر اقرھا میں نے ہانڈی میں ٹھنڈا پانی ڈالا ۔ اور اس پانی کو قرارۃ قررہ کہا جاتا ہے ۔ اقتر فلان اقترار یہ تبرد کی طرح ہے جس کے معنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں ۔ قرت عینہ ت قرآن کھ کا ٹھنڈا ہونا ۔ مراد خوشی حاصل ہونا ہے قرآن پاک میں ہے : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه/ 40] تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اور جسے دیکھ کر انسان کو خوشی حاصل ہو اسے قرۃ عین کہاجاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص/ 9] یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہمیں بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قر بمعنی سردی سے ہے لہذا قرت عینہ کے معنی آنکھ کے ٹھنڈا ہو کر خوش ہوجانے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ قرت عینہ کے معنی خوش ہونا اس لئے آتے ہیں کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو چونکہ گرم ہونے ہیں اس لئے بددعا کے وقت اسخن اللہ عینہ کہاجاتا ہاے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قرار س مشتق ہے مراد معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزبخشے جس سے اس کی آنکھ کی سکون حاصل ہو یعنی اسے دوسری چیز کی حرص نہ رہے ۔ اقر بالحق حق کا اعتراف کرنا ۔ تقر الامر علی ٰ کذا کسی امر کا حاصل ہوجانا ۔ القارودۃ شیشہ جمع قواریر قرآن میں ہے : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 16] اور شیشے بھی چاندی کے ۔ صبح ممرد من قواریر یہ ایسا محل ہے جس میں ( نیچے ) شیشے جڑے ہوئے ہیں یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے ۔ نذر النّذر : أن تُوجِب علی نفسک ما ليس بواجب لحدوثِ أمر، يقال : نَذَرْتُ لله أمراً ، قال تعالی:إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، وقال : وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] ( ن ذ ر ) النذر : کے معنی کسیحادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ نذرت للہ نذر ا : میں نے اللہ کے لئے نذر مانی قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] میں نے خدا کے لئے روزے کی نذر مانی ہے ۔ وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] اور تم خدا کی راہ میں جس میں طرح کا خرچ کردیا کر دیا کوئی نذر مانو ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، صوم الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار : صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] . ( ص و م ) الصوم ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) پھر ان پھلوں کو کھاؤ اور نہر سے پانی پیو اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو اور آج کے بعد اگر تم آدمیوں میں سے کسی کو بھی دیکھو تو کہہ دینا میں نے تو روزہ کی جس میں بولنے کی پابندی ہے، نذر مان رکھی اور پھر اتنا کہنے کے بعد خاموش ہوجانا یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود تمہاری طرف سے جواب دے دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا) حضرت مریم (سلامٌ علیہا) نے یہ تمام معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ بچہ بھی بول پڑا ‘ چشمہ بھی جاری ہوگیا ‘ اور کھجور کے سوکھے تنے کو ہلانے سے تازہ پکی ہوئی کھجوریں بھی ان کے سامنے آن گریں۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی جرأت پیدا ہوئی اور انہوں نے بچے کو لے کر آبادی میں آنے کا فیصلہ کیا۔ (فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًالا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ للرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا) ان کی شریعت میں روزے کی حالت میں کھانے پینے کی پابندی کے علاوہ بات چیت کرنے پر بھی پابندی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. That is, you need not say anything with regard to the child. It is now Our responsibility to answer the critics. This also indicates why Mary was so sad and grieved. Had she been married and given birth to her first baby like any other mother, there was no occasion to tell her to observe a fast of silence, though it was a common custom among the Jews.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :18 مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی معترض ہو اسکا جواب اب ہمارے ذمے ہے ( واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کر روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا ) یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی ۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اسے چپ کا روزہ رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: حضرت مریم علیہما السلام جس جگہ تشریف لے گئی تھیں، وہ کچھ بلندی پر واقع تھی، (اور شاید یہی جگہ بیت اللحم کہلاتی ہے جو بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر ہے) اس کے نیچے نشیب میں سے فرشتہ ان سے دوبارہ ہم کلام ہوا، اور انہیں تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کھانے پینے کا یہ انتظام فرما دیا ہے کہ نیچے ایک چشمہ بہہ رہا ہے اور معمولی کوشش سے تازہ کھجوریں آپ پر خود بخود جھڑ جائیں گی جن میں پوری غذائیت بھی ہے، اور تقویت کا سامان بھی۔ 14: بعض پچھلی شریعتوں میں بات چیت نہ کرنے کا روزہ رکھنا بھی عبادت کی ایک شکل تھی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں منسوخ ہوگئی۔ اب ایسا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ایسے روزے کی منت مان کر روزہ رکھ لیں۔ اور کوئی بات کرنا چاہے تو اسے اشاروں سے بتا دیں کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے تاکہ خواہ مخواہ لوگوں کے سوال و جواب سے مزید تکلیف نہ ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:26) کلی اشربی۔ قری۔ (کھا۔ پی اور ٹھنڈا کر) میں کھانے پینے کا حکم بظاہر اباحت کے لئے ہے۔ قری قر سے ہے۔ جس کے معنی خنکی کے ہیں۔ قر یقر (ضرب) قر بمعنی سردی۔ سردی چونکہ سکون کو چاہتی ہے جیسا کہ اس کے برکس حر (گرمی) حرکت کو چاہتی ہے۔ اس لئے قرفی مکانہ کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانا کے ہیں۔ فاما۔ پس اگر۔ ترین۔ مضارع واحد مؤنث حاضر بانون ثقیلہ۔ رؤیۃ مصدر۔ (پس اگر) تو دیکھے۔ نذرت۔ ماضی واحد متکلم۔ نذرمصدر (ضرب ونصر) میں نے نذر مانی میں نے منت مانی۔ فقولی۔ یعنی تو اشارہ سے کہہ دینا۔ کیونکہ اگلا جملہ فلن اکلم الیوم انسیا (آج میں کسی انسان سے گفتگو نہیں کروں گی) اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جو روزہ حضرت مریم نے نذر کے طور پر رکھا تھا۔ اس میں بولنا منع تھا۔ یاد رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کے روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اور وہ تجھ سے پوچھے کہ یہ لڑکا کہاں سے آگیا اور یہ کیا مراج ہیڈ 2 یہاں قول بمعنی اشارہ ہے یعنی اسے اشارے سے مجھا دے۔ لہٰذا یہ مابعد کے جملہ فلن اکلم الیوم انسیا کے منافی نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 3 بنی اسرائیل کے ہاں روزہ میں چپ رہنے کی نیت جائز تھی۔ ہماری شریعت میں یہ جائز نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی بچہ کے دیکھنے سے اور کھانے پینے سے اور علامت قبول عنداللہ ہونے سے خوش رہو۔ 3۔ بس تم اتنا جواب دے کر بےفکر ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ اس مولود مسعود کو خرق عادت کے طور پر بولتا کردے گا جس سے ظہور اعجاز دلیل نزہت و عصمت ہوجاوے گی، غرض ہر غم کا علاج ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فکلی و اشربی و قری عینا (٩١ : ٦٢) ” تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ “ یہ خوشگوار طعام و شراب اسعتمال کرو اور بچے کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈا کرو اور اگر کوئی سوال کرے تو اشاروں سے یہ کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں ، میں نے روزے کی نذر مانی ہے ، عبادت اور ذکر الٰہی کے لئے کٹ گئی ہوں ، آج میں کسی سے بات نہ کروں گی کسی کو اس کے سوال کا جواب نہ دوں گی۔ ہمارا خیال ہے کھجور کے اس درخت کو ہلانے سے قبل وہ بےحد خوفزدہ ہوگئی ہوگی ، نہایت ہی پریشانی کا وقت اس پر گزرا ہوگا ، لیکن جب درخت کے ہلاتے ہی اس پر تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں تو وہ سمجھ گئی ہوگی کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اسے اللہ نے نہیں چھوڑا اور یہ کہ حجت الہیہ اس کے پاس ہے۔ یہ بچہ جو ولادت ہوتے ہی باتیں کرتا ہے ، یہ حجت الہیہ ہے اس لئے یہ باتیں اس معجزے کی تفسیر کردیں گی ، جو اس بچے کی ولادت کے سلسلے میں ظہور پذیر ہوا۔ اب اگلا نہایت ہی موثر منظر دیکھیے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا) (سو تو ان تازہ کھجوروں میں سے کھا اور اس نہر میں سے پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کر) یہ تیرا بچہ تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ فی معالم التنزیل یعنی طیبی نفسا و قیل قری عینک بولدک عیسی۔ طبّی اصول سے زچہ کے لیے کھجوروں کا مفید ہونا یہاں پہنچ کر جی چاہتا ہے کہ صاحب بیان القرآن کی ایک عبارت نقل کردی جائے موصوف فرماتے ہیں کہ تمہارے رب نے تمہارے پاس ایک نہر پیدا کردی ہے۔ جس کے دیکھنے سے اور پانی پینے سے فرحت طبعی ہوگی، ونیز حسب روایت روح المعانی ان کو اس وقت پیاس بھی لگی تھی اور حسب مسئلہ طبیہ گرم چیزوں کا استعمال قبل وضع یا بعد وضع سہل ولادت و دافع فضلات و مقوی طبیعت بھی ہے اور پانی میں اگر سخونت (گرمی) بھی ہو جیسا بعض چشموں میں مشاہدہ ہے تو اور زیادہ مزاج کے موافق ہوگا ونیز کھجور کثیر الغذاء مولد خون مسمن و مقوی گردہ کمر و مفاصل ہونے کی وجہ سے زچہ کے لیے سب غذاؤں اور دواؤں سے بہتر ہے۔ (فی معالم التنزیل ص ١٩٣ ج ٣ قال الربیع بن خثیم ما للنفساء عندی خیر من الرطب ولا للمریض خیر من العسل) اور حرارت کی وجہ جو اس کی مضرت کا احتمال ہے سو اول تو رطب میں حرارت کم ہے دوسرے پانی سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تیسرے مضرت کا ظہور جب ہوتا ہے کہ عضو میں ضعف ہو ورنہ کوئی چیز بھی کچھ نہ کچھ مضرت سے خالی نہیں ہوتی ونیز خرق عادت (کرامت) کا ظہور اللہ کے نزدیک مقبولیت کی علامت ہونے کی وجہ سے موجب مسرت روحانی بھی ہے انتہیٰ حضرت مریم [ سے فرشتہ کا یوں کہنا کہ کوئی دریافت کرے تو کہہ دینا کہ میرا بولنے کا روزہ ہے (فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرْ اَحَدًا فَقُوْلْیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ للرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا) (سوا اگر تو کسی انسان کو دیکھے تو کہہ دینا کہ میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھنے کی منت مان لی ہے لہٰذا آج میں کسی بھی انسان سے بات نہیں کروں گی) بنی اسرائیل کی شریعت میں نہ بولنے کا روزہ بھی مشروع تھا ہماری شریعت میں منسوخ فرما دیا گیا یوں کوئی آدمی کسی ضرورت سے کم بولے یا نہ بولے اور اشارہ سے بات کرے تو یہ دوسری بات ہے لیکن اس کا نام روزہ نہ ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے اچانک ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہوا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ کھڑا ہی رہے گا اور بیٹھے گا نہیں اور سایہ میں نہ جائے گا اور بات نہیں کرے گا اور روزہ سے رہے گا آپ نے فرمایا اس سے کہو بات کرے اور سایہ میں جائے اور بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ (رواہ البخاری ص ٩٩١ ج ٢) حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد یاد رکھا ہے لا یتیم بعد احتلام ولا صمات یوم الی اللیل (یعنی احتلام ہونے کے بعد کوئی یتیمی نہیں اور کسی دن رات تک خاموش رہنا نہیں) (رواہ ابوداود فی کتاب الوصایا ص ٤١ ج ٢) یعنی کسی دن رات تک روزے کی نیت سے خاموش رہنا شریعت اسلامیہ میں نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 اے مریم (علیہ السلام) ! تو یہ کھجوریں کھا اور اس چشمہ کا پانی پیتی رہ اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھ پھر اگر تم آدمیوں سے کسی آدمی کو دیکھو تو اشارے سے کہہ دنیا کہ میں نے تو آج رحمٰن کے لئے خاموشی کے روزے کی منت مان لی ہے لہٰذا میں آج کسی انسان سے کلام نہیں کرں گی اور کوئی بات کسی سے نہیں کروں گی۔ یعنی کھانے پینے کا بھی انتظام کردیا گیا۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر بدنامی کا یہ علاج بتایا کہ کوئی آدمی آئے یا کوئی اعتراض کرے تو تم جواب نہ دینا تم تو صرف اتنا اشارہ کردینا کہ میں نے خاموشی کے روزے کی نذر کر رکھی ہے میں تو کسی آدمی سے بولوں گی نہیں اس قسم کا روزہ ان کی شریعت میں رکھنا جائز تھا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے دین میں یہ منت درست تھی کہ نہ بولنے کا بھی روزہ رکھتے ہمایر دین میں یہ منت درست نہیں۔ 12