Surat Marium

Surah: 19

Verse: 27

سورة مريم

فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾

Then she brought him to her people, carrying him. They said, "O Mary, you have certainly done a thing unprecedented.

اب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو لئے ہوئے وہ اپنی قوم کے پاس آئیں ۔ سب کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Maryam with Al-Masih before the People, Their Rejection of Her and His Reply to Them Allah, the Exalted tells; فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ... Then she brought him to her people, carrying him. Allah, the Exalted, informs of Maryam's situation when she was commanded to fast that day and not to speak to any human being. For verily, her affair would be taken care of and her proof would be established. Thus, she accepted the command of Allah and she readily received His decree. She took her child and brought him to her people, carrying him. When they saw her like this they made a big deal about her situation and they sternly protested against of it, and ... قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِيْتِ شَيْيًا فَرِيًّا They said: "O Mary! Indeed you have brought a thing Fariy." Fariy means a mighty thing. This was said by Mujahid, Qatadah, As-Suddi and others. Ibn Abi Hatim reported from Nawf Al-Bikali that he said, "Her people went out searching for her, she was from a family that was blessed with Prophethood and nobility. However, they could not find any trace of her. They came across a cow herder and they asked him, `Have you seen a girl whose description is such and such!' He replied, `No, but tonight I saw my cows doing something that I've never seen them do before.' They asked, `What did you see?' He said, `Tonight I saw them prostrating in the direction of that valley."' Abdullah bin Ziyad said (adding to the narration), "I memorized from Sayyar that he (the cattle herder) said, `I saw a radiant light."' So they went towards the direction that he told him, and Maryam was coming towards them from that direction. When she saw them she sat down and she was holding her child in her lap. They came towards her until they were standing over her. قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِيْتِ شَيْيًا فَرِيًّا They said: "O Mary! Indeed you have brought a mighty thing (Fariy)." This means it was a mighty thing that she had brought.

تقدس مریم اور عوام حضرت مریم علیہ السلام نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کر لیا اور اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں ۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تونے تو بڑا ہی برا کام کیا ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا ۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے ؟ اس نے کہا نہیں ۔ لیکن میں نے رات کو عجیب بات دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گر گئیں ۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا ۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آرہا تھا ۔ وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچے کو لئے ہوئے آتی دکھائی دی گیئں انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے بیٹھ گئیں ۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے ۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ہارون کی بہن اس سے مراد یہ ہے کہ آپ حضرت ہارون کی نسل سے تھیں ۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت وریاضت حضرت مریم صدیقہ کی تھی ۔ اس لئے انہیں ہارون کی بہن کہا گیا ۔ کوئی کہتا ہے ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا اس لئے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا ۔ ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ہارون وموسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے ۔ یہ قول تو بالکل غلط ہوتا ہے اس لئے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے آپ کے بعد صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہوئے ہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لئے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان اور کوئی نبی نہیں گزرا ۔ پس اگر ماننا پڑے گا کہ آپ حضرت سلیمان علیہ السلام اور جضرت داؤد علیہ السلام سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے ہیں ملاحظہ ہوآیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ٢٤٦؁ ) 2- البقرة:246 ) ، ان آیتوں میں حضرت داؤد کا واقعہ اور آپ کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے اور لفظ موجود ہیں کہ یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہیں جو غلطی لگی ہے اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون کی بہت تھیں ، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں ۔ اس عبارت سے قرظی رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھ لیا کہ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے ۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں تھیں اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے ہو سکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں ۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے ۔ مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تو عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے گزرے ہیں مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا جب میں مدینے واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم شریف میں یہ بھی حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت کعب نے کہا تھا کہ یہ ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون نہیں اس پر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انکار کیا تو آپ نے کہا کہ اگر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے ۔ یہ سن کر ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش ہوگئیں ۔ اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت مریم علیہ السلام کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتا چلی آرہی تھی ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد ۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور عام شوق ہوگیا تھا یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن حضرت ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے ۔ الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہوگئی تم تو نیک کو کھ کی بچی ہو ماں باپ دونوں صالح سارا گھرانہ پاک پھر تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھ لو ۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے ۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا ؟ اتنے میں بن بلائے آپ بول اٹھے کہ لوگوں میں اللہ کا ایک غلام ہوں ۔ سب سے پہلا کلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ہے ۔ اللہ کی تنزیہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کر دیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی پھر اپنی نبوت کا اظہار کر کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے ۔ اس میں اپنی والدہ کی برات بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا ۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا ۔ عکرمہ تو فرماتے ہیں مجھے اپنے کسی عمل کے اعلان کی اجازت ہے فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لئے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا ۔ پس جماعتی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے ۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا ۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے ۔ فرماتے ہیں مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز وزکوۃ کا پابند رہوں ۔ یہی حکم ہمارے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا ۔ ارشاد ہے ( واعبد ربک حتی یاتیک القین ) مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ ۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں ۔ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہو جاتی ہے ۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے ۔ عموما قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23؀ ) 17- الإسراء:23 ) اور آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀ ) 31- لقمان:14 ) میں ۔ اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یہ والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں ۔ کہتے ہیں جباروشقی وہ ہے جو غصے میں آکر خونریزی کر دے ۔ فرماتے ہیں ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو ۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو ۔ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا ۔ آپ نے جواب دیا مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی پھر تابعداری کی ۔ اور سرکش اور بدبخت نہ بنا ۔ پھر فرماتے ہیں میری پیدائش کے دن ، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پرسلامتی ہے اس سے بھی آپ کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الہٰی ہونا ثابت ہورہا ہے کہ آپ مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے ۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی ۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں آپ پر آسان اور سہل ہوں گے نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] یہود کی بہتان تراشیاں :۔ جس وجہ سے سیدہ مریم اس دور کے مکان میں جاگزیں ہوئی تھیں وہ تو پورا ہوچکا۔ اب وہ اسے اٹھائے ہوئے اور فرشتہ کی ہدایت کو پلے باندھے ہوئے اپنی قوم کے لوگوں کے ہاں آگئیں۔ اس امید پر کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے پہلے بروقت مدد فرمائی ہے اب بھی کوئی راہ نکال دے گا۔ جب وہ اپنے لوگوں کے پاس بچہ کو اٹھائے ہوئے پہنچیں تو انہوں نے بچہ کو دیکھ کر بغیر کچھ پوچھے ہی طعن و ملامت شروع کردی اور آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہا کہ ہارون جیسے پاکیزہ خاندان کی اولاد ہوتے ہوئے یہ تو نے کیا گل کھلا دیا تم نے ہمارے پورے خاندان کی ناک کٹوا دی اور ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ غرض بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں۔ کسی نے کہا کہ تمہاری ماں (عمران کی بیوی) بھی ایک پاک باز اور عفیفہ عورت تھی اور باپ (عمران) بھی بڑا شریف آدمی تھا۔ پھر تجھ میں یہ بری خصلت کہاں سے آگئی ؟ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں اور سیدہ مریم خاموشی اور تحمل سے یہ باتیں سنتی رہیں اور یہ باتیں کچھ غیر متوقع بھی نہ تھیں۔ سیدہ مریم ہارون کی بہن کیسے تھیں ؟ کہتے ہیں کہ سیدہ مریم کے ایک بھائی کا نام بھی ہارون تھا۔ اسی وجہ سے لوگوں نے سیدہ مریم کو اے ہارون کی بہن کہا تھا۔ ممکن ہے یہ بات بھی صحیح ہو مگر اس سے بہتر توجیہ وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اسی توجیہ کی تائید عام محاورہ عرب سے بھی ہوتی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی توجیہ کی تائید کرتی ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے نجران کے عیسائیوں کی طرف (مناظرہ کے لئے) بھیجا تو انہوں نے کہا : && تم جو یا اخت ہارون پڑھتے ہو تو موسیٰ اور عیسیٰ میں تو کافی مدت ہے ؟ (پھر مریم ہارون یعنی موسیٰ کے بھائی، کی بہن کیسے ہوئی ؟ ) اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ انھیں کیا جواب دوں۔ پھر میں نبی اکرم کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو آپ نے فرمایا : && تم نے انھیں یہ نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے کے نبیوں اور بزرگوں کے نام رکھا کرتے تھے && (یعنی موسیٰ کے بھائی ہارون اور تھے اور مریم کا بھائی ہارون اور تھا) (ترمذی، ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚفَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ : اپنے بچے کی بات سن کر اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کرامات دیکھ کر مریم [ کو اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ چناچہ وہ ایام نفاس گزرنے اور طبیعت بحال ہونے کے بعد کسی جھجک کے بغیر اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے اپنے لوگوں کے پاس آگئیں۔ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا : ” فَرَی یَفْرِیْ “ (ض) کا معنی چمڑے کو قطع کرنا ہے۔ ” فَرِيًّا “ بروزن ” فَعِیْلٌ“ بمعنی فاعل یا مفعول ہے، قطع کرنے والی یا قطع کی ہوئی، یعنی عام عادت اور معمول کے خلاف چیز، اس لیے اس کا معنی بعض نے عظیم، بعض نے عجیب اور بعض نے منکر یعنی انوکھی کیا ہے۔ بہتان کو بھی افترا کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ لفظی معنی ہے ” تو ایک انوکھی چیز کو آئی ہے “ یعنی تو نے ایک انوکھا کام کیا ہے۔ مراد کنواری کے ہاں بچے کی پیدائش ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ |"Then she came to her people carrying him.|" - 19:27 These words suggest that when Sayyidah Maryam (علیہا السلام) was comforted by the super-natural indications that Allah Ta` ala will protect her from disgrace, she took the newborn baby with her to her house. As to the time when she returned home after giving birth to the child, Ibn ` Asa& akir has narrated through Ibn ` Abbas (رض) that she returned home to her people forty days after the birth of the child i.e. after the completion of the period of Nifas (the bleeding period after the birth of a child). (Ruh ul-Ma` ani) شَيْئًا فَرِ‌يًّا (Something grave indeed - 19:27). The word فَرِی in Arabic language means to cut or to split, and is used to describe a task where a great deal of cutting and chopping is involved. However, Abu Hayyan has said that the word فَرِی means anything having preposterous and extraordinary significance, and may be used both in good and in bad sense. In the present context it is used to describe something monstrous, hence translated in the text as &something grave&. Generally this word is used for things which are known to be bad and corrupt in the extreme.

خلاصہ تفسیر (غرض مریم (علیہ السلام) کی اس کلام سے تسلی ہوئی عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے) پھر وہ ان کو گود میں لیے ہوئے (وہاں سے بستی کو چلیں اور) اپنی قوم کے پاس لائیں، لوگوں نے (جو دیکھا کہ ان کی شادی تو ہوئی نہ تھی یہ بچہ کیسا، بدگمان ہو کر) کہا اے مریم ! تم نے بڑے غضب کا کام کیا (یعنی نعوذ باللہ بدکاری کی، اور یوں تو بدکاری کوئی بھی کرے برا ہے لیکن تم سے ایسا فعل ہونا زیادہ غضب کی بات ہے کیونکہ) اے ہارون کی بہن ! (تمہارے خاندان میں کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا چنانچہ) تمہارے باپ کوئی برے آدمی نہ تھے (کہ ان سے یہ اثر تم میں آیا ہو) اور نہ تمہاری ماں بدکار تھیں (کہ ان سے یہ اثر تم میں آیا ہو، پھر ہارون جو تمہارے رشتہ کے بھائی ہیں جن کا نام ان ہارون نبی کے نام پر رکھا گیا ہے وہ کیسے کچھ نیک شخص ہیں، غرض جس کا خاندان کا خاندان پاک صاف ہو اس سے یہ حرکت ہونا کتنا بڑا غضب ہے) پس مریم (علیہا السلام) نے (یہ ساری تقریر سن کر کوئی جواب نہ دیا بلکہ) بچہ کی طرف اشارہ کردیا (کہ اس سے کہو جو کچھ کہنا ہو یہ جواب دے گا) وہ لوگ (سمجھے کہ یہ ہمارے ساتھ تمسخر کرتی ہیں) کہنے لگے کہ بھلا ہم ایسے شخص سے کیونکر باتیں کریں جو ابھی گود میں بچہ ہی ہے (کیونکہ بات اس شخص سے کی جاتی ہے جو کہ وہ بھی بات چیت کرتا ہو، سو جب یہ بچہ ہے اور بات پر قادر نہیں، تو اس سے کیا بات کریں اتنے میں) وہ بچہ (خود ہی) بول اٹھا میں اللہ کا (خاص) بندہ ہوں ( نہ تو اللہ ہوں جیسا کہ جہلا نصاریٰ سمجھیں گے اور نہ غیر مقبول ہوں جیسا یہود سمجھیں گے اور بندہ ہونے کے اور پھر خاص ہونے کے یہ آثار ہیں کہ) اس نے مجھ کو کتاب (یعنی انجیل) دی (یعنی گو آئندہ دے گا مگر بوجہ یقینی ہونے کے ایسا ہی ہے جیسا کہ دے دی) اور اس نے مجھ کو نبی بنایا (یعنی بناوے گا) اور مجھ کو برکت والا بنایا (یعنی مجھ سے خلق کو دین کا نفع پہنچے گا) میں جہاں کہیں بھی ہوں (گا مجھ سے برکت پہنچے گی وہ نفع تبلیغ دین ہے خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے انہوں نے تو نفع پہنچا ہی دیا) اس نے مجھ کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیا جب تک میں (دنیا میں) زندہ ہوں (اور ظاہر ہے کہ آسمان پر جانے کے بعد مکلف نہیں رہے اور یہ دلیل ہے بندہ ہونے کی جیسا کہ دلائل ہیں خصوصیت کے) اور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گذار بنایا (اور چونکہ بےباپ پیدا ہوئے ہیں اس لئے والدہ کی تخصیص کی گئی) اور اس نے مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا (کہ ادائے حق خالق یا ادائے حق والدہ سے سرکشی کروں یا حقوق و اعمال کے ترک سے بدبختی خریدلوں) اور مجھ پر (اللہ کی جانب سے) سلام ہے جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز مروں گا (کہ وہ زمانہ قرب قیامت کا بعد نزول من السماء کے ہوگا) اور جس روز میں (قیامت میں) زندہ کر کے اٹھایاجاؤں گا (اور اللہ کا سلام دلیل ہے خاص بندہ ہونے کی) ۔ معارف مسائل فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ ان الفاظ سے ظاہر یہی ہے کہ حضرت مریم کو جب غیبی بشارتوں کے ذریعہ اس کا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بدنامی اور رسوائی سے بچاویں گے تو خود ہی اپنے نومولود بچے کو لے کر اپنے گھر واپس آگئیں۔ پھر یہ ایسی پیدائش کے کتنے دن بعد ہوئی۔ ابن عساکر کی روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ولادت سے چالیس روز بعد جب نفاس سے فراغت و طہارت ہوچکی اس وقت اپنے گھر والوں کے پاس آئیں۔ (روح المعافی) شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا لفظ فری عربی زبان میں دراصل کاٹنے اور پھاڑنے کے معنی میں آتا ہے جس کا یا جس چیز کے ظاہر ہونے میں غیر معمولی کاٹ چھانٹ ہو اس کو فری کہتے ہیں۔ ابو حیان نے فرمایا کہ ہر امر عظیم کو فری کہا جاتا ہے خواہ وہ اچھائی کے اعتبار سے عظیم ہو یا برائی کے اعتبار سے۔ اس جگہ بڑی برائی کے معنے میں استعمال ہوا ہے اور اس لفظ کا اکثر استعمال ایسی ہی چیز کے لیے معروف ہے جو اپنی شناعت اور برائی کے اعتبار سے غیر معمولی اور بڑی سمجھی جاتی ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ۝ ٠ۭ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا۝ ٢٧ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے ہوئے تو وہ ان کو گود میں لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں قوم بولی بڑے غضب کا کام کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ ) حضرت مریم بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے نومولود بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کی طرف آگئیں۔ بچے کی گفتگو والا معجزہ دیکھ لینے کے بعد آپ کو تسلی تھی کہ وہ خود ہی لوگوں کے سوالات کے جواب دے گا۔ آیت ٢٤ کے حوالے سے بچے کے کلام کرنے کا تذکرہ عام طور پر تفاسیر میں نہیں ملتا اور ” مِنْ تَحْتِھَا “ سے یہی سمجھا گیا ہے کہ اس موقع پر فرشتے ہی نے آپ کو پکارا تھا۔ بہرحال میری رائے یہ ہے کہ حضرت مریم کو اس وقت نیچے سے پکارنے والا آپ کا نومولود بیٹا تھا ‘ جس کی گفتگو سے آپ کو حوصلہ ملا اور آپ بچے کے ساتھ لوگوں کا سامنا کرنے پر آمادہ ہوئیں۔ واللہ اعلم ! (قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیًّا) ان کو دیکھتے ہی لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں کہ تم نے یہ کیا غضب کیا ! تمہاری گود میں یہ کس کا بچہ ہے ؟ یہ تم نے بہت بری حرکت کی ہے ‘ وغیرہ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :19 ان لفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو ۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اخت ہارون کے معنی ہارون کے خاندان کی لڑکی لیے جائیں ، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرز بیان ہے ۔ مثلاً قبیلہ مضر کے آدمی کو یا اخامصہ ( اے مضر کے بھائی ) اور قبیلہ ہمدانی کے آدمی کو یا اخاھمدان ( اے ہمدان کے بھائی ) کہہ کر پکارتے ہیں ۔ پہلے کے حق میں دلیل ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اس معنی کا تقاضا کرتا ہے ۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیئے ہوئے آئی تھی ، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہ ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے ، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی ۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابل لحاظ نہیں ہو سکتی ، لیکن مسلم ، نسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ہارون کی بہن ہی ہیں ۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے حضرت مغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے ۔ حضرت مغیرہ ان کے اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے یہ جواب کیوں نہ دے دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیا اور صلحاء کے نام پر رکھتے تھے ؟ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: بچے کی پیدائش کے بعد حضرت مریم علیہما السلام پوری طرح مطمئن ہوچکی تھیں کہ جس اللہ تعالیٰ نے یہ بچہ اپنی خاص قدرت سے پیدا فرمایا ہے، وہی ان کی براءت بھی ظاہر فرمائے گا، اس لیے اب اطمینان کے ساتھ خود ہی بچے کو لے کر لوگوں کے سامنے تشریف لے گئیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ ٣٣:۔ تفسیر سدی میں ہے کہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے کے بعد شیطان نے مریم (علیہا السلام) کی قوم میں یہ خبر پھیلا دی کہ مریم کے ہاں بن باپ کا بچہ پیدا ہوا اس خبر کو سن کر قوم کے لوگ بڑے جوش میں آئے اور مریم (علیہا السلام) کو اس الگ مکان میں سے بستی میں بلایا اس پر مریم (علیہا السلام) چلہ نہانے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر قوم کے لوگوں کے پاس گئیں یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق ہے کہ گھبراہٹ کے وقت مریم (علیہ السلام) کو جو آواز آئی تھی وہ جبرئیل (علیہ السلام) کی آواز نہیں تھی۔ اوپر گذر چکا ہے کہ مجاہد کے قول کو ترجیح دی ہے اس واسطے تفسیر ابن جریر میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بولنے سے جب مریم (علیہا السلام) کو یہ اطمینان ہوگیا کہ قوم کے لوگوں سے عیسیٰ (علیہ السلام) خود جوابدہی کرلیں گے تو اسی اطمینان کے بھروسہ پر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں لے کر قوم کے لوگوں کے پاس آئیں غرض جب مریم (علیہا السلام) گود میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو قوم کے لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے مریم تم نے یہ انوکھا کام کیا اور یہ بھی کہنے لگے کہ نیک نامی کی شہرت میں ہارون کی بہن مریم تمہارے ماں باپ تو ایسے بد رویہ نہ پھر تم کس پر ہوئیں جو تم نے ایسا انوکھا کام کیا قوم کے لوگوں کی یہ باتیں سن کر مریم (علیہا السلام) نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ میرا تو خاموشی کا روزہ ہے مگر جس لڑکے کی پیدائش کو انوکھا کہا جاتا ہے اس کی جواب دہی خود وہ لڑکا ہی کرلے گا۔ حضرت مریم کے اس اشارہ کے مطلب کو سمجھ کر قوم کے لوگوں کو بہت غصہ آیا اور غصہ سے یہ کہنے لگے کہ چالیس دن کے بچہ نے دنیا میں کہیں باتیں کی ہیں جو ہم اس لڑکے سے بات چیت کریں قوم کے لوگوں کی سب باتیں سن کر عیسیٰ (علیہ السلام) نے وہ جواب دیا جس کا ذکر آگے آتا ہے اگرچہ تفسیر سدی میں ہے کہ مریم (علیہا السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے خاندان میں سے تھیں اس واسطے قوم کے لوگوں نے مریم (علیہا السلام) کو ہارون کی بہن کہا کیونکہ عرب کا یہ محاورہ ہے مثلا تمیمی قبیلہ کے مردوں کو تمیم کا بھائی اور عورتوں کو تمیم کی بہن کہتے ہیں۔ یہی قول شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں لیا ہے لیکن قتادہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک نیک شخص مریم (علیہا السلام) کے زمانہ کا تھا اسی تشبیہ سے قوم کے لوگوں نے مریم (علیہا السلام) کو ہارون کی بہن کہا ہے ١ ؎۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مریم تم تو بنی اسرائیل میں کے زمانہ حال سے ہارون کی طرح نیک مشہور تھیں ‘ پھر تم نے انوکھا کام کیوں کیا۔ صحیح مسلم میں مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن میں مریم (علیہا السلام) کو جس ہارون کی بہن کہا گیا ہے وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بھائی کے علاوہ دوسرا شخص تھا ٢ ؎۔ اس حدیث سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس واسطے حافظ ابو جعفر، ابن جریر نے قتادہ کے قول کی پوری تائید کی ہے عیسیٰ علیہ اسلام نے قوم کے لوگوں کو جو جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اے لوگوں میں اللہ کا بندہ اور نبی ہوں اس طرح خلاف عادت میرا پیدا ہونا ایسا ہی میرا ایک معجزہ ہے جس طرح خلاف عادت میرا بولنا معجزہ ہے قرآن شریف کے ان آیتوں میں جس طرح یہ ذکر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو اللہ کا بندہ کہا اس طرح کا ذکر یوحنا کی انجیل کے باب میں بھی ہے قرآن کا جھٹلانا تو عیسائیوں کے نزدیک سہل ہے مگر معلوم نہیں انجیل کے باب ١٧ کو یہ لوگ کس طرح جھٹلاتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن کی عمر میں اپنے آپ کو نبی صاحب کتاب جو جتلایا اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ ان کو صاحب کتاب نبی کرے گا۔ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے عالم ارواح میں جو عہد لیا گیا ہے اس کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہر نبی کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے اپنی نبوت کا حال معلوم ہے اسی واسطے ترمذی میں ابوہریرہ (رض) کی صحیح روایت ہے جس میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پیدا ہونے سے پہلے میں نبی تھا ٣ ؎۔ اپنی نبوت کے ذکر کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نبی ہو کر ہر وقت میں اللہ کی رضامندی کے کاموں کی نصیحت لوگوں کو کرتا رہوں گا اس لیے میں جہاں رہوں گا وہاں خیرو برکت رہے گی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو زندگی نماز و زکوۃ کا حکم فرمایا عی سے (علیہ السلام) کے حال میں علماء نے لکھا ہے کہ زکوٰۃ کے قابل نقد روپیہ کا جمع کرنا تو درکنار عیسیٰ (علیہ السلام) دور سے ان کے لیے کوئی کھانے کی چیز نہیں رکھتے تھے اسی واسطے زکوٰۃ کے معنی گناہوں سے پاک رہنے کے ہیں پھر فرمایا مجھ کو یہ بھی حکم ہے کہ میں ماں کے ساتھ سلوک سے رہوں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے انجام ٤ ؎ اور لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کے انجام میں اوپر گزر چکی ہیں وہی روایتیں (وبرا بوالدتی ولم بجعلنی جبارا شقیا) کی گویا تفسیر ہیں۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ماں باپ سے بدسلو کی کرنے والا جنت کے اور ظلم و زیادتی کرنے والا دنیا کے ہاتھ سے کھو دینے کے سبب سے بڑا بدنصیب ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس بچے کی پسلی میں اپنی انگلی چبھو کر اس بچہ پر تسلط جماتا ہے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس تسلط سے امن وامان میں رکھا ہے ٥ ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے نواس بن سمعان کی روایت سورة الکہف میں گزر چکی ہے کر قیامت کے قریب عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتر کر آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے ٦ ؎۔ سورة الانبیاء میں آئے گا کہ مشرکین مکہ نے جب اپنے بتوں کا دوزخ کا ایندھن بنائے جانے کا حال سنا تو مشرک یوں کہنے لگے کہ نصرانی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں تو عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی کیا ہمارے بتوں کے ساتھ ہوں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ کے ایسے خاص بندے قیامت کے دن کی ہر ایک آفت سے بےفکر اور ہر طرح امن وامان میں رہیں گے عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جو فرمایا کہ پیدا ہونے کے دن مرنے کے دن اور حشر کے دن کی پریشانی سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو امن وامان میں رکھا ہے اس کا مطلب سورة الانبیاء کی آیتوں اور اوپر کی حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونے کے دن مرنے کے دن ان کو شیطان کے تسلط سے امن میں رکھا اور غازی نبی ہونے کا مرتبہ دے کر دنیا سے اٹھایا اور حشر کے دن کی ہر ایک آیت سے امن میں رکھنے کا وعدہ اپنے کلام پاک میں فرمایا۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١١٨ ج ٣۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١١٩ ج ٣۔ ٣ ؎ جامع ترمذی ص ٢٠١ ج ٢ باب ماجاء فی فضل انبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٢ ج ٢ کتاب البروالصلہ۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ١٨ باب فی الوسوسہ۔ ٦ ؎ صحیح مسلم ص ٤٠٠ ج ٢ باب ذکر الدجال۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:27) اتت بہ۔ ب مریم سے حال ہے (درآں حالیکہ وہ اسے گود میں اٹھائے ہوئے تھی) ۔ فریا۔ گھڑی ہوئی۔ بناوٹی۔ من گھڑت۔ عظیم (جوہری) عجیب۔ حیران کن۔ (راغب) بہت قبیح فعل (ابن حیان) ہر بڑا کام خواہ وہ برا ہو یا اچھا ۔ قول ہو یا فعل (روح المعانی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(کذافی الموضح)4 یعنی گود میں بچہ لئے آرہی ہے حالانکہ یرا اب تک نکاح بھی نہیں ہوا اور تو کنواری ہے۔ (زوعبدی بہ تفسیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی نعوذباللہ بدکاری کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت مریم [ کا عیسیٰ ( علیہ السلام) کو گود میں اٹھا کر اپنے خاندان کے لوگوں کے پاس آنا۔ قرآن مجید یہ بتلا رہا ہے کہ حضرت مریم [ عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں لیے اپنی قوم کے پاس آئیں۔ قوم نے انھیں طعنے دیے۔ یہاں قوم سے مراد ان کے خاندان کے لوگ ہیں۔ خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم [ کی گود میں معصوم بچہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت مریم [ عام لوگوں کی بجائے پہلی مرتبہ قریبی رشتہ داروں میں آئی ہوں گی پھر خاندان کے ذریعے بات محلے اور معاشرے کے لوگوں تک پہنچی ہوگی۔ جنھوں نے حضرت مریم [ کو ایسی ویسی باتیں کیں اور طعنے دیے۔ یہاں تک کہا کہ اے ہارون کی بہن !” نہ تیری ماں بری تھی اور نہ ہی تیرا باپ بدکار تھا تو نے یہ کیا کر دکھایا ؟ “ حضرت مریم [ جواب دے تو کیا ؟ کیونکہ بچہ گود میں ہے۔ نکاح کسی کے ساتھ ہوا نہیں تھا مریم [ لوگوں کو کیسے مطمئن کرسکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ کے دل میں القاء کیا اور جرأت عطا فرمائی۔ انھوں نے صرف اتنی بات کہی یا اپنے منہ کی طرف انگلی کی کہ میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی معصوم بچے کی طرف اشارہ کیا کہ میری بجائے میرا بیٹا جواب دے گا۔ نہ معلوم کہ دل ہی دل میں حضرت مریم [ کسی طرح دعا کرتی ہوگی کہ میرے لاڈلے تیرے سوا میری کوئی صفائی پیش کرنے والا نہیں بیٹا بول تاکہ انھیں میری پاکدامنی کا یقین ہوجائے۔ حضرت مریم [ قوم کو یہ بات کہہ ہی پائی تھی کہ ان کی قوم شور مچانے لگی یہ گود کا بچہ ہمیں کیا جواب دے گا۔ نہ معلوم لوگ کس انداز اور زبان میں طعنے دے رہے ہوں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ولادت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قوم کے پاس گود میں لے کر آنا، قوم کا معترض ہونا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب دینا اور اپنی نبوت کا اعلان فرمانا چونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ مریم کے بچہ تولد ہونا ہے اور وہ بھی بغیر باپ کے لہٰذا وہ بچہ پیدا ہوگیا جب اس کی ولادت ہوگئی تو اسے آبادی میں لے کر آنا تھا وہ اس بچہ کو گود میں اٹھا کر آبادی میں لے آئیں وہاں قوم کے لوگ موجود تھے انھوں نے بچہ کو گود میں دیکھ کر کہا کہ اے مریم یہ بچہ کہاں سے آیا ؟ ہمارے علم میں تو یہی بات ہے کہ تیری شادی نہیں ہوئی جب بچہ حلال کا نہیں ہے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بچہ بدکاری سے پیدا ہوا ہے یہ تو تو نے بڑے ہی غضب کا کام کیا تیری جیسی خاتون سے بدکاری کا سرزد ہونا بڑے تعجب کی بات ہے اے ہارون کی بہن نہ تو تمہارے باپ برے آدمی تھے نہ تمہاری ماں بدکار تھی تمہیں بھی انھیں کی طرح پاک رہنا لازم تھا۔ تمہارے بھائی ہارون (جو خاندان کے ایک شخص ہیں) وہ بھی نیک شخص ہیں جب سارا ہی خاندان نیک ہے تو تمہیں بھی ہر اعتبار سے نیک اور صالح ہونا چاہیے تھا۔ حضرت مریم [ نے لوگوں کی طعن وتشنیع والی باتیں سنیں اور خود سے جواب نہیں دیا بلکہ نومولود بچہ کی طرف اشارہ کردیا جو ان کی گود میں تھا۔ لوگ کچھ یوں سمجھے کہ یہ ہم سے تمسخر کر رہی ہے۔ کہنے لگے ہم ایسے شخص سے کیسے بات کریں جو ابھی گود میں بچہ ہی ہے۔ ان لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ بچہ خود ہی بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی (یعنی عطا فرمائے گا) اور اس نے مجھے نبی بنایا یعنی مجھے نبوت عطا فرمائے گا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے برکت والا بنایا میرے ذریعہ خیر پھیلے گی اور اس نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم فرمایا جب تک کہ میں زندہ رہوں اور مجھے والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔ (لہٰذا میں اپنے خالق کے حقوق ادا کروں گا اور اپنی والدہ کے بھی) ۔ اور مجھ پر اللہ کی طرف سے سلام ہے جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میری وفات ہوگی اور جس روز میں زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہودی اس بچہ سے دشمنی کریں گے اور ان کی نبوت کے انکاری ہوں گے اور نصرانی ان کے بارے میں بہت زیادہ غلو کریں گے کچھ لوگ ان کے بارے میں کہیں گے کہ اللہ انھیں کی ذات ہے اور کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ اللہ کا بیٹا ہے اس لیے ابھی سے ان کی زبان مبارک سے یہ کہلوا دیا کہ میں اللہ نہیں ہوں بلکہ اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ کی مخلوق ہوں اور اللہ کا مامور ہوں اس نے مجھے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم فرمایا (جو خود عبادت گزار ہو وہ کسی کا معبود نہیں ہوسکتا اور عابد و معبود ایک نہیں ہوسکتے) اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک اور خدمت گزار کے طریقہ پر پیش آؤں گا۔ بَرًّام بْوَالِدَتِیْ فرما کر یہ بتادیا کہ میرا کوئی باپ نہیں یاد رہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں برا بوالدیہ فرمایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں ان کی زبان سے بَرًّا بْوَالِدَتِیْ کہلوایا اس لفظ میں ہمیشہ کے لیے اس بات کی نفی ہوگئی کہ ان کا کوئی باپ ہو۔ نصاریٰ کی حماقت اور ضلالت کو دیکھو کہ جس ذات کو اللہ یا ابن اللہ یا الٰہ (معبود) کہہ رہے ہیں اس کا اپنا بیان تو یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور صرف ماں کا بیٹا ہوں لیکن یہ لوگ کبھی انھیں یوسف نجار کا بیٹا بتاتے ہیں اور کبھی اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں العیاذ باللہ من ذلک کلہ درحقیقت یہود و نصاریٰ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں جن گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے نہایت صفائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان فرما دیا سورة مریم میں اور سورة آل عمران میں واضح طور پر یہ بتادیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن قرآن کی تصریحات کے خلاف دور حاضر کے بہت سے زندیق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باپ تجویز کرتے ہیں۔ (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ انّٰی یُؤْفَکُوْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” فَرِیًّا “ بہت بری بات۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوگئی تو حضرت مریم انہیں لے کر اپنے گھر آئیں تو ان کی قوم کے لوگ یہ ماجرا دیکھ کر بول اٹھے کہ اے مریم تو نے یہ کس قدر بری حرکت کی ہے۔ ” یَا اُخْتَ ھٰرُوْنَ الخ “ ہارون حضرت مریم کا باپ کی طرف سے بھائی تھا۔ اور بہت نیک، پارسا اور عابد و زاہد تھا۔ وکان اخا ھا من ابیھا ومن افضل بنی اسرائیل (مدارک ج 3 ص 62) ۔ یعنی اے مریم ! تو تو ہارون جیسے نیکو کار اور پارسا کی بہن ہے، تیرا باپ برا آدمی نہیں تھا نہ تیری ماں بدکار تھی تو نے یہ کیا کر ڈالا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 پھر حضرت مریم (علیہ السلام) اس مولود مسعود کو گود میں اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لائیں تو قوم کے لوگوں نے کہا اے مریم یہ تو تو نے بہت ہی برا کام کیا۔ یعنی شادی ہوئی نہیں اور بچہ ہوگیا یہ تو بڑے طوفان اور غضب کی بات ہوئی۔