Surat Marium

Surah: 19

Verse: 28

سورة مريم

یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّ مَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا﴿۲۸﴾ۖ ۚ

O sister of Aaron, your father was not a man of evil, nor was your mother unchaste."

اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أُخْتَ هَارُونَ ... O sister of Harun! This means, "O one resembling Harun (Aaron) in worship." ... مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا Your father was not a man who used to commit adultery, nor your mother was an unchaste woman. They meant, "You are from a good, pure family, well-known for its righteousness, worship and abstinence from worldly indulgence. How could you do such a thing" Ali bin Abi Talhah and As-Suddi both said, "It was said to her, يَا أُخْتَ هَارُونَ (O sister of Harun!), referring to the brother of Musa, because she was of his descendants. This is similar to the saying, `O brother of Tamim,' to one who is from the Tamimi tribe, and `O brother of Mudar,' to one who is from the Mudari tribe. It has also been said that she was related to a righteous man among them whose name was Harun and she was comparable to him in her abstinence and worship. Concerning Allah's statement, فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کردی، جیسے کہا جاتا ہے، تقویٰ و پاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرح انھیں سمجھتے ہوئے، انھیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ ۔۔ : مریم [ کے بھائی کا نام ہارون تھا جو اپنی نیکی اور شرافت میں مشہور تھا، یعنی ایسے صالح بھائی کی بہن، ایسے باپ کی بیٹی جو کسی طرح برا نہ تھا اور ایسی ماں کی بیٹی جس میں بدکاری کی کوئی خصلت نہ تھی، تو نے یہ کیا گل کھلا دیا ؟ ان الفاظ میں وہ مریم [ کو اشارتاً برائی سے متہم کر رہے تھے۔ ” کسی طرح برا “ اور ” بدکاری کی کسی خصلت والی “ کا مفہوم ” امْرَاَ سَوْءٍ “ اور ” بَغِيًّا “ کے نکرہ ہونے سے واضح ہو رہا ہے، جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔ عظیم پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی کا نام بھی ہارون تھا اور وہ بھی نبی تھے۔ اس آیت میں مذکور ہارون کو بعض اہل کتاب نے موسیٰ (علیہ السلام) کا بھائی ہارون سمجھ لیا اور اعتراض جڑ دیا کہ مریم [ ہارون (علیہ السلام) کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں، ان کے درمیان تو مدت دراز ہے۔ علمائے اسلام نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں، مثلاً یہ کہ ہارون (علیہ السلام) کی بہن سے مراد ہارون (علیہ السلام) جیسی نیک اور صالح خاتون ہے وغیرہ۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے بعد وہ سب جواب محض تکلف ہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور ہارون مریم [ کے بھائی تھے۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کے والد بھی عمران تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مریم اور ان کے بھائی ہارون کے والد بھی عمران تھے۔ مغیرہ بن شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران بھیجا تو وہاں کے لوگوں (نصاریٰ ) نے کہا، یہ بتاؤ کہ تم جو پڑھتے ہو ” يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ “ (اے ہارون کی بہن ! ) موسیٰ (علیہ السلام) تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے اتنی مدت پہلے تھے۔ میں واپس آیا اور اس بات کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلاَ أَخْبَرْتَہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُسَمُّوْنَ بِأَنْبِیَاءِہِمْ وَالصَّالِحِیْنَ قَبْلَہُمْ ) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة مریم : ٣١٥٥۔ مسلم : ٢١٣٥ ] ” تم نے انھیں یہ کیوں نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے انبیاء اور صالحین کے ناموں پر (اپنے بچوں کے) نام رکھتے تھے (یعنی مریم [ کے بھائی کا نام ہارون، موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا تھا) ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَا أُخْتَ هَارُ‌ونَ (0 sister of Harun - 19:28). Sayyidna Harun (علیہ السلام) ، who was the brother and companion of Sayyidna Musa (علیہ السلام) had died centuries before Sayyidah Maryam (علیہا السلام) time. It is obvious, therefore, that in verse 28 where Sayyidah Maryam (علیہا السلام) is addressed as the sister of Sayyidna Harun (علیہ السلام) cannot be in its literal sense. This is also corroborated by the incident that when The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent Sayyidna Mughirah Ibn Shu&bah (رض) as his ambassador to the people of Najran they questioned him that in the Qur’ an Sayyidah Maryam (علیہا السلام) has been referred to as the sister of Sayyidna Harun (علیہ السلام) whereas he had died long before her. Sayyidna Mughirah (رض) did not know the answer to this question. So, when he returned from the mission, he narrated the whole incident to The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . On this The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said why did you not tell them that it has been a common practice with the believers to adopt the names of the prophets in expectation of receiving their Barakah (blessings), and to claim relationship with them. (Ahmad, Muslim, Tirmidhi, Nasa&i) This saying of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) may be interpreted in two ways. One, that Sayyidah Maryam&s (علیہا السلام) relationship with Sayyidna Harun (علیہ السلام) was mentioned because she was of his lineage, and it was customary with the Arabs to associate a person with their ancestors, for instance a man belonging to the tribe of Tamim would be called as Akha Tamim or Tamini&s brother, or an Arab would be addressed as Akha Arab. The other meaning is that the name Harun does not refer to Sayyidna Harun (علیہ السلام) the companion / brother of Sayyidna Musa (علیہ السلام) but to the brother of Sayyidah Maryam (علیہا السلام) herself who was also named after Sayyidna Harun (علیہ السلام) out of reverence for the Prophet. In the second case the term Harun اُختَ ھَارُون (Sister of Harun) fits in very well with the literal meaning of the word اُخت (Sister). مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَ‌أَ سَوْءٍ |"Neither your father was a man of evil.|" - 19:28. These words suggest that when someone who is descended from& righteous and pious ancestors commits a sin, then the sin is of greater magnitude compared to a sin committed by an ordinary person, because the sin brings bad name to the pious elders. It is for this reason that descendants of pious persons should make extra effort in the performance of righteous deeds, and fear Allah at all times.

(آیت) يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ حضرت ہارون (علیہ السلام) جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی اور ساتھی تھے حضرت مریم کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے یہاں حضرت مریم کو ہارون کی بہن قرار دینا ظاہر ہے کہ اپنے اس ظاہری مفہوم کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا اسی لیے جب حضرت مغیرہ بن شعبہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کے پاس بھیجا تو انہوں نے سوال کیا کہ تمہارے قرآن میں حضرت مریم کو اخت ہارون کہا گیا ہے حالانکہ ہارون (علیہ السلام) ان سے بہت قرنوں پہلے گزر چکے ہیں حضرت مغیرہ کو اس کا جواب معلوم نہ تھا جب واپس آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اہل ایمان کی عادت یہ ہے کہ تبرکا انبیاء علیہہم السلام کے ناموں پر اپنے نام رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت کیا کرتے ہیں ( رواہ احمد و مسلم والترمذی والنسائی) اس حدیث کے مطلب میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مریم کی نسبت حضرت ہارون کی طرف اس لیے کردی گئی کہ وہ ان کی نسل و اولاد میں سے ہیں اگرچہ زمانہ کتنا ہی بعید ہوگیا ہو جیسے عرب کی عادت ہے، کہ قبلہ تمیم کے آدمی کو اخاتمیم اور عرب کے آدمی کو اخاعرب بولتے ہیں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں ہارون سے مراد ہارون نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رفیق مراد نہیں بلکہ حضرت مریم کے اپنے بھائی کا نام ہارون تھا جو تبرکاً حضرت ہارون نبی کے نام پر رکھا گیا تھا اس طرح مریم کو اخت ہارون کہنا اپنے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے درست ہوگیا۔ (آیت) مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ ان الفاظ قرآن سے اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اولیاء اللہ اور صالحین کی اولاد میں ہو وہ اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو وہ عام لوگوں کے گناہ سے زیادہ بڑا گناہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے اس کے بڑوں کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے اس لیے اولاد صالحین کو اعمال صالحہ اور تقویٰ کی زیادہ فکر کرنا چاہیے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا۝ ٢٨ۖۚ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب . بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاتت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) اے ہارون کی بہن تمہارے باپ کوئی برے آدمی نہ تھے ہارون کی عبادت و پرہیزگاری میں تشبیہ دے کر ان کی بہن کہا کیوں کہ ہارون (علیہ السلام) بہت نیک انسان تھے یا یہ کہ ہارون (علیہ السلام) بڑے آدمی تھے، لہذا ان کے ساتھ تشیبہ دے دی،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا) حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ ( علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. “Sister of Aaron” may either mean that Mary had a brother of the name of Aaron, or it may mean that she belonged to the family of Prophet Aaron. The first meaning is supported by a tradition of the Prophet (peace be upon him) and the second is plausible because that is supported by the Arabic idiom. But we are inclined to the second meaning, for the wording of the said tradition does not necessarily mean that she actually had a brother named Aaron. The tradition as related in Muslim, Nasai, Tirmizi, etc. says that when the Christians of Najran criticized the Quranic version of stating Mary as the sister of Aaron before Mughirah bin Shubah, he was not able to satisfy them, because Prophet Aaron had passed away centuries earlier. When he presented the problem before the Prophet (peace be upon him), he replied: Why didn’t you say that the Israelites named their children after their Prophets and other pious men? That is: You could have answered their objection like this as well." See also (E.N. 32 of Aal-Imran). 19a. How can the people who reject the miraculous birth of Prophet Jesus (peace be upon him), explain why Mary’s whole community had come out to curse and condemn her when she had appeared before them with the child?

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :19 ( الف ) جو لوگ حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدائش کے منکر ہیں وہ آخر اس بات کی کیا معقول توجیہہ کرسکتے ہیں کہ حضرت مریم کے بچہ لئے ہوئے آنے پر قوم کیوں چڑھ کر آئی اور ان پر یہ طعن اور ملامت کی بوچھاڑ اس نے کیوں کی؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں، اور ان کے قبیلے کی طرف منسوب کر کے ان کو ہارون کی بہن کہہ دیا گیا ہو، جیسے حضرت ہود علیہ السلام کو ’’عاد کا بھائی‘‘ کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کے کسی بھائی کا نام ہارون ہو، اور چونکہ وہ نیک نام بزرگ تھے، اس لئے اُن کی قوم نے اُن کا حوالہ دیا ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:28) یاخت ہارون۔ اے ہارون کی بہن۔ اخت بوجہ منادی مضاف ہونے کے منصوب ہے۔ اور ہارون کا نصب بوجہ اس کے غیر منصرف ہونے کے ہے۔ یہاں ہارون سے مراد حضرت ہارون برادر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہیں ہے کیونکہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت پہلے کا ہے۔ علماء کے نزدیک یا تو یہ نام حضرت مریم کے بھائی کا تھا۔ یا اسے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف نسبت دینے کے لئے استعمال ہوا ہے کیونکہ اہل عرب جب قبیلہ کے کسی فرد کو قبیلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو اخ کا لفظ استعمال کرتے ہیں مثلاً یا اخا مضمر (اے قبیلہ مضر کے آدمی) یا اخت ہارون اے حضرت ہارون کے خاندان کی لڑکی۔ امرأ سوئ۔ بدکار آدمی۔ سوء برا ہونا۔ ساء یسوء کا مصدر۔ عمل سوء قبیح فعل۔ رجل سوئ۔ برا آدمی۔ بدفعل۔ بدکار۔ بغیا۔ بدکار۔ زانی۔ (ملاحظہ ہو 19:20) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 حضرت موسیٰ کے بھائی ہارون کی بہن تو ہو نہیں سکتی کیونکہ ان کا زمانہ حضرت مریم سے سینکڑوں برس پہلے کا ہے اس لئے مفسرین نے ان الفاظ کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت مریم کے کسی بھائی کا نام ہارون ہو جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ بنی اسرائیل اپنے نام اپنے انبیاء و صلحا کے نام پر رکھ لیتے تھے۔ مسلم ترمذی) یا ہوسکتا ہے کہ زہد و عبادت میں تشبیہ کے طور پر اسے اخت ہارون “ کہہ دیا ہو۔ یا ممکن ہے حضرت ہارون کے خاندان سے ہوں اس لئے انہیں عربی محاورہ کے مطابق اخت ہارون کہہ دیا۔ جیسا کہ جب کوئی آدمی مضر قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو تو اسے اخا مضر کہہ کر پکار لیتے ہیں۔ گویہ صحیح ہے کہ حضرت موسیٰ ٰو ہارون کی ایک بہن کا نام بھی مریم تھا مگر وہ قطعاً مراد نہیں ہوسکتی اور نہ وہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ہی بن سکتی ہے۔ (ابن کثیر شوکانی) 6 یعنی تیرے خادنان میں کوئی بھی بیکار نہیں گزرا۔ تیرے ماں باپ دونوں نہایت نیک اور پرہیز گار تھے پھر تو نے یہ برے لچھن کہاں سے سیکھ لئے ؟ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب یہ آتی ہے تو پوری قوم کے چہرے سیاہ نظر آتے ہیں ، یہ لوگ اس کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی شریف ، پاکدامن اور ہیکل کو بخشی ہوئی متبرک بیٹی ، عبادت گزار اور اچھی شہرت والی راہبہ ، ایک بچے کو اٹھائے چلی آرہی ہے۔ وہ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے تھے۔ قالوایمریم لقد جئت شیئاً فریا (٨٢) ” یاخت ھرون مکان ابوک امرا سوء وما کانت املک بغیاً (٨٢) (٩١ : ٨٢-٨٢) لوگ کہنے لگے ” اے مریم ، یہ تو تو نے بڑا باپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن ، نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیرا ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔ “ ان کی زبانوں کی کاٹ تیز ہے کہ تو نے تو بہت ہی مگر وہ کام کر ڈالا۔ طعنے دینے لگے اور تو تو ہارون کی بہن ہے ، جو نبی ہیں ، جو اس ہیکل کے متولی رہے ہیں اور اس کے بعد ان کی اولاد اس ہیکل کی وارث رہی ہے۔ تمہاری نسبت اس طرف ہے کہ تو اس ہیکل کی راہبہ ہے اور یہاں عبادت کے لئے وقف ہے۔ کیا اس نسبت ، اس مقام ، اس حیثیت اور اس مکروہ فعل کے درمیان کوئی نسبت ہے۔ تمہارا باپ بھی ایسا نہ تھا ، تمہاری ماں بدکار نہ تھی۔ یہ جو کام تو نے کیا ہے یہ تو بدکار لوگوں کی بہن بیٹیاں کرتی ہیں۔ عصمت فروش طبقات کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ مریم وہی کرتی ہیں جس کا اس معجزانہ بچے نے ان کو بوقت پیدائش مشورہ دے دیا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28 اے ہارون (علیہ السلام) کی بہن نہ تو تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ یعنی ہارون (علیہ السلام) جو تیرے رشتہ کے بھائی ہیں اور ان کا نام حضرت ہارون (علیہ السلام) نبی کے نام پر رکھا گیا تھا تو ایسے بھلے آدمی کی بہن ہے پھر تیرا باپ بھی برا آدمی نہ تھا اور تیری ماں بھی بدکار نہ تھی ایسے نیک اور بھلے آدمیوں کی اولاد ہو کر تیری یہ حرکت بہت ہی قابل افسوس ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بہن ہارون کی یعنی نبی ہارون کی بہن دادے کا نام بولتے ہیں قوم کو جیسے عاد اور ثمود یہ تھیں حضرت ہارون کی اولاد میں۔ 12 غرض ! یا تو ہارون (علیہ السلام) ان کے کسی بھائی کا نام تھا یا حضرت ہارون (علیہ السلام) کے خاندان سے ہوں ی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نبی ان کے مورث اعلیٰ ہوں گے۔ بہرحال ! حضرت مریم علی السلام نے اس تمام طعن وتشنیع کے بعد کوئی جواب نہیں دیا بلکہ بچہ کی طرف اشارہ کیا کہ ان سب باتوں کا جواب یہ دے گا کیونکہ میں تو روزے سے ہوں۔