Surat Marium

Surah: 19

Verse: 29

سورة مريم

فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾

So she pointed to him. They said, "How can we speak to one who is in the cradle a child?"

مریم نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا ۔ سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then she pointed to him. They said: "How can we talk to one who is a child in the cradle!" This is what took place while they were in doubt about her situation, condemning her circumstances, saying what they wanted to say. At that time they were slandering her and falsely accusing her of a horrendous act. On that day she was fasting and keeping silent. Therefore, she referred all speech to him (the child) and she directed them to his address and speech to them. They scoffed at her because they thought that she was mocking at them and playing with them. They said, كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا (How can we talk to one who is a child in the cradle). Maymun bin Mahran said, فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ (Then she pointed to him), "She indicated, `Speak to him.' They then said, `After she has come to us with this calamity, she now commands us to speak to one who is a child in the cradle!"' As-Suddi said, "When she pointed to him they became angry and said, `Her mocking us, to the extent of commanding us to speak to this child, is worse to us than her fornication."' ... قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا They said: "How can we talk to one who is a child in the cradle!" This means, "How can someone speak who is in his cradle, in the state of infancy and a child!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] سیدہ مریم نے فرشتہ کی ہدایت کے مطابق ان کی کڑوی کسیلی باتوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا بلکہ اس نومولود بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ خود جواب دے گا۔ اس بات پر لوگ اور زیادہ برہم ہوئے اور کہنے لگے ایک تو خود مجرم ہو دوسرے ہمارا مذاق اڑاتی ہو۔ یہ بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے بھلا ان باتوں کا کیا جواب دے سکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ قَالُوْا كَيْفَ ۔۔ : مریم [ نے خاموشی کے روزے کی وجہ سے اپنی پاکدامنی کی شہادت کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے پوچھ لو۔ وہ سب کہنے لگے کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی تک گود میں بچہ ہے ؟ یہاں ” کَانَ “ زمانۂ حال تک استمرار (ہمیشگی) کے معنی میں ہے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ آئندہ آیات میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو گود کے وقت کی گفتگو ہے۔ معجزات کے بعض منکروں نے اسے عیسیٰ (علیہ السلام) کی جوانی کی گفتگو قرار دیا ہے، مگر یہ آیات اور سورة آل عمران کی آیت (٤٦) عیسیٰ (علیہ السلام) کی گود میں گفتگو کی صریح دلیل ہیں۔ علاوہ ازیں صحیح حدیث میں تین بچوں کی گود میں گفتگو کا ذکر ہے جن میں سے ایک عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ( و اذکر فی الکتاب مریم۔۔ ) : ٣٤٣٦، عن أبي ہریرہ (رض) ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَشَارَتْ اِلَيْہ ِ۝ ٠ۭ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَہْدِ صَبِيًّا۝ ٢٩ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : صبا الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر : صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] . ( ص ب و ) الصبی نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) اور کہا گیا کہ ہارون (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) ایک ہی باپ کی اولاد تھے اس لیے ان کی طرف منسوب کیا اور نہ تمہاری ماں بری عورت تھی چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کردیا کہ جو کچھ کہنا ہو ان سے کہو، قوم کہنے لگی بھلا ایسے شخص سے کیوں کر بات کریں جو کہ ابھی گود میں ہے یہ پالنے میں بچہ ہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. People who misinterpret the Quran translate this verse as: How shall we talk with him, who is but a child of yesterday? They attribute these words to the elderly people of the Jews, who said years later, when Jesus was a grown up boy, that they could not have any useful dialogue with a mere kid. But the person who keeps the whole context in view, will realize that this interpretation is absurd and has been given merely to avoid the miracle. As a matter of fact, the dialogue took place when the people were condemning Mary who being unmarried, had brought forth a child, and not when the child had grown up into manhood. (Ayat 46 of Surah Aal-Imran) and (Ayat 110 of Surah Al-Maidah) also support the view that Prophet Jesus had uttered these words as a baby in the cradle and not when grown up. In the first verse, the angel while giving the good news of a son to Mary, says: He will speak to the people alike when in the cradle and when grown up. In the other verse, Allah Himself says to Prophet Jesus: You talked to the people even in the cradle as you talked when you were grown up. 20a. The words used are: “dutiful to my mother” instead of “dutiful to my parents”. This is another proof of the fact that Jesus (peace be upon him) had no father, and for the same reason he has been called Jesus son of Mary everywhere in the Quran.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :20 قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسی کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا تھا ۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کرے گا یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے ۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کرنے کے لیئے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت ۔ علاوہ بریں سورہ آل عمران کی آیت 46 ، اور سورہ مائدہ کی آیت ، 110 دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسی نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نو زائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا ۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارہ میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی ۔ دوسری آیت میں اللہ تعالی خود حضرت عیسی سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے گہوارہ میں بھی بات کرتا تھا اور جوانی میں بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:29) المھد۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جاوے۔ فی المھد گہوارہ میں ہونا کا مطلب ہے۔ شیر خوارگی کا زمانہ ۔ جب بچہ ماں کی گود میں ہوتا ہے۔ المھد والمھاد۔ ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے۔ الذی جعل لکم الارض مھدا (20:53) وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا۔ اور الم نجعل الارض مھادا (78:6) کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا۔ من کان فی المھد صبیا۔ جو ابھی ماں کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ان الفاظ سے صاف پتا چلتا ہے کہ آگے حضرت عیسیٰ کی جو گفتگلو بیان کی جا رہی ہے وہ ان کے بچنے کی گفتگو ہے جو انہوں نے گود یا گہوارے میں کی۔ بف اس آل عمران 26) اور صحیح بخاری میں ہے کہ تین بچوں نے گہوارے میں گفتگو جوانی کے وقت کی ہے اور انہوں نے ’ فی المہر حبیباً کا ترجمہ کل کا بچہ کیا ہے مگر یتاویل محہمل سی ہے جو واقعات اور محاورہ کے خلاف ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاشارت الیہ (٩١ : ٩٢) ” مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ “ اس عجیب صورتحال کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ تعجب اور غیظ و غضب اور شرمندگی میں یہ لوگ مریم کے در پے ہوئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ان کی بیٹی ان کے سامنے برملا ایک بچہ اٹھائے چلی آرہی ہے۔ وہ ان لوگوں کے غیض و غضب کو اہمیت نہیں دیتی ، خاموش ہوجاتی ہے اور بچے کی طرف اشارہ کردیتی ہے کہ پوچھو اس سے سارے واقعہ کا راز ، اور وہ جل بھن کر کہتے ہیں : قالوا کیف نکلم من کان فی المھد صبیاً (٩١ : ٩٢) ” ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے۔ “ اب ایک دوسرا معجزہ رونما ہوتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کو چونکہ جبریل امین نے بوقت بشارت بتا دیا تھا کہ ان کے جو بچہ پیدا ہوگا وہ عہد شیر خوارگی میں باتیں کرے گا۔ جیسا کہ سورة آل عمران رکوع 5 میں ہے ” وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَھْدِ وَ کَھْلًا “ اس لیے انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کر کے انہیں بتایا کہ وہ اس معاملے کی حقیقت اس سے پوچھیں۔ ” قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ الخ “ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم اس شیر خوار بچے سے کس طرح باتیں کریں کبھی اس عمر کے بچوں نے بھی باتیں کی ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29 اس پر حضرت مریم نے اس مولود مسعود کی جانب اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو یہ جواب دیگا قوم کے لوگ کہنے لگے بھلا ہم اس بچے سے کس طرح کلام کرسکتے ہیں جو ابھی گود کا بچہ ہے اور ماں کی گود اس کا گہوارہ ہے۔ یعنی ایسے بچہ سے بات کرنے کو کہہ رہی ہے جو شیر خوار بچہ ہے اور ماں کی گود میں ہے۔ 12