Surat Marium
Surah: 19
Verse: 3
سورة مريم
اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾
When he called to his Lord a private supplication.
جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی ۔
اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾
When he called to his Lord a private supplication.
جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی ۔
When he called his Lord (with) a call in secret. He only made his supplication secretly because it is more beloved to Allah. This is similar to what Qatadah said concerning this Ayah, إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاء خَفِيًّا (When he called out his Lord (with) a call in secret), "Verily, Allah knows the pious heart and he hears the hidden voice."
3۔ 1 خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع وانابت اور خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انھیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہوچکے ہیں۔
[٤] اس کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ مثلا ً رات کی نماز تہجد میں جب انسان کو کوئی دیکھ نہیں رہا ہوتا اور وہ بڑی دلجمعی اور سکون کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ بڑھاپے اور مایوسی کی عمر میں ایسی بات کی درخواست کی کہ اگر دوسرے لوگ سن لیں تو مذاق اڑائیں۔ اس لئے آہستہ آواز سے دعا کی۔ تیسرے یہ کہ جب سیدہ مریم کے پاس بےموسم میوے دیکھے تو دل ہی دل میں اللہ کو پکارنے لگے۔
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا : اس آیت میں اس جگہ اور وقت کا ذکر نہیں جب ان کے دل میں اس دعا کا داعیہ پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٣٧، ٣٨) ۔ نِدَاۗءً خَفِيًّا : چھپی آواز سے آہستہ آواز بھی مراد ہوسکتی ہے اور لوگوں سے الگ جگہ میں دعا بھی۔ اس کی وجہ بعض اہل علم نے یہ لکھی ہے کہ بڑھاپے میں بیٹا مانگنا لوگوں کی ہنسی کا باعث ہوتا، پھر اگر نہ ملتا تو لوگ مزید ہنستے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ خفیہ دعا ریا کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے افضل ہوتی ہے، چناچہ فرمایا : (اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ) [ الأعراف : ٥٥ ] ” اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو۔ “ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز کو قرار دیا۔ [ مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم : ١١٦٣، عن أبي ہریرہ (رض) ] اور اس شخص کو عرش کا سایہ پانے والے سات خوش نصیبوں میں شمار فرمایا جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ پڑیں، حدیث کے الفاظ ہیں : ( ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہٗ ) اسی طرح اس شخص کو بھی جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ کیا کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں کہ دایاں کیا خرچ کر رہا ہے، حدیث کے الفاظ ہیں : ( تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ ) [ بخاري، الزکوٰۃ، باب الصدقۃ بالیمین : ١٤٢٣ ]
نِدَاءً خَفِيًّا (a low voice - 19:3) tells us that it is better to beseech Allah in supplication in undertone. Sayyidna Sa&d Ibn Abi Waqqas has narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once said. ان خیر الذکر الخفی ، وخیر الرزق ما یکفی |"Surely the best way to make supplication to Allah is in undertone and the best sustenance is that which is sufficient for one&s needs (i.e. neither more nor less than required) |" (Qurtubi)
نِدَاۗءً خَفِيًّا : اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا آہستہ اور خفیہ کرنا افضل ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان خیر الذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی، یعنی بہتر ذکر خفی (آہستہ) ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہوجائے (ضرورت سے نہ گٹھے نہ بڑھے (قرطبی)
اِذْ نَادٰى رَبَّہٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا ٣ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔
آداب دعا قول باری ہے (اذ نادی ربہ نداء خفیاً ۔ جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا) اللہ تعالیٰ نے چپکے چپکے دعا کرنے پر حضرت زکریا (علیہ السلام) کی تعریف فرمائی۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ چپکے چپکے دعا مانگنا بلند آواز سے دعا مانگنے سے افضل ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (ادعوا ربکم تضرعاً وخفیۃ اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو) حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ صخیر الذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی بہترین ذکر، ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو ضروریات کے لئے کافی ہو) حسن بصری سے مروی ہے کہ ان کی رائے میں امام قنوت کے اندر دعا مانگے اور مقتدی آمین کہیں۔ انہیں آواز بلند کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں تھے۔ آپ نے کچھ لوگوں کو با آواز بلند دعا مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے ان سے فرمایا (انکم لا تدعون اصما ولا غائباً ان الذی تدعونہ اقرب الیکم من حبل الورید۔ تم کسی بہری اور غیر موجو د ذات کو نہیں پکار رہے ہو جس ذات کو تم پکار رہے ہو وہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے)
آیت ٣ (اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا) یعنی حضرت زکریا نے دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا کی۔
(19:3) نادی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ نادی ینادی مناداۃ (مفاعلۃ) وندائ۔ اس نے پکارا۔ اس نے دعا مانگی۔ ندائپکار۔ دعا۔ آواز ندیمادہ۔ خفیا۔ پوشیدہ۔ چھپی ہوئی۔ خفائ (مصدر) سے جس کے معنی خفیہ اور پوشیدہ ہونے اور چھپنے کے ہیں۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ چپکے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مثلاً ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ۔ (7:55) اپنے پروردگار سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔
ف 9 یعنی رات کے وقت خلوت میں چپکے پکارا کیونکہ اخفاء میں اخلاص بھی زیادہ ہوتا ہے اور ریا کاری کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ (کبیر)
فہم القرآن ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے جو خاص الخاص رحمت فرمائی اس کا ذکر۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی عمر مبارک 120 سال کے قریب ہوچکی تھی اور ان کی زوجۂ مکرمہ 98 سال کے قریب اور جسمانی طور پر اولاد جنم دینے کے قابل نہ تھیں یعنی وہ کلیتاً بانجھ تھیں۔ ان حالات کے باوجود حضرت زکریا (علیہ السلام) ” اللہ “ کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ یہی انبیاء (علیہ السلام) اور نیک لوگوں کا شیوہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا کرتے۔ اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعائیں کیے جا رہے تھے۔ سورة آل عمران آیت ٣٧ تا ٣٩ میں ذکر ہے کہ ایک دن ان کے سامنے عجب واقعہ پیش آیا۔ جب وہ مسجد اقصیٰ کے ایک حجرہ میں اپنی اہلیہ کی بھانجی حضرت مریم جو زکریا (علیہ السلام) کی زیر کفالت تھیں۔ ان کے پاس تشریف لائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معصوم بچی کے پاس ایسے پھل موجود ہیں جن کا موسم نہیں تھا۔ فرمانے لگے۔ مریم ! یہ پھل کہاں سے آئے ؟ حضرت مریم [ نے عرض کیا خالو ! یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے یہ سنتے ہی زکریا (علیہ السلام) کے دل پر چوٹ لگی جس سے دل کے زخم تازہ ہوئے جذبات کا طلاطم بہہ نکلا اور اسی وقت دبی زبان میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے لگے الٰہی میں بوڑھا ہوں میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں میرے بال سفیدی سے چمک رہے ہیں، میری بیوی بانجھ ہے اس کے باوجود میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوا۔ الٰہی مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ میرے رب ! بیٹا نیک سیرت اور تیرا پسندیدہ ہونا چاہیے۔ میرے رب ! مجھے اپنی جناب سے صالح اولاد عنایت فرما اور تو ہی دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت فرشتے کے ذریعے خوشخبری دی کہ تجھے بیٹا عنایت کیا جاتا ہے۔ جس کا نام یحییٰ ہوگا جو سردار، پاک باز اور نبی ہوگا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے تعجب سے پوچھا یہ بات کس طرح پوری ہوگی ؟ فرشتے نے جواب دیا میں صرف اسی قدر کہہ سکتا ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں تمہارے ہاں ضرور بیٹا ہوگا۔ کیونکہ اللہ کا فیصلہ ہے اس کا فرمان ہے کہ میرے لیے یہ بہت آسان ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی پروردگار کوئی نشانی عطا فرما جس سے بشارت کے ظہور کا علم ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تین دن تک بات نہ کرسکو صرف اشاروں سے ہی اپنا مطلب ادا کر پاؤ گے۔ اس لیے ان ایام میں اللہ کی تسبیح و تقدیس میں زیادہ مشغول رہنا۔ زکریا (علیہ السلام) کا انداز اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کا تذکرہ قرآن مجید میں محفوظ کردیا گیا۔ دعا کرنے کے آداب : (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُےْفَۃً ) [ الاعراف : ٥٥] ” اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔ “ (وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًااِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ) [ الاعراف : ٥٦] ” اللہ کو خوف اور امید سے پکارو یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہوتی ہے۔ “ (قُلْ یٰعِبَا دِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) [ الزمر : ٥٣] ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بندوں سے فرما دیجیے جو گناہ کر بیٹھے ہیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا یقیناً اللہ تعالیٰ ہی سب گناہوں کو بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ “ دعا کے آداب میں شکرو حمد، درود اور توبہ استغفار کے ساتھ فقیر کی شان اور اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا ہے کہ رب کریم سے مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری درماندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسکے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے لکھا ہے کہ دعا مانگنے والا اس بےبسی اور بےچارگی کا اظہار کرے جس طرح مردہ غساّل کے ہاتھ میں ہو۔ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرَیٰ کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَا لْمَیِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ ) [ حجۃ اللّٰہ ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت و عظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح بےبس سمجھے جس طرح نہلانے والے کے ہاتھوں میت ہوتی ہے۔ “ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ رَبَّکُمْ حَیِیٌّ کَرِےْمٌ ےَسْتَحْیِیْ مِنْ عَبْدِہٖ إِذَارَفَعَ ےَدَےْہِ اَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب الدعاء ] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا ہی حیا والا ہے۔ بندہ جب اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ “ مسائل ١۔ حضرت زکریا نے بڑی آہستگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بوڑھے اور بانجھ عورت کو اولاد عنایت کرسکتا ہے۔ ٣۔ دعا یقین اور اعتماد کے ساتھ مسلسل کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
وہ اپنے رب کے ساتھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر مناجات کرتے ہیں۔ نہ کوئی دیکھتا ہے ، نہ کوئی سنتا ہے گوشہ تنہائی میں نہایت خلوص کے ساتھ رب کو پکارتے ہیں اور اپنا سینہ کھول کر اپنے رب کے سامنے رکھتے ہیں (جو خوب جانتا ہے) وہ اپنا بوجھ ، پریشانی ، اللہ کے سامنے رکھتے ہیں۔ نہایت قرب و اتصال کی حالت میں وہ رب کو پکارتے ہیں۔ (رب) ۔ وہ یہاں حرف ندایا کو بھی بیچ میں نہیں لاتے۔ اللہ تو بغیر دعا کے بھی سنتا ہے اور دیکھتا ہے ، اسے کسی پکارنے والے کی پکار کی ضرورت نہیں ، لیکن یہ ایک غمزدہ شخص کی ضرورت ہے کہ وہ پکارے ، وہ شکوہ کرے ، اور اللہ رحیم و کریم ہے۔ اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے او وہ جانتا ہے کہ پکارنے ، رونے اور شکوہ کرنے سے بھی اس مخلوق کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اللہ نے حکم دیا ہے کہ دعا کرو ، گڑگڑائو ، جس چیز سے تمہارے دل پر بوجھ پڑتا ہے اسے باہر نکالو ، وقال ربکم ادعونی استجب لکم ” اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو ، میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں۔ “ تاکہ تمہارے اعصاب پر سے قدرے بوجھ اتر جائے۔ تمہارے دلوں کو یہ اطمینان تو ہوجائے کہ ہم نے ایک قوی ترہستی کے پاس رپورٹ کردی ہے۔ وہ بڑی قوت والا قادر مطلق ہے تاکہ تمہیں یہ شعور مل جائے کہ تمہارا رباطہ اس ذات سے ہے جس کے ہاں کوئی سوال مایوس نہیں ہوتا اور اس پر جو بھروسہ کرے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔ حضرت زکریا رب کے سامنے یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی ہڈیاں ڈھیلی پڑگئی ہیں اور جب ہڈیاں ڈھیلی پڑج ائیں تو جسم سارا کا سارا ڈھیلا پڑجاتا ہے۔ کیونکہ ہڈیاں ہی تو جسم کا مضبوط ترین حصہ ہیں۔ جسم کا بنیادی ڈھانچہ ہی ہڈیوں سے کھڑا ہوتا ہے۔ پھر وہ بالوں کی سفیدی کی شکایت کرتے ہیں۔ انداز تعبیر کو دیکھیے کہ گویا سفیدی ایک آگ ہے جو سر کے بالوں کو لگی ہوئی ہے۔ سر اس میں تیزی سے جل رہا ہے اور جلد ہی اس میں کوئی سیاہ بال نہ رہے گا۔ ہڈیوں کا ڈھیلا پڑنا اور سر کے بالوں کا سفید ہونا دونوں کنایہ ہے ، بڑھاپے سے اور اس ضعف و کمزوری سے جس سے وہ دوچار ہیں اور اللہ کی رحمت سے بھی وہ ناامید نہیں ہیں۔ عرض پیش کرتے ہیں۔ اور وہ ساتھ ساتھ قبولیت دعا سے پہلے اپنا تبصرہ بھی کرتے ہیں۔
3 جبکہ اس زکریا نے اپنے پروردگار کو پست اور خفیہ آواز سے پکارا اور ندا کی۔ شاید اس لئے دعا کو پوشیدہ رکھا ہو کہ بڑھاپے میں اولاد مانگی تھی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی دل میں دعا کی یا پکارا ہو اکیلے مکان میں چھپی پکار اس واسطے کو بوڑھی عمر میں بیٹا مانگتے تھے مانگے تو لوگ ہنسیں۔ 12